• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

حکمۃ کا مطلب کیا ہے؟

عالی جاہ

مبتدی
شمولیت
ستمبر 12، 2018
پیغامات
14
ری ایکشن اسکور
1
پوائنٹ
7
قرآن کریم کو حَکِیْمٌ کہا گیا ہے[2:36] کیونکہ وہ ہر شے کا صحیح مقام متعین کر کے کسی کو ان حدود سے آگے نہیں بڑھنے دیتا ۔ وہ تمام اختلافی امور میں صحیح فیصلے کرتا ہے۔ خدا کو بھی الْحَكِيْمُ کہا گیا ہے [32:2]۔ کیونکہ وہ کائنات کو ٹھیک ٹھیک راستہ پر چلاتا ہے۔ ہر شے کو صحیح صحیح اندازے اور تناسب کے مطابق پیدا کرتا ہے اور اپنے قانون کی لگام سے ہر شے کو مسخرکئے ہوئے ہے يَحْكُمُ بَيْنَھُمْ يَوْمَ الْقِيٰمَةِ فِيْمَا كَانُوْا فِيْهِ يَخْتَلِفُوْنَ[113:2] وہ انسانوں کے اختلافی امور میں فیصلے کرتا ہے۔
 

عالی جاہ

مبتدی
شمولیت
ستمبر 12، 2018
پیغامات
14
ری ایکشن اسکور
1
پوائنٹ
7
قرآن نے کہا ہے کہ اس کی آیات مُحْکَمٰتٌ اور مَتَشَابِہَاتٌ ہیں۔سورۃ آل عمران میں ہے۔ ھُوَ الَّذِيْٓ اَنْزَلَ عَلَيْكَ الْكِتٰبَ مِنْهُ اٰيٰتٌ مُّحْكَمٰتٌ ھُنَّ اُمُّ الْكِتٰبِ وَاُخَرُ مُتَشٰبِهٰتٌ ۭ فَاَمَّا الَّذِيْنَ فِيْ قُلُوْبِهِمْ زَيْغٌ فَيَتَّبِعُوْنَ مَا تَشَابَهَ مِنْهُ ابْتِغَاۗءَ الْفِتْنَةِ وَابْتِغَاۗءَ تَاْوِيْلِهٖ څ وَمَا يَعْلَمُ تَاْوِيْلَهٗٓ اِلَّا اللّٰهُ ڤ وَالرّٰسِخُوْنَ فِي الْعِلْمِ يَقُوْلُوْنَ اٰمَنَّا بِهٖ ۙ كُلٌّ مِّنْ عِنْدِ رَبِّنَا ۚ وَمَا يَذَّكَّرُ اِلَّآ اُولُوا الْاَلْبَابِ[7:3]۔ کیا اس آیت کا درج ذیل مفہوم درست ہے؟؟؟:
ُحْکَمٌ کے معنی ہیں اپنی جگہ پر قائم۔ اٹل۔ صاف فیصلہ کرنے والا۔ مستحکم۔ لیکن یہاں اس کے مقابل میں مُتَشَابِہَاتٌ کا لفظ آیا ہے اس لیے مُحْکَمٌ کے معنی ہوں گے وہ جو مُتَشَابِہ نہ ہو۔ اور مُتَشَابِهٌ کے معنی ہوں گے وہ جو محکم نہ ہو۔ یعنی مُحْکَمٌ ور مُتَشَابِهٌ۔ مختلف قسم کی آیات ہیں۔ یا آیات کی دو قسمیں ہیں۔
مختصر الفاظ میں اس کے معنی ہوتے ہیں، ملتی جلتی ہوئی چیزیں جن میں باہمی مشابہت اور موافقت ہو۔ تشبیہ کو اسی لیے تشبیہ کہتے ہیں کہ اس سے ایک چیز کو اس سے ملتی جلتی چیز کے ساتھ مثال دے کر سمجھایا جاتا ہے۔
ان معانی کے اعتبار سے مُحْکَمٌ کے اولین معنی ہوں گے ایسی آیات جن کے الفاظ سے وہی مفہوم ہو جو ان الفاظ کے معنی ہیں۔ مثلاً نکاح کے ضمن میں ارشاد ہے حُرِّمَتْ عَلَيْكُمْ اُمَّھٰتُكُمْ [23:4]۔ تمہاری مائیں تم پر حرام ہیں۔ اس میں اُمٌّ کے معنی ماں کے ہیں۔یعنے وہ عورت جس کے بطن سے کوئی پیدا ہو۔ لیکن مُحْکَم وَ مُتَشَابِہَات کی جس آیت کو اوپر نقل کیا گیا ہے۔ یعنی [7:3]۔ اس میں ھُنَّ اُمُّ الْکِتَابِ میں اُمٌّ کے معنی اس قسم کی ماں نہیں۔ اس میں اُمٌّ کا لفظ استعارۃً استعمال کیا گیا ہے اور اس سے مفہوم ہے "اصل و بنیاد"۔یہ اس لفظ کی تاویل ہے۔ تَاْوَیْلٌ کے معنی ہیں آخری نتیجہ۔ جو کچھ مآل کار ہو۔ کسی شے کی آخری حقیقت (Ultimate Reality) ۔ قرآن میں انسانی راہنمائی کے لیے قوانین و ضوابط دئے گئے ہیں۔ ظاہر ہے کہ ان احکام و قوانین کے الفاظ ایسے ہونے چاہئیں جن کا مطلب ان الفاظ سے محکم طور پر متیّن ہو جاتا ہو۔ جیسا کہ حُرِّمَتْ عَلَیْکُمْ اُمَّھٰتُکُمْ کی مثال میں بتایا گیا ہے۔ اس قسم کی آیا مُحْکَمٰتٌ ہیں۔ لیکن اس کے ساتھ ہی قرآن میں ایسے حقائق کا بھی ذکر ہے جن کا تعلق اُس عالم سے ہے جو ہماری سرحدِ ادراک سے باہر ہے۔ مثلاً الله کی ذات اور اس کی صفات۔ مرنے کے بعد کی زندگی اور اُس میں اعمال کے نتائج۔ وہاں کی جنت اور جہنم۔ یا انسانی زندگی کا منتھیٰ اور مآل۔ ظاہر ہے کہ اس قسم کے مجرد حقائق (Abstract Truths )کو جب بھی بیان کیا جائے گا تو تشبیہ و استعارہ اور تمثیلات کے رنگ میں بیان کیا جائے گا۔
 
Top