• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

الرحیق المختوم خاندانِ نبوت ولادت با سعادت نشو و نما

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
خاندانِ نبوت

نسب :
نبی ﷺ کا سلسلۂ نسب تین حصوں پر تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ ایک وہ حصہ جس کی صحت پر اہل سِیر اور ماہرینِ انساب کا اتفاق ہے۔ یہ عدنان تک مُنْتہی ہوتا ہے۔ دوسرا حصہ جس میں اہل سیر کا اختلاف ہے کسی نے توقف کیا ہے اور کوئی قائل ہے۔ یہ عدنان سے اوپر ابراہیم علیہ السلام تک منتہی ہوتا ہے۔ تیسرے حصہ میں یقینا کچھ غلطیاں ہیں یہ حضرت ابراہیم علیہ السلام سے اوپر حضرت آدم علیہ السلام تک جاتا ہے۔ اس کی جانب اشارہ گزر چکا ہے۔ ذیل میں تینوں حصوں کی قدرے تفصیل پیش کی جا رہی ہے۔
پہلا حصہ: محمد بن عبد اللہ بن عبد المطلب (شَیْبَہ) بن ہاشم (عمرو) بن عبد مناف (مغیرہ) بن قصی (زید) بن کلاب بن مرہ بن کعب بن لُوی بن غالب بن فِہر (انہی کا لقب قریش تھا اور ان ہی کی طرف قبیلۂ قریش منسوب ہے) بن مالک بن نضر (قیس) بن کنانہ بن خزیمہ بن مدرکہ (عامر) بن الیاس بن مضر بن نِزار بن مَعَد بن عَدْنان۔ (ابن ہشام ۱/۱، ۲ تاریخ الطبری ۲/۲۳۹-۲۷۱)
دوسرا حصہ: عدنان سے اوپر، یعنی عدنان بن أد بن ہمیسع بن سلامان بن عوص بن یوز بن قموال بن أبی بن عوام بن ناشد بن حزا بن بلداس بن یدلاف بن طابخ بن جاحم بن ناحش بن ماخی بن عیض بن عبقر بن عبید بن الدعا بن حمدان بن سنبر بن یثربی بن یحزن بن یلحن بن أرعوی بن عیض بن ذیشان بن عیصر بن أفناد بن أیہام بن مقصر بن ناحث بن زارح بن سمی بن مزی بن عوضہ بن عرام بن قیدار بن اسماعیل ؑ بن ابراہیم علیہ السلام ۔ (اسے ابن سعد نے طبقات ۱/۵۶،۵۷ میں ابن کلبی کی روایت سے کیا ہے اور اس کے طریق سے طبری نے اپنی تاریخ ۲/۲۷۲میں ذکر کیا ہے۔ اس حصے کا کچھ اختلاف دیکھنے کے لیے ملاحظہ ہو: طبری ۲/۲۷۱، ۲۷۶، فتح الباری ۶/۶۲۱، ۶۲۲، ۶۲۳۔)
تیسرا حصہ: حضرت ابراہیم علیہ السلام سے اوپر۔ ابراہیم بن تارح (آزر ) بن ناخور بن ساروع (یاساروغ) بن راعو بن فالخ بن عابر بن شالخ بن ارفخشد بن سام بن نوح علیہ السلام بن لامک بن متوشلخ بن اخنوخ (کہا جاتا ہے کہ یہ ادریس ؑ کا نام ہے) بن یرد بن مہلائیل بن قینان بن آنوشہ بن شیث بن آدم علیہ السلام ۔ (ابن ہشام ۱/۲-۴ تاریخ طبری ۲/۲۷۶ بعض ناموں کے متعلق ان مآخذ میں اختلاف بھی ہے اور بعض نام بعض مآخذ سے ساقط بھی ہیں۔)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
خانوادہ:
نبی ﷺ کا خانوادہ اپنے جَدِّ اعلیٰ ہاشم بن عبد مناف کی نسبت سے خانوادۂ ہاشمی کے نام سے معروف ہے، اس لیے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ہاشم اور ان کے بعد کے بعض افراد کے مختصر حالات پیش کر دیے جائیں۔
ہاشم:... ہم بتا چکے ہیں کہ جب عبد مناف اور بنو عبد الدار کے درمیان عہدوں کی تقسیم پر مصالحت ہو گئی تو عبد مناف کی اوّلاد میں ہاشم ہی کو سِقَایہ اور رِفادہ، یعنی حجاج کرام کو پانی پلانے اور ان کی میزبانی کرنے کا منصب حاصل ہوا۔ ہاشم بڑے معزز اور مالدار تھے۔ یہ پہلے شخص ہیں جنہوں نے مکے میں حاجیوں کو شوربا روٹی سان کر کھلانے کا اہتمام کیا۔ ان کا اصل نام عَمرو تھا۔ لیکن روٹی توڑ کر شوربے میں ساننے کی وجہ سے ان کو ہاشم کہا جانے لگا۔ کیونکہ ہاشم کے معنی ہیں توڑنے والا۔ پھر یہی ہاشم وہ پہلے آدمی ہیں جنھوں نے قریش کے لیے گرمی اور جاڑے کے دو سالانہ تجارتی سفروں کی بنیاد رکھی۔ ان کے بارے میں شاعر کہتا ہے :
عمرو الذی ھشم الثرید لقومہ
قوم بمکۃ مسنتین عجاف
سنت إلیہ الرحلتان کلاھما
سفر الشتاء ورحلۃ الأصیاف
''یہ عمرو ہی ہیں جنہوں نے قحط کی ماری ہوئی اپنی لاغر قوم کو مکہ میں روٹیاں توڑ کر شوربے میں بھگو بھگو کر کھلائیں اور جاڑے اور گرمی کے دونوں سفروں کی بنیاد رکھی۔'' (ابن ہشام ۱/۱۵۷ مع الروض الانف اوروہاں الاصیاف کی جگہ الإیلاف ہے۔)
ان کا ایک اہم واقعہ یہ ہے کہ وہ تجارت کے لیے ملک شام تشریف لے گئے۔ راستے میں مدینہ پہنچے تو وہاں قبیلۂ بنی نجار کی ایک خاتون سَلْمیٰ بنت عَمْرو سے شادی کر لی اور کچھ دنوں وہیں ٹھہرے رہے۔ پھر بیوی کو حالتِ حمل میں میکے ہی میں چھوڑ کر ملک شام روانہ ہو گئے اور وہاں جا کر فلسطین کے شہر غَزَّہ میں انتقال کر گئے۔ ادھر سَلمیٰ کے بطن سے بچہ پیدا ہوا۔ یہ ۴۹۷ء کی بات ہے چونکہ بچے کے سر کے بالوں میں سفیدی تھی، اس لیے سلمیٰ نے اس کا نام شَیْبہ رکھا۔ (ابن ہشام ۱/۱۳۷) اور یثرب میں اپنے میکے ہی کے اندر اس کی پرورش کی۔ آگے چل کر یہی بچہ عبد المُطَّلِبْ کے نام سے مشہور ہوا۔ عرصے تک خاندانِ ہاشم کے کسی آدمی کو اس کے وجود کا علم نہ ہو سکا۔ ہاشم کے کل چار بیٹے اور پانچ بیٹیاں تھیں۔ جن کے نام یہ ہیں: اسد، ابو صیفی، نضلہ اور عبد المطلب...شفاء، خالدہ، ضعیفہ، رقیہ اور جنۃ۔ (ایضاً ۱/۱۰۷)
عبد المطلب: ... پچھلے صفحات سے معلوم ہو چکا ہے کہ سِقَایہ اور رِفادہ کا منصب ہاشم کے بعد ان کے بھائی مطلب کو ملا۔ یہ بھی اپنی قوم میں بڑی خوبی و اعزاز کے مالک تھے، ان کی بات ٹالی نہیں جاتی تھی۔ ان کی سخاوت کے سبب قریش نے ان کا لقب فیاض رکھ چھوڑا تھا۔ جب شیبہ یعنی عبد المطلب...سات یا آٹھ برس کے ہو گئے تو مطلب کو ان کا علم ہوا اور وہ انہیں لینے کے لیے روانہ ہوئے۔ جب یثرب کے قریب پہنچے اور شیبہ پر نظر پڑی تو اشکبار ہو گئے انہیں سینے سے لگا لیا اور پھر اپنی سواری پر پیچھے بٹھا کر مکہ کے لیے روانہ ہو گئے۔ مگر شیبہ نے ماں کی اجازت کے بغیر ساتھ جانے سے انکار کر دیا۔ اس لیے مطلب ان کی ماں سے اجازت کے طالب ہوئے، مگر ماں نے اجازت نہ دی۔ آخر مُطَّلِب نے کہا کہ یہ اپنے والد کی حکومت اور اللہ کے حرم کی طرف جارہے ہیں، اس پر ماں نے اجازت دے دی اور مُطَّلِب انہیں اپنے اونٹ پر بٹھا کر مکہ لے آئے۔ مکے والوں نے دیکھا تو کہا یہ عبد المطب ہے یعنی مُطَّلب کا غلام ہے۔ مطلب نے کہا نہیں نہیں، یہ میرا بھتیجا، یعنی میرے بھائی ہاشم کا لڑکا ہے۔ پھر شَیبہ نے مطلب کے پاس پرورش پائی اور جوان ہوئے۔ اس کے بعد مقام ردمان (یمن) میں مُطَّلِب کی وفات ہو گئی اور ان کے چھوڑے ہوئے مناصب عبد المطلب کو حاصل ہوئے۔ عبد المطلب نے اپنی قوم میں اس قدر شرف و اعزاز حاصل کیا کہ ان کے آباء و اجداد میں بھی کوئی اس مقام کو نہ پہنچ سکا تھا۔ قوم نے انہیں دل سے چاہا اور ان کی بڑی عزت و قدر کی۔ (ابن ہشام ۱/۱۳۷، ۱۳۸، عمر کی تعیین تاریخ طبری ۲/۲۴۷ میں ہے)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
جب مطلب کی وفات ہو گئی تو نوفل نے عبد المطلب کے صحن پر غاصبانہ قبضہ کر لیا۔ عبد المطلب نے قریش کے کچھ لوگوں سے اپنے چچا کے خلاف مدد چاہی، لیکن انہوں نے یہ کہہ کر معذرت کر دی کہ ہم تمہارے اور تمہارے چچا کے درمیان دخیل نہیں ہو سکتے۔ آخر عبد المطلب نے بنی نجار میں اپنے ماموں کو کچھ اشعار لکھ بھیجے، جس میں ان سے مدد کی درخواست کی تھی۔ جواب میں ان کا ماموں ابوسعد بن عدی اسی سوار لے کر روانہ ہوا اور مکے کے قریب اَبْطَح میں اترا۔ عبد المطلب نے وہیں ملاقات کی اور کہا: ماموں جان! گھر تشریف لے چلیں۔ ابو سعد نے کہا: نہیں اللہ کی قسم! یہاں تک کہ نَوفَل سے مل لوں۔ اس کے بعد ابو سعد آگے بڑھا اور نوفل کے سر پر آن کھڑا ہوا۔ نوفل حَطِیْم میں مشائخ قریش کے ہمراہ بیٹھا تھا۔ ابو سعد نے تلوار بے نیام کرتے ہوئے کہا: اس گھر کے رب کی قسم! اگر تم نے میرے بھانجے کی زمین واپس نہ کی تو یہ تلوار تمہارے اندر پیوست کر دوں گا۔ نوفل نے کہا: اچھا! لو میں نے واپس کر دی۔ اس پر ابوسعد نے مشائخ قریش کو گواہ بنایا، پھر عبد المطلب کے گھر گیا اور تین روز مقیم رہ کر عُمرہ کرنے کے بعد مدینہ واپس چلا گیا۔
اس واقعے کے بعد نوفل نے بنی ہاشم کے خلاف بنی عبد شمس سے باہمی تعاون کا عہد و پیمان کیا۔ ادھر بنو خزاعہ نے دیکھا کہ بنو نجّار نے عبد المطلب کی اس طرح مدد کی ہے، تو کہنے لگے کہ عبد المطلب جس طرح تمہاری اوّلاد ہے ہماری بھی اوّلاد ہے۔ لہٰذا ہم پر اس کی مدد کا حق زیادہ ہے...اس کی وجہ یہ تھی کہ عبد مناف کی ماں قبیلہ خزاعہ ہی سے تعلق رکھتی تھیں...چنانچہ بنو خزاعہ نے دارالندوہ میں جا کر بنو عبد شمس اور بنو نوفل کے خلاف بنو ہاشم سے تعاون کا عہد و پیمان کیا۔ یہی پیمان تھا جو آگے چل کر اسلامی دور میں فتح مکہ کا سبب بنا، تفصیل اپنی جگہ آ رہی ہے۔ (طبری نے اپنی تاریخ۳/۲۴۸-۲۵۱ میں اور دوسرے مصنّفین نے اپنی کتابوں میں اس کی تفصیل ذکر کی ہے۔)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
بیت اللہ کے تعلق سے عبد المطلب کے ساتھ وداہم واقعات پیش آئے۔ ایک چاہِ زَمزَم کی کھدائی کا واقعہ اور دوسرے فِیل کا واقعہ۔
چاہِ زَمزَم کی کھدائی:
پہلے واقعہ کا خلاصہ یہ ہے کہ عبد المطلب نے خواب دیکھا کہ انہیں زمزم کا کنواں کھودنے کا حکم دیا جارہا ہے اور خواب ہی میں انہیں اس کی جگہ بھی بتائی گئی۔ انھوں نے بیدار ہونے کے بعد کھدائی شروع کی اور رفتہ رفتہ وہ چیزیں برآمد ہوئیں جو بنو جُرہم نے مکہ چھوڑتے وقت چاہِ زمزم میں دفن کی تھیں، یعنی تلوار یں ، زرہیں ، اور سونے کے دونوں ہرن۔ عبدالمطلب نے تلواروں سے کعبے کا دروازہ ڈھالا۔ سونے کے دونوں ہرن بھی دروازے ہی میں فٹ کیے اور حاجیوں کو زمزم پلانے کا بندوبست کیا۔
کھدائی کے دوران یہ واقعہ بھی پیش آیا کہ جب زمزم کا کنواں نمودار ہوگیا تو قریش نے عبد المطلب سے جھگڑا شروع کیا اور مطالبہ کیا کہ ہمیں بھی کھدائی میں شریک کرلو۔ عبدالمطلب نے کہا میں ایسا نہیں کرسکتا، میں اس کام کے لیے مخصوص کیا گیا ہوں ، لیکن قریش کے لوگ باز نہ آئے۔ یہاں تک کہ فیصلے کے لیے بنو سعد کی ایک کاہنہ عورت کے پاس جانا طے ہوا اور لوگ مکہ سے روانہ بھی ہوگئے لیکن راستے میں پانی ختم ہوگیا۔ اللہ نے عبد المطلب پر بارش نازل فرمائی جس سے انہیں وافر پانی مل گیا۔ جبکہ مخالفین پر ایک قطرہ بھی نہ برسا۔ وہ سمجھ گئے کہ زمزم کا کام قدرت کی طرف سے عبد المطلب کے ساتھ مخصوص ہے۔ اس لیے راستے ہی سے واپس پلٹ آئے۔ یہی موقع تھا جب عبد المطلب نے نذرمانی کہ اگر اللہ نے انہیں دس لڑکے عطا کیے اور وہ سب کے سب اس عمر کو پہنچے کہ ان کا بچاؤ کر سکیں تو وہ ایک لڑکے کو کعبہ کے پاس قربان کردیں گے۔ 1
واقعہ فیل:
دوسرے واقعے کا خلاصہ یہ ہے کہ اَبْرہہ بن صباح حبشی نے (جو نجاشی بادشاہ حبش کی طرف سے یمن کا گورنر جنرل تھا) جب دیکھا کہ اہل عرب خانہ کعبہ کا حج کرتے ہیں تو صنعاء میں ایک بہت بڑا کلیسا تعمیر کیا اور چاہا کہ عرب کا حج اسی کی طرف پھیر دے مگر جب اس کی خبر بنو کنانہ کے ایک آدمی کو ہوئی تو اس نے رات کے وقت کلیسا کے اندر گھس کر اس کے قبلے پر پائخانہ پوت دیا۔ اَبْرَہَہ کو پتہ چلا تو سخت بر ہم ہوا اور ساٹھ ہزار کا ایک لشکر ِ جرار لے کر کعبے کو ڈھانے کے لیے نکل کھڑا ہوا۔ اس نے اپنے لیے ایک زبردست ہاتھی بھی منتخب کیا۔ لشکر میں کل نو یا تیرہ ہاتھی تھے۔ ابرہہ یمن سے یلغار کرتا ہوا مُغَمَّس پہنچا اور وہاں اپنے لشکر کو ترتیب دے کر اور ہاتھی کو تیار کر کے مکے میں داخلے کے لیے چل پڑا جب مزدَلِفَہ اور منیٰ کے درمیان وادیٔ محسرِ میں پہنچا تو ہاتھی بیٹھ گیا اور کعبے کی طرف بڑھنے کے لیے کسی طرح نہ اٹھا۔ اس کا رُخ شمال جنوب یا مشرق کی طرف کیا جاتا تو اٹھ کر دوڑنے لگتا۔ لیکن کعبے کی طرف
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 ابن ہشام ۱/۱۴۲ تا ۱۴۷
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
کیا جاتا تو بیٹھ جاتا۔ اسی دوران اللہ نے چڑیوں کا ایک جھنڈ بھیج دیا ، جس نے لشکر پر ٹھیکری جیسے پتھر گرائے اور اللہ نے اسی سے انہیں کھائے ہوئے بھس کی طرح بنا دیا۔ یہ چڑیاں ابابیل جیسی تھیں۔ ہر چڑیا کے پاس تین تین کنکریاں تھیں ، ایک چونچ میں اور دو پنجوں میں ، کنکریاں چنے جیسی تھیں،مگر جس کو لَگ جاتی تھیں اس کے اعضاء کٹنا شروع ہوجاتے تھے اور وہ مرجاتا تھا۔ یہ کنکریاں ہر آدمی کو نہیں لگی تھیں، لیکن لشکر میں ایسی بھگدڑ مچی کہ ہر شخص دوسرے کو روندتا کچلتا گرتا پڑتا بھاگ رہا تھا۔ پھر بھاگنے والے ہرراہ پر گر رہے تھے اور ہر چشمے پر مر رہے تھے۔ ادھر اَبْرَہہَ پر اللہ نے ایسی آفت بھیجی کہ اس کی انگلیوں کے پور جھڑ گئے اور صنعاء پہنچتے پہنچتے چوزے جیسا ہوگیا۔ پھر اس کا سینہ پھٹ گیا ، دل باہر نکل آیا اور وہ مَر گیا۔
اَبْرَہَہ کے اس حملے کے موقع پر مکے کے باشندے جان کے خوف سے گھاٹیوں میں بکھر گئے تھے اور پہاڑکی چوٹیوں پر جاچھپے تھے۔ جب لشکر پر عذاب نازل ہوگیا تو اطمینان سے اپنے گھروں کو پلٹ آئے۔ 1
یہ واقعہ...بیشتر اہل سِیَر کے بقول...نبیﷺ کی پیدائش سے صرف پچاس یا پچپن دن پہلے ماہ محرم میں پیش آیا تھا۔ لہٰذا یہ ۵۷۱ ء کی فروری کے اواخر یا مارچ کے اوائل کا واقعہ ہے یہ درحقیقت ایک تمہیدی نشانی تھی جو اللہ نے اپنے نبی اور کعبہ کے لیے ظاہر فرمائی تھی کیونکہ آپ بیت المقدس کو دیکھئے کہ اپنے دور میں اہل اسلام کا قبلہ تھا۔ ا ور وہاں کے باشندے مسلمان تھے۔ اس کے باوجود اس پر اللہ کے دشمن یعنی مشرکین کا تسلط ہو گیا تھا جیسا کہ بخت نصر کے حملہ ( ۵۸۷ ق م ) اور اہل روما کے قبضہ ( ۷۰ ء ) سے ظاہر ہے۔ لیکن اس کے بر خلاف کعبہ پر عیسائیوں کو تسلط حاصل نہ ہوسکا۔ حالانکہ اس وقت یہی مسلمان تھے اور کعبے کے باشندے مشرک تھے۔
پھر واقعہ ایسے حالات میں پیش آیا کہ اس کی خبر اس وقت کی متمدن دنیا کے بیشتر علاقوں، یعنی روم وفارس میں آناً فاناً پہنچ گئی۔ کیونکہ حبشہ کا رومیوں سے بڑا گہرا تعلق تھا اور دوسری طرف فارسیوں کی نظر رومیوں پر برابر رہتی تھی اور وہ رومیوں اور ان کے حلیفوں کے ساتھ پیش آنے والے واقعات کا برابر جائزہ لیتے رہتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ اس واقعے کے بعد اہل فارس نے نہایت تیزی سے یمن پر قبضہ کر لیا۔ اب چونکہ یہی دوحکومتیں اس وقت متمدن دنیا کے اہم حصے کی نمائندہ تھیں۔ اس لیے اس واقعے کی وجہ سے دنیا کی نگاہیں خانہ کعبہ کی طرف متوجہ ہوگئیں۔ انہیں بیت اللہ کے شرف وعظمت کا ایک کھلا ہوا خدائی نشان دکھلائی پڑ گیا اور یہ بات دلوں میں اچھی طرح بیٹھ گئی کہ اس گھر کو اللہ نے تقدیس کے لیے منتخب کیا ہے۔ لہٰذا آئندہ یہاں کی آبادی سے کسی انسان کا دعویٰ نبوت کے ساتھ اٹھنا اس واقعے کے تقاضے کے عین مطابق ہو گا اور اس خدائی حکمت کی تفسیر ہوگا جو عالم اسباب سے بالاتر طریقے پر اہل ایمان کے خلاف مشرکین کی مدد میں پوشیدہ تھی۔
عبدالمطلب کے کل دس بیٹے تھے جن کے نام یہ ہیں : حارِث ، زُبیر ، ابوطالب ، عبد اللہ ، حمزہ ؓ ، ابو لَہَب ،
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 ابن ہشام ۱/۴۳تا ۵۶ ، اور کتب تفاسیر ، تفسیر سورۂ فیل
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
غَیْدَاق ، مقوم ، صفار اور عباس ؓ بعض نے کہا ہے کہ گیارہ تھے۔ ایک کا نام قثم تھا اور بعض اور لوگوں نے کہا ہے کہ تیرہ تھے۔ ایک کا نام عبدالکعبہ اور ایک کانام حجل تھا۔ لیکن دس کے قائلین کہتے ہیں مقوم ہی کا دوسرا نام عبد الکعبہ اور غیداق کا دوسرا نام حجل تھا اور قثم نام کا کوئی شخص عبدالمطلب کی اوّلاد میں نہ تھا۔ عبد المطلب کی بیٹیاں چھ تھیں۔ نام یہ ہیں : ام الحکیم ان کا نام بیضاء ہے۔ بَرّہ ، عَاتِکہ ، اَروی ٰ اور اُمَیْمَہ۔1
عَبدُاللہ ...رسول اللہﷺ کے والد محترم: ...ان کی والدہ کا نام فاطمہ تھا اور وہ عمرو بن عائذ بن عمران بن مخزوم بن یقظہ بن مرہ کی صاحبزادی تھیں۔ عبد المطلب کی اوّلاد میں عبد اللہ سب سے زیادہ خوبصورت ، پاک دامن اور چہیتے تھے اور ذبیح کہلاتے تھے۔ ذبیح کہلانے کی وجہ یہ تھی کہ جب عبد المطلب کے لڑکوں کی تعداد پوری دس ہوگئی اور وہ بچاؤ کرنے کے لائق ہوگئے۔ تو عبد المطلب نے انہیں اپنی نذر سے آگاہ کیا ، سب نے بات مان لی۔ اس کے بعد کہا جاتا ہے کہ عبد المطلب نے ان کے درمیان قرعہ اندازی کی تو قرعہ عبد اللہ کے نام نکلا۔ وہ سب سے محبوب تھے ، اس لیے عبد المطلب نے کہا کہ یااللہ!وہ یا سو اونٹ ؟ پھر ان کے اور اونٹوں کے درمیا ن قرعہ اندازی کی تو قرعہ سو اونٹوں پر نکل آیا۔ 2 اور کہا جاتا ہے کہ عبدالمطلب نے قسمت کے تیروں پر ان سب کے نام لکھے... اورہُبل کے قیم کے حوالے کیا۔ قیم نے تیروں کو گردش دے کر قرعہ نکالا تو عبد اللہ کا نام نکلا۔ عبدالمطلب نے عبد اللہ کا ہاتھ پکڑا ، چھری لی ، اور ذبح کرنے کے لیے خانہ کعبہ کے پاس لے گئے ، لیکن قریش اور خصوصاً عبد اللہ کے ننہیال والے، یعنی بنو مخزوم اور عبداللہ کے بھائی ابو طالب آڑے آئے۔ عبد المطلب نے کہا: تب میں اپنی نذر کا کیا کروں؟ انھوں نے مشورہ دیا کہ وہ کسی خاتون عرافہ کے پاس جاکر حل دریافت کریں۔ عبد المطلب ایک عرافہ کے پاس گئے۔ اس نے کہا کہ عبد اللہ اور دس اونٹوں کے درمیان قرعہ اندازی کریں۔ اگر عبدا للہ کے نام قرعہ نکلے تو مزید دس اونٹ بڑھادیں۔ اس طرح اونٹ بڑھاتے جائیں اور قرعہ اندازی کرتے جائیں ، یہاں تک کہ اللہ راضی ہو جائے۔ پھر اونٹوں کے نام قرعہ نکل آئے تو انہیں ذبح کردیں۔ عبد المطلب نے واپس آکر عبد اللہ اور دس اونٹوں کے درمیان قرعہ اندازی کی مگر قرعہ عبد اللہ کے نام نکلا۔ اس کے بعد وہ دس دس اونٹ بڑھاتے گئے اور قرعہ اندازی کرتے گئے مگر قرعہ عبدا للہ کے نام ہی نکلتا رہا۔ جب سو اونٹ پورے ہوگئے تو قرعہ اونٹوں کے نام نکلا۔ اب عبد المطلب نے انہیں عبد اللہ کے بدلے ذبح کیا اور وہیں چھوڑدیا۔ کسی انسان یا درندے کے لیے کوئی رکاوٹ نہ تھی۔ اس واقعے سے پہلے قریش اور عرب میں خُون بہا (دیت ) کی مقدار دس اونٹ تھی، مگر اس واقعے کے بعد سو اونٹ کر دی گئی۔ اسلام نے بھی اس مقدار کو برقرار رکھا۔ نبیﷺ سے آپ کا یہ ارشاد مروی ہے کہ میں دو ذبیح کی اوّلاد ہوں۔ ایک حضرت اسماعیل علیہ السلام اور دوسرے آپﷺ کے
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 سیرت ابن ہشام ۱/۱۰۸ ، ۱۰۹،تلقیح الفہوم ص ۸،۹ 2 تاریخ طبری ۲/۲۳۹
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
والد عبد اللہ۔ 1 عبد المطلب نے اپنے صاحبزادے عبد اللہ کی شادی کے لیے حضرت آمنہ کا انتخاب کیا جو وہب بن عبد مناف بن زہرہ بن کلاب کی صاحبزادی تھیں اورنسب و رتبے کے لحاظ سے قریش کی افضل ترین خاتون شمار ہوتی تھیں۔ ان کے والد نسب اور شرف دونوں حیثیت سے بنو زہرہ کے سردار تھے۔ وہ مکہ ہی میں رخصت ہو کر حضرت عبد اللہ کے پاس آئیں مگر تھوڑے عرصے بعدعبد اللہ کو عبد المطلب نے کھجور لانے کے لیے مدینہ بھیجا اور وہ وہیں انتقال کر گئے۔
بعض اہل سِیرکہتے ہیں کہ وہ تجارت کے لیے ملک شام تشریف لے گئے تھے۔ قریش کے ایک قافلے کے ہمراہ واپس آتے ہوئے بیمار ہو کر مدینہ اترے اور وہیں انتقال کر گئے۔ تدفین نابغہ جَعدی کے مکان میں ہوئی۔ اس وقت ان کی عمر پچیس برس کی تھی۔ اکثر مؤرخین کے بقول ابھی رسول اللہﷺ پیدا نہیں ہوئے تھے۔ البتہ بعض اہل سیر کہتے ہیں کہ آپﷺ کی پیدائش ان کی وفات سے دوماہ پہلے ہوچکی تھی۔ 2جب ان کی وفات کی خبر مکہ پہنچی تو حضرت آمنہ نے نہایت درد انگیز مرثیہ کہا جو یہ ہے :


عفا جانب البـطحاء من ابن ھـاشم وجـاور لحــداً خارجـاً فـی الـغماغم
دعتــــہ المنـایـا دعـوۃ فـأجـابھـا ومـا ترکت فی الناس مثـل ابن ھاشـم
عشیـــۃ راحــوا یحملون سـریـرہ تعــاورہ أصحـابـــہ فــی التـزاحــم
فـإن تـک غـالـتـہ الـمنایا وریـبـہا فقد کان معطاء کثیر التراحم 3


''بطحاء کی آغوش ہاشم کے صاحبزادے سے خالی ہو گئی۔ وہ بانگ وخروش کے درمیان ایک لحد میں آسودۂ خواب ہوگیا۔ اسے موت نے ایک پکار لگائی اور اس نے لبیک کہہ دیا۔ اب موت نے لوگوں میں ابن ہاشم جیسا کوئی انسان نہیں چھوڑا (کتنی حسرت ناک تھی ) وہ شام جب لوگ انہیں تخت پر اٹھائے لے جارہے تھے۔ اگر موت اور موت کے حوادث نے ان کا وجود ختم کر دیا ہے (تو ان کے کردار کے نقوش نہیں مٹائے جاسکتے ) وہ بڑے دانا اور رحم دل تھے۔''
عبد اللہ کا کل ترکہ یہ تھا۔ پانچ اونٹ ، بکریوں کا ایک ریوڑ ، ایک حبشی لونڈی جن کا نام برکت تھا اور کنیت اُم ایمن۔ یہی اُمِ ایمن ہیں جنھوں نے رسول اللہﷺ کو گود کھلایا تھا۔ 4
****​
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 ابن ہشام ۱/۱۵۱ تا ۱۵۵، تاریخ طبری ۲/۲۴۰-۲۴۳
2 ابن ہشام ۱/۱۵۶ ، ۱۵۸ تاریخ طبری ۲/۲۴۶ ، الروض الانف ۱/۱۸۴
3 طبقات ابن سعد ۱/۱۰۰
4 صحیح مسلم ۲/۹۶، تلقیح الفہوم ص ۱۴


الرحیق المختوم
 
Top