• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

خوارج عقائدوافکار

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,402
ری ایکشن اسکور
9,991
پوائنٹ
667
خوارج عقائدوافکار

مصنف
عبدالعلیم بن عبدالحفیظ سلفی
(سعودی عرب)
Mail: abdulaleemsalafi1@gmail.com
تمہید

الحمد لله وحده والصلاة والسلام على من لا نبي بعده , و بعد :
اسلامی فرق کاتعارف یاان سے متعلق کسی بھی بحث کامقصددرحقیقت حق وباطل کی تمییزہوتاہے ، اوران اسالیب وطرق کی توضیح ہوتی ہے جن کی بنیادپرباطل فکرونظریات کی بنیادپڑتی ہے ،جومروروقت کے ساتھ خوشنمامحل کا منظرپیش کرتا ہے ،اوران کے قدم اتنے مضبوط ہوچکے ہوتے ہیں کہ ان کواکھاڑناکارے مشکل بن جاتاہے ، یہی وجہ ہے کہ ان باطل عقائد ونظریات کے حاملین کی سوچ وفکراپنے مزعوم کی تصدیق اورتحسین میں صرف ہوتی ہے جس کے پردےمیں حق کی حقانیت اور سچائی کوچھپانے کی کوششیں کی جاتی ہیں ، پھر اتباع وتقلیدکی ایک نہایت ہی غلط رسم کی داغ بیل پڑجاتی ہے ، اوراس تقلیدی یگانگت کے اندربھی اختلاف وانتشارکا ایک لامتناہی سلسلہ شروع ہوجاتاہے، جسے ہم نے اپنی سنہری تاریخ کے صفحات میں بارہاملاحظہ کیاہے ،اگرکوئی کہتاہے کہ فکری تنوع سے استخراج و استنباط اورتحقیق وبحث کا دروازہ کھلتاہے ، توہم کہتےہیں کہ بلاشبہ فکری تنوع مذکورہ مقاصدکے لئے ایک جزوی ذریعہ ہے بلکہ ایک کامیاب ترین وسیلہ ہے لیکن اگریہ تنوع اصولی دائرہ میں ہوتو ! اور اگریہی تنوع شرعی اصول ومبادی سے ہٹ کرہواورعقائدواعمال میں بگاڑاورفساد کا ذریعہ بن جا‏ئےتوامت مرحومہ کے لئے عذاب اورانتشاراورطائفیت کا رمزبن جاتا ہے ، خوارج کے وجودسے لیکرعصر حاضرتک کتنے فرقوں نے جنم لیااورامت کوکن کن پریشانیوں سے دوچارہوناپڑا؟یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے۔
اپنی فکری اورتحزیبی مقصدبرآری کے لئے جن دلائل کاسہارالیاجاتاہے وہ زیادہ ترتاویلی اورغیرمناسب ہوتےہیں اوراگردلائل مضبوط بھی ہوں تومقصدکے اندرکھوٹ ہوتاہے ، مثلا: خوارج نے مسئلۂ تحکیم کے موقع سے علی اورمعاویہ رضی اللہ عنہماسے دوری اختیارکرتےوقت جودلیل دی تھی وہ اپنے آپ میں نہایت ہی مناسب اورمضبوط تھی ،ظاہرہے کہ شرعی امور میں اللہ کے حکم اورفیصلہ کےسوا اور کسی کے حکم کی کوئی حیثیت نہیں رہ جاتی ہے ،یہی وجہ ہے کہ علی رضی اللہ عنہ نے ان کی دلیل سننے کے بعدکہاتھا کہ :"بات حق ہے مگرغلط مقصدبرآری کے لئے استعمال کی گئی ہے "اوروہ غلط مقصد اس کےعلاوہ کچھ نہیں تھاکہ امت کا شیرازہ منتشرہو اور خلیفۂ وقت کے امرکوکمزورکردیاجائے ،یہاں پریہ بات بھی قابل غورہے کہ مذکورہ طائفہ کوئی ظاہری بددینیت پرنہیں تھابلکہ ان کا ظاہری وضع نہایت ہی شفاف تھا، اوراگرکہیں کمی تھی توصرف یہ کہ اپنے ظاہری تدین کے باوجودقرآنی تعلیمات اور اس کے فیوض سے محروم تھے ، اسی وجہ سے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاتھا:
"یمرقون من الدین مروق السھم من الرمیة "" یہ دین سے ایسے نکل جائیں گے جیسے تیر شکارکے جسم سے نکل جاتاہے " ۔
یہی حال دین میں پیداشدہ تمام فرقوں کاہے ، ان کے استدلال اور وضع قطع سے لوگوں کا دھوکا کھانا بدیہی ہے ۔ یہاں یہ بھی بتاتےچلیں کہ نامناسب تشاجرات اور مناظرات نے ان باطل عقائدکے حاملین اوران کے افکارکواورجلا بخشاہے ، ان کا تقریبا ہرمتبع صرف اس امرپردھیان دیتاہے کہ میراامیر یامناظرمخالف پرکس حد تک غالب رہتاہے ۔اگروہ صرف اس بات پہ اپنے ذہن کو مرکوزرکھتاکہ حق اور دلائل حق کہاں سے ملیں تو اس کے لئے راہ صواب ضرورواضح اورمزین ہوکرسامنے آتااور پھر ذہنی اورفکری بھٹکاؤسے محفوظ رہتااوراس کے لئے تحزب اورفرقہ بندی کوئی بات نہیں رہ جاتی ،یہی مقصودآیت کریمہ:
{وأن هذاصراطي مستقيماً فاتبعوه ولاتتبعوا السبل فتفرق بكم عن سبيله}(الانعام :153) (یہ دین میراراستہ ہے جو مستقیم ہے ، اسی پہ چلواوردوسری راہوں پرمت چلو کیونکہ وہ تمہیں اللہ کے راستے یعنی اس کے دین سے الگ کردیں گی) کا ہے ۔
خوارج ایک ایسا فرقہ ہے جسےدین میں ظاہری دینداری سے مزین لوگوں نے ایجاد کیا، اوریہ وہ زمانہ تھاجوصحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کا تھااوران کووہ روایتیں ازبر تھیں جوان کی شرست کی وضاحت کے لئے کافی تھیں ،لیکن اس کے باوجوداس گروہ نے اسلامی تعلیمات کے اندرکاری ضرب لگانے میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کیا ، اور اپنے مفادکے لئے حتی الوسع متوفروسائل کوبروئے کارلائے ،جس کے نتیجے میں اسلامی صف میں جواتحاداوراتفاق مطلوب تھا بکھرتاہوانظرآنے لگا۔
یہ فرقہ اپنے غیرمعمولی تدین کے باوجوداپنے عقائدکے اعتبارسے بھٹکاہواہے ، ولی الامرکی اطاعت سے نکلنا، صحابۂکرام رضی اللہ عنہم کوشب وشتم کرنا، مرتکب کبیرہ کی تکفیر، حجیت سنت کا انکاراورصفات باری تعالی کی تاویل وتعطیل یہ ایسےعقائد ہیں جوکسی بھی فرقہ کی گمراہی کے لئے کافی ہیں ،یہی وجہ ہے کہ تمام صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے ان سے دوری اختیارکی اوران سےقتال کرنے میں پس وپیش سے کام نہیں لیا ۔
قابل ذکربات یہ ہے کہ یہ روایت حدیث میں ثقہ ترین لوگوں میں سے تھے ان کی بعض روایتیں صحیح ترین سندوں میں شمارکی جاتی ہیں ، جیساکہ خطیب بغدادی نے امام ابوداؤدکا قول نقل کیاہے کہ :" بدعت پرستوں میں سےخوارج کی روایتوں سے زیادہ صحیح رمایتیں کسی کی نہیں ہوتیں " اور شیخ الاسلام ابن تیمیہ کےبقول :
"خوارج جان بوجھ جھوٹ بولنے والوں میں سے نہیں تھے یہاں تک کہاجاتاہے کہ ان کی حدیثیں صحیح ترین ہواکرتی تھیں لیکن یہ جہالت کی وجہ ہے اپنی بدعت میں گمراہ ہوگئے ، اوران کی بدعت الحادوزندقیت کی بنیادپرنہیں تھی بلکہ قرآن کریم کے فہم سے جہالت وگمراہی کی بنیاد پر تھی "۔(منہاج السنہ النبویہ :1/68) ۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ جھوٹ جوکبیرہ گناہوں میں سے ہے ان کے نزدیک نہ یہ کہ اس کا مرتکب آثم ہے بلکہ اس کے اوپرکفرکا اطلاق ہوتاہے ۔ معلوم ہواکہ روایت حدیث میں اپنی ثقاہت کے باوجود تاویلی اورتخریبی فکروعمل کااثران کی گمراہیت کاسبب بناجس کی پیشن گوئی پہلےہی کی جاچکی تھی :
"یقرءون القرآن لایجاوزحناجرھم " "یہ قرآن کریم کی تلاوت تو کریں گے لیکن ان کے حلق سے نیچے نہیں اترےگا" ۔
بسااوقات ایسابھی ہوتاہے کہ پیداشدہ گروہ فکری تنوع کے کی وجہ سے گروہ درگروہ منقسم ہوتاجاتاہے،اورآپسی اختلاف کاپیش خیمہ بن جاتاہے ،اورہرگروہ خودکوبرحق ثابت کرنے کی جی توڑکوشش میں لگ جاتاہے اورکتاب وسنت کاوہ ایک راستہ جونبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے امت کودکھایاتھا کہیں دورجاپڑتاہے،جبکہ مذکورہ صحیح راستہ ہراعتبارسے واضح اورروشن ہے جس کےاندرکوئی غموض اورپیچیدگی نہیں ہے ، اورتعجب خیزبات تویہ ہے کہ بعض مکتبۂ فکرکی جانب سے نہایت ہی دریدہ دہنی کے ساتھ یہ کہاجاتاہے کہ قرآن وسنت کی باریکیاں ہماری سمجھ سے بالاترہیں اس لئے کسی نہ کسی مکتب فکرسےجڑناہمارے لئےواجب ہے،ورنہ دین پرعمل کرنا ہمارے لئےصعب اورمشکل ہوجائےگا۔ان کےلئے علماءکےپیچ درپیچ مسائل توواضح اوران پرعمل درآمدسہل ہےلیکن قرآن سنت کی واضح باتیں مشکل اورروشن راہ کانٹوں بھری ہے ۔ جبکہ اللہ تعالی کا ارشادہے :
{وأنزلناإليك الذكرلتبين للناس مانزّل إليهم ولعلهم يتفكروهن} (النحل :44) (یہ ذکر (کتاب)ہم نے آپ کی طرف اتاراہے تاکہ لوگوں کی طرف نازل کی گئی چیز کو آپ کھول کربیان فرمادیں ،شایدکہ وہ غوروفکرکریں )
نیزارشادفرماتاہے:
{ونزّلنا عليك الكتاب تبياناًلكل شيئ وهدى ورحمة وبشرى للمسلمين }(النحل :89) (اورہم نے آپ پریہ کتاب نازل فرمائی ہے جس میں ہرچیزکاشافی بیان ہےاورہدایت اوررحمت اورخوشخبری ہے مسلمانوں کے لئے)
اوراللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا:
"فقد تركتكم على البيضاء، ليلهاكنهارها،لايزيغ عنها بعدي إلا هالك"(احمد:16812) "میں تم لوگوں کوواضح ترین راہ پرچھوڑےجارہاہوں ،جس کی راتیں بھی اس کے دن کی طرح روشن ہیں ، میرےبعداس راہ سے ہلاک ہونےوالاہی الگ ہوسکتاہے" ۔
یہ روایت آگےچل کردین سے بھٹکےگروہوں کےلئے پیش خیمہ ثابت ہوئی کیونکہ جب جب کوئی طبقہ یاگروہ اس روشن اورجلی جادۂ حق سےبھٹکنے کا مرتکب ہوا دین حق سے دورہوتا چلا گیا اورطائفیت واختلاف کا ایک لامتناہی سلسلہ شروع ہوگیا۔
زیرنظرکتاب کے اندرہم خوارج کے عقائد وافکاراوران کے نشوونماسے متعلق مضامین پیش کریں گے تاکہ اردو داں طبقہ اس گروہ کی اصلیت اوران کی گمراہی کے اسباب سے واقفیت حاصل کرسکے ۔
کتاب کی تیاری کی توفیق پرہم اللہ تعالی کے درسربسجودہیں اورمزیدتوفیق کی چاہت وامیدلےکراس کی بارگاہ میں دست بدعاءہیں اوراس کتاب کی تیاری وطباعت میں کسی بھی طرح کا تعاون کرنے والوں کےشکرگذارہیں ۔فجزاھم اللہ خیرا فی الدنیاوالآخرۃ ۔
اللہ تعالی ہمیں اپنی صحیح شریعت پرچلنے کی توفیق عطافرمائے اورہمارے اعمال کو قبولیت سے نوازے ، اوراس نیک عمل کوہمارےلئے ذخیرۂ آخرت اوروالدین اوراساتذہ کےلئے وصول جنت کا سبب بنائے ،وصلی اللہ علی خیرخلقہ وسلم ۔
 

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,402
ری ایکشن اسکور
9,991
پوائنٹ
667
خوارج کی تعریف
شروع اسلام میں اعتقادی اعتبارسےپیداہونےوالےبڑےفرقوں میں خوارج کانام سب سےاول ہے ،یہ فرقہ اس وقت پیداہواجب اسلامی صف میں بعض درآمدفتنوں کےسبب گروہی اختلاف کی بنیادپڑرہی تھی ، پھرآہستہ آہستہ اس فرقے نےایک انقلاب کی شکل اختیارکرلی اوربہت بڑی سیاسی انقلاب کا داعی اوراس کی شناخت بن گیا ۔ ذیل کی سطور میں ہم اس فرقے کےتعارف ،عقائد،اسباب ، اختلاف ، انجام وغیرہ سےمتعلق چندباتیں لکھتے ہیں :
خوارج کی لغوی تعریف : خوارج خارج کی جمع ہےجوخروج سےمشتق ہے ،کیونکہ ان کایہ نام ان کےخروج کی وجہ سےپڑاہے ، چاہےدین سےنکل جانےکی وجہ سےیا علی رضی اللہ عنہ کےخلاف خروج کی وجہ سےخواہ مسلمانوں کے خلاف خروج کی وجہ سے (دیکھئے :تہذیب اللغۃ :7/50،تاج العروس :2/30 ،اورفرق معاصرہ :1/66)
خوارج کی اصطلاحی تعریف : خوارج کی تعریف کے سلسلےمیں علماءنےکئی باتیں لکھی ہیں :
1 – امام شہرستانی لکھتے ہیں :
" كل من خرج على الإمام الحق الذي اتفقت الجماعة عليه يسمى خارجياً، سواء كان الخروج في أيام الصحابةعلى الأئمةالراشدين أوكان بعدهم على التابعين لهم بإحسان والأئمة في كل زمان"(الملل النحل : 1/132)" ہروہ شخص جواہل سنت والجماعۃ کےمتفقہ امام کےخلاف خروج کرےاسے خارجی کہاجاتا ہے،یہ خروج صحابہ کرام کےزمانےمیں خلفاء راشدین کےخلاف ہو،ان کےبعد تابعین کےخلاف ہوخواہ ہرزمانےمیں ائمہ کےخلاف " ۔
امام ابن حزم نےبھی تقریبااسی سےملتی جلتی تعریف کی ہے ۔ (دیکھئے : الفصل فی الملل والنحل :2/113)
2 – امام ابوالحسن اشعری نےخوارج کااطلاق ان لوگوں پرکیاہے جنہوں نےعلی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کے خلاف خروج کیاتھا ۔(المقالات : 1/207)
3 – بعض اباضی علماءنے اس جماعت کوخاص ماناہے جس نےتابعین اوراتباع تابعین کےزمانےمیں خروج کیاتھا، جس کاسرگروہ نافع بن ازرق تھا ۔ یہ تعریف ابواسحاق اطفیش کی ہے ، حالانکہ خودبعض اباضی علماءنےاس تعریف کورد کردیاہے ۔ (فرق معاصرہ :1/67)
 

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,402
ری ایکشن اسکور
9,991
پوائنٹ
667
وجہ تسمیہ اوردوسرےنام
ان کااصل نام خوارج ہی ہے اوریہ نام جیساکہ بیان کیاگیا ان کےدین یاجماعت سے نکلنے یا علی رضی اللہ عنہ کےخلاف خروج کرنےکی وجہ سےپڑا ۔ اس نام کےعلاوہ ان کے دیگرمختلف نام بھی ہیں جن میں سےچندمندرجہ ذیل ہیں :
(1) حروریہ : کوفہ سےتقریبادومیل کی دوری پرحروراء نام کی ایک جگہ ہے ، پہلی باراس جماعت نےتحکیم کےبعد علی رضی اللہ عنہ سےبغاوت کرکےاوران کے خلاف خروج کرکےاسی جگہ اجتماع کیا، جس کی وجہ سےان کانام حروریہ پڑا۔ (دیکھئے: فتح الباری :12/234 ، الفرق بین الفرق :ص 80 ، ومراصدالاطلاع :1/394) اورمبرد کے بقول :علی رضی اللہ عنہ جب خوارج سےمناظرہ کرکےواپس لوٹےتوان کےساتھ خوارج کےکچھ لوگ بھی تھے،آپ نےان سےپوچھاکہ:
" ہم لوگ تمہیں کس نام سےپکاریں ؟"
پھرخودہی کہاکہ :
"تم لوگ چونکہ حروراء میں اکٹھاہو‏ئے ہواس لئے حروریہ ہو"۔
(الکامل فی اللغۃ والادب :2/136)
یہ نام عائشہ رضی اللہ عنہا کے قول "أحرورية أنت"() رواه مسلم : 335 ) میں بھی واردہے جوکہ آپ نے ایک عورت کواس وقت کہی تھی جب اس نے حائضہ کے لئے نمازکے علاوہ روزےکی قضاءکے وجوب پراعتراض کیاتھا۔ (فرق معاصرة لغالب عواجي : 1/230)
اسی طرح یہ نام صحیحین کی روایت میں واردہے ، مصعب سے روایت ہے فرماتےہیں کہ میں نے ابی بن کعب سے {قُلْ هَلْ نُنَبِّئُكُمْ بِالْأَخْسَرِينَ أَعْمَالًا}(سورہ کہف: 103)کی تفسیرمیں پوچھاکہ اس سے حروریہ تونہیں مرادہیں ؟توانہوں نے فرمایا نہیں اس سے یہوداورنصاری مرادہیں ، یہودنے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو جھٹلایا، اورنصاری نے جنت کو اورکہاکہ جنت میں نہ کھاناہوگااورنہ ہی پانی ، اورحروریہ وہ ہیں جنہوں نے اللہ سے عہدکے بعداسے توڑدیا، اورسعد رضی اللہ عنہ ان کو فاسقین کا نام دیتے تھے۔ رواه البخاري :4728
(2) محکمہ : ان کانام محکمہ یاتوان کےدونوںحکم کے فیصلےسےانکارکی وجہ سے پڑایاان کےباربار"لاحکم الا للہ "کہنےکی وجہ سے ،کیونکہ انہوں نےمتعین کئےگئے دونوں حکم کےفیصلےکےانکار کےبعد"لاحکم الا للہ " کا نعرہ لگانا شروع کردیا تھا ۔
بلا شبہ مذکورہ کلمہ ہراعتبارسےدرست ہے ، لیکن اس کا استعمال غلط افکارونظریات کے تئیں پیش کیاگیاتھا، اسی وجہ سے علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
" کلمة حق ارید بھاالباطل" " حق گوئی لیکن غلط مقصدومطلب برآری کےلئے استعمال کیاگیا"۔ (مقالات الاسلامیین :1/206-207) ، فرق معاصرہ :1/69 ، الخوارج للدکتورمصطفی حکمی :ص 26)
( 3) مارقہ : خوارج کایہ نا م صحیحین میں واردان سےمتعلق حدیث نبوی میں وارد ہونےکی وجہ سےپڑاجس میں ہے کہ :
"يمرقون من الدين مروق السهم من الرمية"( متفق علیہ ) " یہ دین سے ایسے نکل جائیں گے جیسے تیرشکارکےجسم سےنکل جاتاہے "۔
(فرق معاصرہ :1/69، الخوارج /ناصربن عبداللہ سعوی : ص26-27)
(4) شراۃ :خوارج کہاکرتےتھے:" شريناأنفسنافي طاعة الله ""یعنی ہم نےاللہ کی اطاعت میں (جنت کےبدلے) خودکوبیچ دیاہے "
اس قول سےان کا نام " شراۃ " پڑا۔ (فرق معاصرہ : 1/69 ،الخوارج /ناصرسعوی : ص27)
(5) نواصب :علی رضی اللہ عنہ سےحددرجہ دشمنی رکھنےکی وجہ سے ان کانام نواصب پڑا،کیونکہ عربی میں کہتےہیں
" نصب لہ العداء" "یعنی اس سےدشمنی قائم کی " ۔
(فرق معاصرہ : 1/69)
(6) اہل نہروان : اس نام کی وجہ یہ ہے کہ جب ان لوگوں نے علی رضی اللہ عنہ سے مفارقت اختیارکرکے مسلمانوں کے خلاف جنگ کااعلان کیا تو علی رضی اللہ عنہ نے ان سےمقام نہروان میں جہادکیا، اس لئے نہروان کی طرف نسبت کرکےان کواہل نہروان کہاجاتاہے ۔
(مجموع فتاوی شیخ الاسلام ابن تیمیہ 7/481 ،الخوارج /سعوی : ص27)
(7) مکفرہ : یہ نام اس لئے پڑا کہ یہ کبیرہ گناہوں کے مرتکبین اوراپنے مخالف مسلمانوں کی تکفیرکرتے ہیں ۔ ( الخوارج أول الفرق في تاريخ الإسلام لناصر بن عبد الكريم العقل : ص30 )
(9) سبئیہ : یہ نام اس لئے پڑاکیونکہ یہ فرقہ ابن سبأ یہودی کے اسلام کے خلاف بھڑکائی ہوئی آگ کے سبب معرض وجودمیں آیا۔( الخوارج أول الفرق في تاريخ الإسلام لناصر بن عبد الكريم العقل : ص30)
(10) شکاکیہ : شک سے مشتق ہے جب ان لوگوں نے تحکیم کا انکارکیااس وقت علی رضی اللہ عنہ سے کہا:آپ نے اپنامعاملہ مشکوک کرلیا اورخوداپنےدشمن کوحکم بنالیا ، تو ان کانام شکاکیہ پڑا۔(الصحابة بين الفرقة والفرق لأسماءالسويلم: ص402)
خوارج کے یہ سارےنام اورالقاب ہیں ، ان میں صرف مارقہ(دین سے نکلنے والی جماعت) پران کو اعتراض ہے ، کیونکہ وہ خودکو حق پرکہتے ہیں ۔
(الخوارج تاريخهم وآراؤهم الاعتقادية وموقف الإسلام منها لغالب عواجي: ص35)
 

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,402
ری ایکشن اسکور
9,991
پوائنٹ
667
خوارج کےظہورکےاسباب
خوارج کےظہورکی خبراللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم نےپہلےہی دیدی تھی گویا اس فتنے کابیج عہدرسالت ہی میں بودیاگیاتھا ، لیکن باضابطہ ایک جماعت کی شکل میں علی رضی اللہ عنہ کےعہدمیں وقوع پذیرہوا،شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نےاس جانب اشارہ کیاہے کہ اس بدعت کااظہاراللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم کے عہدمیں کیاگیاتھاپھر اس کے حاملین اسےاپنےدلوں میں چھپائے رہےاوراس درمیان وقتافوقتااس کااظہارکرتےرہےیہاں تک کہ علی رضی اللہ عنہ کےعہدمیں باضابطہ ایک جماعت بنالی ۔(مجموع فتاوی ابن تیمیہ 28/490)
امام ابن کثیرنےعثما ن غنی رضی اللہ عنہ کےخلاف بغاوت کرنےوالےبلوائیوں کو خوارج کانام دیاہے ۔( البدایہ والنھایہ : 7/202) امام طحاوی نے بھی اسی کوذکر کیا ہے۔ ( شرح العقيدة الطحاوية : ص472)
درحقیقت خارجیت کےجراثیم بادتوحیدمیں عہدرسالت میں ہی موجودتھےجوکہ توحید اوراتباع سنت کی تیزوتند آندھی میں اثرپذیری سےمحروم رہا،پھرمسلمانوں کےباہمی انشقاق واختلاف نےاس بیج کی پیداواری کےلئے سینچائی کاکام دیااور بالآخر جنگ صفین کے بعدایک جماعت کی شکل اختیارکرلی ۔
عراق میں کچھ ایسےافرادتھےجو عثمان رضی اللہ عنہ کے بعض قرابت داروں کے اخلاق واطواراورخصلتوں سے نالاں تھے، جس کی وجہ سےعثمان رضی اللہ عنہ پرطعن کیاکرتےتھے، یہ لوگ تلاوت قرآن اورجہدوعبادت میں ممتازتھے، اورساتھ ساتھ قرآنی آیات کی ایسی تاویلیں کرتےجوسراسرقرآنی مفاہیم سےہٹ کرہوتیں ، جب عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت ہوئی توان لوگو ں نےعلی رضی اللہ عنہ کےشانہ بشانہ لڑائیوں میں حصہ لیا۔ ان کابنیادی عقیدہ عثمان رضی اللہ عنہ اورآپ کےمتبعین کی تکفیرتھا، نیزیہ لوگ علی رضی اللہ عنہ کی امامت اورجنگ جمل میں آپ کے خلاف جنگ کرنےوالوں کی تکفیرکااعتقادبھی رکھتےتھےجنہوں نےعائشہ ، طلحہ اورزبیررضی اللہ عنہم کی قیادت میں عثمان رضی اللہ عنہ کے قاتلین کوفی الفورسزا دینے کامطالبہ کیاتھا، اس جنگ میں علی رضی اللہ عنہ کوفتح ہوئی تھی ۔ پھرشام میں معاویہ رضی اللہ عنہ نےبھی خون عثمان کابدلہ لینےکامطالبہ کردیاجس کی بنیادپرجنگ صفین کامعرکہ پیش آیا، معاویہ رضی اللہ عنہ شام کےامیرتھےشہادت عثمان رضی اللہ عنہ کےبعد علی رضی اللہ عنہ نے جب ان سے بیعت کامطالبہ کیاتوانہوں نے عذرپیش کردیاکہ پہلےآپ قاتلین عثمان رضی اللہ عنہ کو فی الفور سزا دیں اس کے بعدبیعت ہوگی ، علی رضی اللہ عنہ نے نامساعد حالات کے پیش نظراس مطالبہ کوماننے میں ترددکیا یہاں تک کہ دونوں کےدرمیان صفین جیسا معرکہ پیش آیاجوکئی مہینوں تک چلا، اس جنگ میں اہل شام کی شکست قریبی تھی کہ عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کے مشورہ پراہل شام نے قرآن مجید کو نیزہ پراٹھاکردہائی دی کہ ہم آپ کو کتاب اللہ کی طرف بلاتےہیں ۔(العواصم من القواصم للاما م ابن العربی : ص173)
اس کےبعدعلی رضی اللہ عنہ کی فوج کےاکثرلوگوں خصوصاقرّاء(جوبعدمیں خوارج ہوئے) نےہتھیارڈال دئے اورآیت کریمہ :
{أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ أُوْتُواْ نَصِيباً مِّنَ الْكِتَابِ يُدْعَوْنَ إِلَى كِتَابِ اللّهِ لِيَحْكُمَ بَيْنَهُمْ ثُمَّ يَتَوَلَّى فَرِيقٌ مِّنْهُمْ وَهُم مُّعْرِضُونَ}(آل عمران 23) (کیاآپ نے ان لوگوں کو نہیں دیکھاجنہیں اللہ کی کتاب کا ایک حصہ ملا،انہیں اللہ کی کتاب کی طرف بلایاجاتاہے ، تاکہ ان کےدرمیان فیصلہ کردے،پھران کی ایک جماعت اس سےاعراض کرتے ہوئےلوٹ جاتی ہے)
سے استدلال کرتےہوئے جنگ سے اعراض کیا۔ پھرشامیوں نے علی رضی اللہ عنہ سےمراسلت کرکےجانبین سےایک ایک حکم متعین کرنے کا مطالبہ کیاجن کے ساتھ ایسے افرادہوں جنہوں نے اس جنگ میں حصہ نہیں لیاہے ، پھردونوں کے فیصلےکے بعدجوحق ہو اسےتسلیم کر لیاجائے، علی رضی اللہ عنہ نے اس تجویزکو تسلیم کرکے اس پرعمل درآمد کی کوشش کی جس کی مخالفت اس جماعت نے کیاجو بعدمیں خارجی ہوئی ۔ پھرعلی رضی اللہ عنہ نے اہل اعراق اور اہل شام کے مابین فیصلےکی جوتحریربھیجی اس میں اپنےلئے "امیرالمؤمنین "لکھاجس کو اہل شام نے ماننےسے انکارکردیااورصرف علی بن ابی طالب لکھنےکوکہا، علی رضی اللہ عنہ نے اسے بھی تسلیم کرلیاجس کی مخالفت بھی خوارج نےکی ۔(مجموع فتاوی ابن تیمیہ :13/32)
پھردونوں فریق اس بات پرمتفق ہوئے کہ دونوں حکم اوران کے اصحاب چنددنوں کے بعدشام اورعراق کے درمیان ایک متعین جگہ پراکٹھےہوں گےاورفوجیں کوئی فیصلہ ہونےتک اپنےاپنےملک واپس چلی جائیں گی ، اس کے بعدمعاویہ اورعلی رضی اللہ عنہما واپس لوٹ گئے، اورخوارج جن کی تعدادآٹھ ہزاراورایک قول کےمطابق سات ہزار اورایک قول کےمطابق چھ ہزارتھی ان سےجداہوکر"حروراء" نامی جگہ پراکٹھےہوگئے، جس کی طرف منسوب کرکے ان کو "حروریہ " کہاجاتاہے ،ان کے لیڈران میں عبداللہ بن کواء یشکری اورشبث تمیمی تھےجن کے پاس علی رضی اللہ عنہ نے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کو ان سےمناظرہ کرنےکے لئے بھیجاجس سے بہت سارے لوگ واپس آگئے، پھرعلی رضی اللہ عنہ خودان کےپاس گئے جس سےکہ ان لوگوں نےآپ کی اطاعت کرلی اورآپ کےساتھ کوفہ واپس آگئے،جن میں مذکورہ دونوں لیڈران بھی تھےجنہوں نے یہ پرچارکرناشروع کردیاکہ وہ واپس اس لئے آئےہیں کیونکہ علی رضی اللہ عنہ نے حکومت سے توبہ کرلی ہے ، جب یہ خبرعلی رضی اللہ عنہ کو ملی تو آپ نے خطبہ دیااوران کی اس بات کاردکیا ، اسی دوران مسجد کے ایک گوشےسے ان لوگوں نے " لاحکم الاللہ " کانعرہ لگایا ، اس پرعلی رضی اللہ عنہ نے فرمایا:" یہ جملہ تو صحیح ہے لیکن ان لوگوں نے باطل اور غلط مقصدکی خاطراسے استعمال کیاہے " پھرآپ نے ان لوگوں کوتین باتوں کی رخصت دی ، جومندرجہ ذیل ہیں :
اول : انہیں مسجدوں میں آنےسے نہیں روکاجا‏ئےگا۔
دوم : ان کے حامیوں کو بھی مسجدوں میں آنےسے نہیں روکاجائےگا۔
سوم : جب تک فسادنہیں کریں گے ان سے جنگ کی ابتدانہیں کی جا‏ئےگی ۔
پھریہ لوگ آہستہ آہستہ کوفہ سےنکل گئے اورمدائن میں جاکرجمع ہوگئے ۔ علی رضی اللہ عنہ ان سے ان کی واپسی کے لئے مراسلت کرتےرہے اوریہ لوگ اپن موقف پر مصررہے ، ان کا مطالبہ تھا کہ جب تک آپ اپنے کفرکااقرار کرکےا س سے سےتوبہ نہ کرلیں واپس نہیں ہونگے ۔ اس کے بعدبھی آپ نےاپنا قاصدان کے پاس بھیجا جس کو یہ لوگ قتل کرنے پرآمادہ ہوگئے ۔
پھرخوارج کی جماعت اپنے اس باطل عقیدے پرمتفق ہوگئی کہ جوشخص ان کے عقیدے پرنہیں ہے وہ کافرہے اور ان کا خون مال اور اہل حلال ہے ۔ ان لوگوں نے اس پرعمل درآمدبھی شروع کردی، جومسلمان ان کے سامنےآئے انہیں قتل کردیا، عبداللہ بن خباب بن الارت جو بعض علاقوں پر علی رضی اللہ عنہ کی جانب سے گورنرتھے ان کو قتل کردیا او ران کی حاملہ باندی کا پیٹ چاک کردیا ، جب یہ خبر علی رضی اللہ عنہ کوملی تو آپ نے ان سے مقابلہ کرنے کے لئے کوچ کیا ، اور مقام نہروان میں ان سےجنگ کیا ، جس میں خوارج میں سے دس سےبھی کم افرادبچےاورعلی رضی اللہ عنہ کی فوج میں سے دس سے کم ہی شہید ہوئے ۔ (فتح الباری : 12/283-284)
 

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,402
ری ایکشن اسکور
9,991
پوائنٹ
667
خوارج سے عبدا للہ بن عباس رضی اللہ عنہماکا مناظرہ
صفین کےمعرکہ سے کوفہ واپسی کےدوران خوارج کی ایک بڑی جماعت کوفہ سے چند میل کی دوری پر علی رضی کی فوج سے الگ ہوگئی، جن کی تعدادکا اندازہ بعض روایتوں کے مطابق بارہ ہزارسے کیاگیاہے (تاريخ بغداد: 1/160) اورایک روایت کےمطابق چھ ہزار (خصائص أمير المؤمنين علي بن أبي طالب / النسائي : ص200) ایک روایت کے مطابق آٹھ ہزار (البداية والنهاية : 7 /280، 281)اورایک روایت کے مطابق چودہ ہزارتھی ۔(مصنف عبد الرزاق 10/157-160)
خوارج کی اس بڑی تعداد کے نکلنے سے علی رضی اللہ عنہ کی فوج میں اضطراب پیدا ہوگیااورعلی رضی اللہ عنہ بقایا فوج کے ساتھ کوفہ میں داخل ہوئے اورخوارج کے معاملات میں الجھےرہے ، خاص طورسے جب آپ کویہ پتہ چلاکہ ان لوگوں خود کو منظم کرنا شروع کردیاہے ، اورانہوں نے نمازاورلڑائی کے لئے امیر متعین کرلیاہے اوریہ اعلان کردیا ہے کہ بیعت صرف اللہ کے لئے ہونی چاہئےاورامربالمعروف اور نہی عن المنکراداکرنی چاہئے ، ان کے ان نظریات نے ان کو عملی طورپر مسلمانوں کی جماعت سے الگ کردیا۔(فكر الخوارج والشيعة في ميزان أهل السنة والجماعة/ د. علي محمد الصلابي: ص22)
أمیرالمؤمنین علی رضی اللہ عنہ نےان کو جماعۃ المسلمین میں واپس لانے کی کوشش و چاہت میں عبداللہ بن عبا س رضی اللہ عنہماکو ان کے پاس مناظرہ کے لئے بھیجا۔ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما ان کے پاس دوپہرمیں پہنچے ، ان سے سلام کیا تو وہ گویا ہوئے کہ آپ کس مقصدکے تحت آئے ہیں ؟ توآپ نے کہا:"میں تمہارےپاس اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب اورآپ کےدامادکی طرف سےآیاہوں جن کی موجودگی میں قرآن کانزول ہوااوروہ قرآن کے مفاہیم کوتم سےزیادہ سمجھتے اور جانتےہیں ، ان میں کوئی بھی تمہارےساتھ نہیں ہے ، اورمیں تم کو ان کی باتیں پہنچاؤں گااورتم جو کہوگےان تک پہنچاؤں گا، اب تم بتاؤاللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب اورآپ کے چچازادکے خلاف تمہاراکیااعتراض ہے ؟ " انہوں نے کہا: تین اعتراضات ہیں :
اول : انہوں نے اللہ کے معاملےمیں لوگوں کو حکم بناکر کفرکاارتکاب کیاہے ، جبکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے :
{إِنِ الْحُكْمُ إِلاَّ لِلَّهِ} [الأنعام: 57] (حکم صرف اللہ کے لئے ہے)
لہذا اللہ کے فیصلےمیں لوگوں کاکیادخل ؟
دوم : انہوں نے لڑائی کی اوراس لڑائی میں کسی کو نہ قیدکیااورنہ ہی مال غنیمت اکٹھا کیا، جبکہ اگر(ان کےمخالف ) کافرتھےتوان کو قیدکرنا چاہئے تھا ، اوراگرمؤمن تھےتو ان سے ان کی لڑائی جائزنہیں تھی ۔
سوم :انہوں نےاپنےنام کے سامنے سے "أمیرالمؤمنین " کا لفظ مٹادیا لہذاوہ کافروں کے امیرہیں ۔
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہمانے ان سے پوچھا کہ اورکچھ یا صرف اتناہی ؟ تو انہوں نے کہا کہ ہمارےلئے اتنا ہی کافی ہے ۔ پھرآپ نے ان سے کہاکہ :
"اگرمیں تمہارے اعتراضات کااللہ کی کتاب اوراس کے نبی کی سنت سےجواب دوں توکیا تم اسے قبول کروگے؟ "
تو انہوں نے کہاکہ ہاں ۔
عبدا للہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے ان کے ان کے اعتراضات کاجواب دیناشروع کیا اورفرمایا کہ :" اللہ کے حکم میں لوگوں کو حکم بنانےکی جہاں تک بات ہے تو میں تمہیں اللہ کافرمان پڑھ کرسناتاہوں جس میں اللہ تعالی نے ایک چوتھائی درہم کی قیمت میں لوگوں کوحکم بنایاہے ، اورانہیں حکم دیا ہے کہ وہ اس میں فیصلہ کریں ، ارشادفرماتا ہے:
{يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آَمَنُوا لاَ تَقْتُلُوا الصَّيْدَ وَأَنْتُمْ حُرُمٌ وَمَنْ قَتَلَهُ مِنْكُمْ مُتَعَمِّدًا فَجَزَاءٌ مِثْلُ مَا قَتَلَ مِنَ النَّعَمِ يَحْكُمُ بِهِ ذَوَا عَدْلٍ مِنْكُمْ} (المائدة: 95) (اے ایمان والو! حالت احرام میں وحشی جانوروں کا شکارمت کرواورجس نے جان بوجھ کراس کوقتل کردیا تواس پرفدیہ واجب ہے جوکہ قتل کئے گئے جانورکےمساوی ہوگاجس کا فیصلہ تم میں سے دومعتبرشخص کریں گے)
اب میں تم سے اللہ کی قسم دےکرپوچھتاہوں کہ لوگوں کا خرگوش وغیرہ کے شکارمیں فیصلہ کرنا ا‌فضل ہے یا لوگوں کے خون کو بچانے اوران کی خیروبھلائی میں فیصلہ کرنا ؟ جبکہ تمہیں معلوم ہے کہ اگراللہ تعالی چاہتاتوخود فیصلہ کردیتا او رلوگوں کو اس کاذمہ دارنہیں بناتا ۔ تو ان لوگوں نے کہاکہ : یہ زیادہ بہترہے ۔
پھرآپ نے کہا کہ :اسی طرح اللہ تعالی عورت اوراس کے شوہر کےبارےمیں ارشاد فرماتاہے :
{وَإِنْ خِفْتُمْ شِقَاقَ بَيْنِهِمَا فَابْعَثُوا حَكَمًا مِنْ أَهْلِهِ وَحَكَمًا مِنْ أَهْلِهَا إِنْ يُرِيدَا إِصْلاَحًا يُوَفِّقِ اللَّهُ بَيْنَهُمَا}(النساء: 35)(اگرتمہیں میاں بیوی کی آپسی رنجش کا ڈرہے توایک منصف مردکے گھروالوں میں سے ایک عورت کے گھروالوں میں سے مقررکردو،اگریہ دونوں صلح کراناچاہیں گےتواللہ دونوں میں ملاپ کرادےگا)
میں تمہیں اللہ کی قسم دےکرپوچھتا ہوں :
"لوگوں کی بھلائی کے لئے اوران کی حفاظت کی خاطرلوگوں کے درمیان فیصلہ کرناافضل ہے یاایک عورت کی شرم گاہ کے بارےمیں ؟ " ۔
پھرآپ نے ان کے دوسرے اعتراض کاجواب دیتےہوئے فرمایا : "تم لوگ کہتے ہوکہ علی رضی اللہ عنہ نے لڑائی تو کیا لیکن نہ تو لوگوں کو قید کیا اورنہ ہی ان کے مال پرقبضہ کیا، تومیں پوچھتاہوں کہ کیاتم اپنی ماں عائشہ رضی اللہ عنہاکو گرفتارکرکے ان کے ساتھ وہی سلوک کرسکتےہوجودوسری عورتوں کے ساتھ کیاجاتاہے ،جب کہ وہ تمہاری ماں ہیں ؟اگرتم انہیں قیدکرکےدوسری عورتوں جیساسلوک کرنے کو جائز سمجھتےہو تو تم کافرہو‏ئے اور اگرتم کہتے ہو کہ وہ تمہاری ماں نہیں ہیں تو بھی تم کافر ہوئے ، کیونکہ اللہ تعالی کاارشادہے : {النَّبِيُّ أَوْلَى بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنْفُسِهِمْ وَأَزْوَاجُهُ أُمَّهَاتُهُمْ} (الأحزاب: 6) اس طرح تم دوہری گمراہی کے پیچ وخم میں پھنسےہوئے ہو ، اگراس سے نکلنے کا کوئی راستہ ہے توبتاؤ" ۔
ان کے تیسرے اعتراض کاجواب دیتےہو‏ئے آپ نے فرمایا:"تم کہتے ہو کہ علی رضی اللہ عنہ نے اپنے نام کے سامنے سے " أمیرالمؤمنین " کا لفظ کیوں مٹادیاتو تمہیں بتادوں اورتم نے سناہوگا کہ حدیبیہ کے دن اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے مشرکین سے صلح کیااور علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ لکھو:
" یہ وہ عہدنامہ ہے جس پرمحمدرسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم )نے اتفاق کیاہے "
تو مشرکین نے کہا :اللہ کی قسم ہرگزنہیں اگرہم جانتے کہ تم اللہ کے رسول ہو تو تمہاری اطاعت کرتے ، اس کی جگہ محمدبن عبداللہ لکھو۔ اس کے بعدآپ نے علی رضی اللہ عنہ سے اسے مٹاکر محمدبن عبداللہ لکھنےکو کہا ۔ اللہ کی قسم اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم علی رضی اللہ عنہ سے بہترہیں اورآپ نے خوداپنے دست مبارک سے لفظ "رسول اللہ "مٹادیا، اورآپ کے اس مٹانے سے آپ کی نبوت نہیں مٹ گئی " ۔
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کے اس جواب سے دوہزار خارجی تائب ہوگئے او ر باقی اپنی گمراہی پرقائم کوفہ سے نکل گئے او ر اسی پر ہلاک ہو ئے جن کو انصاراور مہاجرین نے قتل کیا ۔( خصائص أمير المؤمنين علي بن أبي طالب: ص200)
 

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,402
ری ایکشن اسکور
9,991
پوائنٹ
667
علی رضی اللہ عنہ کابقیہ خوارج سے مناظرہ
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کے خوارج سے مناظرہ اوران میں سے دوہزار کے رجوع کے بعدعلی رضی اللہ عنہ ان کے پاس بنفس نفیس گئے اوران سے بات کی تو وہ کوفہ واپس ہو‏ئے وہ یہ سمجھتے رہے کہ علی رضی اللہ عنہ نے تحکیم سے رجوع او راپنے ( ان کے بزعم ) گناہوں سے توبہ کرلیاہے ۔ وہ اپنے اس سوچ کو لوگوں میں پھیلانے لگے ، اشعث بن قیس کندی نے علی رضی اللہ عنہ کو بتایاکہ لوگ یہ کہتے پھررہے ہیں کہ آپ نے اپنے کفرسے رجوع کرلیاہے ۔
دوسرےدن جمعہ کادن تھا آپ منبرپرچڑھے اوراللہ کی حمدو تعریف کے بعدخطبہ دیتے ہوئے ان کے افکاراور عقائد کو ذکر کیا او ر ان کے معاملے کی برائی کو بیان کیا، جب منبرسے اترےتو ان لوگوں نے مسجدکے ایک گوشےسے "لاحکم الاللہ " کی آواز لگائی ، اس پرعلی رضی اللہ عنہ نے کہا:" تم لوگوں کے بارےمیں اللہ کے حکم کا انتظارکروں گا پھران کو خاموش رہنےکااشارہ کیا، آپ منبرپرہی تھے کہ ان میں سے ایک آدمی اپنے کانوں میں انگلی رکھ کر آیا۔(مصنف ابن ابی شیبہ: 1/733، 734، تاريخ الأمم والملوك للطبري: 3/114)اورکہنےلگا: {لَئِنْ أَشْرَكْتَ لَيَحْبَطَنَّ عَمَلُكَ وَلَتَكُونَنَّ مِنَ الْخَاسِرِينَ}(الزمر: 65)اس پرعلی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: {فَاصْبِرْ إِنَّ وَعْدَ اللَّهِ حَقٌّ وَلاَ يَسْتَخِفَّنَّكَ الَّذِينَ لاَ يُوقِنُونَ} (الروم :60).
پھرآپ نے ان کو وہ تین اختیارات دئے جن کاذکرفتح الباری کے حوالےسے کیا گیا ۔ ( تاريخ الأمم والملوك للطبري: 3/114)
 

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,402
ری ایکشن اسکور
9,991
پوائنٹ
667
جنگ نہروان (سنہ 38ھ)
علی رضی اللہ عنہ نے خوارج کے لئے یہ شرطیں رکھی تھیں کہ وہ خون نہیں بہائیں گے، نہ لوٹ مارکریں گے اورنہ ہی دہشت پھیلائیں گے اوراگروہ ایساکریں گے تو ان سے جہادکیاجائےگا۔ مگرجیساکہ ان کایہ نظریہ تھاکہ جوکو‏ئی ان کی مخالفت کرےگاوہ کافرہے اوراس کاخون اورمال حلال ہے ،اس لئے انہوں ناحق خون بہانا شروع کر دیا اورحرام چیزوں کاارتکاب کرنے لگے؛ یہاں تک کہ علی رضی اللہ عنہ کے گورنر عبداللہ بن خباب بن الارت کو شہیدکردیا اوران کی حاملہ باندی کاپیٹ چاک کرکے بچہ کو نکال کراسے ذبح کردیا ۔
( مصنف ابن أبی شیبہ:/732، 733، تاريخ الأمم والملوك : 3/118، تاريخ بغداد : 1/94)
خوارج کے ان بھیانک جرائم کے باوجود علی رضی اللہ عنہ نے ان سے لڑائی میں پہل نہیں کیابلکہ اپنا قاصد قاتلین کو ان کے سپردکرنے کے لئے بھیجاتاکہ ان کو ان کے کئے کی سزادی جا سکے ، لیکن ان لوگوں نے نہایت ہی عناد اور سرکشی سے جواب دیا کہ ہم آپ کی بات کیسے مان سکتے ہیں جبکہ ہم سب نے مل کرقتل کیاہے ،یایہ جواب دیاکہ تم سب نے قتل کیاہے۔( مصنف ابن ابی شیبہ : 8/737) پھرعلی رضی اللہ عنہ اہل شام سے لڑائی کے لئے تیارکی گئی فوج لیکر محرم سنہ 38 ھ میں چلے ، آپ کی فوج دریا‎ئےنہروان کے مغربی جانب رکی جب کہ خوارج کی جماعت شہر نہروان کے مقابل مشرقی جانب ۔
( فكر الخوارج والشيعۃ لدكتور الصلابي: ص33)
علی رضی اللہ عنہ یہ بات اچھی طرح جانتے تھے کہ خوارج وہی جماعت ہے جن کے دین سے نکل جانے کی پیشن گوئی اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے کیاتھا، اسی لئے دوران سفرآپ اپنی فوج کوان سے لڑنے پرابھارتے رہے ۔
دونوں فوجوں کے درمیان نہرنہروان فاصل تھا علی رضی اللہ عنہ نے اپنی فوج کو لڑائی کی ابتداء کرنے سے منع کردیا تاآنکہ خوارج نہرپارکرکے مغربی جانب نہ آجائیں ، اس کے بعدانہوں نے براءبن عازب رضی اللہ عنہ کو قاصدبنا کر بھیجا
(السنن الكبرى للبیہقی: 8/179)
ان کے بعدبھی قاصدبھیجتےرہے یہاں تک ان لوگوں نے قاصدکو قتل کردیا اورنہر پارکرگئے۔
جب خوارج جرم کے اس حدکو پارکرگئے اورمصالحت کی ساری راہیں بندکردیں اور عنادوتکبرسے حق کی طرف لوٹنے سے انکارکردیااورلڑائی پرآمادہ ہوگئےتو امیر المؤمنین علی رضی اللہ عنہ نے اپنی فوج کو تیارکیااوران کی ترتیب کچھ یوں رکھی : میمنہ پرحجربن عدی کو اورمیسرہ پرشبث بن ربعی اورمعقل بن قیس الریاحی کو سواروں پرابوایوب انصاری اورپیدل پرابوقتادہ انصاری کو، اوراہل مدینہ – جن کی تعداد سات سوتھی- کاامیرقیس بنی سعدبن عبادہ کوبنایا، اورابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ کوامان کاپرچم اٹھانے کا حکم دیااور یہ اعلان کرنےکاحکم دیاکہ جواس جھنڈے کے نیچےآجائے وہ امن یافتہ ہے ، اورجوکوفہ اورمدائن چلاجا‏ئے وہ بھی مامون ہے ، ہم توصرف ان لوگوں کوچاہتے ہیں جنہوں نے ہمارے بھائیوں کو قتل کیاہے ۔ اس اعلان سے بہت سارےلوگ واپس ہوگئے اورعبداللہ بن وھب راسبی کے ساتھ ہزاریا ہزارسےکم ہی بچے۔
( فكر الخوارج والشيعة في ميزان أهل السنة والجماعة للدكتور الصلابي: ص34)
پھرخوارج نے " لاحکم الاللہ الرواح الرواح الی الجنۃ " کانعرہ لگاتے ہو‏ئے علی کی فوج کی طرف پیش قدمی شروع کر دی اورایک خون ریزجنگ کےبعدتقریباسارے خوارج مارےگئے اورمسعودی کےبقول ان میں سے دس سے کم ہی بچے جوزبردست ہزیمت کے بعد میدان چھوڑکر بھاگ نکلے۔
(فكر الخوارج والشيعة في ميزان أهل السنة والجماعة للدكتور الصلابي:ص34)
اورعلی رضی اللہ عنہ کی فوج میں سے صرف دوآدمی شہیدہوئے ۔
(صحيح مسلم : 1773)
اورایک روایت کے مطابق بارہ یاتیرہ آدمی .
(مصنف ابن ابی شیبہ: 5/311)
اورایک قول کےمطابق صرف نو افراد قتل کئے گئے ۔
(تاريخ بغداد : 1/83)
علی رضی اللہ عنہ شروع ہی سے ہاتھ کٹےہوئے ذوالثدیہ کا تذکر ہ کرتے اوراس کے اوصاف بیان کرتے کیو نکہ یہ خوارج کی علامتوں میں سےایک تھا، معرکہ ختم ہونے کے بعدانہوں نے اسے تلاش کرنےکاحکم دیا بہت تلاش کے بعدمقتولین کی لاشوں کے نیچے چھپاہواملا، جس پر علی رضی اللہ عنہ اورآپ کے اصحاب نے اللہ کا شکرادا کیا۔
(مصنف ابن ابی شیبہ: : 15 /317- 319 نیزدیکھئے : مسنداحمد:635)
نہروان میں ہزیمت کے دوماہ بعدانہوں نے نئے سرےسےسراٹھایا اورخراسان کے دسکرہ نامی جگہ میں ربیع الثانی سنہ 38 ھ میں اشرس بن عوف شیبانی کی قیادت میں علی رضی اللہ عنہ کی فوج سے دوبارہ قتال کیاجہاں انہیں پھرسے شکست ہوئی ۔
دسکرہ میں ہزیمت اٹھانے کے بعداگلےماہ حمادی الاولی سنہ38 ھ میں فارس کے ماسبذان میں ہلال بن علفہ اوراس کے بھائی مجالد کی قیادت میں تیسری بار علی رضی اللہ عنہ سے لڑائی کی ۔
ماسبذان میں شکست کے بعد اشہب بن بشر بجلی کی قیادت میں اسی سال دریائے دجلہ کے قریب جرجرایامیں لڑائی کی ۔اوررمضان سنہ 38 ھ میں بنوسعدتمیم کے ابومریم کی قیادت میں کوفہ پرچڑھائی کی جہاں علی رضی اللہ عنہ کی فوج سے مقابلہ ہو ا جس میں انہیں پھر ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا۔
اورعلی رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد جب حسن رضی اللہ عنہ نے خلافت معاویہ رضی اللہ عنہ کےلئے چھوڑدیا تب خوارج کی بغاوت اہل شام کے خلاف شروع ہوگئی، اورپہلی لڑائی میں معاویہ رضی اللہ عنہ کی فوج نے اہل کو فہ کی مددسے ان کو شکست دیدیا ۔
سنہ 41 ھ میں سہم بن غالب تمیمی اور خطیم باہلی نے بنوامیہ کے خلاف ان کی داخلی سازشوں کی قیادت کی یہاں تک کہ پانچ سال بعدسنہ 46 ھ میں زیادبن ابیہ نےبصرہ کے قریب ان کا قصہ تمام کیا۔
(تيارات الفكر الإسلامي لدكتور محمد عمارة: ص27، 28)
اس کے بعدبھی اموی حکومت کے خلاف ان کی سازشیں جاری رہیں آخر شوال سنہ 64 ھ میں انہوں نے نافع بن ازرق کی قیادت میں سب سے بڑی بغاوت کی اور سنہ 76 – 77 ھ میں انہوں نے شبیب بن یزید بن نعیم کی قیادت میں حجاج بن یوسف ثقفی کو کئی شکستیں دیں ، اس بعد بھی اموی خلافت کے خلا ف ان کی بغاوتیں جاری رہیں ۔ یہاں پر یہ بتاتے چلیں کہ انکی یہ بغاوتیں کوئی طویل اورمستقل حکومت قائم کرنےمیں کامیاب تو نہ ہو سکیں لیکن اموی خلافت کو مشکلات میں ڈالتی رہیں یہاں تک کہ سنہ 132 ھ میں عباسیوں کی بغاوت میں متزلزل ہوگئی اور ان سے خلافت عباسیوں میں منتقل ہوگئی ۔
(تيارات الفكر الإسلامي للدكتورمحمد عمارة: ص27، 28)
 

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,402
ری ایکشن اسکور
9,991
پوائنٹ
667
خوارج کے عقائد
مذہب خوارج کی بنیادچندفاسدعقائدپرہے ‏،گرچہ ابتداءمیں انہوں نے اپنےزعم کے مطابق اس کی بنیادحق پررکھی تھی ،اوراس کابنیادی سبب قرآن فہمی سے ناواقفیت اورسوءفہم تھا، شیخ الاسلام ابن تیمیہ کےبقول :
"خوارج جان بوجھ جھوٹ بولنے والوں میں سے نہیں تھے یہاں تک کہاجاتاہے کہ ان کی حدیثیں صحیح ترین ہواکرتیں تھیں لیکن یہ جہالت کی وجہ ہے اپنی بدعت میں گمراہ ہوگئے ، اوران کی بدعت الحادوزندقیت کی بنیادپرنہیں تھی قرآن کریم کے فہم سے جہالت وگمراہی کی بنیاد پر تھی "۔
(منہاج السنہ النبویہ :1/68) ۔
ذیل میں خوارج کے باطل عقائدمیں سے چند کاخلاصہ پیش کیاجارہاہے :
1- مرتکب کبیرہ کی تکفیر : خوارج کا یہ بنیادی عقیدہ ہے کہ کبیرہ گناہوں کا ارتکاب کرنے والا مطلق کافرہوتاہے جو ہمیشہ ہمیش جہنم میں رہےگا، کیونکہ ایمان ان کے نزدیک ایسی حقیقت ہے جس کی تقسیم وتجزء نہیں ہو سکتی ، لہذاجب اس کا کچھ حصہ زا‏ئل ہوگیاتو پوراکاپوراختم ہوگیا،شیخ الاسلام ابن تیمیہ کےبقول :
"خوارج ، مرجئہ ،معتزلہ اورجہمیہ وغیرہ جیسےفرقوں کاایمان سےمتعلق اصلی نزاع یہ ہے کہ ان کے نزدیک ایمان ایک (منجمد) چیز ہے اگراس میں کچھ بھی زائل ہوگیا توپوراکا پورا بربادہوگيا،اوراگرتھوڑابھی ثابت ہوگیاتوپوراکاپوراثابت ہوگيا۔۔۔"
(مجموع فتاوی ابن تیمیہ :7/510)
2 - ان کے مخالف تمام مسلمان مشرک ہیں : خوارج میں سے ایک غالی فرقہ ازارقہ ہے جس کا عقیدہ ہے کہ ان کے مخالف تمام مسلمان مشرک ہیں ،جوان کی دعوت قبول نہیں کریگااوران کے مذہب کو نہیں اپنائےگااس کا خون ، اس کی عورت ،اس کی اولاد حلال ہیں ، ان لوگوں نے علی رضی اللہ عنہ کو کافراور ان کے قاتل عبدالرحمن بن ملجم کو بہادرشہید گرداناہے۔ (إسلام بلا مذاهب للدكتور مصطفى الشكعة : ص133)
3 - جب لوگ واپس میں انصاف قائم کرسکتےہوں تو امام کی ضرورت باقی نہیں رہتی : خارجی فرقہ نجدات کے بقول جب لوگ واپس میں انصاف قائم کرسکتےہوں تو امام کی ضرورت باقی نہیں رہتی ، اوراگروہ سمجھتےہیں کہ امام کے بغیر انصاف نہیں ہوسکتا ہے اوروہ امام بنالیتےہیں تو یہ جائزہے ۔ چنانچہ ان کے نزدیک امام کا انتخاب شریعت کے واجب کرنےکی وجہ سے واجب نہیں ہے ، بلکہ جائزہے اور اگرواجب ہے تو مصلحت و ضرورت کے تقاضے کی بنیادپر۔( تاريخ المذاهب الإسلاميۃ لأبي زهرة:)
4 – خلافت کسی خاص قوم میں منحصرنہیں ہے : یہ کہتے ہیں کہ خلافت کسی خاص قوم میں منحصرنہیں ہے بلکہ ہر مسلمان جس کے اندرایمان ، علم اوراستقامت کی شرطیں پائی جائیں اس کااہل ہے ، اگراس سے بیعت کی جاتی ہے ۔( إسلام بلا مذاهب للدكتور مصطفى الشكعة : ص130) اسی بناپر ان لوگوں نے علی رضی اللہ عنہ سے جدال کیا،ائمہ مسلمین کے خلاف بغاوت کی،خونریز ی کی،مسلمانو ں کاقتل عام کیا اور مسلمانوں کی طاقت کو کمزورکرنےکی کوششیں کیں یہاں تک کہ اعداء اسلام ہرچہارجانب سے مسلمانوں پر پل پڑے۔
ان کے اس نظریہ سے صاف ظاہرہے کہ خلافت کے لئے قریشی نسب کےاشتراط کے جمہورکے اجماع کے خلاف ان کا عقیدہ ہے ۔(مقالات الإسلاميين واختلاف المصلين/أبو الحسن الأشعري:1/204،الفصل في الملل والأهواء والنحل /ابن حزم:4/89، فكر الخوارج والشيعة /د.الصلابي:ص55، 56)
5 – ائمہ جورکے خلاف بغاوت : ظالم ، فاسق اورکمزورائمہ کے خلاف خروج و بغاوت کے وجوب پرتمام خوارج کا اجماع ہے ، کہتے ہیں کہ مذکورہ ائمہ کے خلاف اگرچالیس افرادہوجاتےہیں تو ان کے اوپربغاوت اور ان کے خلاف خروج ان پر واجب ہوجاتی ہے ، اوراس حدکو "حدالشراء" کانام دیتےہیں ، جس کا مطلب ان کے نزدیک یہ ہے کہ انہوں نے اپنی جانوں کے بدلے جنت خریدلیاہے، ان کے نزدیک ایسی صورت میں چپ بیٹھناجائزنہیں ہے الا یہ کہ انکی تعداد تین سے کم ہو۔ (تيارات الفكرالإسلامي/د.محمدعمارة:ص22,مقالات الإسلاميين/الأشعري :1/32)
6 – ابوبکروعمررضی اللہ عنہما کی امامت کا اثبات اورعثما ن وعلی رضی اللہ عنہما کی تکفیر: یہ لوگ ابوبکر وعمررضی اللہ عنہما کی امامت وخلافت کو صحیح مانتے ہیں جبکہ عثمان وعلی رضی اللہ عنہماکی خلافت کو غیرصحیح یہاں تک کہ ان لوگوں ان دونوں خلفاء کے ساتھ ساتھ طلحہ،زبیر،معاویہ ،عمروبن العاص،ابوموسی اشعری،عبداللہ بن عباس اور اصحاب جمل وصفین کی تکفیرکی ہے ۔( عقيدة أهل السنۃوالجماعۃ في الصحابۃ الكرام/ د. ناصر علي عائض حسن الشيخ: /1157،فكر الخوارج والشيعة /د.الصلابي: ص61، مقالات الإسلاميين/ الأشعري: 1/204)
7 – سنت کی حجیت کاانکار : قرآن کریم پرغایت درجہ تمسک کے باوجود ان کے یہاں سنت کی حجیت میں تمہل پایا جاتاہے ، یہاں تک کہ ان کے نزدیک ظاہرقرآن سے مخالفت کی وجہ سے متواترروایتیں بھی ناقابل احتجاج ہیں ، یہ سنت کا اتناہی حصہ لیتےہیں جومجمل ہو اورقرآن نے اس کی تفسیرکی ہو۔
( دیکھئے : مجموع فتاوی ابن تیمیہ :13/48،49)
8 – صفات باری تعالی میں معتزلہ کی موافقت : صفات باری تعالی میں ان کا موقف کچھ حدتک معتزلہ سے ملتاجلتا ہے ، لہذامن جملہ یہ نفاۃ معطلہ میں سے ہیں کیونکہ یہ قیامت کے روزرؤیت باری تعالی کے منکرہیں نیزخلق قرآن کے قائل بھی ، بقول امام ابوالحسن اشعری :
"خوارج تمام کے تمام خلق قرآن کےقائل ہیں "۔
( دیکھئے: مقالات الاسلامیین :ص 203)
 

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,402
ری ایکشن اسکور
9,991
پوائنٹ
667
خوارج کی حکومتیں
جیساکہ مذکورہ سطورمیں یہ بیان کیاجاچکا ہے کہ خوارج کی کو ئی باضابطہ مستقل او رطویل حکومت تو قائم نہ ہو سکی لیکن انہوں نے بعض علاقوں پرقبضہ کرکے اپنی سیادت قائم کرنے کی کوششیں ضرورکیں ،اس ضمن میں خوارج صفریہ کاظہور مغرب اقصی میں ہو ا اوران لوگوں نے اس پرقبضہ کرلیا اوراباضیہ کا وسط مغرب اور اس کے نچلے علاقوں میں (الدولة العباسية/محمود شاكر: 5/87) اسی طرح صفریہ کی حکومت سجلماسہ میں قائم ہوئی جسے دولت بنی مدرارکہا جاتا ہے ۔ (الدولة العباسية / محمود شاكر:5/161)
تاہرت میں دولت رستمیہ کے نام سے ایک حکومت قائم کی جو سنہ 160 ھ سے 296 ھ پرمحیط تھی اس کا امام عبدالرحمن بن رستم تھا۔ (الدولة العباسية/محمود شاكر: 5/134,إسلام بلامذاهب/د.مصطفى الشكعة :ص 163)
اورقطرعمانی میں اسلام کے دخول ہی سے اباضی مذہب کا ٹھکانہ رہاہے ۔عمان کے اندر باضابطہ امامت اولی کاآغازسنہ 132ھ میں ہواجس کا پہلا امام جلندی بن مسعودبن جلندی جلندانی تھا ، اورفی نفس الوقت اباضیوں کا تین امام تھا ، عمان میں جلندی ، یمن میں طالب الحق عبداللہ بن یحیی اورافریقہ میں ابو الخطاب معافری ، اوریہ وہی سال ہے جس میں خلافت بنی امیہ کا سقوط اور بنو عباسیہ کا قیام عمل میں آیا ۔
سنہ 179 ھ میں بنی خروص میں سے وارث بن کعب کی بیعت ہوئی اورامامت بنی خروص کی طرف منتقل ہوگئی ، جوسنہ 400ھ کے بعدتک رہی ، پھراس کے بعدنباہنہ کی امامت شروع ہوئی ۔
سنہ 1034 ھ میں یعربیوں کی امام ت شروع ہوئی جس کا پہلا امام ناصربن مرشدبن سلطان یعربی حمیری ازدی تھا ، پھر یعربیوں سے امامت احمدبن سعیدبوسعیدی کی طرف سنہ 1154ھ میں منتقل ہوگئی جوموجودہ عمانی خاندان حکومت کاجدامجدہے ۔(إسلام بلامذاهب/د.مصطفى الشكعة:ص151)
 

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,402
ری ایکشن اسکور
9,991
پوائنٹ
667
احادیث نبویہ میں خوارج کی مذمت
جیساکہ پہلےمذکورہواکہ خوارج کے وجودکی پیشن گوئی اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلےہی کردی تھی ، ذیل میں ہم وہ روایتیں پیش کررہےہیں جن میں خوارج اوران کی علامتوں کابیان اوران کی مذمت ہے :
(1) ابوسعیدخدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے ، فرماتےہیں : ایک بار اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم مال غنیمت کو تقسیم کررہے تھے کہ بنوتمیم کا ذوالخویصرہ آیا اورکہا: اےاللہ کے رسول ! انصاف کیجئے ۔ توآپ نے فرمایا :
" وَيْلَكَ! وَمَنْ يَعْدِلُ إِذَا لَمْ أَعْدِلْ، قَدْ خِبْتَ وَخَسِرْتَ إِنْ لَمْ أَكُنْ أَعْدِلُ"."تیری بربادی ہو!اگرمیں انصاف نہیں کرسکتاتو کون کرسکتاہے ، اوراگرمیں انصاف نہ کر سکوں توتوخائب وخاسرہوجائے" ۔
عمربن خطاب رضی اللہ عنہ نےکہا: اےاللہ کےرسول !مجھےاجازت دیجئے کہ میں اس کی گردن ماردوں ۔ توآپ نے فرمایا :
" "دَعْهُ، فَإِنَّ لَهُ أَصْحَابًا يَحْقِرُ أَحَدُكُمْ صَلاَتَهُ مَعَ صَلاَتِهِمْ وَصِيَامَهُ مَعَ صِيَامِهِمْ، يَقْرَءُونَ الْقُرْآنَ لاَ يُجَاوِزُ تَرَاقِيَهُمْ، يَمْرُقُونَ مِنْ الدِّينِ كَمَا يَمْرُقُ السَّهْمُ مِنْ الرَّمِيَّةِ، يُنْظَرُ إِلَى نَصْلِهِ فَلاَ يُوجَدُ فِيهِ شَيْءٌ، ثُمَّ يُنْظَرُ إِلَى رِصَافِهِ فَمَا يُوجَدُ فِيهِ شَيْءٌ، ثُمَّ يُنْظَرُ إِلَى نَضِيِّهِ -وَهُوَ قِدْحُهُ- فَلاَ يُوجَدُ فِيهِ شَيْءٌ، ثُمَّ يُنْظَرُ إِلَى قُذَذِهِ فَلاَ يُوجَدُ فِيهِ شَيْءٌ، قَدْ سَبَقَ الْفَرْثَ وَالدَّمَ، آيَتُهُمْ رَجُلٌ أَسْوَدُ إِحْدَى عَضُدَيْهِ مِثْلُ ثَدْيِ الْمَرْأَةِأَوْمِثْلُ الْبَضْعَةِ تَدَرْدَرُ،وَيَخْرُجُونَ عَلَى حِينِ فُرْقَةٍ مِنَ النَّاسِ"جانےدے ،اس کے کچھ ایسےساتھی ہونگے جن کی نمازاورروزے کے سامنے تمہاری نمازاورروزہ ہیچ ہے ، یہ لوگ قرآن پڑھیں گے لیکن ان کے گلےسے نہیں اترےگا ، یہ دین سے ایسے نکل جائیں گے جیسے تیرشکارکےجسم سے نکل جاتا ہے،تیرکے پیکان کو دیکھا جاتاہے تواس میں کچھ نہیں ملتا، پھراس پیکان کی جڑکودیکھاجاتاہےتواس میں کچھ نہیں ملتاپھراس کی ڈنڈی کی طرف دیکھاجاتا ہے تو اس میں کچھ نہیں ملتاہےپھراس کے پرکی طرف دیکھاجاتاہے تواس میں بھی کچھ نہیں ملتاہے ،اورتیراس شکار کے بیٹ اورخون سے نکل چکاہوتاہے ، ان کی نشانی ایک کالاآدمی ہوگاجس کاایک شانہ عورت کی پستان کی طرح ہوگا جیسےتھلتھلاتا ہوا گوشت کاٹکڑا، ان کاخروج لوگوں کے اختلاف کے وقت ہوگا" ۔
بخاری کی روایت میں ہے :
"إن من ضئضئ هذا قوما يقرءون القرآن لا يجاوز حناجرهم يقتلون أهل الإسلام ويدعون أهل الأوثان يمرقون من الإسلام كما يمرق السهم من الرمية لئن أدركتهم لأقتلنهم قتل عاد""اس کی نسل سے ایسے لوگ ہونگےجو قرآن پڑھیں گے لیکن ان کےگلےسےنہیں اترےگا ،اہل اسلام کوقتل کریں گےاوربتوں کے پجاریوں کودعوت دیں گے یہ دین سے ایسے نکل جائیں گے جیسے تیرشکارکےجسم سے نکل جاتاہے،اگرمیں ان کوپالوں توقوم عادکی طرح ان کوقتل کروں گا"۔
ابوسعیدخدری رضی اللہ عنہ فرماتےہیں :میں گواہی دیتاہوں کہ میں نے یہ حدیث اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سےسناہے ، اورمیں گواہی دیتاہوں کہ علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے ان سے لڑائی کی اورمیں ان کے ساتھ تھا، (لڑائی کے بعد) انہوں نے اس آدمی کو تلاش کرنےکاحکم دیااوراسے ڈھونڈھ کرلایاگیا اورمیں نے اسے بعینہ ویساہی پایاجیساکہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمایاتھا۔( صحيح البخاري : 3341 ،3344،4351 ومسلم : 1064،1065،1066 ).
(2) علی رضی اللہ عنہ فرماتےہیں : جب میں اللہ کےرسول سے کوئی حدیث بیان کروں تو مجھےآپ پرجھوٹ بولنے سے بہترآسمان سے گرنازیادہ پسندہے ،اورجب تیرےاورمیرےدرمیان کوئی بات ہوتوجان لوکہ جنگ چالوں سے لڑی جاتی ہے ، میں نے اللہ کےرسول کو فرماتےہوئے سنا: يأتي في آخر الزمان قوم حدثاء الأسنان سفهاء الاحلام يقولون من خير قول البرية يمرقون من الإسلام كما يمرق السهم من الرمية لا يجاوز إيمانهم حناجرهم فأينما لقيتموهم فاقتلوهم,فان قتلهم أجرلمن قتلهم يوم القيامة "
"اگلےوقت میں کم عمر، کم عقل لوگوں پرمشتمل ایک قوم آ‏ئےگی یہ لوگ مخلوق کی سب سے اچھی باتیں کہیں گے یہ اسلام سے ایسے نکل جائیں گے جیسے تیرشکارکےجسم سے نکل جاتاہے،ان کاایمان ان کے گلےسے نہیں اترےگا،انہیں جہاں پاؤمارڈالو، کیونکہ جوانہیں قتل کرےگاقیامت کے دن اسےاجردیاجائےگا"
(بخاری : 3611 ومسلم :1066)۔
(3) یسیربن عمرو کہتےہیں کہ میں نے سہل بن حنیف سے پوچھاکہ آپ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے خوارج کا ذکر سناہے ؟ توانہوں نے کہا": ہاں سناہے ، اوراپنے ہاتھ سے مشرق کی جانب اشارہ کیا ( اورفرمایا) : "قَوْمٌ يَقْرَءُونَ الْقُرْآنَ بِأَلْسِنَتِهِمْ لاَ يَعْدُو تَرَاقِيَهُمْ، يَمْرُقُونَ مِنْ الدِّينِ كَمَا يَمْرُقُ السَّهْمُ مِنْ الرَّمِيَّةِ""
ایک قوم ہوگی جوزبان سے قرآن مجیدکی تلاوت کرےگی ، جبکہ ان کے گلےسے نہیں اترےگا،یہ دین سے ایسے نکل جائیں گے جیسے تیرشکارکےجسم سے نکل جاتاہے"
(مسلم : 1068).
(4) ابوسعیدخدری اورانس بن مالک سے مروی ہے کہ اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:" "سَيَكُونُ فِي أُمَّتِي اخْتِلاَفٌ وَفُرْقَةٌ، قَوْمٌ يُحْسِنُونَ الْقِيلَ وَيُسِيئُونَ الْفِعْلَ،يَقْرَءُونَ الْقُرْآنَ لاَيُجَاوِزُتَرَاقِيَهُمْ، يَمْرُقُونَ مِنْ الدِّينِ مُرُوقَ السَّهْمِ مِنْ الرَّمِيَّةِ، لاَ يَرْجِعُونَ حَتَّى يَرْتَدَّ عَلَى فُوقِهِ، هُمْ شَرُّ الْخَلْقِ وَالْخَلِيقَةِ، طُوبَى لِمَنْ قَتَلَهُمْ وَقَتَلُوهُ، يَدْعُونَ إِلَى كِتَابِ اللَّهِ وَلَيْسُوا مِنْهُ فِي شَيْءٍ، مَنْ قَاتَلَهُمْ كَانَ أَوْلَى بِاللَّهِ مِنْهُمْ". قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَا سِيمَاهُمْ؟ قَالَ: "التَّحْلِيقُ"
"میری امت میں اختلاف وانتشارہوگا، ایک ایسی جماعت ہوگی جواچھی باتیں کرےگی اوربراکام کرےگی،، یہ لوگ قرآن پڑھیں گے لیکن ان کے گلےسے نہیں اترےگا، یہ دین سے ایسے نکل جائیں گے جیسے تیرشکارکےجسم سے نکل جاتاہے،وہ اس وقت تک واپس نہیں آسکتےتاآنکہ وہ تیراپنےہدف پرواپس آجائے وہ بری مخلوق اوربرےاطواروالےہیں ، خوشخبری ہے اس کے لئے جس نے انہیں قتل کیااورجسےانہوں نے قتل کیا، وہ اللہ کی کتاب کی طرف بلاتےہیں لیکن خوداس پرعمل نہیں کرتے، جوان سے جہادکرےوہ ان کے مقابلے اللہ سے زیادہ قریب ہے " لوگوں نے پوچھا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ان کی نشانی کیاہے ؟ تو آپ نے فرمایا: " سرمنڈانا"
اورانس رضی اللہ عنہ کی روایت میں ہے : "سِيمَاهُمْ التَّحْلِيقُ وَالتَّسْبِيدُ، فَإِذَا رَأَيْتُمُوهُمْ فَأَنِيمُوهُمْ"
"ان کی علامت بال منڈاناہے ،جب تم ان کودیکھو تو انہیں قتل کرڈالو"
(سنن أبی داؤد :4767, 4768).
(5) ابوکثیر سے مروی ہے وہ کہتےہیں کہ میں اہل نہروان کے قتل کے وقت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھااہل نہروان کے قتل سے کچھ لوگ کبیدہ خاطرتھے اس وقت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا :"يَا أَيُّهَا النَّاسُ، إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ قَدْ حَدَّثَنَا بِأَقْوَامٍ يَمْرُقُونَ مِنْ الدِّينِ كَمَا يَمْرُقُ السَّهْمُ مِنْ الرَّمِيَّةِ، ثُمَّ لاَ يَرْجِعُونَ فِيهِ أَبَدًا حَتَّى يَرْجِعَ السَّهْمُ عَلَى فُوقِهِ، وَإِنَّ آيَةَ ذَلِكَ أَنَّ فِيهِمْ رَجُلاً أَسْوَدَ مُخْدَجَ الْيَدِ إِحْدَى يَدَيْهِ كَثَدْيِ الْمَرْأَةِ لَهَا حَلَمَةٌ كَحَلَمَةِ ثَدْيِ الْمَرْأَةِ،حَوْلَهُ سَبْعُ هُلْبَاتٍ فَالْتَمِسُوهُ؛ فَإِنِّي أُرَاهُ فِيهِمْ. فَالْتَمَسُوهُ فَوَجَدُوهُ إِلَى شَفِيرِ النَّهَرِ تَحْتَ الْقَتْلَى فَأَخْرَجُوهُ، فَكَبَّرَ عَلِيٌّ فَقَالَ:اللَّهُ أَكْبَرُ!صَدَقَ اللَّهُ وَرَسُولُهُ...."(مسندأحمد :635).
"لوگو ! اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم نےایک ایسی قوم کے بارےمیں بیان فرمایاجو دین سے ایسے نکل جائیں گے جیسے تیر شکار کےجسم سے نکل جاتاہے،وہ اس وقت تک واپس نہیں آسکتےتاآنکہ وہ تیراپنےہدف پرواپس آجائے،ان کی نشانی یہ ہوگی کہ ان میں ایک کالاآدمی ہوگاحس کاہاتھ ناقص ہوگا،اس کا ایک ہاتھ عورت کی پستان کی طرح ہوگا، اس میں عورت کی پستان کی ابھارکی طرح ابھارہوگاجس کے گردسات بال ہونگے، اسے تلاش کرو؛میں نے ان لوگوں میں اسے دیکھاہے ،لوگوں سے اسےتلاش کیاتودریاکے کنارے لاشوں کےنیچےملا، اسے نکالاگیاتوعلی رضی اللہ نے اللہ اکبرکہا، اورفرمایا: اللہ اوراس کے رسول نے سچ فرمایا ۔۔۔۔۔۔"۔
(6) ابن أبی أوفى رضی اللہ عنہ سےمروی ہے ، وہ فرماتےہیں کہ اللہ کے رسول نے فرمایا :"الخوارج كلاب النار"(صحیح سنن ابن ماجہ:143)
خوارج جہنم کےکتےہیں".
(7) ابوذررضی اللہ عنہ سے مروی ہے فرماتےہیں کہ اللہ کےرسول نےفرمایا : "إن بعدى من أمتى أوسيكون بعدى من أمتى قوم يقرأون القرآن,لايجاوزحلاقيمهم , يخرجون من الدين كما يخرج السهم من الرّميّة, ثم لايعودون فيه , هم شرالخلق والخليقة". (مسلم: 1067)
"میرےبعدمیری امت میں ایک ایسی قوم ہوگی جو قرآن پڑھےگی لیکن ان کے گلےسے نہیں اترےگا، یہ دین سے ایسے نکل جائیں گے جیسے تیرشکارکےجسم سے نکل جاتاہے،پھریہ دین میں واپس نہیں آئیں گے، وہ بری مخلوق اوربرے اطوار والےہیں"۔
(8) عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتےہیں کہ :اللہ کے رسول نے فرمایا :"يخرج في آخر الزمان قوم أحداث الأسنان،سفهاء الأحلام، يقرءون القرآن لايجاوزتراقيهم،يقولون من قول خير البرية، يمرقون من الدين؛كمايمرق السهم من الرمية"(صحيح الترمذي : كتاب الفتن باب صفة المارقة:2188)
"اگلےوقت میں کم عمر، کم عقل لوگوں پرمشتمل ایک قوم آ‏ئےگی یہ لوگ مخلوق کی سب سے اچھی باتیں کہیں گے یہ اسلام سے ایسے نکل جائیں گے جیسے تیرشکارکےجسم سے نکل جاتاہے "
امام ترمذی فرماتے ہیں کہ :
" یہاں پرخوارج اورحروریہ وغیرہ مرادہیں "۔
(9) عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہماسے مروی ہے (انہوں نے حروریہ کے ذکرکے موقع سے فرمایا کہ ):اللہ کے رسول نے فرمایا:"يمرقون من الإسلام مروق السهم من الرمية"(بخاری:6932)
"یہ اسلام سے ایسے نکل جائیں گے جیسے تیرشکارکےجسم سے نکل جاتاہے "
اورایک روایت میں ہے :"ينشأ نشأ يقرؤون القرآن لا يجاوزتراقيهم,كلماخرج قرن قطع حتى يخرج في عراضهم الدجال"(صحيح سنن ابن ماجہ :144)
"کچھ لوگ پیدا ہونگےجو قرآن مجیدکی تلاوت کریں گےلیکن ان کے گلےسے نہیں اترےگا ،جب جب کو‏‏ئی جماعت نکلےگی اسےختم کردیاجائےگا،یہاں تک کہ انہیں میں سے دجال کاظہورہوگا"۔
(10) صحیح بخاری کے اندرہے:" كتاب إستتابة المرتدين : باب قتل الخوارج والملحدين بعد إقامة الحجة عليهم وقول الله تعالى: {وما كان الله ليضل قوماًبعدإذهداهم حتى يبين لهم مايتقون‎‎}وكان ابن عمررضي الله عنهمايراهم شرارخلق الله وقال:إنهم انطلقوا إلى آيات نزلت في الكفار فجعلوها على المؤمنين"
"عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہما انہیں اللہ کی سب سے بری مخلوق میں سے سمجھتے تھے، اورکہتے تھےکہ : یہ لوگ قرآن کی ایسی آیتوں کوجو کافروں کے سلسلے میں نازل ہوئی ہے مؤمنین پرمنطبق کرتےہیں "۔
(11) ابوامامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے :"شر قتلى تحت أديم السماء، وخير قتيل من قتلوا، كلاب أهل النار،قدكانواهؤلاء مسلمين فصاروا كفاراً، قلت : يا أبا أمامة ! هذا شئ تقوله ؟ قال بل سمعته من رسول الله صلى الله عليه وسلم"(صحیح ابن ماجہ :146)
"آسمان کے نیچے سب سے برے مقتول ہیں ، اورجن کو انہوں نے شہید کیاہے وہ سب سے اچھے مقتول ہیں ، یہ لوگ جہنم والوں کے کتےہیں ، یہ لوگ مسلمان تھے پھرکافرہوگئے، (راوی کہتےہیں ) میں نے کہا:اے ابوامامہ !یہ آپ کہہ رہے ہیں ؟ تو انہوں نے فرمایا : میں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سناہے "۔
(12) عبید بن ابی رافع سے مروی ہے ، وہ فرماتےہیں :" حروریہ نے جب خروج کیاتومیں علی رضی اللہ عنہ کےساتھ ہی تھا ، ان لوگوں نے " لاحکم الا للہ" کانعرہ لگایا تو علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
"بات حق ہے مگرغلط مقصد کی خاطر استعمال کی گئی ہے، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ لوگوں کی صفتیں بتائی تھی جومیں ان لوگوں میں دیکھ رہا ہوں ، یہ حق بات کہتے توہیں مگر خودان کے گلےسے نہیں اترتی ،یہ اللہ کے نزدیک سب سے مبغوض مخلوق میں سے ہیں "
(مسلم :1066).
 
Top