• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ

شمولیت
مئی 23، 2013
پیغامات
213
ری ایکشن اسکور
381
پوائنٹ
90
رسول اللہ ﷺ کے تمام اصحاب پیکرِ صدق ووفا ،ہدایت کا سرچشمہ اور ظلمتوں کے اندھیرے میں روشنی کا وہ عظیم مینارہیں ،جن سے جہان ہدایت پاتاہے ،وہ قیامت تک آنے والی نسلِ انسانی کے لئے پیکرِ رُشدوہدایت ہیں ۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: میرے صحابہ میرے ستارے ہیں ،جس کی پیروی کروگے ،ہدایت پاجاؤگے ۔حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کو اللہ تعالیٰ نے عظیم صفات سے مُتصف فرماکر صحابہ میں ممتاز فرمایا ،جو اُن ہی کا حصہ ہے ۔ حیاکا ایساپیکر تھے کہ فرشتے بھی آپ سے حیا کرتے تھے ۔آپ عشرۂ مُبشرہ میں سے ہیں جن کو رسول اللہ ﷺ نے دنیا میں جنت کی بشارت دی ۔حضرت حسان بن عطیہؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' اے عثمانؓ !اللہ تعالیٰ نے تمہارے اگلے اور پچھلے کام بخش دیئے اور وہ کام جو تم نے پوشیدہ کیے اورجو ظاہر کیے اوروہ جو قیامت تک ہونے والے ہیں ''۔
ایامِ جاہلیت میں بھی آپ کا خاندان غیر معمولی وجاہت وحشمت کا حامل تھا۔اُمیہ بن عبدشمس کی طرف نسبت کے سبب آپ کا خاندان بنو اُمیہ کہلاتا ہے ، بنوہاشم کے بعد شرف وسیادت میں کوئی خاندان یا قبیلہ بنو اُمیہ کا ہم پلہ نہ تھا ۔حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کا سلسلۂ نسب پانچویں پُشت میں عبدِ مناف پر رسول اللہ ﷺ سے جاملتاہے ۔حضرت عثمان کی نانی رسول اللہ ﷺ کی سگی پھوپھی تھیں ،اس رشتے سے آپ رسول اللہ اﷺْ کے قریبی رشتے دار تھے ۔
آپ کی ولادت عام الفیل سے چھٹے سال ہوئی ۔رسول اللہ ﷺ کے اعلانِ نبوت کے بعد آپ چوتھے شخص ہیں ،جس نے اسلام قبول کیا ۔ رسول اللہ ﷺ نے اپنی صاحبزادی حضرت سیدہ رقیہ رضی اللہ عنہا کا نکاح آپ کے ساتھ کردیا ،پھر حضرت عثمان غنیؓ اور حضرت رقیہؓ نے مکہ سے حبشہ ہجرت فرمائی ۔
حضرت رقیہ رضی اللہ عنہ کے انتقال کے بعد رسول اللہ ﷺ نے اپنی دوسری صاحبزادی حضرت سیدہ ام کلثوم رضی اللہ عنہا کو حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے نکاح میں دے دیا ۔حضرت سیدہ ام کلثوم رضی اللہ عنہاکے وصال کے وقت رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :'' اگرمیری چالیس بیٹیاں بھی ہوتیں ، تومیں ان سب کو یکے بعد دیگرے عثمان کی زوجیت میں دے دیتا حتّیٰ کہ اُن میں سے کوئی باقی نہ رہتی ''۔''حضرت مرہ بن کعب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک دن رسول اللہ ﷺ نے فتنوں کا بیان کیا،اُس وقت ایک شخص کپڑا اوڑھے ہوئے گزرا ، آپ ﷺ نے فرمایا : ''یہ شخص اُس دن(یعنی فتنوں کے دورمیں) ہدایت پر ہوگا ''،میں نے جاکر دیکھا تو وہ شخص حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ تھے، (ترمذی ) '' ۔
ہر انسان فطری طور پر دولت سے محبت کرتا ہے ۔ مستقبل کے لئے کچھ پس انداز کر رکھنا شرعاً درست ہے ،صدقات وفطرات کے علاوہ اپنے مال سے انفاق فی سبیل اللہ کا بڑا اجر وثواب ہے اور جو دولت اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کی جائے ،اللہ تعالیٰ اُس کا اجر کئی سو گُنا بڑھا کر عطافرماتا ہے ۔
سورۂ بقرہ کی آیت261تا 266صدقۂ خیرات کی ترغیب دلائی گئی ہے ،ایک جگہ ارشاد فرمایا:ترجمہ؛''جو لوگ اللہ کی راہ میں اپنے مالوں کو خرچ کرتے ہیں ان کی مثال اس دانے کی طرح ہے ،جس نے سات ایسے خوشے اُگائے کہ ہر خوشے میں سودانے ہیں اوراللہ جس کے لیے چاہے ان کو دگنا کردیتا ہے اور اللہ بڑی وسعت والا بہت علم والا ہے ،(البقرہ:261)''۔صحابۂ کرام کی زندگیاں صدق واخلاص ،وفاشعاری وجاںنثاری کا عملی اظہار ہیں ۔حضرت سیدنا صدیق اکبررضی اللہ عنہ اپنا تمام مال راہِ خدا میں لٹادیتے ہیں اور اللہ اور اُس کے رسول ﷺ کی رضا کو اپنی متاعِ حیات کا بیش بہا خزانہ بنالیتے ہیں ،یہی جذبہ حضرت عمر فاروق وحضرت علی رضی اللہ عنہما کی زندگی میں نظر آتاہے لیکن حضرت سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ ہرمشکل موقع پر اسلام اور عظمتِ اسلام کے لئے اپنا سب کچھ قربان کرتے نظرآتے ہیں ۔
صحابۂ کرام ؓجو صدق ووفاکا پیکر تھے اور راہِ خدا میں اپنا مال بے دریغ لٹاتے رہے ،ان آیاتِ قرآنی کی عملی تفسیر ہیں ۔مدینہ منورہ میں جب قحط پڑا تو حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے اپنا تمام مال صدقہ کردیا :ترجمہ:'' حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے دورِ خلافت میں (مدینہ میں) قحط پڑا،حضر ت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: تم صبح نہیں کروگے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ تم پر(رزق ) کشادہ فرمادے گا ۔
اگلے دن صبح یہ خبر ملی کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے ایک ہزاراونٹ گندم اور اشیائے خوراک کے منگوائے ہیں ،آپ نے فرمایا: مدینے کے تاجر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے پاس گئے اور دروازہ کھٹکھٹایا ، آپ گھر سے باہر تشریف لائے ،اس حال میں کہ چادر آپ کے کاندھوں پر تھی اور اُس کے دونوں سرے مخالف سمت میں کاندھے پر ڈالے ہوئے تھے ۔آپ نے مدینے کے تاجروں سے پوچھا کہ تم لوگ کس لئے آئے ہو ؟،کہنے لگے : ہمیں خبر پہنچی ہے کہ آپ کے پاس ایک ہزار اونٹ غلے کے آئے ہیں ،آپ اُنہیں ہمارے ہاتھ فروخت کردیجیے تاکہ ہم مدینے کے فقراء پر آسانی کریں ،آپ نے فرمایا : اندر آؤ ، پس وہ اندر داخل ہوئے ،تو ایک ہزار تھیلے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے گھر میں رکھے ہوئے تھے ،آپ نے فرمایا: اگرمیں تمہارے ہاتھ فروخت کروں، تم مجھے کتنا منافع دوگے ؟۔اُنہوں نے کہا : دس پر بارہ ، آپ نے فرمایا : کچھ اور بڑھاؤ ،اُنہوں نے کہا دس پر چودہ ،آپ نے فرمایا: اور بڑھاؤ ، اُنہوں نے کہا : دس پر پندرہ ،آپ نے فرمایا: اور بڑھاؤ ،اُنہوں نے کہا : اِس سے زیادہ کون دے گا ،جبکہ ہم مدینے کے تاجر ہیں ۔آپ نے فرمایا: اوربڑھاؤ ،ہر درہم پر دس درہم تمہارے لئے زیادہ ہیں ۔
اُنہوں نے کہا :نہیں ، پھر آپ نے فرمایا: اے گروہِ تجار تم گواہ ہوجاؤ کہ (یہ تمام مال)میں نے مدینہ کے فقراء پر صدقہ کردیا ۔ حضرت عبداللہ فرماتے ہیں کہ رات گزری رسول اللہ ﷺ میرے خواب میں تشریف لائے ، آپ ﷺ سیاہی مائل سفید سواری پر تشریف فرماتھے ، آپ جلدی میں تھے اور آپ کے دست مبارک میں ایک قندیل تھی جس سے روشنی نور کی طرح پھوٹ رہی تھی ،نعلین مبارک کے تسموں سے نور پھوٹ رہا تھا ۔ میں نے عرض کیا : یارسول اللہ ﷺ ! میری ماں باپ آپ پر قربان میری رغبت آپ ﷺ کی جانب بڑھ رہی ہے،آپ ﷺ نے ارشادفرمایا: یہ عثمان کی اُس نیکی کا بدلہ ہے جو اُس نے ایک ہزار اونٹ اللہ کی راہ میں صدقہ کیے اور اللہ تعالیٰ نے اُسے قبول فرمایا اور اُس کا نکاح جنت کی ایک حور سے فرمادیا اور میں عثمان کی خوشیوں میں شریک ہونے جارہا ہوں ''۔(اِزالۃ الخفا،جلد2،ص:224)
حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے بارہ سالہ دورِ خلافت میں اسلامی سلطنت کادائرہ وسیع ہوتاگیا ،آذربائیجان ،آرمینیا ،طرابلس ،الجزائر اور مراکش فتح ہوئے ۔28؁ھ میں بحیرۂ روم میں شام کے قریب قبرص جو بحری جنگ کے ذریعے فتح کیا ،30؁ھ میں طبرستان ،33؁ھ میں قسطنطنیہ سے مُتصل مرودر، طالستان اور جوزجان فتح ہوئے ۔فتوحات کا یہ سلسلہ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد تعطل کا شکار ہوگیا ۔حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے دورِ خلافت کے اخیر حصے میں فتنوں اور سازشوں نے سراٹھالیا ۔کابل سے مراکش تک مفتوحہ علاقوں میں مختلف مذاہب کی ماننے والی سینکڑوں اقوام آباد تھیں ،فطری طورپر مسلمانوں کے خلاف انتقامی جذبات اُن میں موجودتھے ،نتیجۃً مسلمانوں کے خلاف سازشوں کا جال بچھایا گیا ،جس میں یہودی اور مجوسی پیش پیش تھے۔
اِسی سازش کے نتیجے میں بصرہ ،کوفہ اور مصر سے تقریباً دوہزار فتنہ پرداز (باغی) اپنے مطالبات منوانے کے لئے حاجیوں کی وضع میں مدینہ پہنچے ،حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے مکان کا محاصرہ کرلیا جو 40روزتک جاری رہا ،باغیوں نے کھانا پانی سب جانے کے راستے بند کردیئے ۔حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا نے کچھ کھانے پینے کی چیزیں پہنچانے کی کوشش کی تو باغیوں نے رسول اللہ ﷺ کے حرم محترم کا لحاظ رکھے بغیر بے ادبی سے مزاحمت کی اور اُنہیں واپس کردیا ۔
حالات کی سنگینی کا اندازہ کرتے ہوئے حضرت علی رضی اللہ عنہ نے حضرات حسنین کریمین رضی اللہ عنہما کو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی حفاظت کے لئے بھیج دیا ،حضرت عبداللہ بن زبیر بھی جانثاروں کے ساتھ حضرت عثمان کے گھر میں موجود تھے ۔محاصرہ کے دوران حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ نے عرض کی کہ آپ کے حامیوں کی عظیم جماعت یہاں موجود ہے ،ان باغیوں کو نکال باہر کیجیے ۔دوسری صورت یہ ہے کہ پچھلی جانب سے مکہ چلے جائیں ،مکہ حرم ہے ،وہاں یہ آپ پر حملہ کرنے کی جرأت نہیں کرسکیں گے ۔
حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے پہلی صورت کا جواب یہ دیاکہ اگر میں باہر نکل کر ان سے جنگ کروں تو میں اس اُمّت کا وہ پہلا خلیفہ نہیں بننا چاہتا جو اپنی حکومت کی بقا کے لئے مسلمانوں کا خون بہائے ،دوسری صورت کا جواب دیاکہ مجھے ان لوگوں سے یہ توقع نہیں ہے کہ یہ حرم مکہ کی حرمت کا کوئی لحاظ رکھیں گے اور میں نہیں چاہتاکہ میری وجہ سے اس مُقدّس شہر کی حرمتیں پامال ہوں اور میں دارالہجرت اور دیارِ رسولﷺ کو چھوڑ کر کہیں بھی نہیں جانا چاہتا۔(مسند امام احمد بن حنبل )
حضرت زید بن ثابتؓ اور حضرت ابو ہریرہ ؓنے آکر جنگ کی اجازت چاہی کہ انصار دروازے پر منتظر کھڑے ہیں ،آپ نے اُنہیں منع فرمادیا ۔
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا محاصرہ کرنے والے دوہزار سے بھی کم افراد تھے اورحضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے مکان کے اندر اور باہر ان کے جانثار اس سے کہیں زیادہ تعداد میں تھے ،آخری وقت تک یہ سب آپ سے اجازت طلب کرتے رہے کہ ہم باغیوں کا مقابلہ کریں گے اور اُن کا محاصرہ توڑیں گے ،لیکن آپ نے اُنہیں اس کی اجازت نہ دی ،آپ کا ایک ہی جواب تھا : ''میں اپنی ذات یا اپنی خلافت کی خاطر مسلمانوں کی تلواریں باہم ٹکراتے نہیں دیکھ سکتا ''۔جمعۃ المبارک اٹھارہ ذوالحجہ 35؁ھ کو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے خواب میں رسول اللہ ﷺ کو دیکھاکہ رسول اللہ ﷺ اور حضرت ابو بکر وعمر رضی اللہ عنہما تشریف فرما ہیں اور رسول اللہ ﷺْ فرمارہے ہیں : عثمان جلدی کرو ،ہم تمہارے افطار کے منتظر ہیں ۔
ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : عثمان آج جمعہ میرے ساتھ پڑھنا ۔(طبقات ابن سعد)بیدار ہوکر آپ نے لباس تبدیل کیا اور قرآن مجید کی تلاوت میں مشغول ہوگئے ،تھوڑی دیر بعد باغیوں نے حملہ کیا اور آپ کو تلاوتِ قرآن فرماتے ہوئے شہید کردیا ،اس وقت آپ قرآن مجیدسورۂ بقرہ کی آیت: 137 ترجمہ؛ (تمہارے لئے اللہ کافی ہے اور اللہ تعالیٰ خوب سننے اور جاننے والا ہے) کی تلاوت فرما رہے تھے ۔حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شہادت اور عظمت پر لاکھوں سلام ،کہ آپ نے اپنی ذات اور خلافت کے دفاع کے لئے مدینے کی سرزمین اور مسلمان کی حرمت کو پامال نہ ہونے دیا ۔جانثار آپ پر قربان ہونے کی اجازت طلب کرتے رہے لیکن آپ نے اجازت نہ دی ۔
شہید کا خون جس جگہ گرتاہے ،وہ جگہ اُس کی شہادت کی گواہی دیتی ہے۔ کسی کا خون کربلاکی سرزمین پر گرا ،کسی کا اُحد کی گھاٹیوں میں ،کسی کی شہادت گاہ میدانِ بدر ۔یہ مقامات اُن شہدا ء کی شہادت کی گواہی دیں گے لیکن اے عثمان غنی تمہار ے خون کی عظمتوں کو سلام جو قرآن کے اوراق پر گرا اور قیامت کے دن قرآن کریم کے اوراق آپ کی شہادت کی گواہی دیں گے ۔روزِ محشر ہر شخص اُس حال میں اٹھایاجائے گا جیساکہ اپنی موت کے وقت وہ دنیاسے گیا ،کوئی اَحرام باندھے ہوئے اٹھے گا ،کوئی سجدہ کرتے ہوئے ،آپ کی عظمتوں کو سلام کہ روزِ محشر آپ قرآن پڑھتے ہوئے اٹھیں گے ۔
 

عکرمہ

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 27، 2012
پیغامات
658
ری ایکشن اسکور
1,869
پوائنٹ
157
خوارج کا ظہور کب ہوا تھا؟؟؟مسئلہ تحکیم سے قبل یا بعد؟؟؟تفصیل بتا دیں جزاک اللہ
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
  • حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین میں جو فضیلت اور عظمت حاصل ہے وہ اظہر من الشمس ہے وہ '' السابقون الاولون '' میں تھے، حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ، حضرت علی رضی اللہ عنہ، حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ کے بعد وہ شخص ہیں جنہوں نے اسلام قبول کیا۔ وہ ذوالنورین تھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی دو صاحبزادیوں کو یکے بعد دیگرے اُن کے نکاح میں دیا۔

  • حضرت عثمان رضی اللہ عنہ غنی تھے کہ انہوں نے اپنی تمام دولت کو دین و ملت کی نظر کیا، اُن ہی کے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیعت رضوان لی، انہیں کاتب وحی ہونے کا شرف بھی حاصل ہے، اور اُن کو مسجد الحرام کی توسیع کروانے کی سعادت بھی حاصل ہوئی۔

  • انہوں نے تمام عالم اسلام کو ایک مصحف اور قرآت پر جمع فرمایا اور جامع القرآن کے لقب سے مشہور ہوئے اُن کے عہد کی فتوحات تاریخ اسلام کا سنہرا باب ہے اُن ہی کے زمانے میں بحری طاقت منظم ہوئی۔
امت کو انتشار سے بچانے کی خاطر صعوبتیں اور اذیتیں برداشت کیں اور بخوشی اپنا سر دے دیا۔ رضی اللہ عنہ
 
Top