سلام !
کیا ایسی کوئی حدیث / اصول فقہ ہے کہ حلال و حرام کے ٹکرائو کے وقت حرام کو ترجیح دی جائے ۔ اگر ہاں تو اس اصل / حدیث کا Reference کیا ہے ۔
یہ مسئلہ بہت کنفیوز کر رہا ہے جواب دے کر مشکور فرمائیں۔
شکریہ
شیخ نوید
شیخ صاحب آپ کے سوالات میں ایک خاص قسم کی بو محسوس کی جا رہی ہے جو دین و دنیا دونوں کے لیے نقصان دہ ثابت ہوتی ہے۔اس لیے گزارش یہ کروں گا کہ سوالات افہام و تفہیم پر مبنی ہوں تو بات میں نکھار بھی آتا ہے اور بات سمجھ بھی آتی ہے ورنہ معاملہ
یضل بہ کثیرا ویہدی بہ کثیرا والا بن جاتا ہے۔
شریعت کا اصول یہ نہیں کہ حلال و حرام میں ٹکراؤ آ جائے تو حرام اختیار کرو بلکہ یہ اصول ہے کہ جب حلال نہ ملے اور جان جانے کا خطرہ ہو تو اس وقت حرام اختیار کر کے صرف جان بچانے کی اجازت ہے نہ کہ پیٹ بھرنے کی۔
اور یہ رہا آپ کے سوال کا جواب قرآن کی روشنی میں:
إِنَّمَا حَرَّمَ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةَ وَالدَّمَ وَلَحْمَ الْخِنزِيرِ وَمَا أُهِلَّ بِهِ لِغَيْرِ اللَّـهِ ۖ فَمَنِ اضْطُرَّ غَيْرَ بَاغٍ وَلَا عَادٍ فَلَا إِثْمَ عَلَيْهِ ۚ إِنَّ اللَّـهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ ﴿ البقرہ:١٧٣﴾
ترجمہ:
بیشک اللہ تعالیٰ نے مردار،خون(بہتا ہوا)، خنزیر کا گوشت اور جو غیر اللہ کے نام پر چڑھاوا چڑھایا گیا ہو اس کو حرام قرار دیا ہے اور جو شخص مجبور ہو ہاں حد سے بڑھنے والا اور عادی بننے والا نہ ہو اس پر کوئی گناہ نہیں کہ وہ ان حرام چیزوں کو اختیار کر سکتا ہے۔
امید ہے کہ بات واضح ہو گئی ہو گی اگر ابھی بھی ذہن تسلیم نہ کرے تو اللہ حافظ ہے۔