حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کو جو آدھا قول پیش کیا جاتا ہے وہ کچھ اس طرح ہے
اما العالم فان اهتدي فلا تقلدوه دينكم
اگر عالم ہدایت پر بھی ہو تو اس کی دین میں تقلید نہ کرو
اس آدھے قول سے تاثر ابھرتا ہے ہر قسم کے عالم کی تقلید ممنوع ہے خواہ وہ عالم حیات ہو اور خواہ وہ عالم فوت ہو چکا ہو۔
خواہ اس عالم کی تائید دلائل کی بنیاد پر علماء کی جماعت نے کی ہو یا تائید نہ کی ہو
قول کے بقیہ حصے کو ملا لینے سے بھی درج بالا دونوں باتیں ثابت نہیں ہوتیں۔ قائل کی مرضی کے برخلاف بزور کشید کر لیا جائے تو اور بات ہے۔
اب حضرات معاذ رضی اللہ عنہ کے قول میں سے دیگر اقتباسات بھی پیش خدمت ہیں اور ان اقتباسات سے وہ مفہوم نہیں رہتا جو اوپر کے آدھے قول سے مفہوم سمجھ میں آتا ہے
فَإِنَّ الْمُؤْمِنَ يُفْتَتَنُ ثُمَّ يَتُوبُ
( ممکن ہے ) کہ مومن فتنہ میں پڑے پھر توبہ کرلے
توبہ وہی کرتا ہے جو زندہ ہو ۔ یعنی اس قول سے یہ معلوم ہوتا ہے حضرت معاذ رضی اللہ عنہ زندہ عالم کی تقلید سے منع کر رہے ہیں
جو لوگ آج ائمہ کرام کی تقلید کرتے ہیں۔ کیا ان ائمہ کے اقوال میں تعارض نہیں ہوتا؟ کیا ایک ہی مسئلہ میں ایک ہی امام کے چار چار مختلف قول موجود نہیں؟
پس جس طرح زندہ عالم کے بارے میں ڈر ہے کہ وہ فتنہ میں پڑ سکتا ہے اور پھر وہ تو شاید توبہ کر لے، لیکن اس کے مقلدین اس کی تقلید میں توبہ کی توفیق نہ پائیں اور اس کے پرانے فتنہ والے قول پر ہی عمل پیرا رہیں۔
اسی طرح فوت شدہ ائمہ کے بارے میں یہی ڈر ہے، بلکہ ڈر کیا، یہ تو عین ثابت شدہ حقیقت ہے کہ ایک ہی مسئلہ میں امام صاحب سے کئی مختلف اقوال ملتے ہیں، اور کئی مرتبہ امام صاحب کا رجوع بھی ثابت ہوجاتا ہے، لیکن مقلدین پرانے قول پر ہی عمل پیرا ہوتے ہیں۔ اسی طرح یہ بھی عین ممکن ہے کہ کئی معاملات میں امام صاحب کا رجوع کرنا ہم تک پہنچا ہی نہ ہو۔ لہٰذا جس فتنہ میں مبتلا ہونے کا ڈر زندہ عالم کا ہے، وہی ڈر اس سے بڑھ کر فوت شدہ عالم کے بارے میں بھی ہے۔ اس لئے کہ زندہ عالم کی توبہ تو عین ممکن ہے کہ علم میں آجائے ۔ یا اس سے مل کر حال معلوم ہو جائے۔ لیکن فوت شدہ عالم کے بارے میں تو یہ ممکن ہی نہیں کہ آپ پورے یقین سے کہہ سکیں کہ فلاں قول پر وہ آخری سانس تک جمے رہے۔۔! اور فلاں سے انہوں نے توبہ کر لی تھی؟
لہٰذا جیسے زندہ کی تقلید میں خطرہ ہے کہ وہ فنتہ میں پڑے اور توبہ کر لے تو عین ممکن ہے کہ مقلدین فتنہ میں پڑ جائیں، لیکن توبہ نہ کر سکیں۔
وہی خطرہ مردہ کی تقلید میں بھی ہے کہ وہ فتنہ میں پڑے اور توبہ کر لے یا رجوع کر لے اور وہ توبہ یا رجوع مقلدین تک نہ پہنچ سکے۔اور وہ فتنہ میں پڑے رہیں۔
انجام کے لحاظ سے دونوں کی تقلید میں کچھ بھی فرق نہیں۔
وَزَلَّةِ عَالِمٍ
ایک عالم کی لغزش سے بچنے کی لئیے حضرت معاذ رضی اللہ عنہ نے اس کی تقلید سے منع کیا
جب ایک عالم کے اقوال کی جانچ پڑتال ایک فقہاء کی جماعت کر چکی ہو تو فتنہ کا احتمال ختم ہوجاتا ہے
يد اللہ فوق الجماعہ
اللہ کا ہاتھ جماعت پر ہے
کمال ہے۔ آپ بار بار ایک ہی بات دہرا رہے ہیں۔ اور ہماری بات پر توجہ نہیں کر رہے۔ بھائی، غور کیجئے کہ ایک عالم کے اقوال کی جانچ پڑتال فقہاء کی چار جماعتوں نے کی۔ ان میں سے تین جماعتوں نے دلائل کی بنیاد پر کہا کہ اس عالم کا یہ قول غلط ہے اور درست قول دوسرا ہے۔ ایک جماعت نے دلائل کی بنیاد پر (اگرچہ حقیقتا ایسا ہوا ہی نہیں ہے) کہا کہ اس عالم کا یہ قول عین کتاب و سنت کا منشا ہے۔ اب بتائیے کہ فتنہ کا احتمال ختم کیسے ہوا۔ ٪75 امکانات اب بھی یہی ہیں کہ اس عالم کا یہ قول غلط ہے۔ لہٰذا فتنہ کا احتمال اب بھی اتنا ہی ہے، جتنا تنہا اس عالم کے قول پر عمل کرنے میں تھا۔ اور اللہ کا ہاتھ تین چوتھائی جماعت پر ہوگا یا ایک چوتھائی پر؟
آپ خود دیکھ سکتے ہیں حضرات معاذ کے مکمل قول پیش کرنے سے یہ فرق واقع ہوا ہے
1- مردہ عالم کی تقلید سے متعلق حضرت معاذ رضی اللہ عنہ نے کچھ نہیں کہا
2- ایسے عالم کے متعلق جس کے قول کی جانچ پڑتال فقہاء کی ایک جماعت کر چکی ہےوہ خاموش ہیں
جب کہ جو ادھورا قول اہل حدیث حضرات پیش فرماتے ہیں اس میں مندجہ بالا دو نکات نہیں بلکہ یہ مفہوم نکلتا ہے کہ حضرت معاذ رضی اللہ عنہ نے ہر قسم (زندہ ۔ مردہ یا سنگل عالم یا تائید یافتہ از فقہاء) کے عالم کی تقلید منع ہے
1۔ زندہ یا مردہ عالم کی کوئی تفریق ان کے قول میں نہیں۔ یہ قول عام ہے۔
2۔ یہ آپ کا زبردستی کشید کردہ پوائنٹ ہے۔ نہ تو حنفی عوام فقہاء کی جانچ پرکھ کی وجہ سے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی تقلید کرتی ہے، اور نہ حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کے قول سے دور دراز سے بھی اس بات کی تائید ہوتی ہے کہ عالم کی تائید ایک جماعت کرے تو اس کی تقلید کی جا سکتی ہے۔ پھر ادھورے قول کو پیش کرنے پر بھی "تائید یافتہ از فقہاء" کا کوئی تذکرہ نہیں ہوتا اور پورا قول پیش کریں تب بھی "تائید یافتہ از فقہاء" کی کوئی بات نظر نہیں آتی۔ تو خیانت کیونکر؟
میں نے کب کہا کہ حضرت معاذ رضی اللہ عنہ نے اس عالم کی تقلید کا کہا جس کی تائید علماء کی جماعت نے کی ہو میں تو کہتا ہوں اس تقلید کے متعلق حضرت معاذ رضی اللہ کا قول خاموش ہے
نوٹ : میرا یہ ہرگز کہنا نہیں کہ حضرت معاذ کا قول تقلید کی حمایت میں ہے ۔ میرا یہ کہنا ہے جس تقلید سے حضرت معاذ رضی اللہ عنہ نے منع کیا وہ تقلید احناف میں موجود نہیں اور جو تقلید احناف میں ہے اس کے متعلق حضرت معاذ رضی اللہ کا قول خاموش ہے
گویا آپ یوں کہنا چاہتے ہیں کہ تقلید کی مذمت میں اہلحدیث جب بھی کوئی قول پیش کریں تو ہر قول کے ساتھ اس بارے میں بھی ضرور حکم ہونا چاہئے کہ اگر عالم کے قول کی تائید فقہاء کی ایک جماعت کر دے تو بھی اس کی تقلید کرنا منع ہے؟
اور جب تک خاص یہ بات اس قول میں نہیں ہوگی، تب تک اہلحدیث کا تقلید کی تردید میں کسی بھی قول کو پیش کرنا ہمیشہ ہمیش کے لئے خیانت ہی قرار پائے گا؟
بہت خوب!!!
اگرچہ یہ موضوع تو نہیں۔ لیکن آپ ہی بتائیے کہ تقلید کے موضوع پر اس قدر اقوال زریں میں سے کہیں کوئی ایسا قول بھی موجود ہے جس سے یہ ثابت ہوتا ہو کہ:
جب تک عالم کے قول کی تائید فقہاء کی ایک جماعت نہ کر دے تب تک اس کی تقلید حرام و ناجائز ہے۔۔؟
اور پھر ہم بھی یہی رویہ اختیار کر لیں کہ احناف تقلید کی حمایت میں جس قدر دلائل پیش کرتے ہیں، ہم ان سے مطالبہ کریں کہ جناب آپ نے فقط ایک عالم کی تقلید کو ہی ثابت نہیں کرنا، بلکہ ہر ہر دلیل میں یہ بھی ثابت کرنا ہے کہ ایک جماعت امام صاحب کے قول کی تائید کرے تو ہی اس کی تقلید کرنی جائز ہے۔ اور جس قول یا دلیل میں فقہاء کی ایک جماعت کی تائید کا تذکرہ نہ ہو، اسے ہم احناف کی خیانت باور کروانے لگ جائیں کہ جس قسم کی تقلید آپ کرتے ہیں، اس سے تو یہ قول خاموش ہے۔۔!!
دیکھئے نا حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کا قول تو اس بات سے بھی خاموش ہے کہ عالم فارسی النسل ہو تو کیا کرنا چاہئے۔ چونکہ آپ فارسی النسل امام کی تقلید کرتے ہیں، لہٰذا احناف جو تقلید کرتے ہیں، اس سے یہ قول خاموش ہے۔ اسے ان کے خلاف پیش کرنا خیانت ہے وغیرہ۔
اسی طرح حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کا قول تو اس بات سے بھی خاموش ہے کہ عالم اگر فقیہ بھی ہو تو کیا کرنا چاہئے۔ چونکہ آپ جن کی تقلید کرتے ہیں وہ فقیہ بھی تھے، لہٰذا حضرت معاذ کا قول احناف کے خلاف پیش کرنا خیانت ہے۔۔۔!
حقیقت یہ ہے محترم کہ جو طرز استدلال آپ نے اپنایا ہے، اس سے تو پھر کیا بات ہے جو ثابت نہیں کی جا سکتی اور کیا چیز ہے جسے خیانت باور نہیں کرایا جا سکتا۔
ظاہر ہے کہ کوئی بھی دلیل اپنے آپ میں تردید کے ہر ہر پہلو کا احاطہ نہیں کر سکتی۔ لہٰذا اگر ہم کوئی دلیل پیش کریں اور وہ کسی خاص پہلو سے "خاموش ہو" تو آپ اسے کیونکر ہماری جانب بطور خیانت منسوب کر سکتے ہیں؟
دوسری بات یہ کہ جب تک فقہاء کی جماعت نے امام ابو حنیفہ کے اقوال کی تائید نہیں کی تھی، کیا آپ مانتے ہیں کہ تب تک ان کی تقلید کرنے والے حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کے قول کے مطابق مذموم تقلید ہی کر رہے تھے؟
امام ابو حنیفہ کے دور میں جب وہ حیات تھے تو ان سے مسئلہ پوچھنے ایک عالم سے استفتاء تھا جس کو آپ حضرت تقلید نہیں کہتے ۔ اس لئیے یہ اعتراض ہی رد ہے
ایسے سرسری سا نہ گزریں۔ غور کیجئے۔ امام صاحب کی زندگی میں ہی ان کے تمام اقوال کی جانچ پرکھ ایک جماعت نے کر لی تھی؟ یا ان کی وفات کے فوری بعد سارے اقوال کی جانچ پرکھ ہو گئی تھی؟ حقیقت اس کے مختلف ہے۔ ان کے اقوال کی دلائل کے ساتھ تائید یا تردید تو ایک زمانے بعد تک ہوتی رہی بلکہ آج تک چل رہی ہے۔ لہٰذا مثلا امام صاحب کی وفات کے فوری بعد سے لے کر کئی سو سالوں تک جو لوگ ان کی تقلید بغیر فقہاء کی ایک جماعت کی تائید کے کرتے رہے، وہ مذموم تقلید میں مبتلا ہوئے یا نہیں۔
دوسری بات یہ کہ ہم یہاں حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کے قول کی روشنی میں بات کر رہے ہیں، تو ایسی صورت میں تو یہ مسئلہ امام صاحب کی زندگی میں اور بھی سنگین تھا۔ کیونکہ حضرت معاذ بقول آپ کے زندہ عالم ہی کی تقلید سے تو منع کر رہے ہیں۔ بلا دلیل کسی عالم کی بات ماننا چاہے وہ زندہ ہو یا مردہ، یہ تقلید ہے۔ یہ آپ سے کس نے کہا کہ زندہ سے پوچھیں تو استفتاء ہے اور مردہ کی مانیں تو تقلید؟ زندہ کے سامنے بھی بلا دلیل سر تسلیم خم کر دینا تقلید ہی ہے۔ لہٰذا اب دوبارہ سے فرمائیے کہ فقہاء کی تائید سے قبل جو لوگ گزرے، وہ مذموم تقلید میں مبتلا تھے یا وہ تقلید بھی محمود ہی تھی؟
تیسری بات یہ کہ حقیقی دنیا میں کتنے عامی ہیں جو امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی تقلید اس لئے کرتے ہیں کیونکہ بہت سارے فقہاء نے ان کے دلائل کی جانچ پرکھ کے بعد تائید کی ہے؟ ایسے لوگ آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں۔ راہ چلتے کسی عامی سے پوچھ لیجئے اور پھر بتائیے کہ کتنے لوگوں نے تقلید کے جواز میں یہ بات کہی ہے۔
ایک عامی جب حنفی فقہ پر عمل کر رہا ہوتا ہے تو اس کو معلوم بھی نہیں ہوتا کہ اس مسئلہ پر امام ابو حنیفہ کا قول کیا ہے ۔ یہ بھی ممکن ہے جس مسئلہ پر امام ابو حنیفہ کا قول سمجھ کر عمل کرہا ہو ، وہاں فتوی امام یوسف کے قول پر ہو۔
لیکن ایک عامی کی لا علمی یہ بات ثابت نہیں ہوتی کہ امام ابو حنیفہ کے اقوال کی تائید فقہاء کی ایک جماعت نے نہیں کی۔
لیجئے آپ نے اپنے بنائے ہوئے کچے سے گھروندے کو خود ہی توڑ ڈالا۔ آپ کو یاد دلاؤں آپ نے پہلے یہ بات کہی تھی:
بعض امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے وہ اقوال ہیں جن پر فقہ حنفی کا فتوی نہیں (دوسرے الفاظ میں فقہاء احناف نے امام ابو حنیفہ سے اختلاف کیا )
اس کے علاوہ باقی معاملات میں جہاں فقہ حنفی میں فتوی امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے قول پر ہے تو ایک عامی اگر اس مسئلہ میں امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے قول پر اس لئیے عمل کرتا ہے کہ فقہاء کی ایک جماعت نے اس قول کی دلائل کی بنیاد پر تائید کی ہے تو یہ عامی فرد واحد کی تقلید نہیں کر رہا ہے بلکہ ایک جماعت کی تقلید کر رہا ہے اور حضرت معاذ رضی اللہ عنہ ایک عالم کی تقلید سے منع کر رہے ہیں ان کے قول میں جماعت کی تقلید کا کوئي تذکرہ نہیں۔ اس لئیے حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کا قول احناف کی ضد میں کسی طرح بھی ثابت نہیں کیا جاسکتا
ہائی لائٹ کردہ عبارت پر غور کیجئے اور پھر انصاف سے فیصلہ کیجئے کہ جب عامی کسی بھی مسئلہ میں امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے قول پر اس لئے عمل کر ہی نہیں رہا کہ ایک جماعت نے اس قول کی دلائل کی بنیاد پر تائید کی ہے تو یہ عامی فرد واحد کی تقلید ہی کر رہا ہے نہ کہ ایک جماعت کی۔
آج ننانوے فیصدی عامی کسی بھی زندہ عالم کے پاس جاتے ہیں جو انہیں امام ابو حنیفہ یا صاحبین کا قول یا فتویٰ سنا دیتا ہے اور یہ عامی اس پر بلا چوں و چرا بلا دلیل عمل کر لیتے ہیں۔ یہی تقلید شخصی یا فرد واحد کی تقلید ہے، اسے آپ زندہ مفتی کی تقلید مانیں (کیونکہ وہ مفتی کی بات کو بلا دلیل مان رہا ہے، جو بقول آپ کے معاذ رضی اللہ عنہ کے قول کا منشا تھا) یا امام ابو حنیفہ کی تقلید مانیں (کیونکہ مفتی اسے اپنا نہیں، امام ابو حنیفہ کا قول سنا رہا ہے)۔ دونوں صورتیں حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کے قول کی رو سے ممنوع ہیں، عامی کے ذہن کے دور دراز گوشے میں بھی فقہاء کی جماعت کی تائید کا قضیہ نہیں ہوتا کہ جس سے بقول آپ کے یہ قول خاموش ہے۔ اسی میں حنفی عامی مبتلا ہے۔اور یہی اہلحدیث کا احناف پر اعتراض ہے اوریہی حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کے قول کا درست منشا ہے۔ سادہ سی بات ہے، بغیر کسی پیچیدگی اور الجھاؤ کے۔
ایک عالم لغزش یا فتنہ سے معصوم ہو یہ ناممکن ہے لیکن ایک عامی فرد واحد کے فتنہ سے کس طرح بچ سکتا ہے کیوں کہ عامی دلائل کو سمجھنے کی صلاحیت نہیں رکھتا تو اس کا حل حضرت معاذ رضی اللہ عنہ نے یہ بتایا کہ اس عالم کی تقلید نہ کی جائے
لیکن اگر ایک عالم کے اقوال کی تائید دلائل کی بنا پر فقہاء کی ایک جماعت کر چکی ہو تو ایسی تقلید کے متعلق حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کا قول خاموش ہے ۔
اللہ کے بندے، جس چیز کا حضرت معاذ کے قول میں ذکر ہی نہیں اس کی وجہ سے اہلحدیث پر خیانت کا الزام لگانا کیسے درست ہے؟ قول آدھا پیش کیا جائے یا پورا پیش کیا جائے، جماعت کی تائید والی بات اس میں ہوگی ہی نہیں۔ لہٰذا آدھے اور پورے والا قصہ تو ختم ہی کر دیں۔
باقی آپ کا فقہاء کی تائید والا عجیب و غریب بیان ناقابل حل معمہ سا بن گیا ہے۔ ارے بھائی، اس کو یوں بھی تو دیکھیں کہ
ایک عالم کی تقلید تو منع ہو، اور اس عالم کی بات کی تردید فقہاء کی تین جماعتیں کر دیں تو اب اس کی تقلید جائز کیسے ہو جائے گی؟
پھر یہ معمہ ابھی تک حل طلب ہے کہ حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کا منشا تھا کیا اس قول سے۔ آپ نے جو اوپر کہا کہ: عامی فرد واحد کے فتنہ سے بچ جائے اس کے لئے حضرت معاذ رضی اللہ عنہ نے عالم کی تقلید سے منع کیا۔ ٹھیک۔
اب جو آپ نے یہ کہا کہ عامی دلائل کو سمجھنے کی صلاحیت نہیں رکھتا، اس لئے زندہ عالم کی تقلید سے منع کیا۔ تو اب یہ بتائیے کہ حضرت معاذ کے مخاطب عامی حضرات آخر کیا کرتے تھے؟ مردہ عالم کی تقلید کرتے تھے؟ یا ایسے عالم کی تقلید کرتے تھے کہ جن کے اقوال کی چھان پھٹک فقہاء کی ایک جماعت کر چکی تھی؟
یقینا دونوں ہی باتیں ثابت نہیں۔ وہ سیدھے سیدھے کتاب و سنت سے مسائل لیتے تھے۔ یا علماء سے کتاب و سنت کی روشنی میں مسئلہ پوچھتے تھے۔ علماء کی تقلید کی بجائے کتاب و سنت کے پیرو تھے۔ اور یہی دعوت آج ہماری ہے۔ الحمدللہ۔
حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کے قول کی روشنی میں ایک عالم کی تقلید منع ہے۔ وہ زندہ ہو یا مردہ۔ فتنہ میں مبتلا ہوا ہو یا نہ ہوا ہو۔ اس کے اقوال کی تائید فقہاء کی ایک جماعت نے کی ہو یا اس کے اقوال کی تردید فقہاء کی تین جماعتوں نے کر رکھی ہو۔
یہ تو ہوا آپ کی ساری باتوں کا جواب۔
اب آپ نے چونکہ فقہاء کی تائید والی بات اتنی بار دہرائی ہے کہ اس سے یہ قول خاموش ہے، تو اس بارے میں بھی عرض کر دیتا ہوں کہ حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کا یہ قول اس سے بالکل ہی خاموش نہیں ہے، بلکہ اس بارے میں اشارہ ضرور موجود ہے۔
ملاحظہ کیجئے کہ حضرت معاذ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ عالم اگر ہدایت پر بھی ہو تو اپنے دین میں اس کی تقلید نہ کرو۔
اہم سوال یہاں یہ ہے کہ عامی کو کیسے معلوم ہوگا کہ عالم یہاں ہدایت پر ہے؟ بقول آپ کے وہ دلائل کی چھان پھٹک خود تو کر نہیں سکتا۔
تو اس سوال کا جواب (آپ کے پیش کردہ دلائل کی روشنی میں، آپ کے طرز بیان پر) یہ ہے کہ جب فقہاء کی ایک جماعت عالم کے قول کی دلائل کی بنیاد پر تائید کر دے گی تو ہمیں معلوم ہو جائے گا کہ عالم ہدایت پر ہے۔
لہٰذا بقول آپ کے، تائید یافتہ از فقہاء عالم ہدایت یافتہ ہوگا، اور اسی کی تقلید حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کے قول کی روشنی میں ممنوع ہے۔
آپ کی محبت میں اتنا کچھ لکھ ڈالا ہے۔ ورنہ کل سے لمبا سفر درپیش ہے اور ابھی بہت سارے کام کرنے باقی ہیں۔ امید ہے کہ کسی بات سے ناراض نہیں ہوں گے اور اگر آپ پر اپنی غلطی واضح ہو جائے تو اسے ماننے میں تامل نہیں کریں گے یا پھر مجھ پر میری غلطی واضح کرنے کی کوشش کریں گے۔ باقی میں نے تو اپنے خیال میں ساری بات کہہ دی ہے۔ مزید بحث کی گنجائش یا فی الحال ضرورت محسوس نہیں ہوتی۔ آپ بھی اپنی بات رکھ دیں تاکہ ریکارڈ میں آ جائے، بزور اپنی بات منوانا تو ظاہر ہے ہم میں سے کسی کا مقصد نہیں۔ باقی دعاؤں کی درخواست ہے۔