• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

درسِ قرآن۔ سورة بقرہ: پہلی سو آیات

ام اویس

رکن
شمولیت
جون 29، 2016
پیغامات
171
ری ایکشن اسکور
8
پوائنٹ
64
سورۃ بقرہ


تعارف


اس سورت کا نام سورۃ بقرہ ہے ۔ اور اسی نام سے حدیث مبارکہ میں اور آثار صحابہ میں اس کا ذکر موجود ہے ۔ بقرہ کے معنی گائے کے ہیں ۔ کیونکہ اس سورۃ میں گائے کا ایک واقعہ بھی بیان کیا گیا ہے اس لئے اس کو سورۃ بقرہ کہتے ہیں ۔
سورۃ بقرہ قرآن مجید کی سب سے بڑی سورۃ ہے ۔ آیات کی تعداد 286 ہے ۔ اور کلمات 6221 ہیں ۔اور حروف 25500 ہیں
یہ سورۃ مبارکہ مدنی ہے ۔ یعنی ہجرتِ مدینہ طیبہ کے بعد نازل ہوئی ۔ مدینہ طیبہ میں نازل ہونی شروع ہوئی ۔ اور مختلف زمانوں میں مختلف آیات نازل ہوئیں ۔ یہاں تک کہ " ربا " یعنی سود کے متعلق جو آیات ہیں ۔ وہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کی آخری عمر میں فتح مکہ کے بعد نازل ہوئیں ۔ اور اس کی ایک آیت " وَ اتَّقُوْا یَوْماً تُرجَعُونَ فِیہِ اِلَی اللهِ "آیہ 281 تو قران مجید کی بالکل آخری آیت ہے جو 10 ہجری میں 10 ذی الحجہ کو منٰی کے مقام پر نازل ہوئی ۔ ۔ جبکہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم حجۃ الوداع کے فرائض ادا کرنے میں مشغول تھے ۔ ۔ اور اس کے اسی نوّے دن بعد آپ صلی الله علیہ وسلم کا وصال ہوا ۔ اور وحی الٰہی کا سلسلہ ہمیشہ کے لئے ختم ہو گیا ۔

فضائل سورۃ بقرہ

سورة بقرہ قرآن کریم کی سب سے لمبی سورۃ ہے ۔ اور بہت سے احکام پر مشتمل ہے ۔ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا ۔
مفہوم ۔ سورۃ بقرہ کو پڑھا کرو ، کیونکہ اس کا پڑھنا برکت ہے ۔ اور اس کا چھوڑنا حسرت اور بد نصیبی ہے ۔ اور اہلِ با طل اس پر قابو نہیں پا سکتے ۔
قرطبی نے حضرت معاویہ رضی الله عنہ سے نقل کیا ہے ۔ اس جگہ اہل باطل سے مراد جادوگر ہیں ۔
یعنی اس سورۃ کے پڑھنے والے پر کسی کا جادو نہ چلے گا ۔
( قرطبی از مسلم بروایت ابو امامہ باہلی ) ۔
اور آنحضرت صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا ۔ مفہوم ۔ کہ جس گھر میں سورت بقرہ پڑھی جائے شیطان وھاں سے بھاگ جاتا ہے ۔
( ابن کثیر از حاکم ) ۔
اور رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا ۔ مفہوم ۔ سورۃ بقرہ سنام القرآن اور ذروۃ القرآن ہے ۔
سنام اور ذروہ کسی چیز کے اعلی اور افضل حصہ کو کہا جاتا ہے ۔ اس کی ہر آیہ مبارکہ کے نزول کے وقت اسی ( 80 ) فرشتے اس کے ساتھ نازل ہوئے ہیں
( ابن کثیر از مسند احمد ) ۔
حضرت ابوھریرہ کی ایک حدیث میں ہے ۔ اس سورۃ میں ایک آیۃ ایسی ہے جو تمام آیات قرآن میں اشرف و افضل ہے ۔ اور وہ آیۃ الکرسی ہے ۔
(ابن کثیر از ترمذی ) ۔
حضرت عبد الله بن مسعود نے فرمایا ۔ سورۃ بقرہ کی دس آیتیں ایسی ہیں ۔ اگر کوئی شخص انہیں رات میں پڑھ لے تو اس رات کو جن ، شیطان گھر میں داخل نہ ہو گا ، اور اس کو اور اس کے اہل عیال کو اس رات میں کوئی آفت ، بیماری رنج وغم وغیرہ ناگوار چیز پیش نہ آئے گی ۔ اور اگر یہ آیات جنون میں مبتلا کسی شخص پر پڑھی جائیں تو فائدہ دیں گی ۔
وہ دس آیات یہ ہیں : چار آیات شروع سورۃ بقرہ کی ، تین آیات درمیانی یعنی آیۃ الکرسی اور اس کے بعد کی دو آیتیں ۔۔۔اور پھر سورۃ بقرہ کی آخری تین آیات ۔

احکام و مسائل

ابنِ عربی فرماتے ہیں میں نے اپنے بزرگوں سے سنا ہے کہ سورۃ بقرہ میں ایک ہزار امر ( احکام ) اور ایک ہزار نہی ۔ ایک ہزار حکمتیں اور ایک ہزار خبر اور قصص ہیں ۔
( قرطبی و ابن کثیر ) ۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت عمر فاروق رضی الله عنہ نے جب سورہ بقرہ کو تفسیر کے ساتھ پڑھا تو اس کی تعلیم میں بارہ ( 12) سال خرچ ہوئے۔ اور حضرت عبد الله بن عمر رضی الله عنہ نے یہ سورۃ آٹھ سال میں پڑھی ۔ ( قرطبی ) ۔

سورۃ بقرہ کے مضامین کا خلاصہ

اس سورہ میں سب سے پہلے یہ بیان کیا گیا ہے کہ قرآن حکیم ان لوگوں کے لئے ہدایت ہے ۔ جن کے دلوں میں الله تعالی کا خوف اور پرھیز گاری کا مادہ ہو ۔ اس کے بعد یہ بتایا گیا ہے کہ قرآن مجید سن کر تین قسم کے لوگ پیدا ہوں گے ۔ اول مؤمن جو اس پر پورے دل سے ایمان لائیں گے ۔ دوم کافر جو اس کے مخالف ہوں گے ۔ اور سوم منافق جو ظاہری طور پر مانیں گے اور دل سے انکار کریں گے ۔ اس کے بعد سب سے پہلا حکم تمام انسانوں کو الله تعالی کی عبادت کا دیا گیا ہے ۔ اور قرآن کریم کی سچائی ثابت کی گئی ہے
چوتھے رکوع میں حضرت آدم علیہ السلام کی پیدائش اور خلافت ارضی کے مستحق ہونے کا ذکر ہے ۔ اس کے بعد ایک بڑے خاندان یعنی بنی اسرائیل کی زندگی کا ذکر پانچویں رکوع سے شروع ہوتا ہے ۔ اس خاندان میں سینکڑوں نبی اور رسول پیدا ہوئے ۔ اس خاندان کے حالات الله تعالی نے سبق آموز طریقہ میں بیان کئے ہیں ۔ اور ساتھ ہی یہ بھی بتایا کہ اپنی غلط حرکات اور خرابیوں کی وجہ سے یہ قوم خلافت الٰہی کے قابل نہ رہی ۔
پانچویں رکوع سے پندرھویں رکوع تک بنی اسرائیل کی تاریخ کے کئی واقعات بیان ہوئے ہیں ۔ مثلا ان کے عہد وپیمان ۔ کوہ طور پر جلوہ خداوندی ۔ سبت ( ہفتہ کا دن ) کا واقعہ ۔ گائے کا واقعہ ۔ قتل انبیاء کے حالات ۔ سحر اور جادو کی نا پاک کوششیں ۔ انبیاء کی توہین کی نا جائز حرکات ۔ نجات اور بخشش کے غلط عقیدے ۔ وغیرہ
سولہویں رکوع سے بنی اسرائیل کے مزید حالات اور حضرت آدم علیہ السلام کی اولاد میں حضرت محمد صلی الله علیہ وسلم کی عرب میں پیدائش کا ذکر ہے ۔ ساتھ ہی خانہ کعبہ کاذکر ہے ۔ اور الله کی راہ میں شہید ہونے والوں کے درجات بیان ہوئے ہیں ۔ بیسویں رکوع میں الله تعالی کی قدرت کے نشانات کا ذکر ہے ۔ اور اس کے بعد حلال وحرام کی بحث ہے ۔
سورہ بقرہ کے بیسویں رکوع میں ارشاد ہوا حقیقی نیکی کیا ہے ۔ اس کے بعد چھبیسویں رکوع تک قصاص ، میراث ُ روزہ ُ دُعا حج ، جہاد اور الله کی راہ میں مالی قربانی کے مسائل اور اس کے احکام مذکور ہیں ۔
ستائیسویں رکوع سے معاشرتی اور خاندانی زندگی کے مسائل شروع ہوئے ہیں ۔ یعنی نکاح ، حیض و نفاس ، طلاق ، عدّت ، نکاح ثانی ، بچوں کی تربیت حق مہر وغیرہ
رکوع نمبر بتیس میں پھر جہاد کا بیان ہے ۔ اور مثال میں حضرت طالوت کا جالوت سے مقابلہ کا ذکر ہے ۔ الله تعالی نے فرمایا کہ فتح اور شکست ، سامانِ جنگ کی کمی زیادتی پر منحصر نہیں ۔ اکثر چھوٹی فوجیں بڑے لشکروں پر غالب آجاتی ہیں ۔
چونتیسویں رکوع میں آیۃ الکرسی ہے ۔ جس میں الله کا حیّ و قیوم ہونا اور بہت سی دوسری صفتیں مذکور ہیں ۔ اور یہ کہ اسلام کے قبول کرنے میں کسی پر زبردستی نہیں ۔ کیونکہ اس کے دلائل اور خوبیاں واضح ہیں ۔
اس کے بعد حضرت ابراہیم علیہ السلام کی زندگی کے چند سبق آموز واقعات مذکور ہیں ۔ انتالیسویں رکوع تک صدقہ وخیرات اور پرھیزگاری کے احکام ہیں ۔ سود کی ممانعت ہے ۔ اور گواہی کے بارے میں ہدایات اور قوانین کا بیان ہے ۔ تجارت کے چند اصولوں کا بھی ذکر ہی ۔
سورت کے آخری یعنی چالیسویں رکوع میں ایمان واسلام کا خلاصہ اور ایک جامع دُعا بیان ہوئی ہے ۔ اس دُعا کے آخری الفاظ یہ ہیں ۔ فَانْصُرْنَا عَلَی القَومِ الْکَافِرِیْنَ ۔ ہمیں کافروں کی جماعت پر برتری عطا فرما ۔ یہ قرآن کی دعوت کا نتیجہ ہے ۔
گویا قرآن مجید کی تعلیم سے جو قوم پیدا ہو گی ۔ اس کے ذریعے سے الله تعالی کا قانون کفر پر غالب آجائے گا ۔ یہاں الله تعالی کو ماننے والی قوم اور نہ ماننے والی اقوام کا انجام بتایا ہے ۔ مؤمن کامیاب ہوں گے اور منکر مغلوب اور نا کام ہوں گے ۔ سورت کا خاتمہ گویا انہی الفاظ پر ہوا ہے ، جہاں سے شروع ہوا تھا ۔

یہ بات نہ بھولنی چاہئے ۔ کہ یہ خلاصہ محض مضامین کا ایک تصوّر دلانے کے لئے ہے ۔ ورنہ الله جل شانہ کے کلام کے حقائق اور کمالات و وسعت چند لفظوں میں بیان کرنا ممکن نہیں ۔
ہمیں چاہیے کہ ہم بھی الله کا نام لے کر اس سورۃ کے احکام پر غور وفکر کریں ۔ اس کی حکمتیں سمجھنے کی کوشش کریں ۔ اور اُن پر عمل کے لئے کمر بستہ ہو جائیں ۔ حقیقت میں اس کا مقصد اپنے آپ کو یاد دہانی ہے ۔ اور اپنے اعمال درست کرنے کی کوشش ہے ۔ الله تبارک وتعالی ہمیں اس کی توفیق دے ۔ آمین
ماخذ ۔۔۔
معارف القرآن ۔۔۔ مفتی محمد شفیع رحمہ الله تعالی
درسِ قرآن ۔۔۔۔ مرتبہ درس قرآن بورڈ
 

ام اویس

رکن
شمولیت
جون 29، 2016
پیغامات
171
ری ایکشن اسکور
8
پوائنٹ
64


بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

آلٓمّٓ

سورۃ بقرہ کی ابتداء الم سے ہوئی ہے ۔ اس قسم کے حروف گو، حروف مقطعات کہتے ہیں ۔ یہ حروف اکٹھے لکھے جاتے ہیں لیکن الگ الگ پڑھے جاتے ہیں، یعنی ۔الف ۔ لام۔ میم
یہ حروف ( آلٓمّٓ ) اس سورۃ کے علاوہ پانچ اور سورتوں کے شروع میں آئے ہیں ۔ ان حروف کے علاوہ اس قسم کےکچھ اور حروف بھی ہیں ۔ جو قرآن مجید کی مختلف سورتوں کی ابتداء میں ہیں ۔ جیسے حٓمٓ ۔ آلٓمّٓرٓ ۔
حروف مقطعات سے شروع ہونے والی سورتوں کی کُل تعداد اُنتیس ( 29 ) ہے ۔
ان حروف کے معنی کیا ہیں ؟ اس کے بارے میں یقینی جواب نہیں دیا جا سکتا ۔ بعض مفسرین کرام نے فرمایا کہ یہ حروف جن سورتوں کے شروع میں آئے ہیں انہیں کے نام ہیں ۔
بعض نے فرمایا ۔ان حروف میں الله تعالی کے نام چُھپے ہوئے ہیں ۔
مگر جمہور صحابہ رضوان الله تعالی علیھم اور تابعین کرام اور علماء امت کے نزدیک یہ حروف رموز و اسرار ہیں ۔ جس کا علم سوائے الله تعالی کے اور کسی کو نہیں ۔ رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے ان حروف کی تفسیر وتشریح میں کچھ نقل نہیں کیا گیا ۔
امامِ تفسیر قرطبی نے اپنی تفسیر میں فرمایا ۔ جس کا خلاصہ یہ ہے ۔
" عامر شعبی ، سفیان ثوری اور ایک جماعت محدثین رحمھم الله علیھم نے فرمایا ۔ ہر آسمانی کتاب میں الله تعالی کے کچھ خاص اسرار و رموز ہوتے ہیں ۔ اسی طرح یہ حروف مقطعات قرآن مجید میں حق تعالی کے راز ہیں ۔ یہ اُن متشابھات میں سے ہیں جن کا علم صرف الله جل شانہ کو ہے ۔ ہمارے لئے ان میں بحث اور گفتگو کرنا جائز نہیں ۔ اس کے باوجود یہ بے فائدہ نہیں ہیں ۔ ان پر ایمان لانا اور ان کو پڑھنا ہمارے لئے بہت بڑا ثواب ہے ۔ حروف مقطعات پڑھنے کے بہت سے فائدے ہیں ۔اور بہت برکتیں ہیں ۔جو اگرچہ ہمیں معلوم نہیں ہیں مگر حاصل ضرور ہوتے ہیں، یہ جیسے ہیں اسی طرح پڑھنے چاہییں ۔
ابن کثیر نے بھی اسی کو تر جیح دی ہے ۔
البتہ بعض علماء کرام نے ان حروف کے جو معنی بیان کئے ہیں ۔ وہ صرف مثال اور آسانی کے لئے ہیں ۔ یہ مراد نہیں ہے کہ ایسا الله تعالی نے فرمایا ہے ۔ اس کو غلط کہنا علماء کرام کی تحقیق کے خلاف ہے ۔
حوالہ ۔۔
معارف القرآن ۔۔۔ مفتی محمد شفیع رحمہ الله تعالی
تفہیم القرآن میں مودودی صاحب رحمہ الله تعالی فرماتے ہیں ۔۔۔ جس زمانے میں قرآن مجید نازل ہوا اس وقت اس طرح کے حروف عام طور پر استعمال کئے جاتے تھے ۔ چنانچہ خطیب اور شاعر اپنے کلام میں اس فسم کے اسلوب سے کام لیتے تھے ۔ اور سننے والے ایسے طریقہ کو سننے کے عادی تھے اور سمجھ جاتے کہ اس سے کیا مراد ہے ۔ اسی لئے اس دور کی شاعری وغیرہ میں اس قسم کی مثالیں ملتی ہیں ۔ بعد میں آہستہ آہستہ یہ طریقہ ختم ہو گیا ۔ اس لئے مفسرین کے لئے ان حروف کے مطلب کا تعین کرنا مشکل ہو گیا ۔۔ و الله اعلم

الله جل شانہ ہمیں قرآن مجید کو صحیح طور پر پڑھنے اور سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ ہمارا فرض ہے کہ ہم قرآن مجید کے واضح احکام پر عمل کریں اور متشابھات کی بحث میں نہ پڑیں ۔
 

ام اویس

رکن
شمولیت
جون 29، 2016
پیغامات
171
ری ایکشن اسکور
8
پوائنٹ
64
قرآن مجید کی حیثیت ۔


ذٰلِکَ ۔ الْکِتَابُ ۔ لَا ۔ رَیْبَ ۔ فِیْهِ ۰۰

یہ ۔ کتاب ۔ نہیں ۔ شک ۔ اس میں

ذٰلِکَ الْکِتَابُ لَا رَیْبَ۔ ج فِیْهِ ج ۔

اس کتاب میں کوئی شک نہیں

ذٰلِکَ ۔۔۔ ( یہ ) کسی چیز کی طرف اشارہ کرنے کے لئے آتا ہے ۔ عربی میں ذٰلک اور اس کے علاوہ کچھ اور لفظ اشارہ کے لئے استعمال ہوتے ہیں ۔ ذٰلک عام طور پر دُور کی چیز کی طرف اشارہ کرنے کے لئے آتا ہے ۔ یہاں قرآن مجید کی بزرگی اور بڑائی کے لحاظ سے دُور کا اشارہ قریب ( اس ) کے معنوں میں استعمال ہوا ہے ۔
اَلْکِتٰبُ ۔۔۔ ہر لکھی ہوئی چیز کو کتاب کہتے ہیں ۔ ال جب کسی اسم کے شروع میں آئے تو اسے خاص کر دیتا ہے ۔ چنانچہ کتاب سے پہلے جو ال ہے ۔ اس سے خاص کتاب قرآن مجید مراد ہے ۔
دُنیا میں ہر شخص کو سچے اصول معلوم کرنے کی ضرورت ہوتی ہے ۔ تاکہ ان پر چل کر اپنا مقصد حل کر سکے ۔ بعض لوگ چاہتے ہیں کہ ایسے اصول اپنی عقل سے معلوم کر لیں ۔ مگر تجربہ سے ظاہر ہے ۔ کہ جو اصول انسان اپنی عقل سے نکالتا ہے وہ سچے ، یقینی اور دائمی نہیں ہو سکتے ۔ کیونکہ مختلف مسائل کے بارے میں لوگوں کے مختلف خیالات پائے جاتے ہیں ۔ گویا ہم اپنی عقل سے ایک بات پر متفق نہیں ہو سکتے ۔ بلکہ جتنے منہ ہوں گے اُتنی باتیں ہوں گی ۔
اس اختلاف کو ختم کرنے کے لئے الله تعالی نے ہمیں کمال شفقت سے یہ کتاب عنایت فرمائی ۔ اور ساتھ ہی فرمایا کہ اس کتاب کی باتیں حکمت سے بھری ہوئی سچی اور اٹل ہیں ۔ اس میں کسی قسم کا شک اور شبہ نہیں ۔ اس میں جو وعدے کئے گئے ہیں وہ یقینی طور پر پورے ہوں گے ۔ اور جو تعلیم اس میں دی گئی ہے ۔ وہ بلا شبہ درست نتیجے پیدا کرے گی ۔ اگر کسی کو کوئی شک والی بات نظر آئے تو تھوڑے سے غور وفکر سے خود قرآن مجید ہی کے ذریعے سے دُور ہو سکتی ہے ۔
قرآن حکیم کی تعلیم عقل کی پہنچ سے دُور نہیں ۔ انسانوں کو دعوت دی جاتی ہے کہ وہ تجربہ کر کے قرآن کریم کی سچائی کو آزما لیں یقیناً اس پر عمل کرنے سے ان کی ہر تکلیف دور ہو جائے گی ۔ کون نہیں جانتا عرب قوم جہالت میں ڈوبی ہوئی تھی ۔ وہ سب سے زیادہ پسماندہ تھی ۔ غیر مہذب اور غیر متمدن تھی ۔ جب اس قوم نے قرآن مجید کی تعلیمات پر عمل کیا تو وہ اخلاق ، معاملات ، رہن سہن ، تعلیم وحکمت ، سیاست اور معیشت ، عدل وحکومت غرض زندگی کے ہر مرحلہ میں کامیاب ہو گئی ۔ جو سب سے پیچھے تھے وہ قرآن مجید کی بدولت دُنیا کے امام ، رہبر اور رہنما بن گئے ۔ قرآن کا ہر وعدہ پورا ہوا ۔ لیکن جب اس پر عمل کرنا چھوڑ دیا تو وہی بیماریاں پھر لوٹ آئیں ۔
ہمیں چاہئے ہم پختہ عزم کے ساتھ قرآن حکیم پر عمل کرنے کا عہد کریں ۔ ہر قسم کے شکوک و شبہات چھوڑ دیں اور الله کے وعدوں کے مطابق دُنیا اور آخرت کی کامیابی حاصل کریں ۔
 

ام اویس

رکن
شمولیت
جون 29، 2016
پیغامات
171
ری ایکشن اسکور
8
پوائنٹ
64
قرآن مجید کا مقصد

ھُدًی ۔ لِ ۔ الْمُتَّقِیْنَ

ہدایت ۔ کے لئے ۔ پرھیز گار ( جمع ) ۔

ھُدًی لِّلمُتَّقِیْنَ 2️⃣ لا

پرھیزگاروں کے لئے ھدایت ہے ۔

ھُدًی ۔۔۔ ہدایت ۔ راستہ کا علم ، راستہ پر چلنے کا سامان ،اور توفیق ، منزل پر پہنچنے کی قوّت ۔ یہ تمام باتیں ہدایت کے معنوں میں شامل ہیں ۔
مُتَّقِیْنَ ۔۔۔ یہ متقی کی جمع ہے ۔ اور لفظ تقوٰی سے بنا ہے ۔ متقی وہ ہے جس میں تقوٰی ہو ۔ تقوٰی احتیاط اور نگہداشت کو کہتے ہیں ۔ اسی اعتبار سے متقی کے معنی ہوئے پرھیزگاری سے زندگی بسر کرنے والا ۔ جو ہر کام سوچ سمجھ کر احتیاط سے کرتا ہو ۔ تقوٰی کی تشریح میں حضرت ابی بن کعب رضی الله عنہ کا واقعہ قابل غور ہے ۔
حضرت ابی بن کعب رضی الله عنہ سے ایک بار حضرت عمر رضی الله عنہ نے پوچھا ۔ تقوٰی کسے کہتے ہیں ۔ انہوں نے فرمایا ۔ اگر کسی ایسے جنگل میں سے گزرو جو کانٹوں اور جھاڑیوں سے بھرا ہوا ہو ۔ تو کیا کرو گے ؟
انہوں نے جواب دیا ۔ میں اپنے کپڑوں کو سمیٹ لوں گا ۔ کہ دامن کانٹوں سے نہ اُلجھے ۔
حضرت ابی بن کعب رضی الله تعالی عنہ نے فرمایا ۔ بس یہی تقوٰی ہے ۔
ظاہر ہوا کہ قرآن کی ہدایت اُن لوگوں کے لئے مفید ہے ۔ جو دُنیا کی زندگی کے جنگل میں ہر قسم کے کانٹوں یعنی گناہوں وغیرہ سے بچ کر اپنی منزل تک پہنچنا چاہتے ہوں ۔
انسان دو قسم کے ہیں ۔ اول قسم کے لوگ لا پرواہ اور لا اُبالی ہوتے ہیں ۔ وہ اس قدر بے فکرے ہوتے ہیں کہ بغیر سوچے سمجھے ہر کام میں ہاتھ ڈال دیتے ہیں ۔ اور دوسرے ایسے ہوتے ہیں ۔ جو ہر کام کرنے سے پہلے سوچ سمجھ کر احتیاط سے کام لیتے ہیں ۔ ہدایت سے فائدہ احتیاط سے زندگی بسر کرنے والے ہی اٹھا سکتے ہیں ۔ یہی لوگ ہیں جن میں تقوٰی کا رنگ پایا جاتا ہے ۔ قرآن مجید کی تعلیمات سے پرھیزگاری اعلی مقام پر پہنچ جائے گی ۔ اور وہ صفات پیدا ہو جائیں گی جن کا بیان آگے آرھا ہے ۔
یہ کتاب ساری دنیا کی ہدایت کے لئے نازل ہوئی ہے ۔ اور یہ مخاطب بھی سارے جہان والوں سے ہے ۔ مگر عملاً اس سے نفع صرف وہی لوگ حاصل کر سکتے ہیں ۔ جن میں سچائی کی طلب اور تلاش ہو ۔ آخر ہر کام کے لئے کچھ سامان کی ضرورت ہوتی ہے ۔ مثلاً چلنے کے لئے پاؤں ضروری ہیں ، دیکھنے کے لئے آنکھیں ۔ اسی طرح قرآن مجید سے ہدایت حاصل کرنے کے لئے دل کے اندر تقوٰی یعنی احتیاط کا مادہ ہونا بہت ضروری ہے ۔ سورج تو سارے جہان پر چمکتا ہے ۔ لیکن جنہوں نے اپنے دیکھنے کی قوت ضائع کر دی ہو اُن کے لئے اس کی روشنی بےکار ہے ۔ اگر زمین شور زدہ ہو تو بارش اس پر بے اثر ثابت ہو گی ۔
دلوں میں تقوٰی پیدا کرنے کے لئے ضروری ہے ۔کہ ہم خود اپنے کاموں کا محاسبہ کرتے رہا کریں ۔
ایک بار حضرت عمر رضی الله عنہ نے فرمایا ۔ اس سے پہلے کہ دوسرے تم سے جواب طلب کریں ۔ تم خود اپنا جائزہ لیتے رہا کرو ۔
 

ام اویس

رکن
شمولیت
جون 29، 2016
پیغامات
171
ری ایکشن اسکور
8
پوائنٹ
64
متّقیوں کی صفات ۔۔ ۔۔۔ 1. ( ایمان بالغیب )


الَّذِیْنَ ۔ یُؤْمِنُونَ۔ بِالْغَیْبِ ۔

جو لوگ ۔ ایمان لاتے ہیں۔ ۔ غیب پر

اَلّذِینَ یُؤْمِنُونَ بُالْغَیْبِ

جو لوگ غیب پر ایمان لاتے ہیں۔

الَّذِیْنَ ؛ وہ لوگ جو کہ ۔ یہ اسم موصول ہے ۔ اس کا واحد الَّذِی ہے ۔ قرآن مجید میں یہ لفظ بار بار استعمال ہو گا ۔ ذہن نشین کر لیں ۔

یؤْمِنُونَ ۔ ایمان لاتے ہیں ۔ یہ لفظ ایمان سے نکلا ہے ۔ ایمان سے مراد ہے کسی حقیقت کو زبان سے ماننا ۔ دل سے اس پر یقین کرنا اور اس کے مطابق اس پر عمل کا ارادہ کر لینا ۔ جو ایمان لاتا ہے وہ ہر قسم کے شک وشبہ سے امن میں آجاتا ہے ۔ یہی ایمان ہے جو شریعت میں قابل اعتبار ہے ۔
لغت میں کس کی بات کو کسی کے اعتبار پر پورے طور پر مان لینے کا نام ایمان ہے ۔ اسی لئے دیکھ کر یا محسوس کر کے کسی کی بات مان لینے کو ایمان نہیں کہتے ۔ مثلا کوئی شخص سفید کپڑے کو سفید یا سیاہ کو سیاہ کہہ رہا ہے اور دوسرا اس کی تصدیق و تائید کر رہا اس کو ایمان لانا نہیں کہیں گے ۔ کیونکہ یہ تصدیق مشاہدہ کی بنا پر ہے اس میں کہنے والے پر اعتماد ویقین کا کوئی دخل نہیں ۔
شریعت میں رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی باتوں کو بغیر مشاہدہ کے صرف رسول الله صلی الله علیہ وسلم پر اعتماد کرتے ہوئے مان لینے کا نام ایمان ہے ۔
غیب سے مراد وہ عالم ہے ۔ جو اس ظاہری دنیا سے بُلند ہے ۔ اور جس کی خبریں صرف نبی کے ذریعہ معلوم ہوتی ہیں ۔
قرآن مجید میں غیب سے مراد وہ تمام چیزیں ہیں جن کی خبر رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے دی ہے ۔ اور ان کا علم عقل سمجھ اور مشاہدہ یا حواس خمسہ سے نہیں ہو سکتا ۔
مثلا الله تعالی کی ذات و صفات ، فرشتے ، جنت و دوزخ ، حساب و کتاب ، قیامت ، اسں میں پیش آنے والے واقعات ، جزاء اور سزا ، تمام آسمانی کتابیں اور انبیاء سابقین وغیرہ
تو اب ایمان بالغیب کے معنی یہ ہو گئے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم جو ہدایات اور تعلیمات لے کر آئے ہیں اُن سب کو یقینی طور پر دل سے ماننا ۔ شرط یہ ہے کہ ان تعلیمات کا رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے نقل ہونا قطعی طور پر ثابت ہو ۔ چنانچہ نبی کریم صلی الله علیہ وسلم پر ایمان لائے بغیر ایمان بالغیب کامل نہیں ہوتا ۔ اس سے یہ بھی معلوم ہو گیا کہ صرف جان لینے کو ایمان نہیں کہتے ۔ کیونکہ جہاں تک جاننے کا تعلق ہے تو وہ ابلیس و شیطان اور بہت سے کافروں کو بھی حاصل ہے ۔ کیونکہ اُن کو رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی سچائی کا یقین تھا ۔ مگر اس کو مانا نہیں اس لئے وہ مؤمن نہیں ہیں ۔
اس سے پہلے سبق میں بتایا گیا تھا ۔ کہ قرآن مجید اُن لوگوں کے لئے دستورِ حیات ہے جو نہایت خلوص اور پاک نیت سے اس سے فائدہ حاصل کرنا چاہتے ہیں ۔ جن میں احتیاط اور نگہداشت سے زندگی بسر کرنے کا جذبہ اور صلاحیت موجود ہو ۔ اور وہ محتاط اور پاکیزہ زندگی گزارنے کا شوق رکھتے ہوں ۔ اس آیہ مبارکہ میں متقین کی پہلی صفت بیان کی جاتی ہے ۔ جو قرآنی ہدایت سے ان میں پیدا ہو گی ۔ وہ یہ ہے کہ وہ ایسی چیزوں پر ایمان لاتے ہیں ۔جن کا وجود ظاہری حواس سے بلند ہو ۔
ایمان کے بغیر دل میں بے چینی اور بے قراری ہی رہتی ہے ۔ کیونکہ ایمان اور یقین نہ ہو تو شک اور تردّد ، وہم و گمان دل میں اپنی جگہ بنا لیتے ہیں ۔ لیکن ایک ایمان والا سخت سے سخت مصیبت اور آزمائش کے وقت بھی کبھی نہیں گبھراتا ۔ بلکہ اس کو امید لگی رہتی ہے اور یقین ہوتا ہے کہ وہ ایک بڑا سہارا اور مضبوط آسرا رکھتا ہے ۔ اس سے دماغ کو سکون ، دل کو اطمینان اور روح کو چین نصیب ہوتا ہے ۔ غیب پر یقین رکھنے کا یہ عقیدہ دین کا مغز اور ایمان کی روح ہے ۔ اس کے بغیر ایمان پختہ نہیں ہوتا ۔
ہم نے اپنے آپ کو قرآن کریم سے ہدایت لینے کے لئے تیار کر لیا اور متقی لوگوں میں شامل ہو گئے ۔ اب ہمیں چاہئے کہ قرآن مجید کی تعلیمات کے مطابق اپنے اندر وہ صفات پیدا کر لیں ۔ جن کا حکم الله جل شانہ قرآن مجید میں دیتا ہے ۔ ہمیں بغیر چون وچرا غیب کی تمام حقیقتوں پر ایمان لے آنا چاہیے ۔ جن کی خبر ہمیں نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کی معرفت دی گئی ہے ۔ الله تعالی ہمیں اس کی توفیق دے ۔ آمین
ماخذ ۔۔۔
معارف القرآن ۔۔۔۔۔ مفتی محمد شفیع رحمہ الله تعالی
درس قرآن ۔۔۔۔۔۔ مرتبہ درسِ قرآن بورڈ
 

ام اویس

رکن
شمولیت
جون 29، 2016
پیغامات
171
ری ایکشن اسکور
8
پوائنٹ
64
متّقیوں کی صفات ۔۔۔۔۔ ۲۔۔۔۔ نماز کی پابندی۔


وَ ۔ یُقِیْمُونَ ۔ الصَّلٰوۃَ ۔

اور ۔ وہ قائم کرتے ہیں ۔ نماز

وَ یُقِیْمُونَ الصَّلٰوۃَ

اور وہ نماز قائم کرتے ہیں ۔۔

یُقِیْمُوْنَ ۔۔۔۔ قائم کرتے ہیں ۔۔ اقامت سے بنا ہے ۔ اس کے معنی ہیں قائم کرنا ۔ اقامت الصلوۃ سے مراد یہ ہے کہ پوری شرائط اور پابندی کے ساتھ نماز باقاعدگی کے ساتھ خود بھی ادا کرے ۔اور دوسروں کو بھی اس کی ادائیگی پر آمادہ کرے ۔
صلٰوۃ کے لفظی معنی دُعا کے ہیں ۔ شریعت میں صلٰوۃ خاص عبادت ( نماز ) کا نام ہے ۔ اس کا نام صلٰوۃ اس لئے رکھا گیا ہے ۔ کہ اس عبادت میں سب سے زیادہ حصہ دُعا کا ہے ۔ نماز میں زبان سے بھی دُعا کی جاتی ہے ۔ دل سے بھی اور ظاہری اعضاء سے بھی ۔
ایمان بالغیب کے بعد متّقی لوگوں کی دوسری صفت بیان کی گئی ہے ۔ یعنی وہ پابندی سے نماز قائم کرتے ہیں ۔ نماز الله تعالی کے آگے جھکنے ۔ اپنی بندگی کا اظہار کرنے ۔ الله کریم سے گہرا تعلق پیدا کرنے اور اُمت کے تمام لوگوں میں تنظیم پیدا کرنے کا بہترین ذریعہ ہے ۔ نماز بدنی عبادتوں میں سب سے اعلی ہے ۔ اور اس کے ذریعے ایمان اور توحید کا اظہار بڑی خوبی سے ہوتا ہے ۔ ایک اکیلے انسان کے لئے بھی اس میں اخلاقی ، طبّی ، مادی اور روحانی فائدے ہیں ۔ اور پوری امت کے لئے بھی اس میں بہت سے معاشرتی فائدے ہیں ۔
تمام مسلمان پاک صاف ہو کر دن میں پانچ مرتبہ ایک امام کے پیچھے ، ایک قبلہ کی طرف منہ کر کے ، ایک قطار میں کھڑے ہوتے ہیں ۔ اور اپنے ربّ کے سامنے حاضر ہو کر اپنی بندگی اور آپس میں بھائی بھائی ہونے کا اقرار کرتے ہیں ۔ اس سے جماعت کے تمام لوگوں کے دل حسد ، کھوٹ اور خود غرضی سے پاک ہو جاتے ہیں ۔ آپس میں محبت ، اُلفت اور برابری کا احساس پیدا ہوتا ہے ۔ ایک دوسرے کے دُکھ درد کا پتہ چلتا ہے ۔ انسان بے حیائی اور گناہ سے رُکتا ہے ۔
نماز باجماعت سے امیر کی اطاعت کا جذبہ پیدا ہوتا ہے ۔ قوم باقاعدگی اور پابندی کی زندگی کا سبق سیکھتی ہے ۔ چنانچہ اسلام کی ابتدائی زندگی میں مسلمانوں کو جس قدر کامیابیاں حاصل ہوئیں ۔ اُن کی سب سے بڑی وجہ یہی نماز با جماعت کی پابندی اور باقاعدگی تھی ۔ عرب کے بدّو جو کسی نظام کے تحت نہ تھے ۔ نماز کی پابندی سے منظّم ترین جماعت بن گئے ۔ اور دُنیا کے لئے اتحاد کا نمونہ ثابت ہوئے ۔
حدیث مبارکہ کا مفہوم ہے ۔ کہ مسلمان اور کافر کے درمیان فرق کرنے والی چیز نماز ہے ۔ اس ارشاد نبوی صلی الله علیہ وسلم کو ہمیں اپنے اوپر چسپاں کر کے دیکھنا چاہئیے کہ ہم کس گروہ میں شامل ہیں ۔ ایک اور حدیث مبارکہ کا مفہوم ہے ۔کہ نماز مؤمن کا معراج ہے ۔ وہ بد قسمت ہو گا جو اس بلند مرتبہ پر نہ پہنچنا چاہتا ہو ۔
نماز ایک ایسی عبادت ہے جو اخلاقی ، روحانی ، انفرادی اور اجتماعی غرض ہر لحاظ سے مفید ہے ۔ اسی لئے نماز کو دین کا ستون قرار دیا گیا ہے ۔
درس قرآن
مرتبہ ۔۔۔۔۔۔۔ درس قرآن بورڈ

اقامت الصلوۃ کا مطلب ۔۔۔۔۔ اقامت ( قائم کرنا ) کے معنی صرف نماز پڑھنے کے نہیں ہیں ۔ بلکہ نماز کو ہر سمت اور ہر حیثیت سے درست کرنے کا نام اقامت ہے ۔ جس میں نماز کے تمام فرائض ، واجبات ، مستحبات وغیرہ پھر ہمیشہ کرنا اور لازمی کرنا یہ سب اقامت کے مفہوم میں شامل ہے ۔ اور اس جگہ نماز سے مراد کوئی خاص نماز نہیں ہے ۔ بلکہ فرض نمازیں ۔ واجب و نفل سب شامل ہیں ۔ یعنی نمازوں کی ہمیشہ پابندی شرعی طریقہ کے مطابق اور پورے آداب اور حضوری کے ساتھ اقامت الصلوہ ہے ۔۔۔
مأخذ ۔۔۔ معارف القرآن
 

ام اویس

رکن
شمولیت
جون 29، 2016
پیغامات
171
ری ایکشن اسکور
8
پوائنٹ
64
متّقیوں کی صفات ۔۔۔۳ ۔۔۔۔ مالی قربانی


وَ ۔ مِمَّا ۔ رَزَقْنٰھُمْ ۔ یُنْفِقُوْنَ 3️⃣ لا

اور ۔ اُس میں سے جو ۔ ہم نے انہیں دیا ۔ وہ خرچ کرتے ہیں

وَ مِمَّا رَزَقْنٰھُمْ یُنْفِقُوْنَ 3️⃣ لا

اور جو کچھ ہم نے اُنہیں دیا اس میں سے خرچ کرتے ہیں ۔

رَزَقْنٰھُمْ ۔ ( ہم نے انہیں دیا ) ۔ یہ دو لفظ ہیں ۔ رَزَقْنَا اور۔ ھُم

رَزَقْنَا رزق سے نکلا ہے ۔ عربی میں یہ لفظ بہت سے معنوں میں استعمال ہوتا ہے ۔ رزق سے مراد ہر قسم کی نعمتیں ہیں ۔ خواہ ظاہری ہوں یعنی مال ، صحت ، اولاد وغیرہ یا باطنی ہوں جیسے علم دانائی اور سمجھ وغیرہ ۔ مال الله تعالی کی بخشش میں سے ایک بہت بڑا عطیہ ہے ۔
اس سے یہ بھی ظاہر ہے کہ ہر چیز الله تعالی کی طرف سے ملتی ہے ۔ اور جو بھی نعمت انسان کو ملتی ہے الله تعالی کی عنایت سے ملتی ہے ۔
یُنْفِقُونَ ۔ ( وہ خرچ کرتے ہیں ) ۔ یہ لفظ انفاق سے نکلا ہے ۔ جس کے معنی خرچ کرنا ہیں ۔
آیہ مبارکہ کے اس حصہ میں متّقی لوگوں کی تیسری صفت کا بیان ہے ۔ یعنی جو کچھ انہیں الله تعالی نے دے رکھا ہے ۔ وہ اس میں سے مناسب اور ضروری موقعوں پر جائز اور مفید کاموں میں خرچ کرتے ہیں ۔ الله تعالی کے راستے میں مال خرچ کرنا بڑی قربانی ہے ۔ بہت سے لوگ ایسے ہیں کہ جسمانی عبادت تو کرتے ہیں لیکن پیسہ خرچ کرنے کا نام نہیں لیتے ۔ اس قسم کی کنجوسی دُنیا اور آخرت دونوں جہانوں میں نقصان دہ ہے ۔
جب انسان کے عزیز واقارب ، والدین اور رشتہ دار اس کی طرف رجوع کرتے ہیں کہ ان کی ضرورتوں میں اُن کی مدد کرے اور کنجوس انکار کرتا ہے ۔ تو وہ سخت دکھی ہو جاتے ہیں اس کے علاوہ جب معاشرے میں حاجتمندوں ، یتیموں اور بے کسوں ، غریبوں کی مدد کا دستور نہیں رہتا ۔ اور قوم کی درستی ۔ عوام کی بہبودی اور دشمن کے دفاع میں خرچ نہیں کیا جاتا تو ساری قوم مصیبت میں پڑ جاتی ہے ۔ اور آخر کار افرادی دولت بھی ختم ہو جاتی ہے ۔
آخرت کی زندگی میں کنجوسی کا یہ انجام ہوتا ہے کہ جب دِل میں مال کی محبت بھر جاتی ہے اور موت کے وقت جسم روح کا ساتھ چھوڑتی ہے ۔ تو وہ مال کی محبت میں بڑی بے چین رہتی ہے ۔ اور یہ غیر ضروری محبت اُس جہان میں سانپ ، بچھو اور آگ کی صورت میں ظاہر ہو کر عذاب کی شکل اختیار کر لیتی ہے ۔ اس لئے الله تعالی نے انسانوں کو یہ تعلیم دی ہے کہ دین ودُنیا کی کامیابیوں کے لئے ضروری ہے کہ یہاں مالی قربانی کرو ۔ اور اسی طرح اس کی دی ہوئی قوّتوں ، صلاحیتوں اور کامیابیوں کو لوگوں کی خدمت میں خرچ کرو ۔
ہمارا فرض ہے کہ اپنی تمام کوششوں ، قوتوں صلاحیتوں اور مال ودولت کو عام لوگوں کی خدمت میں لگانے سے پیچھے نہ ہٹیں ۔ اپنی ہمت کے مطابق بڑھ چڑھ کر حصہ لیں اس میں ملک اور قوم کا بھی بھلا ہے اور اسی میں ہم سب کا فائدہ ہے ۔
یُنْفِقُونَ ۔۔۔ میں ہر قسم کا وہ خرچ شامل ہے جو الله کی راہ میں کیا جائے ۔ خواہ فرض زکٰوۃ ہو یا دوسرے واجب صدقات یا نفلی صدقات و خیرات وغیرہ ۔ اسی طرح انسان کی قوتیں ، صلاحیتیں ، ہمدردی وغیرہ کہ سب کچھ اُسی کا عطا کردہ ہے ۔ الله جل شانہ سے دُعا ہے کہ وہ ہمیں اپنی عطا کردہ نعمتوں میں سے خوب خرچ کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ اور نفس کی کنجوسی سے بچائے ۔ آمین
جان دی دی ہوئی اُسی کی تھی
حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا

ماخذ۔
درس قرآن
معارف القرآن
 

ام اویس

رکن
شمولیت
جون 29، 2016
پیغامات
171
ری ایکشن اسکور
8
پوائنٹ
64
متّقیوں کی صفات ۔۔۔۔۴ ۔۔۔۔ کتابوں پر ایمان


وَ ۔ الَّذِیْنَ ۔ یُؤْمِنُونَ ۔ بِمَا ۔ اُنْزِلَ ۔ اِلَیْ ۔ کَ ۔ وَ ۔ مَا ۔ اُنْزِلَ ۔ مِنْ ۔ قَبْلِکَ ۔ ج

اور ۔ جو لوگ ۔ ایمان لاتے ہیں ۔ اس پر جو ۔ اُتارا گیا ۔ طرف ۔ آپ کی ۔ اور ۔ جو ۔ اُتارا گیا ۔ سے ۔ آپ سے پہلے ۔۔

وَ الَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِمَآ اُنْزِلَ اِلَیْکَ وَ مَا اُنْزِلَ مِنْ قَبْلِکَ ۔ ج

اور جو لوگ ایمان لاتے ہیں اس پر جو آپ پر نازل ہوا اور جو آپ سے پہلے نازل ہوا۔
۔۔۔۔
اس آیہ مبارکہ میں متقی لوگوں کی چوتھی صفت بیان کی گئی ہے ۔ یعنی یہ لوگ تمام آسمانی کتابوں اور صحیفوں پر ایمان رکھتے ہیں ۔
گویا اس آیہ مبارکہ میں دو باتیں بیان کی گئی ہیں ۔ ایک یہ کہ جو کتاب یعنی قرآن مجید رسول الله صلی الله علیہ وسلم پر نازل ہوئی ہے اس پر سچے دل سے ایمان لایا جائے اور دوسرا یہ کہ جو کتا بیں آپ سے پہلے نبیوں پر نازل ہوئیں انہیں بھی حق اور الله تعالی کی طرف سے سچا مانا جائے ۔ یہاں یہ بات بھی خوب واضح ہے کہ قرآن مجید میں آخری نبی صلی الله علیہ وسلم کی کتاب اور آپ سے پہلے نبیوں کی کتابوں کا ذکر کیا گیا ہے ۔ آپ کے بعد ہونے والے نہ کسی نبی کا ذکر ہے اور نہ کسی کتاب کا ۔ چنانچہ معلوم ہو گیا کہ آپ صلی الله علیہ وسلم آخری نبی ہیں اور قرآن مجید آخری کتاب ہے ۔
اگر قرآن مجید کے بعد کوئی کتاب یا وحی نازل ہونے والی ہوتی تو جس طرح اس آیہ مبارکہ میں پچھلے نبیوں اور کتابوں پر ایمان لانا ضروری قرار دیا گیا ۔ ۔ اسی طرح آئندہ آنے والے نبی اور کتاب کا ذکر ضرور ہوتا ۔ بلکہ اس کی زیادہ ضرورت تھی ۔ مگر قرآن مجید میں جہاں ایمان کا ذکر کیا گیا تو آپ صلی الله علیہ وسلم سے پہلے نازل ہونے والی وحی اور پہلے انبیاء علیھم السلام کا ذکر ہے بعد میں آنے والی وحی یا کسی قسم کے نبی کا قطعاً ذکر نہیں ہے ۔ ان آیات میں اور ان جیسی دوسری آیات میں جہاں کہیں نبی یا رسول یا وحی و کتاب کا ذکر ہے سب کے ساتھ مِنْ قَبْلِ ۔۔ یا مِنْ قَبْلِکَ ۔۔ ضرور موجود ہے ۔اس سے ثابت ہو جا تا ہے کہ حضرت محمد صلی الله علیہ وسلم آخری نبی اور قرآن مجید آخری کتاب ہے
جو نبی آپ سے پہلے آئے ان کی تعداد بہت زیادہ ہے ۔ قرآن مجید میں اُن میں بعض کا نام لے کر ذکر کیا گیا ہے ۔ باقی کی طرف صرف اشارہ کیا گیا ہے ۔ نبیوں پر ایمان لانے سے مُراد یہ ہے ۔کہ حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر آخری نبی حضرت محمد صلی الله علیہ وسلم تک جتنے نبی آئے ہیں ۔ اُن سب کے بارے میں یہ یقین رکھنا کہ وہ سب الله تعالی کے بھیجے ہوئے تھے ۔ اور اپنے اپنے زمانے میں الله تعالی کی توحید اور احکام کی تعلیم دیتے رہے ۔
پہلی آسمانی کتابوں میں سے چار کتابوں کا ذکر قرآن مجید میں خاص طور پر کیا گیا ہے ۔
حضرت موسٰی علیہ السلام پر الله تعالی نے تورات نازل فرمائی ۔
حضرت داؤد علیہ السلام پر زبور نازل فرمائی ۔
حضرت عیسٰی علیہ السلام پر انجیل نازل فرمائی ۔
اور نبی آخر الزماں حضرت محمد صلی الله علیہ وسلم پر آخری کتاب قرآن مجید نازل فرمائی ۔
اس کے علاوہ قرآن مجید میں حضرت ابراھیم علیہ السلام پر صحیفے نازل ہونے کا ذکر ہے ۔
پہلی آسمانی کتابوں پر ایمان لانا ہر مسلمان پر فرض ہے ۔ لیکن قرآن مجید نازل ہونے کے بعد کیونکہ پہلی کتابیں اور پہلی شریعتیں ختم ہو گئیں ۔ اسلئے عمل صرف قرآن مجید کے احکام پر ہو گا ۔

رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے سلسلہ نبوّت کو ایک محل سے تشبیہ دی ۔ فرمایا ( مفہوم ) کہ ہر نبی اس عمارت کے بنانے میں اپنے اپنے زمانے میں ایک ایک اینٹ رکھتا رہا ۔ آخر کار حضرت عیسٰی علیہ السلام تشریف لائے اور انہوں نے بھی قصر نبوت میں ایک اینٹ لگا دی ۔ لوگ اس عمارت کو دیکھتے تھے اور بڑی تعریف کرتے تھے ۔ لیکن ساتھ ہی یہ بھی کہتے تھے کہ اس میں ایک اینٹ کی کمی باقی ہے ۔ کاش وہ بھی اپنی جگہ پر ہوتی ۔ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا ( مفہوم ) وہ آخری اینٹ میں ہوں اور قصر ِ نبوت میں اب کسی اور اینٹ کی ضرورت نہیں رہی ۔
الله کے نبی دُنیا والوں کے سامنے ہمیشہ ایک ہی سچائی پیش کرتے رہے کہ تمام جہانوں کا رب ایک الله تعالی ہے ۔ اب قرآن مجید میں الله تعالی اپنے ماننے والوں کو حکم دیتا ہے کہ وہ ان سب پر ایمان لائیں ۔ روداری اور سچائی کو قبول کرنے کی اس سے اعلٰی مثال اور کیا ہو سکتی ہے ۔

ماْخذ
درس قرآن
معارف القرآن
 

ام اویس

رکن
شمولیت
جون 29، 2016
پیغامات
171
ری ایکشن اسکور
8
پوائنٹ
64
متّقیوں کی صفات ۔۔۔ ۵ ۔۔۔۔ قیامت پر ایمان


وَ ۔ بِالْاٰخِرَۃِ ۔ ھُمْ ۔ یُوْقِنُوْنَ 4️⃣۔ ط

اور۔ آخرت پر ۔ وہ ۔ یقین رکھتے ہیں

وَ بِالْاٰخِرَۃِ ھُمْ یُوْقِنُونَ 4️⃣ط

اور وہ آخرت پر یقین رکھتے ہیں

الْاٰخِرَہ سے مراد ہے ۔ اَلدَّارُ الْاٰخِرَۃِ ۔ یعنی مرنے کے بعد آنے والی دوسری زندگی ۔ اسے قرآن مجید میں اَلْیَوْمُ الْاٰخِرَہ بھی کہا گیا ہے ۔
یُوْقِنُوْنَ ۔ یہ لفظ ایقان سے بنا ہے ۔ جو یقین سے نکلا ہے ۔ یقین اُس علم کو کہتے ہیں جسے دلیل سے اس قدر واضح اور روشن کر دیا ہو کہ اس میں شک وشبہ کی کوئی گنجائش باقی نہ رہے ۔ بِالْاٰخِرَہ کا لفظ پہلے اور یُوقِنُونَ کا لفظ بعد میں استعمال کرنے سے تاکید میں اضافہ ہو گیا ہے ۔
یہ دُنیا دار العمل ہے ۔ یعنی وہ زندگی جس کے بعد عمل کی مہلت ختم ہو جاتی ہے ۔ اس کے بعد آنے والی دُنیا دارُ الجزاء ہے ۔ جس میں ہمارے ایک ایک کام کا پورا پورا بدلہ ملے گا ۔ اس میں شک نہیں کہ اس دُنیا میں بھی ہمیں حالات و واقعات کے لحاظ سے بدلہ ملتا ہے ۔ لیکن کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ انسان کو پورا بدلہ نہیں ملتا ۔ نیک عمل جزاء سے محروم رہ جاتے ہیں اور بد کردار مجرم سزاء سے بچ جاتے ہیں ۔ حالانکہ انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ انسان کا کوئی بھی عمل بے نتیجہ نہ رہے ۔ اس لئے الله جل شانہ نے ایک ایسا دن مقرر کر دیا ہے ۔ جس دن ہر شخص اور ہر قوم کو اپنے ہر عمل کا پورا پورا بدلہ ملے گا ۔ اس لئے جزاء و سزاء کے لئے ایک ہمیشہ رہنے والے جہان پر یقین رکھنا ضروری ہے اور ایمان کی بنیاد ہے ۔
عالَم ِ آخرت کا اس دُنیا سے گہرا تعلق ہے ۔ اگلی زندگی ہمارے ان ہی کاموں کا نتیجہ ہو گی جو ہم یہاں کرتے ہیں ۔ اس لئے متّقی لوگوں کی یہ صفت ہے کہ وہ ہر کام کرنے سے پہلے یہ اطمینان کر لیتے ہیں ۔ کہ وہ کام عاقبت اور انجام کے لحاظ سے آسمانی تعلیمات اور الله تعالی کی ھدایات کے خلاف تو نہیں ہے ۔
آخرت سے مراد وہ دار آخرت جس کو قرآن مجید میں دار القرار ( رہنے کا ٹھکانا ) دار الحیوان ( ہمییشہ کی زندگی کا گھر ) اور عقبٰی کے نام سے بھی ذکر کیا گیا ہے ۔ اور پورا قرآن مجید قیامت کے ذکر اور ہولناک واقعات سے بھرا ہوا ہے ۔ آخرت پر ایمان لانا اگرچہ ایمان بالغیب میں بھی شامل ہے ۔ لیکن اس کو دوبارہ اس لئے ذکر کیا گیا کہ اجزائے ایمان میں اس کی حیثیت سب سے اہم ہے ۔ کیونکہ ایمان پر عمل کا جذبہ آخرت پر یقین ہونے سے ہی پیدا ہوتا ہے ۔
اور اسلامی عقائد میں یہی وہ انقلابی عقیدہ ہے جس نے دُنیا کی کایا پلٹ دی ۔ وجہ یہ ہے کہ جن لوگوں کے سامنے صرف دنیا کی زندگی ہی مقصد ہو ، دنیا کا عیش اور آرام ہی چاہت ہو اور وہ صرف دنیا کی تکلیف ہی کو تکلیف سمجھتے ہوں ۔ آخرت کی زندگی اور اعمال کے بدلہ جزاء وسزاء کو نہ مانتے ہوں ۔ وہ جب یہ دیکھتے ہیں کہ سچ بولنے اور حلال و حرام کا فرق کرنے سے اُن کے عیش وآرام میں خلل ہوتا ہے تو اُن کو جرم سے روکنے والی کوئی چیز نہیں ۔ حکومت کے قوانین جرم کو ختم کرنے اور اخلاق کو سُدھارنے کے لئے کافی نہیں ہوتے ۔ کیونکہ عادی مجرم تو سزاؤں کو عادت بنا لیتے ہیں اور شریف انسان قانون کے ڈر سے اتنا ہی عمل کرتے ہیں جہاں پکڑے جانے کا ڈر ہو ۔ ورنہ خلوت میں اور چھپ کر گناہ کرنے سے کون کسی کو روک سکتا ہے ۔
ہاں صرف آخرت کا یقین اور الله رب العزت کا خوف ہی وہ واحد چیز ہے جس کی وجہ سے انسان کی ظاہری اور باطنی حالت جلوت اور خلوت میں ایک جیسی ہو سکتی ہے۔ وہ یہ یقین رکھتا ہے کہ مکان کے بند دروازوں میں اور رات کے اندھیروں میں بھی ہر وقت ، ہر جگہ کوئی دیکھنے والا مجھے دیکھ رہا ہے ۔ کوئی لکھنے والا میرے اعمال لکھ رہا ہے ۔
یہی وہ عقیدہ ہے جس پر پورا عمل کرنے کی وجہ سے اسلام کے ابتدائی دَور میں نہایت پاکباز معاشرہ وجود میں آیا ۔ مسلمانوں کی صورت دیکھ کر ، اُن کے اخلاق و عادات دیکھ کر لوگ بے اختیار اسلام سے محبت کرنے لگتے ۔
اس آیہ مبارکہ میں لفظ بِالْاٰخِرَۃِ کے ساتھ یُوقِنُوْنَ ہے ۔ کیونکہ ایمان لانے کے مقابل جھٹلا نا ہے ۔ اور یقین کرنے کے مقابل شک وشبہ میں پڑ جانا ہے ۔ اس میں اشارہ ہے کہ آخرت کی زندگی کو صرف مان لینے سے مقصد پورا نہیں ہوتا بلکہ آخرت پر ایسا پکا یقین ہو جیسے کوئی چیز آنکھوں کے سامنے ہے ۔ اس لئے متقین کی یہی صفت ہے کہ قیامت کے روز حق تعالی کے سامنے پیشی ، حساب کتاب اور پھر جزاء اور سزا کا منظر ہر وقت اُن کے سامنے رہتا ہے ۔ جو شخص الله رب العزت کے احکام کی پرواہ نہیں کرتا ، اذان سُن کر بھی نماز کے لئے نہیں اُٹھتا ۔ حرام اور نا جائز مال کھا اور کما رہا ہے ۔ دوسروں کا حق مارتا ہے ۔ ہر معاملے میں جھوٹ سے کام لیتا ہے یا دُنیا کے ذلیل اور گھٹیا مقصد حاصل کرنے کے لئے شریعت کے خلاف طریقے اختیار کرتا ہے ۔ وہ ہزار بار آخرت پر ایمان لانے کا اقرار کرے ۔ اُسے یقین حاصل نہیں ۔ اور یہی یقین انسان کی زندگی میں انقلاب لانے والی چیز ہے ۔ جب تک یہ یقین حاصل نہ ہو گا متّقین کی صف میں داخل نہیں ہو گا ۔
الله تعلی نے ہمیں انتخاب اور عمل کی آزادی دے رکھی ہے ۔ منزل تک پہنچنے کے لئے ہمارے سامنے کئی راستے ہیں ۔ لیکن ہمیں صرف وہی راہ اختیار کرنی چاہئے ۔ جس کی ہدایت الله تعالی نے کی ہے ۔ اگر آخرت اور جزاء و سزا کا عقیدہ ہر لمحہ ہمیں یاد رہے ۔ تو یقیناً ہم اس دنیا کی زندگی میں سچائی اور میانہ روی کی راہ پر قائم رہیں گے ۔
ہمیں چاہئے کہ ہم اپنی زندگی قرآنی اصولوں پر گزاریں ۔ تاکہ اس کا نتیجہ خوشگوار ہو ۔ اور ہم دونوں جہان میں کامیاب ہوں ۔ جس شخص کو اپنے اعمال کی جوابدہی ، حساب کتاب اور بدلہ پر یقین نہ ہو گا ۔ وہ اپنے اعمال درست نہیں کر سکتا ۔

مأخذ:
درس قرآن
معارف القرآن
 

ام اویس

رکن
شمولیت
جون 29، 2016
پیغامات
171
ری ایکشن اسکور
8
پوائنٹ
64
کامیاب لوگ


أُولَئِكَ ۔ عَلَى ۔ هُدًى ۔ مِّن ۔ رَّبِّهِمْ ۔ وَ ۔ أُولَئِكَ ۔هُمُ ۔ الْمُفْلِحُونَ۔

یہی لوگ ۔ پر ۔ ہدایت ۔ سے ۔ اپنے رب ۔ اور ۔ یہی لوگ ۔ وہ ۔ کامیابی پانے والے۔

أُولَئِكَ عَلَى هُدًى مِّن رَّبِّهِمْ وَأُولَئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ 5️⃣ ۔

یہی لوگ اپنے پروردگار کی طرف سے ہدایت پر ہیں اور یہی لوگ فلاح ( کامیابی ) پانے والے ہیں ۔
۔۔۔
اَلْمُفْلِحُوْنَ ۔۔۔ یہ لفظ فلاح سے بنا ہے ۔ اس کے لفظی معنی چیرنا پھاڑنا ہیں ۔ کاشتکار کو فلاّحٌ اسی لئے کہتے ہیں ۔ کہ وہ زمین کھودتا ہے ۔ اور بیج بوتا ہے ۔ جو زمین کو چیر کر پودے کی صورت باہر آتا ہے ۔ عربی زبان میں یہ لفظ بڑے وسیع معنی میں آتا ہے ۔ دُنیا اور آخرت کی ساری کامیابیاں اس میں جمع ہیں ۔ تمام علماء اس بات پر متفق ہیں کہ عربی زبان میں ہر قسم کی کامیابیوں کے اظہار کے لئے فلاح سے بڑھ کر کوئی لفظ موجود نہیں ۔ مفلح ( کامیاب ) وہ شخص ہے ۔ جو ہر قسم کی مشکلوں اور رکاوٹوں کو دور کرتے ہوئے کامیابی تک پہنچ جائے ۔
سورۃ فاتحہ میں ہم نے الله تعالی سے یہ دُعا کی کہ وہ ہمیں سیدھے راستے کی ھدایت عطا فرمائے ۔ اس کے جواب میں ھدایت کا ایک پیغام ملا ۔ جسے ہم پچھلے سبقوں میں پڑھتے آئے ہیں ۔ اس کے بعد چند علامتیں بیان ہوئیں ۔ کہ جن میں یہ موجود ہوں ۔ وہی ہدایت یافتہ لوگ ہیں ۔
ان کا اعتقاد اور پختہ یقین اس مادی و فانی دُنیا کے علاوہ عالَمِ غیب پر ہوتا ہے ۔۔۔
الله تعالی سے اپنا تعلق عملی طور پر ظاہر کرنے کے لئے نماز قائم کرتے ہیں ۔۔۔
الله تعالی کی دی ہوئی نعمتوں کو اس کی راہ میں خرچ کرتے ہیں ۔۔۔
رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو آخری نبی ، بہترین ہادی مانتے اور قرآن کریم کو الله تعالی کا کلام مانتے ہیں ۔۔۔
قرآن کریم سے پہلے آئی ہوئی کتابوں اور ہدایتوں کو بھی مانتے ہیں ۔۔۔
جزاء اور سزا کے دن پر یقین رکھتے ہیں ۔۔۔
اب اس آیہ مبارکہ میں بتایا گیا ہے ۔ یہی متقی اپنے رب کی حقیقی ہدایت پر ہیں ۔ یہی لوگ دُنیا اور آخرت دونوں میں کامیاب اور با مراد ہوں گے ۔ دُنیا کی کامیابی اور فلاح یہ ہے کہ کہ انہیں ہدایت کی راہ نصیب ہو گئی ۔ اور ہر طرح سے مکمل اور بہترین زندگی گزارنے کا طریقہ مل گیا ۔ جس کے مطابق انہوں نے اپنی زندگی گزاری اور ہر قسم کی کامیابی حاصل کر لی ۔ اور آخرت کی کامیابی اور فلاح یہ ہے کہ انہیں اپنے کاموں کا پورا پورا بدلہ ملے گا ۔ دُنیا میں جو دین کے لئے اور راہِ حق پر چلنے میں دشواریوں اور تکلیفوں کو برداشت کیا ۔ الله تعالی قیامت کے روز ان سب کا اجر بڑھا چڑھا کر دیں گے ۔ اور یہی بڑی کامیابی ہے ۔
اسلام سے پہلے عرب قوم مفلس تھی ۔ اونٹ پالنا اُن کا پیشہ تھا ۔ اُن کے پاس نہ دولت تھی نہ لشکر ۔ نہ کھانے پینے کی زیادتی ۔ لیکن جب انہوں نے اسلام قبول کر لیا اور قرآن کریم کی تعلیمات پر پکے یقین کے ساتھ عمل کیا ۔ تو جس طرف بھی گئے وہ کامیاب ہوئے ۔ زمین نے ان کے قدم چومے اور آسمان نے ان پر برکتوں اور رحمتوں کی بارش کی ۔ الله جل شانہ نے ان سے جو وعدے کئے وہ سب پورے ہوئے ۔ اگر آج ہم بھی قرآن حکیم کے مطابق اپنی زندگی گزارنے کا پکا ارادہ کر لیں ۔ تو کامیابی کا وعدہ ہمارے لئے بھی ہے ۔ ہم بھی یقیناً دُنیا اور آخرت کی کامیابی حاصل کر لیں گے ۔
 
Top