• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

حق فورم پر محسن بھائی تلمیذ بھائی کے فتویٰ کی زد میں

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,898
پوائنٹ
436
حق فورم پر محسن بھائی جو سینئر ممبر ہیں - جب ان سے حق فورم پر فقہ حنفی میں کتے کی نجاست کو برتن سے پاک کرنا ؟ پر سوال پوچھا گیا
لنک

تو انہوں نے خود صحیح بخاری اور صحیح مسلم کی احادیث پیش کر کے کہا کہ
بخاری و مسلم کی بعض احادیث میں ساتھ مرتبہ دھونے کا حکم ہے اور مٹی سے مانجھنے کا حکم نہیں۔
مسلم شریف کی ایک حدیث میں ساتھ بار دھونے کا حکم ہے اور پہلی بار مٹی سے مانجھنے کا حکم بھی۔
لکن بیچارے اپنی فقہ کو بچانے کی خاطر صحیح احادیث کے مقابلے میں دارقطنی اور مصنف عبدالرزاق کے حوالے پیش کرتے رھے​
اور ساتھ یہ بھی لکھتے رھے
اگر ۳ مرتبہ دھونے کی حدیث موجود نہ ہوتی اور سات بار دھونے کی حدیث ہوتی تو اعتراض کسی حد تک درست ہوتا کہ تین بار دھونے کی بات حدیث سے ٹکراتی ہے۔جب ۳ بار دھونے کی حدیث بھی موجود ہے بلکہ حضرت ابوہریرہ صجس سے سات باردھونے کی حدیث مروی ہے خود انہیں سے تین بار دھونے کی حدیث بھی مروی ہے بلکہ خود انہیں کا فتویٰ تین بار دھونے کاہے تو پتہ چلا کہ ساتھ بار دھونے کا حکم اس وقت تھا جب کہ حضور اکرم ﷺ نے شروع شروع میں کتوں کو قتل کرنے کا حکم دیا تھا ۔ بعد میں جب شکاری اور حفاظت کے کتے رکھنے کی اجازت دی تو کتے کے لئے جھوٹے برتن کو دھونے کے مسئلے میں تین بار دھونے کا حکم دے کہ حکم میں آسانی پیدافرمادی۔ ورنہ حضرت ابوہریرہ جیسے صحابی رسول سے یہ کیسے ہوسکتا تھا کہ حضور کی حدیث میں سات بار دھونے کا حکم ہو اور وہ ازخود تین بار دھونے کو کافی سمجھیں۔​
اگرصرف سات مرتبہ دھونا واجب ہو تو حضرت عبداللہ ابن مغفل کی روایت کا کیا جواب ہوگا جس میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے کتوں کو مار ڈالنے کا حکم دیا اور فرمایا لوگوں کو کتوں سے کیا لینا دینا ہے ؟ پھر بعد میں آپ نے شکاری اور حفاظتی کتے رکھنے کی اجازت د ے دی اور فرمایا : جب کتا برتن میں منہ ڈال دے تو اس کو ساتھ بار دھوؤ اور آٹھویں بار مٹی سے مانجھو
(صحیح مسلم)

اب مسلم کی اس روایت سے تو آٹھ مرتبہ کا حکم بھی آ گیا تو آپ کس پہ عمل کریں گے؟

ساتھ ہی جو اقوال پیش کیے ان کےیہ والے سکین پیجز لگا دئیے​
m1.jpg
m2.jpg
ان روایات کی تحقیق کفایت اللہ بھائی یہاں کر چکے ہیں
آپ نے دیکھا یہ کیسے صحیح احادیث جو صحیح بخاری اور صحیح مسلم کی ہیں رد کیا گیا کیوں کہ فقہ شریف کو جو بچانا تھا​
لیکن تلمیذ بھائی جو خود فقہ حنفی سے تعلق رکھتے ہیں - اور یہاں فقہ کے سوالات کے جوابات دیتے رہتے ہیں خود یہ بات کہہ چکے ہیں کہ​
منکرین الحدیث احادیث کی کتب میں سے ضعیف ، موضوع وغیرہ احادیث کو نقل کرکے احادیث کے ذخیرہ پر اعتراض کرتے ہیں
اب آپ خود فیصلہ کریں کہ ایک طرف محسن بھائی حق فورم پر فقہ حنفی کو بچانے کے لیے صحیح احادیث کے مقابلے میں ضعیف روایات پیش کر رھے ہیں​
لیکن یہاں محدث فورم پر ان کے بھائی تلمیذ کیا فتویٰ دے رھے ہیں​
اب تلمیذ بھائی سے یہ پوچھنا یہ ہے کہ کیا آپ کے فتویٰ کی روشنی میں ہم محسن بھائی کو منکرین حدیث کہ سکتے ہیں​
فیصلہ آپ کا​

 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
حق فورم پر محسن بھائی جو سینئر ممبر ہیں - جب ان سے حق فورم پر فقہ حنفی میں کتے کی نجاست کو برتن سے پاک کرنا ؟ پر سوال پوچھا گیا
لنک

تو انہوں نے خود صحیح بخاری اور صحیح مسلم کی احادیث پیش کر کے کہا کہ
بخاری و مسلم کی بعض احادیث میں ساتھ مرتبہ دھونے کا حکم ہے اور مٹی سے مانجھنے کا حکم نہیں۔
مسلم شریف کی ایک حدیث میں ساتھ بار دھونے کا حکم ہے اور پہلی بار مٹی سے مانجھنے کا حکم بھی۔
لکن بیچارے اپنی فقہ کو بچانے کی خاطر صحیح احادیث کے مقابلے میں دارقطنی اور مصنف عبدالرزاق کے حوالے پیش کرتے رھے​
اور ساتھ یہ بھی لکھتے رھے
اگر ۳ مرتبہ دھونے کی حدیث موجود نہ ہوتی اور سات بار دھونے کی حدیث ہوتی تو اعتراض کسی حد تک درست ہوتا کہ تین بار دھونے کی بات حدیث سے ٹکراتی ہے۔جب ۳ بار دھونے کی حدیث بھی موجود ہے بلکہ حضرت ابوہریرہ صجس سے سات باردھونے کی حدیث مروی ہے خود انہیں سے تین بار دھونے کی حدیث بھی مروی ہے بلکہ خود انہیں کا فتویٰ تین بار دھونے کاہے تو پتہ چلا کہ ساتھ بار دھونے کا حکم اس وقت تھا جب کہ حضور اکرم ﷺ نے شروع شروع میں کتوں کو قتل کرنے کا حکم دیا تھا ۔ بعد میں جب شکاری اور حفاظت کے کتے رکھنے کی اجازت دی تو کتے کے لئے جھوٹے برتن کو دھونے کے مسئلے میں تین بار دھونے کا حکم دے کہ حکم میں آسانی پیدافرمادی۔ ورنہ حضرت ابوہریرہ جیسے صحابی رسول سے یہ کیسے ہوسکتا تھا کہ حضور کی حدیث میں سات بار دھونے کا حکم ہو اور وہ ازخود تین بار دھونے کو کافی سمجھیں۔​
اگرصرف سات مرتبہ دھونا واجب ہو تو حضرت عبداللہ ابن مغفل کی روایت کا کیا جواب ہوگا جس میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے کتوں کو مار ڈالنے کا حکم دیا اور فرمایا لوگوں کو کتوں سے کیا لینا دینا ہے ؟ پھر بعد میں آپ نے شکاری اور حفاظتی کتے رکھنے کی اجازت د ے دی اور فرمایا : جب کتا برتن میں منہ ڈال دے تو اس کو ساتھ بار دھوؤ اور آٹھویں بار مٹی سے مانجھو
(صحیح مسلم)

اب مسلم کی اس روایت سے تو آٹھ مرتبہ کا حکم بھی آ گیا تو آپ کس پہ عمل کریں گے؟

ساتھ ہی جو اقوال پیش کیے ان کےیہ والے سکین پیجز لگا دئیے​
ان روایات کی تحقیق کفایت اللہ بھائی یہاں کر چکے ہیں
آپ نے دیکھا یہ کیسے صحیح احادیث جو صحیح بخاری اور صحیح مسلم کی ہیں رد کیا گیا کیوں کہ فقہ شریف کو جو بچانا تھا​
لیکن تلمیذ بھائی جو خود فقہ حنفی سے تعلق رکھتے ہیں - اور یہاں فقہ کے سوالات کے جوابات دیتے رہتے ہیں خود یہ بات کہہ چکے ہیں کہ​

اب آپ خود فیصلہ کریں کہ ایک طرف محسن بھائی حق فورم پر فقہ حنفی کو بچانے کے لیے صحیح احادیث کے مقابلے میں ضعیف روایات پیش کر رھے ہیں​
لیکن یہاں محدث فورم پر ان کے بھائی تلمیذ کیا فتویٰ دے رھے ہیں​
اب تلمیذ بھائی سے یہ پوچھنا یہ ہے کہ کیا آپ کے فتویٰ کی روشنی میں ہم محسن بھائی کو منکرین حدیث کہ سکتے ہیں​
فیصلہ آپ کا​

یہ تو انتہائی "علمی" اعتراض ہے۔ (ضد آپ خود نکال لیں)
ان کی بات سے یہ کیسے ثابت ہوتا ہے کہ جو بھی کسی ضعیف (جسے ضعیف بھی آپ اپنی تحقیق سے نہیں کہہ رہے) سے استدلال کرنے والا منکر حدیث ہوتا ہے؟ اور کیا محسن بھائی نے اس حدیث کے ذریعے ذخیرہ احادیث کے باطل ہونے پر کوئی استدلال کیا ہے؟
بے فائدہ اعتراض ہے۔
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
لولی بھائی۔ آپ نے تو شیخ کفایت اللہ صاحب کی تحقیق پر بھروسہ کر لیا۔ (تقلید کسے کہتے ہیں؟ حیرت ہے)
بہر حال مجھے یہ مناسب معلوم نہ ہوا اور میں نے چاہا کہ میں اصل جگہوں پر خود دیکھ لوں۔
سنن الدارقطنی میں ہے:۔
نا أبو بكر , قال: حدثني علي بن حرب , نا أسباط بن محمد , وثنا أبو بكر النيسابوري , نا سعدان بن نصر , ثنا إسحاق الأزرق , قالا: نا عبد الملك , عن عطاء , عن أبي هريرة , قال: «إذا ولغ الكلب في الإناء فاهرقه ثم اغسله ثلاث مرات». هذا موقوف , ولم يروه هكذا غير عبد الملك، عن عطاء , والله أعلم
یہ ابو ہریرہ رض کا فتوی ہے اور ہماری بحث اس وقت اس فتوی کے بارے میں ہے نہ کہ اس حدیث مرفوع کے بارے میں جس میں سات مرتبہ دھونے کا ذکر آیا ہے۔
ٹھیک ہے؟

اب شیخ صاحب نے بتایا کہ ابو ہریرہ رض سے تین بار دھونے کا فتوی صرف عبد الملك نے روایت كیا ہے اور ان کے مقابلے میں صحیح سند سے سات بار دھونے کا فتوی مروی ہے۔
امام دارقطني رحمه الله (المتوفى385)نے کہا:
ثنا المحاملي نا حجاج بن الشاعر نا عارم نا حماد بن زيد عن أيوب عن محمد عن أبي هريرة : في الكلب يلغ في الإناء قال يهراق ويغسل سبع مرات صحيح موقوف[سنن الدارقطني: 1/ 64]
أبو عُبيد القاسم بن سلاّم رحمه الله (المتوفى224)نے کہا:
ثنا إِسْمَاعِيلُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنِ ابْنِ سِيرِينَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: «إِذَا وَلَغَ الْكَلْبُ فِي الْإِنَاءِ غُسِلَ سَبْعَ مَرَّاتٍ أَوَّلُهُنَّ أَوْ آخِرُهُنَّ بِالتُّرَابِ وَالْهِرُّ مَرَّةٌ»[الطهور للقاسم بن سلام ص: 267]
اس میں دارقطنی کے راوی عارم کے بارے میں مجھے کچھ نہیں ملا۔ کافی تلاش کیا۔
دوسری بات یہ کہ ان دونوں روایات میں ایک راوی ہیں ایوب بن ابی تمیمہ السختیانی۔ قاسم بن سلامؒ اس روایت کو نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں:۔
ولم يرفعه أيوب قال أبو عبيد: والثابت أنه مرفوع ولكن أيوب كان ربماأمسك عن الرفع.
"اسے ایوب نے مرفوع روایت نہیں کیا ہے۔ ابو عبید (قاسم بن سلام) فرماتے ہیں: ثابت یہ ہے کہ یہ مرفوع ہے لیکن ایوب کبھی کبھار مرفوع روایت کرنے سے رک جاتے تھے۔"
اس سے یہ پتا چلا کہ یہ ابو ہریرہ رض کا فتوی نہیں ہے بلکہ یہ وہی حدیث ہے جس میں سات بار دھونے کا ذکر آیا ہے اور جس کے راوی ابو ہریرہ رض ہیں۔

خود دارقطنی نے انہی ایوب سے اس حدیث کو مرفوع روایت کیا ہے:۔
حدثنا سوار بن عبد الله العنبري قال: حدثنا المعتمر بن سليمان، قال: سمعت أيوب، عن محمد بن سيرين، عن أبي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه قال: " يغسل الإناء إذا ولغ فيه الكلب سبع مرات: أولاهن أو أخراهن بالتراب، وإذا ولغت فيه الهرة غسل مرة "
قدح آتی ہے اس روایت پر کہ جب دیگر رواۃ نے اس کو مرفوع بیان کیا ہے تقریبا انہی الفاظ سے تو ایوب کی یہ روایت بھی اصلا مرفوع ہے لیکن ایوب نے رفع کو ذکر نہیں کیا ہے۔ اسی بات کو قاسم بن سلام نے ذکر کیا ہے۔

چناں چہ ابو ہریرہ رض کا فتوی اب بلا کسی معارض کے باقی رہ گیا اور یہی ابو ہریرہ اس حدیث کے راوی ہیں۔
واللہ اعلم بالصواب۔
 

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,898
پوائنٹ
436
یہ ابو ہریرہ رض کا فتوی ہے اور ہماری بحث اس وقت اس فتوی کے بارے میں ہے نہ کہ اس حدیث مرفوع کے بارے میں جس میں سات مرتبہ دھونے کا ذکر آیا ہے۔

کیا آپ کے نزدیک ایک صحیح حدیث اس قابل ہے کہ اس پر عمل کیا جا ے یا صحیح حدیث آنے کی صورت میں فقہ کو بچنے کی خاطر ضعیف احادیث یا اقوال پر عمل کرنا ضروری ہے یا صحیح حدیث پر​
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
کیا آپ کے نزدیک ایک صحیح حدیث اس قابل ہے کہ اس پر عمل کیا جا ے یا صحیح حدیث آنے کی صورت میں فقہ کو بچنے کی خاطر ضعیف احادیث یا اقوال پر عمل کرنا ضروری ہے یا صحیح حدیث پر​
ابو ہریرہ رض کے بارے میں کیا خیال ہے جنہوں نے خود یہ حدیث روایت کی ہے؟
میرے خیال میں شیعہ حضرات کو آپ کی بات سے کافی خوشی ہوئی ہوگی۔
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,898
پوائنٹ
436
غیر متعلق
میں نے پوچھا ہے کہ آپ نے جو کہا ہے کہ صحیح حدیث پر عمل کیا جائے نہ کہ ضعیف احادیث پر تو ابو ہریرہ رض کے بارے میں کیا خیال ہے کہ انہوں نے اپنی روایت کردہ حدیث کو کیوں چھوڑ دیا؟


آپ کو غلط فہمی ہوئی یا نظر کمزور ھو گئی آپ کی - حضرات ابو ہریرہ راضی اللہ نے اپنی صحیح روایت کو نہیں چھوڑا - بلکہ فقہ حنفی شریف والوں نے چھوڑا - اور اپنی فقہ کو بچانے کی خاطر اب صحابہ کرام کو بھی نہیں بخش رھے ہیں
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
آپ کو غلط فہمی ہوئی یا نظر کمزور ھو گئی آپ کی - حضرات ابو ہریرہ راضی اللہ نے اپنی صحیح روایت کو نہیں چھوڑا - بلکہ فقہ حنفی شریف والوں نے چھوڑا - اور اپنی فقہ کو بچانے کی خاطر اب صحابہ کرام کو بھی نہیں بخش رھے ہیں
ضد کا کوئی جواب نہیں۔
آپ جیت گئے۔ خوش رہیے۔
 
Top