• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

حضرت عمر فاروق کے تجدیدی کارنامے( قسط نمبر1)

tanveer ahmad awan

مبتدی
شمولیت
اگست 23، 2016
پیغامات
10
ری ایکشن اسکور
0
پوائنٹ
7
حضرت عمر فاروقؓ کے تجدیدی کارنامے
مولاناتنویراحمد اعوان
قسط نمبر1
نام ، نسب وبچپن۔ اسم گرامی عمر بن خطاب بن نفیل بن عبد الغریٰ بن رباح بن عبداللہ بن قرت بن زراع بن عدی بن کعب بن لوی بن فہر بن مالک ،کنیت ابو حفض اور لقب فاروق ہے، آپ کے والد کا نام خطاب اور آپ قریش کی شاخ بنو عدی سے تعلق رکھتے تھے جب کہ والدہ کا نام خنتمہ بنت ہشام بن مغیرہ تھا۔(روشن ستارے،ص50) آ پ کی پیدائش مشہور روایات کے مطابق ہجرت نبوی کے چالیس برس قبل ہوئی،آپ کے بچپن کے حالات و واقعات کےحوالے سے تاریخ خاموش ہے۔( الفاروق ص30)
جوانی: سن شباب میں حضرت عمر فاروقؓ نے علم انساب اپنے والد سے سیکھا اور اس میں مہارت حاصل کی ،شہسواری میں آپ کا کوئی ثانی نہیں تھاکہ آپ گھوڑے پر کود کر اس طرح سوار ہوتے کہ جلد بدن ہو جاتے تھے۔ آپ کوشعر و شاعری، خطاطی ،خطابت،پہلوانی اور سپہ گری کے فنون پر عبور حاصل ہونے کے علاوہ تجارت کے اسرارو رموز سے بھی واقف تھے۔(الفاروق۔ ص30,31)
قبول اسلام :حضرت عمر فاروقؓ کا قبول اسلام بھی قابل رشک ہے ،پیغمبر اسلام ﷺ نے اللہ تعالیٰ سے دعا مانگی کہ یااللہ! عمر یاابو جہل میں سے جو تجھے پسند ہو اسلام کو اس سے قوت عطا فرما۔ اللہ تعالی نے خاتم الانبیاء کی دعا کو حضرت عمرؓ کے حق میں قبول فرمایا، کفار مکہ کی مشاروت میں آپ کو حضرت محمد ﷺ کو نعوذ باللہ شہید کرنے کی ذمہ داری سونپی گئی،آ پ اس مقصد کے حصول کے لیے نکلے مگر بہن اور بہنوئی کے قبول اسلام اور استقامت کی وجہ سے دل نرم پڑ گیا ، دربار نبوی میں اسلام قبول کرنے کی غرض سے حاضر ہو کر نبی کریم ﷺ کے دست اقدس پرکلمہ اسلام پڑھا،اس وقت آپ کی عمر مبارک چھبیس سال تھی،حضرت عبداللہ بن مسعودؓ فرماتے ہیں کہ حضرت عمرؓ کا اسلام لانا فتح و نصرت تھا اور ان کی ہجرت مسلمانوں کی مدد اور اعانت ثابت ہوا اور ان کی خلافت امت کے لیے رحمت تھی۔(اسد الغابہ)
نبی کریم ﷺ کے ساتھ تعلق:حضرت عمر فاروق کا نبی کریم ﷺ کے ساتھ سلسلہ نسب آٹھویں پشت پے ایک ہو جاتا ہے، ام المؤمنین سیدہ حضرت حفصہ ،ؓ حضرت عمر فاروقؓ کی بیٹی تھیں اس لحاظ سے آپ کوخسر پیغمبرﷺ ہونے کی سعادت حاصل ہوئی(الفاروق ص28)حضورﷺ کی نواسی اور حضرت علیؓ کی صاحبزادی آپ کے عقد میں تھیں ۔ حضرت عمرؓ نے سب سے پہلے بیت اللہ میں اللہ کا نا م بلند کیا ، آپ سفر و خضر میں پیغمبر اسلام ﷺ کے ساتھ باوفا ساتھی ،مخلص مشیر و وزیر کی طرح رہے،بنی کریم ﷺ نے فرمایا میرے آسمانوں پر دو وزیر جبرائیل و میکائیل اور زمین پر دو وزیر ابو بکر و عمر ہیں، (مشکوٰۃ) حضرت عمرؓ نے بنی کریم ﷺ کے ساتھ سات سالہ مکی اور دس سالہ مدنی زندگی میں کسی موقع پر بنی کریم ﷺ کا ساتھ نہیں چھوڑا،ستائیس غزوات میں شرکت فرمائی اور تمام اہم فیصلوں میں آپ کی رائے کو اہمیت دی جاتی تھی ۔قرآن پاک کی ستائیس آیات آپؓ کی رائے کے مطابق نازل ہوئیں،نبی کریم ﷺ نے فرمایاکہ عمر کی زبان پر اللہ نے حق کو جاری کر دیا ہے (بیہقی ) آپ ﷺ نے فرمایا کہ جس راستہ سے عمرؓ گزرتا ہو شیطان وہ راستہ چھوڑ دیتا ہے (مسلم ، بخاری)ایک مرتبہ نبی کریم ﷺ نے جنت کے احوال کا ذکر فرمایاکہ میں جنت میں داخل ہوا وہاں ایک خوبصورت محل دیکھا ، مجھے بتایا گیا کہ یہ عمر بن خطاب کا محل ہے ،آپ ﷺ نے فرمایا کہ میرا دل چاہا کہ میں وہ محل دیکھوں مگر اے عمر !مجھے تیری غیرت یاد آگئی اس لئے میں اندر نہیں گیا۔ایک دفعہ حضورﷺ ، سیدنا ابوبکرؓ اور سیدنا عمرؓ کے کندھوں پر ہاتھ رکھ کے جا رہے تھے ، آپ ﷺ نے فرمایا قیامت کے دن ہم تینوں اسی طرح اٹھائے جائیں گے ، امت کو شیخینؓ کی حیثیت ان الفاظ میں ارشاد فرمائی کہ میرے بعد ابوبکر و عمر کی اقتدا کرنا(مشکوٰۃ)۔
حضورﷺ کے ساتھ محبت کی ادنیٰ سی جھلک یہ ہے کہ اپنی فقید المثال بہادری کے باوجود حضورﷺ کے وصال کی حالت کا تحمل نہ فرما سکے ، سخت حیرانی و پریشانی کی حالت میں تلوار لے کر کھڑے ہو گے کہ جو شخص یہ کہے گا کہ حضور ﷺ کا وصال ہو گیا ہے تو اس کی گردن اڑا دوں گا، حضور ﷺتو اپنے رب کے پاس تشریف لے گے ہیں جیسا کہ حضرت موسیٰ ؑ طور پر تشریف لے گے تھے عنقریب حضورﷺ واپس تشریف لائیں گے اور ان لوگوں کے ہاتھ پاؤں کا ٹ دین گے جو حضورﷺ کے انتقال کی جھوٹی خبر اڑا رہے ہیں ۔آپؓ کو جب نبی کریم ﷺ کا زمانہ یاد آتا تو آپ رونے لگتے اور روتے روتے بے ہوش ہوجاتے۔(الشیخان،)
خلیفۃ الرسول اللہ ﷺ جناب صدیق اکبرؓ کے دور مبارک میں آپ نے امور خلافت میں بہترین مشیر و وزیر کا فریضہ سرانجام دیتے رہے، یہاں تک کہ حضرت ابوبکرؓ نے آپ کو اپنا جانشین مقرر فرمایا تو صحابہ نے آپ کے سخت مزاج ہونے پر کلام کیا تو حضرت صدیق اکبرؓ نے ان تاریخی الفاظ میں آپ کی غیر معمولی حیثیت کو واضح فرمایا کہ میں خدا سے کہوں گا کہ میں نے تیرے بندوں پر اس شخص کو امیر مقرر کیا جو تیرے بندوں میں سب سے زیادہ اچھا تھا۔(الفاروق)
محاسبہ نفس اور امانت داری :بار خلافت سنبھا لنے کے جناب عمر فاروقؓ نے امور خلافت کو نظم و ضبط اور عدل و انصاف کیساتھ ا س انداز میں چلایا کہ اس مثال سے طبقہ سلاطین عاجز ہیں،آپ ادنی ٰ سے ادنیٰ بات پر اپنا محاسبہ فرماتے تھے،آپ کا ضمیر ہمہ وقت بیدار رہتا تھا،سب سے اہم بات یہ تھی کہ آپ نے کبھی اپنی ذات کو اہمیت نہیں دی۔ آپ فرماتے تھے کہ امت کا مال اسی طرح میری نگرانی میں رہے گا جس طرح یتیم کے مال کی حفاظت کی جا تی ہے۔
آپ نے ہمیشہ زہد ، اتقا ء اور درویشی والی زندگی گزاری ، آپ کو نبی کریم ﷺ اور جناب صدیق اکبرؓ کا طرز زندگی پسند تھا، آپ فرماتے تھے کہ میرے دو رفیق ہیں ،ان دونوں نے خاص انداز میں زندگی کے دن کاٹے ہیں میری خواہش ہے کہ میں ہو بہو ان کے طریق پر چلوں کیونکہ اگرمیں نے ایسا نہ کیا تو میری مثال سے دوسرے بھی انحضرت ﷺ اور صدیق اکبرؓ کے طریقوں سے انحراف کریں گے۔(خلفاء الراشدین)
ابولؤلؤ فیروز مجوسی کے وار کی وجہ سے آپ کو گہرے زخم لگ چکے تھے جب آپ کو اس بات کا یقین ہو چکا کہ اب صحت یاب ہونا ممکن نہیں تو آپ نے ان تمام رقوم کا حساب لگوایا جو آپ کے نزدیک بیت المال کاقر ض تھیں ،یہ رقوم آٹھ ہزار درھم سے زائد تھیں، آپ نے اپنے صاحبزادے کو فرمایا کہ وہ اس رقم کو بیت المال میں ادا کردے،آپ کی شہادت کے دس دن بعد وہ ساری رقم ادا کردی گئی۔ درحقیقت یہ آپ کا بحیثیت خلیفہ اپنی اور اپنی اولاد کی کفالت کے لیے بیت المال سے لی گئی رقم کا مجموعہ تھا۔
 
Top