• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

خلافت تو اللہ کا عطیہ ہوتا ہے۔

شمولیت
اکتوبر 25، 2014
پیغامات
350
ری ایکشن اسکور
30
پوائنٹ
85
خلافت تو اللہ کا عطیہ ہوتا ہے۔
جب اللہ کو مطلوب ایمان‘ اعتقاد اور کردار کے حامل کوئی امت وجود میں آتی ہے تو اللہ اپنی رحمت سے انہیں خلافت عطا کرتا ہے۔
قرآن اور تاریخ سے یہی ثابت ہے کہ انبیاء علیہم السلاۃ و السلام کی ساری کی ساری جدو جہد بندوں میں اللہ کو مطلوب ایمان‘ اعتقاد اور کردار کےپیدا کرنا ہوتا تھا۔
پھر جب اللہ کو مطلوب ایمان‘ اعتقاد اور کردار کے حامل بندوں سے ایک امت بن جاتی تو اللہ اپنی رحمت سے انہیں خلافت عطا کرتا۔ یہاں ایک بات اور نوٹ کرلیں کہ یہ اوصافِ حمیدہ صرف ایک خلیفہ کے اندر ہی نہیں بلکہ امت کی اکثریت میں ہونی چاہئے کیونکہ حکومت صرف ایک فرد سے نہیں چلتی۔
اللہ کو مطلوب ایمان‘ اعتقاد اور کردار میں کمی آتے ہی خلافت چھین لی جاتی۔
قومِ نوحؑ ( جو کشتی میں سوار ہوئے تھے)‘ قوم عاد‘ قوم ثمود میں انبیاء علیہم السلاۃ و السلام کی محنت کے نتیجے میں جب اللہ کو مطلوب مطلوب ایمان‘ اعتقاد اور کردار کے حامل بندوں سے امتیں بنی تو اللہ نے ان میں سے ہر امت کو خلافت عطا کیا اور ایمان‘ اعتقاد اور کردار میں بگاڑ پیدا ہوتے ہی خلافت چھین لی گئی۔

...وَاذْكُرُوا إِذْ جَعَلَكُمْ خُلَفَاءَ مِن بَعْدِ قَوْمِ نُوحٍ ....... سورة الأعراف-69
’’ اور (اے قوم عاد) یاد کرو جب اس نے تمہیں قوم نوح کے بعد خلیفہ بنایا۔‘‘

وَاذْكُرُوا إِذْ جَعَلَكُمْ خُلَفَاءَ مِن بَعْدِ عَادٍ...... سورة الأعراف-74
اور (اے قوم ثمود) یاد کرو جبکہ اس نے تمہیں عاد کے بعد خلیفہ بنایا۔

أَلَمْ تَرَ كَيْفَ فَعَلَ رَبُّكَ بِعَادٍ﴿٦
تم نے دیکھا نہیں کہ تمہارے رب نے کیا برتاؤ کیا

بنی اسرائیل میں حضرت داؤد علیہ السلاۃ و السلام کو اللہ نے خلافت سے نوازا اور یہ خلافت حضرت سلیمان علیہ السلاۃ و السلام تک قائم رہا۔
جیسا کہ قرآن میں ہے:
يَا دَاوُودُ إِنَّا جَعَلْنَاكَ خَلِيفَةً فِي الْأَرْضِ ۔۔۔﴿٢٦سورة ص

’’ اے داؤد(ع)! ہم نے تم کو زمین میں خلیفہ مقرر کیا ہے ۔۔۔‘‘

وَوَرِثَ سُلَيْمَانُ دَاوُودَ ۖ ۔۔۔۔سورة النمل
’’ اور داؤدؑ کا وارث سلیمانؑ ہوا۔۔۔‘‘

لیکن حضرت سلیمان کے بعد یہودیوں میں اسی طرح فساد برپا ہوا جس طرح امتِ مسلمہ میں حضرت عثمان غنی اور حضرت علی رضی اللہ عنہم کے ادوار میں فساد شروع ہوا تھا اور بالکل ایک جیسے وجوہات کے بنا پر یہودیوں سے اور مسلمانوں سے خلافت رخصت ہوئی۔
نصرانیوں میں نظام خلافت کی کوئی تاریخ نہیں ملتی۔
حضرت سلیمان علیہ السلاۃ و السلام کے بعد جب ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ و اٰلیہ و سلم نے اپنی انتھک محنت سے اللہ کو مطلوب ایمان‘ اعتقاد اور کردار کے حامل افراد سے اس امتِ مسلمہ کو وجود میں لایا تو اللہ نے اپنے وعدے کے مطابق اس امت کو خلافت عطا کیا‘ (اللہ کے وعدے کا ذکر میرے اصل مضمون میں ہے)۔
پھر جب قتلِ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ سے امت میں فساد پیدا ہوا اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کے دور میں شرک اور فرقہ پرستی وجود میں آیا‘ تو اللہ کو مطلوب ایمان‘ اعتقاد اور کردار میں کمی ہونا شروع ہوئی اورامت سے خلافت رخصت ہوئی۔ یہی اللہ کی سنت ہے جو کبھی تبدیل نہیں ہوتی۔
وَلَن تَجِدَ لِسُنَّةِ اللَّـهِ تَبْدِيلًا ﴿٢٣﴾ سورة الفتح

رسولِ کریم ﷺ نے بھی اپنے بعد صرف تیس سال تک امت میں خلافت رہنے کی پیشن گوئی کی تھی:
"نبوت والی خلافت تیس سال رہے گی پھر جسے اللہ چاہے گا (اپنی) حکومت دے گا۔ سعید رحمة اللہ علیہ نے کہا: سفینہ رضی اللہ عنہ نے مجھے کہا: شمار کرو، ابوبکر رضی اللہ عنہ کے دو سال اور عمر رضی اللہ عنہ کے دس سال اور عثمان رضی اللہ عنہ کے بارہ سال اور علی رضی اللہ عنہ کے اتنے (یعنی چھ سال)"
http://magazine.mohaddis.com/shumara/249-nov-1995/2745-khilafat-rashda-tees-sal-hadees-tehqiq


نبی کریم ﷺ کے فرمان کے مطابق ٹھیک تیس سال تک خلافت رہی اور اب تک دوبارہ بحال نہیں ہوئی۔ بے شمار لوگوں نے کوششیں کی‘ بے شمار لوگوں نےجہاد کئے اور اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا لیکن آج تک خلافت نہ آنی تھی نہ آئی۔۔۔

وجہ کیا ہے‘ وجہ بس ایک ہی ہے کہ تیس سال کے بعد آج تک امت ’’ اللہ کو مطلوب ایمان‘ اعتقاد اور کردار ‘‘ کی حامل نہیں بنی۔
امت میں جو لوگ نظامِ خلافت کیلئے کوشاں ہیں‘ انہیں صرف اللہ کو مطلوب ایمان‘ اعتقاد اور کردار کی حامل امت کی تشکیلِ نو کی کوششیں کرنی چاہئے جس کے بغیر صرف نعروں سے‘ یا جہاد سے یا خروج سے نظامِ خلافت نہیں آئے گی۔
اوپر میں نے ذکر کیا ہے کہ نصرانیوں میں نظام خلافت کی کوئی تاریخ نہیں ملتی اور نہ ہی قرآن میں ایسا کچھ آیا ہے جبکہ ہر رسول کے دور میں نبوت والی خلافت قائم ہونی لازمی ہے اور ان شاء اللہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو بھی یہ صرف حاصل ہوگا۔
جب حضرت عیسیٰ علیہ السلام دوبارہ اس امت میں نزول فرمائیںگے‘ شرک و بدعات کا خاتمہ کریں گے‘ سارے فرقے ختم ہونگے‘ اللہ کو مطلوب ایمان‘ اعتقاد اور کردار کی حامل ایک امت بنائیں گے‘اور نبوت والی خلافت قائم کریں گے۔
ہم اپنے اندر اللہ کو مطلوب ایمان‘ اعتقاد اور کردار پیدا کریں تاکہ اگر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا نزول ہمارے وقت میں ہو تو ہم ان کا ساتھ دینے والے ہوں ورنہ ہم ان اوصاف کو اپنے آئندہ آنے والے نسلوں میں منتقل کرتے رہیں کہ جب بھی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا نزول ہو اور انہیں امت کی ایسے افراد مل جائیں جو دنیا سے یہودیوں کو ختم کرکے خلافت قائم کرنے میں ان کی مدد کریں۔ (واللہ تعالیٰ اعلم)
 

ابن قدامہ

مشہور رکن
شمولیت
جنوری 25، 2014
پیغامات
1,772
ری ایکشن اسکور
428
پوائنٹ
198
خلافت تو اللہ کا عطیہ ہوتا ہے۔
جب اللہ کو مطلوب ایمان‘ اعتقاد اور کردار کے حامل کوئی امت وجود میں آتی ہے تو اللہ اپنی رحمت سے انہیں خلافت عطا کرتا ہے۔
قرآن اور تاریخ سے یہی ثابت ہے کہ انبیاء علیہم السلاۃ و السلام کی ساری کی ساری جدو جہد بندوں میں اللہ کو مطلوب ایمان‘ اعتقاد اور کردار کےپیدا کرنا ہوتا تھا۔
پھر جب اللہ کو مطلوب ایمان‘ اعتقاد اور کردار کے حامل بندوں سے ایک امت بن جاتی تو اللہ اپنی رحمت سے انہیں خلافت عطا کرتا۔ یہاں ایک بات اور نوٹ کرلیں کہ یہ اوصافِ حمیدہ صرف ایک خلیفہ کے اندر ہی نہیں بلکہ امت کی اکثریت میں ہونی چاہئے کیونکہ حکومت صرف ایک فرد سے نہیں چلتی۔
اللہ کو مطلوب ایمان‘ اعتقاد اور کردار میں کمی آتے ہی خلافت چھین لی جاتی۔
قومِ نوحؑ ( جو کشتی میں سوار ہوئے تھے)‘ قوم عاد‘ قوم ثمود میں انبیاء علیہم السلاۃ و السلام کی محنت کے نتیجے میں جب اللہ کو مطلوب مطلوب ایمان‘ اعتقاد اور کردار کے حامل بندوں سے امتیں بنی تو اللہ نے ان میں سے ہر امت کو خلافت عطا کیا اور ایمان‘ اعتقاد اور کردار میں بگاڑ پیدا ہوتے ہی خلافت چھین لی گئی۔

...وَاذْكُرُوا إِذْ جَعَلَكُمْ خُلَفَاءَ مِن بَعْدِ قَوْمِ نُوحٍ ....... سورة الأعراف-69
’’ اور (اے قوم عاد) یاد کرو جب اس نے تمہیں قوم نوح کے بعد خلیفہ بنایا۔‘‘

وَاذْكُرُوا إِذْ جَعَلَكُمْ خُلَفَاءَ مِن بَعْدِ عَادٍ...... سورة الأعراف-74
اور (اے قوم ثمود) یاد کرو جبکہ اس نے تمہیں عاد کے بعد خلیفہ بنایا۔

أَلَمْ تَرَ كَيْفَ فَعَلَ رَبُّكَ بِعَادٍ﴿٦
تم نے دیکھا نہیں کہ تمہارے رب نے کیا برتاؤ کیا

بنی اسرائیل میں حضرت داؤد علیہ السلاۃ و السلام کو اللہ نے خلافت سے نوازا اور یہ خلافت حضرت سلیمان علیہ السلاۃ و السلام تک قائم رہا۔
جیسا کہ قرآن میں ہے:
يَا دَاوُودُ إِنَّا جَعَلْنَاكَ خَلِيفَةً فِي الْأَرْضِ ۔۔۔﴿٢٦سورة ص

’’ اے داؤد(ع)! ہم نے تم کو زمین میں خلیفہ مقرر کیا ہے ۔۔۔‘‘

وَوَرِثَ سُلَيْمَانُ دَاوُودَ ۖ ۔۔۔۔سورة النمل
’’ اور داؤدؑ کا وارث سلیمانؑ ہوا۔۔۔‘‘

لیکن حضرت سلیمان کے بعد یہودیوں میں اسی طرح فساد برپا ہوا جس طرح امتِ مسلمہ میں حضرت عثمان غنی اور حضرت علی رضی اللہ عنہم کے ادوار میں فساد شروع ہوا تھا اور بالکل ایک جیسے وجوہات کے بنا پر یہودیوں سے اور مسلمانوں سے خلافت رخصت ہوئی۔
نصرانیوں میں نظام خلافت کی کوئی تاریخ نہیں ملتی۔
حضرت سلیمان علیہ السلاۃ و السلام کے بعد جب ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ و اٰلیہ و سلم نے اپنی انتھک محنت سے اللہ کو مطلوب ایمان‘ اعتقاد اور کردار کے حامل افراد سے اس امتِ مسلمہ کو وجود میں لایا تو اللہ نے اپنے وعدے کے مطابق اس امت کو خلافت عطا کیا‘ (اللہ کے وعدے کا ذکر میرے اصل مضمون میں ہے)۔
پھر جب قتلِ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ سے امت میں فساد پیدا ہوا اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کے دور میں شرک اور فرقہ پرستی وجود میں آیا‘ تو اللہ کو مطلوب ایمان‘ اعتقاد اور کردار میں کمی ہونا شروع ہوئی اورامت سے خلافت رخصت ہوئی۔ یہی اللہ کی سنت ہے جو کبھی تبدیل نہیں ہوتی۔
وَلَن تَجِدَ لِسُنَّةِ اللَّـهِ تَبْدِيلًا ﴿٢٣﴾ سورة الفتح

رسولِ کریم ﷺ نے بھی اپنے بعد صرف تیس سال تک امت میں خلافت رہنے کی پیشن گوئی کی تھی:
"نبوت والی خلافت تیس سال رہے گی پھر جسے اللہ چاہے گا (اپنی) حکومت دے گا۔ سعید رحمة اللہ علیہ نے کہا: سفینہ رضی اللہ عنہ نے مجھے کہا: شمار کرو، ابوبکر رضی اللہ عنہ کے دو سال اور عمر رضی اللہ عنہ کے دس سال اور عثمان رضی اللہ عنہ کے بارہ سال اور علی رضی اللہ عنہ کے اتنے (یعنی چھ سال)"
http://magazine.mohaddis.com/shumara/249-nov-1995/2745-khilafat-rashda-tees-sal-hadees-tehqiq


نبی کریم ﷺ کے فرمان کے مطابق ٹھیک تیس سال تک خلافت رہی اور اب تک دوبارہ بحال نہیں ہوئی۔ بے شمار لوگوں نے کوششیں کی‘ بے شمار لوگوں نےجہاد کئے اور اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا لیکن آج تک خلافت نہ آنی تھی نہ آئی۔۔۔

وجہ کیا ہے‘ وجہ بس ایک ہی ہے کہ تیس سال کے بعد آج تک امت ’’ اللہ کو مطلوب ایمان‘ اعتقاد اور کردار ‘‘ کی حامل نہیں بنی۔
امت میں جو لوگ نظامِ خلافت کیلئے کوشاں ہیں‘ انہیں صرف اللہ کو مطلوب ایمان‘ اعتقاد اور کردار کی حامل امت کی تشکیلِ نو کی کوششیں کرنی چاہئے جس کے بغیر صرف نعروں سے‘ یا جہاد سے یا خروج سے نظامِ خلافت نہیں آئے گی۔
اوپر میں نے ذکر کیا ہے کہ نصرانیوں میں نظام خلافت کی کوئی تاریخ نہیں ملتی اور نہ ہی قرآن میں ایسا کچھ آیا ہے جبکہ ہر رسول کے دور میں نبوت والی خلافت قائم ہونی لازمی ہے اور ان شاء اللہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو بھی یہ صرف حاصل ہوگا۔
جب حضرت عیسیٰ علیہ السلام دوبارہ اس امت میں نزول فرمائیںگے‘ شرک و بدعات کا خاتمہ کریں گے‘ سارے فرقے ختم ہونگے‘ اللہ کو مطلوب ایمان‘ اعتقاد اور کردار کی حامل ایک امت بنائیں گے‘اور نبوت والی خلافت قائم کریں گے۔
ہم اپنے اندر اللہ کو مطلوب ایمان‘ اعتقاد اور کردار پیدا کریں تاکہ اگر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا نزول ہمارے وقت میں ہو تو ہم ان کا ساتھ دینے والے ہوں ورنہ ہم ان اوصاف کو اپنے آئندہ آنے والے نسلوں میں منتقل کرتے رہیں کہ جب بھی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا نزول ہو اور انہیں امت کی ایسے افراد مل جائیں جو دنیا سے یہودیوں کو ختم کرکے خلافت قائم کرنے میں ان کی مدد کریں۔ (واللہ تعالیٰ اعلم)
دور جدید میں اہل مغرب نے سیاسی میدان میں جمہوریت کی روایت قائم کر دی ہے۔ مسلم ممالک میں اس روایت کو بالعموم اختیار نہیں کیا گیا اور زیادہ تر مسلم ممالک میں بادشاہت یا فوجی آمریت کا نظام قائم ہے۔ حالیہ تبدیلیوں کے نتیجے میں دنیا میں سیاسی بیداری پیدا ہو رہی ہے اور مسلم ممالک آہستہ آہستہ جمہوری نظام کی طرف جا رہے ہیں۔ بہت سے مسلم ممالک میں لولی لنگڑی جمہوریت قائم ہو چکی ہے۔ بعض مسلم ممالک جیسے ملائشیا میں جمہوری نظام کامیابی سے چل رہا ہے۔

میڈیا کی بڑھتی ہوئی آزادی کے باعث آمرانہ قوتوں کی معاشرے پر گرفت مسلسل کمزور ہو رہی ہے۔ حکمرانوں کے احتساب کی روایت بھی آہستہ آہستہ طاقت پکڑ رہی ہے۔ اس سب کے باوجود اس معاملے میں مسلم ممالک ابھی مغربی ممالک سے سالوں پیچھے ہیں اور انہیں مغربی ممالک کے جمہوری نظام تک پہنچنے کے لئے کئی عشرے درکار ہیں۔

ہماری رائے میں دینی اور اخلاقی نقطہ نظر سے یہ ایک نہایت ہی مثبت تبدیلی ہے۔ اسلام نے معاشرے میں اجتماعیت کی جو بنیاد پیش کی ہے وہ صرف اور صرف شورائیت ہے یعنی معاشرے کا پورا نظام مشورے سے چلایا جائے۔ قرآن مجید میں اہل ایمان کی صفات کو بیان کرتے ہوئے ارشاد باری تعالی ہے:

وَالَّذِينَ اسْتَجَابُوا لِرَبِّهِمْ وَأَقَامُوا الصَّلاةَ وَأَمْرُهُمْ شُورَى بَيْنَهُمْ وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ يُنْفِقُونَ۔ (الشوری 42:38)

اور وہ لوگ جو اپنے رب کا حکم مانتے ہیں، نماز قائم کرتے ہیں، اپنے معاملات مشورے سے چلاتے ہیں اور ہم نے انہیں جو رزق دیا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں۔

سید ابوالاعلی مودودی اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں۔

"أَمْرُهُمْ شُورَى بَيْنَهُمْ کا قاعدہ خود اپنی نوعیت اور فطرت میں پانچ باتوں کا تقاضا کرتا ہے:

· اول یہ کہ اجتماعی معاملات جن لوگوں کے حقوق اور مفاد سے تعلق رکھتے ہوں انہیں اظہار رائے کی پوری آزادی حاصل ہو اور وہ اس بات سے پوری طرح باخبر رکھے جائیں کے ان کے معاملات فی الواقع کس طرح چلائے جا رہے ہیں، اور انہیں اس امر کا بھی پورا حق حاصل ہو جو کہ اگر وہ اپنے معاملات کی سربراہی میں کوئی غلطی یا خامی یا کوتاہی دیکھیں تو اس پر ٹوک سکیں، احتجاج کر سکیں، اور اگر اصلاح ہوتی نہ دیکھیں تو سربراہ کاروں کو بدل سکیں۔ لوگوں کا منہ بند کر کے اور ان کے ہاتھ پاؤں کس کر اور ان کو بے خبر رکھ کر ان کے اجتماعی معاملات چلانا صریح بددیانتی ہے جسے کوئی شخص بھی أَمْرُهُمْ شُورَى بَيْنَهُمْ کے اصول کی پیروی نہیں مان سکتا۔

· دوم یہ کہ اجتماعی معاملات کو چلانے کی ذمہ داری جس شخص پر بھی ڈالنی ہو اسے لوگوں کی رضامندی سے مقرر کیا جائے۔ یہ رضامندی، ان کی آزادانہ رضامندی ہو۔ جبر اور تخویف سے حاصل کی ہوئی، یا تحریص اور اطماع سے خریدی ہوئی، یا دھوکے اور فریب اور مکاریوں سے کھسوئی ہوئی رضامندی درحقیقت رضامندی نہیں ہے۔ ایک قوم کا صحیح سربراہ وہ نہیں ہوتا، جو ہر ممکن طریقہ سے کوشش کر کے اس کا سربراہ بنے، بلکہ وہ ہوتا ہے جس کو لوگ اپنی خوشی اور پسند سے اپنا سربراہ بنائیں۔

· سوم یہ کہ سربراہ کار کو مشورہ دینے کے لیے بھی وہ لوگ مقرر کیے جائیں جن کو قوم کا اعتماد حاصل ہو، اور ظاہر بات ہے کہ ایسے لوگ کبھی صحیح معنوں میں حقیقی اعتماد کے حامل قرار نہیں دیے جا سکتے جو دباؤ ڈال کر، یا مال سے خرید کر، یا جھوٹ اور مکر سے کام لے کر، یا لوگوں کو گمراہ کر کے نمائندگی کا مقام حاصل کریں۔

· چہارم یہ کہ مشورہ دینے والے اپنے علم اور ایمان و ضمیر کے مطابق رائے دیں، اور اس طرح کے اظہار رائے کی، انہیں پوری آزادی حاصل ہو۔ یہ بات جہاں نہ ہو، جہاں مشورہ دینے والے کسی لالچ یا خوف کی بنا پر، یا کسی جتھہ بندی میں کسے ہوئے ہونے کی وجہ سے خود اپنے علم اور ضمیر کے خلاف رائے دیں، وہاں درحقیقت خیانت اور غداری ہوگی نہ کہ أَمْرُهُمْ شُورَى بَيْنَهُمْ کی پیروی۔

· پنجم یہ کہ جو مشورہ اہل شوری کے اجماع (اتفاق رائے) سے دیا جائے، یا جسے ان کے جمہور (اکثریت) کی تائید حاصل ہو، اسے تسلیم کیا جائے۔ کیونکہ اگر ایک شخص یا ایک ٹولہ سب کی سننے کے بعد اپنی من مانی کرنے کا مختار ہو تو مشاورت بالکل بے معنی ہو جاتی ہے۔ اللہ تعالی یہ نہیں فرما رہا ہے کہ "ان کے معاملات میں ان سے مشورہ لیا جاتا ہے" بلکہ یہ فرما رہا ہے کہ "ان کے معاملات آپس کے مشورے سے چلتے ہیں"۔ اس ارشاد کی تعمیل محض مشورہ لے لینے سے نہیں ہو جاتی، بلکہ اس کے لیے ضروری ہے کہ مشاورت میں اجماع یا اکثریت کے ساتھ جو بات طے ہو اسی کے مطابق معاملات چلیں۔" (تفہیم القرآن ج 4 ص 510)

ایک صحیح جمہوری نظام میں یہ پانچوں شرائط پوری ہوتی ہیں جس کا تقاضا أَمْرُهُمْ شُورَى بَيْنَهُمْ کی یہ آیت کرتی ہے۔ اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ جمہوریت کی طرف یہ قدم نہایت ہی مثبت تبدیلی ہے۔

آزادی رائے

موجودہ دور آزادی رائے اور آزادی اظہار کا دور ہے۔ اہل مغرب نے اس قدر کو اپنے معاشروں میں اس قدر ترقی یافتہ بنا لیا ہے کہ اس کے نتیجے میں وہاں بالعموم کھل کر ہر معاملے میں اپنی رائے کا اظہار کیا جا سکتا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ ان کے ہاں بالخصوص مذہبی معاملات میں بعض لوگ اس آزادی کا غلط استعمال کر لیتے ہیں اور دوسروں کے جذبات کی دل آزاری کا باعث بنتے ہیں۔

قدیم مسلم معاشرے میں آزادی اظہار اپنے عروج پر تھی۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کھلے عام ہر معاملے میں اپنی رائے کا اظہار کرتے۔ یہاں تک کہ خلیفہ پر بھی کھلی تنقید کی جاتی۔ بنو امیہ کے دور میں ایک مخصوص دائرے کے علاوہ تقریباً یہی صورتحال رہی۔ بنو عباس کے دور سے مسلمانوں کے ہاں انسان کے اس حق پر حدود و قیود عائد ہونا شروع ہوئیں۔ موجودہ دور میں مسلم معاشروں کی بڑی تعداد اس حق سے محروم ہے۔ اکثر مقامات پر تو حکومت کی جانب سے پابندیاں عائد ہیں لیکن بعض ممالک جیسے پاکستان میں حکومت کی طرف سے تو کوئی خاص پابندیاں نہیں لیکن بہت سے ایسے پریشر گروپ موجود ہیں جو اہل علم کو آزادی اظہار کا حق دینے کو تیار نہیں اور اپنے مسلک یا نظریات کے خلاف اٹھنے والی ہر آواز کو خاموش کر دینے کے لئے کمربستہ رہتے ہیں۔

اگرچہ آزادی اظہار کے معاملے میں بھی مسلم ممالک مغربی ممالک سے بہت پیچھے ہیں لیکن ان میں سے اکثر کے ہاں بھی یہ حق دینے کا سلسلہ اور فکر کو آزاد کرنے کا عمل شروع ہو چکا ہے۔ جمہوریت کی طرح اس معاملے میں انہیں عالمی معیار تک پہنچنے کے لئے کئی عشرے درکار ہوں گے۔

بعض لوگ اظہار رائے کی اس آزادی کا غلط استعمال کرتے ہیں اور اس کے نتیجے میں دوسروں کی دل آزاری کا باعث بنتے ہیں۔ یہ طرز عمل درست نہیں تاہم اس سے آزادی اظہار کے اس حق کی نفی نہیں ہوتی۔ قرآن مجید میں واضح طور پر بتایا گیا ہے کہ "لا إِكْرَاهَ فِي الدِّينِ" یعنی "دین میں کوئی جبر نہیں"۔ ہر شخص کو یہ آزادی حاصل ہے کہ وہ جس نقطہ نظر کو حق سمجھے، اسے اختیار کر لے کیونکہ قرآن مجید نے حق کو بالکل واضح کر دیا ہے۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو آزادی رائے کی یہ قدر بالکل مثبت تبدیلی ہے البتہ اس کا غلط استعمال برا ہے۔
 
Top