• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ختم نبوت اور ہماری ذمے داریاں

شمولیت
فروری 07، 2016
پیغامات
57
ری ایکشن اسکور
14
پوائنٹ
20

ختم نبوت اور ہماری ذمے داریاں
انسان اس دنیا میں خو داپنے ارادہ سے پیدا نہیں ہوا ہے ، بلکہ پیدا کیا گیا ہے ، دنیا میں بہت سی چیزیں اس کے لیے فائدہ مند ہیں اور بہت سی چیزیں مضرت رساں، وہ خود اپنے نفع ونقصان سے بھی کماحقہ واقف نہیں، اس کے اندر قسم قسم کی خواہشات اور آرزوئیں ہیں اس کے نفس میں ایسی حسرتیں بھی پلتی رہتی ہیں جو اسی کے جیسے دوسرے انسانوں کے لیے تباہی وبربادی اور نقصان کا باعث ہیں، بعض ایسی تمنائیں بھی دل میں مچلتی اور ذہن کو بے قرار رکھتی ہیں، جو اس کے لیے نہ صرف روحانی، بلکہ مادی او رجسمانی اعتبار سے بھی انتہائی نقصان دہ ہوتی ہیں، اس لیے اگر انسان کو زندگی گزارنے کے بارے میں آزاد اور بے لگام چھوڑ دیا جائے ، تو وہ نہ صرف دوسروں کے لیے بلکہ خوداپنے لیے بھی طرح طرح کی مصیبتیں او رمشکلات پیدا کر سکتا ہے، اس لیے اسے صحیح طریقہ پر زندگی گزارنے کے لیے پیدا کرنے والے کی جانب سے ہدایت نامہ کی ضرورت ہے اور یہ بھی ضروری ہے کہ یہ ہدایت نامہ کسی انسان ہی کے ذریعہ آئے اور وہ اس پر عمل کرکے دکھائے اور بتائے ، الله تعالیٰ نے انسان کو پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ ہر دور میں اس کی تعلیم وتربیت کا سروسامان بھی فرمایا، چناں چہ انسان کی راہ نمائی کے لیے الله نے ہدایت نامے بھیجے، جسے کتاب الله کہا جاتا ہے اور اسے پہنچانے اور عملی طور پر اسے برت کرد کھانے کے لیے انبیائے کرام کو بھیجا۔ حضرت آدم علیہ السلام جیسے پہلے انسان تھے، ویسے ہی پہلے پیغمبر بھی تھے، نبوت ورسالت کا یہ سلسلہ پیغمبر اسلام جناب محمد رسول الله صلی الله علیہ وسلم پر ختم ہو گیا، چوں کہ الله تعالیٰ کو یہ بات منظور تھی کہ سلسلہٴ نبوت آپ صلی الله علیہ وسلم پر تمام ہو جائے، اس لیے قدرتی طور پر وہ اسباب بھی باقی نہ رہے جن کی وجہ سے نئے نبی کی ضرورت پیش آتی تھی، نیا نبی یا تو اس لیے بھیجا جاتا تھا کہ احکام شریعت میں کوئی تبدیلی مقصود ہوتی اور قرآن نے واضح کر دیا کہ اب شریعت الہیٰ درجہٴ کمال وتمام کو پہنچ گئی ہے او رنعمتِ ہدایت کا اہتمام ہو چکا ہے ، ﴿الیوم اکملت لکم دینکم واتممت علیکم نعمتی ورضیت لکم الاسلام دینا﴾ (المائدہ:3) یا نبی اس لیے بھیجے جاتے تھے کہ پہلے نبی پر ایمان رکھنے والوں میں کوئی ہدایت یافتہ او رحق پر ثابت قدم گروہ باقی نہ رہا ہو ، یا اس لیے کہ پہلے جو آسمانی کتاب اتری ہو ، لوگوں نے اس میں ملاوٹ پیدا کر دی ہو، نبوت محمدی کا معاملہ یہ ہے کہ جو کتاب آپ پر نازل ہوئی وہ ایک زبر زیر کی تبدیلی کے بغیر موجود اور محفوظ ہے اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اس امت میں بہت بڑا طبقہ راہ ہدایت پر قائم ہے اور قائم رہے گا چناں چہ اس با ت پر امت کا اجماع ہے کہ جناب محمد رسول الله صلی الله علیہ وسلم پر ہر طرح کی نبوت ختم ہوچکی ہے اور آپ صلی الله علیہ وسلم کے بعد کسی قسم کی نبوت باقی نہیں رہی ، یہ نہ صرف امت کا اجماعی عقیدہ ہے، بلکہ اس پر قرآن مجید اور صحیح حدیثیں ناطق ہیں، چناں چہ الله تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ آپ صلی الله علیہ وسلم الله کے رسول اور آخری نبی ہیں ، ﴿ولکن رسول الله وخاتم النبیین﴾ ( الاحزاب:40) آسمانی صحائف میں ہمیشہ اگلے رسول کے بارے میں امت سے عہد لیا جاتا تھا کہ وہ ان پر ایمان لائیں گے، اگر آپ کے بعد کسی نبی کی آمد ممکن ہوتی تو ضروری تھا کہ الله تعالیٰ نے پوری اہمیت اور وضاحت کے ساتھ اس کا ذکر فرمایا ہوتا، لیکن قرآن مجید نے کہیں اس کا کوئی ذکر نہیں کیا، بلکہ اس کے برعکس بہت ہی واضح الفاظ میں آپ کے آخری نبی ہونے کا اعلان فرمایا گیا اور اشارةً تو کتنے ہی مقامات پر آپ صلی الله علیہ وسلم پر ختم نبوت کی طرف اشارہ کیا گیا ہے ۔ حدیثیں اس سلسلہ میں اتنی کثرت اور وضاحت کے ساتھ مروی ہیں کہ ان کااحاطہ دشوار ہے، حضرت ابوہریرہ رضی الله عنہ سے مرو ی ہے کہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: میری اور انبیاء کی مثال ایسے محل کی ہے جسے نہایت ہی خوب صورت طریقہ پر بنایا گیا ہو اور اس میں ایک اینٹ کی جگہ بچی ہو دیکھنے والے اسے دیکھتے ہوں اور اس کے حسن تعمیر پر حیرت زدہ ہوں ، سوائے اس اینٹ کی جگہ کے آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں وہی اینٹ ہوں، مجھ پر عمارت مکمل ہو گئی ہے ، رسولوں کا سلسلہ ختم ہوا اور میں آخر ی نبی ہوں ۔( بخاری:501/1) حضرت ابوہریرہ ہی کی روایت میں آپ صلی الله علیہ وسلم کا ارشاد مرو ی ہے کہ چھ باتوں میں آپ کو تمام انبیاء پر فضیلت دی گئی، ان میں دو باتیں یہ تھیں کہ آپ تمام مخلوقات کی طرف نبی بنا کر بھیجے گئے اورمجھ پر نبیوں کا سلسہ ختم کر دیا گیا۔ ( مسلم:199/1) حضرت ثوبان رضی الله عنہ کی روایت میں ہے کہ عنقریب میری امت میں تیسیوں جھوٹے نبی پیدا ہوں گے ، جو کہیں گے کہ وہ الله کے نبی ہیں، حالاں کہ میں آخری نبی ہوں، میرے بعد کوئی نبی نہیں ہو سکتا ۔( ابوداؤد:584/1) دارمی کی ایک روایت میں ہے کہ آپ نے فرمایا میں پیغمبروں کا قائد اور خاتم ہوں او رمجھے اس پر کوئی فخر نہیں ۔ (دارمی حدیث نمبر49) آپ صلی الله علیہ وسلم نے اپنا ایک نام ”عاقب“ بتایا اور پھر اس کی تشریح کرتے ہوئے فرمایا، یعنی وہ جس کے بعد کوئی نبی نہ ہو، انا العاقب والعاقب الذی لیس بعدہ نبی۔ ( بخاری:501/1) حدیثوں نے اس بات کو بھی واضح کر دیا کہ حضور صلی الله علیہ وسلم کے بعد کسی بھی طرح کی نبوت باقی نہیں رہی، چناں چہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے حضرت عمر رضی الله عنہ سے فرمایا کہ میرے بعد نبوت کی گنجائش ہوتی تو تم نبی ہوتے ، لوکان بعدی نبیاً لکان عمر۔ ( ترمذی:209/2) اور حضرت علی رضی الله عنہ سے ارشاد فرمایا کہ تم میری نسبت سے ویسے ہی ہو جیسے حضرت موسی علیہ السلام کے ساتھ ہارون علیہ السلام تھے، سوائے اس کے کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہو سکتا: انت منی بمنزلة ہارون من موسی، إلا أنہ لانبی بعدی․(بخاری:633/2) ، آپ صلی الله علیہ وسلم نے اس کو مزید واضح کرتے ہوئے فرمایا، میں آخری نبی ہوں اورتم آخری امت ہو، انا آخر الانبیاء وانتم آخرالامم ۔( ابن ماجہ:207 ، باب فتنة الدجال) آپ صلی الله علیہ وسلم نے اپنی مسجد کے بارے میں ارشاد فرمایا کہ انبیاء سے منسوب جو مسجدیں تھیں، ان میں آخری مسجد میری مسجد ہے، مسجدی خاتم مساجد الانبیاء۔( دیلمی، حدیث نمبر:112) رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے ان فرمودات سے واضح ہے کہ آپ پر ہر طرح کی نبوت ختم ہوچکی ہے، آپ آخری نبی ہیں، آپ صلی الله علیہ وسلم پر نازل ہونے والی کتاب آخری کتا ب ہے، آپ کی امت آخری امت ہے، انبیا سے منسوب مساجد میں آپ کی مسجد آخری مسجد ہے اور آپ کے بعد کسی بھی قسم کی نبوت کی گنجائش باقی نہیں رہی۔ چوں کہ یہود ونصاریٰ کو اسلام سے ہمیشہ سے عناد رہا ہے او رانہوں نے میدان جنگ سے لے کر معرکہ فکرونظر تک ہر جگہ اسلام پر یلغار کی ہے، اس لیے انہوں نے اپنے استعماری دور میں ایک نئی تدیبر سوچی کہ کسی شخص کو نبوت کا علم بردار بنا کر کھڑا کیا جائے، تاکہ نبوت محمدی کے مقابل ایک نئی نبوت وجود میں آئے او رپیغمبر اسلام صلی الله علیہ وسلم سے امت محمدیہ کو جو محبت ہے وہ محبت تقسیم ہو جاتے، اس کے لیے ایک ایسے علاقہ کا انتخاب کیا گیا جو اس وقت انگریزوں کی عمل داری میں تھا، تاکہ ایسے جھوٹے مدعیٴ نبوت کی پوری حفاظت اور حوصلہ افزائی ہو سکے ، چنا ں چہ پنجاب سے ایک شخص مرزا غلام احمد قادیانی کو اس کام کے لیے تیار کیا گیا، مرزا صاحب نے خود ہی اپنے بارے میں لکھا ہے کہ میں انگریزوں کا خود کاشتہ پودا ہوں، انگریزوں نے اپنی اس کاشت کو بار آور کرنے اور تقویت پہنچانے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی۔ نبی کے دعوے میں کبھی تدریج نہیں ہوتی، یعنی ایسا نہیں ہوتا کہ وہ آہستہ آہستہ دعویٴ نبوت تک پہنچے، حضرت موسی علیہ السلام آگ کی تلاش میں کوہِ طور پر پہنچے تھے، لیکن اچانک ہی نبوت سے سرفراز کیے گئے، رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے وحی نازل ہونے سے پہلے کبھی اس سلسلہ میں کوئی گفتگو نہیں فرمائی کہ اچانک حضرت جبرئیل علیہ السلام الله کا کلام لے نازل ہوئے، لیکن مرزا صاحب ایک ایک سیڑھی چڑھتے ہوئے دعویٴ نبوت تک پہنچے، پہلے الله کی طرف سے ملہم ہونے کا دعوی کیا، یعنی ان پر الہام ہوتا ہے، پھر دیکھا کہ حدیث میں حضرت مسیح کے نزول کی پیشین گوئی ہے ، تو مسیح ہونے کا دعویٰ کر بیٹھے، جب لوگوں نے کہا کہ حضرت مسیح کے زمانہ میں امام مہدی کا بھی ظہور ہو گا، کہنے لگے کہ میں ہی مہدی ہوں، پھر دعویٴ نبوت ہی کر بیٹھے۔ اولاً تو اپنی نبوت کو حضور صلی الله علیہ وسلم کی نبوت کا سایہ کہتے تھے، لیکن پھر اپنے کو حضور سے افضل کہنے سے بھی نہیں چوکے او ران کے متبعین نے آپ صلی الله علیہ وسلم کی دعوت کو ہلال ” یعنی پہلی شب“ کا چاند او رمرزا صاحب کی دعوت کو ” بدر کامل“ یعنی چودہویں شب کا چاند قرار دیا، نبی کی بات میں تضاد نہیں ہوتا ،مگر مرزا صاحب کے یہاں اس قدر تضادات ہیں کہ شمار سے باہر ہیں، نبی خدا کی صفات اور جلالت شان کو وضاحت وصراحت کے ساتھ بیان کرتا ہے او راپنی عبدیت وبندگی کو بے کم وکاست سامنے رکھ دیتا ہے، لیکن مرزا صاحب کا حال یہ ہے کہ اپنے آپ کو خدا کا مانند کہنے سے بھی نہیں چوکتے۔ ( روحانی خزائن:413/17) ایک موقع سے کہتے ہیں: میں نے خواب میں دیکھا کہ میں خود خدا ہوں اور یقین کر لیا کہ میں وہی ہوں۔ (روحانی خزائن:564/5) مرزا صاحب اپنے بارے میں کہتے ہیں کہ یا خدا خود آسمان سے اُتر آیا ہے، کان الله نزل من السماء․ (اشتہار20 فروری1886ء) نبی کی زبان بہت ہی شائستہ اور مہذب ہوتی ہے، دشمنوں کے بارے میں بھی تہذیب واخلاق سے گری ہوئی بات اس کی زبان اور قلم پر نہیں آتی ، لیکن مرزا صاحب کے یہاں اپنے مخالفین کے لیے سور، کتے، حرامی وغیرہ کے الفاظ عام ہیں او رانہیں اس طرح کے تخاطب میں کوئی تکلف نہیں، کہتے ہیں کہ ”جو ہماری فتح کا قائل نہیں ہو گا، تو صاف سمجھاجاوے گا کہ اس کو ولد الحرام بننے کا شوق ہے، حرام زادہ کی یہی نشانی ہے کہ سیدھی راہ اختیار نہ کرے۔ (نور الاسلام:30) مشہور عالم مولانا ثناء الله امرتسری کو ” کتا ،مردار خوار“ (روحانی خزائن:309/11) مولانا محمد حسین بٹالوی کو ” پلید، بے حیا، سفلہ، گندی کارروائی، گندے اخلاق وغیرہ“ کے القاب سے نوازا ہے، مولانا سعد الله لدھیانوی کو ” نطفہ سفہا، کنجری کا بیٹا“۔ یہ کلمات بطور نمونہ کے ہیں، رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ مومن زیادہ لعنت کرنے والا نہیں ہو سکتا، خود مرزا صاحب نے کہا ہے کہ مومن لعّان نہیں ہوتا۔ (روحانی خزائن: 456/13) لیکن خود مرزا صاحب نے عیسائیوں کے خلاف جو کتاب لکھی تو محض چار صفحات میں ایک ہزار بار صرف لعنت لعنت کے کلمات لکھے ( حوالہ سابق:158-63/8) اس سے مرزا صاحب کی زبان وبیان کے معیار کا اندازہ کیا جاسکتا ہے او رغور کیا جاسکتا ہے کہ نبی تو کجا کیا کسی مہذب آدمی کو بھی ایسے الفاظ زیب دیتے ہیں؟ مرزا صاحب کے دیگر حالات بھی اس پہلو سے قابل مطالعہ ہیں، صرف مرزا صاحب کے محمدی بیگم سے نکاح کی شدید خواہش اور اس سلسلہ میں بار بار روحی الہیٰ کا دعوی ، پھر محمدی بیگم، اس کے شوہر اور اس کے متعلقین کے لیے بد دعا اور ہلاکت وبردبای کی پیشین گوئی اور بالآخر ان تمام پیشین گوئیوں کا غلط ثابت ہونا ایسی باتیں ہیں، جو مرزا صاحب کے اخلاق وعادات کو بھی روشنی میں لاتی ہیں ، مگر افسوس کہ جن مسلمانوں کو مذہبی معلومات حاصل نہیں ہیں، یا جو لوگ دیہات میں رہتے ہیں اور وہ کلمہ او رنماز او ردین کے بنیادی احکام سے بھی ناواقف ہیں، وہ دھوکہ میں آجاتے ہیں اور ظاہری طور پر کلمہ کی وحدت اور کچھ عمومی افعال میں یکسانیت کی وجہ سے لوگ دھوکہ کھا جاتے ہیں، پھر جہاں حقیقتِ حال کا ان کو علم ہوتا ہے او رمسلمان وہاں پہنچتے ہیں وہاں سے ان غارت گرانِ ایمان کو راہ فرار اختیار کرنی پڑتی ہے ، ان کی مالی تحریص، عبادت گاہ او رمکتب کا انتظام اور دوسری ترغیبات سب کی سب اکارت ہو جاتی ہیں، اگر مسلمانوں پر ان باغیانِ ختم نبوت کے افکار واعتقادات واضح ہو جائیں تو یہی کافی ہے۔ لیکن اس میں جس قدر افسوس کیا جائے کم ہے کہ ہم نے اپنی تمام دینی تحریکات، تعلیمی نظام اور دعوتی کوششوں کا محور صرف پررونق شہروں کو بنالیا ہے او رہمارے جو بھائی دیہات کی تیرہٴ وتاریک فضا میں رہتے ہیں ، جہاں نہ علم کی روشنی ہے اور نہ برقی لیمپ ، نہ خوبصورت سڑکیں، نہ راحت بخش عمارتیں او رعشرت کدے ، ان غریب بھائیوں کو ہم نے بالکل بھلا رکھا ہے، ایسا کہ گویا ان سے ہمارا کوئی مذہبی اور ایمانی رشتہ ہی نہ ہو، رسول الله صلی الله علیہ وسلم پر ختم نبوت ہماری طرف متوجہ ہے کہ ہم اپنے ان بھائیوں کی طرف نگاہِ محبت اٹھائیں، ان کے ایمان کی حفاظت کریں اور ان کو حقیقی صورت حال سے آگاہ کرنے کی کوشش کریں، ہماری تھوڑی سی توجہ انہیں ارتداد کی کھائی میں گرنے سے بچا سکتی ہے، ہم اپنی آمدنی کا بہت ہی معمولی حصہ نکال کر گاؤں گاؤں مکاتب کانظام قائم کرسکتے ہیں، کتنے ہی گاؤں ہیں، جہاں سینکڑوں سال سے مسلمان آباد ہیں، لیکن وہاں ایک چھوٹی سی مسجد موجود نہیں، ہم چھپر کی سہی، ایک مسجد بنا دیں، انہیں مسجدوں میں بچوں کی بنیادی دینی تعلیم کا انتظام کر دیں او رعلم کا ایک چراغ وہاں روشن ہو جائے، تو انشاء الله انہیں ہر گزگم راہ نہ کیا جاسکے گا او رکفر اپنی ساری سازشوں کے باوجود خاسر ومحروم ہی رہے گا، لیکن کیا ہم اس کے لیے تیار بھی ہیں؟؟
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,477
پوائنٹ
964
تحریر کا حوالہ ؟
 
Top