ام اویس
رکن
- شمولیت
- جون 29، 2016
- پیغامات
- 171
- ری ایکشن اسکور
- 8
- پوائنٹ
- 64
تسمیہ
ب ۔ اسم ۔ الله ۔ الرَّحمٰنِ ۔ الرَّحیمِ ۔
ساتھ ۔ نام ۔ الله ۔ بہت مہربان ۔ نہایت رحم کرنے والا۔
بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
الله کے نام کے ساتھ جو بڑا مہربان نہایت رحم کرنے والا ہے ۔
اس آیہ مبارکہ میں الله تعالٰی کے تین نام بیان کئے گئے ہیں۔
اللهُ ۔ رَحْمٰنٌ ۔ رَحِیْمٌ ۔
اَللهُ :
الله ایسا نام ہے جو صرف اُسی کی ذات کے لئے استعمال ہوتا ہے ۔ کسی اور کو اس نام سے نہیں پکارا جاتا ۔ اسے اسم ذات کہتے ہیں ۔ الله لفظ کا تثنیہ اور جمع نہیں آتا ۔ کیونکہ الله واحد ہے اسکا کوئی شریک نہیں ۔ الله ہی وہ ذات ہے جس نے سب کچھ پیدا کیا ۔زمین بھی اُسی کی پیدا کی ہوئی ہے اور آسمان بھی ۔ دریا ، پہاڑ ، نباتات، جمادات ، چاند ، سورج غرض ہر چیز اُسی کی پیدا کی ہوئی ہے ۔ اسی کی قدرت سے چاند اور ستارے روشن ہوتے ہیں ۔ پرندے اُسی کے حکم سے اُڑتے ہیں ۔ وہی بارش برساتا ہے اور ہر قسم کی پیداوار اُگاتا ہے ۔
رَحْمٰنٌ
( بہت مہربان ) الله تعالٰی کا صفاتی نام ہے ۔ لفظ رَحمٰن الله تعالٰی کی ذات کے ساتھ مخصوص ہے ۔مخلوق میں سے کسی کو رحمٰن کہنا جائز نہیں ۔ کیونکہ صرف الله تعالٰی ہی کی ذات ایسی ہے جس کی رحمت سے عالم کی کوئی چیز خالی نہیں ۔ لفظ الله کی طرح لفظ رحمٰن کا بھی تثنیہ اور جمع نہیں آتا ۔ یہ اسکی رحمتِ عامہ کا اظہار ہے ۔ کہ وہ سب پر یکساں رحمت فرماتا ہے ۔ اسکی ہوا بارش ، دریا ، پہاڑ ، چاند ستارے اور دوسری مہربانیاں انسان وجانور ، نیک و بد ، کافر و مسلم پر یکساں ہوتی ہیں ۔ اور وہ بن مانگے ہم پر بے شمار انعام فرماتا ہے ۔
رَحِیْمٌ
( نہایت رحم کرنے والا ) یہ الله تعالٰی کا دوسرا صفاتی نام ہے ۔ اور اسکی خاص رحمت کا اظہار ہے ۔ وُہ اپنے بندوں پر خصوصی انعام فرماتا ہے ۔ ایک نیکی کے بدلہ میں ستّر بلند درجے بخشتا ہے ۔
حدیث مبارکہ ہے ۔ جس کا مفہوم یہ ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وآلہ وسلم جب کوئی کام شروع کرتے تو اس سے پہلے بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیمِ پڑھ لیا کرتے تھے ۔
جب ہم اسکا نام لے کرکسی کام میں ہاتھ ڈالیں گے تو گویا ہم یہ کہیں گے ۔ کہ میرا دل بالکل پاک ہے ۔ میری نیت میں پورا خلوص ہے ۔ میرا مقصد اعلٰی ہے ۔ میں صرف الله کا بندہ ہوں اور شرک سے پوری طرح بیزار ہوں ۔
جب الله تعالٰی رحمٰن اور رحیم ہے تو ہمیں اسی کی رحمت پر بھروسہ کرنا چاہئے۔ ہمت نہ ہارنی چاہئے اور ڈرپوک بن کر پیچھے نہ ہٹنا چاہئے ۔ جب ہم اس طرح الله کی رحمت پر توکّل کریں گے تو ہر کام میں یقیناً کامیاب ہوں گے۔
پیارے رسول الله صلی الله علیہ وآلہ وسلم کے ارشاد مبارک کا مفہوم ہے ۔ اگر کسی کام کے شروع کرتے وقت بسم الله نہ پڑھی جائے تو اس کام میں الله تعالٰی کی برکت شامل نہ ہو گی اور اس سے دل کو اطمینان نہ ہو گا ۔
ہم درسِ قرآن کی ابتداء اسی کے نام سے کرتے ہیں۔ اس کی مدد یقیناً ہمارے ساتھ ہو گی اور ہم اپنی زندگی و آخرت میں کامیاب ہوں گے ۔
بِسمِ اللهِ الرَّحمٰنِ الرَّحِیمِ
ب ۔ اسم ۔ الله ۔ الرَّحمٰنِ ۔ الرَّحیمِ ۔
ساتھ ۔ نام ۔ الله ۔ بہت مہربان ۔ نہایت رحم کرنے والا۔
بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
الله کے نام کے ساتھ جو بڑا مہربان نہایت رحم کرنے والا ہے ۔
اس آیہ مبارکہ میں الله تعالٰی کے تین نام بیان کئے گئے ہیں۔
اللهُ ۔ رَحْمٰنٌ ۔ رَحِیْمٌ ۔
اَللهُ :
الله ایسا نام ہے جو صرف اُسی کی ذات کے لئے استعمال ہوتا ہے ۔ کسی اور کو اس نام سے نہیں پکارا جاتا ۔ اسے اسم ذات کہتے ہیں ۔ الله لفظ کا تثنیہ اور جمع نہیں آتا ۔ کیونکہ الله واحد ہے اسکا کوئی شریک نہیں ۔ الله ہی وہ ذات ہے جس نے سب کچھ پیدا کیا ۔زمین بھی اُسی کی پیدا کی ہوئی ہے اور آسمان بھی ۔ دریا ، پہاڑ ، نباتات، جمادات ، چاند ، سورج غرض ہر چیز اُسی کی پیدا کی ہوئی ہے ۔ اسی کی قدرت سے چاند اور ستارے روشن ہوتے ہیں ۔ پرندے اُسی کے حکم سے اُڑتے ہیں ۔ وہی بارش برساتا ہے اور ہر قسم کی پیداوار اُگاتا ہے ۔
رَحْمٰنٌ
( بہت مہربان ) الله تعالٰی کا صفاتی نام ہے ۔ لفظ رَحمٰن الله تعالٰی کی ذات کے ساتھ مخصوص ہے ۔مخلوق میں سے کسی کو رحمٰن کہنا جائز نہیں ۔ کیونکہ صرف الله تعالٰی ہی کی ذات ایسی ہے جس کی رحمت سے عالم کی کوئی چیز خالی نہیں ۔ لفظ الله کی طرح لفظ رحمٰن کا بھی تثنیہ اور جمع نہیں آتا ۔ یہ اسکی رحمتِ عامہ کا اظہار ہے ۔ کہ وہ سب پر یکساں رحمت فرماتا ہے ۔ اسکی ہوا بارش ، دریا ، پہاڑ ، چاند ستارے اور دوسری مہربانیاں انسان وجانور ، نیک و بد ، کافر و مسلم پر یکساں ہوتی ہیں ۔ اور وہ بن مانگے ہم پر بے شمار انعام فرماتا ہے ۔
رَحِیْمٌ
( نہایت رحم کرنے والا ) یہ الله تعالٰی کا دوسرا صفاتی نام ہے ۔ اور اسکی خاص رحمت کا اظہار ہے ۔ وُہ اپنے بندوں پر خصوصی انعام فرماتا ہے ۔ ایک نیکی کے بدلہ میں ستّر بلند درجے بخشتا ہے ۔
حدیث مبارکہ ہے ۔ جس کا مفہوم یہ ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وآلہ وسلم جب کوئی کام شروع کرتے تو اس سے پہلے بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیمِ پڑھ لیا کرتے تھے ۔
جب ہم اسکا نام لے کرکسی کام میں ہاتھ ڈالیں گے تو گویا ہم یہ کہیں گے ۔ کہ میرا دل بالکل پاک ہے ۔ میری نیت میں پورا خلوص ہے ۔ میرا مقصد اعلٰی ہے ۔ میں صرف الله کا بندہ ہوں اور شرک سے پوری طرح بیزار ہوں ۔
جب الله تعالٰی رحمٰن اور رحیم ہے تو ہمیں اسی کی رحمت پر بھروسہ کرنا چاہئے۔ ہمت نہ ہارنی چاہئے اور ڈرپوک بن کر پیچھے نہ ہٹنا چاہئے ۔ جب ہم اس طرح الله کی رحمت پر توکّل کریں گے تو ہر کام میں یقیناً کامیاب ہوں گے۔
پیارے رسول الله صلی الله علیہ وآلہ وسلم کے ارشاد مبارک کا مفہوم ہے ۔ اگر کسی کام کے شروع کرتے وقت بسم الله نہ پڑھی جائے تو اس کام میں الله تعالٰی کی برکت شامل نہ ہو گی اور اس سے دل کو اطمینان نہ ہو گا ۔
ہم درسِ قرآن کی ابتداء اسی کے نام سے کرتے ہیں۔ اس کی مدد یقیناً ہمارے ساتھ ہو گی اور ہم اپنی زندگی و آخرت میں کامیاب ہوں گے ۔