• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

(حصہ:23)(( سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللّٰہ عنہ کے حالات اور فضائل و مناقب )) (حضرت ابو بکر رضی اللّٰہ عنہ کے اقوال زریں )

شمولیت
نومبر 14، 2018
پیغامات
305
ری ایکشن اسکور
48
پوائنٹ
79
(( سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللّٰہ عنہ کے حالات اور فضائل و مناقب ))

(حافظ محمد فیاض الیاس الاثری،ریسرچ فیلو:دارالمعارف لاہور:0306:4436662)

(حصہ:11) حضرت ابوبکر صدیق رضی اللّٰہ عنہ کے حکیمانہ اقوال (حکمت و دانائی کیسے حاصل ہوتی ہے ؟ )

♻ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللّٰہ عنہ بڑے بیدار مغز اور گہری بصیرت کے مالک تھے۔ انھیں نبوت سے پہلے بھی اور بعد میں بھی آپ کی صحبت سے فیض یاب ہونے کا سب سے زیادہ موقع نصیب ہوا۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللّٰہ عنہ کی بصیرت و فقاہت پر بہت سارے واقعات دلالت کرتے ہیں۔ مثلاً: جب رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے اپنے ایک خطبے میں فرمایا کہ اللہ نے ایک بندے کو اپنے پاس آنے یا دنیا میں رہنے کا اختیار دیا ہے تو اس بات کی حقیقت کو فقط ابو بکر صدیق رضی اللّٰہ عنہ سمجھ سکے۔

♻ اسی طرح ان کی قوت تدبیر اور سیاسی بالغ نظری پر سقیفہ بنی ساعدہ اور لشکر اسامہ کی روانگی جیسے واقعات دلالت کرتے ہیں۔ حضرت ابوبکر رضی اللّٰہ عنہ سے منقول زیادہ تر حکیمانہ اقوال اللہ رب العزت کی یاد، فکرِ آخرت اور دنیا کی بے ثباتی کے بارے میں ہیں۔

♻ ان کے مشہور خطبات وہ ہیں جو انھوں نے لشکر اسامہ کی روانگی اور لشکر یزید بن ابی سفیان رضی اللّٰہ عنہما کو الوداع کرتے وقت بیان فرمائے۔ ان کی وہ وصیت بھی عبرتوں سے معمور اور حکمتوں سے بھرپور ہے جو انھوں نے اپنی رحلت کے وقت سیدنا عمر رضی اللّٰہ عنہ کو فرمائی۔ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللّٰہ حکمت ودانش کے بلند ترین مقام پر فائز تھے ،

♻ ١۔ حکمت کیا ہے اور یہ کیسے حاصل ہوتی ہے؟ حکمت کے بارے میں قرآن پاک میں مذکور ہے کہ ہر نبی کو علم اور حکمت سے نوازا گیا(الانبیاء:79/21)نیز حکمت کو خیرکثیر قرار دیا گیا ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ( یُؤتِی الْحِکْمَۃَ مَنْ یَّشَآءُ وَمَنْ یُّؤْتَ الْحِکْمَۃَ فَقَدْ اُوْتِیَ خَیْْرًا کَثِیْرًا وَّمَا یَذَّکَّرُ اِلاَّ ۤاُولُوا الْاَلْبَابِo)(البقرہ: 269/2)''وہ جس کو چاہتا ہے حکمت عطا کرتا ہے اور جس کو حکمت ملی اُسے درحقیقت بڑی دولت مل گئی، اِن باتوں سے صرف وہی لوگ سبق لیتے ہیں جو دانش مند ہیں۔''

♻ نبی اکرم صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے فرائضِ منصبی میں سے ایک فریضہ یہ بھی تھا کہ آپ مومنین کو کتاب و حکمت کی تعلیم دیتے تھے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ( وَیُعَلِّمُکُمُ الْکِتَابَ وَالْحِکْمَۃَ)(البقرہ:151/2) ''وہ تو تمھیں کتاب و حکمت کی تعلیم دیتے ہیں۔''

♻ اسی حکمت کے ذریعے سے دعوت و تبلیغ کا حکم بھی دیا گیا ہے۔ امام رازی رحمہ اللہ نے حکمت کی تشریح میں پانچ اقوال بیان کیے ہیں۔ ان میں سے دو قول یہ بھی ہیں کہ حکمت حق اور باطل کے درمیان فیصلے کا نام ہے، یا اس سے مراد شریعت میں موجود مصلحتیں اور منفعتیں ہیں۔( الرازی، التفسیر،البقرہ:١٥١)

♻ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:( وَلَمَّا بَلَغَ اَشُدَّہ،ۤ اٰتَیْْنَاہُ حُکْماً وَّعِلْماً وَکَذٰلِکَ نَجْزِی الْمُحْسِنِیْنَo)(یوسف:22/13)''جب وہ (یوسف) اپنی پوری جوانی کو پہنچے تو ہم نے انھیں قوتِ فیصلہ اور علم عطا کیا، اسی طرح ہم نیک لوگوں کو جزا دیتے ہیں۔''

♻ علامہ ابن عاشور اسی آیت مبارکہ کی تشریح میں لکھتے ہیں کہ حکم و حکمت مترادف ہیں۔ اس سے مراد اشیا کے حقائق کا علم ہے۔ صحیح بات پر عمل کرنا اور غلط اقدام سے اجتناب کرنا یہ حکمت کی عملی شکل ہوتی ہے۔(ابن عاشور ، التحریر، یوسف:٢٢)

♻ دوسرے مقام پر لکھتے ہیں: حکمت کا مطلب یہ ہے کہ علم کو مضبوط کیا جائے اور افعال کو علم کے مطابق جاری رکھا جائے۔ حکمت غلطی اور گمراہی کا شکار ہونے سے بچاتی ہے۔ حکمت اور دانائی کے حامل شخص کی عقل اور قوتیں صحیح سالم اور معتدل ہوتی ہیں اور وہ حقائق کو سمجھنے پر قادر ہوتا ہے۔ اس پر خواہش نفس، عصبیت اور تکبر کا غلبہ نہیں ہوتا۔ وہ اپنی طاقت کے بقدر اشیا کی حقیقت پہچانتا ہے اور اس پر معاملات خلط ملط نہیں ہوتے۔(ابن عاشور، التحریر، البقرہ:٢٦٩)

♻ خلاصہ کلام یہ ہے کہ حکمت سے مراد صحیح قوت فیصلہ، معاملات کی درست تدبیر، حقیقی سوجھ بوجھ اور دانائی ہے۔ حکمت دو چیزوں سے حاصل ہوتی ہے:

♻ ١۔وحی کا اُصولی فہم، قرآن و حدیث کی گہری بصیرت اور عقیدہ و فقہ کا علم حکمت و دانائی کا سرچشمہ ہے۔ شرعی علوم کی مہارت کے بغیر حصول حکمت کا کوئی امکان نہیں۔

♻ ٢۔دنیا کے معاملات و مسائل کا تجربہ، عملی اُمور کی صحیح سوجھ بوجھ، انسانی تعلقات و مسائل پر گہری نظر، انسانی زندگی کے نشیب و فراز کے تجربات اور عملی زندگی کے مراحل کی مہارت۔

♻ قرآن مجید کی رو سے پتہ چلتا ہے کہ ایک عالم کے لیے دونوں طرح کی مہارتوں کا ہونا ضروری ہے، جیسے ہر پیغمبر کو دونوں طرح کی مہارتیں عطا کی گئیں۔ اگر کوئی عالم قرآن و حدیث کا اچھا فہم رکھتا ہے لیکن دنیا کے امور کی صحیح بصیرت نہیں رکھتا تو وہ صحیح قوت فیصلہ کا مالک نہیں بن سکتا، اسی طرح جو دنیا کے معاملات کا تجربہ رکھتا ہے لیکن قرآن و حدیث کی روشنی سے منور نہیں تو وہ بھی صحیح نتائج تک نہیں پہنچ سکتا۔
 
Top