• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

حفاظتِ قرآنِ کریم کے قدیم وجدید ذرائع اور اس ضمن میں جامعہ لاہور اور دیگر اداروں کی خدمات کا جائزہ

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
حفاظتِ قرآنِ کریم کے قدیم وجدید ذرائع اور
اس ضمن میں جامعہ لاہور اور دیگر اداروں کی خدمات کا جائزہ

قاری فہد اللہ مراد​
قرآن کریم انسانیت کے لئے اللہ رب العزت کا آخری پیغام ہے اس کے بعد آسمان سے انسانیت کی راہنمائی کا سلسلہ منقطع ہوچکا ہے۔قرآن کریم چونکہ آخری الٰہی ہدایت نامہ ہے اس لئے ضروری تھا کہ اس میں قیامت تک پیش آمدہ مسائل کا حل موجود ہو جو کہ قرآن کریم میں بدرجہ اتم موجود ہے۔
ارشاد ربانی ہے:’’وَنَزَّلْنَا عَلَیْکَ الْکِتٰبَ تِبْیَاناً لِکُلِّ شَیْئٍ‘‘ (النحل :۸۹)
’’قرآن کریم میں ہرایک شے (بعثت نبوت سے قیامت تک) کی وضاحت موجود ہے۔‘‘
قرآن مجید چونکہ قیامت تک بنی نوع انسان کے لئے سرچشمۂ ہدایت ہے اس لئے قرآن کا اپنی اصلی صورت میں باقی رہنا از حد ضروری تھاتاکہ ہر دور میں گم گشتانِ راہ لئے ستارہ راہ روی کا کام دے، ضلالت و گمراہی کی شب تاریک میں ڈوبے ہوئے انسان کے لئے نور کی کرن بنے،طالبان رُشد و ہدایت کے لئے ذات حق تک رسائی کا ذریعہ بنے، اپنے ماننے والوں کو نظام زندگی فراہم کرے اور کامیابی کی بشارت سنائے، نہ ماننے کو باری تعالیٰ کا تعارف کروائے اور انکار پراصرارکرنے والوں کواس کے عذاب و عقاب کی وعیدسنائے۔ اب ہمیں دیکھنا یہ ہے کہ قرآن کی حفاظت کس طرح ہوئی اور مزیدکس طرح ممکن ہے۔ اس باب میں جو کام ہوچکااور جو مزید ہوسکتا ہے یا ہونا چاہیے ہم اس کو تین مرحلوں میں ذکر کرتے ہیں:
٭ پہلا مرحلہ:جمع رسمی ٭ دوسرا مرحلہ: جمع صوتی ٭ تیسرا مرحلہ: جمع کتابی
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
پہلا مرحلہ :جمع رسمی

قرآن کریم کی رسم کے متعلق جو کام ہوا ہے اس کو تین طرح تقسیم کیا گیاہے:
(١) جمع نبوی (٢) جمع صدیقی (٣) جمع عثمانی
(١) جمع نبوی
جناب نبی کریم ﷺ نزولِ وحی کے فوراً بعد کاتبین وحی کو قرآن لکھوا دیا کرتے تھے اگر کسی وقت قرآن کا کوئی حصہ قلوب سے محو ہوجائے تواس کو دوبارہ یاد کرلیاجائے اور اس طرح قرآن قیامت تک اپنی اصلی شکل میں محفوظ رہے۔ چنانچہ سیدنا زید بن ثابت5 فرماتے ہیں:
’’ میں رسول اللہﷺ کے پاس وحی لکھا کرتاتھا تو جب آپﷺ پر وحی نازل ہوتی تو آپﷺ شدید تکلیف محسوس کرتے اور موتیوں کی طرح آپ ﷺ کے جسم اَطہرسے پسینہ بہتا۔جب وحی ختم ہوجاتی تو میں کھجور کاپتہ یاکسی بھی چیز(کاغذ،چمڑے، کپڑے) کا ٹکڑا لے کر حاضر ہوتا، آپ ﷺ مجھے لکھوا دیتے اورجب میں لکھ کر فارغ ہوجاتاتو آپﷺ فرماتے اسے پڑھ کر سناؤ، چنانچہ میں سناتا اگر کسی جگہ کوئی غلطی ہوتی تو آپ ﷺ اسے درست کروا دیتے۔ ‘‘ (مجمع الزوائد:۸ ؍۲۵۷)
دوسری روایت میں ہے:
’’ براء بن عازب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب آیت ’’لَا یَسْتَوِیْ الْقَاعِدُوْنَ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ…‘‘ اتری تو آپﷺ نے فرمایا زید رضی اللہ عنہ کو بلاؤ اور اسے کہو کہ قلم دوات اور شانے کی چوڑی ہڈی لے کر حاضر ہو۔‘‘ (فتح الباری:۱۱؍۲۱،)
ایک اور روایت میں خود حضرت زیدرضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
’’کنا عند رسول اﷲ نؤلف من الرقاع‘‘ (الاتقان:۱؍۷۱)
’’کہ ہم آپؐ کے پاس بیٹھ کر چمڑے اور کاغذ کے ٹکڑوں سے قرآن جمع کرتے تھے۔‘‘
امام بیہقی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’تالیف سے مراد یہ ہے کہ صحابہ نبی اکرمﷺ کے فرمان کے مطابق قرآن کریم کی متفرق آیات کو ترتیب دیا کرتے تھے۔ ‘‘ (الاتقان:۱؍۵۷)
اسی سے متعلق حضرت زیدرضی اللہ عنہ سے ایک روایت اور بھی ہے، فرماتے ہیں:
’’قبض النبی! ولم یکن القرآن جمع فی شیئ‘‘ (الاتقان:۱؍۶۶)
’’آپﷺ رحلت فرماگئے اور قرآن کوایک جگہ جمع نہیں کیاگیا تھا۔‘‘
مذکورہ روایات کئی ایک فوائد پر مشتمل ہیں، لیکن ہمارے مضمون کے متعلق دو باتیں قابل توجہ ہیں:
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
(١) اللہ کے رسولﷺ باقاعدہ قرآن مجید کی کتابت کروایا کرتے تھے تاکہ اس کا رسم محفوظ ہوجائے۔
(٢) اس وقت قرآن کریم کھجور کے پتوں، چمڑے اورکاغذ وغیرہ کے ٹکڑوں پرلکھا جاتاتھا۔
اس سے معلوم ہواکہ عہد نبویﷺ میں جمع قرآنی کا یہی طریقہ تھا کہ آپﷺ قرآن کوکسی نہ کسی شے پرلکھوا دیا کرتے تھے۔باقاعدہ اَوراق وغیرہ کااہتمام نہیں تھا۔ اس کی بھی مندرجہ ذیل چند وجوہات ہیں:
(١) عہدنبویﷺ میں ضرورت کے مطابق تھوڑا تھوڑا قرآن نازل ہورہاتھا اور آیات بغیر کسی سُوری ترتیب کے اتر رہیں تھیں اس لئے قرآن مجید کے مکمل نازل ہونے تک پہلے ایک جگہ جمع کرنا ممکن نہیں تھا۔
(٢) جمع نہ ہونے کا دوسرا سبب یہ تھا کہ اس وقت نسخ قرآن کا سلسلہ جاری تھا اس لئے مصحف کی شکل میں جمع کرنا ممکن نہ تھا۔ چنانچہ امام خطابی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’لم یجمع ﷺ القرآن فی المصحف مما کان یترقبہ من ورود ناسخ بعض أحکامہ أو تلاوتہ فلما انقضی نزولہ بوفاتہ ﷺ ألھم اﷲ الخلفاء الراشدین ذلک ووفاء بوعدہ الصادق بضمان حفظہ علی ھذہ الامۃ فکان ابتداء ذلک علی ید الصدیق بمشورۃ عمر) (الاتقان:۲؍۵۷)
’’آپﷺ نے قرآن کو مصحف کی شکل میں اس لئے جمع نہیں کیا کہ آپ بعض آیات کی تلاوت اور حکم کے منسوخ ہونے کے منتظر رہتے تھے۔ جب آپﷺ کی وفات تک قرآن مکمل ناز ل ہوگیا تو اللہ رب العزت نے خلفاے راشدین کے ذریعہ قرآن کی حفاظت کے وعدہ کو، جو اُمت محمدیہ کی ذمہ داری تھی، پورا کردیا اور اس مبارک کام کی ابتداء جناب ابوبکر نے، سیدنا عمررضی اللہ عنہما کے مشورے سے کی۔‘‘
(٣) اس کی تیسری وجہ یہ ہے کہ اس وقت فن طباعت و کتابت میں اس قدر ترقی نہیں ہوئی تھی کہ لکھنے کے لئے اَوراق وغیرہ میسر ہوتے اور اگر کسی قدرمیسر ہو بھی سکتے تھے تو مسلمانوں کے پاس وسائل موجود نہیں تھے۔ اس کی دلیل گذشتہ تمام اَحادیث ہیں۔
(٤) قرآن کریم کی جمع کا اہتمام زیادہ نہ کرنے کا اہم ترین سبب یہ ہے کہ اس وقت ضیاع قرآن کا خطرہ بالکل موجود نہیں تھا، کیونکہ نبی کریم ﷺ خود موجود تھے۔آپ اگر کچھ بھول بھی جاتے تو بذریعہ وحی اس کی یاددہانی ممکن تھی۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
خلاصہ
مذکورہ بحث سے ثابت ہوا کہ عہد نبوی ﷺ میں قرآن کریم کی حفاظت کااصل مدار حفظ پر تھا، لیکن رسول اللہﷺ حفاظت رسم کے لئے اُسے لکھوایا بھی کرتے تھے۔
(٢) جمع صدیقی
جناب نبی کریم ﷺ کی عرب میں جب بے پناہ مقبولیت ہوگئی اور تھوڑے سے عرصہ میں اتنی بڑی کامیابی ملی کہ پورے حجاز میں اسلام کی سطوت کے جھنڈے گڑگئے تو بعض شوریدہ سر اور کوتاہ نظر لوگوں سے رہا نہ گیااور انہوں نے بزعم خودیہ سمجھا کہ محمدﷺ کی کامیابی کی وجہ محض یہ ہے کہ ان کے نام کے ساتھ لفظ نبی یا رسول کا لاحقہ موجود ہے۔ لہٰذا انہوں نے عزت و شہرت کے حصول کے لئے قلعہ نبوت میں دراندازی شروع کردی اور بعض ظالموں نے آپﷺ کی زندگی میں ہی دعوی نبوت کردیا جن میں ایک مسیلمہ کذاب بھی تھا۔ آپﷺ کی زندگی میں اس داعی ضلالت کی دعوت معلم حق کی تعلیمات کے سامنے نہ اُبھر سکی، لیکن آپﷺ کی رحلت کے بعد اس کے گرد مرتدین اور جہلاء کاخاصہ ہجوم جمع ہوگیا۔ خلیفۂ رسول سیدناابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اس فتنہ کی سرکوبی کے لئے حضرت شرحبیل بن حسنہ رضی اللہ عنہ کی قیادت میں ایک لشکر روانہ کیا اور حضرت عکرمہ رضی اللہ عنہ بن ابی جہل کو ان کی مدد کے لئے مامورفرمایا۔ حضرت عکرمہ اور شرحبیل کو بوجوہ پسپا ہونا پڑا۔ (البدایۃ والنھایۃ:۶؍۴۲۹)
بعد میں سیدنا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ ان کی مدد کو پہنچے جن کے ہاتھ پر اللہ نے فتح دی اور مسیلمہ کذاب ہلاک ہوگیا۔ اس جنگ میں مسیلمہ کے دس ہزار اورایک روایت کے مطابق اکیس ہزار پیروکار واصل جہنم ہوئے اور پانچ یاچھ سو مسلمانوں نے جامِ شہادت نوش کیا۔شہید ہونے والے مجاہدین میں ستر قراء بھی شامل تھے۔(البدایۃ والنھایۃ:۶؍۴۳۲)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
امام قرطبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’قد قتل یوم الیمامۃ سبعون من القراء ‘‘ (الاتقان:۱ ؍۷۱)
’’جنگ یمامہ کے روز ستر قراء بھی شہید کردیئے گئے۔‘‘
اسی تعداد میں قراء بئر معونہ پر شہید کردیئے گئے تھے۔(حوالہ مذکورہ)
قراء کی کثرتِ شہادت کے باعث سیدناعمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو خدشہ لاحق ہوا کہ اگر اسی طرح قراء شہیدہوتے رہے تو ایک وقت آئے گا کہ قرآن جو قراء کے سینوں میں محفوظ ہے ناپید ہوجائے گا، لہٰذا قرآن کو ایک جگہ جمع کرلینا چاہیے۔ حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جنگ یمامہ میں قراء کی خاصی تعداد شہیدہوجانے کے بعد حضرت ابوبکررضی اللہ عنہ نے مجھے بلایاتو اس وقت حضرت عمررضی اللہ عنہ بھی ان کے پاس موجود تھے۔ حضرت ابوبکررضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ عمررضی اللہ عنہ کہتے ہیں جس طرح یمامہ میں قراء شہید ہوگئے ہیں اگر اسی طرح شہیدہوتے چلے گئے تو مجھے خدشہ ہے کہ قرآن کا بڑا حصہ ضائع ہوجائے گا۔لہٰذا آپ قرآن کوایک جگہ جمع کرنے کا حکم دیں۔ تو میں نے جواباًکہا کہ میں وہ کام کیسے کرسکتا ہوں جو جناب نبی کریمﷺ نے نہیں کیا۔ تو اس پرعمررضی اللہ عنہ نے جواب دیا یہ تو خیرہی خیر ہے۔ عمررضی اللہ عنہ مجھے یہ بات باربار کہتے رہے یہاں تک کہ اللہ نے میرا سینہ کھول دیا۔ حضرت زیدرضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ سیدنا ابوبکررضی اللہ عنہ نے فرمایا :’’آپ عقل مند اورجوان آدمی ہو اورآپ پر کوئی طعن بھی نہیں کیا جاسکتا، کیونکہ آپ کاتب وحی بھی ہیں اس لئے پوری محنت اور کوشش کے ساتھ قرآن کو جمع کردیں۔‘‘
زیدبن ثابت رضی اللہ عنہ مزید فرماتے ہیں:’’کہ اللہ کی قسم میرے لئے پہاڑ کو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرنا آسان تھا، لیکن یہ کام مشکل تھا۔بہر صورت میں نے سیدناابوبکررضی اللہ عنہ سے عرض کیا کہ آپ کون سا کام کرنے چلے ہیں جس کو جناب نبی کریمﷺ نے نہیں کیا تو حضرت ابوبکر فرمانے لگے یہ کام تو صرف خیر ہی ہے آپ مجھے باربار کہتے رہے یہاں تک کہ اللہ نے میرا سینہ کھول دیا اور میں نے کھجور کے پتوں، باریک پتھروں اورلوگوں کے سینوں سے قرآن جمع کرنا شروع کردیا۔‘‘ (فتح الباري:۱۱؍۱۲)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
جمع کا طریقہ کار
جناب ابوبکررضی اللہ عنہ نے مدینہ میں منادی کروا دی کہ جس کے پاس قرآن کا جو حصہ موجود ہے ، لے کر آئے اور حضرت عمررضی اللہ عنہ اور زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کو کہاکہ آپ مسجد کے دروازے پر بیٹھ جائیں اور جو کوئی بھی قرآن لائے اسے دو گواہیوں کے بعد قبول کرلیں۔ابن حجررحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ دو گواہیاں حفظ اور کتابت پر لی گئی تھی کہ انہوں نے آپ حفظ کیا اورآپ کے سامنے لکھا ہے۔ (فتح الباري: ۱۱؍۱۷)
امام سخاوی رحمہ اللہ نے جمال القراء میں بھی یہی فرمایاہے کہ دو گواہیاں اس بات پر لی گئی تھیں کہ جو کچھ لکھا ہوا وہ پیش کررہا ہے اُسے آپﷺ کے سامنے بیٹھ کر لکھا تھا۔ (الاتقان:۱ ؍۵۷)
سارے قرآن کو جمع کرنے میں یہی اصول کارفرمارہا، لیکن سورۃ توبہ کی آخری دو آیات ایک صحابی حضرت ابوخزیمہ حارث بن خزیمہ رضی اللہ عنہ اکیلے لے کرآئے اور کہا میں گواہی دیتا ہوں کہ میں نے اللہ کے رسول ﷺ سے سنی ہیں اور یاد کی ہیں جس پرحضرت عمررضی اللہ عنہ نے ان کی تائید کی اور ان کوقرآن میں درج کرلیا گیا۔(فتح الباري: ۱۱؍۱۸)
اس طرح قرآن کریم اسلامی تاریخ میں پہلی دفعہ صحائف کی شکل میں جمع ہوا۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
(٣) جمع عثمانی
خطبہ حجۃ الوداع کے بعد صحابہ دین متین کی دعوتِ صادقہ لے کر پوری دنیا میں پھیل گئے اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے دورِ خلافت میں سلطنت اِسلامیہ بے پناہ وسیع ہوگئی تو اس وقت بعض انتظامی ذمہ داریاں نبھانے کی غرض سے صحابہ مصر، عراق اور بلادِ شام تک پھیل گئے ۔ جناب نبی کریمﷺ نے صحابہ کو اَحرف سبعہ کے مطابق قرآن کی تعلیم دی تھی اس لئے صحابہ کی قراء ت میں تھوڑا بہت فرق تھا۔ جب آرمینیہ اور آذربائیجان کی جنگیں ہوئیں تو ان میں عراق اور شام کے مسلمانوں نے اکٹھی شرکت کی۔اہل عراق سیدنا ابن مسعودرضی اللہ عنہ کی قراء ت پڑھتے تھے اور اہل شام سیدنا ابوموسیٰ اشعری کی قراء ت پر تھے۔اہل عراق سیدنا ابوموسیٰ اشعری اور اہل شام حضرت ابن مسعود کی قراء ت کو نہیں جانتے تھے۔جنگ میں رازدانِ رسولﷺ حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ بھی موجود تھے ایک روز وہ مسجد میں لوگوں کے درمیان موجود تھے کہ انہوں نے سنا کہ بعض عراقی اورشامی کہ رہے تھے کہ ہماری قراء ت بہتر ہے، دوسرے کہ رہے تھے کہ ہماری قراء ت بہتر ہے۔ (فتح الباري :۱۱ ؍۲۱)
اختلاف اس قدر شدید ہوگیا کہ بعض روایات میں ہے کہ انہوں نے ایک دوسرے کی قراء ت کاانکار شروع کردیا جب سیدنا حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ نے یہ سنا تو بہت غضبناک ہوئے اور فرمایا کہ آج تم نے بھی اسی طرح قرآن میں اختلاف شروع کردیا ہے جس طرح تم سے پہلے لوگ اختلاف کرتے تھے اور فرمایا میں امیرالمؤمنین عثمان رضی اللہ عنہ کے پاس جا کر کہوں گا کہ لوگوں کو ایک قراء ت پر جمع کردیں، چنانچہ وہ امیرالمومنین کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا:
’’یا أمیرالمؤمنین أدرک ھذہ الأمۃ قبل أن یختلفوا فی الکتاب اختلاف الیہود والنصاری‘‘
’’اے امیرالمؤمنین اس سے پہلے کہ اُمت یہود و نصاریٰ کی طرح کتاب اللہ میں اختلاف کرنے لگے اس کی خبر لیجئے۔‘‘ (فتح الباري:۱۱؍۱۳)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
جب حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے یہ حالت سنی تو فورا ً سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا کے گھر سے وہ مصحف، جو حضرت ابوبکررضی اللہ عنہ نے لکھوایا تھا منگوایا اور اس کی کاپیاں تیارکروا کر مختلف شہروں میں قراء کے ساتھ روانہ کردیں اور اس کے علاوہ تمام قرآنی نسخوں کو جلانے کا حکم دے دیا تاکہ آئندہ ایک ہی مصحف سے تلاوت ہو۔ (فتح الباري، حوالہ مذکورہ)
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے کتنے مصاحف تیار کروائے تھے ان کی تعداد میں اختلاف ہے جس میں چار، پانچ،سات اور آٹھ کے اقوال ہیں۔ مگر حافظ ابن حجررحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ مشہور یہی ہے کہ پانچ تھے۔ (فتح الباري: ۱۱؍۲۴) جو مکہ، کوفہ، شام اور بصرہ روانہ کئے گئے اور ایک مصحف اہل مدینہ کیلئے مقرر فرما دیا۔ اس بارے میں یہ بات ملحوظ رکھنا انتہائی ضروری ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے جب مصاحف اَمصارمختلفہ کی طرف روانہ کئے تھے توہر مصحف کے ساتھ ایک ماہر قاری بھی بھیجا تھا ۔چنانچہ مکہ میں عبداللہ بن سائب، مدینہ میں زید بن ثابت، کوفہ میں ابوعبدالرحمن السلمی، شام میں مغیرہ بن شہاب اوربصرہ میں عامر بن عبدالقیس رضی اللہ عنہم کو مقرر فرمایا۔(تاریخ المصحف از عبد الفتاح قاضی)
مصاحف کے ساتھ قراء کو بھیجنے کا مقصد یہ تھا کہ وہ عوام کو صحیح تلفظ و اَداء، سبعہ احرف اور عرضۂ اَخیرہ کے وقت موجود قرآن کے موافق تعلیم دیں۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
جمع صدیقی اور عثمانی میں فرق
(١) حضرت ابوبکررضی اللہ عنہ کے جمع کرنے کا مقصد قرآن کو ضیاع سے بچانا تھاجب کہ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے اس لئے جمع کیا کہ قرآن کے متعلق مسلمانوں کے مابین آئندہ کے لئے نزاع ختم ہوجائے اور جو ہوا تھاوہ دب جائے۔
(٢) حضرت ابوبکررضی اللہ عنہ نے قرآن کو صحف (مختلف اجزاء ) کی صورت میں جمع کیا تھا جبکہ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے ایک مصحف کی صورت میں بین الدفتین جمع کردیا تھا۔
(٣) حضرت ابوبکررضی اللہ عنہ نے جمع کرتے وقت ترتیب سور کا خیال نہیں رکھا تھا جبکہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے سورتوں کو طوال، مائین اور مفصل کے اعتبار سے مرتب کر دیا۔
(٤) جناب ابوبکر رضی اللہ عنہ نے مختلف اشیاء سے قرآن کو جمع کیاجب کہ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے اسی جمع شدہ قرآن کی نقول تیارکروا کر مختلف علاقوں میں بھیج دیا۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
دوسرا مرحلہ : جمع صوتی

قرآن کو پڑھنا، اس پر تدبر کرنا، اس کے ذریعہ پیچیدہ مسائل کی گتھیاں سلجھانا، جس طرح مقصد نزول، ذریعۂ قربِ الٰہی اور عبادت ربانی ہے اسی طرح قرآن کا سننا مردہ قلوب کے لئے آبِ حیات ، زنگ آلود اَذہان کے لئے صیقل، غوروفکر کرنے والوں کے لئے نصیحت اور ذوق سلیم رکھنے والوں کو نشاط طبع کا سامان فراہم کرتاہے، لیکن یہ قرآن زخموں سے چور انسانیت کے لئے مرہم شفاء ، دکھوں اور تکالیف میں گھری مخلوق کے لئے دلاسۂ شفقت، ظلم و جبر کی چکیوں میں پستی عوام کے لیے نقارۂ آزادی، ضلالت و گمراہی کے گھٹا ٹوپ اندھیروں میں بھٹکتے ہوئے لوگوں کے لئے نوید صبح اور حالات کے بے رحم تھپڑے سہہ سہہ کرمایوسی سے مرجھائے ہوئے چہروں کے لئے بادِ نسیم اس وقت بن سکتا ہے جب اس کو اس طرح پڑھا جائے جس طرح خالق آفرینش رب العالمین نے پڑھا، قاصد رسل سیدنا جبرئیل ؑ اور محسن کائنات سیدالمرسلین نے خودپڑھا اور اپنے صحابہ کو پڑھایا۔ قراء ت قرآن میں معیار اوّل ذات باری تعالیٰ ہیں، کیونکہ خود اللہ تعالیٰ نے قرآن کی تلاوت فرمائی۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا:
(إن اﷲ تبارک وتعالیٰ قرأ طہ ویسین قبل أن یخلق السموات والأرض بألف عام فلما سمعت الملائکۃ القرآن قالت طوبی لأمۃ ینزل ہذا علیہا وطوبی لاجواف تحمل ہذا وطوبی لألسنۃ تتکلم بہذا) (سنن الدارمي: ۳۴۱۷ )
’’اللہ تعالیٰ نے آسمان و زمین کی پیدائش سے ایک ہزار سال پہلے سورۃ طہٰ و یس کی تلاوت کی جب فرشتوں نے سناتو کہا اس امت کے لئے خوشخبری ہے جس کی طرف یہ کلام نازل ہوگا، جو اس کو حفظ کرے گی اور اس کی تلاوت کرے گی۔‘‘
اب دیکھنا یہ ہے کہ اللہ رب العزت نے کلام ذاتی کو تلاوت کس طرح کیا تو اس بارے میں ارشاد ربانی ہے:
’’وَرَتَّلْنَاہُ تَرْتِیْلًا‘‘ (الفرقان: ۳۲)’’ہم نے اس قرآن کوترتیل کے ساتھ پڑھا۔‘‘
اور اسی طرح ترتیل کے ساتھ پڑھنے کا آپ1 کو حکم دیا،قرآن حکیم میں ہے:
’’وَرَتِّلِ الْقُرْآنَ تَرْتِیْلًا‘‘ (المزمل: ۴)’’اے نبیؐ آپ قرآن کو ترتیل کے ساتھ تلاوت کریں۔‘‘
گذشتہ آیات سے معلوم ہواکہ قرآن کریم پڑھنے کا الٰہی اور نبوی طریقہ کار ترتیل ہے۔ ترتیل کا مفہوم حضرت علیؓ یوں بیان کرتے ہیں:
’’الترتیل ھو تجوید الحروف ومعرفۃ الوقوف‘‘ (نہایۃ القول المقید: ص۸)
’’وقوف کی معرفت اور حروف کو تجوید کے ساتھ پڑھنے کا نام ترتیل ہے۔‘‘
لہٰذا قرآن کریم پڑھتے ہوئے وقوف کا خیال رکھنا ازحد ضروری ہے تاکہ کلام اللہ کے معانی میں کوئی تبدیلی واقع نہ ہو بالکل اسی طرح تجوید کی رعایت کے بغیر قرآن کو پڑھنا حرام ہے، کیونکہ حروف کو بغیر تجویدپڑھیں تو ان کی اصلی شکل ختم ہوجاتی جس سے معنی یکسر بدل جاتا ہے۔جناب نبی کریمﷺصحابہ کو ترتیل کی رعایت رکھتے ہوئے سبعہ اَحرف کے مطابق قرآن پڑھایا کرتے تھے کیونکہ قرآن سبعہ احرف پر نازل ہواہے۔ ارشاد نبوی ہے:
(إنَّ ھَذَا الْقُرْآنَ أُنْزِلَ عَلَی سَبْعَۃِ أَحْرُفٍ) (فتح الباری: ۱۱؍۲۸)
’’بلاشبہ قرآن کو سبعہ احرف پر نازل کیاگیاہے۔‘‘
اب سوال یہ ہے کہ وہ ترتیل جس کے مطابق اللہ رب العزت نے خود تلاوت کی،نبی کریمﷺ نے پڑھا اور صحابہ کو پڑھایا اس کو محفوظ کس طرح کیاگیا؟ تاکہ وہی طریقہ جو آپؐ کا تھا روز قیامت تک باقی رہے اور قرآن کی اصلی اور درست انداز میںتلاوت ہوتی رہے اس بارے میں اُمت کے اندر دو طرح سے کام ہواہے۔
 
Top