• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

خلافتِ راشدہ اور وراثت ِانبیاء

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
وراثت ِانبیاء علیہم السلام
اہل حدیث کا مذہب ہے کہ انبیا علیہم السلام کی وراثت ان کی اولاد اور دیگر ورثا کی طرف منتقل نہیں ہوتی بلکہ مثل صدقہ اور وقف مال کے ہوتی ہے۔ یہ مسئلہ خلافت کے مسئلہ کے بعد سنیوں اور شیعوں میں بڑا معرکۃ الآرا ہے۔مگر ہم اللہ کے فضل سے اس کو ایسی عمدگی سے حل کریں گے کہ باید و شاید۔ ہمارے نزدیک شیعوں نے اپنی کتابوں اور روایتوں کی بھی پروا نہیں کی اور ناحق اس مسئلہ کی آڑ میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین سے بدگمان ہوگئے۔ کچھ تو خلافت کی آڑ میں، کچھ اس مسئلہ کی پناہ میں یہ لوگ جملہ اصحاب کو عموماً اور صدیق کے دشمنوں کو خصوصاً ایسے الفاظ اور القاب سے یاد کیا کرتے ہیں کہ کسی ایماندار کو تو کیا بھلے مانس آدمی کے بھی شایانِ شان نہ ہوں۔خیر ان الفاظ کا دہرانا یا ان کا عوض لینا تو ہمارے رسالہ کے موضوع سے اجنبی ہے۔ ہم نہیں چاہتے کہ ہمارے رسالہ کے ناظرین میں سے کسی ایک کی بھی ہمارے طرزِ مضمون سے دل آزاری ہو۔ اس لیے ہم اپنے بھائیوں کے ظلم کا بھی اظہار نہیں کرتے۔ اس مسئلہ میں چونکہ ہمارا روے سخن خاص شیعوں سے ہے، اس لیے ہم ایک روایت اپنی اور ایک دو روایتیں ان کی بیان کریں گے۔ ہماری روایت اس دعویٰ کے متعلق صحیح بخاری کی حدیث ہے ۔ حضرت ابوبکر سے مروی ہے کہ آنحضرتﷺ فرماتے ہیں کہ
سمعت رسول اﷲ ! یقول: «لا نورث ما ترکنا صدقة» (رقم :۶۷۳۵)
ہمارا کوئی وارث نہیں ہوتا۔ ہم جو کچھ چھوڑ جائیں وہ صدقہ ہوتا ہے۔‘‘
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
اس بارے میں شیعوں کی حدیث اُصولِ کلینی (جو شیعوں کی مستند کتاب ہے) کی روایت موجود ہے جس کامطلب یہ ہے کہ آنحضرتﷺ فرماتے ہیں:
عن أبي عبدﷲ قال: «إن العلماء ورثة الانبیاء وذلک أن الانبیاء لم یورثوا درھمًا ولا دینارًا وإنَّما أورثوا أحادیث من أحادیثھم فمن أخذ بشيء منھا أخذ حظًا وافرًا» (اُصول کلینی، کتاب العلم)
’’علما، انبیا کے وارث ہیں اس لیے کہ انبیا اپنی وراثت میں درہم و دینار نہیں چھوڑا کرتے بلکہ صرف علم کی باتیں چھوڑ جاتے ہیں۔ جو شخص ان علمی باتوں میں سے کچھ حصہ لیتا ہے وہ بہت بڑا حصہ لیتا ہے۔‘‘
پس ان دونوں متفقہ روایتوں سے جو اَمر ثابت ہوتا ہے، وہی اہل حدیث کا مذہب ہے۔ میں نے اس روایت کو بعض مشاہیر شیعہ علما کی خدمت میں پیش کیا، لیکن تعجب ہے کہ جو جواب اُنہوں نے دیا۔اس سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ گویا میرے بیان سے پہلے اس روایت سے ان کے کان آشنا ہی نہ تھے۔آخر اُنہوں نے کہا کہ ایسے مسائل کا فیصلہ امام مہدی علیہ السلام ہی کریں گے۔ جس پر میں نے عرض کیا: بہت خوب ، چشم ما روشن دل ماشاد!
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
چونکہ یہ مضمون دونوں گروہوں کی صحیح حدیثوں سے ثابت ہے، اس لیے جو سوال اس پر وارد ہوگا، اس کے جوابدہ دونوں گروہ ہوں گے۔پس اگر ہمارے جواب آئندہ سوالات کے اٹھانے کو کافی نہ ہوں تو شیعہ ہی کوئی جواب دیں، کیونکہ بموجب ِروایت کلینی ان کا اور ہمارا مذہب اس مسئلہ میں ایک ہی ہے یا ایک ہی ہونا چاہئے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
بعض شبہات اور ان کا جواب
1۔ ایک سوال اس پر یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآنِ شریف میں تمام ایمانداروں کو خطاب کرکے فرمایا:﴿یُوْصِیْکُمُ اﷲُ فِیْ اَوْلَادِکُمْ…… الایة﴾ (النساء:۱۱)
’’ اللہ تم کو تمہاری اولاد کے بارے میں حکم دیتا ہے کہ لڑکی کی نسبت لڑکے کا دگنا حصہ ہے۔‘‘
اور یہ تو ظاہر ہے کہ اس قسم کے خطاب سرورِ عالم فداہ ابی و امی کو بھی شامل ہوتے ہیں۔ پس آیت قرآنی سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرتﷺکی اولاد کوبھی تمام مسلمانوں کی طرح وراثت ملنی چاہئے۔
اس کا جواب یہ ہے کہ آیت ِموصوفہ ’عام مخصوص البعض‘ ہے یعنی جس قدر اس کا عموم ظاہر میں معلوم ہو رہا ہے، اتنا مراد نہیں بلکہ اس میں سے بعض اقسام دونوں گروہوں (سنی شیعہ) کے نزدیک اس حکم سے باوجودِ شمول آیت کے خارج ہیں۔ چنانچہ حاشیہ پر ہم دونوں گروہوں کی کتب ِوراثت سے عبارت نقل کرتے ہیں جس کا مضمون یہ ہے:
’’غلام خواہ مسلمان ہو۔ اور باپ کا قاتل اور مسلمان باپ کا کافر بیٹا (وغیرہ ذلک) باپ کے وارث نہ ہوں گے۔‘‘(سراجی و شرائع الاسلام)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
حالانکہ آیت ِمرقومہ میں عام حکم ہے۔ پس جس طرح یہ اقسام آیت سے باوجود شمول کے خارج ازحکم ہیں، اسی طرح آنحضرتﷺ کے ورثا بھی خارج ہیں،کیونکہ انبیا کی اولاد وارث مال نہیں ہوتی۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
2۔ دوسرا شبہ اس مضمون پر اس آیت سے کیا جاتا ہے جس میں حضرت داؤد علیہ السلام کی وراثت سلیمان تک پہنچنے کا ذکر ہے۔ یعنی ورث سلیمان داؤد پس جب حضرت سلیمان علیہ السلام نے اپنے باپ حضرت داؤد علیہ السلام سے وراثت پائی تو آنحضرتﷺکے ورثا (حضرت فاطمہؓ) کیوں وارث نہ سمجھے جائیں؟
اس کا جواب یہ ہے کہ حضرت سلیمان کو وراثت ِ علمی ملی تھی یعنی نبوت اور حکمت میں سلیمان داؤد علیہ السلام کے وارث ہوئے تھے نہ کہ مال و اَسباب میں۔ علمی وراثت کے توہم بھی معتقد ہیں۔اختلاف تو مالی وراثت میں ہے، اگر مالی وراثت مراد ہوتی تو اس کا ذکر ہی کیا ضروری تھا۔ جب حضرت سلیمان علیہ السلام حضرت داؤد علیہ السلام کے بیٹے تھے تو ان کے وارث ہونے میں اشتباہ ہی کیا تھا جس کا بیان کرنا مناسب معلوم ہوا۔ نیز حضرت داؤد علیہ السلام کے اور بیٹے بھی تھے۔پھر بالخصوص حضرت سلیمان علیہ السلام کو وراثت مالی کیسے پہنچ گئی اور دوسرے محروم کیے گئے۔ ان وجوہ سے صاف معلوم ہوتاہے کہ حضرت داؤد علیہ السلام کی علمی وراثت حضرت سلیمان علیہ السلام تک پہنچی تھی، نہ کہ مالی۔ پس ہمارا مذہب بروایت ِسنی اور شیعہ، دونوں گروہوں کے معتبر کتابوں سے ثابت ہوگیا۔

٭۔۔۔۔٭۔۔۔۔٭
 
Top