محمد عامر یونس
خاص رکن
- شمولیت
- اگست 11، 2013
- پیغامات
- 17,117
- ری ایکشن اسکور
- 6,786
- پوائنٹ
- 1,069
حضرت خالد بن ولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بہادری!!!
حضرت خالد بن ولید فرماتے ہیں کہ غزوہ موتہ کے دن میرے ہاتھ میں نو تلواریں ٹوٹی تھیں اور میرے ہاتھ میں صرف ایک تلوار رہ گئی تھی جو یمن کی بنی ہوئی اور چوڑی تھی۔
حوالہ
(اخرجہ البخاری والخراجہ ابن ابی شیبۃ کما فی الامتیعاب (ج 1 ص 408) والحاکم (ج 3 ص 42) وابن سعد (ج 4 ص 2)۔
حضرت لوس بن حارثہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہر مز سے زیادہ مسلمان عربوں کا کوئی دشمن نہیں تھا۔ جب ہم مسیلمہ اور اس کے ساتھیون کو ختم کرنے سے فارغ ہوئے تو ہم بصرہ کی طرف روانہ ہوئے تو مقام کاظمہ پر ہمیں ہرمز ملا جو بہت بڑا لشکر لیکر آیا ہوا تھا۔ حضرت خالد رضی اللہ عنہ مقابلہ کیلئے میدان میں نکلے اور اسے اپنے مقابلے کی دعوت دی چنانچہ وہ مقابلہ کے لئیے میدان میں آگیا۔ حضرت خالد نے اسے قتل کردیا۔
یہ خوشخبری حضرت خالد نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو لکھی۔ جواب میں حضرت ابوبکر نے لکھا کہ ہرمز کا تمام سامان ہتھیار کپڑے گھوڑا وغیرہ حضرت خالد کو دے دیا جائے۔
چنانچہ ہرمز کے ایک تاج کی قیمت ایک لاکھ درہم تھی۔ کیونکہ اہل فارس جسے اپنا سردار بناتے اسے لاکھ درہم کا تاج پہناتے تھے۔
حوالہ
(اخراجہ الحاکم (ج 3 ص 299)۔
حضرت ابو الزناد رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ جب حضرت خالد رضی اللہ عنہ کا انتقال کا وقت قریب آیا تو وہ رونے لگے اور فرمایا کہ اتنی اتنی (یعنی بہت زیادہ )جنگوں میں شریک ہوا ہوں اور میرے جسم میں بالشت بھر جگہ ایسی نہیں ہوگی جس میں تلوار یا نیزے یا تیر کا زخم نہ ہو اور دیکھو اب میں اپنے بستر پر ایسے مر رہا ہوں جیسے کہ اونٹ مرا کرتا ہے۔ یعنی مجھے شہادت کی موت نصیب نہ ہوئی اللہ کرے۔ بزدلوں کی آنکھوں میں کبھی نیند نہ آئے۔
حوالہ
(اخرجہ الوافدی کذافی الدایۃ (ج 7 ص 114)۔
حضرت خالد بن ولید فرماتے ہیں کہ غزوہ موتہ کے دن میرے ہاتھ میں نو تلواریں ٹوٹی تھیں اور میرے ہاتھ میں صرف ایک تلوار رہ گئی تھی جو یمن کی بنی ہوئی اور چوڑی تھی۔
حوالہ
(اخرجہ البخاری والخراجہ ابن ابی شیبۃ کما فی الامتیعاب (ج 1 ص 408) والحاکم (ج 3 ص 42) وابن سعد (ج 4 ص 2)۔
حضرت لوس بن حارثہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہر مز سے زیادہ مسلمان عربوں کا کوئی دشمن نہیں تھا۔ جب ہم مسیلمہ اور اس کے ساتھیون کو ختم کرنے سے فارغ ہوئے تو ہم بصرہ کی طرف روانہ ہوئے تو مقام کاظمہ پر ہمیں ہرمز ملا جو بہت بڑا لشکر لیکر آیا ہوا تھا۔ حضرت خالد رضی اللہ عنہ مقابلہ کیلئے میدان میں نکلے اور اسے اپنے مقابلے کی دعوت دی چنانچہ وہ مقابلہ کے لئیے میدان میں آگیا۔ حضرت خالد نے اسے قتل کردیا۔
یہ خوشخبری حضرت خالد نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو لکھی۔ جواب میں حضرت ابوبکر نے لکھا کہ ہرمز کا تمام سامان ہتھیار کپڑے گھوڑا وغیرہ حضرت خالد کو دے دیا جائے۔
چنانچہ ہرمز کے ایک تاج کی قیمت ایک لاکھ درہم تھی۔ کیونکہ اہل فارس جسے اپنا سردار بناتے اسے لاکھ درہم کا تاج پہناتے تھے۔
حوالہ
(اخراجہ الحاکم (ج 3 ص 299)۔
حضرت ابو الزناد رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ جب حضرت خالد رضی اللہ عنہ کا انتقال کا وقت قریب آیا تو وہ رونے لگے اور فرمایا کہ اتنی اتنی (یعنی بہت زیادہ )جنگوں میں شریک ہوا ہوں اور میرے جسم میں بالشت بھر جگہ ایسی نہیں ہوگی جس میں تلوار یا نیزے یا تیر کا زخم نہ ہو اور دیکھو اب میں اپنے بستر پر ایسے مر رہا ہوں جیسے کہ اونٹ مرا کرتا ہے۔ یعنی مجھے شہادت کی موت نصیب نہ ہوئی اللہ کرے۔ بزدلوں کی آنکھوں میں کبھی نیند نہ آئے۔
حوالہ
(اخرجہ الوافدی کذافی الدایۃ (ج 7 ص 114)۔