• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

خالُ المؤمنین (مومنوں کے ماموں)

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
خالُ المؤمنین (مومنوں کے ماموں)

سِلسِلۃ العَلامتَین ابنِ باز ؒوالألبَانی​
مترجم: محمد اَرشد کاشمیری​
تمام تعریفیں اللہ تعالیٰ کے لئے ہیں، اور درود وسلام رسول اکرمﷺ پر اور آپ کے صحابہ کرام پر اور جنہوں نے ان کی پیروی کی۔
ہمارے اسلاف کے نزدیک اللہ تعالیٰ کی قربت کے لئے بڑے اعمال میں سے ایک عمل نبی کریمﷺ کے اصحاب سے محبت ہے۔ ہم سوائے ان صحابہ کرام کے، جن کی فضیلت اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولﷺ نے بیان کی، کسی میں تفریق نہیں کرسکتے۔
قربت کیلئے ایک بڑی چیز صحابہ کرام کی عزت کی حفاظت اور ان کا دفاع ہے۔ فرمانِ نبویﷺ ہے:
’’ مَنْ رَدَّ عَنْ عِرْضِ أَخِیہِ رَدَّ اﷲُ عن وَجْہِہِ النَّارَ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ ‘‘ (الترمذي: ۱۹۳۱، وقال: حدیث حسن)
’’جس نے اپنے بھائی کی عزت کا دفاع کیا، اللہ تعالیٰ قیامت کے روز اس کے چہرے سے عذاب کو دور کریں گے۔‘‘
حاملین اسلام اور جن کو اس دین کی ہدایت کیلئے اللہ تعالیٰ نے ہمارے لئے سبب بنایا اُن کی عزت کے دفاع کا کیا مقام ہوسکتا ہے؟! اللہ کے بعد اگر یہ لوگ نہ ہوتے تو ہم تک دین نہ پہنچتا اور ہم مسلمان نہ ہوتے۔
سیدنا عروہ بن زبیرؒ نے سیدہ عائشہ سے شکایت کی کہ میں لوگوں کو سنتا ہوں کہ وہ صحابہ کرام کے بارے کلام کرتے ہیں تو انہوں اس حقیقت کا اظہار کچھ یوں فرمایا:
’’اے میرے بیٹے! جب صحابہ کرامؓ رسول اکرمﷺ کے ساتھ تھے تو اللہ تعالیٰ اس وقت بھی ان کو اجر عظیم عطا کرتے تھے اور جب صحابہ کرامؓ وفات پاگئے تو اللہ تعالیٰ نے پسند فرمایا کہ ان کے اَجر پھر بھی منقطع نہ ہوں۔‘‘
فضیل بن عیاضؒ فرماتے ہیں:
’’اگر تم قیامت کے دن زمین کی مٹی جتنے گناہ لے کر حاضر ہو تو اللہ تعالیٰ معاف فرما دیں گے، لیکن اگر تم اس حال میں آئے کہ دل میں صحابہ کرام کے بارے میں ذرہ برابر بھی بغض تھا تو تمہارے اعمال کوئی فائدہ نہ دیں گے۔‘‘
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
’خال المومنین‘ کون؟!

نام
معاویہ بن ابی سفیان (صخر) بن حرب بن اُمیہ بن عبد شمس بن عبد مناف … اُموی، قریشی صحابی ہیں۔ آپ کا نسب نامہ نبی کریمﷺ اور سیدنا علی سے عبد مناف پر جا ملتا ہے۔
پیدائش
سیدنا معاویہ بعثت سے پانچ سال قبل پیدا ہوئے۔ 78 سال بقید حیات رہنے کے بعد ۶۰ ھ؁ کو وفات پائی۔ آپؓ نے اُنیس سال، تین ماہ اور ستائیس دِن خلافت کی ذمہ داری سنبھالی۔
والدہ ماجدہ
آپؓ کی والدہ کا نام ہند بنت عتبہ بن ربیعہ بن عبد شمس بن عبد مناف ہے۔ ان کا نسب نامہ بھی عبد مناف میں رسول اکرم1 سے مل جاتا ہے۔ ہند6 نے فتح مکہ کے دن اپنے شوہر ابو سفیانؓ کے مسلمان ہونے کے بعد اسلام قبول کیا۔
ابان بن عثمانؒ ذکر کرتے ہیں کہ معاویہؓ ایک دفعہ اپنی ماں کے ساتھ پیدل چل رہے تھے، تھک کر بیٹھ گئے تو ماں نے کہا:
’’کھڑا ہوجا، اللہ تجھے بلند نہ کرے!‘‘
ایک بدو دیکھ رہا تھا، اس نے کہا: ’’آپ اس طرح کیوں کہہ رہی ہیں؟ اللہ کی قسم! میں گمان کرتا ہوں کہ یہ اپنی قوم کی قیادت کرے گا۔‘‘ تو ہند نے کہا:
’’اگر یہ صرف اپنی قوم کی قیادت کرے تو اللہ اس کو بلند نہ کرے!‘‘
بیویاں
1۔ میسون بنت بحدل کلبی:
آپؓ نے ان کو طلاق دے دی تھی۔ ان سے آپ کی اولاد یزید بن معاویہ اور ایک بچی تھی جو بچپن میں فوت ہوگئی۔
2۔فاختہ بنت قرظہ بن عبد عمرو بن نوفل بن عبد مناف:
ان سے دو بیٹے عبد الرحمن اور عبد اللہ تولد ہوئے۔
3۔کنود بنت قرظہ:
یہ فاختہ بنت قرظہ کی بہن تھیں، جن سے آپؓ کی شادی فاختہ کی وفات کے بعد ہوئی۔ ان کو فتح ِقبرص کے وقت سیدنا معاویہؓ کے ساتھ کا اعزاز حاصل ہے۔
4۔نائلہ بنت عمارہ:
ان کو بھی آپؓ نے طلاق دے دی تھی۔ ان سے آپ کی پانچ بیٹیاں تھیں: رملہ، ہند، عائشہ، عاتکہ اور صفیہ
قبولِ اسلام
معاویہؓ نے اپنے باپ ابو سفیان سے پہلے اسلام قبول کر لیا تھا جسے انہوں نے اپنے باپ سے چھپائے رکھا۔
بیعت
۴۱ ھ؁ کو بطور امیر المومنین آپؓ کی بیعت کی گئی، اس سال کو ’عام الجماعہ‘ کہا جاتا ہے۔
خال المومنین
سیدنا معاوِیہؓ کو خال المومنین (مومنوں کے ماموں) اسلئے کہا جاتا ہے کہ ان کی بہن اُم حبیبہ (رملہ بنت ابی سفیان) نبی اکرمﷺ کی محبوب بیوی تھیں۔
فضائل
1۔اہل السنۃ والجماعۃ کا اس بات پر اجماع ہے کہ معاوِیہؓ صحابی ہیں۔ نبی کریمﷺ کا ارشاد ہے:
’’ خَیْرُ أُمَّتِي قَرْنِي ثُمَّ الَّذِینَ یَلُونَہُمْ ‘‘ قال عمران: فلا أدري أذکر بعد قرنہٖ قرنین أو ثلاثًا (صحیح البخاري: ۳۶۵۰، صحیح مسلم: ۲۵۳۵)
’’بہترین لوگ میرے زمانے کے ہیں،پھر ان کے بعد آنے والے اور پھر ان کے بعد آنے والے۔‘‘ راوی (عمران بن حصین ) فرماتے ہیں: مجھے نہیں معلوم کہ نبی کریم1 نے اپنے زمانے کے بعد دو زمانوں کا ذکر کیا یا تین کا؟‘‘
2۔نبی اکرمﷺ نے فرمایا:
’’ اَللّٰہُمَّ عَلِّمْ مُعَاوِیَۃَ الْکِتَابَ وَالْحِسَابَ وَقِہِ الْعَذَابَ ‘‘ (مسند أحمد: ۱۶۷۰۲، والطبرانی فی الکبیر، وصحّحہ الألبانی)
’’اے اللہ! معاویہ کو کتاب اور حساب کا علم سکھا اور اس کو عذاب سے بچا۔‘‘
3۔عبد الرحمن بن ابی عمیرہ ازدی نبی کریمﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے معاویہؓ کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:
’’ اَللّٰہُمَّ اجْعَلْہُ ہَادِیًا مَہْدِیًّا وَاہْدِ بِہٖ ‘‘ (أحمد والترمذي:۳۸۴۲، وقال: حسن غریب)
’’اے اللہ! اس کو راہنمائی کرنے والا، ہدایت یافتہ بنا دے اور اس کے ذریعے ہدایت کو عام کر۔‘‘
یہ نبی کریمﷺ کی سیدنا اَمیر معاوِیہ کے حق میں دُعا ہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیبﷺ کی دُعا قبول کی۔ اس سے اہل حق کے سینوں کو ٹھنڈک پہنچتی ہے، جبکہ وہ لوگ جن کے دلوں میں نبی کریمﷺ کے اصحاب کے بارے میں کھوٹ ہے ان کو اس فضیلت سے غم اور تکلیف پہنچتی ہے، نعوذ باﷲمن الخِذلان، لاریب کہ اس حدیث مبارکہ میں سیدنا اَمیر معاوِیہ کی عظیم فضیلت بیان ہوئی ہے۔
4۔سیدنا ابن عباس فرماتے ہیں:
’’میں بچوں کے ساتھ کھیل رہا تھا کہ رسول اللہﷺ تشریف لائے تو میں دروازے کے پیچھے چھپ گیا۔ کہتے ہیں: آپﷺ تشریف لائے اور میری کمر پر ہاتھ مار کر فرمایا:
’’ اِذْہَبْ اُدْعُ لِي مُعَاوِیَۃَ ‘‘ کہ ’’جاؤ معاویہ کو بلا لائو۔‘‘
ابن عباسؓ کہتے ہیں: میں آیا اور آپﷺکو بتایا کہ وہ کھانا کھا رہے ہیں۔ آپﷺ نے پھر بھیجا، میں نے واپس آکر یہی جواب دیا تو نبی کریمﷺ نے فرمایا:
’’ لَا أَشْبَعَ اﷲُ بَطْنَہٗ ‘‘ ’’اللہ کبھی اُس کا پیٹ نہ بھرے‘‘ (صحیح مسلم: ۲۶۰۴)
اور سیدنا ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہﷺ کو فرماتے ہوئے سنا:
’’ اَللّٰہُمَّ فَأَیُّمَا مُؤمِنٍ سَبَبْتُہٗ فَاجْعَلْ ذٰلِکَ لَہٗ قُرْبَۃً إِلَیْکَ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ ‘‘ (صحیح البخاري: ۶۳۶۱، صحیح مسلم: ۲۶۰۱)
’’یا اِلٰہی! میں جس مومن کو بھی گالی دوں تو قیامت کے دن اُسکو اپنی قربت کاسبب بنا دے۔‘‘
اہل سنت کے دل نبی کریمﷺ کے صحابہ کرام کے متعلق کس قدر شفاف ہیں کہ امام مسلمؒ نے ایک ہی باب میں دو حدیثیں ذکر کی ہیں، گویا انہوں نے پہلی حدیث کو دوسری کے ساتھ ملا کر سیدنا معاوِیہ کے لئے عظیم فضیلت کو ثابت کیا ہے۔
5۔اُمِ حرام سے مروی ہے کہ انہوں نے نبی کریمﷺ کو فرماتے سنا:
’’ أَوَّلُ جَیْشٍ مِنْ أُمَّتِي یَغْزُونَ الْبَحْرَ قَدْ أَوجَبُوا‘‘ قالتْ: قلتُ یَا رسولَ اﷲ! أَنَا فیہِم؟ قَالَﷺ: ’’ أَنْتِ فِیہِمْ ‘‘ ثمّ قالﷺ: ’’ أَوَّلُ جَیْشٍ مِنْ أُمَّتِي یَغْزُونَ مَدِینَۃَ قَیْصَرَ مَغْفُورٌ لَہُمْ ‘‘، فَقلتُ: أَنا فیہِمْ یا رسولَ اﷲ!؟! قال: ’’ لا ‘‘ (صحیح البخاري: ۲۹۲۴)
’’میری اُمت میں سے سب سے پہلے جس نے بحری جنگ لڑی، اُس پر جنت واجب کر دی گئی ہے۔‘‘ اُم حرام کہتی ہیں کہ میں نے پوچھا کہ کیا میں بھی اس میں شامل ہوں گی؟ فرمایا: ’ہاں! تو ان میں ہوگی۔‘‘ پھر نبی کریمﷺ نے فرمایا: ’’میری اُمت کا وہ گروہ جو سب سے پہلے شہر قیصر میں لڑے گا اس کو بخش دیا گیا ہے۔‘‘ میں پوچھا کہ کیا میں اس گروہ میں بھی شامل ہوں گی؟ فرمایا: ’’نہیں۔‘‘
اس بات پر اتفاق ہے کہ یہ فضیلت سیدنا اَمیر معاوِیہ کو بھی نصیب ہوئی۔ انہوں نے سیدنا عثمان بن عفان کی خلافت میں یہ جنگیں لڑیں۔ قیصر کے شہر سے مراد قسطنطنیہ ہے۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
مخالفت ِمعاویہؓ کیوں؟
1۔اہل سنت میں سے بہت سے لوگ اس عظیم صحابی کی فضیلت اور سیرت سے ناواقف ہیں اور اس کی وَجہ ذہنوں میں موجود تصورات اور دلوں میں جگہ پانے والی ان افواہوں پر اعتماد کرنا ہے جن کا مصدر ومنبع من گھڑت واقعات ہیں جن کو شرعی اعتبار سے ہم جھوٹ اور بہتان کہہ سکتے ہیں جبکہ ہمارا دین اُن سے کوسوں دور ہے۔
2۔دوسری وَجہ وہ بدعتی لوگ ہیں جو بلا وَجہ سیدنا معاوِیہ پر تہمت لگاتے اور ان کے نقص بیان کرتے ہیں۔اور اسی طرح وہ عوامی اور بازاری لوگ جو بغیر تحقیق کے ہر چلانے والے کے پیچھے لگ جاتے ہیں۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
مدحت ِمعاوِیہ
1۔سیدنا عبد اللہ بن عباس سے سوال کیا گیا کہ آپ کا اَمیر المومنین معاویہ کے بارے میں کیا خیال ہے وہ صرف ایک وتر پڑھتے ہیں؟ ابن عباسؓ نے فرمایا:
’’انہوں نے صحیح بات کو پایا ہے اور وہ فقیہ ہیں۔‘‘(صحیح البخاري: ۳۷۶۵)
2۔ابو الدرداء فرماتے ہیں:
’’میں نے رسول اللہﷺ کی نماز سے سب سے زیادہ مشابہ نماز امیر معاویہؓ کو پڑھتے دیکھا ہے۔‘‘(تاریخ دمشق: ۵۲/۲۳۵، سیر أعلام النبلائ: ۳/۱۳۵)
3۔عبد اللہ بن مبارکؒ سے سوال کیا گیا کہ آیا عمر بن عبد العزیزؒ افضل ہیں یا معاوِیہؓ ؟ تو کہا:
’’نبی کریمﷺ سے مل کر قتال کرتے ہوئے معاوِیہ کے گھوڑے کی ناک میں داخل ہونے والا غبار بھی عمر بن عبد العزیزؒ سے افضل ہے۔‘‘
4۔یزید بن اصمؒ ذکر کرتے ہیں کہ سیدنا علی نے فرمایا:
’’میری فوج کے مقتول اور معاویہؓ کی فوج کے مقتول دونوں جنتی ہیں۔‘‘ (الطبرانی فی الکبیر: ۱۹/۳۰۷، سندہ حسن)
5۔علامہ آجریؒ فرماتے ہیں: ’’معاوِیہ کاتب ِرسول تھے جو اللہ تعالیٰ کے حکم سے وحی (قرآن پاک) کو لکھا کرتے اور نبی کریمﷺ کے ساتھی تھے، انہی کے لئے نبی اکرمﷺ نے عذاب سے بچائو کی دُعا کی اور یہ دُعا بھی کی کہ اللہ ان کو کتاب کا علم سکھادے ، ان کو حکومت دے، ان کو ہدایت یافتہ اور ہدایت کو عام کرنے والا بنا دے۔ نیز اللہ تعالیٰ کے درج ذیل فرمان میں معاوِیہ بھی شامل ہیں:
’’ یَوْمَ لَا یُخْزِي اﷲُ النَّبِيَّ وَالَّذِینَ آمَنُوا مَعَہٗ‘‘ (التحریم: ۸)
’’اُس دِن اللہ تعالیٰ نبی کو اور ایمان داروں کو، جو اس کے ساتھ ہیں، رُسوا نہ کرے گا۔‘‘
گویا کہ یہ اللہ کی طرف سے ضمانت ہے کہ نبی کریمﷺ کے ساتھ ایمان لانے کی وَجہ سے اللہ تعالیٰ اُن کو رسوا نہ کرے گا۔
6۔امام احمد بن حنبلؒ سے سوال کیا گیا:
’’آپ کا اس شخص کے بارے میں کیا خیال ہے جو اَمیر معاویہؓ کو کاتب ِوحی تسلیم کرتا ہے اور نہ ہی انہیں ’خال المومنین‘ مانتا ہے بلکہ اس کے نزدیک یہ سب تلوار کے زور پر حاصل کیا گیا ہے۔‘‘
امام صاحبؒ نے جواب دیا:
’’یہ بری اور گھٹیا بات ہے، ایسے نظریات کے حاملین سے پہلو تہی کی جائے، انہیں اپنی مجلسوں میں نہ بیٹھنے دیا جائے۔ ان لوگوں کے نظریات سے عام لوگوں کو بھی باخبر کرنا چاہئے۔‘‘ (السُنّۃ للخلال: ۶۵۹، سندہ صحیح)
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
معاوِیہؓ کی وسعت ِقلبی
1۔جعفر بن محمدؒ اپنے باپ سے بیان کرتے ہیں:
’’سیدنا حسنؓ وحسینؓ، امیر معاویہؓ کی طرف سے ملنے والا وظیفہ قبول کرتے تھے۔ ‘‘ یہ معاوِیہؓ کی طرف سے اہل بیت کی تعظیم وتکریم کی واضح دلیل ہے۔ظاہری طور پر ہونیوالی لڑائی اجتہاد کا نتیجہ تھی جس پر کم اَز کم انہیں ایک اَجر تو ملے گا، ان شاء اللہ (الأجرّي فی الشریعۃ: ۱۹۶۳، اللالکائي: ۲۷۸۲)
2۔مغیرہؒ بیان فرماتے ہیں کہ جب سیدنا علیؓ کی شہادت کی خبر اَمیر معاوِیہؓ کو پہنچی تو اُنہوں نے ’انا للہ وانا الیہ راجعون‘ پڑھتے ہوئے رونا شروع کردیا، بیوی نے کہا:
’’آپ ان پر رو رہے ہیں جبکہ آپ نے ان کے خلاف جنگ بھی کی ہے۔‘‘ انہوں نے جواب دیا: ’’تجھ پر افسوس! تجھے علم نہیں کہ لوگ عظیم فضل، فقہ اور علم سے محروم ہوگئے ہیں۔‘‘ (تاریخ دمشق: ۶۲/۹۹)
3۔جعفر بن برقانؒ کہتے ہیں کہ امیر معاوِیہ نے فرمایا:
’’انسان کے صاحب رائے بننے کے لئے ضروری ہے کہ اس کی برد باری جہالت پر اور اس کا صبر شہوت پر غالب آجائے، اور اس کا حصول حلم وبرد باری کی قوت سے ہی ممکن ہے۔‘‘ (تاریخ دمشق: ۶۲/۱۲۷)
4۔صفوان بن عمروؒ فرماتے ہیں کہ عبد الملک بن مروانؒ امیر معاوِیہ کی قبر سے گزرے تو رو پڑے، قریش کے ایک آدمی نے سوال کیا:
’’اے امیر المومنین! یہ کس کی قبر ہے؟‘‘ جواب دیا: ’’یہ ایک ایسے آدمی کی قبر ہے جس کے بارے میں اللہ کی قسم! جو میں جانتا ہوں وہ یہ ہے کہ وہ علم سے بات کرتا تھا، برد باری سے خاموش ہوتا تھا، عطا کرتا تو غنی کر دیتا تھا اور جب جنگ کرتا تو فنا کر کے رکھ دیتا تھا۔ پھر زمانے نے اس کو جلد ہی دبوچ لیا اور اس کے بعد آنے والوں کو یہ فضیلت حاصل نہ ہوئی۔ یہ ابو عبد الرحمن معاویہؓ کی قبر ہے، اللہ ان پر رحم فرمائے۔‘‘ (أنساب الأشراف: ۵/۱۶۵)
5۔سیدنا جابر فرماتے ہیں:
’’ہم معاوِیہ کے پاس تھے، انہوں نے سیدنا علی کا ذکر اچھے انداز میں کیا، پھر کہا میں اس طرح کیوں نہ کہوں جبکہ وہ اللہ کے بندوں میں سے بہترین شخص تھے، ان کے گھر میں نبی کریمﷺ کا جگر گوشہ تھا، وہ بہترین نسب کے حامل تھے۔‘‘ (تاریخ دمشق: ۴۵/۳۱۸)
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
معاوِیہؓ سے مروی روایات
’’ مَنْ یُرِدِ اﷲ بِہٖ خَیْرًا یُفَقِّہْہُ فِي الدِّینِ ‘‘ (صحیح البخاري: ۷۱)
’’اللہ تعالیٰ جس سے بھلائی کا ارداہ کرتا ہے اس کو دین کی سمجھ عطا کر دیتا ہے۔‘‘
’’ المُؤذِّنُونَ أَطْوَلُ النَّاسِ أَعْنَاقًا یَوْمَ الْقِیَامَۃِ ‘‘ (صحیح مسلم: ۳۸۷)
’’قیامت کے روز موذنین کی گردنیں تمام لوگوں سے لمبی ہوں گی۔‘‘
3۔ایک مرتبہ عاشورا کے دِن سیدنا اَمیر معاویہ منبر پر چڑھے اور فرمایا:
’’ ہٰذَا یَوْمُ عَاشُورَائَ وَلَمْ یُفْرَضْ عَلَیْنَا صِیَامُہٗ فَمَنْ شَائَ مِنْکُمْ أَنْ یَصُومَ فَلْیَصُمْ فَإِنِّي صَائِمٌ فَصَامَ النَّاسُ ‘‘ (مسند أحمد: ۱۶۴۲۵، صحیح البخاري: ۲۰۰۳، صحیح مسلم: ۱۱۲۹)
’’یہ عاشورا کا دن ہے اس کا روزہ ہمارے اوپر فرض نہیں، جو روزہ رکھنا چاہے تو رکھ لے، میں نے روزہ رکھا ہوا ہے، تو لوگوں نے بھی روزہ رکھ لیا۔‘‘
4۔عبد اللہ بن زبیرؓ اور ابن صفوانؓ امیر معاوِیہ کو دیکھ کر کھڑے ہوگئے تو انہوں نے فرمایا: ’’بیٹھ جائو، میں نے نبی کریمﷺ کو فرماتے سنا ہے:
’’ مَنْ سَرَّہٗ أَنْ یُمَثِّلَ لَہُ الْعِبَادُ قِیَامًا فَلْیَتَبَوَّأْ بَیْتًا فِي النَّارِ ‘‘ (مسند أحمد: ۱۶۴۰۳، الترمذي: ۲۷۵۵، أبو داؤد: ۵۲۲۹)
’’جو آدمی پسند کرتا ہے کہ لوگ اس کی تعظیم کے لئے کھڑے ہوجائیں، اسے چاہئے کہ اپنا گھر آگ میں بنالے۔‘‘
امیر معاوِیہ ہدایت کی پیروی میں کتنے حریص تھے، ان میں کتنی عاجزی وانکساری اور عذابِ الٰہی کا کتنا خوف تھا؟ یہ واقعہ اس پر بخوبی دلالت کرتا ہے۔
5۔اَمیر معاوِیہ فرماتے ہیں:
’’میں نے رسول اللہﷺ کو دیکھا کہ آپ حسن بن علیؓ کی زبان یا ہونٹ کو چوم رہے تھے اور اس زبان یا ہونٹ کو ہرگز عذاب نہیں ہوسکتا جس کو نبی کریمﷺ نے چوما ہو۔‘‘ (مسند أحمد: ۱۶۴۰۶)
یہ اس بزرگ صحابی کے انصاف اور دل وجان پر غلبہ حق کی دلیل ہے کہ جن حضرات سے خلافت کے سلسلے میں آپؓ میدان جنگ میں لڑائی کرتے تھے، اُن کا ذکر خیر بھی فرماتے تھے اور یہ اس لئے تھا تاکہ واضح ہو جائے کہ اہل بیت سے محبت دین وایمان کا حصہ ہے، اور معاوِیہ5 اہل بیت سے محبت کرنے والوں میں پیش پیش تھے۔
ان اصحاب پر جرح کرنے والوں کو غم سے مر جانا چاہئے کہ دنیا نے ان لوگوں کے دین کو ہرگز میلا نہیں کیا تھا۔
قارئین! اگر ہم اصحاب النبیﷺ کے خلاف جرح پر راضی ہوگئے یا اس پر خاموشی اختیار کرلی تو ہم کسی کام کے نہیں، کیونکہ وہ لوگ تو ناقلین دین ہیں اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے سید المرسلین کے وارث ہیں۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
صحابہ کرام پر سب وشتم
1۔ابن عباس سے مروی ہے کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا:
’’ مَنْ سَبَّ أَصْحَابِي فَعَلَیْہِ لَعْنَۃُ اﷲِ وَالْمَلَائِکَۃِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِینَ ‘‘ (المعجم الکبیر للطبراني: ۱۲۵۴۱)
’’جو میرے صحابہ کو گالی دے، اُس پر اللہ تعالیٰ، فرشتوں اور تمام لوگوں کی لعنت ہے۔‘‘
2۔ابو زرعہ رازیؒ ذکر کرتے ہیں کہ میں نے قبیصہ بن عقبہؓ کو فرماتے سنا:
’’تمام اصحاب رسولﷺ سے محبت سنت ہے (اور عقیدہ اہل سنت میں شامل ہے۔)
3۔عبداللہ بن عمر فرماتے ہیں:
’’اصحاب النبیﷺ کو گالیاں مت دو، کیونکہ ان میں سے کسی ایک کا عمل تمہاری ساری زندگی کے اعمال سے بہتر ہے۔‘‘
4۔ابن عباسؓ فرماتے ہیں:
’’تم اصحابِ محمدﷺ کو گالیاں مت دو، اللہ نے ہمیں حکم دیا ہے کہ ان کیلئے بخشش طلب کریں حالانکہ اللہ جانتے تھے کہ وہ آپس میں لڑیں گے۔‘‘
5۔امام مالکؒ سے ان لوگوں کے بارے میں سوال کیا گیا جو صحابہ کرامﷺ پر عیب لگاتے ہیں تو فرمایا:
’’یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے نبی کریمﷺ پر عیب لگانے کی کوشش کی جب یہ ممکن نہ ہوا تو صحابہ کرام پر عیب لگانے شروع کر دئیے، تاکہ کہا جائے کہ یہ (خاکم بدہن) برا آدمی ہے، اگر صالح ہوتا تو اس کے ساتھی بھی صالح ہوتے۔‘‘
6۔بربہاریؒ کہتے ہیں:
’’نبی کریمﷺ کے اصحاب پر کلام کرنے والے کو جان لینا چاہئے کہ وہ در اصل نبی کریمﷺ کے خلاف کلام کر رہا ہے اور آپﷺ کو روضہ مبارک میں تکلیف پہنچاتا ہے۔‘‘
7۔امام مالکؒ نے فرمایا:
’’جس کسی نے اصحاب رسولﷺ میں سے ابو بکرؓ، عمرؓ، عثمان، معاوِیہؓ یا عمرو بن العاصؓ کے خلاف کلام کیا تو اگر انہیں گمراہ یا کافر کہا تو اس کو قتل کر دیا جائے، اور اگر صرف برا بھلا کہا تو اس کو سخت سزا دی جائے۔‘‘
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,565
پوائنٹ
791
بہت شکریہ ، جزاکم اللہ تعالی خیراً
ورضی اللہ تعالی عنہم اجمعین
 
Top