محمد فیض الابرار
سینئر رکن
- شمولیت
- جنوری 25، 2012
- پیغامات
- 3,039
- ری ایکشن اسکور
- 1,234
- پوائنٹ
- 402
بیماری سے گناہ کم ہوتے ہیں:
تندرستی کے برقرار رہنے کے لیے ضروری ہے کہ انسانوں کا واسطہ چھوٹی موٹی بیماری سے پڑتا رہے، تاکہ اس کے جسم سے غیرضروری اجزا اور فضلات کا اخراج ہوتا رہے۔ اس کا دوسرا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ اس کے ذریعہ گناہ کم ہوتے ہیں۔ کیوں کہ اللہ تعالیٰ جس بندے سے خفا ہوتا ہے تو اسے بیماری میں مبتلا کردیتا ہے تاکہ بندہ نے جو گناہ کیاہے اس کی مدافعت ہوجائے۔ چنانچہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
مسلمانوں کو جوبھی تکلیف پہنچتی ہے یہاں تک کہ اسے کوئی کانٹا بھی چبھتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے ذریعہ سے گناہوں کو مٹادیتا ہے
اگر کسی مومن بندے کو یہ اندازہ ہوجائے کہ بیماری اور مصیبت کے ذریعہ اسے کتنا بڑافائدہ پہنچنے والا ہے تو وہ یہی چاہے گا کہ ہمیشہ بیماری میں مبتلا رہے۔ جیساکہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
جو لوگ عافیت میں ہیں، قیامت کے دن جب کہ مصیبت زدوں کو ثواب دیا جائے گا، یہ چاہیں گے کاش! دنیا میں قینچیوں سے ان کی کھالوں کے ٹکڑے ٹکڑے کردیے جاتے۔
ایک دوسری حدیث میں بیماری کو مسلمانوں کے لیے ایک نعمت اور اس کے گناہوں کا کفارہ قرار دیتے ہوئے فرمایاگیا:
جس مسلمان کو کانٹا چبھنے کی یا اس سے بڑی کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے ذریعہ اس کی غلطیوں کو اس طرح ختم کردیتا ہے جیسے درخت اپنے پتوں کو گرادیتا ہے۔
شیخ عبدالقادر جیلانی نے اپنے بیٹےکو نصیحت کی : مصیبت اورپریشانیوں میں مبتلا ہونے کے بعد رنجیدہ خاطر نہیں ہونا چاہیے بلکہ اسے خدا کا عطیہ اور نعمت تصور کرنا چاہیے۔اے میرے بیٹے مصیبت تجھے ہلاک کرنے کے لیے نہیں آتی بلکہ تیرے صبر وایمان کا امتحان لینے آتی ہے۔ نیز اس کا علاج یہ بھی ہے کہ تو سوچے کہ اگر دنیا میں مصائب ومحن نہ ہوتے تو بندے عجب و فرعونیت، شقاوت قلبی جیسے امراض میں مبتلا ہوجاتے ہیں، جن سے آدمی دنیا میں اورآخرت میں ہرجگہ تباہ وبرباد ہوکر رہ جاتا ہے۔ اس لیے یہ تو ارحم الراحمین کا کمال رحمت ہے کہ بعض اوقات وہ مصائب کی دوا استعمال کرادیتا ہے جن کے باعث امراض سے تحفظ رہتا ہے اور صحت عبدیت قائم رہتی ہے۔ نیز کفر و عدوان و شرک وغیرہ کے فاسد مادوں کا استفراغ جاری رہتا ہے۔ بس پاک ہے وہ ذات جو ابتلا کے ذریعہ رحم فرماتی ہے اورانعامات کے ذریعہ ابتلا میں ڈال دیتی ہے
تندرستی کے برقرار رہنے کے لیے ضروری ہے کہ انسانوں کا واسطہ چھوٹی موٹی بیماری سے پڑتا رہے، تاکہ اس کے جسم سے غیرضروری اجزا اور فضلات کا اخراج ہوتا رہے۔ اس کا دوسرا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ اس کے ذریعہ گناہ کم ہوتے ہیں۔ کیوں کہ اللہ تعالیٰ جس بندے سے خفا ہوتا ہے تو اسے بیماری میں مبتلا کردیتا ہے تاکہ بندہ نے جو گناہ کیاہے اس کی مدافعت ہوجائے۔ چنانچہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
مسلمانوں کو جوبھی تکلیف پہنچتی ہے یہاں تک کہ اسے کوئی کانٹا بھی چبھتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے ذریعہ سے گناہوں کو مٹادیتا ہے
اگر کسی مومن بندے کو یہ اندازہ ہوجائے کہ بیماری اور مصیبت کے ذریعہ اسے کتنا بڑافائدہ پہنچنے والا ہے تو وہ یہی چاہے گا کہ ہمیشہ بیماری میں مبتلا رہے۔ جیساکہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
جو لوگ عافیت میں ہیں، قیامت کے دن جب کہ مصیبت زدوں کو ثواب دیا جائے گا، یہ چاہیں گے کاش! دنیا میں قینچیوں سے ان کی کھالوں کے ٹکڑے ٹکڑے کردیے جاتے۔
ایک دوسری حدیث میں بیماری کو مسلمانوں کے لیے ایک نعمت اور اس کے گناہوں کا کفارہ قرار دیتے ہوئے فرمایاگیا:
جس مسلمان کو کانٹا چبھنے کی یا اس سے بڑی کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے ذریعہ اس کی غلطیوں کو اس طرح ختم کردیتا ہے جیسے درخت اپنے پتوں کو گرادیتا ہے۔
شیخ عبدالقادر جیلانی نے اپنے بیٹےکو نصیحت کی : مصیبت اورپریشانیوں میں مبتلا ہونے کے بعد رنجیدہ خاطر نہیں ہونا چاہیے بلکہ اسے خدا کا عطیہ اور نعمت تصور کرنا چاہیے۔اے میرے بیٹے مصیبت تجھے ہلاک کرنے کے لیے نہیں آتی بلکہ تیرے صبر وایمان کا امتحان لینے آتی ہے۔ نیز اس کا علاج یہ بھی ہے کہ تو سوچے کہ اگر دنیا میں مصائب ومحن نہ ہوتے تو بندے عجب و فرعونیت، شقاوت قلبی جیسے امراض میں مبتلا ہوجاتے ہیں، جن سے آدمی دنیا میں اورآخرت میں ہرجگہ تباہ وبرباد ہوکر رہ جاتا ہے۔ اس لیے یہ تو ارحم الراحمین کا کمال رحمت ہے کہ بعض اوقات وہ مصائب کی دوا استعمال کرادیتا ہے جن کے باعث امراض سے تحفظ رہتا ہے اور صحت عبدیت قائم رہتی ہے۔ نیز کفر و عدوان و شرک وغیرہ کے فاسد مادوں کا استفراغ جاری رہتا ہے۔ بس پاک ہے وہ ذات جو ابتلا کے ذریعہ رحم فرماتی ہے اورانعامات کے ذریعہ ابتلا میں ڈال دیتی ہے