محمد عامر یونس
خاص رکن
- شمولیت
- اگست 11، 2013
- پیغامات
- 17,117
- ری ایکشن اسکور
- 6,786
- پوائنٹ
- 1,069
بسم الله الرحمن الرحيم
خودکش دھماکے! شریعت کے میزان میں
محمد @رفیق طاہر
مقدمہ
یہ بات تو روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ ان دھماکوں میں مسلمانوں کی بے شمار جانیں ضائع اور املاک تباہ کر دی جاتی ہیں جسکے نتیجہ میں اہل اسلام میں خوف ہراس پھیلتا ہے اور مسلمان ہی بدنام ہوتے ہیں ۔ اور اسکے ساتھ ساتھ مسلمانوں کی معیشت کا بھی ستیاناس ہوتا ہے اور سینکڑوں یتیموں اور بیواؤں کا بوجھ امت مسلمہ کے کندھوں پر آن پڑتا ہے ۔ اور دشمن اہل اسلام کو داخلی طور پر کمزور دیکھ کر ان پر یلغاریں تیز کر دیتا ہے اور خانہ جنگی کی سی صورت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے کفار کی خفیہ ایجنسیوں کو کُھل کھیلنے کا موقع ملتا ہے ۔ اور حقیقت بھی یہی ہے کہ یہ سب دھماکے جو اسلامی ممالک اور بالخصوص پاکستان میں کیے جاتے ہیں انکا مقصد اسکے سوا اور کچھ نہیں کہ مملکت خدا داد پاکستان کو ا یک غیر محفوظ ریاست ثابت کرکے اسکے جوہری اثاثوں کی حفاظت کے بہانے سے ہمیشہ کے لیے اس نعمت خداوندی سے محروم کر دیا جائے اور پھر اسلام کے اس قلعہ کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا جائے ۔ کیونکہ دنیا میں جب کبھی کسی بھی جگہ مسلمانوں پر ظلم وستم ہوتا ہے تو انکی نظریں پاکستان پر ہی جمتی ہیں کہ یہی وہ ملک ہے جہاں سے اسلام اور اہل اسلام کا دفاع ممکن ہے ۔
یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ جب بھی مسلمان مغلوب ہوئے ہیں تو کبھی کسی کافر نے بزور شمشیر انہیں مغلوب نہیں کیا بلکہ مسلمانوں میں ہی غدار پیدا کیے گئے اور اسلام کے قلعہ کی فصیل کبھی نہیں ٹوٹی بلکہ ہمیشہ اسکے دروازے اندر سے ہی کھولے گئے ہیں۔اور آج بھی شریعت یا شہادت کے خوشنما نعرہ کے ساتھ خارجیوں کی سنت پر عمل پیرا ہوتے ہوئے فی سبیل اللہ فسادکرنے والے شہیدی (خودکُش)حملوں کے نام پر سرزمین پاکستان کو آتش وآہن کی لپیٹ میں دیے ہوئے ہیں اور زبان حال سے کہہ رہے ہیں کہ اے دنیا کے طاغوتو ! ہم نے پاکستانیوں کو اندر سے الجھا رکھا ہے , اب تم ہمت کرو اور اسکی سرحدوں کو توڑ کر جلدی سے داخل ہو جاؤ تاکہ ہم تمہارے ساتھ مل کر شریعت نافذ کریں ۔
جی ہاں ! ائمۃ الکفر کے زیر سایہ شریعت اسلام نافذ کرنا چاہتے ہیں کیونکہ ان دھماکوں کے ماسٹر مائنڈز سے لے کر قتل ہونے والے خود کش بمباروں تک سب کے سب صرف مسلمانوں پر بارود برساتےہیں اور انہوں نے کبھی آج تک بت پرستوں کو غصیلی آنکھ سے بھی نہیں دیکھا ! , ان کی دھمکیوں اور دھماکوں کا ہدف صرف رب ذوالجلال کے حضور سربسجود ہونے والے لوگ ہی ہیں, بت کدوں کو تحفظ دینے کے لیے مساجد ومدارس کا استحصال انکا پسندیدہ مشغلہ ہے۔ ارض پاکستان کو دار الحرب اور دار الکفر قرار دے کر کبھی افواج پاکستان , عدلیہ ومقننہ اور دیگر حکومتی ادارے ان کی شر انگیزیوں کا محور بنتے ہیں اور کبھی عوام پاکستان ۔ الغرض انکا کوئی بھی تیر مسلمانوں کے متفقہ دار الحرب و دار الکفر امریکہ وانڈیا کے خلاف استعمال نہیں ہوتا! ۔ اور اس پر مستزاد یہ بھی ایک سوالیہ نشان ہے کہ انکے پاس یہ بھاری اسلحہ , گولہ وبارود کہاں سے آیا , کہ افغان طالبان بھی ان سے اعلان برأت کر چکے اور انہوں نے کسی کافر پر حملہ آور ہو کر مال غنیمت بھی حاصل نہیں کیا! کہیں انکی سپلائی یاروں کے گھر سے تو نہیں آرہی ؟؟؟ا ور وہ اسی نمک حلالی کے ذوق میں انہیں کچھ کہنے سے قاصر ہیں۔
وہ ہندوستان کے بت پرستوں کو کچھ کہہ بھی کیوں سکتے ہیں ؟ کہ انہوں نے ان ہنومان کے پجاریوں کے زخموں پر مرہم رکھا ہے ۔ جی ہاں ! وہ زخم جو انہیں مقبوضہ کشمیر میں لگے تھے جسکی وجہ سے ہندوستان کی آدھی فوج مقبوضہ وادی میں مصروف ہوگئی ہے ۔اسکا بدلہ چکانے کے لیے پاکستان میں جابجا دھماکے کرکے پاک فوج کو بھی سرحدوں کی حفاظت کے بجائے ارض پاک کے گلی کوچوں میں مصروف کرکے , قبائلی علاقوں میں الجھا کر کئی ایک مقبوضہ کشمیر پیدا کرنا چاہتے ہیں ۔ تاکہ جب انڈیا یا امریکہ اچانک حملہ کرے تو افواج پاکستان اپنے ہی شہروں میں پھنس چکی ہو ۔ اور یہ کام ایک مضبوط پلاننگ کے تحت کیا جا رہا ہے ۔ جسکا ناچاہتے ہوئے بھی اظہار امریکہ کی طرف سے کیا جاچکا ہے کہ "ہمارا اصل ہدف افغانسان وعراق نہیں بلکہ پاکستان تھا " !!! ۔ اور وہ پاکستان کے خلاف ڈرون حملوں اور داخلی خودکُش دھماکوں کے ذریعہ محاذ گرم کیے ہوئے ہیں , کیونکہ کرگسوں میں اتنی جرأت کہاں کہ وہ میرے شاہینوں اور شہبازوں سے پنجہ آزمائی کرسکیں بلکہ انکی آنکھ میں آنکھ ڈالنے کی سکت سے بھی محروم ہیں , ہاں پتھر کے دور میں پہنچانے جیسی گیدڑ بھبکیاں ضرور لگاتے رہتے ہیں ۔ جبکہ مفت کے مفتی جنکے فتووں کا کوئی بھی بھاؤ نہیں ہے , وہ کتاب وسنت کے دلائل کو توڑ مروڑ کر اس خانہ جنگی کے لیے جواز فراہم کر رہے ہیں , اور ان دھماکوں کو نفاذ اسلام اور غلبہء اسلام کی کوششوں سے تعبیر کیا جارہا ہے ۔ مسلم امت کے ناحق خون کو کبھی قتل خطا کہہ دیا جاتا ہے اور کبھی اسکے جواز کی بودی دلیلیں پیش کی جاتی ہیں اور کبھی اس جرم بے جرم کی پاداش میں بہنے والے خون کو اپنی مجبوری کے رنگ میں چھپانے کی سعی لاحاصل کی جاتی ہے ۔
یاد رہے کہ ملک پاکستان شریعت اسلامیہ کے نفاذ کے لیے ہی معرض وجود میں آیا تھا لیکن کچھ داخلی و خارجی مجبوریاں اور کچھ اپنوں کی کرم فرمائیوں کے نتیجہ میں یہ خواب تا حال صحیح طور پر شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکا ۔ اور ہر سچا مسلمان اپنے سینہ میں آج بھی یہ تڑپ اور طلب لیے ہوئے ہے کہ لا الہ الا اللہ کی بنیاد پر حاصل کیا جانے والا قطعہء ارضی اللہ کے نظام پر چلنے والی مثالی ریاست بن جائے ۔ لیکن اسکا طریقہ کار جو اہل فساد نے اپنا رکھا ہے تمام تر اہل نظر اس سے اختلاف رکھتے ہیں کیونکہ شریعت کا نفاذ صرف اور صرف اس طریقہ سے ممکن ہے جسے رہبر شریعت , امام الانبیاء جناب محمد مصطفى ﷺ نے اپنایا تھا ۔ اور وہ طریقہ ومنہج قتل وغارت گری , مسلمانوں کی جان ومال کے ضیاع , خوف ہراس پھیلانے , اور بغاوت کرنے والا نہ تھا , بلکہ وہ طریقہ عقیدہ وعمل کی احسن انداز میں دعوت دے کر دلوں پر تسلط قائم کرنے کا تھا کہ جسکے نتیجہ میں پہلی اسلامی حکومت مدینہ منورہ میں قائم ہوئی اور جسکے نتیجہ میں تلوار چلائے بغیر مکہ فتح ہوا ۔
اسلام نے تلوار صرف وہاں اٹھائی ہے جہاں اسے دعوت کے راستے مسدود نظر آئے اور زور بازو آزمانے کے سوا کوئی چارہ کار باقی نہ بچا , یا پھر دشمنوں کے حملوں کو روکنے کے لیے جہاد کیا گیا ۔ لیکن اس میں بھی قتل عام کی اجازت نہ تھی , بلکہ عورتوں , بچوں , بوڑھوں کو قتل کرنا تو سرے سے ہی ممنوع تھا , حتى کہ ان جوانوں کو بھی تہ تیغ کرنے روک دیا گیا جو ہتھیار گرا دیں اور مسلمانوں پر حملہ آور نہ ہوں ۔ جبکہ فسادیوں کے ان دھماکوں اور خودکُش کاروائیوں میں جان بوجھ کر بے گناہ بچوں اور عورتوں کو قتل کیا جاتاہے , نہتے شہریوں کو خاک وخوںمیں نہلا دیا جاتا ہے ۔ اور اکثر وبیشتر اپنے اس ہدف تک رسائی میں ناکامی ہی ہوتی ہے کہ جسے ہدف بنانا شرعی طور پر بھی درست نہیں ہوتا ۔
زیر نظر کتابچہ میں ہم اسی بات پر بحث کریں گے کہ :
1. کسی بھی مسلمان کو جان بوجھ کر یا انجانے میں قتل کرنے کی شرعی حیثیت کیا ہے ؟
2. جاہل مفتیوں نے ان دھماکوں کے جواز میں جو فتاوى دیے ہیں انکی کیا حقیقت ہے ؟
3. دھماکے کے انداز اور طریقہ کار کو اسلام میں کیا حیثیت حاصل ہے ؟
4. پاکستان میں کیے جانے والے دھماکوں کا فائدہ کسے اور نقصان کس کو ہوا ہے ؟
محمد رفیق طاہر
۲۰جمادى ثانیہ۱۴۳۵ھ