• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

داڑھی بڑھانا واجب ہے

شمولیت
مارچ 02، 2023
پیغامات
684
ری ایکشن اسکور
26
پوائنٹ
53
داڑھی بڑھانا:
مردوں پر داڑھی بڑھانا واجب ہے، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے داڑھی بڑھانے کا حکم بھی دیا ہے، آپ کا حکم دیناوجوب پر دلالت کرتا ہے، اور کوئی ایسا قرینہ بھی موجود نہیں ہے جس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کو ندب پر محمول کیا جا سکے۔
دلیل:
1- سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

((انْهَكُوا الشَّوَارِبَ، وَأَعْفُوا اللِّحَى)) (صحیح البخاري، اللباس: 5893، صحيح مسلم، الطهارة: 259)

’’مونچھیں پست کراؤ اور داڑھی خوب بڑھاؤ‘‘۔

2- سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

((خَالِفُوا المُشْرِكِينَ: وَفِّرُوا اللِّحَى، وَأَحْفُوا الشَّوَارِبَ)) (صحیح البخاري، اللباس: 5892)

’’تم مشرکین کی مخالفت کرتے ہوئے داڑھی بڑھاؤ اور مونچھیں کتراؤ‘‘۔

3- سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

((خَالِفُوا الْمُشْرِكِينَ أَحْفُوا الشَّوَارِبَ، وَأَوْفُوا اللِّحَى)) (صحيح مسلم، الطهارة: 259)

’’تم مشرکین کی مخالفت کرتے ہوئے مونچھیں کتراؤ اور داڑھی مکمل چھوڑ دو‘‘۔

4- داڑھی منڈوانے میں کفار کے ساتھ مشابہت ہے۔

5- داڑھی منڈوانا اللہ تعالی کی تخلیق میں تبدیلی اور شیطان کی اطاعت ہے۔
ارشادباری تعالی ہے:
وَلَآمُرَنَّهُمْ فَلَيُغَيِّرُنَّ خَلْقَ اللَّهِ (النساء : 119)

6- داڑھی منڈوانے میں عورتوں کے ساتھ مشابہت ہے۔
سيدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ”ان مردوں پر لعنت کی ہے جو عورتوں کی چال ڈھال اختیار کریں اور ان عورتوں پر بھی لعنت کی ہے جو مردوں کی مشا بہت کرتی ہیں۔ )“صحيح البخارى: 5885)

7- ابن حزم اور دیگر علماء نے داڑھی منڈوانے کی حرمت پر اجماع نقل کیا ہے۔ (مراتب الاجماع : 157)

ایک قبضے سے زائدداڑھی کاٹنا:

بعض علماء سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ کے فعل سے استدلال کرتے ہوئے ایک قبضے سے زائدداڑھی کاٹنے کو جائز خیال کرتے ہیں ، اور کہتے ہیں سیدناابن عمر رضی اللہ عنہ ہی اس حدیث کے راوی ہیں جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے داڑھی بڑھانے کاحکم دیا ہے اس لیے وہ اپنی بیان کردہ روایت کو بہترجانتےہیں۔

اس کاجواب درج ذیل ہے:

1- سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ یہ کام حج یا عمرہ کا احرم کھولنے کا بعد کیا کرتے تھے اور یہ احباب ہرحالت میں اس عمل کو جائز سمجھتےہیں۔

2- سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما اللہ تعالی کے قول مُحَلِّقِينَ رُءُوسَكُمْ وَمُقَصِّرِينَ (الفتح: 27) کی تاویل کرتے ہوئے فرماتے تھے کہ حج یا عمرہ میں سر کے بالوں کاحلق اور داڑھی کے بالوں کو چھوٹا کروایا جائے گا۔ (شرح الکرمانی علی البخاری، جلد نمبر 21،صفحہ نمبر 111)

3- صحابی اگر کوئی ایسی بات کہتاہے یا ایساکوئی کام کرتا ہے جو اس کی بیان کردہ روایت کے خلاف ہے تو اعتبار اس کی روایت کا ہو گا نہ کہ اس کے فہم اور فعل کا ، اعتبار مرفوع روایت کا ہی ہو گا۔

سابقہ کلام سے یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ داڑھی کوبڑھانا واجب ہے اور کسی بھی صورت میں اس کو کاٹنا جائز نہیں ہے کیونکہ بہت سی احادیث میں اس کوبڑھانے کا حکم دیا ہے۔
 

شاہد نذیر

سینئر رکن
شمولیت
فروری 17، 2011
پیغامات
1,969
ری ایکشن اسکور
6,263
پوائنٹ
412
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
ماشاءاللہ بہت جامع انداز میں صحیح مسئلہ کو واضح فرمایا ہے۔ اللہ قبول کرے۔ آمین
راقم الحروف نے بھی اس موضوع پر نہایت تفصیل سے ’’داڑھی نامہ‘‘ کے عنوان سے لکھا ہے۔ ان شاء اللہ بہت جلد فورم پر اپنے مضمون کو شئیر کروں گا۔
 
شمولیت
اپریل 27، 2020
پیغامات
514
ری ایکشن اسکور
167
پوائنٹ
77
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ یہ کام حج یا عمرہ کا احرم کھولنے کا بعد کیا کرتے تھے اور یہ احباب ہرحالت میں اس عمل کو جائز سمجھتےہیں۔
علامہ ناصر الدين البانی سے سوال ہوا تھا کہ : هذا قول أو فعل عبد الله بن عمر لا يعد مخصوصاً بحج أو عمرة؟

اس کے جواب میں علامہ البانی نے فرمایا تھا : لا، لا، لأنه أولاً: ما جاء يعني: في كل رواية رويت عنه خاصة في الحج والعمرة، جاءت مطلقة

پھر سائل نے کہا : يعني في الروايات في غير الحج والعمرة؟

اس پر علامہ البانی کہتے ہیں : إي نعم، هذه واحدة، ثاني واحدة في الروايات الأخرى، بعض الصحابة أنهم كان يأخذون من لحيتهم في الموسم، خاصة في الموسم، ثالثاً: وأخيراً: لا يظهر لوقوع هذا الأخذ، يعني: لو فرضنا أن ابن عمر ما جاءت عنه رواية أخرى، ما يظهر لكون الأخذ كان في الحج أنه من خصوصيات الحج، يعني: أنا شخصياً من عادتي أني بَوفِّر شعري لحتى أحلقه في الحج, شايف؟ ! لكن هذا لا يعني: أنه أنا ما بيجوز آخذ من شعري في غير موسم الحج، والعكس لا يعني أنه لا يجوز توفير شعر الرأس لما بعد الحج، وهكذا، هذا أمر واقعي، وليس هناك في الشرع ما يدل على خصوصية الحج بهذا، بل العكس هو الأقرب، ما هو العكس؟ [أنه فيه إطلاق أمر بالإعفاء] «واعفوا اللحى»، فما هو الذي خصص الحج، بجواز مخالفة الأمر العام، بل العكس هو الصواب.

[الهدى والنور / ٢٤/ ٩.: ٢٣]

صحابی اگر کوئی ایسی بات کہتاہے یا ایساکوئی کام کرتا ہے جو اس کی بیان کردہ روایت کے خلاف ہے تو اعتبار اس کی روایت کا ہو گا نہ کہ اس کے فہم اور فعل کا ، اعتبار مرفوع روایت کا ہی ہو گا
ابن عمر رضی اللہ عنہ سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت کرنے والے تو نہیں تھے بلکہ آپ سب سے زیادہ متبع سنت تھے۔ اور داڑھی سے متعلق حدیث کو بھی ہم سے زیادہ سمجھنے والے تھے۔

علامہ البانی فرماتے ہیں :

أنا قلت في أثناء المحاضرة: أنه لابد لمن يريد أن يتمسك بالسنة أن يتمسك بعمل الصحابة، لأنه فيه هناك أشياء لا نستطيع أن نفهمها من الحديث، وإنما من التطبيق كما أشرت.

[الهدى والنور /٤٤٧/ ١٧: ٥٧]
 
Last edited:
Top