• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

خصی جانور

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,409
پوائنٹ
562
س: قربانی کا بکرا خصی کروا سکتے ہیں یا نہیں؟

ج: خصی کرنا کروانا جائز نہیں دیکھیں تفسیر ابن کثیر آیت
«فَلَیُغَیِّرُنَّ خَلْقَ اﷲِ»-النساء119 ’’اور وہ خدائی ساخت میں ردّ وبدل کریں گے‘‘ ہاں خصی جانور کی قربانی درست ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خصی کی قربانی کی ہے۔, helvetica]http://www.urdufatwa.com/index.php?/Knowledgebase/Article/View/2098/190/

اس فتویٰ میں دو باتیں بیان کی گئی ہیں۔ ایک تو یہ کہ خصی جانور کی قربانی درست ہے کیونکہ

رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی خصی کی قربانی کی ہے۔ یہ تو سب ہی جانتے ہیں کہ خصی بکرے کا گوشت غیر خصی بکرے سے عمدہ ہوتا ہے۔ اور اسی لئے اسے خصی کیا جاتا ہے۔ اور بکرے کا خصی ہونا کوئی عیب بھی نہیں ہے۔

دوسری طرف یہ کہا جارہا ہے کہ خصی کرنا اور کروانا جائز نہیں ہے۔ یہ بات سمجھ میں نہیں آرہی۔ پاکستان میں تو وسیع پیمانے پر بکروں کو خصی کیا جاتا ہے، اور قربانی کے لئے لوگ خصی بکروں کو ہی ترجیح دیتےہیں۔ تو کیا یہ سب لوگ غلط اور ناجائز کام کرتے ہیں
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
@کفایت اللہ بھائی وضاحت ضرور کریں

قاری بشیر جو کہ کورنگی کی ایک مسجد میں جمعہ پڑھاتے ہیں پچھلا جمہ انھوں نے اس موضوع پر بات کی اور انھوں نے خصی کو بھی عیب میں شمار کیا اور انھوں نے جمعہ میں علماء کو بھی ںصیحت کی کہ وہ خصی والے جانور کی قربانی سے لوگوں کو روکے

دلیل کے طور پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث بیان کی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جانورں کو خصی کرنے سے منا فرمایا ہے کیا اس طرح کی کوئی حدیث ہے

آپ کے جواب کا انتظار رہے گا
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
وَّلَاُضِلَّنَّھُمْ وَلَاُمَنِّيَنَّھُمْ وَلَاٰمُرَنَّھُمْ فَلَيُبَتِّكُنَّ اٰذَانَ الْاَنْعَامِ وَلَاٰمُرَنَّھُمْ فَلَيُغَيِّرُنَّ خَلْقَ اللّٰهِ ۭ وَمَنْ يَّتَّخِذِ الشَّيْطٰنَ وَلِيًّا مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ فَقَدْ خَسِرَ خُسْرَانًا مُّبِيْنًا ١١٩؀ۭ
اور انہیں راہ سے بہکاتا رہوں گا اور باطل امیدیں دلاتا رہوں گا (١) اور انہیں سکھاؤں گا کہ جانوروں کے کان چیر دیں (٢) اور ان سے کہوں گا کہ اللہ تعالٰی کی بنائی ہوئی صورت کو بگاڑ دیں (٣) سنو! جو شخص اللہ کو چھوڑ کر شیطان کو اپنا رفیق بنائے گا وہ صریح نقصان میں ڈوبے گا۔
«فَلَیُغَیِّرُنَّ خَلْقَ اﷲِ»-النساء119 (اللہ کی تخلیق کو بدلنا) کی کئی صورتیں بیان کی گئی ہیں۔ ایک تو یہی جس کا ابھی ذکر ہوا یعنی کان وغیرہ کاٹنا چیرنا سوراخ کرنا، ان کے علاوہ اور کئی صورتیں ہیں مثلاً اللہ تعالٰی نے چاند، سورج، پتھر اور آگ وغیرہ اشیاء مختلف مقاصد کے لئے بنائی ہیں، لیکن مشرکین نے ان کے مقصد تخلیق کو بدل کر ان کو معبود بنا لیا۔ یا تغییر کا مطلب تغییر فطرت ہے یا حلت وحرمت میں تبدیلی ہے وغیرہ اسی تغییر میں مردوں کی نس بند کر کے اور اسی طرح عورتوں کے آپریشن کر کے انہیں اولاد پیدا کرنے کی صلاحیت سے محروم کر دینا۔ میک آپ کے نام پر ابروؤں کے بال وغیرہ اکھاڑ کر اپنی صورتوں کو مسخ کرنا اور وشم (یعنی گودنا گدوانا (وغیرہ بھی شامل ہے یہ سب شیطانی کام ہیں جن سے بچنا ضروری ہے۔ البتہ جانوروں کو اس لئے خصی کرنا کہ ان سے زیادہ انتفاع ہو سکے یا ان کا گوشت زیادہ بہتر ہو سکے یا اسی قسم کا کوئی اور صحیح مقصد ہو تو جائز ہے۔ اس کی تائید اس سے بھی ہوتی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خصی جانور قربانی میں ذبح فرمائے ہیں۔ اگر جانور کو خصی کرنے کا جواز نہ ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کی قربانی نہ کرتے۔۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، ‏‏‏‏‏‏أَنْبَأَنَا سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَقِيلٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَائِشَةَ، ‏‏‏‏‏‏وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ "أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ إِذَا أَرَادَ أَنْ يُضَحِّيَ، ‏‏‏‏‏‏اشْتَرَى كَبْشَيْنِ عَظِيمَيْنِ سَمِينَيْنِ أَقْرَنَيْنِ أَمْلَحَيْنِ مَوْجُوءَيْنِ، ‏‏‏‏‏‏فَذَبَحَ أَحَدَهُمَا عَنْ أُمَّتِهِ لِمَنْ شَهِدَ لِلَّهِ بِالتَّوْحِيدِ وَشَهِدَ لَهُ بِالْبَلَاغِ، ‏‏‏‏‏‏وَذَبَحَ الْآخَرَ عَنْ مُحَمَّدٍ وَعَنْ آلِ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ".
ام المؤمنین عائشہ اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب قربانی کا ارادہ فرماتے تو دو بڑے، موٹے سینگ دار، چتکبرے، خصی کئے ہوئے مینڈھے خریدتے، ان میں سے ایک اپنی امت کے ان لوگوں کی طرف سے ذبح فرماتے، جو اللہ کی توحید اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کی گواہی دیتے ہیں، اور دوسرا محمد اور آل محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے ذبح فرماتے۔
تخریج دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: ۱۴۹۶۸، ۱۷۷۳۱، ومصباح الزجاجة: ۱۰۸۳)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۶/۲۲۰) (صحیح)

حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُوسَى الرَّازِيُّ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا عِيسَى، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاق، ‏‏‏‏‏‏عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي عَيَّاشٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ:‏‏‏‏ ذَبَحَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ الذَّبْحِ كَبْشَيْنِ أَقْرَنَيْنِ أَمْلَحَيْنِ مُوجَأَيْنِ، ‏‏‏‏‏‏فَلَمَّا وَجَّهَهُمَا قَالَ:‏‏‏‏ "إِنِّي وَجَّهْتُ وَجْهِيَ لِلَّذِي فَطَرَ السَّمَوَاتِ وَالأَرْضَ عَلَى مِلَّةِ إِبْرَاهِيمَ حَنِيفًا وَمَا أَنَا مِنَ الْمُشْرِكِينَ، ‏‏‏‏‏‏إِنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ لَا شَرِيكَ لَهُ، ‏‏‏‏‏‏وَبِذَلِكَ أُمِرْتُ وَأَنَا مِنَ الْمُسْلِمِينَ، ‏‏‏‏‏‏اللَّهُمَّ مِنْكَ وَلَكَ وَعَنْ مُحَمَّدٍ وَأُمَّتِهِ بِاسْمِ اللَّهِ وَاللَّهُ أَكْبَرُ"، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ ذَبَحَ.
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے قربانی کے دن سینگ دار ابلق خصی کئے ہوئے دو دنبے ذبح کئے، جب انہیں قبلہ رخ کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دعا پڑھی: «إني وجهت وجهي للذي فطر السموات والأرض على ملة إبراهيم حنيفا وما أنا من المشركين، إن صلاتي ونسكي ومحياي ومماتي لله رب العالمين لا شريك له، وبذلك أمرت وأنا من المسلمين، اللهم منك ولك وعن محمد وأمته باسم الله والله أكبر» "میں اپنا رخ اس ذات کی طرف کرتا ہوں جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا، میں ابراہیم کے دین پر ہوں، کامل موحد ہوں، مشرکوں میں سے نہیں ہوں بیشک میری نماز میری تمام عبادتیں، میرا جینا اور میرا مرنا خالص اس اللہ کے لیے ہے جو سارے جہان کا رب ہے، کوئی اس کا شریک نہیں، مجھے اسی کا حکم دیا گیا ہے، اور میں مسلمانوں میں سے ہوں، اے اللہ! یہ قربانی تیری ہی عطا ہے، اور خاص تیری رضا کے لیے ہے، محمد اور اس کی امت کی طرف سے اسے قبول کر، (بسم اللہ واللہ اکبر) اللہ کے نام کے ساتھ، اور اللہ بہت بڑا ہے" پھر ذبح کیا۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابن ماجہ/الأضاحي ۱ (۳۱۲۱)، (تحفة الأشراف: ۳۱۶۶)، وقد أخرجہ: سنن الترمذی/الأضاحي ۲۲ (۱۵۲۱)، مسند احمد (۳/۳۵۶، ۳۶۲، ۳۷۵)، سنن الدارمی/الأضاحي ۱ (۱۹۸۹) (حسن) (اس کے راوی ابوعیاش مصری مجہول، لین الحدیث ہیں، لیکن تابعی ہیں، اور تین ثقہ راویوں نے ان سے روایت کی ہے، نیز حدیث کی تصحیح ابن خزیمہ، حاکم، اور ذھبی نے کی ہے، البانی نے پہلے اسے ضعیف ابی داود میں رکھا تھا، پھر تحسین کے بعد اسے صحیح ابی داود میں داخل کیا ) (۸؍ ۱۴۲)
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
بیل سانڈ بکرے وغیرہ جو جانور خصی کئے جا تے ہیں ان کی کیا دلیل ہے مسلم وغیرمسلم دونوں خصی کرسکتے ہیں ؟کوئی مسلمان بھی یہ کا م کرسکتا ہے وضاحت فرمائیں ؟
الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
جانوروں کوخصی کرنے کے بارے میں اہل علم کے دو متضاد اقوال ہیں ۔ایک گروہ منع کا قا ئل ہے جب کہ دوسرا گروہ عملی جواز کاقائل ہے اول الذکر طائفہ کے دلائل بالا ختصار حسب ذیل ہیں ۔
(1)قرآن مجید میں شیطان کا قول ہے :
﴿وَلَءامُرَ‌نَّهُم فَلَيُغَيِّرُ‌نَّ خَلقَ اللَّهِ...١١٩﴾... سورةالنساء

"اور (یہ بھی )کہتا رہوں گا کہ وہ اللہ کی بنائی صورتوں کو بدلتے رہیں ۔"
زیر آیت ہذا امام بغوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :"مفسرین کی ایک جماعت بشمول عکرمہ کاکہنا ہے مراد اس سے خصی کرنا گوندنا اور کان کاٹنا ہے اور بعض اہل علم نے خصی کرنے کو حرام قرار دیاہے ۔"(معالم التنذل1/482)
نیز حافظ ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :"ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے نزدیک اس سے مقصود جانوروں کاخصی کرنا ہے ۔"یہی رائے درج ذیل اسلاف کی ہے ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سعیدبن مسیب رضی اللہ تعالیٰ عنہ عکرمہ ابن عباس ( رضی اللہ تعالیٰ عنہ )قتادہ ابواصلح رحمۃ اللہ علیہ اور ثوری رحمۃ اللہ علیہ ۔(1/612)
(2)حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دم گھونٹنے اور جانوروں کوخصی کرنا سختی سے منع فرمایا ہے ۔(رواہ البذار)
امام شوکانی رحمۃ اللہ علیہ نےاس پر صحت کاحکم لگایا ہے ۔
(3)ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ماثور ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اونٹوں گایوں بھیڑبکریوں اور گھوڑوں کو خصی کرنے سے منع فرمایا ہے ۔حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں ۔افزائش نسل کا دارومداراسی پر ہے کو ئی ۔بھی مادہ نر کے بغیر اپنے فرائض انجام نہیں دے سکتی ۔(شرح معانی الاثار)
(4)"مصنف ابن ابی شیبہ رحمۃ اللہ علیہ میں ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت میں ہے ۔میں ہے پھر دلیل میں مذکورآیت پیش کی اور ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نےبھی عدم جواز پراپنی مروی روایت اور مذکورہ بالاآیت سے استدلال کیا ہے ۔ان دلائل کے جواب میں ثانی الذ کر فریق کا کہنا ہے کہ ۔﴿فلیغیرن خلق اللہ﴾کی تفسیر میں جا نوروں کو خصی کرنے کی بات کسی صحیح یاضعیف روایت سے مرفوعاً ثابت نہیں اور جہاں تک سلف کی ایک جماعت کا تعلق ہے کہ اس نے آیت ﴿فلیغیرن خلق اللہ﴾سے خصی کرنا سمجھا ہے جب کہ ان کے بالمقابل دوسری جما عت نے﴿خلق اللہ﴾سے اللہ کا دین مراد لیا ہے چنانچہ امام بغوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ مجاہد قتادہ رحمۃ اللہ علیہ سعید بن مسیب رحمۃ اللہ علیہ اور ضحاک( رحمۃ اللہ علیہ )نےاس کی تفسیر دین اللہ سے کی ہے اور نظیر میں دوسری آیت﴿لاتبديل لخلق الله﴾پیش کی ہے اور ﴿خلق اللہ﴾کامعنی دین اللہ بتایا ہے یعنی حرام کو حلال اور حلال کو حرام ٹھہرا نا اور حافظ ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اپنی تفسیر میں قریباًایسی ہی وضاحت فرمائی ہے جب آیت کی تفسیر میں دونوں قسم کے اقوال ہیں تو فیصلہ حتمی اور یقینی نہ ہوا اور اگر سنت ثابتہ سے کو ئی بات ثابت ہو تو انکار کی گنجائش نہ تھی جس کا وجود یہاں ناپید ہے اور طحاوی کی روایت کمزور ناقابل استدلال ہے اس میں راوی عبدا للہ بن نافع ہے محدثین کے نزدیک ضعیف ہے اور ابن ابی شیبہ کی روایت میں ایک راوی مجہول ہے پھر ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر موقوف ہے مرفوع نہیں اگرچہ مسند بزار کی روایت جس کوامام شوکانی رحمۃ اللہ علیہ نے صحیح قرار دیا ہے مطلقاًممانعت پر دال ہے خواه(ماكول اللحم)جا نور ہویا (غيرماكول اللحم)لیکن دیگرمرویات مثلاً ابوہریرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا ابو رافع رضی اللہ تعالیٰ عنہ جابر بن عبد اللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور ابو درداء( رضی اللہ تعالیٰ عنہ )جواز پرمصرح ہیں حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب قربانی کا ارادہ فرماتے تو بڑے فربہ سینگوں والے سفید خصی کردہ دبنے خریدتے۔(سنن ابن ماجہ )
ابورافع رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوسفید خصی کردہ دنبوں كی قربانی کی ۔
(مسند احمد رحمۃ اللہ علیہ مسند اسحاق ۔من راھویہ اور معجم طبرانی)
جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت میں ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم دوسفید بڑے سینگوں والے خصی کردہ دنبے لائے اور ان میں ایک کو ذبح کیا فرمایا :
«بسم اللہ اللہ اکبر اللهم عن محمد وآل محمد» ( مسند ابن ابي شيبه وغيره)

ان میں سے بعض طرق میں اگرچہ عبد اللہ بن محمد بن عقیل کی وجہ سے کچھ کلا م ہے لیکن علما ء کی ایک جماعت نے ان پر اعتماد کا اظہار کیا ہے جیسے امام محمد اسحاق بن راھویہ حمیدی امام بخاری ترمذی رحمۃ اللہ علیہ اور ابن عدی (4) تہذیب میزان اورخلاصہ میں ان ائمہ سے اس کی تو ثیق منقول ہے علاوہ ازیں عبد اللہ بن محمد بن عقیل کی روایت کے اور بھی شواہد ہیں جواس روایت کو تقویت پہنچاتے ہیں ملا حظہ ہو (فتاوی عظیم آبادی )
نیز بعض علماءنے مختلف احادیث میں تطبیق یوں دی ہے کہ جن جانوروں کا گوشت کھا یا جا تا ہو گوشت کو مزید اچھا بنانے کے لیے ان کو خصی کرنا جائز ہے اور جب جانوروں کا کھا نا قطعاً ممنوع ہے ان کو خصی کرنا بھی ناجائز ہے متقدمین میں سے طاؤس اور عطا ء وغیرہ اور متاخرین کی اکثریت اسی بات کی قائل نظرآتی ہے ۔
فیصلہ:

لہذا ترجیح اسی بات کو ہے کہ (ماكول اللحم)جانوروں کو بوقت ضرورت خصی کرنا جائز ہے اور فاعل کے لیے مسلما ن ہونا ضروری نہیں کیونکہ عمل ہذا عبادات کی قبیل سے نہیں جس میں اسلام شرط ہواس لیے مسلم وغیرہ مسلم سب برابر ہیں بالخصوص ایک مسلمان کے لیے عمل خصاء کرنے میں کو ئی ممانعت نہیں اصلاً جواز ہے ۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

ج1ص720

 
Top