’خال المومنین‘ کون؟!
نام
معاویہ بن ابی سفیان (صخر) بن حرب بن اُمیہ بن عبد شمس بن عبد مناف … اُموی، قریشی صحابی ہیں۔ آپ کا نسب نامہ نبی کریمﷺ اور سیدنا علی سے عبد مناف پر جا ملتا ہے۔
پیدائش
سیدنا معاویہ بعثت سے پانچ سال قبل پیدا ہوئے۔ 78 سال بقید حیات رہنے کے بعد ۶۰ ھ کو وفات پائی۔ آپؓ نے اُنیس سال، تین ماہ اور ستائیس دِن خلافت کی ذمہ داری سنبھالی۔
والدہ ماجدہ
آپؓ کی والدہ کا نام ہند بنت عتبہ بن ربیعہ بن عبد شمس بن عبد مناف ہے۔ ان کا نسب نامہ بھی عبد مناف میں رسول اکرم1 سے مل جاتا ہے۔ ہند6 نے فتح مکہ کے دن اپنے شوہر ابو سفیانؓ کے مسلمان ہونے کے بعد اسلام قبول کیا۔
ابان بن عثمانؒ ذکر کرتے ہیں کہ معاویہؓ ایک دفعہ اپنی ماں کے ساتھ پیدل چل رہے تھے، تھک کر بیٹھ گئے تو ماں نے کہا:
’’کھڑا ہوجا، اللہ تجھے بلند نہ کرے!‘‘
ایک بدو دیکھ رہا تھا، اس نے کہا: ’’آپ اس طرح کیوں کہہ رہی ہیں؟ اللہ کی قسم! میں گمان کرتا ہوں کہ یہ اپنی قوم کی قیادت کرے گا۔‘‘ تو ہند نے کہا:
’’اگر یہ صرف اپنی قوم کی قیادت کرے تو اللہ اس کو بلند نہ کرے!‘‘
بیویاں
1۔ میسون بنت بحدل کلبی:
آپؓ نے ان کو طلاق دے دی تھی۔ ان سے آپ کی اولاد یزید بن معاویہ اور ایک بچی تھی جو بچپن میں فوت ہوگئی۔
2۔فاختہ بنت قرظہ بن عبد عمرو بن نوفل بن عبد مناف:
ان سے دو بیٹے عبد الرحمن اور عبد اللہ تولد ہوئے۔
3۔کنود بنت قرظہ:
یہ فاختہ بنت قرظہ کی بہن تھیں، جن سے آپؓ کی شادی فاختہ کی وفات کے بعد ہوئی۔ ان کو فتح ِقبرص کے وقت سیدنا معاویہؓ کے ساتھ کا اعزاز حاصل ہے۔
4۔نائلہ بنت عمارہ:
ان کو بھی آپؓ نے طلاق دے دی تھی۔ ان سے آپ کی پانچ بیٹیاں تھیں: رملہ، ہند، عائشہ، عاتکہ اور صفیہ
قبولِ اسلام
معاویہؓ نے اپنے باپ ابو سفیان سے پہلے اسلام قبول کر لیا تھا جسے انہوں نے اپنے باپ سے چھپائے رکھا۔
بیعت
۴۱ ھ کو بطور امیر المومنین آپؓ کی بیعت کی گئی، اس سال کو ’عام الجماعہ‘ کہا جاتا ہے۔
خال المومنین
سیدنا معاوِیہؓ کو خال المومنین (مومنوں کے ماموں) اسلئے کہا جاتا ہے کہ ان کی بہن اُم حبیبہ (رملہ بنت ابی سفیان) نبی اکرمﷺ کی محبوب بیوی تھیں۔
فضائل
1۔اہل السنۃ والجماعۃ کا اس بات پر اجماع ہے کہ معاوِیہؓ صحابی ہیں۔ نبی کریمﷺ کا ارشاد ہے:
’’ خَیْرُ أُمَّتِي قَرْنِي ثُمَّ الَّذِینَ یَلُونَہُمْ ‘‘ قال عمران: فلا أدري أذکر بعد قرنہٖ قرنین أو ثلاثًا (صحیح البخاري: ۳۶۵۰، صحیح مسلم: ۲۵۳۵)
’’بہترین لوگ میرے زمانے کے ہیں،پھر ان کے بعد آنے والے اور پھر ان کے بعد آنے والے۔‘‘ راوی (عمران بن حصین ) فرماتے ہیں: مجھے نہیں معلوم کہ نبی کریم1 نے اپنے زمانے کے بعد دو زمانوں کا ذکر کیا یا تین کا؟‘‘
2۔نبی اکرمﷺ نے فرمایا:
’’ اَللّٰہُمَّ عَلِّمْ مُعَاوِیَۃَ الْکِتَابَ وَالْحِسَابَ وَقِہِ الْعَذَابَ ‘‘ (مسند أحمد: ۱۶۷۰۲، والطبرانی فی الکبیر، وصحّحہ الألبانی)
’’اے اللہ! معاویہ کو کتاب اور حساب کا علم سکھا اور اس کو عذاب سے بچا۔‘‘
3۔عبد الرحمن بن ابی عمیرہ ازدی نبی کریمﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے معاویہؓ کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:
’’ اَللّٰہُمَّ اجْعَلْہُ ہَادِیًا مَہْدِیًّا وَاہْدِ بِہٖ ‘‘ (أحمد والترمذي:۳۸۴۲، وقال: حسن غریب)
’’اے اللہ! اس کو راہنمائی کرنے والا، ہدایت یافتہ بنا دے اور اس کے ذریعے ہدایت کو عام کر۔‘‘
یہ نبی کریمﷺ کی سیدنا اَمیر معاوِیہ کے حق میں دُعا ہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیبﷺ کی دُعا قبول کی۔ اس سے اہل حق کے سینوں کو ٹھنڈک پہنچتی ہے، جبکہ وہ لوگ جن کے دلوں میں نبی کریمﷺ کے اصحاب کے بارے میں کھوٹ ہے ان کو اس فضیلت سے غم اور تکلیف پہنچتی ہے،
نعوذ باﷲمن الخِذلان، لاریب کہ اس حدیث مبارکہ میں سیدنا اَمیر معاوِیہ کی عظیم فضیلت بیان ہوئی ہے۔
4۔سیدنا ابن عباس فرماتے ہیں:
’’میں بچوں کے ساتھ کھیل رہا تھا کہ رسول اللہﷺ تشریف لائے تو میں دروازے کے پیچھے چھپ گیا۔ کہتے ہیں: آپﷺ تشریف لائے اور میری کمر پر ہاتھ مار کر فرمایا:
’’ اِذْہَبْ اُدْعُ لِي مُعَاوِیَۃَ ‘‘ کہ ’’جاؤ معاویہ کو بلا لائو۔‘‘
ابن عباسؓ کہتے ہیں: میں آیا اور آپﷺکو بتایا کہ وہ کھانا کھا رہے ہیں۔ آپﷺ نے پھر بھیجا، میں نے واپس آکر یہی جواب دیا تو نبی کریمﷺ نے فرمایا:
’’ لَا أَشْبَعَ اﷲُ بَطْنَہٗ ‘‘ ’’اللہ کبھی اُس کا پیٹ نہ بھرے‘‘ (صحیح مسلم: ۲۶۰۴)
اور سیدنا ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہﷺ کو فرماتے ہوئے سنا:
’’ اَللّٰہُمَّ فَأَیُّمَا مُؤمِنٍ سَبَبْتُہٗ فَاجْعَلْ ذٰلِکَ لَہٗ قُرْبَۃً إِلَیْکَ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ ‘‘ (صحیح البخاري: ۶۳۶۱، صحیح مسلم: ۲۶۰۱)
’’یا اِلٰہی! میں جس مومن کو بھی گالی دوں تو قیامت کے دن اُسکو اپنی قربت کاسبب بنا دے۔‘‘
اہل سنت کے دل نبی کریمﷺ کے صحابہ کرام کے متعلق کس قدر شفاف ہیں کہ امام مسلمؒ نے ایک ہی باب میں دو حدیثیں ذکر کی ہیں، گویا انہوں نے پہلی حدیث کو دوسری کے ساتھ ملا کر سیدنا معاوِیہ کے لئے عظیم فضیلت کو ثابت کیا ہے۔
5۔اُمِ حرام سے مروی ہے کہ انہوں نے نبی کریمﷺ کو فرماتے سنا:
’’ أَوَّلُ جَیْشٍ مِنْ أُمَّتِي یَغْزُونَ الْبَحْرَ قَدْ أَوجَبُوا‘‘ قالتْ: قلتُ یَا رسولَ اﷲ! أَنَا فیہِم؟ قَالَﷺ: ’’ أَنْتِ فِیہِمْ ‘‘ ثمّ قالﷺ: ’’ أَوَّلُ جَیْشٍ مِنْ أُمَّتِي یَغْزُونَ مَدِینَۃَ قَیْصَرَ مَغْفُورٌ لَہُمْ ‘‘، فَقلتُ: أَنا فیہِمْ یا رسولَ اﷲ!؟! قال: ’’ لا ‘‘ (صحیح البخاري: ۲۹۲۴)
’’میری اُمت میں سے سب سے پہلے جس نے بحری جنگ لڑی، اُس پر جنت واجب کر دی گئی ہے۔‘‘ اُم حرام کہتی ہیں کہ میں نے پوچھا کہ کیا میں بھی اس میں شامل ہوں گی؟ فرمایا: ’ہاں! تو ان میں ہوگی۔‘‘ پھر نبی کریمﷺ نے فرمایا: ’’میری اُمت کا وہ گروہ جو سب سے پہلے شہر قیصر میں لڑے گا اس کو بخش دیا گیا ہے۔‘‘ میں پوچھا کہ کیا میں اس گروہ میں بھی شامل ہوں گی؟ فرمایا: ’’نہیں۔‘‘
اس بات پر اتفاق ہے کہ یہ فضیلت سیدنا اَمیر معاوِیہ کو بھی نصیب ہوئی۔ انہوں نے سیدنا عثمان بن عفان کی خلافت میں یہ جنگیں لڑیں۔ قیصر کے شہر سے مراد قسطنطنیہ ہے۔