• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

خوشگوار زندگی کے اصول (حصہ اول)

حافظ محمد عمر

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
427
ری ایکشن اسکور
1,542
پوائنٹ
109
کتاب کا نام: خوشگوار زندگی کے اصول
تصنیف: حافظ محمد اسحاق زاہد

تمہید

قارئین محترم !
اللہ تعالیٰ نے تمام انسانوں کو مٹی سے پیدا کیا ہے اور حضرت آدم علیہ السلام کو سب کا باپ بنایا ہے۔اس لحاظ سے سب کی بنیاد تو ایک ہے لیکن کئی اعتبارات سے وہ ایک دوسرے سے مختلف ہوتے ہیں۔چنانچہ شکل وصورت کے اعتبار سے وہ ایک دوسرے سے مختلف ہوتے ہیں اور کم ہی کوئی شخص دوسرے سے ملتا جلتا ہے ، کوئی سفیدگورے رنگ کا اور کوئی کالے سیاہ رنگ کا ، کوئی چھوٹے قد والا اور کوئی بڑے قد والا ۔
اسی طرح وہ سب اپنے معاشی حالات کے اعتبار سے بھی ایک دوسرے سے مختلف ہوتے ہیں ، کوئی مالدار اور کوئی غریب ، کوئی بخیل اور کوئی سخی ، کوئی ہر حال میں شکر ر اور کوئی ہر حال میں حریص ولالچی ۔ اسی طرح ایمان وعمل کے اعتبار سے بھی وہ الگ الگ نظریات کے حامل ہوتے ہیں ، کوئی مومن اور کوئی کافر ، کوئی نیک وپارسا اور کوئی فاسق وفاجر ، کوئی باکردار اور بااخلاق اور کوئی بد کردار اور بد اخلاق ۔ لیکن یہ سب کے سب اپنے احوال میں ایک دوسرے سے مختلف ہونے کے باوجود ایک بات پر متفق نظر آتے ہیں اور وہ ہے خوشحال زندگی کی تمنا اور آرزو ۔ چنانچہ زندگی کے ہر شعبے سے تعلق رکھنے والے تمام لوگ اس بات کے متمنی نظر آتے ہیں کہ ا نہیں دنیا میں ایک خوشگوار زندگی نصیب ہو جائے اور سب کے سب لوگ ایک باوقار اور پرسکون زندگی کے حصول کی خاطر دن رات جد وجہد کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔گویا سب کا ہدف تو ایک ہی ہے البتہ وسائل واسباب مختلف ہیں۔
ایک تاجر جو دن بھر اپنے کاروبار کو وسیع کرنے اور زیادہ سے زیادہ نفع کمانے کیلئے اپنی پوری صلاحیتیں اور توانائیاں کھپا دیتا ہے ، وہ اور اسی طرح وہ مزدور جو صبح سے لے کر شام تک پسینے میں شرابور ہو کر محنت ومزدوری کرتا ہے ، دونوں خوشحال اور خوشگوار زندکی کے حصول کیلئے کوشاں ہوتے ہیں !
اور ایک عبادت گزار،جو اللہ تعالیٰ کے فرائض وواجبات کو پابندی سے ادا کرتا ہے اور نوافل میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیتا ہے ، وہ اور اسی طرح وہ فاسق وفاجر انسان جو دن رات اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کرتا ہے دونوں ہی ایسی زندگی کے متمنی ہوتے ہیں جس میں کوئی پریشانی اور کوئی دکھ نہ ہو !
اسی طرح تمام لوگ سعادتمندی اور خوشحالی کو حاصل کرنے کی تمنا لئے تگ ودو میں مصروف رہتے ہیں ، کوئی کسی طرح اور کوئی کسی طرح ،لیکن سوال یہ ہے کہ کیا یہ سعادتمندی ہر ایک کو مل جاتی ہے ؟ اور کیا خوشحالی ہر ایک کو نصیب ہو جاتی ہے ؟ اور آخر وہ کونسا راستہ ہے جس پر چل کر ہم سب خوشحال وخوشگوار زندگی تک پہنچ سکتے ہیں ؟
قارئین محترم !
ہم یہی سوال ایک دوسرے انداز سے بھی کر سکتے ہیں اور وہ اس طرح کہ اس دور میں تقریباً ہر انسان پریشان حال اور سرگرداں نظر آتا ہے ، کسی کو روزگار کی پریشانی ، کسی کو مالی وکاروباری مشکلات کا سامنا ، کسی پر قرضوں کا بوجھ ، کسی کو جسمانی بیماریاں چین اور سکھ سے سونے نہیں دیتیں۔ کسی کو خاندانی لڑائی جھگڑے بے قرار کئے ہوئے ہیں ، کسی کو بیوی بچوں کی نافرمانی کا صدمہ ، کسی کو دشمن کا خوف اور کسی کو احباء واقرباء کی جدائی کا دکھ،الغرض یہ کہ تقریباً ہر شخص کسی نہ کسی پریشانی میں مبتلا نظر آتا ہے اور ظاہر ہے کہ ہر شخص ان دکھوں ، صدموں اور پریشانیوں سے نجات بھی حاصل کرنا چاہتا ہے۔ تو وہ حقیقی وسائل واسباب کون سے ہیں جنھیں اختیار کرنے سے دنیا کی مختلف آزمائشوں سے نجات مل سکتی ہے ؟
آپ میں سے ہر شخص یقینا یہ چاہتا ہو گا کہ اسے ان دونوں سوالوں کے جوابات معلوم ہو جائیں تاکہ وہ ایک خوشحال وباوقار زندگی حاصل کر سکے اور دنیا کی پریشانیوں سے چھٹکارا پا سکے۔ تو آئیے ہم سب قرآن وسنت کی روشنی میں ان سوالوں کے جوابات معلوم کرتے ہیں۔
قارئین محترم ! اس مختصر رسالے میں ہم ایک کامیاب اور خوشحال زندگی کے حصول اور پریشانیوں وآزمائشوں سے نجات حاصل کرنے کے چند اصول ذکر کریں گے اور مجھے یقین کامل ہے اگر ہم ان پر عمل کریں گے تو ضرور بالضرور اپنے مقصود تک پہنچ جائیں گے۔
ان شاء اللہ تعالیٰ
خوشگوار زندگی کےاصول

پہلااُصول : ایمان وعمل

خوشگوار زندگی کا پہلا اصول ’ ایمان وعمل ‘ ہے ، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے
﴿مَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِّنْ ذَکَرٍ أَوْ أُنْثیٰ وَہُوَ مُؤْمِنٌ فَلَنُحْیِیَنَّہُ حَیَاۃً طَیِّبَۃً وَلَنَجْزِیَنَّہُمْ أَجْرَہُمْ بِأَحْسَنِ مَا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ ﴾
’’ جو شخص نیک عمل کرے ، مرد ہو یا عورت ، بشرطیکہ ایمان والا ہو تو اسے ہم یقینا بہت ہی اچھی زندگی عطا کریں گے اور ان کے نیک اعمال کا بہتر بدلہ بھی انہیں ضرور دیں گے۔‘‘[النحل : ۹۷ ]
اور فرمایا :
﴿ اَلَّذِیْنَ آمَنُوْا وَعَمِلُوْا الصَّالِحَاتِ طُوْبیٰ لَہُمْ وَحُسْنُ مَآبٍ﴾
’’جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے نیک عمل کئے ، ان کیلئے خوشحالی بھی ہے اور عمدہ ٹھکانابھی۔‘‘ [الرعد : ۲۹]
ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے ہر ایسے شخص کو بہت ہی خو شگوار وکامیاب زندگی اور خوشحالی عطا کرنے کا وعدہ فرمایا ہے جس میں دو شرطیں پائی جاتی ہوں۔ایک یہ کہ وہ مومن ہو اور دوسری یہ کہ وہ عمل صالح کرنے والا ، باکردار اور بااخلاق ہو۔اور اگر ہم ان دونوں شرطوں کو پورا کردیں تو کوئی وجہ نہیں کہ ہمیں خوشگوار زندگی نصیب نہ ہو کیونکہ اللہ تعالیٰ اپنے وعدے میں سچا ہے اور وہ وعدہ خلافی نہیں کرتا۔
فرمان الٰہی ہے :
﴿ إِنَّ اﷲَ لاَ یُخْلِفُ الْمِیْعَادَ﴾ [آل عمران : ۹ ]
’’یقینا اللہ تعالیٰ وعدہ خلافی نہیں کرتا۔‘‘
اور یہ بات ہمیں معلوم ہونی چاہیے کہ تمام انسانوں کی خیر وبھلائی ایمان اور عمل صالح میں ہی ہے ، اگر انسان سچا مومن ہو اور ایمان کے تقاضوں کو پورا کرنے والا ہو اور ساتھ ساتھ باعمل ، باکردار اور بااخلاق ہو ، اللہ کے فرائض کو پورا کرتا ہو ، پانچ نمازوں کا پابند ہو ، زکوۃ ادا کرتا ہو ، رمضان کے فرض روزے بلا عذر شرعی نہ چھوڑتا ہو ، والدین اور رشتہ داروں سے حسن سلوک کرتا ہو ، لین دین میں سچا اور وعدوں کو پورا کرتا ہو، بد دیانتی ، دھوکہ اور فراڈ سے اجتناب کرتا ہو ، حلال ذرائع سے کماتا ہو ، تو اللہ تعالیٰ دنیا میں اسے ہر قسم کی خیر وبھلائی عطا کرتا ہے ، اور آخرت میں جنت کی نعمتیں اور اجر وثواب الگ ہے۔
اور اس کے بر عکس اگر کوئی انسان فاسق وفاجر ، بد کردار اور بد اخلاق ہو ، نہ نمازوں کی پروا کرتا ہو اور نہ زکوۃ دیتا ہو ، رمضان کے روزے مرضی کے مطابق رکھتا ہواور طاقت ہونے کے باوجود حج بیت اللہ کا فریضہ ادا کرنے کیلئے تیار نہ ہو ، والدین اور قرابت داروں سے بد سلوکی کرتا ہو ، اللہ کے بندوں کے حقوق مارتا ہو ، لین دین میں جھوٹ بولتا ہو اور دھوکہ دہی اور بد دیانتی سے کام لیتا ہو اور حرام ذرائع سے کماتا ہو ، تو ایسے انسان کے متعلق ہمیں یقین کرلینا چاہیے کہ اسے لاکھ کوشش کے باوجود خوشگوار زندگی کبھی نصیب نہیں ہو سکتی۔
جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :
﴿وَمَنْ أَعْرَضَ عَنْ ذِکْرِیْ فَإِنَّ لَہُ مَعِیْشَۃً ضَنْکًا٭وَنَحْشُرُہُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ أَعْمیٰ قَالَ رَبِّ لِمَ حَشَرْتَنِیْ أَعْمیٰ وَقَدْ کُنْتُ بَصِیْرًا٭ قَالَ کَذٰلِکَ أَتَتْکَ آیَاتُنَا فَنَسِیْتَہَا وَکَذٰلِکَ الْیَوْمَ تُنْسیٰ ﴾
’’اور جو شخص میری یاد سے روگردانی کرے گا وہ دنیا میں یقینا تنگ حال رہے گااور روزِ قیامت ہم اسے اندھا کرکے اٹھائیں گے ، وہ کہے گا : اے میرے رب!تو نے مجھے اندھا کرکے کیوں اٹھایا ہے؟دنیا میں تو میں خوب دیکھنے والا تھا۔ اللہ کہے گا : اسی طرح تمھارے پاس میری آیتیں آئی تھیں تو تم نے انہیں بھلا دیا تھا اور اسی طرح آج تم بھی بھلا دیے جاؤ گے۔‘‘ [طہ : ۱۲۴تا ۱۲۶ ]
ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے خبردار کیا ہے کہ جو شخص میرے دین سے منہ موڑے گا اور میرے احکامات کی پروا نہیں کرے گا میں دنیا میں اس کی زندگی تنگ حال بنا دوں گا اور خوشحال زندگی سے محروم کردونگا۔اس کے علاوہ قیامت کے دن میں اسے اندھا کرکے اٹھاؤں گا ، وہ مجھ سے اس کی وجہ پوچھے گا تو میں کہوں گا : جیسا تم نے کیا ویسا ہی بدلہ آج تمھیں دیا جار ہا ہے۔ تمھارے پاس میرے احکام آئے ، اہل ِعلم نے تمھیں میری آیتیں پڑھ پڑھ کر سنائیں اور میرے نبی ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی صحیح احادیث کو تمھارے سامنے رکھا ، لیکن تم نے ان سب کو پس ِپشت ڈال کر من مانی کی اور جو تمھارے جی میں آیا تم نے وہی کیا ، اسی طرح آج مجھے بھی تمھاری کوئی پروا نہیں ۔
قارئین محترم !
اگر ہم واقعتا یہ چاہتے ہیں کہ دنیا میں ہمیں ایک باوقار اور خوشحال زندگی نصیب ہو تو ہمیں دین الٰہی کو مضبوطی سے تھامنا ہو گا اور من مانی کرنے کی بجائے اللہ تعالیٰ کے احکام پر عمل کرنا ہو گا اور اللہ کا سب سے بڑا حکم یہ ہے کہ ہم صرف اسی کی عبادت کریں اور اس میں کسی کو شریک نہ بنائیں ۔ صرف اسی کو پکاریں ، صرف اسی کو نفع ونقصان کا مالک سمجھیں ، صرف اسی کو داتا ، مدد گار ، حاجت روا ، مشکل کشا اور غوث اعظم تصور کریں ۔اگر ہم خالصتاًاللہ تعالیٰ کی عبادت کریں گے تو وہ یقینا ہمیں پاکیزہ اور خوشگوار زندگی نصیب کرے گا ، ورنہ وہ لوگ جو اللہ کو چھوڑ کر غیر اللہ کے در پر جبینِ نیاز جھکاتے ہیں اور غیر اللہ کیلئے نذرو نیاز پیش کرتے ہیں اور غیر اللہ کو داتا ، حاجت روا اور مشکل کشا سمجھتے ہیں اور انہی کے سامنے ہاتھ پھیلاتے ہیں ، انہیں در در کی ٹھوکریں ہی نصیب ہوتی ہیںاور ذلت وخواری کے سوا اور کچھ ہاتھ نہیں آتا۔
جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :
﴿ وَمَنْ یُّشْرِکْ بِاﷲِ فَکَأَنَّمَا خَرَّ مِنَ السَّمَآئِ فَتَخْطَفُہُ الطَّیْرُ أَوْ تَہْوِیْ بِہٖ الرِّیْحُ فِیْ مَکاَنٍ سَحِیْقٍ ﴾ [الحج : ۳۱]
’’ اور جو شخص اللہ کے ساتھ کسی کو شریک بناتا ہے وہ ایسے ہے جیسے آسمان سے گراہو ، پھر پرندے اسے فضا میں ہی اچک لیں یا تیز ہوا اسے کسی دور دراز جگہ پر پھینک دے۔‘‘
یعنی مشرک کاانجام سوائے تباہی وبربادی کے اور کچھ نہیں۔
اور اللہ تعالیٰ کا دوسرا بڑا حکم یہ ہے کہ ہم اس کے محبوب حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کریں اور آپ کی نافرمانی سے بچیں۔اگر ہم ایسا کریں گے تو اللہ تعالیٰ ہم سے راضی ہو گا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کو اپنی اطاعت قرار دیا ہے اور جب اللہ تعالیٰ راضی ہو گا تو یقینا وہ ہمیں خوشحال اور باوقار زندگی نصیب کرے گا۔ اور اگر ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی کریں گے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت سے منہ موڑ کر دین میں ایجاد کردہ نئے امور ( بدعات ) پر عمل کریں گے تو دنیا میں ہم پر آزمائشیں ٹوٹ پڑیں گی اور قیامت کے روز ہمیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھوں حوضِ کوثر کے پانی سے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت سے محرومی سے دوچار ہونا پڑے گا۔
والعیاذ باللہ
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :
﴿ فَلْیَحْذَرِالَّذِیْنَ یُخَالِفُوْنَ عَنْ أَمْرِہٖ أَنْ تُصِیْبَہُمْ فِتْنَۃٌ أَوْ یُصِیْبَہُمْ عَذَابٌ أَلِیْمٌ ﴾ [النور : ۶۳]
’’لہذا جو لوگ اس کے ( رسول صلی اللہ علیہ وسلم )کے حکم کی مخالفت کرتے ہیں انہیں اس بات سے ڈرنا چاہیے کہ وہ کسی مصیبت میں گرفتار نہ ہو جائیں یا انہیں کوئی دردناک عذاب نہ آ پہنچے۔‘‘
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے احکامات کی خلاف ورزی کرنے والوں کو سخت تنبیہ کی ہے کہ وہ اپنے اس فعل سے باز آجائیں ، کہیں ایسا نہ ہو کہ اس کی وجہ سے ان پر کوئی آزمائش یا اللہ کا دردناک عذاب آ جائے۔
قارئین محترم !
کامیاب وخوشگوار زندگی کا جو پہلا اصول ہم نے ذکر کیا ہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ ایمان اور عمل صالح کی بنا پرہی ہمیں ایک کامیاب زندگی نصیب ہو سکتی ہے۔اور ایمان باللہ کا سب سے بڑا تقاضا یہ ہے کہ ہم عقیدۂ توحید پر قائم ودائم رہیں ، جبکہ ایمان بالرسل کا ایک لازمی تقاضا یہ ہے کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت وفرمانبرداری کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنائیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوۂ حسنہ کی روشنی میں زندگی بسر کریں ۔اس طرح دنیا کے دکھوں اور صدموں سے ہمیں چھٹکارا ملے گااور ہماری زندگی کامیابی کی راہ پر گامزن ہو جائے گی۔
دوسرا اُصول : نماز

کامیاب اور خوشحال زندگی کا دوسرا اصول ’نماز‘ ہے جو کہ اللہ تعالیٰ کا تقرب حاصل کرنے کا بہترین ذریعہ ہے۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے :
أَقْرَبُ مَا یَکُوْنُ الْعَبْدُ مِنْ رَبِّہٖ وَہُوَ سَاجِدٌ فَأَکْثِرُوْا الدُّعَائَ
’’ بندہ اپنے رب کے سب سے زیادہ قریب سجدے کی حالت میں ہوتا ہے ، لہذا تم (سجدے کی حالت میں ) زیادہ دعا کیا کرو۔‘‘ [مسلم : ۴۸۲]
اور جب بندہ اپنے رب کے قریب ہو جاتا ہے تب وہ جو چاہے اس سے طلب کر سکتا ہے اور اسی لئے اللہ تعالیٰ نے نماز کے ذریعے مدد طلب کرنے کا حکم دیا ہے۔
فرمان الٰہی ہے :
﴿ یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا اسْتَعِیْنُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلاَۃِ إِنَّ اﷲَ مَعَ الصَّابِرِیْنَ ﴾ [البقرۃ : ۱۵۳]
’’اے ایمان والو ! ( جب کوئی مشکل درپیش ہو تو ) صبر اور نماز کے ذریعے مدد طلب کرو ، یقینا اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔‘‘
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اہل ِایمان کو مخاطب کرتے ہوئے حکم دیا ہے کہ وہ ہر قسم کی مشکل اور پریشانی کے ازالے کیلئے صبر اور نماز کے ذریعے اس سے مدد طلب کریں۔ اس سے یہ معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ صبر کرنے والے اور نماز پڑھنے والے بندۂ مومن کی مدد فرماتا ہے اور اسے تمام مشکلات سے نجات دیتا ہے۔ گویا نماز دکھوں اور صدموں کا مداوا ہے ، نماز ادا کرنے سے دلوں کو اطمینان نصیب ہوتا ہے اور غموں کا بوجھ ہلکا ہوتا ہے۔
اسی لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
وَجُعِلَتْ قُرَّۃُ عَیْنِیْ فِیْ الصَّلاَۃِ
[ احمد ، نسائی ، صحیح الجامع للالبانی : ۳۱۲۴ ]
’’ میری آنکھوں کی ٹھنڈک نماز میں رکھی گئی ہے۔‘‘
ایک عبرتناک قصہ

حافظ ابن عساکر ؒ نے تاریخ دمشق میں ذکر کیا ہے کہ ایک فقیر آدمی اپنے بغل(خچر) پر لوگوں کو لاد کر دمشق سے زیدانی تک پہنچاتا اور اس پر کرایہ وصول کرتا تھا۔اس نے اپنا ایک قصہ بیان کیا کہ ایک مرتبہ میرے ساتھ ایک شخص سوار ہوا ، وہ راستے میں مجھ سے کہنے لگا : یہ راستہ چھوڑ دواور اُس راستے سے چلو کیونکہ اس سے ہم اپنی منزلِ مقصود تک جلدی پہنچ جائیں گے۔میں نے کہا : نہیں!میں وہ راستہ نہیں جانتااور یہی راستہ زیادہ قریب ہے۔اس نے کہا : وہ زیادہ قریب ہے اور تمھیں اسی سے جانا ہو گا۔چنانچہ ہم اسی راستے پر چل پڑے ، آگے جاکر ایک دشوار گزار راستہ آگیا جو ایک گہری وادی میں تھا اور وہاں بہت ساری لاشیں پڑی ہوئی تھیں۔اس نے کہا : یہاں رک جاؤ !میں رک گیا ، وہ نیچے اترا اور اترتے ہی چھری سے مجھ پر حملہ آور ہوا ۔میں بھاگ اٹھا ، میں آگے آگے اور وہ میرے پیچھے پیچھے۔ آخر کار میں نے اسے اللہ کی قسم دے کر کہا : بغل اور اس پر لدا ہوا میرا سامان تم لے لو اور میری جان بخش دو۔اس نے کہا : وہ تو میرا ہے ہی اورمیں تمھیں قتل کرکے ہی دم لوں گا۔میں نے اسے اللہ تعالیٰ سے ڈرایا اور قتل کی سزا یاد دلائی لیکن اس نے میری ایک بھی نہ سنی۔چنانچہ میں نے اس کے سامنے رک کر کہا : مجھے صرف دو رکعت نماز پڑھنے کی مہلت دے دو ، اس نے کہا : ٹھیک ہے جلدی پڑھ لو۔ میں نے قبلہ رخ ہو کر نماز شروع کردی، لیکن میں اس قدر خوفزدہ تھا کہ میری زبان پر قرآن مجید کا ایک حرف بھی نہیں آرہا تھااور اُدھر وہ بار بار کہہ رہا تھا : اپنی نمازجلدی ختم کرو ، میں انتہائی حیران وپریشان تھا۔آخر کار اللہ تعالیٰ نے میری زبان پر قرآن مجید کی یہ آیت جاری کردی : ﴿أَمَّنْ یُّجِیْبُ الْمُضْطَرَّ إِذَا دَعَاہُ وَیَکْشِفُ السُّـوٓئَ﴾
’’بھلا کون ہے جو لاچار کی فریاد رسی کرتا ہے جب وہ اسے پکارتا ہے اور اس کی تکلیف کو دور کردیتا ہے۔‘‘
پھر میں نے اچانک دیکھا کہ ایک گھوڑ سوارہاتھ میں نیزہ لئے وادی کے منہ سے نمودار ہو رہا ہے ، اس نے آتے ہی وہ نیزہ اس شخص کو دے مارا جو مجھے قتل کرنے کے درپے تھا۔نیزہ اس کے دل میں پیوست ہو گیا اور وہ مر گیا۔میں نے گھوڑ سوار کو اللہ کا واسطہ دے کر پوچھا : تم کون ہو ؟ اس نے کہا : مجھے اس نے بھیجا ہے جو لاچار کی فریاد رسی کرتا ہے اور اس کی تکلیف کو دور کردیتا ہے۔ پھر میں نے اپنا بغل پکڑا اور اپنا ساز و سامان اٹھا کر سلامتی سے واپس لوٹ آیا۔
قارئین محترم ! یہ قصہ اس بات کی دلیل ہے کہ بندہ ٔ مومن جب نماز کے ذریعے اللہ تعالیٰ سے مدد طلب کرتا ہے تو وہ اس کی مدد ضرور کرتا ہے اور مشکل کے وقت اسے بے یارومددگار نہیں چھوڑتا۔یاد رہے کہ نمازوں میں سب سے پہلے فرض نمازوں کا اہتمام کرنا ضروری ہے جو کہ دین کا ستون ہیں۔اس کے بعد سنت اور نفل نماز ، خصوصا ًفرائض سے ماقبل اور مابعد سنتیںاور پھر تہجد کی نماز ۔اور نمازتہجد کے دیگر فوائد کے علاوہ اس کا ایک عظیم فائدہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ تہجد گزار کو جسمانی بیماریوں سے شفا نصیب کرتا ہے ، لہذا وہ لوگ جو علاج کرکر کے تھک چکے ہوں
انہیں یہ نبویؐ علاج ضرور کرنا چاہیے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے :
عَلَیْکُمْ بِقِیَامِ اللَّیْلِ ، فَإِنَّہُ دَأْبُ الصَّالِحِیْنَ قَبْلَکُمْ ، وَہُوَ قُرْبَۃٌ إِلٰی رَبِّکُمْ،وَمُکَفِّرٌ لِلسَّیِّئَاتِ،وَمَنْہَاۃ ٌ لِلْآثَامِ،وَمَطْرَدَۃٌ لِلدَّائِ عَنِ الْجَسَدِ [ احمد، ترمذی ، صحیح الجامع للالبانی : ۴۰۷۹]
’’تم رات کا قیام ضرور کیا کرو ، کیونکہ یہ تم سے پہلے صلحاء کی عادت تھی اور رات کا قیام اللہ کے قریب کرتا ہے اور گناہوں سے بچاتا ہے اور برائیوں کو مٹاتا ہے اور جسمانی بیماری کو دور کرتا ہے۔‘‘
قارئین محترم! خلاصہ یہ ہے کہ جب آپ کی طبیعت میں پریشانیوں،دکھوں اور صدموں کی وجہ سے تکدر آجائے اور آپ سخت بے چین ہو ں تو وضو کرکے بارگاہِ الٰہی میں آ جائیں اور ہاتھ باندھ کر اس سے مناجات شروع کردیں۔اورپھر بادشاہوں کے بادشاہ اور رحمان ورحیم ذات کے سامنے جھک کر اپنے گناہوں پر ندامت وشرمندگی کا اظہار کریں۔اس کے بعد اس سے مشکلات کے ازالے کا سوال کریں ، یقینا آپ کی بے چینی ختم ہو جائے گی۔ سکون واطمینان نصیب ہو گا اور اللہ تعالیٰ آپ کو خوشحال بنا دے گا۔
تیسرا اُصول : تقوی

’تقویٰ ‘دنیا کے دکھوں ، تکلیفوں اور پریشانیوں سے نجات پانے کیلئے اورخصوصاً ان لوگوں کیلئے ایک نسخۂ کیمیا ہے جو بے روزگاری ، غربت اور قرضوں کی وجہ سے انتہائی پریشان حال اور سرگرداں رہتے ہوں۔اور تقویٰ سے مراد ہے اللہ تعالیٰ سے ایسا خوف کھانا جو بندے کو اللہ تعالیٰ کی نافرمانی اور حرام کام سے روک دے اور جب کسی انسان کے دل میں اللہ تعالیٰ کا ایسا ڈر خوف پیدا ہو جاتا ہے کہ جس کی وجہ سے وہ پرہیزگار بن جاتا ہے اور تمام حرام کاموں سے اجتناب کرنے لگ جاتا ہے تو اس سے اللہ تعالیٰ کا یہ وعدہ ہے :
﴿وَمَنْ یَّتَّقِ اﷲَ یَجْعَلْ لَّہُ مَخْرَجًا وَّیَرْزُقْہُ مِنْ حَیْثُ لاَ یَحْتَسِبُ ﴾ [الطلاق : ۲، ۳]
’’ اور جو شخص اللہ تعالیٰ سے ڈرتا ہے ، اللہ اس کیلئے مشکلات سے نکلنے کی کوئی نہ کوئی راہ پیدا کردیتا ہے اور اسے ایسی جگہ سے رزق دیتا ہے جہاں سے اسے وہم وگمان بھی نہیں ہوتا۔‘‘
اور فرمایا :
﴿ وَمَنْ یَّتَّقِ اﷲَ یَجْعَلْ لَّہُ مِنْ أَمْرِہٖ یُسْرًا ﴾ [الطلاق : ۴]
’’اور جو شخص اللہ تعالیٰ سے ڈرتا ہے ، اللہ اس کیلئے اس کے کام میں آسانی پیدا کردیتا ہے۔‘‘
نیز فرمایا :
﴿ وَلَوْ أَنَّ أَہْلَ الْقُریٰ آمَنُوْا وَاتَّقَوْا لَفَتَحْنَا عَلَیْہِمْ بَرَکَاتٍ مِّنَ السَّمَآئِ وَالْأَرْضِ ﴾ [الاعراف : ۹۶]
’’اور اگر یہ بستیوں والے ایمان لاتے اور اللہ کی نافرمانی سے بچتے تو ہم ان پر آسمان اور زمین کی برکات ( کے دروازے ) کھول دیتے۔‘‘
قارئین محترم ! ان تمام آیات میں خوشحالی اور کامیاب زندگی کے حصول کیلئے ایک عظیم اُصول متعین کردیا گیا ہے اور وہ ہے اللہ تعالیٰ سے ڈرتے ہوئے اس کی نافرمانی سے اجتناب کرنا۔کیونکہ ایسا کرنے سے اللہ تعالیٰ بندہ ٔ مومن کیلئے ہر قسم کی پریشانی سے نکلنے کا راستہ بنا دیتا ہے اور اس کے ہر ہر کام کو آسان کر دیتا ہے۔اور اوپر نیچے سے اس کیلئے رزق کے دروازے کھول دیتا ہے۔
اور آئیے ذرا اس اصول کی روشنی میں ہم اپنی حالت کا جائزہ لے لیں !! ایک طرف تو ہم خوشحال اور کامیاب زندگی کی تمنا رکھتے ہیں اور دوسری طرف اللہ تعالیٰ کی نافرمانیاں بھی کرتے رہتے ہیں۔ مثلاً نمازوں میں سستی اور غفلت ، جھوٹ ، غیبت ، چغل خوری ، سودی لین دین ، والدین اور قرابت داروں سے بد سلوکی ، فلم بینی اور گانے سننا وغیرہ ۔ بھلا بتلائیے کیا ایسی حالت میں خوشحالی وسعادتمندی نصیب ہو سکتی ہے ؟ اور کیا اس طرح پریشانیوں کا ازالہ ہو سکتا ہے ؟
ہمیں یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ نافرمانیوں کی موجودگی میں خوشحالی کا نصیب ہونا تو دور کی بات ہے ، موجودہ نعمتوں کے چھن جانے کا بھی خطرہ ہوتا ہے۔اور اس کی واضح دلیل حضرت آدم اور ان کی بیوی حضرت حواء علیہا السلام کا قصہ ہے۔اللہ تعالیٰ نے ان دونوں کو جنت کی ہر نعمت وآسائش سے لطف اندوز ہونے کی
اجازت دی اور محض ایک چیز سے منع کردیا کہ تم نے اس درخت کے قریب نہیں جانا ، لیکن شیطان کے پھسلانے پر جب انہوں نے اس درخت کو چکھا تو اللہ تعالیٰ نے جنت کی ساری نعمتوں سے محروم کرکے انہیں زمین پر اتار دیا۔ تو ان کی ایک غلطی جنت کی ساری نعمتوں سے محرومی کا سبب بن گئی ۔اور آج ہم کئی گناہ کرتے ہیں اور پھر بھی ہم خوشحالی کے متمنی ہوتے ہیں!! یہ یقینی طور پر ہماری غلط فہمی ہے۔اور اگر ہم واقعتا ایک خوشحال زندگی بسر کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں اللہ تعالیٰ کی نافرمانیوں سے قطعی اجتناب کرنا ہو گا۔
اوراسی طرح ابلیس کا قصہ ہے ، اللہ تعالیٰ نے اسے حضرت آدم علیہ السلام کے سامنے سجدہ ریز ہونے کا حکم دیا لیکن اس نے تکبر کرتے ہوئے سجدہ ریز ہونے سے انکار کردیا ، پھر نتیجہ کیا نکلا؟اللہ تعالیٰ نے اسے ہمیشہ کیلئے ملعون قرار دے دیا ۔ یہ صرف ایک سجدہ چھوڑنے کی سزا تھی اور آج بہت سارے مسلمان کئی سجدے چھوڑ دیتے ہیں۔پانچ وقت کی فرض نمازوں میں من مانی کرتے ہیں ، تو کیا اس طرح ان کی زندگی کامرانیوں سے ہمکنار ہو جائے گی ؟
بلکہ ستم بالائے ستم یہ ہے کہ آج بہت سارے لوگ کئی برائیوں کو برائیاں ہی تصور نہیں کرتے اور بلا خوف وتردد ان کا ارتکاب کرتے ہیں۔ لہذا ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنے گریبان میں منہ ڈال کر سنجیدگی سے اپنا جائزہ لیں اور اپنی اصلاح کرنے کی کوشش کریں۔جب ہم خود اپنی اصلاح کریں گے اور اپنے دامن کو اللہ تعالیٰ کی نافرمانیوں سے بچائیں گے تو یقینا اللہ تعالیٰ بھی ہماری حالت پہ رحم فرمائے گااور ہمیں خوشحال زندگی نصیب کرے گا۔
حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ تابعین کو مخاطب کرکے کہا کرتے تھے :
إِنَّکُمْ لَتَعْمَلُوْنَ أَعْمَالاً ہِیَ أَدَقُّ فِیْ أَعْیُنِکُمْ مِنَ الشَّعْرِ ، إِنْ کُنَّا لَنَعُدُّہَا عَلیٰ عَہْدِ النَّبِیِّ ﷺ مِنَ الْمُوْبِقَاتِ
’’ آج تم ایسے ایسے عمل کرتے ہو جو تمھاری نگاہوں میں بال سے زیادہ باریک (بہت چھوٹے ) ہیں ، جبکہ ہم انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ہلاک کرنے والے گناہوں میں شمار کرتے تھے ۔‘‘
[بخاری : الرقاق ،باب ما یتقی من محقرات الذنوب : ۶۴۹۲]
اور یہ تابعین کے دور کی بات ہے ، جو کہ صحابۂ کرام رضی اللہ تعالی عنہم کے دور کے بعد بہترین دور تھا اور آج ہمارے دور میں خدا جانے کیا کچھ ہوتا ہے؟
بس اللہ کی پناہ !
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,396
پوائنٹ
891
جزاک اللہ حافظ محمد عمر بھائی جان، یہ اصول تو خوشگوار زندگی کے بھی ہیں اور خوشگوار آخرت کے بھی۔ اللہ تعالیٰ عمل کی توفیق عطا فرمائیں۔ آمین یا رب العالمین
 
Top