• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

خلافتِ راشدہ اور وراثت ِانبیاء

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
خلافتِ راشدہ اور وراثت ِانبیاء

شیخ الاسلام مولاناثناء اللہ امرتسریؒ​
اہل حدیث کا مذہب ہے کہ خلافت ِراشدہ حق پر ہے یعنی حضرت ابوبکر صدیق، حضرت عمر فاروق، حضرت عثمان ذوالنورین، حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہم خلفاے راشدین تھے۔ ان کی اِطاعت بموجب ِشریعت سب پر لازم تھی۔ کیونکہ خلافت ِراشدہ کے معنی نیابت کے ہیں، حضرت ابوبکرؓ کو حضورﷺنے اپنی زندگی ہی میں اپنا نائب بنایا تھا۔مرض الموت میں صدیق اکبرؓ کو امام مقرر کیا۔ حالانکہ سیدہ عائشہ صدیقہؓ بنت ِابوبکرؓ نے __ یہ سوچ کر کہ کہیں حضرت انتقال فرماگئے تو میرے باپ کی نسبت لوگوں کا گمانِ بدنہ ہو کہ ایسا امامت پر کھڑا ہوا کہ آنحضرتﷺجانبر نہ ہوئے__ عرض کیا کہ حضرت ابوبکرؓ بڑے رقیق القلب ہیں، وہ آپ کی جگہ پر اِمامت نہیں کرسکیں گے۔ آپ عمرفاروقؓ کو امام بنا دیجئے مگر آپ نے ایک نہ سنی۔ بلکہ نہایت خفگی سے فرمایا: «أنتُنّ صواحب یوسف» (صحیح بخاری:۷۱۲)
’’تم ویسی ہی عورتیں ہو جو یوسف کو بہکاتی تھیں۔‘‘
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
یعنی جن عورتوں کو زلیخا نے دعوت میں بلایا تھا اور اُنہوں نے بھی یوسف علیہ السلام کو زلیخا کی طرف ناجائزمیلان کرنے کی رغبت دی تھی، تم بھی اسی طرح مجھ کو ایک ناجائز کام کی رغبت دیتی ہو کہ میں ابوبکرؓ کے ہوتے ہوئے کسی دوسرے کو منصب ِامامت پر مامور کروں۔چنانچہ صدیق اکبرؓ برابر نماز پڑھاتے رہے۔ آخر سرورِ عالمﷺکے انتقال پُرملال کے بعد حضرت ابوبکرؓ کو سب نے خلیفہ مان لیا۔ اتنا بالاجمال واقعہ تو سنی، شیعہ دونوں گروہوں میں متفقہ ہے۔ ایک حدیث جو خاص اہل سنت کی روایت سے اس امر کا قطعی فیصلہ کرتی ہے جس میں آنحضرتﷺ نے مرض الموت میں حضرت عائشہؓ کو فرمایا تھا:
«عن عائشة قالت قال لي رسول اﷲ! في مرضه: اُدعي لي أبا بکر أباک وأخاک حتی أکتب کتابًا فإنی أخاف أن یتمنّٰی متمنّ ویقول قائل: أنا ویأبی اﷲ والمؤمنون إلا أبابکر» (صحیح مسلم: رقم ۲۳۸۷)
’’اپنے باپ ابوبکرؓ اور بھائی عبدالرحمنؓ کوبلا کہ میں خلافت کا فیصلہ لکھ دوں۔ ایسا نہ ہو کہ میرے بعد کوئی کہنے لگے کہ میں خلافت کا حق دار ہوں حالانکہ اللہ کو اور سب مؤمنوں کو ابوبکرؓ کے سوا کوئی بھی منظور نہ ہوگا۔‘‘
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
اس حدیث سے نہ صرف خلافت ِصدیقی کا فیصلہ ہوتا ہے بلکہ اس مشہور مسئلۂ قرطاس کا بھی تصفیہ ہوتا ہے جو آنحضرتﷺ کے قلم دوات طلب کرنے پر صحابہ کے انکار واِقرار کا مشہور ہے جس کی تفصیل یہ ہے کہ
آنحضرتﷺنے مرض الموت میں فرمایا تھا۔ قلم دوات منگاؤ، میں تم کو کچھ لکھ دوں میرے بعد جھگڑا نہ ہو۔ اس پر صحابہ کا بایں خیال اختلاف رہا کہ حضور کو بیماری میں تکلیف ہوگی۔ آخر آپ خلافت کی بابت ہی کچھ لکھوائیں گے۔ عرض کیا: حسبُنا کتاب اﷲ ’’ہم کو کتاب اللہ قرآنِ مجید کافی ہے۔کیا ضرورت کہ حضورﷺکو ایسی تکلیف میں تکلیف بڑھائیں؟‘‘
اس دلیل کے پیش کرنے والے حضرت فاروق تھے۔ جن کی قوتِ استدلال سب کو مسلم تھی۔چنانچہ اکثر نے ان سے اس رائے میں اتفاق کیا اور آنحضرتﷺنے بھی معمولی اظہارِ رنج کرکے جیسے عموماً کسی ہمدرد بزرگ کو ایسے موقع پر ہوتا ہے، اُن کو اُٹھا دیا اور فرمایا کہ میں اس وقت جس شغل میں ہوں، تمہارے شغل سے کہیں بہتر ہے۔اس واقعہ پرفریقین (سنی، شیعہ) کی رائیں اور توجیہیں مختلف ہیں۔ شیعہ کہتے ہیں کہ اس کتاب کا مضمون جو آنحضرتﷺنے لکھنا چاہا تھا، خلافت ِعلی کی وصیت تھی۔ یہی وجہ ہے کہ عمر نے اس باب میں مزاحمت کی۔ جبکہ اہل سنت کا قول ہے کہ آنحضرتﷺاگر لکھتے تو حضرت ابوبکرؓ کی خلافت لکھتے۔ مگر آپ نے لکھنے کو ضروری نہ سمجھا کیونکہ آپ بطورِ پیش گوئی فرما چکے تھے کہ یأبی اﷲ والمؤمنون إلا أبا بکر ’’اللہ اور مؤمنوں کو سواے ابوبکر کے کوئی پسند ہی نہ ہوگا۔‘‘ اسی وجہ سے عائشہ صدیقہؓ کو ابوبکرؓ کے بلانے کی بابت ارشاد کرکے خاموش رہے اور اسی وجہ سے اس وقت بھی سکوت اختیار کیا۔ یہ حدیث اہل سنت کے لیے ایک قوی دلیل ہے کہ خلافت ِصدیقی منظورِ نبوی ہے۔ نیز مسئلہ قرطاس کی بابت صریح تصفیہ ہے کہ حضورﷺوہی بات لکھتے جس کے لکھنے کی خواہش پہلے ظاہر فرما چکے تھے کہ ابوبکرؓ کو خلیفہ بنانا!
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
٭خاص شیعہ کی طرز پر اس کا الزامی جواب بھی ہوسکتا ہے کہ بقول ان کے آنحضرتﷺخلافت ِعلی کے پہنچانے پر مامور تھے اور بقول ان کے آیت:
﴿بَلِّغْ مَا اُنْزِلَ اِلَیْکَ مِنْ رَبِّکَ﴾ ’’جو کچھ تجھ کو اللہ کی طرف سے حکم پہنچا ہے وہ پہنچا دے۔‘‘
انہی معنی کے لیے نازل ہوئی تھی کہ خلافت ِعلی کی بابت جو تجھے حکم دیا گیا ہے، وہ لوگوں کو پہنچا۔ اگر تو نے نہ پہنچایا تو گویا تو نے نبوت کی تبلیغ نہ کی۔ پھر کیا وجہ ہے کہ حضرت عمرؓ کے روکنے سے حضور ایسے بڑے ضروری کام سے جس کا ارشاد جناب ِباری تعالیٰ سے پہنچا ہوا تھا جس کے نہ کرنے پر تمام نبوت کی تبلیغ کالعدم ہوتی تھی، آپ نے لکھوانے میں تساہل فرمایا۔
اگر اس موقع پر حضرت عمرؓ کی مخالفت مانع تھی تو صلح حدیبیہ کے موقع پر بھی تو حضرت عمرؓ ہی صلح کے مخالف تھے بلکہ زور سے اس مخالفت کو نیک نیتی سے ظاہر کرتے اور پھیلاتے تھے۔ مگر اس نازک موقع پر جہاں ایک طرف کفار کا ہجوم ہے اور دوسری طرح خود صحابی بھی رنج و ملول بیٹھے ہیں، عمرؓ کی مخالفت کی کچھ پروا نہ ہوئی تو اس موقع پر جب کہ تمام حاضرین خدام ہیں، اہل بیت سب حاضر ہیں، عمرؓ کا اس قدر اثر ہواکہ حکم الٰہی کی تبلیغ سے خاموش ہوگئے۔ ہمارے خیال میں ایسا گمان شانِ نبوت1 میں بدگمانی پیدا کرنے کا موجب ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
٭ علاوہ ازیں شیعوں کی طرف سے اس دعویٰ پر کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی بابت حضورﷺنے خلافت کی وصیت فرمائی تھی، ایک حدیث یہ بھی پیش کی جاتی ہے جس کا مضمون یہ ہے کہ حضورﷺنے فرمایا:
«من کنت مولاہ فعلي مولاہ»
’’یعنی جس کا میں مولا ہوں، علی بھی اس کا مولا ہے۔‘‘
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
چونکہ آنحضرتﷺسب ایمانداروں کے مولا ہیں اور اس لیے حضرت علی کرم اللہ وجہہ بھی سب کے مولا ہیں اور مولا کے معنی حاکم اور امیر کے بتاتے ہیں۔ اسی حدیث کا تتمہ وہ الفاظ ہیں جو فاروق اعظمؓ کی طرف سے روایت کئے جاتے ہیں کہ فرمانِ نبویؐ من کنت مولاہ … الخ سن کر اُنہوں نے کہا تھا:
’’بخ بخ یا أبا الحسن أصبحت مولائي ومولا کل مؤمن ومؤمنة‘‘ ( مختصرا)
’’یعنی اے ابوالحسن علی مرتضیٰؓ! تجھے مبارک ہو کہ تو میرا اور ہرایماندار کا مولا ہوچکا ۔‘‘
لیکن بغور دیکھا جائے تو اس سے بھی شیعوں کا مدعا ثابت نہیں ہوتا کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ ہی کو حق خلافت تھا اور حضرت ابوبکر صدیقؓ اور عمر فاروقؓ وغیرہ نے خلافت ِعلیؓ کو معاذ اللہ ظلم سے غصب کیا۔جس کی وجہ سے وہ موردِ عتاب الٰہی ہوگئے وغیرہ وغیرہ، کیونکہ اس حدیث میں جو مولا کا لفظ ہے جس پر سارا مدار ہے اس کے معنی دوست اور محب ِخالص کے ہیں، نہ کہ حاکم اور امیر کے چنانچہ آپﷺنے خاص اپنی ذات ستودہ صفات کی نسبت بھی فرمایا ہے:
«لا یؤمن أحدکم حتی أکون أحب إلیه من ولدہ ووالدہ والناس أجمعین»
’’یعنی جب تک میں سب چیزوں سے زیادہ محبوب نہ ہوں اور مجھے تم اپنی اولاد اور ماں باپ اور تمام جہان کے لوگوں سے زیادہ پیارا نہ سمجھو گے، مسلمان نہ ہوگے۔‘‘(صحیح مسلم:۴۴)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
نیز اسی حدیث میں من کنت مولاہ کے آخر میں بروایت ِامام احمد، ابویعلی اور طبرانی کے یہ الفاظ بھی ہیں:«اللھم والِ من والاہ وعادِ من عاداہ» (مسند احمد:۱؍۱۱۸) یعنی حضورﷺنے من کنت مولاہ فرمانے کے بعد یہ بھی فرمایا کہ
’’اے اللہ! جو علیؓ سے محبت کرے اس سے محبت کر اور جو اس سے عداوت رکھے تو بھی اس سے دشمنی کر اور اس کو مبغوض رکھ۔‘‘
اس سے صاف سمجھا جاتاہے کہ آنحضرتﷺ نے خلافت کے متعلق وصیت نہ فرمائی تھی۔ بلکہ اخلاص اور محبت کے متعلق تھی جو ہم کو بھی منظور ہے، کیونکہ موالات کے مقابلہ میں آپ نے معادات کا لفظ فرمایا ہے۔ پس جو اس مقابلے کا مفہوم ہے، وہ صرف اسی قدر ہے کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے عداوت رکھنے والے اللہ تعالیٰ کے نزدیک مبغوض ہیں جس پر ہمارا بھی اتفاق ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
٭اس سے بڑھ کر اس معنی کا قوی قرینہ بلکہ دلیل کہ آنحضرتﷺکی ان الفاظ سے مراد صرف وصیت ِمحبت تھی نہ کہ وصیت ِخلافت، واقعہ بیعت ِابوبکر صدیقؓ ہے جس کی تفصیل یہ ہے کہ رسول اللہﷺ فداہ ابی و امی کے انتقال فرماتے ہی انصارِ مدینہ نے ایک الگ مجلس منعقد کرکے امیر بنانے کی تجویز کی جس پر ابوبکرصدیقؓ اور عمر فاروقؓ یہ خبر سنتے ہی مع ابوعبیدہ امینِ امت کے وہاں برسر موقع پہنچے دیکھا کہ مباحثہ گرم ہے۔
انصار کا ارادہ ہے کہ اہل مدینہ میں سے امیر مقرر ہو۔ ان صاحبوں کے سوال و جواب کرنے کرانے پر آخر اُنہوں نے یہ بھی کہا کہ
’’ منَّا أمیر ومنکم أمیر‘‘ ’’یعنی ایک امیر ہم میں سے ہو اور ایک امیر تم میں سے۔‘‘
جس پر حضرت ابوبکر صدیقؓ نے حدیث نبوی پیش کی کہ
’’الأئمۃ من قریش‘‘… ’’یعنی امارت اور امامت قریش ہی میں ہے۔‘‘
جب سب انصار کے روبرو حضرت ابوبکرؓ نے یہ دلیل پیش کی تو کسی کو اس سے انکارِ جرات نہ ہوئی اور آخر کار فیصلہ یہ ہوا کہ حضرت ابوبکر صدیقؓ خلیفہ مقرر ہوگئے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
اب سوال یہ ہے کہ جس طرح حضرت ابوبکرصدیقؓ نے انصار کے مقابلہ پر حدیث پیش کرکے اُن کے دعویٰ کو توڑا۔اسی طرح کسی صحابی نے انصار سے یا مہاجرین بلکہ اہل بیت سے حضرت ابو بکر کے سامنے یہ حدیث کیوں پیش نہ کی کہ
آپ تو یونہی خلیفہ بنائے گئے ہیں۔ حالانکہ آنحضرتﷺنے علی مرتضیٰ ؓ کے لیے وصیت اور تاکید فرمائی ہوئی ہے اور آپ دونوں (ابوبکرؓ اور عمرؓ) صاحبین نے تو علیؓ سے حضرتﷺ کی زندگی میں بیعت ِخلافت کی ہوئی ہے بلکہ مبارکباد بھی دی ہوئی ہے۔پھر آپ کاکیا منصب ہے کہ آپ خلافت کے مدعی ہوں اور تو اور ائمہ اہل بیت اور خاندان بنی ہاشم نے بھی اس دلیل کو معلوم نہیں کیوں پیش نہ کیا، حالانکہ یہ ایسی قوی دلیل تھی کہ اس دلیل کے سامنے کسی کی چوں چرا چل ہی نہ سکتی، کیونکہ ہزاروں آدمی اس کے گواہ موجود تھے۔
لیکن جب حضرت علی مرتضیٰ ؓ اور دیگر ائمہ ہدیٰ اور خاندانِ بنی ہاشم بلکہ مہاجرین وانصار سے کسی نے یہ حدیث اور واقعہ غدیر کو ابوبکرؓ کی خلافت کے خلاف بلکہ خلافت ِصدیقی کے بعد عمرفاروقؓ کی خلافت کے وقت بلکہ بعد ازاں حضرت عثمان ؓ کی خلافت کے وقت بھی پیش نہ کیاجب کہ کوئی امر مشکل نہ تھا۔ صرف عبدالرحمن بن عوفؓ کی رائے پر فیصلہ موقوف تھا اور بالکل الگ دارالندوہ (کمیٹی گھر) میں صرف تینوں صاحب (عبدالرحمن، عثمان، علی رضی اللہ عنہم) بیٹھے ہوئے تھے، اس حدیث کا پیش کرنا کیا مشکل تھا۔پس جب کہ کسی نے بھی اس حدیث سے اِستدلال نہیں کیا۔ نہ کسی اپنے نے، نہ بیگانے نے، مہاجرین نے، نہ انصار نے بلکہ نہ خود علی مرتضیٰؓ نے، تو معلوم ہوا کہ سب صحابہ نے مع اہل بیت اس حدیث من کنت مولاہ سے یہ معنی سمجھے تھے جو ہم نے بیان کئے ، نہ کہ وہ جو شیعہ کا گمان ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
اس مختصر سی تفصیل سے شیعوں کی اُن کل روایتوں کاجواب ہوسکتا ہے جو اس مسئلہ کے متعلق پیش کیا کرتے ہیں جن میں سے بعض میں حضرت علی ؓ کی نسبت امیرالمؤمنین کا لفظ بھی آتا ہے۔ کیونکہ اس دلیل سے معلوم ہوتا ہے کہ یا تو وہ روایات غلط ہیں یا مؤول۔ اس تقریر سے حضرت عمر فاروق و عثمان ذوالنورین و علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہم کی خلافت کا ثبوت ملتا ہے، کیونکہ خلافت کا مدار اس بات پر ہے کہ رعایا میں سے صلحا لوگ خلیفہ منتخب کریں یا خود خلیفہ اپنے نائب کو منتخب کرجائے اور بعد اس کے لوگ اس سے بیعت کرلیں۔ چنانچہ حضرت فاروقؓ کو خلیفۂ اوّل نے انتخاب کیا اور سب لوگوں نے منظور کیا تھا اور باقی دونوں اہل شوریٰ کے انتخاب سے خلیفہ ہوئے مگر چونکہ اصل بحث سنی شیعہ صرف اس امر پر ہے کہ حضرت علیؓ ہی کا حق خلافت تھا،جو ابوبکرؓ وغیرہ نے معاذ اللہ غضب کیا یا ابوبکرؓ بھی خلیفہ برحق تھا۔ اس واسطے ہم نے اس جگہ مختصر طور سے اس امر پربحث کی ہے کہ حضرت علی ؓ خلیفہ بلا فصل نہ تھے بلکہ جو کچھ ہوا یہی حق تھا۔
 
Top