• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

خواتین کا اعتماد

نسرین فاطمہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 21، 2012
پیغامات
1,281
ری ایکشن اسکور
3,232
پوائنٹ
396
میں حضرت فاطمہ رضی اللہ عنھا کے بارے میں پڑھتے ہوئے سوچ رہی تھی کہ رسول ﷺ کی زمانے کی ہر خاتون اپنی مثال آپ تھیں۔ اپنی ایک شناخت رکھتیں تھیں۔ اپنے اپنے دائرہ میں دین اسلام کے لیے اپنی آخرت کے لیے حصہ ڈالتی رہتی ہیں۔ ہر کسی کی بس یہی فکر میں اپنے حالات میں کیسے جنت تک پہنچ سکتی ہوں۔ کیسے رسول ﷺ کی باتوں پر سب سے پہلے عمل کرسکتی ہوں۔ کیسے نیکیوں میں دوڑ لگا سکتی ہوں۔ پھر یہ نہیں سوچا میں کن حالات میں ہوں، کس مشکل میں ہوں، میرے تو اتنے بچے ہیں۔ میں تو حمل سے ہوں۔ میں تو بیمار ہوں۔ سوچا تو صرف اتنا کہ اللہ کو راضی کرنے میں رسول کی اطاعت میں دوڑ لگانی ہے۔

حضرت فاطمہ کی شخصیت پر اگر ہم غور کریں کیسی مضبوط حیا دار رسول ﷺ سے مشابہ شخصیت کی حامل تھیں۔ ان کو بات کا اظہار کرنا آتا تھا۔ فصیح و بلیغ خاتون تھیں۔ کسی قسم کی احساس کمتری کا شکار نہیں ہیں کہ ہائے میں بیچاری گھر کے ہی کام کرتی رہوں میں اللہ کے رسول ﷺ کی بیٹی میں کچھ باہر جاکے دین کا کام نہ کروں۔ بلکہ اپنے حالات میں ہی ایسے اعمال کرڈالے کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے رسول ﷺ کی ذریعے خوش خبری دلوائی کہ فاطمہ تم جنت کی عورتوں کی سردار ہو۔

ہم ذرا پنا حال دیکھ لیں ذرا آرام دہ حال سے نکل کر تھوڑی محنت کرنے کو لگ جائے تو احساس کمتری میں مبتلا ہو کر، ہاتھ پاؤں پھلا کے سارے کام چھوڑ چھاڑ کے بیٹھ جاتے ہیں۔شکوہ کرنے لگ جاتے ہیں کہ والدین نے کہاں ڈال دیا ہے یا اللہ نے میرے ساتھ ہی کیوں کیا۔

اگر ہم ان کا بچپن دیکھیں تب ہی سے اپنی عمر کے مطابق اپنی صلاحیت کے مطابق جو ہوتا تھا کرتی جاتیں تھی خواہ وہ رسول ﷺ کے اوپر سے اوجھڑی ہٹانا ہو یا دین میں تائید کرنا ہو۔
ہم اپنے بچوں میں کتنا کانفیڈینس دیتے ہیں کہ وہ اپنی صلاحیتوں کے مطابق کاموں کے لیے؟ ہمارے تو جملے ہی یہی ہوتے ہیں کہ تم نہیں کرسکوگی جاکر کھیلو۔ تمہارے بس کی بات نہیں۔ یا نہیں سے کوئی اور جملہ۔

پھر جہاں رسول ﷺ اللہ کے رسول ہیں وہاں والد اور بیٹی کا اتنا پیارا رشتہ محبت سے بھرا خوشیوں سے بھرا ملتا ہے۔ جس میں ایک اپنی ہی خوبصورتی پائی جاتی ہے۔ رسول ﷺ کا حضرت فاطمہ سے خصوصی محبت کرنا، ان کی عزت کرنا۔ اور یہ محبت مسلسل ہی دونوں کی زندگیوں میں نظر آتی ہے۔ جہاں محبت وہیں رعب بھی نظر آتا ہے۔ اس محبت میں تربیت کا عنصر بھی کہیں نہیں گم ہوتا۔ ہر چیز اپنی جگہ پر ایک بیلینس کے ساتھ موجود ہے۔
رسول ﷺ کا ان کو کھڑے ہو کر بوسہ دینا، ان کا رسول ﷺ کے لیے کھڑا ہونا، بوسہ دینا، رسول اللہ ﷺ کا ان کے گھر رات ٹھرنا، رات کو اٹھ کو حضرت حسن کو پانی پلانا، ان کو تہجد کی نماز کے لیے اٹھانا۔باقی ازواج کا حضرت فاطمہ کو اپنا نمائندہ بنا کر رسول ﷺ کے پاس بھیجنا، رسول ﷺ سے غلام نہ ملنے پر شکوہ نہ کرنا، رسول ﷺ کی ناراضگی کی پروا کرنا، چوری کی حد نافظ کرتے وقت ڈیفینسو نہ ہوجانا کہ یہ کیا بات ہوئی میں ہی ملی تھی آپ کو اس مثال کے لیے۔ آپ کو لگتا ہے کہ میں کروں گی ۔ رسول ﷺ کے آخری گھڑیوں میں ان کو بتانا وہ سب سے پہلے رسول ﷺ سے جاکر ملیں گی۔ ایک الگ ہی بانڈنگ نظر آتی ہے۔
اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق دیں کہ ہم ان کی زندگی سے سیکھ کر اپنی زندگیوں کو اللہ کی رضا میں گزاریں.

آمنہ عرفان
 
Top