• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

خلفائے راشدین اور احناف

گڈمسلم

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 10، 2011
پیغامات
1,407
ری ایکشن اسکور
4,912
پوائنٹ
292

بسم الله الرحمن الرحيم​


السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

کتاب:
خلفائے راشدین اور احناف

جمع وترتيب:
ابو خالد لائق احمد غزنوی

ٹائٹل:

نوٹ:
انتظامیہ سے مؤدبانہ گزارش ہے کہ جب تک مضمون مکمل نہ ہوجائے۔ تب تک تھریڈ میں کسی بھی یوزر کی طرف سے کی جانے والی پوسٹ کو بتائے بغیر ڈیلیٹ کردیا جائے۔ جزاکم اللہ خیرا
 

گڈمسلم

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 10، 2011
پیغامات
1,407
ری ایکشن اسکور
4,912
پوائنٹ
292
عرض گڈمسلم

ہمارے بہت ہی قابل اور معزز ساتھی نے جماعت اہل حدیث کو سیکڑوں آثار الصحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کامنکر قرار دے دیاہے۔ جب موصوف سے اس بات کا ثبوت مانگا گیا تو قابل عزیز ثبوت فراہم نہ کرسکے۔ ثبوت میں دو شرائط رکھی گئی تھیں۔
1۔ جماعت اہل حدیث جس بھی صحابی رضی اللہ عنہ کے اثر کی مخالفت کرتی ہو، اس اثر کے خلاف قرآن وحدیث میں کوئی دلیل نہ ملتی ہو۔
2۔ اس اثرِ صحابی رضی اللہ عنہ کے خلاف کسی اور صحابی رضی اللہ عنہ کا اثر نہ ہو۔
ان دونوں شرائط میں سے پہلی شرط کامقصود یہ تھا کہ کہیں ہمارے قابل کسی ایسےصحابی رضی اللہ عنہ کے اثر کی طرف اشارہ تو نہیں کررہے ۔؟ جو صحابی رضی اللہ عنہ کا ایسا ذاتی اجتہاد ہو جس کی دلیل قرآن وحدیث میں نہ ہو۔ یا اگر دلیل موجود ہو تو اس اثر کے خلاف ہو۔(ہماری اس بات سے کوئی بھی صاحب بصیرت یہ ہرگز تسلیم نہ کرے کہ ہم صحابی رضی اللہ عنہ پر قرآن وحدیث کے خلاف ہونے کی بات کررہے ہیں۔۔ہرگز نہیں۔۔ اور نہ کبھی ہم یہ بات سوچ سکتے ہیں کہ عمداً کسی صحابی رضی اللہ عنہ نے قرآن وحدیث کی مخالفت بھی کی ہوگی۔(نعوذباللہ)۔ لیکن صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین بھی انسان تھے۔ اور انسانوں سے غلطی کا ہوجانا کوئی بعید بات نہیں۔۔ اس لیے ایسے اعمال کا صدور انسانی طور کوئی ناممکن بات نہیں۔ اگر کسی کو اس پر شک ہوگا (کہ آیا کسی صحابی رضی اللہ عنہ سے کوئی ایسا عمل صادر ہوا ہے جو قرآن وحدیث کے خلاف ہو ) تو علماء سلف بادلائل اس کا ثبوت بھی فراہم کردیں گے۔ ۔ان شاءاللہ ) اگر ایسی صورت میں جماعت اہل حدیث کسی صحابی کے اثر کے خلاف قرآن وحدیث کے دلائل پر عمل کرتی ہے تو یہ ایسی صورت ہے جس کی وجہ سے جماعت اہل حدیث کو آثار الصحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کا منکر نہیں کہا جاسکتا۔

دوسری شرط کا مقصود یہ تھا کہ اگر ہمارے محترم کسی ایسے اثرِ صحابی رضی اللہ عنہ کی طرف اشارہ کررہے ہیں۔ جو صحابی رضی اللہ عنہ کا اپنا اجتہاد ہے۔اور اس مسئلہ کی دلیل قرآن وحدیث میں بھی نہیں۔ اور اسی اجتہاد کے خلاف کسی اور صحابی رضی اللہ عنہ کا اثر ہے۔ جو دلائل وبراہین/قرائن کی رو سے پہلے صحابی رضی اللہ عنہ سے کے اثر سے قوی تر ہے۔ اس صورت میں ایک صحابی رضی اللہ عنہ کی بات تسلیم کرنا اور دوسرے صحابی رضی اللہ عنہ کی بات تسلیم نہ کرنے سے بھی ہر گز یہ ثابت نہیں ہوتا کہ جماعت اہل حدیث آثار الصحابہ رضی اللہ عنہ کی منکر ہے۔ ۔

اس لیے مؤدبانہ گزارش ہے کہ اگر جماعت اہل حدیث کو آثار الصحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کامنکر ٹھہرانا بھی ہے تو خالی دعووں سےنہیں بلکہ مضبوط سہاروں (قوی دلائل) کی ضرورت ہے۔۔


ہم ( اہل حدیث ) صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے آثار کے اقراری ہیں یاانکاری ؟ ۔۔ ہمارا دعویٰ یہ ہے کہ ہم آثار الصحابہ کو مانتے اور ان پر عمل کرتے ہیں۔ ۔ اگر کسی صاحب بصیرت وبصارت کو ہمارے اس دعویٰ سے انکار ہے تو بادلائل رد کرنے کےلیے راستہ ہموار کرتے ہیں۔ ۔

قارئین!
فورم پر پہلے ایک تھریڈ موجود ہے۔ جس کانام



جس میں کئی آثار پیش کیے گئے اور ابھی پیش کیے جارہے ہیں۔ جن کی مخالفت ہمارے معززین کرتے ہیں۔ یہ تھریڈ بعنوان

’’ خلفائے راشدین اور احناف ‘‘


اس لیے قائم کیا جارہا ہے تاکہ معززین کو آئینہ دکھانے کے ساتھ ان سادہ لوح ساتھیوں کو آگاہ کیا جاسکے جن کے ذہنوں میں چالاکیوں کے ساتھ یہ بات ڈال دی گئی ہے کہ اہل حدیث ( یاروں کی طرف سے دیا گیانام کاتحفہ غیر مقلدین) تو صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے اقوال وافعال کی منکر اور گستاخ صحابہ جماعت ہے۔ ۔ نعوذ باللہ من شر الشیطان


اس تھریڈ میں تمام صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے ایسے آثار جن کی احناف مخالفت کرتے ہیں تو نہیں بٹ خلفائے راشدین رضوان اللہ علیہم اجمعین کے آثار میں سے کچھ آثار پیش کیے جائیں گے اس بات کا آئینہ دکھانے کےلیے کہ احناف باقی صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین تو کجا کیا خلفائے راشدین کے آثار کوبھی مانتے ہیں یانہیں ؟۔۔تاریخ اسلام کا اگر مطالعہ کیاجائے تو معلوم ہوتا ہے کہ
آپ ﷺ کے بعد افضل ترین خلفائے راشدین ( ابوبکر، عمر،علی، عثمان رضی اللہ عنہم) تھے، ہیں اور رہیں گے۔ اور ان میں سے سب سے برتر فضیلت حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو حاصل ہے، اس کے بعد حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو، پھرحضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اور پھر حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ۔۔ وہ لوگ جو ابوبکر، عمر ، عثمان، علی ﷢ کے نعرے لگاتے لگاتے تھکتے نہیں۔۔ ہم بتائیں گے کہ آیا یہ لوگ ان معزز ترین ہستیوں کی مانتے بھی ہیں ۔؟ جن کے بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرما کر گئےہیں۔ کہ
" علیکم بسنتی و سنة الخلفاء الراشدین المھدیین ‘‘ (ابوادؤد:۲/۲۷۹، ترمذی:۳۸۳، ابن ماجہ:۵، دارمی:۶/۲، مسند احمد:۴/۲۷)
’’میری سنت کو لازم پکڑو اور خلفاء راشدین کی سنت کو جو ہدایت یافتہ ہیں ‘‘
یا صر ف نعروں سے کام چلانے کےعادی ہیں۔
 

گڈمسلم

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 10، 2011
پیغامات
1,407
ری ایکشن اسکور
4,912
پوائنٹ
292
قارئین!
میرے ہاتھ میں ایک کتاب ’’ خلفائے راشدین اور احناف ‘‘ جمع وترتیب ابو خالد لائق احمد غزنوی ہے۔ جس کے عرض حال میں موصوف لکھتے ہیں۔

عرض حال​

قارئین کرام!
یہ رسالہ ان مقلدین کے جواب میں لکھا جارہا ہے۔ جو مختلف رسالوں، پمفلٹ اور پوسٹروں کو چھاپ کر عوام الناس میں یا تاثر دیتے ہیں کہ اہل حدیث خلفاء راشدین رضی اللہ عنہم کی مخالفت کرتے ہیں۔خصوصاً حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی۔ اور اپنے خطبوں،تقاریر اورواعظوں میں یہ ڈنڈورا پیٹتے ہیں۔ پھر مقلدین ان خلفاء راشدین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی فضائل سننا شروع کردیتے ہیں اور قرآن وحدیث کے متبعین پر بہتانیں اور افتراء تراشتے ہیں۔ اور کہتے ہیں کہ اگر ان اہل حدیث کے مسائل حق تھے اور ضعیف اور منسوخ نہ ہوتے تو خلفاء راشدین رضی اللہ تعالیٰ عنہم سے کیوں اختلاف کرتے ؟

پھر کہتے ہیں کہ کیا خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم ان احادیث کونہیں سمجھتے تھے ؟ کیا یہ احادیث خلفاء راشدین رضی اللہ عنہم کو معلوم نہ تھیں؟ عوام الناس بھی ان کے دھوکہ بازیوں سے دھوکہ کھاتےہوئے حق سے محروم صراط مستقیم سے دور رہنے لگتے ہیں۔


لیکن حقیقت میں حنفی مقلدین نہ خلفاء راشدین رضی اللہ عنہم سے ان کے سروکار ہے اور نہ ان کی تابعداری ان کی مطمح نظر ہے بلکہ وہ اپنے خود ساختہ، ضعیف و اخطاء مسائل کے اثبات کےلیے ایک مجتہد کے قول کو جا بے جاتقویت دینے کےلیے خلفاء راشدین اور عام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی پاک ناموں کو استعمال کرتے ہیں۔


الغرض: اگر ان کے بہتان تراشی، تلبیسات اورغلط پروپیگنڈہ نہ ہوتے تو ہمیں بھی اس تلخ حقیقت کو بےنقاب کرنے کی کوئی ضرورت نہ تھی۔

نہ تم صدمے ہمیں دیتے نہ ہم فریاد یوں کرتے
نہ کھلتے راز سربستہ نہ یہ رسوائیاں ہوتیں۔​

لیکن ہمارا بھی حق بنتا ہے کہ ہم ان کے اس غلط پروپیگنڈے کا الزامی جواب دے۔ اور ان کی حقیقت کو عوام الناس کے سامنے آشکارا کریں۔

کتبہ ۔ ابوخالد لائق احمد غزنوی​
 

گڈمسلم

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 10، 2011
پیغامات
1,407
ری ایکشن اسکور
4,912
پوائنٹ
292
بسم الله الرحمن الرحيم​

ان الحمد لله نحمده ونستعينه ونستغفره ونعوذ بالله من شرور انفسنا ومن سيئات اعمالنا من يهده الله فلا مضل له ومن يضلل فلا هادي له واشهد ان لا اله الا الله وحده لاشريك له واشهد ان محمداً عبده ورسوله.

اما بعد:
یہ رسالہ بعض مقلدین احناف کے بارے میں لکھا جارہا ہے کیونکہ وہ کہتے ہیں کہ اہل الحدیث والسنۃ خلفاء راشدین کی مخالفت کرتے ہیں، لیکن ہم کہتے ہیں کہ ہمارے فتوے ان کے خلاف ہرگز نہیں۔والحمدللہ
بلکہ ہم کہتے ہیں کہ فقہ حنفی کے اکثر مسائل خلفاء راشدین رضی اللہ تعالی عنہم کے خلاف ہیں اور احادیث نبویہ صلی اللہ علیہ وسلم سے تو خلاف ہی ہیں۔ فقہ حنفی کی مخالفت احادیث سے اس کے بارے میں تو بہت سی کتابیں لکھی گئی ہیں، لیکن فقہ حنفی کی مخالفت خلفاء راشدین سے اس کے بارے میں کوئی کتاب نظر نہیں آتی۔ اس لیے میں بعون اللہ وتوفیقہ بطور نمونہ چند مثالیں ذکر کرونگا تاکہ قارئین کرام خود اندازہ لگا لیں کہ خلفاء راشدین رضی اللہ عنہم کی مخالفت کون کرتا ہے؟
 

گڈمسلم

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 10، 2011
پیغامات
1,407
ری ایکشن اسکور
4,912
پوائنٹ
292
احناف کا خلفاء راشدین رضی اللہ عنہم سے اختلاف


نمبر1:
خلیفہ راشد عمر فاروق رضی اللہ عنہ ، ابن عمر رضی اللہ عنہ اور تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اس بات کے قائل ہیں کہ ایمان میں زیادتی وکمی آتی ہے۔ جیساکہ روایت میں موجود ہے۔ لیکن اس کے خلاف احناف کی معتبر کتب شرح فقہ اکبر ص105، عمدۃ القاری ، تنظیم الاشتات جلد1 ص28، عینی جلد1 ص107 میں ہے کہ ایمان میں نہ تو زیادت آتی ہے اور نہ کمی۔


نمبر2:
خلیفہ راشد عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ، ابن عمر رضی اللہ عنہ اور ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ مس المراۃ ( عورت چھونے) سے وضوء ٹوٹ جاتا ہے۔ جیسا کہ دار قطنی جلد1 ص144 اور مشکوۃ جلد1 ص41 میں ذکر ہے۔ لیکن اس کے خلاف حنفیہ کہتے ہیں کہ عورت کو چھونے سے وضوء نہیں ٹوٹتا۔ جیسا کہ فتاویٰ عالمگیری جلد1 ص13، شرح وقایہ جلد1 ص77 اور خلاصۃ الفتاویٰ جلد1 ص15 میں ہے۔


نمبر3:
خلیفہ راشد عمر فاروق رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جنبی کےلیے تیمم کرنا جائز نہیں ہے۔ (بخاری جلد1 ص47، 48)۔ اس کے خلاف کرتےہوئے احناف کہتے ہیں کہ جنبی کےلیے تیمم کرناجائز ہے۔( کنز جلد1 ص6، ہدایۃ جلد1 ص49، در مختار جلد1 ص109)
 

گڈمسلم

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 10، 2011
پیغامات
1,407
ری ایکشن اسکور
4,912
پوائنٹ
292
نمبر4:
خلیفہ راشد عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس طرح ابن عمر رضی اللہ عنہ، ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ مس الذکر ( اندام مخصوصہ کو ہاتھ لگانے) سے وضوء ٹوٹتا ہے۔ (طحاوی جلد1ص43، تنظیم الاشتات جلد1 ص132، عینی، السنن الکبریٰ للبیہقی جلد1 ص91، عبدالرزاق جلد1 ص114)
اس کے برعکس احناف کہتے ہیں کہ شرمگاہ چھونے سے وضوء نہیں ٹوٹتا۔ ( الہدایۃ، رد مختار جلد1 ص99، کنز جلد1 ص6)

نمبر5:
خلیفہ راشد عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ درندوں اور بھیڑیوں کا جھوٹا پلید اور ناپاک نہیں۔ (مشکوۃ جلد1 ص51، موطا جلد1 ص13، عبدالرزاق جلد1 ص77، فقہ عمر بن الخطاب ص598)
اس کے برعکس احناف کہتے ہیں کہ ان کا جھوٹا پلید اور ناپاک ہے۔( ہدایۃ جلد1 ص45، کنز جلد1 ص9، شرح وقایہ جلد1 ص92)

نمبر6:
خلیفہ راشد حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ اسی طرح ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ سمند کے تمام حیوانات جائز اور حلال ہیں۔( بخاری جلد2 ص875)
اس کے خلاف احناف کہتے ہیں کہ سمندر کے تمام حیوانات سوائے مچھلی کے حرام ہیں۔ (ہدایۃ جلد4 ص442، تنظیم الاشتات جلد1 ص180)
 

تلمیذ

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 12، 2011
پیغامات
765
ری ایکشن اسکور
1,506
پوائنٹ
191
میرا مقصود بحث طویل میں جانا نہیں بلکہ یہ آئینہ دکھانا مقصود ہے کہ جن فتاوی کی وجہ سے احناف کا خلفاء راشدین سے اختلاف ثابت کیا جارہا ہے وہ فتاوی تو آپ حضرات کے ہاں بھی ہیں

احناف کا خلفاء راشدین رضی اللہ عنہم سے اختلاف


نمبر2:
خلیفہ راشد عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ، ابن عمر رضی اللہ عنہ اور ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ مس المراۃ ( عورت چھونے) سے وضوء ٹوٹ جاتا ہے۔ جیسا کہ دار قطنی جلد1 ص144 اور مشکوۃ جلد1 ص41 میں ذکر ہے۔ لیکن اس کے خلاف حنفیہ کہتے ہیں کہ عورت کو چھونے سے وضوء نہیں ٹوٹتا۔ جیسا کہ فتاویٰ عالمگیری جلد1 ص13، شرح وقایہ جلد1 ص77 اور خلاصۃ الفتاویٰ جلد1 ص15 میں ہے۔
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کیا عورت کو چھونے سے وضو ٹوٹ جاتا ہے؟
الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
صحیح بات یہ ہے کہ عورت کو محض چھوٹے سے وضو نہیں ٹوٹتا الایہ کہ اسے چھونے کی وجہ سے کوئی چیز خارج ہو۔ اس کی دلیل وہ صحیح حدیث ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بعض بیویوں کو بوسہ دیا،پھر نماز کے لیے تشریف لے گئے اور وضو نہ کیا اور اس لیے بھی کہ اصل عدم نقض ہے الایہ کہ کسی صحیح اور صریح دلیل سے نقض ثابت ہو جائے۔ اور یہ کہ بندے نے اپنی طہارت کو دلیل شرعی کے مطابق مکمل کیا تھا لہذا جو چیز دلیل شرعی کے تقاضے کے مطابق ثابت ہو، وہ ختم بھی دلیل شرعی ہی کے ساتھ ہو سکتی ہے۔ اگر کہا جائے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں فرمایا ہے:
﴿أَوۡ لَٰمَسۡتُمُ ٱلنِّسَآءَ﴾--المائدة:6

’’یا تم نے عورتوں کو چھوا ہو۔‘‘
تو اس کا جواب یہ ہے کہ اس آیت مبارکہ میں چھونے سے مراد ہم بستری ہے، جیسا کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے اور پھر اس کی ایک اور دلیل بھی ہے کہ اس آیت میں طہارت کو اصلی اور بدلی دو حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے، اور اسی طرح ان دونوں میں سے ہر ایک کو طہارت صغریٰ اور کبریٰ دو حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے اور طہارت صغریٰ و کبریٰ کے اسباب کو بھی دو حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿يَٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُوٓاْ إِذَا قُمۡتُمۡ إِلَى ٱلصَّلَوٰةِ فَٱغۡسِلُواْ وُجُوهَكُمۡ وَأَيۡدِيَكُمۡ إِلَى ٱلۡمَرَافِقِ وَٱمۡسَحُواْ بِرُءُوسِكُمۡ وَأَرۡجُلَكُمۡ إِلَى ٱلۡكَعۡبَيۡنِۚ﴾--المائدة:6

’’مومنو! جب تم نماز پڑھنے کا قصد کرو تو منہ اور کہنیوں تک اپنے ہاتھ دھو لیا کرو اور سر کا مسح کر لیا کرو اور ٹخنوں تک پاؤں دھو لیا کرو۔‘‘
یہ پانی کے ساتھ اصلی صغریٰ طہارت ہے، پھر فرمایا: ﴿وَإِن كُنتُمۡ جُنُبٗا فَٱطَّهَّرُواْۚ﴾ ’’اور اگر تمہیں نہانے کی حاجت ہو تو (نہا کر) پاک ہو جایا کرو۔‘‘یہ پانی کے ساتھ اصلی کبریٰ طہارت ہے۔ پھر فرمایا: ﴿وَإِن كُنتُم مَّرۡضَىٰٓ أَوۡ عَلَىٰ سَفَرٍ أَوۡ جَآءَ أَحَدٞ مِّنكُم مِّنَ ٱلۡغَآئِطِ أَوۡ لَٰمَسۡتُمُ ٱلنِّسَآءَ فَلَمۡ تَجِدُواْ مَآءٗ فَتَيَمَّمُواْ﴾ ’’اور بیماری ہو یا سفر میں ہو یا کوئی تم میں سے بیت الخلاء سے ہو کر آیا ہو یا عورتوں سے ہم بستر ہو اور تمہیں پانی نہ مل سکے تو تیمم کر لو۔‘‘ چنانچہ یہاں تیمم بدل ہے اور ﴿أَوۡ جَآءَ أَحَدٞ مِّنكُم مِّنَ ٱلۡغَآئِطِ﴾ ’’یا کوئی تم میں سے بیت الخلاء سے ہو کر آیا ہو۔‘‘ یہ سبب صغریٰ کا بیان ہے اور ﴿أَوۡ لَٰمَسۡتُمُ ٱلنِّسَآءَ﴾ ’’یا تم عورتوں سے ہم بستر ہوئے ہو۔‘‘ یہ سبب کبریٰ کا بیان ہے اور اگر اسے ہاتھ سے چھونے پر محمول کیا جائے تو اس کے معنی یہ ہوں گے کہ اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے طہارت صغریٰ کے دو سبب ذکر کیے ہیں اور طہارت کبریٰ کے سبب سے سکوت فرمایا ہے، حالانکہ اس نے یہ بھی فرمایا ہے کہ ﴿وَإِن كُنتُمۡ جُنُبٗا فَٱطَّهَّرُواْۚ﴾ ’’اور اگر تمہیں نہانے کی حاجت ہو تو (نہا کر) پاک ہو جایا کرو۔‘‘ تو ایسا کہنا قرآنی بلاغت کے خلاف ہے، لہٰذا اس آیت میں عورتوں کو چھونے سے مراد ہم بستر ہونا ہے، تاکہ آیت طہارت کے موجب دواسباب، سبب اکبر اور سبب اصغر پر مشتمل ہو جائے جن میں سے طہارت صغریٰ کا تعلق جسم کے چار اعضا سے ہے جب کہ طہارت کبریٰ کا تعلق سارے بدن سے ہے اور اس کے بدل یعنی تیمم کے ساتھ طہارت کا تعلق صرف دو اعضا سے ہے کیونکہ اس میں طہارت صغریٰ و کبریٰ مساوی ہیں۔
اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ راجح قول یہ ہے کہ عورت کو محض چھونے سے خواہ وہ شہوت کے ساتھ ہو یا بغیر شہوت کے وضو نہیں ٹوٹتا الّایہ کہ اس (انسان) سے کچھ خارج ہو۔ اگر منی خارج ہو تو غسل واجب ہے، جب کہ مذی کے خارج ہونے کی صورت میں آلہ تناسل اور خصیتین کو دھو کر وضو کرنا واجب ہے۔
وباللہ التوفیق
فتاویٰ ارکان اسلام

نماز کے مسائل
محدث فتویٰ

محدث فتوی
نمبر3:
خلیفہ راشد عمر فاروق رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جنبی کےلیے تیمم کرنا جائز نہیں ہے۔ (بخاری جلد1 ص47، 48)۔ اس کے خلاف کرتےہوئے احناف کہتے ہیں کہ جنبی کےلیے تیمم کرناجائز ہے۔( کنز جلد1 ص6، ہدایۃ جلد1 ص49، در مختار جلد1 ص109)
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
جو شخص ٹھنڈے موسم میں جنبی ہو، کیا وہ تیمم کر سکتا ہے؟
الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
جب انسان جنبی ہو تو اس کے لیے غسل کرنا واجب ہے کیونکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿وَإِن كُنتُمۡ جُنُبٗا فَٱطَّهَّرُواْۚ﴾--المائدة: 6

’’اگر تمہیں نہانے کی حاجت ہو تو (نہا کر) پاک ہو جایا کرو۔‘‘
اگر رات سخت سرد ہو اور جنبی ٹھنڈے پانی سے غسل نہ کر سکتا ہو تو اس کوچاہئے کہ اگر ممکن ہو تو پانی گرم کر لے اور اگر پانی گرم کرنے کے لیے کسی چیز کے موجود نہ ہونے کی وجہ سے پانی گرم کرنا ممکن نہ ہو تو اس حالت میں تیمم کر کے نماز پڑھ سکتا ہے:
﴿وَإِن كُنتُمۡ جُنُبٗا فَٱطَّهَّرُواْۚ وَإِن كُنتُم مَّرۡضَىٰٓ أَوۡ عَلَىٰ سَفَرٍ أَوۡ جَآءَ أَحَدٞ مِّنكُم مِّنَ ٱلۡغَآئِطِ أَوۡ لَٰمَسۡتُمُ ٱلنِّسَآءَ فَلَمۡ تَجِدُواْ مَآءٗ فَتَيَمَّمُواْ صَعِيدٗا طَيِّبٗا فَٱمۡسَحُواْ بِوُجُوهِكُمۡ وَأَيۡدِيكُم مِّنۡهُۚ مَا يُرِيدُ ٱللَّهُ لِيَجۡعَلَ عَلَيۡكُم مِّنۡ حَرَجٖ وَلَٰكِن يُرِيدُ لِيُطَهِّرَكُمۡ وَلِيُتِمَّ نِعۡمَتَهُۥ عَلَيۡكُمۡ لَعَلَّكُمۡ تَشۡكُرُونَ﴾--المائدة:6

’’اور بیماری ہو یا سفر میں ہو یا کوئی تم میں سے بیت الخلاء سے ہو کر آیا ہو یاعورتوں سے ہم بستر ہو اور تمہیں پانی نہ مل سکے تو پاک مٹی لو اور اس سے منہ اور ہاتھ کا مسح یعنی تیمم کر لو۔ اللہ تم پر کسی طرح کی تنگی نہیں کرنا چاہتا بلکہ یہ چاہتا ہے کہ تمہیں پاک کرے اور اپنی نعمتیں تم پر پوری کرے تاکہ تم شکر کرو۔‘‘
جب جنبی شخص جنابت سے تیمم کر لے تو اس سے وہ پاک ہو جائے گا اور اس وقت تک پاک رہے گا جب تک اسے پانی نہیں ملتا جب اسے پانی مل جائے تو پھر اس کے لیے غسل کرنا واجب ہو جائے گا کیونکہ صحیح بخاری میں حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے مروی ایک طویل حدیث میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جب ایک شخص کو الگ تھلگ دیکھا جس نے لوگوں کے ساتھ مل کر نماز ادا نہیں کی تھی تو آپ نے اس سے پوچھا کہ تم نے نماز ادا نہیں کی؟ اس نے عرض کیا کہ میں حالت جنابت میں ہوں اور یہاں پانی موجود نہیں ہے، تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«عَلَيْکَ بِالصَّعِيْدِ فَاِنَّهُ يَکْفِيْکَ…» صحيح البخاری، التيمم باب الصعيد الطيب وضوء المسلم يکفيه من الماء، ح: ۳۴۴۔

’’مٹی کو استعمال کر لو تمہارے لیے کافی ہے۔‘‘
پھر اس کے بعد پانی آگیا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے پانی دیا اور فرمایا:
«اِذْهَبْ فَأَفْرِغْهُ عَلَيْکَ» صحيح البخاری، التيمم، باب الصعيد الطيب وضوء المسلم يکفيه من الماء، ح:۳۴۴۔

’’جاؤ اسے اپنے اوپر ڈال لو۔‘‘
اس سے معلوم ہوا کہ تیمم کرنے والے کو جب پانی مل جائے تو اس کے لیے پانی کے ذریعہ طہارت حاصل کرنا واجب ہے، خواہ اس نے جنابت کی وجہ سے تیمم کیا ہو یا کسی چھوٹی ناپاکی کی وجہ سے۔ جنابت سے تیمم کرنے والا اس وقت تک پاک ہے جب تک وہ دوبارہ جنبی نہیں ہوتا یا اسے پانی نہیں ملتا، لہٰذا اسے ہر وقت تیمم جنابت کا اعادہ کرنے کی ضرورت نہیں ۔ البتہ تیمم جنابت کے بعد اسے چھوٹی ناپاکی کے لیے تیمم کرنا ہوگا اور اگر دوبارہ جنبی ہو جائے تو پھر دوبارہ اسے جنابت کے لیے تیمم کرنا ہوگا۔
وباللہ التوفیق
فتاویٰ ارکان اسلام

نماز کے مسائل
محدث فتویٰ
محدث فتوی

گڈمسلم صاحب
اب کیا کہتے ہیں کہ کیا اہل حدیث بھی خلفاء راشدین سے اختلاف کیا کرتے ہیں ؟؟؟
 
Top