• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

حضرت معاذ بن جبل کا قول تقلید کے حوالہ سے

تلمیذ

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 12، 2011
پیغامات
765
ری ایکشن اسکور
1,506
پوائنٹ
191

حضرت معاذ بن جبل کا قول تقلید کے حوالہ سے


حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ نَصْرٍ ، ثنا قَاسِمُ بْنُ أَصْبَغَ ، ثنا مُحَمَّدُ بْنُ وَضَّاحٍ ، ثنا مُوسَى بْنُ مُعَاوِيَةَ ، قَالَ : حَدَّثَنَا ابْنُ مَهْدِيٍّ ، عَنْ شُعْبَةَ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَلَمَةَ ، قَالَ : قَالَ مُعَاذُ بْنُ جَبَلٍ : " يَا مَعْشَرَ الْعَرَبِ كَيْفَ تَصْنَعُونَ بِثَلاثٍ ؟ دُنْيَا تَقْطَعُ أَعْنَاقَكُمْ ، وَزَلَّةِ عَالِمٍ ، وَجِدَالِ مُنَافِقٍ بِالْقُرْآنِ ، فَسَكَتُوا ، فَقَالَ : أَمَّا الْعَالِمُ فَإِنِ اهْتَدَى فَلا تُقَلِّدُوهُ دِينَكُمْ ، وَإِنِ افْتُتِنَ فَلا تَقْطَعُوا مِنْهُ أَنَاتَكُمْ ؛ فَإِنَّ الْمُؤْمِنَ يُفْتَتَنُ ثُمَّ يَتُوبُ ، وَأَمَّا الْقُرْآنُ فَلَهُ مَنَارٌ كَمَنَارِ الطَّرِيقِ لا يَخْفَى عَلَى أَحَدٍ ، فَمَا عَرَفْتُمْ مِنْهُ فَلا تَسْأَلُوا عَنْهُ ، وَمَا شَكَكْتُمْ فَكِلُوهُ إِلَى عَالِمِهِ ، وَأَمَّا الدُّنْيَا فَمَنْ جَعَلَ اللَّهُ الْغِنَى فِي قَلْبِهِ فَقَدْ أَفْلَحَ ، وَمَنْ لا فَلَيْسَ بِنَافِعَتِهِ دُنْيَاهُ " .
جامع بيان العلم وفضله لابن عبد البر


بعض لوگ حضرت معاذ ابن جبل رضی اللہ عنہ کا صرف اتنا قول پیش کرتے ہیں
اما العالم فان اهتدي فلا تقلدوه دينكم

اگر عالم ہدایت پر بھی ہو تو اس کی دین میں تقلید نہ کرو
مکمل جملہ اس طرح ہے
حضرت معاذ رضی اللہ عنہ نے لوگوں سے تین امور سے متعلق پوچھا ۔ ان میں سے ایک یہ تھا کہ تم لوگ ایک عالم کی پھسلن (علمی خطا ) سے کیسے بچو گے پھر حضرت معاذ رضی اللہ عنہ نے خود ہی جواب دیا کہ اگر عالم ہدایت یافتہ بھی ہو تو اس کی تقلید مت کرو اور اگر وہ کسی دینی معاملہ میں پھسل جائے تو ممکن ہے وہ بعد میں توبہ کرلے
جضرت معاذ کے قول سے ہر کوئي سمجھ سکتا ہے کہ انہوں جو تقلید سے منع کیا اس میں دو نکات تھے
1- ایک عالم کی تقلید کرنا ۔ فرد واحد کی تقلید تو احناف بھی نہیں کرتے ۔ کوئی ایک حنفی بھی ایسا نہیں جو ہر شرعی معاملہ میں امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی تقلید کرتا ہو !!!
ایک عالم یا مجتھد خطا کرسکتا ہے لیکن جب اس عالم کے اقوال کی چھان پٹک فقہاء کی ایک جماعت کرچکی ہو اور اس اقوال میں سے اجتھادی خطا کی نشان دہی کرچکی ہو تو پھر اس مسلک کی تقلید کی جائے تو وہ عملا فرد واحد کی تقلید نہیں ہوتی اگرچہ اس کواصطلاحا تقلید شخصی کہا جائے
2- وہ عالم زندہ ہو ۔ احناف جن فقہاء کی تقلید کرتے ہیں وہ اس دنیا سے رخصت ہوچکے ہیں۔
تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ احناف جو تقلید کرتے ہیں اس پر عمل کرنا حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کے قول سے نہیں ٹکراتا
اللہ تبارک و تعالی ہی سے ہدایت کا سوال ہے ۔
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,553
پوائنٹ
304

حضرت معاذ بن جبل کا قول تقلید کے حوالہ سے


حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ نَصْرٍ ، ثنا قَاسِمُ بْنُ أَصْبَغَ ، ثنا مُحَمَّدُ بْنُ وَضَّاحٍ ، ثنا مُوسَى بْنُ مُعَاوِيَةَ ، قَالَ : حَدَّثَنَا ابْنُ مَهْدِيٍّ ، عَنْ شُعْبَةَ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَلَمَةَ ، قَالَ : قَالَ مُعَاذُ بْنُ جَبَلٍ : " يَا مَعْشَرَ الْعَرَبِ كَيْفَ تَصْنَعُونَ بِثَلاثٍ ؟ دُنْيَا تَقْطَعُ أَعْنَاقَكُمْ ، وَزَلَّةِ عَالِمٍ ، وَجِدَالِ مُنَافِقٍ بِالْقُرْآنِ ، فَسَكَتُوا ، فَقَالَ : أَمَّا الْعَالِمُ فَإِنِ اهْتَدَى فَلا تُقَلِّدُوهُ دِينَكُمْ ، وَإِنِ افْتُتِنَ فَلا تَقْطَعُوا مِنْهُ أَنَاتَكُمْ ؛ فَإِنَّ الْمُؤْمِنَ يُفْتَتَنُ ثُمَّ يَتُوبُ ، وَأَمَّا الْقُرْآنُ فَلَهُ مَنَارٌ كَمَنَارِ الطَّرِيقِ لا يَخْفَى عَلَى أَحَدٍ ، فَمَا عَرَفْتُمْ مِنْهُ فَلا تَسْأَلُوا عَنْهُ ، وَمَا شَكَكْتُمْ فَكِلُوهُ إِلَى عَالِمِهِ ، وَأَمَّا الدُّنْيَا فَمَنْ جَعَلَ اللَّهُ الْغِنَى فِي قَلْبِهِ فَقَدْ أَفْلَحَ ، وَمَنْ لا فَلَيْسَ بِنَافِعَتِهِ دُنْيَاهُ " .
جامع بيان العلم وفضله لابن عبد البر


بعض لوگ حضرت معاذ ابن جبل رضی اللہ عنہ کا صرف اتنا قول پیش کرتے ہیں
اما العالم فان اهتدي فلا تقلدوه دينكم

اگر عالم ہدایت پر بھی ہو تو اس کی دین میں تقلید نہ کرو
مکمل جملہ اس طرح ہے
حضرت معاذ رضی اللہ عنہ نے لوگوں سے تین امور سے متعلق پوچھا ۔ ان میں سے ایک یہ تھا کہ تم لوگ ایک عالم کی پھسلن (علمی خطا ) سے کیسے بچو گے پھر حضرت معاذ رضی اللہ عنہ نے خود ہی جواب دیا کہ اگر عالم ہدایت یافتہ بھی ہو تو اس کی تقلید مت کرو اور اگر وہ کسی دینی معاملہ میں پھسل جائے تو ممکن ہے وہ بعد میں توبہ کرلے
جضرت معاذ کے قول سے ہر کوئي سمجھ سکتا ہے کہ انہوں جو تقلید سے منع کیا اس میں دو نکات تھے
1- ایک عالم کی تقلید کرنا ۔ فرد واحد کی تقلید تو احناف بھی نہیں کرتے ۔ کوئی ایک حنفی بھی ایسا نہیں جو ہر شرعی معاملہ میں امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی تقلید کرتا ہو !!!
ایک عالم یا مجتھد خطا کرسکتا ہے لیکن جب اس عالم کے اقوال کی چھان پٹک فقہاء کی ایک جماعت کرچکی ہو اور اس اقوال میں سے اجتھادی خطا کی نشان دہی کرچکی ہو تو پھر اس مسلک کی تقلید کی جائے تو وہ عملا فرد واحد کی تقلید نہیں ہوتی اگرچہ اس کواصطلاحا تقلید شخصی کہا جائے
2- وہ عالم زندہ ہو ۔ احناف جن فقہاء کی تقلید کرتے ہیں وہ اس دنیا سے رخصت ہوچکے ہیں۔
تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ احناف جو تقلید کرتے ہیں اس پر عمل کرنا حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کے قول سے نہیں ٹکراتا
اللہ تبارک و تعالی ہی سے ہدایت کا سوال ہے ۔
السلام و علیکم -

حضرت معاز بن جبل رضی اللہ عنہ کے قول سے تو یہ ثابت ہوا ہے کہ ہر طرح کی تقلید نا جائز ہے -


"اگر عالم ہدایت یافتہ بھی ہو تو اس کی تقلید مت کرو اور اگر وہ کسی دینی معاملہ میں پھسل جائے تو ممکن ہے وہ بعد میں توبہ کرلے

"-
یعنی عالم سے خطا ء ممکن ہے - تو کیا آپ اس بات کو مانتے ہیں کہ امام ابو حنیفہ رح نے اکثر اپنے دینی آراء اور علم و فہم میں خطا ء کی ہے - اگر آپ کہتے ہیں کہ "کوئی ایک حنفی بھی ایسا نہیں جو ہر شرعی معاملہ میں امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی تقلید کرتا ہو "

تو مجھے بھی آج تک ایک حنفی بھی ایسا نہیں ملا (امام ابو حنیفہ کے شاگردوں کو چھوڑ کر) کہ جس نے امام صاحب کے کسی معاملے میں اجتہاد یا ان کے علم و فہم کو غلط قرار دیا ہو اور کہا ہو کہ ہمارے امام صاحب اس مسلے میں صریح غلطی پر تھے ؟؟ کیا آپ سمجھتے ہیں کہ امام صاحب کے اجتہاد کی چھان پھٹک مکمل ہو چکی اور اس میں اب مزید تبدیلی کا کوئی عنصر باقی نہیں -

کتنی عجیب بات ہے کہ نبی کریم صل الله علیہ و آ لہ وسلم کی احادیث پر تو ابھی تک علمی تحقیق جاری ہے - لیکن امام صاحب کے اقوال و آراء کی چھان پھٹک مکمل ہو چکی؟؟-
 

تلمیذ

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 12، 2011
پیغامات
765
ری ایکشن اسکور
1,506
پوائنٹ
191
السلام و علیکم -

حضرت معاز بن جبل رضی اللہ عنہ کے قول سے تو یہ ثابت ہوا ہے کہ ہر طرح کی تقلید نا جائز ہے -
یہ آپ کیسے کہ سکتے ہیں
حضرت معاذ رضی اللہ عنہ نے ایک عالم کی تقلید ( فرد واحد) کی تقلید سے منع کیا جب کہ احناف تقلید شخصی ایک فرد واحد کی نہیں ایک مسلک کی تقلید کرتے ہیں اور حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کے قول میں ایک مسلک کی تقلید کا کوئي ذکر نہیں تو آپ کس طرح کہ سکتے ہیں کہ حضرت معاز بن جبل رضی اللہ عنہ کے قول سے تو یہ ثابت ہوا ہے کہ ہر طرح کی تقلید نا جائز ہے -
"اگر عالم ہدایت یافتہ بھی ہو تو اس کی تقلید مت کرو اور اگر وہ کسی دینی معاملہ میں پھسل جائے تو ممکن ہے وہ بعد میں توبہ کرلے "-
یعنی عالم سے خطا ء ممکن ہے - تو کیا آپ اس بات کو مانتے ہیں کہ امام ابو حنیفہ رح نے اکثر اپنے دینی آراء اور علم و فہم میں خطا ء کی ہے - اگر آپ کہتے ہیں کہ "کوئی ایک حنفی بھی ایسا نہیں جو ہر شرعی معاملہ میں امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی تقلید کرتا ہو "
بلکل ایک عالم خطا کرسکتا ہے ۔ میں بلکل مانتا ہوں کہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ سے بھی اجتھادی خطا ہوئی ہیں اس لئیے فقہاء احناف کے تمام فتوے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے اقوال پر نہیں بلکہ کچھ فتاوی امام یوسف اور امام محمد رحمہما اللہ کے اقوال پر ہیں اور غالبا 17 فتاوی تو صرف امام زفر رحمہ اللہ کے اقوال پر ہے



تو مجھے بھی آج تک ایک حنفی بھی ایسا نہیں ملا (امام ابو حنیفہ کے شاگردوں کو چھوڑ کر) کہ جس نے امام صاحب کے کسی معاملے میں اجتہاد یا ان کے علم و فہم کو غلط قرار دیا ہو اور کہا ہو کہ ہمارے امام صاحب اس مسلے میں صریح غلطی پر تھے ؟؟
اگر آپ ایسا حنفی ڈھونڈ رہے ہیں جو امام حنیفہ رحمہ اللہ کا رد کرکے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر سب و شتم کرے تو ایسا حنفی دکھانے سے معذرت ۔ یہ ہمارا شیوا نہیں
لیکن حنفی فقہاء کی کتب سے میں ایسے حوالہ جات دکھا سکتا ہوں کہ انہوں نے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا قول ذکر کیا اور ان کے شاگردوں (امام يوسف یا امام محمد وغیرہ ) کا قول ذکر کرکے کہا کہ صحیح قول امام يوسف کا ہے ۔ اور یہی مھذب طریقہ ایک مجتھد کے قول کو رد کرنے کا سب سے بہترین طریقہ ہے

کیا آپ سمجھتے ہیں کہ امام صاحب کے اجتہاد کی چھان پھٹک مکمل ہو چکی اور اس میں اب مزید تبدیلی کا کوئی عنصر باقی نہیں -
کتنی عجیب بات ہے کہ نبی کریم صل الله علیہ و آ لہ وسلم کی احادیث پر تو ابھی تک علمی تحقیق جاری ہے - لیکن امام صاحب کے اقوال و آراء کی چھان پھٹک مکمل ہو چکی؟؟-
یہ مکمل کی بات میں کہاں کہی ذرا وضاحت فرمائیں گے ؟
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,553
پوائنٹ
304
یہ آپ کیسے کہ سکتے ہیں
حضرت معاذ رضی اللہ عنہ نے ایک عالم کی تقلید ( فرد واحد) کی تقلید سے منع کیا جب کہ احناف تقلید شخصی ایک فرد واحد کی نہیں ایک مسلک کی تقلید کرتے ہیں اور حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کے قول میں ایک مسلک کی تقلید کا کوئي ذکر نہیں تو آپ کس طرح کہ سکتے ہیں کہ حضرت معاز بن جبل رضی اللہ عنہ کے قول سے تو یہ ثابت ہوا ہے کہ ہر طرح کی تقلید نا جائز ہے -

بلکل ایک عالم خطا کرسکتا ہے ۔ میں بلکل مانتا ہوں کہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ سے بھی اجتھادی خطا ہوئی ہیں اس لئیے فقہاء احناف کے تمام فتوے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے اقوال پر نہیں بلکہ کچھ فتاوی امام یوسف اور امام محمد رحمہما اللہ کے اقوال پر ہیں اور غالبا 17 فتاوی تو صرف امام زفر رحمہ اللہ کے اقوال پر ہے




اگر آپ ایسا حنفی ڈھونڈ رہے ہیں جو امام حنیفہ رحمہ اللہ کا رد کرکے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر سب و شتم کرے تو ایسا حنفی دکھانے سے معذرت ۔ یہ ہمارا شیوا نہیں
لیکن حنفی فقہاء کی کتب سے میں ایسے حوالہ جات دکھا سکتا ہوں کہ انہوں نے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا قول ذکر کیا اور ان کے شاگردوں (امام يوسف یا امام محمد وغیرہ ) کا قول ذکر کرکے کہا کہ صحیح قول امام يوسف کا ہے ۔ اور یہی مھذب طریقہ ایک مجتھد کے قول کو رد کرنے کا سب سے بہترین طریقہ ہے


یہ مکمل کی بات میں کہاں کہی ذرا وضاحت فرمائیں گے ؟
محترم -

محاف کیجیے گا- آپ ایک مرتبہ پھر غلطی پر ہیں- مسلک بنتا ہی ایک انسان (فرد واحد) کی تقلید سے ہے- جیسا کہ امام ابو حنیفہ رح کی تقلید احناف دن رات کرتے ہیں - ورنہ کسی کو حنفی کہلانے کی کیا ضرورت؟؟ یہ الگ بات ہے کہ اپنی خواہش نفس کی پیروی کے چکر میں اکثر احناف اپنے ہی امام کے ان نظریات جو کے قرآن و صحیح احادیث سے ثابت ہیں ان سے پہلو تہی کر جاتے ہیں -(جیسے نبی کریم صل الله علیہ و آ لہ وسلم کو اپنی قبر میں فوت شدہ ماننا ، علم و غیب کی صفت صرف الله کے لئے ماننا ، مذہب صوفیت کو بدعت ماننا ، چلہ چالیسواں عید میلاد کو بدعت ماننا وغیرہ) ان سب امور پر ان کے امام ابو حنیفہ رح کا عمل تو ثابت ہے- لیکن سوال ہے کہ احناف ان عقائد کا انکار اور خرافات و بدعات پر عمل آخر کس کی تقلید میں کرتے ہیں؟؟ - الزام تو غیر مقلدین پر ہے کہ تم لوگ امام کے بغیر قرآن و احادیث کو سمجھنے کا جرم کر رہے ہو- سوال ہے کہ جب ان کے نزدیک ان کے پیارے امام کا فہم اتنا ہی قابل اعتبار ہے تو پھر ان بدعات میں ملوث ہونے سے یہ احناف رک کیوں نہیں جاتے؟؟

ویسے آپ پہلے حنفی جو یہ تسلیم کررہے ہیں "امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ سے بھی اجتھادی خطا ہوئی ہیں" کیا ان معملات یا مسائل کی فہرست مل سکتی ہے جن میں امام صاحب سے اجتہادی خطا ء سرزد ہوئی ؟؟

آپ کا کہنا ہے کہ "اگر آپ ایسا حنفی ڈھونڈ رہے ہیں جو امام حنیفہ رحمہ اللہ کا رد کرکے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر سب و شتم کرے تو ایسا حنفی دکھانے سے معذرت ۔ یہ ہمارا شیوا نہیں" - تو بھیا یہ تو آپ بھی جانتے ہیں کہ بہت سے آئمہ اور مجتہدین نے اپنے اپنے دور میں امام صاحب کے اجتہاد و علم و فہم کو تنقید کا نشانہ بنایا - لیکن آپ کے تیروں کا رخ ہمیشہ (غیر مقلدین) اہل حدیث ہی کی طرف رہا - ویسے اگر کسی کے قول کو صحیح احادیث پر فوقیت دینے کو آپ "سب و شتم" کہتے ہیں تو یہ آپ کا ظرف ہے - ہمیں امام صاحب کے ہرہر قول میں کیڑے نکالنے کی کیا ضرورت ہے- یہ تو ہم بھی مانتے ہیں کہ وہ اپنے دور کے ایک عالم تھے (عام شخصیت نہیں تھے) -

آپ کا کہنا ہے "حنفی فقہاء کی کتب سے میں ایسے حوالہ جات دکھا سکتا ہوں کہ انہوں نے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا قول ذکر کیا اور ان کے شاگردوں (امام يوسف یا امام محمد وغیرہ ) کا قول ذکر کرکے کہا کہ صحیح قول امام يوسف کا ہے ۔ اور یہی مھذب طریقہ ایک مجتھد کے قول کو رد کرنے کا سب سے بہترین طریقہ ہے"

تو بھائی ہم غیر مقلد بھی تو یہی کچھ کرتے ہیں - کہ قرآن و احادیث کو امام صاحب کے قول پر مقدم رکھتے ہیں اگر ان امام صاحب کا قول احادیث نبوی کے صحیح مفہوم کے مطابق ہو تو مان لو اگر نہیں- تو رد کردو - کیا یہ مجتھد کے قول کو رد کرنے کا مہذب طریقہ نہیں؟-

آپ کہتے ہیں کہ "یہ مکمل کی بات میں کہاں کہی ذرا وضاحت فرمائیں گے ؟"

تو آپ کا قول ہی یہاں پر منشن کرتا ہوں "ایک عالم یا مجتھد خطا کرسکتا ہے لیکن جب اس عالم کے اقوال کی چھان پٹک فقہاء کی ایک جماعت کرچکی ہو اور اس اقوال میں سے اجتھادی خطا کی نشان دہی کرچکی ہو تو پھر اس مسلک کی تقلید کی جائے "

یہاں "چھان پٹک فقہاء کی ایک جماعت کرچکی" سے مراد کیا مکمل ہو چکی نہیں ہے؟؟؟

والسلام-
 

تلمیذ

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 12، 2011
پیغامات
765
ری ایکشن اسکور
1,506
پوائنٹ
191
ہمارا اصل موضوع حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کا قول ہے دیگر باتیں تو ضمنا آگئی ہیں اور آپنے کہا کہ حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ نے ہر قسم کی تقلید سے منع کیا ۔ لیکن اس کو ثابت نہیں کیا
حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ نے جس تقلید سے منع کیا وہ فرد واحد کی تقلید ہے اور زندہ عالم کی ، لیکن جیسا کہ میں نے اوپر کہا کہ احناف ایک فرد کی نہیں بلکہ ایک مسلک کی تقلید کرتے ہیں اور وہ بھی ان فقہا ء کی جو زندہ نہیں اور دنیا سے رخصت ہوچکے ہیں تو جس تقلید سے حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ نے منع کیا ویسی تقلید احناف میں نہیں ۔ اس لئیے حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کے قول کی بنیاد پر آپ حضرات کا احناف پر اعتراض باطل ہے ۔
محترم -
محاف کیجیے گا- آپ ایک مرتبہ پھر غلطی پر ہیں- مسلک بنتا ہی ایک انسان (فرد واحد) کی تقلید سے ہے- جیسا کہ امام ابو حنیفہ رح کی تقلید احناف دن رات کرتے ہیں - ورنہ کسی کو حنفی کہلانے کی کیا ضرورت؟؟
اگر ہم فرد واحد کی تقلید کر رہے ہوتے تو احناف مسلک میں ہر فتوی امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے قول پر ہوتا جب کہ ایسا نہیں ہے ۔
جناب یہ صرف آپ
ویسے آپ پہلے حنفی جو یہ تسلیم کررہے ہیں "امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ سے بھی اجتھادی خطا ہوئی ہیں" کیا ان معملات یا مسائل کی فہرست مل سکتی ہے جن میں امام صاحب سے اجتہادی خطا ء سرزد ہوئی ؟؟
نہیں میں پہلا حنفی نہیں تقی عثمانی حفظہ اللہ نے ایک جگہ لکھا ہے جو ائمہ مجتھدین کو معصوم عن الخطا سمجھ کر ان کی تقلید کرتا ہے تو قابل مذمت تقلید ہے ( ان کی بات کا مفہوم ہے ، اگر آپ کو حوالہ بھی چاہئیے تو مل جائے گا )
اس کے علاوہ مذید حوالہ بھی دکھائے جاسکتے ہیں کہ احناف نے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے اجتھاد پر عمل نہیں کیا ۔ ظاہر اس اجتھاد کو درست نہ سمجھا اسی لئیے تو عمل نہیں کیا ۔
جہاں تک مسائل کی فہرست کا تعلق ہے جن میں امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے قول پر عمل نہیں کیا گیا تو آپ صرف قدوری ، ھدایہ وغیرہ فقہ کی کتب پڑھ لیں آپ کو خود معلوم ہوجائے گا
آپ کا کہنا ہے کہ "اگر آپ ایسا حنفی ڈھونڈ رہے ہیں جو امام حنیفہ رحمہ اللہ کا رد کرکے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر سب و شتم کرے تو ایسا حنفی دکھانے سے معذرت ۔ یہ ہمارا شیوا نہیں" - تو بھیا یہ تو آپ بھی جانتے ہیں کہ بہت سے آئمہ اور مجتہدین نے اپنے اپنے دور میں امام صاحب کے اجتہاد و علم و فہم کو تنقید کا نشانہ بنایا - لیکن آپ کے تیروں کا رخ ہمیشہ (غیر مقلدین) اہل حدیث ہی کی طرف رہا - ویسے اگر کسی کے قول کو صحیح احادیث پر فوقیت دینے کو آپ "سب و شتم" کہتے ہیں تو یہ آپ کا ظرف ہے - ہمیں امام صاحب کے ہرہر قول میں کیڑے نکالنے کی کیا ضرورت ہے- یہ تو ہم بھی مانتے ہیں کہ وہ اپنے دور کے ایک عالم تھے (عام شخصیت نہیں تھے) -
یہ موضوع سے متعلق نہیں کہ احناف جو مسلک اہل حدیث پر اعتراض کرتے ہیں اس کی کیا وجہ ہے
آپ کا کہنا ہے "حنفی فقہاء کی کتب سے میں ایسے حوالہ جات دکھا سکتا ہوں کہ انہوں نے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا قول ذکر کیا اور ان کے شاگردوں (امام يوسف یا امام محمد وغیرہ ) کا قول ذکر کرکے کہا کہ صحیح قول امام يوسف کا ہے ۔ اور یہی مھذب طریقہ ایک مجتھد کے قول کو رد کرنے کا سب سے بہترین طریقہ ہے"
تو بھائی ہم غیر مقلد بھی تو یہی کچھ کرتے ہیں - کہ قرآن و احادیث کو امام صاحب کے قول پر مقدم رکھتے ہیں اگر ان امام صاحب کا قول احادیث نبوی کے صحیح مفہوم کے مطابق ہو تو مان لو اگر نہیں- تو رد کردو - کیا یہ مجتھد کے قول کو رد کرنے کا مہذب طریقہ نہیں؟-
اہل حدیث جو کرتے ہیں اس پر اعتراض کا یہ موقع و محل نہیں میں صرف یہ بتا رہا ہوں کہ احناف فقہاء نے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے اجتھادات سے اختلاف کیا ہے اور احناف کچھ مسائل میں فتوی امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے اقوال پر نہیں اس لئیے احناف تقلید شخصی سے مراد فرد واحد کی تقلید نہیں لیتے بلکہ ایک مسلک کی تقلید مراد لیتے ہیں
آپ کہتے ہیں کہ "یہ مکمل کی بات میں کہاں کہی ذرا وضاحت فرمائیں گے ؟"
تو آپ کا قول ہی یہاں پر منشن کرتا ہوں "ایک عالم یا مجتھد خطا کرسکتا ہے لیکن جب اس عالم کے اقوال کی چھان پٹک فقہاء کی ایک جماعت کرچکی ہو اور اس اقوال میں سے اجتھادی خطا کی نشان دہی کرچکی ہو تو پھر اس مسلک کی تقلید کی جائے "
یہاں "چھان پٹک فقہاء کی ایک جماعت کرچکی" سے مراد کیا مکمل ہو چکی نہیں ہے؟؟؟
والسلام-
"ایک جماعت کا کوئی عمل کرچکنا" کا جملہ مکمل پر دلالت نہیں کرتا
اگر کہا جائے کہ دعوت کسی تقریب میں ایک جماعت کھانا کھا "چکی" ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں کھانا کھانے کا عمل "مکمل " ہو چکا ہے بلکہ یہ عین ممکن ہے ایک دوسری جماعت کھانا کھا رہی ہے یا کھانے والی ہو
اسی طرح فقہاء کی ایک جماعت اگر تحقیق کا کام مکمل کرچکی ہو تو یہ لازم نہیں آتا کہ تحقیق کا کام اب نہیں ہورہا
آج کے دور میں بھی فقہاء نے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے اقوال پر تحقیق کی ہے اور آئندہ دور میں بھی ہوسکتی ہے
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,397
پوائنٹ
891
حضرت معاذ رضی اللہ عنہ نے لوگوں سے تین امور سے متعلق پوچھا ۔ ان میں سے ایک یہ تھا کہ تم لوگ ایک عالم کی پھسلن (علمی خطا ) سے کیسے بچو گے پھر حضرت معاذ رضی اللہ عنہ نے خود ہی جواب دیا کہ اگر عالم ہدایت یافتہ بھی ہو تو اس کی تقلید مت کرو اور اگر وہ کسی دینی معاملہ میں پھسل جائے تو ممکن ہے وہ بعد میں توبہ کرلے
جضرت معاذ کے قول سے ہر کوئي سمجھ سکتا ہے کہ انہوں جو تقلید سے منع کیا اس میں دو نکات تھے
1- ایک عالم کی تقلید کرنا ۔ فرد واحد کی تقلید تو احناف بھی نہیں کرتے ۔ کوئی ایک حنفی بھی ایسا نہیں جو ہر شرعی معاملہ میں امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی تقلید کرتا ہو !!!
یہاں حضرت معاذ رضی اللہ عنہ ہر گز یہ نہیں کہہ رہے کہ "ایک عالم" ، "فرد واحد" کی ہر ہر بات میں تقلید نہ کرنا اور چند ایک باتوں میں بے شک کر لینا۔ مثال کے طور پر کوئی شخص کسی ایک مسئلہ میں بھی دلائل کو چھوڑ کر( یا اس کے خلاف) کسی ایک شخص کے قول کو بلا دلیل مان لے (اس کی تقلید کر لے) تو وہ بھی حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کے اس قول کی رو سے ممنوعہ تقلید کی زد میں آ جائے گا۔ اور احناف بھی یہی کرتے ہیں، اکثر مسائل میں امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی بلا دلیل بات مانتے ہیں، اب جس جس مسئلہ میں بھی امام صاحب کی بلا دلیل بات مان کر ان کی تقلید کی جائے گی، اس مسئلہ پر تقلیداً عمل کرنا حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کے اس قول کی رو سے غلط محض قرار پائے گا۔
کیونکہ جس انداز سے آپ تردید کر رہے ہیں، ایسا تو غالباً کوئی فرقہ، کوئی شخص اس امت محمدیہ میں نہیں گزرا جو کسی ایک عالم کی سو فیصد تمام باتوں کو اپنے اوپر لاگو کرتا ہو اور سرمو اس کی کسی بات سے انحراف نہ کرتا ہو۔ تغلیب کے قائدے کی رو سے اکثر پر، کل کا اطلاق کر کے تردید کی جاتی ہے۔ ورنہ آپ ہی بتائیے کہ یہ جلیل القدر صحابی اپنے دور میں کن لوگوں کو ایسی تقلید سے منع کر رہے ہیں؟

ایک عالم یا مجتھد خطا کرسکتا ہے لیکن جب اس عالم کے اقوال کی چھان پٹک فقہاء کی ایک جماعت کرچکی ہو اور اس اقوال میں سے اجتھادی خطا کی نشان دہی کرچکی ہو تو پھر اس مسلک کی تقلید کی جائے تو وہ عملا فرد واحد کی تقلید نہیں ہوتی اگرچہ اس کواصطلاحا تقلید شخصی کہا جائے
خطا ایک عالم یا مجتہد سے بھی ممکن ہے اور چھان پھٹک کرنے والی فقہاء کی جماعت سے بھی ممکن ہے۔ لیکن یہاں مسئلہ اتنا سادہ تو ہے ہی نہیں، خاص طور پر جب فقہاء کی ایک دوسری جماعت، انہی مسائل میں، ایک دوسرے امام کے قول کو دلائل کی رو سے راجح قرار دیتی ہو، تیسری جماعت، اپنے امام کے اقوال کی چھان پھٹک کر کے کسی تیسرے ہی نتیجہ تک پہنچ رہی ہو اور چوتھی جماعت کا مؤقف کچھ اور ہی ہو۔۔۔۔۔ سوال یہ ہے کہ فقہاء نے جب چھان پھٹک کی تو قرآن و سنت کی ہی میزان پر پرکھ کر قول کو دیکھا ہوگا کہ درست ہے یا غلط۔ اور پھر ہی اجتہادی خطاؤں کی نشاندہی کی ہوگی۔ ایسی صورت میں اصل چھوڑ کر فرع کی تقلید کرنا ویسے ہی لاحاصل شے ہے۔ پہلے تو یہ طے کیجئے کہ امام صاحب نے واقعتا ایسا کہا ہے یا نہیں۔ پھر یہ دیکھئے کہ ایک ہی مسئلہ میں ایک ہی امام سے متنازع اقوال میں سے کون سا قول آخری ہے، پھر اس قول کے دلائل تلاش کیجئے اور پھر صاحبین کے قول سے اور امام زفر کے قول سے بھی تقابل کیجئے۔ ہر ہر لیول پر غلطیوں کے امکانات بڑھتے چلے جاتے ہیں۔ اور ایسی صورت میں حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کا یہ قول زیادہ شدت کے ساتھ اختیار کرنا پڑے گا تاکہ عالم کی تقلید سے بھی بچیں اور تقلیدا ان کے قول کی جانب دعوت دینے والوں سے بھی دامن کو بچائیں۔

2- وہ عالم زندہ ہو ۔ احناف جن فقہاء کی تقلید کرتے ہیں وہ اس دنیا سے رخصت ہوچکے ہیں۔
شاید آپ نے یہ نکتہ حضرت عبداللہ بن مسعود والے قول سے اخذ کر کے یہاں بھی شامل کیا ہے۔ خیر دونوں کا جواب ایک ہی ہے:

پہلی بات یہ کہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے قول کی رو سے، جب کوئی چارہ نہ ہو تو، دنیا سے رخصت ہو جانے والے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی تقلید کی اجازت دی گئی ہے، جب کہ آپ صحابہ کی تقلید نہیں کرتے۔ اور صحابی کا قول، جب تک دلائل اس کے خلاف نہ ہوں، بذات خود حجت ہوتا ہے۔جبکہ دیگر ائمہ جن کی تقلید کی دعوت دی جاتی ہے ان کا قول نہ صرف یہ کہ حجت نہیں، بلکہ خود انہی ائمہ سے تقلید کے خلاف اقوال مروی ہیں۔

دوسری بات غور کرنے کی یہ ہے کہ آخر زندہ اور مردہ عالم میں فرق کیا ہے، کہ ایک کی تقلید تو ناجائز ہو اور دوسرے کی بالکل حق؟
تو غور کرنے سے ایک دو باتیں معلوم ہوتی ہیں:

پہلا فرق تو یہ کہ زندہ عالم کا فتنے میں پڑنے کا چانس ہمیشہ برقرار رہتا ہے۔ لہٰذا اس کی گمراہی دوسروں کو بھی لے ڈوبتی ہے۔ جبکہ مردے کا معاملہ لوگوں کے سامنے ہوتا ہے کہ اس کی موت ایمان پر ہوئی یا گمراہی پر۔

دوسرا فرق یہ کہ ہر قسم کے مردے کی تقلید بھی درست نہیں۔ کیونکہ صحابہ کرام جو وفات پا چکے ہیں، ان کے لئے کلھم عدول اور رضی اللہ عنہم و رضو عنہ کی بشارت ان کے ایمان پر خاتمے کی ناقابل تردید دلیل ہے۔کیا یہی دلیل ہر مردہ عالم کے بارے میں موجود ہے؟؟؟

ایک اہم نکتہ یہ بھی ہے کہ مردے کی تقلید کی بات تب ہے جب کوئی چارہ نہ ہو، یعنی عمومی حالات میں یہ بھی منع ہی ہے۔

تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ احناف جو تقلید کرتے ہیں اس پر عمل کرنا حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کے قول سے نہیں ٹکراتا
اس کا یہی مطلب ہوا کہ احناف جو تقلید کرتے ہیں وہ حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کے قول کے عین مخالف ہی ہے۔ واللہ اعلم۔
ویسے آپ حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کے قول کا درست محل بھی بیان کر دیں تو مناسب ہوگا۔ تاکہ معلوم تو ہو کہ حضرت معاذ ہدایت یافتہ عالم کی بھی تقلید سے منع کیوں کر رہے ہیں؟ اور کس کو منع کر رہے ہیں تابعین کو؟ اور کس کی تقلید سے منع کر رہے ہیں ایک تابعی عالم کی تقلید سے؟اس سے تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ کسی تابعی عالم کی تقلید کی اجازت نہیں چاہے وہ زندہ ہو یا وفات پا چکا ہو۔ اور چاہے فقہاء کی جماعت چھان پھٹک کر چکی ہو، یعنی یہ ثابت ہو چکا ہو کہ وہ تابعی عالم ہدایت پر ہے، تب بھی اس کی تقلید کی اجازت نہیں۔

اللہ تبارک و تعالی ہی سے ہدایت کا سوال ہے
آمین یا رب العالمین۔
 

تلمیذ

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 12، 2011
پیغامات
765
ری ایکشن اسکور
1,506
پوائنٹ
191
یہاں حضرت معاذ رضی اللہ عنہ ہر گز یہ نہیں کہہ رہے کہ "ایک عالم" ، "فرد واحد" کی ہر ہر بات میں تقلید نہ کرنا اور چند ایک باتوں میں بے شک کر لینا۔ مثال کے طور پر کوئی شخص کسی ایک مسئلہ میں بھی دلائل کو چھوڑ کر( یا اس کے خلاف) کسی ایک شخص کے قول کو بلا دلیل مان لے (اس کی تقلید کر لے) تو وہ بھی حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کے اس قول کی رو سے ممنوعہ تقلید کی زد میں آ جائے گا۔ اور احناف بھی یہی کرتے ہیں، اکثر مسائل میں امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی بلا دلیل بات مانتے ہیں، اب جس جس مسئلہ میں بھی امام صاحب کی بلا دلیل بات مان کر ان کی تقلید کی جائے گی، اس مسئلہ پر تقلیداً عمل کرنا حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کے اس قول کی رو سے غلط محض قرار پائے گا۔
کیونکہ جس انداز سے آپ تردید کر رہے ہیں، ایسا تو غالباً کوئی فرقہ، کوئی شخص اس امت محمدیہ میں نہیں گزرا جو کسی ایک عالم کی سو فیصد تمام باتوں کو اپنے اوپر لاگو کرتا ہو اور سرمو اس کی کسی بات سے انحراف نہ کرتا ہو۔ تغلیب کے قائدے کی رو سے اکثر پر، کل کا اطلاق کر کے تردید کی جاتی ہے۔ ورنہ آپ ہی بتائیے کہ یہ جلیل القدر صحابی اپنے دور میں کن لوگوں کو ایسی تقلید سے منع کر رہے ہیں؟
۔
حضرت معاذ رضی اللہ عنہ نے ایک عالم یعنی فرد واحد کی تقلید سے منع کیا ۔ آپ نے کہا کہ ایک عالم یعنی فرد واحد کی جزوی تقلید بھی اس قول سے منع ہے اور احناف امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی جزوی تقلید کرتے ہیں۔
ایک بات تو واضح ہوکئی ہے کہ آپ حضرات بھی قائل ہیں کہ احناف امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی کلی تقلید نہیں کرتے ۔
بہر حال اب میں آپ کو اس جزوی تقلید کی حقیقت آپ کو بتاتا ہوں تاکہ یہ بات واضح ہو کہ جو جزوی تقلید شخصی احناف کرتے ہیں وہ بھی حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کے قول کے منافی نہیں۔
بعض امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے وہ اقوال ہیں جن پر فقہ حنفی کا فتوی نہیں (دوسرے الفاظ میں فقہاء احناف نے امام ابو حنیفہ سے اختلاف کیا )
اس کے علاوہ باقی معاملات میں جہاں فقہ حنفی میں فتوی امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے قول پر ہے تو ایک عامی اگر اس مسئلہ میں امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے قول پر اس لئیے عمل کرتا ہے کہ فقہاء کی ایک جماعت نے اس قول کی دلائل کی بنیاد پر تائید کی ہے تو یہ عامی فرد واحد کی تقلید نہیں کر رہا ہے بلکہ ایک جماعت کی تقلید کر رہا ہے اور حضرت معاذ رضی اللہ عنہ ایک عالم کی تقلید سے منع کر رہے ہیں ان کے قول میں جماعت کی تقلید کا کوئي تذکرہ نہیں۔ اس لئیے حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کا قول احناف کی ضد میں کسی طرح بھی ثابت نہیں کیا جاسکتا
خطا ایک عالم یا مجتہد سے بھی ممکن ہے اور چھان پھٹک کرنے والی فقہاء کی جماعت سے بھی ممکن ہے۔ لیکن یہاں مسئلہ اتنا سادہ تو ہے ہی نہیں، خاص طور پر جب فقہاء کی ایک دوسری جماعت، انہی مسائل میں، ایک دوسرے امام کے قول کو دلائل کی رو سے راجح قرار دیتی ہو، تیسری جماعت، اپنے امام کے اقوال کی چھان پھٹک کر کے کسی تیسرے ہی نتیجہ تک پہنچ رہی ہو اور چوتھی جماعت کا مؤقف کچھ اور ہی ہو۔۔۔۔۔ سوال یہ ہے کہ فقہاء نے جب چھان پھٹک کی تو قرآن و سنت کی ہی میزان پر پرکھ کر قول کو دیکھا ہوگا کہ درست ہے یا غلط۔ اور پھر ہی اجتہادی خطاؤں کی نشاندہی کی ہوگی۔ ایسی صورت میں اصل چھوڑ کر فرع کی تقلید کرنا ویسے ہی لاحاصل شے ہے۔
یہاں مجھے آپ کے اعتراض پر حیرت ہوئی ہے ۔ حیرت کی وجہ یہ ہے جب فقہاء نے جب چھان پٹک کرقرآن وحدیث کے مطابق فتاوی دیے تو ہمیں ان فتاوی کو چھوڑ کر قران و حدیث پر عمل کرنا چاہئیے ۔ جب فتاوی قراں و حدیث کی روشنی میں ہیں تو ان فتاوی پر عمل بھی قران و حدیث پر عمل ہے ۔ میں اعتراض سمجھنے سے قاصر ہوں

پہلے تو یہ طے کیجئے کہ امام صاحب نے واقعتا ایسا کہا ہے یا نہیں۔ پھر یہ دیکھئے کہ ایک ہی مسئلہ میں ایک ہی امام سے متنازع اقوال میں سے کون سا قول آخری ہے، پھر اس قول کے دلائل تلاش کیجئے اور پھر صاحبین کے قول سے اور امام زفر کے قول سے بھی تقابل کیجئے۔ ہر ہر لیول پر غلطیوں کے امکانات بڑھتے چلے جاتے ہیں۔ اور ایسی صورت میں حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کا یہ قول زیادہ شدت کے ساتھ اختیار کرنا پڑے گا تاکہ عالم کی تقلید سے بھی بچیں اور تقلیدا ان کے قول کی جانب دعوت دینے والوں سے بھی دامن کو بچائیں۔
شاید آپ نے یہ نکتہ حضرت عبداللہ بن مسعود والے قول سے اخذ کر کے یہاں بھی شامل کیا ہے۔ خیر دونوں کا جواب ایک ہی ہے:
پہلی بات یہ کہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے قول کی رو سے، جب کوئی چارہ نہ ہو تو، دنیا سے رخصت ہو جانے والے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی تقلید کی اجازت دی گئی ہے، جب کہ آپ صحابہ کی تقلید نہیں کرتے۔ اور صحابی کا قول، جب تک دلائل اس کے خلاف نہ ہوں، بذات خود حجت ہوتا ہے۔جبکہ دیگر ائمہ جن کی تقلید کی دعوت دی جاتی ہے ان کا قول نہ صرف یہ کہ حجت نہیں، بلکہ خود انہی ائمہ سے تقلید کے خلاف اقوال مروی ہیں۔
دوسری بات غور کرنے کی یہ ہے کہ آخر زندہ اور مردہ عالم میں فرق کیا ہے، کہ ایک کی تقلید تو ناجائز ہو اور دوسرے کی بالکل حق؟
تو غور کرنے سے ایک دو باتیں معلوم ہوتی ہیں:
پہلا فرق تو یہ کہ زندہ عالم کا فتنے میں پڑنے کا چانس ہمیشہ برقرار رہتا ہے۔ لہٰذا اس کی گمراہی دوسروں کو بھی لے ڈوبتی ہے۔ جبکہ مردے کا معاملہ لوگوں کے سامنے ہوتا ہے کہ اس کی موت ایمان پر ہوئی یا گمراہی پر۔
دوسرا فرق یہ کہ ہر قسم کے مردے کی تقلید بھی درست نہیں۔ کیونکہ صحابہ کرام جو وفات پا چکے ہیں، ان کے لئے کلھم عدول اور رضی اللہ عنہم و رضو عنہ کی بشارت ان کے ایمان پر خاتمے کی ناقابل تردید دلیل ہے۔کیا یہی دلیل ہر مردہ عالم کے بارے میں موجود ہے؟؟؟
ایک اہم نکتہ یہ بھی ہے کہ مردے کی تقلید کی بات تب ہے جب کوئی چارہ نہ ہو، یعنی عمومی حالات میں یہ بھی منع ہی ہے۔
میں نے یہاں زندہ عالم کی بات حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے قول کے تناظر میں نہیں کہی ۔ ان کے قول کے لئیے الگ تھریڈ بنایا ہے ۔
حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ نے عالم کی تقلید سے اس لئيے منع کیا کہیں وہ عالم جس کی تقلید کی جارہی ہے حق راہ سے پھسل نہ جائے اور یہ بھی ممکن ہے وہ فتنہ میں پڑنے کے بعد توبہ کرلے اور توبہ وہی کرتا ہے جو زندہ ہوتا ہے مردہ توبہ نہیں کرسکتا ۔ اسی تناظر میں میں نے کہا تھا کہ حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ نے زندہ عالم کی تقلید سے منع کیا ہے

حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ نے زندہ عالم کی تقلید سے منع کیا مردہ علماء کے متعلق کچھ نہیں کہا اس لئیے مردہ عالم کے تقلید سے متعلق حضرت عبد اللہ بن مسعود والے تھریڈ میں ہی عرض کروں گا ان شاء اللہ


اس کا یہی مطلب ہوا کہ احناف جو تقلید کرتے ہیں وہ حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کے قول کے عین مخالف ہی ہے۔ واللہ اعلم۔
ویسے آپ حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کے قول کا درست محل بھی بیان کر دیں تو مناسب ہوگا۔ تاکہ معلوم تو ہو کہ حضرت معاذ ہدایت یافتہ عالم کی بھی تقلید سے منع کیوں کر رہے ہیں؟ اور کس کو منع کر رہے ہیں تابعین کو؟ اور کس کی تقلید سے منع کر رہے ہیں ایک تابعی عالم کی تقلید سے؟اس سے تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ کسی تابعی عالم کی تقلید کی اجازت نہیں چاہے وہ زندہ ہو یا وفات پا چکا ہو۔ اور چاہے فقہاء کی جماعت چھان پھٹک کر چکی ہو، یعنی یہ ثابت ہو چکا ہو کہ وہ تابعی عالم ہدایت پر ہے، تب بھی اس کی تقلید کی اجازت نہیں۔
حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ نے ایک عالم کی تقلید سے منع کیا لیکن یہ کہیں نہیں کہا کہ اگر ایک جماعت اس عالم کے اقوال کی چھان پٹک کر بھی چکی ہو تو پھر بھی اس عالم کی تقلید مت کرنا ۔
کوئي عالم اگر صحیح راہ پر چل رہا ہو تو ظاہرا ہدایت یافتہ ہی کہلاتا ہے لیکن اس بات کوئی ضمانت نہیں ہوتی کہ وہ کوئي لغزش نہیں کرے گا ۔ اب عالم کی لغزش سے کیسے بچا جائے تو اس کا حل حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ یہ بتارہے ہیں کے فرد واحد کی تقلید سے بچو ۔ جب ایک جماعت اس عالم کے اقوال کی تحقیق کر چکی ہو تو اب ان اقوال پر عمل کرنا اس عالم (فرد واحد) کی تقلید نہیں کہلائے گی بلکہ اس جماعت کی تقلید کہلائے گے اور جماعت کی تقلید کے بارے میں حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کا قول خاموش ہے اور جماعت کی تقلید کی مذمت حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کے قول سے ثابت نہیں ہوتی
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,397
پوائنٹ
891
بات پھر تقلید وغیرہ کی دوسری بحثوں میں الجھ گئی۔
آپ نے اعتراض یہ کیا تھا کہ اہلحدیث حضرات معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کا آدھا قول پیش کرتے ہیں، وہ درست نہیں۔ اور مکمل جملہ سے بات کچھ اور ثابت ہوتی ہے۔ اب تک اس کا ثبوت آپ کے ذمہ ہے کہ آدھا قول پیش کرنے سے مفہوم کچھ اور ثابت ہوتا ہے اور مکمل قول سے اس مفہوم کی تردید ہوتی ہے۔ آپ کے دو بنیادی اعتراضات تھے:

جضرت معاذ کے قول سے ہر کوئي سمجھ سکتا ہے کہ انہوں جو تقلید سے منع کیا اس میں دو نکات تھے
1- ایک عالم کی تقلید کرنا ۔ فرد واحد کی تقلید تو احناف بھی نہیں کرتے ۔ کوئی ایک حنفی بھی ایسا نہیں جو ہر شرعی معاملہ میں امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی تقلید کرتا ہو !!!
آپ یہ ثابت کر دیجئے کہ حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کے قول میں عالم کی ہر ہر بات کی تقلید کی ممانعت ہے۔
تقلید کی تعریف میں اختلاف کے باوجود اس حد تک سب متفق ہیں کہ "کسی غیر نبی کے قول کو بلا دلیل مان لینا" ۔ یہاں کسی کے تمام اقوال کی بات ہی نہیں۔ لہٰذا جب حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کسی عالم کی تقلید سے منع کر رہے ہیں تو اس سے مراد اس عالم کی کسی بھی بات کو بلا دلیل مان لینا ہے۔ نہ کہ اس عالم کے ہر ہر قول کو بلا دلیل ماننا۔

پھر اس جزوی تقلید پر مزید آپ کا تبصرہ یہ تھا:

بہر حال اب میں آپ کو اس جزوی تقلید کی حقیقت آپ کو بتاتا ہوں تاکہ یہ بات واضح ہو کہ جو جزوی تقلید شخصی احناف کرتے ہیں وہ بھی حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کے قول کے منافی نہیں۔
بعض امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے وہ اقوال ہیں جن پر فقہ حنفی کا فتوی نہیں (دوسرے الفاظ میں فقہاء احناف نے امام ابو حنیفہ سے اختلاف کیا )
اس کے علاوہ باقی معاملات میں جہاں فقہ حنفی میں فتوی امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے قول پر ہے تو ایک عامی اگر اس مسئلہ میں امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے قول پر اس لئیے عمل کرتا ہے کہ فقہاء کی ایک جماعت نے اس قول کی دلائل کی بنیاد پر تائید کی ہے تو یہ عامی فرد واحد کی تقلید نہیں کر رہا ہے بلکہ ایک جماعت کی تقلید کر رہا ہے اور حضرت معاذ رضی اللہ عنہ ایک عالم کی تقلید سے منع کر رہے ہیں ان کے قول میں جماعت کی تقلید کا کوئي تذکرہ نہیں۔ اس لئیے حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کا قول احناف کی ضد میں کسی طرح بھی ثابت نہیں کیا جاسکتا
پہلے تو یہ فرما دیجئے کہ فرد واحد کے قول کی تائید اگر ایک جماعت کر دے تو اسے جماعت کی تقلید کس کس عالم نے قرار دیا ہے۔ تقلید جماعتی کی کوئی تعریف کہیں آپ کی نظر سے گزری ہو تو پیش فرمائیں۔

پھر یہ سوچئے کہ حضرت معاذ رضی اللہ عنہ تو فرماتے ہیں کہ عالم کی تقلید نہ کرو۔ اور آپ یہ کہہ رہے ہیں کہ اس سے مراد یہ ہے کہ اکیلے عالم کی تقلید نہ کرو، لیکن اگر بہت سارے علماءکسی بات پر اسی عالم کے قول کی تائید کر دیں تو اب اس عالم کی تقلید کر لو۔ اب آپ فرمائیے یہ مراد حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کے قول سے کیسے ثابت ہو رہی ہے؟

دوسری بات یہ کہ جب تک فقہاء کی جماعت نے امام ابو حنیفہ کے اقوال کی تائید نہیں کی تھی، کیا آپ مانتے ہیں کہ تب تک ان کی تقلید کرنے والے حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کے قول کے مطابق مذموم تقلید ہی کر رہے تھے؟

تیسری بات یہ کہ حقیقی دنیا میں کتنے عامی ہیں جو امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی تقلید اس لئے کرتے ہیں کیونکہ بہت سارے فقہاء نے ان کے دلائل کی جانچ پرکھ کے بعد تائید کی ہے؟ ایسے لوگ آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں۔ راہ چلتے کسی عامی سے پوچھ لیجئے اور پھر بتائیے کہ کتنے لوگوں نے تقلید کے جواز میں یہ بات کہی ہے۔

چوتھی بات یہ کہ ایک عالم کے اقوال کی تائید اگر تو کوئی ایسے لوگ کریں جو بذات خود اسی عالم کی تقلید میں مبتلا نہ ہوں، تو بھی کوئی بات ہے۔ عالم کے اقوال کی تائید میں انہی کے مقلدین علماء کے اقوال کو بنیاد بنانا بجائے خود مذموم ہے۔ ورنہ یہ بات کیا ظاہر نہیں کہ امام ابو حنیفہ کے اقوال کی تائید اگر فقہاء کی ایک جماعت کرتی ہے، تو فقہاء کی کئی جماعتیں (شافعی، مالکی، حنبلی وغیرہ) ان کی تردید بھی تو کرتی ہیں؟

پھر یہ فرمائیے کہ، حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کے قول کا منشا کیا تھا؟ کیا یہ کہ ایک عالم کی تقلید نہ کرنا، لیکن اگر بہت سارے لوگ اس کے پیچھے چلنے لگ جائیں تو پھر بے شک ان سب کی تقلید کر لینا؟ اگر یہ منشا تھا تو اہلحدیث کا ان کے قول کو آدھا پیش کرنا خیانت ہے، اگر یہ منشا نہیں تھا تو اسے خیانت قرار دینا بجائے خود غلط ہے۔ کیونکہ یہ بات طے ہے کہ:
  • حضرت معاذ رضی اللہ عنہ فرد واحد کی ہر ہر بات کی تقلید کی مذمت کر ہی نہیں رہے، نا اُس دور میں ایسا کوئی گروہ تھا جو اس فعل میں مبتلا ہو کہ ایک عالم کو پکڑ کر اس کی ہر ہر بات کو بلا دلیل مانتا چلا جائے۔
  • اور آپ کو یہ بھی اقرار ہے کہ حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کا قول جماعت کی تقلید کے ضمن میں خاموش ہے۔

تو آخر کچھ تو طے کیجئے کہ حضرت معاذ رضی اللہ عنہ لفظ "تقلید" استعمال کر کے اور "فرد واحد" کا لفظ استعمال کر کے کسی نہ کسی چیز سے جو منع کر رہے ہیں، تو یہ چیز آخر ہے کیا؟ جس سے حضرت معاذ رضی اللہ عنہ تابعین کو ڈرا رہے ہیں؟
 

تلمیذ

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 12، 2011
پیغامات
765
ری ایکشن اسکور
1,506
پوائنٹ
191
بات پھر تقلید وغیرہ کی دوسری بحثوں میں الجھ گئی۔
آپ نے اعتراض یہ کیا تھا کہ اہلحدیث حضرات معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کا آدھا قول پیش کرتے ہیں، وہ درست نہیں۔ اور مکمل جملہ سے بات کچھ اور ثابت ہوتی ہے۔ اب تک اس کا ثبوت آپ کے ذمہ ہے کہ آدھا قول پیش کرنے سے مفہوم کچھ اور ثابت ہوتا ہے اور مکمل قول سے اس مفہوم کی تردید ہوتی ہے۔
حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کو جو آدھا قول پیش کیا جاتا ہے وہ کچھ اس طرح ہے
اما العالم فان اهتدي فلا تقلدوه دينكم
اگر عالم ہدایت پر بھی ہو تو اس کی دین میں تقلید نہ کرو
اس آدھے قول سے تاثر ابھرتا ہے ہر قسم کے عالم کی تقلید ممنوع ہے خواہ وہ عالم حیات ہو اور خواہ وہ عالم فوت ہو چکا ہو۔
خواہ اس عالم کی تائید دلائل کی بنیاد پر علماء کی جماعت نے کی ہو یا تائید نہ کی ہو
اب حضرات معاذ رضی اللہ عنہ کے قول میں سے دیگر اقتباسات بھی پیش خدمت ہیں اور ان اقتباسات سے وہ مفہوم نہیں رہتا جو اوپر کے آدھے قول سے مفہوم سمجھ میں آتا ہے
فَإِنَّ الْمُؤْمِنَ يُفْتَتَنُ ثُمَّ يَتُوبُ
( ممکن ہے ) کہ مومن فتنہ میں پڑے پھر توبہ کرلے
توبہ وہی کرتا ہے جو زندہ ہو ۔ یعنی اس قول سے یہ معلوم ہوتا ہے حضرت معاذ رضی اللہ عنہ زندہ عالم کی تقلید سے منع کر رہے ہیں
وَزَلَّةِ عَالِمٍ
ایک عالم کی لغزش سے بچنے کی لئیے حضرت معاذ رضی اللہ عنہ نے اس کی تقلید سے منع کیا
جب ایک عالم کے اقوال کی جانچ پڑتال ایک فقہاء کی جماعت کر چکی ہو تو فتنہ کا احتمال ختم ہوجاتا ہے
يد اللہ فوق الجماعہ
اللہ کا ہاتھ جماعت پر ہے
آپ خود دیکھ سکتے ہیں حضرات معاذ کے مکمل قول پیش کرنے سے یہ فرق واقع ہوا ہے
1- مردہ عالم کی تقلید سے متعلق حضرت معاذ رضی اللہ عنہ نے کچھ نہیں کہا
2- ایسے عالم کے متعلق جس کے قول کی جانچ پڑتال فقہاء کی ایک جماعت کر چکی ہےوہ خاموش ہیں
جب کہ جو ادھورا قول اہل حدیث حضرات پیش فرماتے ہیں اس میں مندجہ بالا دو نکات نہیں بلکہ یہ مفہوم نکلتا ہے کہ حضرت معاذ رضی اللہ عنہ نے ہر قسم (زندہ ۔ مردہ یا سنگل عالم یا تائید یافتہ از فقہاء) کے عالم کی تقلید منع ہے

آپ یہ ثابت کر دیجئے کہ حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کے قول میں عالم کی ہر ہر بات کی تقلید کی ممانعت ہے۔
تقلید کی تعریف میں اختلاف کے باوجود اس حد تک سب متفق ہیں کہ "کسی غیر نبی کے قول کو بلا دلیل مان لینا" ۔ یہاں کسی کے تمام اقوال کی بات ہی نہیں۔ لہٰذا جب حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کسی عالم کی تقلید سے منع کر رہے ہیں تو اس سے مراد اس عالم کی کسی بھی بات کو بلا دلیل مان لینا ہے۔ نہ کہ اس عالم کے ہر ہر قول کو بلا دلیل ماننا۔
میں بات کو آگے بڑھانے کے لئيے جزوی تقلید پر ہی بات کر رہا ہوں

پھر اس جزوی تقلید پر مزید آپ کا تبصرہ یہ تھا:
پہلے تو یہ فرما دیجئے کہ فرد واحد کے قول کی تائید اگر ایک جماعت کر دے تو اسے جماعت کی تقلید کس کس عالم نے قرار دیا ہے۔ تقلید جماعتی کی کوئی تعریف کہیں آپ کی نظر سے گزری ہو تو پیش فرمائیں۔
اس کو اصطلاحا تقلید حکمی کہتے ہیں ۔ اس کو غالبا جناب مفتی سعید پالن پوری نے بیان کیا ہے - اور وہ کتاب دارالعلوم دیوبند کی تائيد حاصل ہے ۔
لیکن میں جماعت کی تقلید کی بات ہی نہیں کی ۔ میں نے کہا تھا کہ ایک ایسے عالم یا فقیہ کی تقلید جس کی تائید فقہاء کی جماعت نے کی ہو اس تقلید کے متعلق حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کا قول خاموش ہے ۔ حضرت معاذ رضی اللہ عنہ نے ایک عالم کی پھسلن سے متعلق عرض کیا کہ اس سے اجتھادی خطا ہوسکتی ہے یا وہ فتنہ میں مبتلا ہو سکتا ہے لیکن جب ایک عالم کے اقوال کی جانچ پڑتال فقہاء کی جماعت کرچکی ہو تو ایسے فتنہ کا احتمال ختم ہوجاتا ہے کیوں اللہ کا ہاتھ جماعت پر ہے


پھر یہ سوچئے کہ حضرت معاذ رضی اللہ عنہ تو فرماتے ہیں کہ عالم کی تقلید نہ کرو۔ اور آپ یہ کہہ رہے ہیں کہ اس سے مراد یہ ہے کہ اکیلے عالم کی تقلید نہ کرو، لیکن اگر بہت سارے علماءکسی بات پر اسی عالم کے قول کی تائید کر دیں تو اب اس عالم کی تقلید کر لو۔ اب آپ فرمائیے یہ مراد حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کے قول سے کیسے ثابت ہو رہی ہے؟
میں نے کب کہا کہ حضرت معاذ رضی اللہ عنہ نے اس عالم کی تقلید کا کہا جس کی تائید علماء کی جماعت نے کی ہو میں تو کہتا ہوں اس تقلید کے متعلق حضرت معاذ رضی اللہ کا قول خاموش ہے
نوٹ : میرا یہ ہرگز کہنا نہیں کہ حضرت معاذ کا قول تقلید کی حمایت میں ہے ۔ میرا یہ کہنا ہے جس تقلید سے حضرت معاذ رضی اللہ عنہ نے منع کیا وہ تقلید احناف میں موجود نہیں اور جو تقلید احناف میں ہے اس کے متعلق حضرت معاذ رضی اللہ کا قول خاموش ہے
دوسری بات یہ کہ جب تک فقہاء کی جماعت نے امام ابو حنیفہ کے اقوال کی تائید نہیں کی تھی، کیا آپ مانتے ہیں کہ تب تک ان کی تقلید کرنے والے حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کے قول کے مطابق مذموم تقلید ہی کر رہے تھے؟
امام ابو حنیفہ کے دور میں جب وہ حیات تھے تو ان سے مسئلہ پوچھنے ایک عالم سے استفتاء تھا جس کو آپ حضرت تقلید نہیں کہتے ۔ اس لئیے یہ اعتراض ہی رد ہے
تیسری بات یہ کہ حقیقی دنیا میں کتنے عامی ہیں جو امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی تقلید اس لئے کرتے ہیں کیونکہ بہت سارے فقہاء نے ان کے دلائل کی جانچ پرکھ کے بعد تائید کی ہے؟ ایسے لوگ آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں۔ راہ چلتے کسی عامی سے پوچھ لیجئے اور پھر بتائیے کہ کتنے لوگوں نے تقلید کے جواز میں یہ بات کہی ہے۔
ایک عامی جب حنفی فقہ پر عمل کر رہا ہوتا ہے تو اس کو معلوم بھی نہیں ہوتا کہ اس مسئلہ پر امام ابو حنیفہ کا قول کیا ہے ۔ یہ بھی ممکن ہے جس مسئلہ پر امام ابو حنیفہ کا قول سمجھ کر عمل کرہا ہو ، وہاں فتوی امام یوسف کے قول پر ہو۔
لیکن ایک عامی کی لا علمی یہ بات ثابت نہیں ہوتی کہ امام ابو حنیفہ کے اقوال کی تائید فقہاء کی ایک جماعت نے نہیں کی۔
چوتھی بات یہ کہ ایک عالم کے اقوال کی تائید اگر تو کوئی ایسے لوگ کریں جو بذات خود اسی عالم کی تقلید میں مبتلا نہ ہوں، تو بھی کوئی بات ہے۔ عالم کے اقوال کی تائید میں انہی کے مقلدین علماء کے اقوال کو بنیاد بنانا بجائے خود مذموم ہے۔ ورنہ یہ بات کیا ظاہر نہیں کہ امام ابو حنیفہ کے اقوال کی تائید اگر فقہاء کی ایک جماعت کرتی ہے، تو فقہاء کی کئی جماعتیں (شافعی، مالکی، حنبلی وغیرہ) ان کی تردید بھی تو کرتی ہیں؟
جن حنفی فقہاء نے امام ابو حنیفہ کے اقوال کی تائید کی ہے وہ دلائل کی بنیاد پر ہے اور ان دلائل پر کتب بھی تحریر کی ہیں
ثانیا میں نے کہا کہ فقہاء کی ایک جماعت کی تائید کی بات کی تھی نہ کہ تمام مسلم فقہاء کی تائید کی بات
ثالثا امام ابو حنیفہ کے اقوال کی تائید دلائل کی بنیاد پر جو فقہاء کی جماعت نے کی ہے میں اس بنیاد پر امام ابو حنیفہ کی تقلید کی اثبات کے لئیے بات نہیں کر رہا بلکہ حنفی مسلک کی تقلید یا عدم تقلید ہمارا موضوع نہیں۔ کہنے کا مقصد صرف اتنا ہے جس عالم کے اقوال کی تائید دلائل کی بنیاد فقہاء کی ایک جماعت کرچکی ہو اس عالم کی تقلید کے متعلق حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کا قول خاموش ہے
پھر یہ فرمائیے کہ، حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کے قول کا منشا کیا تھا؟ کیا یہ کہ ایک عالم کی تقلید نہ کرنا، لیکن اگر بہت سارے لوگ اس کے پیچھے چلنے لگ جائیں تو پھر بے شک ان سب کی تقلید کر لینا؟ اگر یہ منشا تھا تو اہلحدیث کا ان کے قول کو آدھا پیش کرنا خیانت ہے، اگر یہ منشا نہیں تھا تو اسے خیانت قرار دینا بجائے خود غلط ہے۔
میں پہلے ثابت کر چکا ہوں کہ اگر حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کا پورا قول پیش کیا جائے تو جس تقلید سے منع کر رہیں وہ تقلید احناف میں نہیں ،

کیونکہ یہ بات طے ہے کہ:
حضرت معاذ رضی اللہ عنہ فرد واحد کی ہر ہر بات کی تقلید کی مذمت کر ہی نہیں رہے، نا اُس دور میں ایسا کوئی گروہ تھا جو اس فعل میں مبتلا ہو کہ ایک عالم کو پکڑ کر اس کی ہر ہر بات کو بلا دلیل مانتا چلا جائے۔
میں بھی اوپر جزوی تقلید کی بات کر رہا ہوں ہر ہر بات کی تقلید نہیں
اور آپ کو یہ بھی اقرار ہے کہ حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کا قول جماعت کی تقلید کے ضمن میں خاموش ہے۔
میں بھی یہی کہ رہا ہوں کہ اگر کسی عالم کی تائید دلائل کی بنیاد پر فقہاء کی ایک جماعت کرچکی ہو تو ایسی تقلید کی ممانعت سے حضرت معاذ رضي اللہ عنہ کا قول خاموش ہے ۔
تو آخر کچھ تو طے کیجئے کہ حضرت معاذ رضی اللہ عنہ لفظ "تقلید" استعمال کر کے اور "فرد واحد" کا لفظ استعمال کر کے کسی نہ کسی چیز سے جو منع کر رہے ہیں، تو یہ چیز آخر ہے کیا؟ جس سے حضرت معاذ رضی اللہ عنہ تابعین کو ڈرا رہے ہیں؟
ایک عالم لغزش یا فتنہ سے معصوم ہو یہ ناممکن ہے لیکن ایک عامی فرد واحد کے فتنہ سے کس طرح بچ سکتا ہے کیوں کہ عامی دلائل کو سمجھنے کی صلاحیت نہیں رکھتا تو اس کا حل حضرت معاذ رضی اللہ عنہ نے یہ بتایا کہ اس عالم کی تقلید نہ کی جائے
لیکن اگر ایک عالم کے اقوال کی تائید دلائل کی بنا پر فقہاء کی ایک جماعت کر چکی ہو تو ایسی تقلید کے متعلق حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کا قول خاموش ہے ۔
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,397
پوائنٹ
891
حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کو جو آدھا قول پیش کیا جاتا ہے وہ کچھ اس طرح ہے
اما العالم فان اهتدي فلا تقلدوه دينكم
اگر عالم ہدایت پر بھی ہو تو اس کی دین میں تقلید نہ کرو
اس آدھے قول سے تاثر ابھرتا ہے ہر قسم کے عالم کی تقلید ممنوع ہے خواہ وہ عالم حیات ہو اور خواہ وہ عالم فوت ہو چکا ہو۔
خواہ اس عالم کی تائید دلائل کی بنیاد پر علماء کی جماعت نے کی ہو یا تائید نہ کی ہو
قول کے بقیہ حصے کو ملا لینے سے بھی درج بالا دونوں باتیں ثابت نہیں ہوتیں۔ قائل کی مرضی کے برخلاف بزور کشید کر لیا جائے تو اور بات ہے۔


اب حضرات معاذ رضی اللہ عنہ کے قول میں سے دیگر اقتباسات بھی پیش خدمت ہیں اور ان اقتباسات سے وہ مفہوم نہیں رہتا جو اوپر کے آدھے قول سے مفہوم سمجھ میں آتا ہے
فَإِنَّ الْمُؤْمِنَ يُفْتَتَنُ ثُمَّ يَتُوبُ
( ممکن ہے ) کہ مومن فتنہ میں پڑے پھر توبہ کرلے
توبہ وہی کرتا ہے جو زندہ ہو ۔ یعنی اس قول سے یہ معلوم ہوتا ہے حضرت معاذ رضی اللہ عنہ زندہ عالم کی تقلید سے منع کر رہے ہیں
جو لوگ آج ائمہ کرام کی تقلید کرتے ہیں۔ کیا ان ائمہ کے اقوال میں تعارض نہیں ہوتا؟ کیا ایک ہی مسئلہ میں ایک ہی امام کے چار چار مختلف قول موجود نہیں؟
پس جس طرح زندہ عالم کے بارے میں ڈر ہے کہ وہ فتنہ میں پڑ سکتا ہے اور پھر وہ تو شاید توبہ کر لے، لیکن اس کے مقلدین اس کی تقلید میں توبہ کی توفیق نہ پائیں اور اس کے پرانے فتنہ والے قول پر ہی عمل پیرا رہیں۔
اسی طرح فوت شدہ ائمہ کے بارے میں یہی ڈر ہے، بلکہ ڈر کیا، یہ تو عین ثابت شدہ حقیقت ہے کہ ایک ہی مسئلہ میں امام صاحب سے کئی مختلف اقوال ملتے ہیں، اور کئی مرتبہ امام صاحب کا رجوع بھی ثابت ہوجاتا ہے، لیکن مقلدین پرانے قول پر ہی عمل پیرا ہوتے ہیں۔ اسی طرح یہ بھی عین ممکن ہے کہ کئی معاملات میں امام صاحب کا رجوع کرنا ہم تک پہنچا ہی نہ ہو۔ لہٰذا جس فتنہ میں مبتلا ہونے کا ڈر زندہ عالم کا ہے، وہی ڈر اس سے بڑھ کر فوت شدہ عالم کے بارے میں بھی ہے۔ اس لئے کہ زندہ عالم کی توبہ تو عین ممکن ہے کہ علم میں آجائے ۔ یا اس سے مل کر حال معلوم ہو جائے۔ لیکن فوت شدہ عالم کے بارے میں تو یہ ممکن ہی نہیں کہ آپ پورے یقین سے کہہ سکیں کہ فلاں قول پر وہ آخری سانس تک جمے رہے۔۔! اور فلاں سے انہوں نے توبہ کر لی تھی؟

لہٰذا جیسے زندہ کی تقلید میں خطرہ ہے کہ وہ فنتہ میں پڑے اور توبہ کر لے تو عین ممکن ہے کہ مقلدین فتنہ میں پڑ جائیں، لیکن توبہ نہ کر سکیں۔
وہی خطرہ مردہ کی تقلید میں بھی ہے کہ وہ فتنہ میں پڑے اور توبہ کر لے یا رجوع کر لے اور وہ توبہ یا رجوع مقلدین تک نہ پہنچ سکے۔اور وہ فتنہ میں پڑے رہیں۔

انجام کے لحاظ سے دونوں کی تقلید میں کچھ بھی فرق نہیں۔


وَزَلَّةِ عَالِمٍ
ایک عالم کی لغزش سے بچنے کی لئیے حضرت معاذ رضی اللہ عنہ نے اس کی تقلید سے منع کیا
جب ایک عالم کے اقوال کی جانچ پڑتال ایک فقہاء کی جماعت کر چکی ہو تو فتنہ کا احتمال ختم ہوجاتا ہے
يد اللہ فوق الجماعہ
اللہ کا ہاتھ جماعت پر ہے
کمال ہے۔ آپ بار بار ایک ہی بات دہرا رہے ہیں۔ اور ہماری بات پر توجہ نہیں کر رہے۔ بھائی، غور کیجئے کہ ایک عالم کے اقوال کی جانچ پڑتال فقہاء کی چار جماعتوں نے کی۔ ان میں سے تین جماعتوں نے دلائل کی بنیاد پر کہا کہ اس عالم کا یہ قول غلط ہے اور درست قول دوسرا ہے۔ ایک جماعت نے دلائل کی بنیاد پر (اگرچہ حقیقتا ایسا ہوا ہی نہیں ہے) کہا کہ اس عالم کا یہ قول عین کتاب و سنت کا منشا ہے۔ اب بتائیے کہ فتنہ کا احتمال ختم کیسے ہوا۔ ٪75 امکانات اب بھی یہی ہیں کہ اس عالم کا یہ قول غلط ہے۔ لہٰذا فتنہ کا احتمال اب بھی اتنا ہی ہے، جتنا تنہا اس عالم کے قول پر عمل کرنے میں تھا۔ اور اللہ کا ہاتھ تین چوتھائی جماعت پر ہوگا یا ایک چوتھائی پر؟

آپ خود دیکھ سکتے ہیں حضرات معاذ کے مکمل قول پیش کرنے سے یہ فرق واقع ہوا ہے
1- مردہ عالم کی تقلید سے متعلق حضرت معاذ رضی اللہ عنہ نے کچھ نہیں کہا
2- ایسے عالم کے متعلق جس کے قول کی جانچ پڑتال فقہاء کی ایک جماعت کر چکی ہےوہ خاموش ہیں
جب کہ جو ادھورا قول اہل حدیث حضرات پیش فرماتے ہیں اس میں مندجہ بالا دو نکات نہیں بلکہ یہ مفہوم نکلتا ہے کہ حضرت معاذ رضی اللہ عنہ نے ہر قسم (زندہ ۔ مردہ یا سنگل عالم یا تائید یافتہ از فقہاء) کے عالم کی تقلید منع ہے
1۔ زندہ یا مردہ عالم کی کوئی تفریق ان کے قول میں نہیں۔ یہ قول عام ہے۔
2۔ یہ آپ کا زبردستی کشید کردہ پوائنٹ ہے۔ نہ تو حنفی عوام فقہاء کی جانچ پرکھ کی وجہ سے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی تقلید کرتی ہے، اور نہ حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کے قول سے دور دراز سے بھی اس بات کی تائید ہوتی ہے کہ عالم کی تائید ایک جماعت کرے تو اس کی تقلید کی جا سکتی ہے۔ پھر ادھورے قول کو پیش کرنے پر بھی "تائید یافتہ از فقہاء" کا کوئی تذکرہ نہیں ہوتا اور پورا قول پیش کریں تب بھی "تائید یافتہ از فقہاء" کی کوئی بات نظر نہیں آتی۔ تو خیانت کیونکر؟

میں نے کب کہا کہ حضرت معاذ رضی اللہ عنہ نے اس عالم کی تقلید کا کہا جس کی تائید علماء کی جماعت نے کی ہو میں تو کہتا ہوں اس تقلید کے متعلق حضرت معاذ رضی اللہ کا قول خاموش ہے
نوٹ : میرا یہ ہرگز کہنا نہیں کہ حضرت معاذ کا قول تقلید کی حمایت میں ہے ۔ میرا یہ کہنا ہے جس تقلید سے حضرت معاذ رضی اللہ عنہ نے منع کیا وہ تقلید احناف میں موجود نہیں اور جو تقلید احناف میں ہے اس کے متعلق حضرت معاذ رضی اللہ کا قول خاموش ہے
گویا آپ یوں کہنا چاہتے ہیں کہ تقلید کی مذمت میں اہلحدیث جب بھی کوئی قول پیش کریں تو ہر قول کے ساتھ اس بارے میں بھی ضرور حکم ہونا چاہئے کہ اگر عالم کے قول کی تائید فقہاء کی ایک جماعت کر دے تو بھی اس کی تقلید کرنا منع ہے؟
اور جب تک خاص یہ بات اس قول میں نہیں ہوگی، تب تک اہلحدیث کا تقلید کی تردید میں کسی بھی قول کو پیش کرنا ہمیشہ ہمیش کے لئے خیانت ہی قرار پائے گا؟
بہت خوب!!!

اگرچہ یہ موضوع تو نہیں۔ لیکن آپ ہی بتائیے کہ تقلید کے موضوع پر اس قدر اقوال زریں میں سے کہیں کوئی ایسا قول بھی موجود ہے جس سے یہ ثابت ہوتا ہو کہ:
جب تک عالم کے قول کی تائید فقہاء کی ایک جماعت نہ کر دے تب تک اس کی تقلید حرام و ناجائز ہے۔۔؟

اور پھر ہم بھی یہی رویہ اختیار کر لیں کہ احناف تقلید کی حمایت میں جس قدر دلائل پیش کرتے ہیں، ہم ان سے مطالبہ کریں کہ جناب آپ نے فقط ایک عالم کی تقلید کو ہی ثابت نہیں کرنا، بلکہ ہر ہر دلیل میں یہ بھی ثابت کرنا ہے کہ ایک جماعت امام صاحب کے قول کی تائید کرے تو ہی اس کی تقلید کرنی جائز ہے۔ اور جس قول یا دلیل میں فقہاء کی ایک جماعت کی تائید کا تذکرہ نہ ہو، اسے ہم احناف کی خیانت باور کروانے لگ جائیں کہ جس قسم کی تقلید آپ کرتے ہیں، اس سے تو یہ قول خاموش ہے۔۔!!

دیکھئے نا حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کا قول تو اس بات سے بھی خاموش ہے کہ عالم فارسی النسل ہو تو کیا کرنا چاہئے۔ چونکہ آپ فارسی النسل امام کی تقلید کرتے ہیں، لہٰذا احناف جو تقلید کرتے ہیں، اس سے یہ قول خاموش ہے۔ اسے ان کے خلاف پیش کرنا خیانت ہے وغیرہ۔
اسی طرح حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کا قول تو اس بات سے بھی خاموش ہے کہ عالم اگر فقیہ بھی ہو تو کیا کرنا چاہئے۔ چونکہ آپ جن کی تقلید کرتے ہیں وہ فقیہ بھی تھے، لہٰذا حضرت معاذ کا قول احناف کے خلاف پیش کرنا خیانت ہے۔۔۔!

حقیقت یہ ہے محترم کہ جو طرز استدلال آپ نے اپنایا ہے، اس سے تو پھر کیا بات ہے جو ثابت نہیں کی جا سکتی اور کیا چیز ہے جسے خیانت باور نہیں کرایا جا سکتا۔

ظاہر ہے کہ کوئی بھی دلیل اپنے آپ میں تردید کے ہر ہر پہلو کا احاطہ نہیں کر سکتی۔ لہٰذا اگر ہم کوئی دلیل پیش کریں اور وہ کسی خاص پہلو سے "خاموش ہو" تو آپ اسے کیونکر ہماری جانب بطور خیانت منسوب کر سکتے ہیں؟


دوسری بات یہ کہ جب تک فقہاء کی جماعت نے امام ابو حنیفہ کے اقوال کی تائید نہیں کی تھی، کیا آپ مانتے ہیں کہ تب تک ان کی تقلید کرنے والے حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کے قول کے مطابق مذموم تقلید ہی کر رہے تھے؟
امام ابو حنیفہ کے دور میں جب وہ حیات تھے تو ان سے مسئلہ پوچھنے ایک عالم سے استفتاء تھا جس کو آپ حضرت تقلید نہیں کہتے ۔ اس لئیے یہ اعتراض ہی رد ہے
ایسے سرسری سا نہ گزریں۔ غور کیجئے۔ امام صاحب کی زندگی میں ہی ان کے تمام اقوال کی جانچ پرکھ ایک جماعت نے کر لی تھی؟ یا ان کی وفات کے فوری بعد سارے اقوال کی جانچ پرکھ ہو گئی تھی؟ حقیقت اس کے مختلف ہے۔ ان کے اقوال کی دلائل کے ساتھ تائید یا تردید تو ایک زمانے بعد تک ہوتی رہی بلکہ آج تک چل رہی ہے۔ لہٰذا مثلا امام صاحب کی وفات کے فوری بعد سے لے کر کئی سو سالوں تک جو لوگ ان کی تقلید بغیر فقہاء کی ایک جماعت کی تائید کے کرتے رہے، وہ مذموم تقلید میں مبتلا ہوئے یا نہیں۔

دوسری بات یہ کہ ہم یہاں حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کے قول کی روشنی میں بات کر رہے ہیں، تو ایسی صورت میں تو یہ مسئلہ امام صاحب کی زندگی میں اور بھی سنگین تھا۔ کیونکہ حضرت معاذ بقول آپ کے زندہ عالم ہی کی تقلید سے تو منع کر رہے ہیں۔ بلا دلیل کسی عالم کی بات ماننا چاہے وہ زندہ ہو یا مردہ، یہ تقلید ہے۔ یہ آپ سے کس نے کہا کہ زندہ سے پوچھیں تو استفتاء ہے اور مردہ کی مانیں تو تقلید؟ زندہ کے سامنے بھی بلا دلیل سر تسلیم خم کر دینا تقلید ہی ہے۔ لہٰذا اب دوبارہ سے فرمائیے کہ فقہاء کی تائید سے قبل جو لوگ گزرے، وہ مذموم تقلید میں مبتلا تھے یا وہ تقلید بھی محمود ہی تھی؟

تیسری بات یہ کہ حقیقی دنیا میں کتنے عامی ہیں جو امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی تقلید اس لئے کرتے ہیں کیونکہ بہت سارے فقہاء نے ان کے دلائل کی جانچ پرکھ کے بعد تائید کی ہے؟ ایسے لوگ آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں۔ راہ چلتے کسی عامی سے پوچھ لیجئے اور پھر بتائیے کہ کتنے لوگوں نے تقلید کے جواز میں یہ بات کہی ہے۔
ایک عامی جب حنفی فقہ پر عمل کر رہا ہوتا ہے تو اس کو معلوم بھی نہیں ہوتا کہ اس مسئلہ پر امام ابو حنیفہ کا قول کیا ہے ۔ یہ بھی ممکن ہے جس مسئلہ پر امام ابو حنیفہ کا قول سمجھ کر عمل کرہا ہو ، وہاں فتوی امام یوسف کے قول پر ہو۔
لیکن ایک عامی کی لا علمی یہ بات ثابت نہیں ہوتی کہ امام ابو حنیفہ کے اقوال کی تائید فقہاء کی ایک جماعت نے نہیں کی۔
لیجئے آپ نے اپنے بنائے ہوئے کچے سے گھروندے کو خود ہی توڑ ڈالا۔ آپ کو یاد دلاؤں آپ نے پہلے یہ بات کہی تھی:


بعض امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے وہ اقوال ہیں جن پر فقہ حنفی کا فتوی نہیں (دوسرے الفاظ میں فقہاء احناف نے امام ابو حنیفہ سے اختلاف کیا )
اس کے علاوہ باقی معاملات میں جہاں فقہ حنفی میں فتوی امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے قول پر ہے تو ایک عامی اگر اس مسئلہ میں امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے قول پر اس لئیے عمل کرتا ہے کہ فقہاء کی ایک جماعت نے اس قول کی دلائل کی بنیاد پر تائید کی ہے تو یہ عامی فرد واحد کی تقلید نہیں کر رہا ہے بلکہ ایک جماعت کی تقلید کر رہا ہے اور حضرت معاذ رضی اللہ عنہ ایک عالم کی تقلید سے منع کر رہے ہیں ان کے قول میں جماعت کی تقلید کا کوئي تذکرہ نہیں۔ اس لئیے حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کا قول احناف کی ضد میں کسی طرح بھی ثابت نہیں کیا جاسکتا
ہائی لائٹ کردہ عبارت پر غور کیجئے اور پھر انصاف سے فیصلہ کیجئے کہ جب عامی کسی بھی مسئلہ میں امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے قول پر اس لئے عمل کر ہی نہیں رہا کہ ایک جماعت نے اس قول کی دلائل کی بنیاد پر تائید کی ہے تو یہ عامی فرد واحد کی تقلید ہی کر رہا ہے نہ کہ ایک جماعت کی۔

آج ننانوے فیصدی عامی کسی بھی زندہ عالم کے پاس جاتے ہیں جو انہیں امام ابو حنیفہ یا صاحبین کا قول یا فتویٰ سنا دیتا ہے اور یہ عامی اس پر بلا چوں و چرا بلا دلیل عمل کر لیتے ہیں۔ یہی تقلید شخصی یا فرد واحد کی تقلید ہے، اسے آپ زندہ مفتی کی تقلید مانیں (کیونکہ وہ مفتی کی بات کو بلا دلیل مان رہا ہے، جو بقول آپ کے معاذ رضی اللہ عنہ کے قول کا منشا تھا) یا امام ابو حنیفہ کی تقلید مانیں (کیونکہ مفتی اسے اپنا نہیں، امام ابو حنیفہ کا قول سنا رہا ہے)۔ دونوں صورتیں حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کے قول کی رو سے ممنوع ہیں، عامی کے ذہن کے دور دراز گوشے میں بھی فقہاء کی جماعت کی تائید کا قضیہ نہیں ہوتا کہ جس سے بقول آپ کے یہ قول خاموش ہے۔ اسی میں حنفی عامی مبتلا ہے۔اور یہی اہلحدیث کا احناف پر اعتراض ہے اوریہی حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کے قول کا درست منشا ہے۔ سادہ سی بات ہے، بغیر کسی پیچیدگی اور الجھاؤ کے۔


ایک عالم لغزش یا فتنہ سے معصوم ہو یہ ناممکن ہے لیکن ایک عامی فرد واحد کے فتنہ سے کس طرح بچ سکتا ہے کیوں کہ عامی دلائل کو سمجھنے کی صلاحیت نہیں رکھتا تو اس کا حل حضرت معاذ رضی اللہ عنہ نے یہ بتایا کہ اس عالم کی تقلید نہ کی جائے
لیکن اگر ایک عالم کے اقوال کی تائید دلائل کی بنا پر فقہاء کی ایک جماعت کر چکی ہو تو ایسی تقلید کے متعلق حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کا قول خاموش ہے ۔
اللہ کے بندے، جس چیز کا حضرت معاذ کے قول میں ذکر ہی نہیں اس کی وجہ سے اہلحدیث پر خیانت کا الزام لگانا کیسے درست ہے؟ قول آدھا پیش کیا جائے یا پورا پیش کیا جائے، جماعت کی تائید والی بات اس میں ہوگی ہی نہیں۔ لہٰذا آدھے اور پورے والا قصہ تو ختم ہی کر دیں۔

باقی آپ کا فقہاء کی تائید والا عجیب و غریب بیان ناقابل حل معمہ سا بن گیا ہے۔ ارے بھائی، اس کو یوں بھی تو دیکھیں کہ ایک عالم کی تقلید تو منع ہو، اور اس عالم کی بات کی تردید فقہاء کی تین جماعتیں کر دیں تو اب اس کی تقلید جائز کیسے ہو جائے گی؟

پھر یہ معمہ ابھی تک حل طلب ہے کہ حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کا منشا تھا کیا اس قول سے۔ آپ نے جو اوپر کہا کہ: عامی فرد واحد کے فتنہ سے بچ جائے اس کے لئے حضرت معاذ رضی اللہ عنہ نے عالم کی تقلید سے منع کیا۔ ٹھیک۔
اب جو آپ نے یہ کہا کہ عامی دلائل کو سمجھنے کی صلاحیت نہیں رکھتا، اس لئے زندہ عالم کی تقلید سے منع کیا۔ تو اب یہ بتائیے کہ حضرت معاذ کے مخاطب عامی حضرات آخر کیا کرتے تھے؟ مردہ عالم کی تقلید کرتے تھے؟ یا ایسے عالم کی تقلید کرتے تھے کہ جن کے اقوال کی چھان پھٹک فقہاء کی ایک جماعت کر چکی تھی؟
یقینا دونوں ہی باتیں ثابت نہیں۔ وہ سیدھے سیدھے کتاب و سنت سے مسائل لیتے تھے۔ یا علماء سے کتاب و سنت کی روشنی میں مسئلہ پوچھتے تھے۔ علماء کی تقلید کی بجائے کتاب و سنت کے پیرو تھے۔ اور یہی دعوت آج ہماری ہے۔ الحمدللہ۔

حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کے قول کی روشنی میں ایک عالم کی تقلید منع ہے۔ وہ زندہ ہو یا مردہ۔ فتنہ میں مبتلا ہوا ہو یا نہ ہوا ہو۔ اس کے اقوال کی تائید فقہاء کی ایک جماعت نے کی ہو یا اس کے اقوال کی تردید فقہاء کی تین جماعتوں نے کر رکھی ہو۔

یہ تو ہوا آپ کی ساری باتوں کا جواب۔

اب آپ نے چونکہ فقہاء کی تائید والی بات اتنی بار دہرائی ہے کہ اس سے یہ قول خاموش ہے، تو اس بارے میں بھی عرض کر دیتا ہوں کہ حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کا یہ قول اس سے بالکل ہی خاموش نہیں ہے، بلکہ اس بارے میں اشارہ ضرور موجود ہے۔

ملاحظہ کیجئے کہ حضرت معاذ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ عالم اگر ہدایت پر بھی ہو تو اپنے دین میں اس کی تقلید نہ کرو۔
اہم سوال یہاں یہ ہے کہ عامی کو کیسے معلوم ہوگا کہ عالم یہاں ہدایت پر ہے؟ بقول آپ کے وہ دلائل کی چھان پھٹک خود تو کر نہیں سکتا۔
تو اس سوال کا جواب (آپ کے پیش کردہ دلائل کی روشنی میں، آپ کے طرز بیان پر) یہ ہے کہ جب فقہاء کی ایک جماعت عالم کے قول کی دلائل کی بنیاد پر تائید کر دے گی تو ہمیں معلوم ہو جائے گا کہ عالم ہدایت پر ہے۔

لہٰذا بقول آپ کے، تائید یافتہ از فقہاء عالم ہدایت یافتہ ہوگا، اور اسی کی تقلید حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کے قول کی روشنی میں ممنوع ہے۔

آپ کی محبت میں اتنا کچھ لکھ ڈالا ہے۔ ورنہ کل سے لمبا سفر درپیش ہے اور ابھی بہت سارے کام کرنے باقی ہیں۔ امید ہے کہ کسی بات سے ناراض نہیں ہوں گے اور اگر آپ پر اپنی غلطی واضح ہو جائے تو اسے ماننے میں تامل نہیں کریں گے یا پھر مجھ پر میری غلطی واضح کرنے کی کوشش کریں گے۔ باقی میں نے تو اپنے خیال میں ساری بات کہہ دی ہے۔ مزید بحث کی گنجائش یا فی الحال ضرورت محسوس نہیں ہوتی۔ آپ بھی اپنی بات رکھ دیں تاکہ ریکارڈ میں آ جائے، بزور اپنی بات منوانا تو ظاہر ہے ہم میں سے کسی کا مقصد نہیں۔ باقی دعاؤں کی درخواست ہے۔
 
Top