• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

خواجہ سرا کا اپنی ماں کے نام خط اور اس کی حقیقت

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
پہلے تو یہ خط من و عن ملاحظہ کیجیے :
مرنے کے بعد خواجہ سرا کا اپنی ماں کو خط

تحریر :لینہ حاشر
ماں جیمیری عمر نو دس برس کی تھی جب ابا نے مجھے زمین پر گھسیٹتے ہوئے گهر سے بے گهرکر دیا تھا۔ میں چیخ چیخ کر تمہیں پکارتا رہا مگر تم بےحس وحرکت سہمی ہوئی مجھے تکتی رہیں۔ واحد روانی تمہارے آنسوؤں کی تھی جو ابا کے غیض و غضب کے آگے بھی تهمنے کو تیار نہ تھے۔ تمہارا ہر آنسو اس بات کا ثبوت تها کہ تم ابا کے اس فعل سے بہت نالاں تھی مگر ابا کی ہر بات پر سر تسلیم خم کرنے پر مجبور بهی۔
محلے والوں کے طعنے، رشتے داروں کے طنز اور لوگوں کی چبهتی ہوئی نگاہوں سے جب ابا بے قابو ہو جاتے تو پهر اپنی کالے چمڑے کی چپل سے میری چمڑی ادھیڑتے۔ اپنے جسم پر چپل سے بنائے گئے نقش لیے میں اس کال کوٹھڑی کی جانب بھاگتا جو پورے گهر میں میری واحد پناہ گاہ بن گئی تھی۔ پٹائی کا دن جب رات میں ڈھلتا تو تم ابا سے چھپ کر دبے پاؤں آتیں۔ مجھے سینے سے لگاتی، اپنے دوپٹے سے میرے زخموں کی ٹکور کرتی۔ میرا سر اپنی گود میں لیے گھنٹوں میرے پاس بیٹھی رہتی۔ مجھے چپ کراتے کراتے تمہاری اپنی سسکیاں بندھ جاتیں۔ آہوں اور سسکیوں کی گونج کے علاوہ اس کال کوٹھڑی میں کچھ سنائی نہ دیتا۔ ہم دونوں آنسوؤں کی زبان میں بات کرتے۔ میرے آنسوؤں میں ان گنت سوال ہوتے۔ کہ آخر کیوں ابا کی نفرت کی خاص عنایت مجھ پر ہی ہے؟ آخر کیوں گھر میں مہمانوں کے آتے ہی اسٹور کے تنگ وتاریک کمرے میں گهر کے ہر فالتو سامان کے ساتھ مجھے بند کردیا جاتا ہے اور جب تک اللہ کی رحمت ہمارے گھر سے چلی نہیں جاتی مجھے رہائی کا پروانہ کیوں نہیں دیا جاتا۔ یہ رحمت ہر بار میرے لیے زحمت کیوں بن جاتی ہے؟ مگر اماں میرے ہر سوال کے جواب میں تم خاموشی سے میرے اوپر محبت بهری نگاه ڈالتی اور کچھ نہ بولتیں۔ بس کبھی تم میرے ماتهے کا بوسہ لیتی اور کبھی میرے ہاتھوں کو چوم کر اس بات کی گواہی دیتی کہ میں تو اپنے راجہ بیٹے سے بہت پیار کرتی ہوں۔ ایک سوال کرتے کرتے میں تهک جاتا اور نیند کی آغوش میں چلا جاتا کہ آخر میرے سے ایسی کیا خطا ہوئی جو میں اپنے دوسرے بہن بھائیوں کی طرح ابا کے پیار کا حقدار نہیں۔
ہاں تمہاری گود میں سو جانے سے پہلے میں یہ دعا بھی کرتا کہ یہ رات کبھی ختم نہ ہو مگر صبح ہوتی اور تم پھر اس عورت کا لباده اوڑھ لیتی جو ابا اور معاشرے کے خوف سے مجھے پیار کرتے ڈرتی تھی۔
جس دن ابا نے مجهے گهر سے نکالا اس دن میرا قصور بس اتنا تھا کہ میں نے تمہاری سنگھار میز پر رکھی ہوئی لالی سے اپنے ہونٹ رنگ لیے تھے، تمہارا سرخ دوپٹہ سر پر رکھے، تمہارے ہاتھوں کے کنگن اپنی کلائی میں ڈالے تمہاری ٹک ٹک کرنے والی جوتی پہن کرخوش ہو رہا تھا، بس یہ دیکھنے کی دیر تھی کہ ابا نے مجھ پر پهر جوتوں کی برسات شروع کر دی۔ میں معافی کا طلب گار رہا مگر میری شنوائی نہ ہوئی اور پهرگالی گلوچ کرتے ہوئے زمین پر گھسیٹتے ہوئے زنخا زنخا کہتے ہوئے مجھے ہمیشہ کے لیے سب گهر والوں سے دور کر دیا۔
میرے لیے آبا کے آخری الفاظ یہ تھے کہ آج سے تو ہمارے لیے مر گیا۔ یہ جملہ سنتے ہی میری ہاتھوں کی گرفت جس نے ابا کے پیروں کو مضبوطی سے پکڑا ہوا تھا کمزور پڑ گی۔ میری گڑگڑاتی ہوئی زبان خاموش ہوگی، میرے آنسو تهم گئے کیونکہ میں جانتا تھا کہ ابا اپنی کہی ہوئی بات سے کبھی نہیں پھرتے۔ اور تم ماں، ابا کے کسی بھی فیصلے کے خلاف جانے کی ہمت نہیں رکھتی
اس کے بعد ابا مجھے ہمیشہ کے لیے یہاں چهوڑ گے جہاں ایک گرو رہتا تھا۔ امجد کی جگہ میرا نام علیشاہ رکھ دیا گیا۔ مجھے ناچ گانےکی تربیت دی جاتی۔ مجھ پر نظر رکھی جاتی لیکن میں جب کبھی موقع ملتا تمہاری محبت میں گرفتار اپنے گهر کی طرف دیوانہ وار بھاگتا مگر ابا کا آخری جملہ مجھے دہلیز پار کرنے سے روک دیتا۔ دروازے کی اوٹ سے جب تمہیں گرما گرم روٹی اتارتے دیکھتا تو میری بھوک بھی چمک جاتی اور پهر تم اپنے ہاتھوں سے نوالے بنا بنا کر میرے بہن بھائیوں کے منہ میں ڈالتی تو ہر نوالے پر میرا بھی منہ کھلتا مگر وہ نوالے کی حسرت میں کھلا ہی رہتا۔ اس حسرت کو پورا کرنے کے لیے میں اکثر گهر کے باہر رکھی ہوئی سوکهی روٹی کو اپنے آنسوؤں میں بهگو بهگو کر کھاتا۔
بعد کی عیدیں تو تنہا ہی تھیں پر جب گھر بدر نہ ہوا تھا تب بھی عید پر جب ابا ہر ایک کے ہاتھ پر عیدی رکهتے تو میرا ہاتھ پھیلا ہی ره جاتا۔ جب ہر بچے کی جھولی پیار اور محبت سے بهر دی جاتی تو میری جھولی خالی ہی ره جاتی۔ جب ابا اپنا دست شفقت سب کے سروں پر پھیرتے تو میرا سر جهکا ہی رہتا۔
صحن میں کھڑی ابا کی سائیکل جس کو اکثر میں محلے سے گزرتے دیکھتا تو ہر بار دل میں یہ خواہش ہوتی کہ کاش ابا سائیکل روک کر مجھے ایک بار، صرف ایک بار سینے سے لگا لیں مگر میری یہ خواہش، خواہش ہی ره گی۔ گھر چھوڑنے کے عذاب کے بعد میرے اوپر ایک اور عذاب نازل ہوا جس کے کرب نے میری روح تک کو زخمی کر دیا۔ چند ‘شرفا’ گرو کے پاس آئے اور مجھے اپنے ساتھ لے گئے۔ مجھے زبردستی بے لباس کیا اور اپنی ہوس کی بھینٹ چڑھا ڈالا۔ ماں، میں اتنا چھوٹا اور کمزور تھا کہ میں تکلیف کی وجہ سے اپنے ہوش ہی کهو بیٹھا تھا۔ پهر اس ہی بے ہوشی کے عالم میں مجھے گرو کے حوالے کر دیا گیا۔ پهر یہ سلسلہ ایسا شروع ہوا کہ میں روز ہی اپنی ہی نظروں میں گرتا رہا مرتا رہا۔ کرتا بھی کیا کہ اب میرے پاس کوئی اور دوسری پناہ گاه نہ تهی۔
پهر اسی کام کو میرے گرو نے میرے پیشے کا نام دے دیا۔ میں گرو کے پاس سے کئی بار بھاگا، در در نوکری کی تلاش میں پهرتا رہا مگر مایوسی کے سوا کچھ حاصل نہ ہو سکا۔ ہر بار گرو کے در پر ہی پناہ ملی۔
ہمارا وجود معاشرے میں گالی سمجھا جاتا ہے۔ ہمیں تو کسی کو بددعا بھی دینی ہو تو ہم کہتے ہیں کہ جا تیرے گهر بھی مجھ جیسا پیدا ہو۔ حالانکہ ہماری رگوں میں بهی سرخ رنگ کا خون دوڑتا ہے۔ ہمیں بنانے والا بھی تو وہی ہے جس نے ان کو پیدا کیا۔ ان کے سینے میں بھی دل ہماری طرح ہی دھڑکتا ہے۔ تو پهر ہمیں کس بات کی سزا دی جاتی ہے ؟ہمارا جرم کیا ہوتا ہے؟ شاید ہمارا جرم یہ ہوتا ہے کہ ہمارا خون سرخ ہے اور معاشرے کا سفید۔
ماں میں ساری زندگی جینے کی چاه میں مرتا چلا گیا۔ سفید خون رکھنے والے لوگ کبھی مذہب کی آڑ لے کر تو کبھی جسم فروشی سے انکار پر ہمارے جسموں میں گولیاں اتار دیتے ہیں۔ میرے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا، مجھے بھی گولیاں ماری گئیں۔ جب مجھے ہوش آیا تو ڈاکٹر مجھے امید کی کرن دکهانے کی کوشش میں آہستہ آہستہ میرے کان میں سرگوشی کر رہا تھا کہ اگر تم ہمت کرو تو زندگی کی طرف لوٹ سکتے ہو۔ میں نے بہت مشکل سے اپنے ہونٹوں کو جنبش دی اور ڈاکٹر سے کہا کہ اگر میں ہمت کر کے لوٹ بھی آیا تو کیا مجھے جینے دیا جائے گا؟ جب ملک الموت میرے پاس آیا تو میں نے اس سے جینے کے لیے چند لمحوں کی درخواست کی۔ نجانے کیوں اس بار مجھے امید تھی کہ تم دوڑی چلی آؤ گی، میرا بچہ کہتے ہوئے مجھے اپنے سینے سے لگاو گی۔ میرے سر کو اپنی گود میں رکھ کر میرے زخموں کی ٹکور کر کے مجھے اس دنیا سےرخصت کرو گی۔ لیکن موت کے فرشتے نے چند لمحوں کی مہلت بھی نہ دی۔
سنا ہے قیامت کے روز بچوں کو ماں کےحوالے سے پکارا جائے گا۔ بس ماں تم سے اتنی سی التجا ہے کہ اس دن تم مجھ سے منہ نہ پهیرنا۔
تمہاری محبت کا طلبگار
تمہارا بیٹا
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
اب اس خط کی حقیقت کے نام سے ایک تحریر ملاحظہ کیجیے :
خواجہ سرا کا خط: افسانے کی حقیقت

ابو الاعلی صدیقی ( سعودی عرب )
فیسبک پر کچھ لکھنا میرے لئے بہت مشکل ہوتا ہے، دل ہی نہیں کرتا۔ ہر فرد پاپولر بیانئے کو اپنانا ہی بہتر سمجھتا ہے یا پھراس کا جواب دینے سے گریز کرتا ہے۔ غامدی طبقہ فکر پاپولر بیانئے کے مطابق اپنے خیالات کو پیش کرنے میں مہارت رکھتا ہے اور ایک ایسی ہی نئی کوشش ُخواجہ سرا کا اپنی ماں کے نام خط کے نام سے ایک افسانہ ہے۔ معاملہ یہ ہےکہ اصل زندگی میں حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے۔
پہلی بات تو یہ جان لیں کہ دنیا کے کسی بھی ملک میں تیسری جنس کی پیدائش کا تناسب زیادہ سے زیادہ ایک لاکھ میں ایک ہوتا ہے۔ امریکہ، جہاں کا شماریاتی ادارہ معلومات کے حصول میں سب سے بہتر ہے، اس کے مطابق امریکہ میں یہ اوسط ہر ایک لاکھ چالیس ہزار پیدائش میں ایک ہے۔ حساب کی آسانی کے لئے ہم اگر ہر ایک لاکھ پیدائش پر بھی ایک تیسری جنس کی پیدائش کو مان لیں تو پاکستان میں اس وقت ہر عمر کے تیسری جنس کی زیادہ سے زیادہ تعداد ۲۰۰۰ ہو سکتی ہے۔ اور یہ تعداد بھی اس وقت بہت کم ہونی چاہئےجب تمام متمول افراد اپنی ایسی اولادوں کا پیدائش کے کچھ سالوں میں ہی تبدیلئ جنس کا آپریشن کرالیتے ہیں۔
اب آتے ہیں اس پاکستان میں نام نہاد خواجہ سراؤوں اور ان کے گھناؤنے کردار کی طرف۔
۲۰۰۶ میں میں نے ایک مارکیٹ ریسرچ پروجیکٹ ایک مشہور فاؤنڈیشن کے لئے کیا تھا۔ پاکستان میں خواجہ سراؤں کی زندگی کی مشکلات اور ان کا ممکنہ ازالہ۔ اس سروے کے دو حصے تھے، پہلے میں فوکس گروپس اور دوسرے میں ۶۰۰ خواجہ سراؤں سے انٹرویو۔ اس ریسرچ سے انتہائی بھیانک حقائق سامنے آئے تھے۔ سب سے پہلے تو یہ معلوم ہوا کہ تقریباً نصف تعداد کو لڑکپن یا بچپن میں اغوا کر کے زبردستی آپریشن کر کے خواجہ سرا بنایا گیا تھا۔ باقی تعداد یا تو گھروں سے بھاگے ہوئے لڑکے ہوتے ہیں جو آسان کمائی کی خاطر خواجہ سرا بن جاتے ہیں۔ آپ خود بھی یہ بات بڑی آسانی سے مشاہدہ کر سکتے ہیں کہ کراچی جیسے بڑے شہر میں آپ کو کوئی مہاجر زنخا نہیں ملے گا اور لاہور میں گرچہ پنجابی تو ملیں گے مگر کوئی بھی مقامی نہیں ہوگا۔ ہمیں اس پورے سروے میں ایک بھی خوجہ سرا ایسا نہیں ملا تھا جو پیدائشی خواجہ سرا ہو۔
اب دوسری بات یہ کہ اس بچوں کے اغوا کار گروہ کو جو بے بس سمجھتا ہے وہ خیالوں کی اس دنیا میں تو رہ سکتا ہے جہاں سے غامدی صاحب قرآنی آیات منسوخ کرتے رہتے ہیں مگر حقیقی دنیا سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔ اس سروے نے یہ بھی بتایا تھا کہ خواجہ سرا افراد کے تھانوں اور سرکاری محکموں میں ہی نہیں بلکہ خفیہ اداروں تک رسائی ہوتی ہے۔ اس امر کی واضح مثال اورنگی ٹاؤن کا واقعہ ہے (سن مجھے یاد نہیں مگر بہت سے صحافیوں کو یاد ہوگا، مگر پچھلے دور حکومت کا واقعہ ہے) جس میں ایک خواجہ سرا اورنگی ٹاؤن میں ایک آدمی کے ساتھ باقاعدہ شادی شدہ زندگی گزارنے لگا۔ اہل محلہ کی شکایت پر ایم کیوایم والوں نے پہلے تو زبانی کلامی منع کیا پھر نہ ماننے پر دونوں کو قتل کر دیا۔ اب سارے اہل محلہ اور وقت کی سب سے بڑی قوت ایم کیو ایم ایک طرف اور خواجہ سراؤں کا گرو، جس کے مطابق گرچہ مرنے والے خواجہ سرا نے گرو کی نافرمانی کی تھی اور گرو کا گروہ چھوڑ کر صرف ایک مرد کا ہو گیا تھا مگر پھر بھی وہ کسی کو اس طرح خواجہ سراؤں پر چڑھنے کی اجازت نہیں دے سکتا تھا۔ ایم کیو ایم کے وہ تمام کارکنان جو اس معاملے میں ملوث تھے، ایم کیوایم کے ہی نامزد ایس ایچ او نے گرفتار کئے۔
اور صرف میرے کئے گئے سروے کے مطابق ہی نہیں، جنگ اور نوائے وقت دونوں نے ہی اس موضوع پر مضامین چھاپے تھے جو یہ ہی بدیہی حقیقت بیان کرتے ہیں۔ پاکستان کی حد تک ، ۱۰۰ فیصد خواجہ سرا کمیونٹی مہلک جنسی بیماریاں کا شکار ہے اور پاکستان میں جنسی بیماریوں کا پھیلاؤ کا بنیادی سبب ہے۔ ان کی اوسط عمر (سروے کے مطابق) ۳۹ سال ہوتی ہے اور انتہائی تکلیف دہ موت کا شکار ہوتے ہیں۔ child abuse کے اس سب سے بڑے پاکستانی گروہ کو تقریباً تمام غیرملکی این جی اوز کی کھلی سرپرستی ہوتی ہے۔ پولیس اور دیگر محکموں میں یہ گروہ بچے فراہم کر کے ہی تعلقات بناتا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ اس غیر فطری طرز زندگی کا سد باب کرنا چاہیے نا کہ افسانوں کے ذریعوں اس ظالم اور فحش گروہ کو بڑہوتری دی جائے
 

MD. Muqimkhan

رکن
شمولیت
اگست 04، 2015
پیغامات
248
ری ایکشن اسکور
46
پوائنٹ
70
عمدہ مضمون ہے. لیکن پیدائشی طور پر تیسری جنس کا بچہ ہو تو کیا طرز عمل ہونا چاہیئے. یہ سوال اب بهی قائم ہے. لاکھوں میں ایک ہی سہی.
اس خط کو پڑه کر مجهے پاکستان کی ایک پروپیگنڈا اور جہالت سے بهرپور تانیثی نقطہ نظر کی فلم "بول" یاد آگئی.
 

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,132
پوائنٹ
412
خواجہ سرا(مخنث) کے احکام
============
سوال: خواجہ سرا ( مخنث / ہیجڑا) کی میت غسل اور جنازہ کے بارے میں شریعت کیا کہتی ہے جبکہ یہ طبقہ پاکستان میں لواطت پھیلانے کا بھی مرتکب ہے؟ محمد یونس۔ خانیوال

الجواب: مخنث یا ہیجڑے اور خواجہ سرا کا ذکر کتب حدیث میں بھی آیا ہے صحیح بخاری میں حدیث4324 ، 5235 ، 5887 ، 6834 اور حدیث695 وغیرہ میں اس کا ذکر آیا ہے نیز صحیح مسلم، سنن ابی دائود ابن ماجہ وغیرہ میں بھی اس کا ذکر ہے۔

فطری اور طبعی طور پر کوئی مخنث ہو تو یہ اﷲ کی طرف سے ہے اور وہ بھی شریعت کا مکلف ہے اگر جسمانی اور خلقی اعتبار سے وہ مرد کے مشابہ ہے تو مردوں کے احکام اس پر لاگو ہوں گے اور اگر وہ غالب جسمانی ساخت کے اعتبار سے عورت کے مشابہ ہے تو اس پر عورتوں کے احکامات لوگوں ہوں گے اور اگر وہ شرعی احکام کا لحاظ و پاس نہ کرے تو عند اﷲ فاسق ہے اور شاید اسی بنیاد پر بعض احادیث میں ان پر لعنت بھی کی گئی ہے۔

مردوں پر (از خود ) مخنث بننا حرام ہے اور عورتوں سے مشابہت بھی حرام ہے نبی علیہ السلام نے ان پر لعنت کی ہے۔

فقہا ء کے مباحث میں مخنث کے احکام خیار العیب ، شہادت، نکاح اجنبی عورت کی طرف دیکھنا، لباس، زینت اور حَظر ابا حت کی بحث میں ملتے ہیں۔ (الموسوعة الفقھیة الکویتیہ 63/11 ،بحوالہ مکتبہ شاملہ)

قرآن میں جو '' اوالتعابعین غیر اولی الا ربة'' کی آیت ہے تو تفسیر طبری کے مطابق اس سے مراد مخنث/ خواجہ سرا ہی ہے۔

مخنث کے احکامات واضح ہیں اگر مرد کے مشابہ ہے تو مردوں کے احکام وگرنہ عورتوں کے احکام اس پر لاگو ہوں گے۔ ہر مسئلے میں البتہ اگر خنثی مشکل ہے تو اسکی وفات پر اسے کپڑوں سمیت غسل دیا جائے گا یا پھر فقط تیمم کروا کر دفن کر دیا جائے ۔(المغنی وغیرہ)

اور اگر اس مخنث کے محارم موجود ہیں تو وہ اسے غسل دے سکتے ہیں (الموسوعة الفقھیہ الکویتیہ)

نماز جنازہ کے وقت خنثی کے وسط میں امام کھڑ ا ہوا البتہ شافعیہ کے ہاں اسکی کمر کے پاس سرین کے نزدیک کھڑا ہو۔ ( حوالہ سابقہ)

باقی احکامات مرد یا عورت کی طرح ہی ہوں گے۔

البتہ جس قبیح فعل کے یہ فی زمانہ مرتکب ہیں تو انہیں جلا وطن کر دینا چاہئے اور سزا بھی دلوانی چاہئے ۔ مزید یہ کہ یہ ملعون بھی ہیں کیونکہ قصداً عورتوں سے مشابہت اختیار کر تے ہیں۔


واللہ اعلم
منقول
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
لیکن پیدائشی طور پر تیسری جنس کا بچہ ہو تو کیا طرز عمل ہونا چاہیئے.
اس کے احکامات اسی جنس کے ہوں گے ، جس کے ساتھ اس کی مشابہت زیادہ ہوگی ۔
اس بات کو مد نظر رکھتے ہوئے ، اس کی دیگر بچوں کی طرح اچھی تعلیم و تربیت کرنی چاہیے ، کیونکہ شریعت میں اولاد کی تربیت کا حکم ہے ، تیسری جنس بھی اولاد میں ہی شمار ہوتی ہے ۔
معاشرے میں ’ خواجہ سرا‘ کے عنوان سے ایک انوکھی مخلوق کا متعارف ہوجانے کی ایک بنیادی وجہ ان کی تعلیم و تربیت کی کمی ہے ۔ ورنہ لڑکے خلقت کے اعتبار سب ایک طرح کے نہیں ہوتے ، اور نہ ہی لڑکیاں ، لیکن حسن و قبح کے تمام امتیازارت کے ساتھ وہ کوئی انوکھا فتنہ نہیں بنتے ، اسی طرح اگر ان کا خیال رکھا جائے ، اور ان کی خلقت کا اعتبار کرتے ہوئے ، ان کو مذکر یا مونث میں سے قریب تر کے ساتھ ملا دیا جائے تو ’ خواجہ سرائی فتنہ ‘ ختم ہو سکتا ہے ۔ واللہ اعلم ۔
 
Top