• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

دعوت کا ایک عملی خاکہ !!!

شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,786
پوائنٹ
1,069
دعوت کا ایک عملی خاکہ !!!

تحریر : عبد المعیدمدنی
-----------------------

دعوت کے موضوع پر قلمی مباحثے کے لیے باقاعدہ کوئی مضمون تو موصول نہیں ہوا البتہ مکتوبات میں اس کا سرسری تذکرہ موجود ہے۔ زیر نظر مضمون پہلی بار مجلہ الاحسان دہلی (نومبر2009) میں چھپا تھا۔ ابھی حال ہی میں مجلہ الفرقان ڈومریاگنج یوپی (اپریل/جون2010) میں شائع ہوا ہے۔ اب اسے ”فری لانسر“ میں شامل کرنے کے دو اسباب ہیں۔ ایک تو یہ مضمون تیسری بار پڑھنے کے لائق ہے اور دوسرا یہ کہ مدنی صاحب نے اپنے سارے چھپے ہوئے مضامین چھاپنے کی ہمیں اجازت دی ہے۔ پہلے شمارے کی ترتیب کے دوران جب موصوف سے فون پر رابطہ کیا گیا تھا تو انھوں نے کہا تھا کہ ”ہمارا کوئی بھی چھپا ہوا مضمون چھاپ سکتے ہو۔“اس اجازت نامے کا یہ پہلا فائدہ ہے۔

مطلب کی بات کرنے والے قلمکار اور ڈھنگ کی بات سوچنے والے قارئین سے درخواست ہے کہ اس قلمی مباحثے میں ضرور حصہ لیں جس کا عنوان ہے : ”موجودہ زمانے میں دعوت کے موٴثر ترین طریقے اور روایتی طرز تبلیغ میں اصلاح یا تبدیلی کی

اسلام میں دعوت دین کی مکمل تعلیم دی گئی ہے۔ دعوت دین محض زبانی جمع خرچ نہیں ہے۔دعوت کا کام ہر حال میں ہوتا ہے۔ قلت میں کثرت میں، حکومت ہو تب بھی نہ ہو تب بھی، کمزور ہوں تب بھی، طاقت ور ہوں تب بھی۔

ارشاد ربانی ہے:

”جو اللہ کی مدد کرتے ہیں یقینا اللہ ان کی مدد کرے گا، بے شک اللہ بہت توانا ہے، ہر طرح غالب ہے جنھیں ہم اگر زمین پر غلبہ عطا کر دیں تو صلاة قائم کریں گے زکوٰة دیں گے اچھائی کا حکم دیں گے اور برائی سے روکیں گے اور امور کا انجام اللہ کے اختیار میں ہے۔“

(الحج:40-41)

حکومت اور سلطنت ملنے پر بھی دعوت و تبلیغ حکومتی ترجیحات میں شامل ہے۔

عام حکم ہے:

”تمہارے اندر سے ایک گروہ ایسا ہونا چاہیے جو خیر کی دعوت دے۔ اچھائی کا حکم دے اور برائی سے روکے اور یہی کامیاب لوگ ہیں“

(آل عمران: 104)

دعوت و تبلیغ کا یہ عمومی حکم ہے۔ دعوت دین ہر حال میں ہونی چاہیے۔ اس کے بغیر کوئی زندہ نہیں رہ سکتا ہے۔ اسلامی تعلیمات میں دعوت دین کے لیے مکمل رہنمائی موجود ہے۔ اور ان کے اندر دعوت دین کے لیے مکمل منصوبہ عمل ہے۔ دعوت دین صرف تقریر کرنے کا نام نہیں ہے نہ بلاغ کا نام ہے۔ دعوت دین دراصل فروغ دین کی وہ عملی تعلیمی تربیتی اور اجتمائی جدوجہد ہے جس سے دین کو فروغ حاصل ہوتا ہے اور رضائے الٰہی کے حصول کے لیے فرد و سماج کی تعمیر سازی کا کام ہوتا ہے۔ دعوت دین دراصل دین کو اپنے اوپر اور سماج کے اوپر امکانی حد تک رضا کارانہ طور پر عملاً لاگو کرنے اور لاگو کرانے کی دعوت دینے کا نام ہے۔ دعوت کے پیچھے تعلیم تزکیہ امربالمعروف نہی عن المنکر، اصلاح ذات بین، اصلاح فساد، اجتماعی عملی جدوجہد ہوتی ہے۔ اور اجتماعی عمل میں عملی و فکری یکسانیت، باہمی خوشگوار تعلقات اور کار دعوت کرنے والوں کے درمیان برادرانہ رشتہ اور روز بہ روز خود ان کی درستگی و عملی ترقی شامل ہے۔ دعوت دین میں داخل ہے دین کا بہترین فہم اور اخلاص کے ساتھ کام کرنے کا جذبہ، ذوق عبادت کی نشونما اور خدمت خلق کی لگن۔ راہ عمل میں لگاتار لگ کر محنت کرنا جذبات وقت اور مال کی قربانی دینے کے ساتھ اذیتوں پر صبر کرنا اور کسی طرح کا تخادل نہ اختیار کرنا نہ اپنی الگ راہ بنانی۔

دعوت دین کے لیے خاص دینی علمی صلاحیت کی ضرورت ہے، علماء کے لیے اعلیٰ معیار کی اور دیگر لوگوں کے لیے عام معیار کی اور ساتھ ہی کارکنوں کے لیے علماء کی تربیت اور تزکیہ کی ضرورت ہے، انفرادی تزکیہ کی بھی اور اجتماعی تزکیہ کی بھی اور مستند علماء کی نگرانی کی بھی ضرورت ہے۔ اسی طرح یہ کام رضا کارانہ طور پر کرنے کی ضرورت ہے اور عوام سے لے کر خواص کے حلقے تک یہ کام کرنے کی ضرورت ہے، اصول دعوت اسلوب دعوت کے تمام تقاضوں کو سامنے رکھ کر۔ اس طرح دعوت کا کام مسلم غیر مسلم ہر حلقے میں کرنے کی ضرورت ہے۔ کار دعوت ایک مرکزی دینی قیادت کی رہنمائی میں سمع و طاعت کے ساتھ ہونا چاہیے۔

دعوت دین کا ایک مکمل خاکہ اور منصوبہ قرآن و سنت کی روشنی میں ہمارے سامنے ہونا چاہیے جس کی تعیین مصادر دین میں موجود ہے۔ امام کائنات رسول رحمت محمد مصطفی ﷺ نے دعوت دین کا جو طریقہ اپنایا تھا وہی طریقہ ہمیں بھی اپنانا چاہیے۔ اسی میں خیر اور کامیابی بھی ہے۔ اگر آپ کا طریقہ چھوڑ کر دوسرے طریقے اپنائے جائیں تو جلد یا بدیر اس کا نتیجہ فتنہ ہے۔

فتنے سے انسان بچ نہیں سکتا ہے

دعوت دین کے اندر اتنا امکان ہے کہ اگر کار دعوت دعوت دین کے صحیح دینی مفہوم کے پس منظر میں کیا جائے تو انسانی فکر و خیال میں سب سے بڑی تبدیلی آسکتی ہے۔ دعوت فضا میں پھیپھڑے کے زور سے نرخرے کی وساطت سے زبان کے ذریعے الفاظ کو اچھالنے کا نام نہیں ہے اور جو لوگ دعوت کو بس یہی سمجھتے ہیں وہ نادان ہیں اور دنیا کو سمجھنے کی کوشش نہیں کرتے ہیں اور دعوت دین سے دامن بچانے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ بڑا آسان کام ہے کہ آدمی تقریر کر دے یا زیادہ سے زیادہ دور تک اپنی تقریر کی آواز پہنچا دے۔ مشکل یہ ہے کہ اس کے پیچھے علم ہو، معرفت الٰہی ہو، دین داری، سمجھ داری، اصلاح فردو سماج کے سدھار کے لیے اجتماعی عمل ہو اور باہم تربیت و تزکیہ کا ایک سلسلہ ہو اور آدمی فروغ دین کے لیے رضا کارانہ وقت مال و جذبات کی قربانی دینے کے لیے تیار ہو اور منکرات کے ازالے کے لیے جدوجہد کرے اور اس راہ میں عائد ساری پریشانیوں کو جھیلنے کے لیے تیار رہے اور کسی بھی طرح راہ فرار اختیار نہ کرے۔

دعوت دین کا کام کرنے والوں کے لیے سب سے بڑا فتنہ یہ ہوتا ہے کہ دعوت دین کے نام پر ذاتی شہرت اور اکتساب زر کا دھندہ اختیار کریں اور عیش و عشرت کی زندگی اپنائیں اور ذاتی اسٹیٹ تیار کریں۔ اور باس بن کر فیکٹری مالک ہی بن بیٹھیں اور تعنت کا مظاہرہ کریں ایسے دعاة یہودیت کی روش اپناتے ہیں اور کلام الٰہی کو بیچ کھانے کے مترادف ہیں۔ اور اپنی دعوتی جدوجہد سے سرپھر اپن اور خارجیت کو فروغ دیتے ہیں۔

دعوت و تبلیغ کے اثر انداز ہونے کے لیے ضروری ہے کہ یہ سامنے رکھا جائے کہ کس طرح انبیاء کرام نے دعوت و تبلیغ کی ہے اور انھوں نے ہمارے لیے دعوت و تبلیغ کے لیے کیا نمونہ چھوڑا ہے۔ اور خاص کر خاتم النبیین رسول عربی حضرت محمد مصطفیﷺ کے طریقے کو ہمیں سامنے رکھنا چاہیے۔ اگر دعوت کے نبوی طریقے کو چھوڑ کر آپ کے امتی دوسرے طریقے اپنائیں تو ایسی دعوت کامیاب نہیں ہوسکتی نہ اس کے نتائج اچھے نکل سکتے ہیں۔

مختلف رجحانات رکھنے والے دعوت کے نتائج ہمارے سامنے ہیں۔ تحریکی رجحان صوفی اور مسلکی رجحان کی دعوت کے ثمرات و اثرات ہمارے سامنے ہیں۔ وہ اچھے ہیں یا برے ہیں ان سے قطع نظر جب کتاب و سنت کی دعوت کے داعیوں کے نتائج دعوت پر نگاہ پڑتی ہے تو برجستہ یہی زبان پر آتا ہے سرپھرا پن۔ غور طلب بات یہ ہے کہ آخر یہ سرپھرا پن کیوں۔ اس کے سلبی اسباب پر تفصیلی گفتگو ہوچکی کمیوں کی طرف توجہ دلائی جاچکی ۔ سب سے اہم مسئلہ یہ ہے کہ اس وقت دعوت کی تنظیم کیسے ہو کہ دعوت کا دین سے سرپھرا پن ختم ہو اور دعوت سے شخصیت سازی اور سماج سازی ہوسکے، تعمیر ذات اور تعمیر سماج کا کام بن سکے۔ اس کے لیے دعوت و تبلیغ میں بنیادی تبدیلی لانے کی ضرورت ہے اور دعوت و تبلیغ کا ایک عام منصوبہ بنانے کی۔

ایک طرف ماضی میں اللہ کے نیک بندوں نے کتاب و سنت کی تعلیمات کو بلا کسی آمیزش پھیلایا اور جو جس علاقے میں گیا اس نے آخری حد تک کوشش کی، بندگان الٰہی کو ”صراط مستقیم“ ”ماانا علیہ واصحابی“ کی راہ دکھلائی۔ دعوت دین ان کا رات دن کا مشغلہ تھا، اس میں انھوں نے کسی طرح کی کوتاہی نہیں کی۔ ایسی محنت کا نتیجہ کیا ہوسکتا تھا عیاں ہے تاریخ دعوت کے سنہرے ابواب میں ان کا ذکر ہے، ایسا بھی ہوا ہے فرد واحد کے نتیجے میں درجنوں گاوٴں راہ سنت پر لگ گئے اور اب تمام وسائل کی فراوانی کے باوجود ہم سے ان کا سرمایہ دعوت نہیں سنبھالا جاتا، حتیٰ کہ ایسے بہت سے علاقوں کا آج تک پتہ نہیں جہاں خالص اہل حدیث بستیاں ہیں اور نہ بہت سی اہل حدیث بستیوں میں ان علاقوں کا پتہ ہے جہاں تصوف کی ساری شرکیہ خرافات راہ پاچکی ہیں۔ قادیانی الگ زور لگاتے ہیں ، قبوریت چاہے دال کی ہو چاہے تعویذ گنڈہ کے نام پر بہت سے موحدوں کے گھروں میں راہ پاچکی ہے، بد عملی، حرام خوری، ترک فرائض، فیشن عام ہوتی جارہی ہے۔ سوال یہ ہے کہ ان زخموں کا علاج کیا ہے، اس درد کا مداوا کہاں ہے۔

ان تمام مسائل کا واحد حل دعوت الی اللہ میں مل سکتا ہے، بر وقت ہمارے یہاں دعوت کا نہ نٹ ورک ہے نہ تربیتی نظام ہے، موسمی دعوت ہے گاوٴں، قصبے اور شہروں میں جہاں اہل حدیث ہیں کسی سر پھرے کے سر میں سودا سمایا کچھ سر پھرے مولوی مل گئے انھوں نے رٹی رٹائی تقریر کی فیس وصول کی اور چلتے بنے اور سامعین نے قوالی کا مزا لیا اور پھر سوگئے۔ حتیٰ کہ اس ماحول میں مشاہدہ یہ ہے کہ ثقہ علماء بھی عوامی مزاج کے مطابق اترنے کی کوشش کرتے ہیں اور عوام کی تربیت کرنے کے بجائے ان کو خوش کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور کچھ اخلاق باختہ، پیشہ ور مولویوں نے ماحول کو ایسا بگاڑ دیا ہے کہ ثقاہت، علمی وقار، گہرائی و گیرائی، تقویٰ و اخلاص بے وقعت بن کر رہ گئے ہیں۔ بڑے بڑے علماء کو عوام اسٹیج سے اتار دیتی ہے اور قوال قسم کے چھٹ بھیوں کو سر آنکھوں پر بٹھاتی ہے اور تعلیمات دین کا کتنا حصہ ان تک پہنچ پاتا ہے یہ افسوس ناک بھی ہے اور غم ناک بھی۔

آج عوام کا مزاج یہ بن رہا ہے یا بن گیا ہے، دوسری طرف خالص دینی دعوت اور منہج کل کا کل تباہی کے دہانے پر پہنچ چکا ہے۔ لوگ جزئی مسائل سے آگے نہیں بڑھتے ، ان کے اندر سطحیت گھر کرتی جارہی ہے، مناظرے کی ان کو لت لگ گئی ہے جس سے کتاب و سنت کی دعوت کی بدنامی او رسوائی ہوتی ہے۔ سنجیدہ اور تعلیم یافتہ حضرات اس طرز عمل اور ذہنیت سے چڑتے ہیں، اگر یہی اٹھان رہی اور اس میں ترقی ہوتی رہی تو قوالی سننے، گانا گانے اور دوسرے مسالک کو گالی دینے کے سوا ہمارے پاس کچھ نہ رہ جائے گا، اخلاق و مروت تہمت بن جائے گی۔

موجودہ جلسوں والی دعوت کا نقصان یہ بھی ہے کہ عوام سامع بن کر رہ جاتے ہیں اور وقتی طور پر دعوت میں ان کی کوئی خاص حصہ داری نہیں ہوتی، جو سنا سنا پھر ہاتھ جھاڑ کے اٹھ گئے۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ سیکھنے سکھلانے سے ان کا تعلق بہت کم جڑ پاتا ہے، اس بگڑی حالت میں اللہ جن بندوں کو دعوت کی توفیق دے دیتا ہے وہ خوش نصیب ہیں، لیکن غالب رجحان قابل ستائش نہیں ہے۔ بہر حال اس جزئی اور غیر منظم، غیر متواصل دعوت کے اندر جو اہم کمی رہ جاتی ہے وہ درج ذیل ہیں:

کمزوریاں:

(۱)سطحیت
(۲)راگ راگنی کا چسکا
(۳)نقطہ اتحاد کا فقدان
(۴)مرکزیت کا فقدان
(۵)سیکھنے سکھلانے میں عوام کی محرومی
(۶)تربیت کا فقدان
(۷)کل افراد تک عدم رسائی
(۸)یکسوئی،یک جہتی اور توانائی کا فقدان
(۹)دعوت چند مسائل تک محدود
(10)غیر مسلموں تک عدم رسائی
(11)خواتین تک عدم رسائی
(12) ثقہ علماء کی عدم نگرانی
(13)عملی و فکری یکسوئی کا فقدان۔

دعوت کا نظام وپیغام دونوں ہمارے لیے ضروری ہیں، دونوں کا ایک ساتھ ہونا ضروری ہے، مسلسل جدوجہد اور لگن طے ہے، اجتمائی اور متواتر جدوجہد ہی موثر ہوتی ہے، وہی اصل توانائی بن جاتی ہے، اپنے فکر و فہم اور دعوت کو پھیلانے کے لیے ہر ایکشن بالکل سوچا سمجھا اور نپا تلا ہونا چاہیے اور بہت غور و فکر کے بعد طے کیا جانا چاہیے، ہر چلت پھرت بالکل دین کے ڈھانچے میں ڈھلی ہونی چاہیے اور صحیح دعوت کو بتانا چاہیے، بات اصولی ہو، اصول پر ارتکاز افراد کی یا پلٹ دیتا ہے اور ایسی تڑپ اور جذبہ بیدار کر دیتا ہے کہ لوگ تعلیم و تعلم سے جڑ جاتے ہیں اور دعوت کو اپنا مشن بنا لیتے ہیں۔

دعوتی توانائی:

دراصل تڑپ جذبہ صادق، یہ انہماک دعوت کے کام میں تسلسل سے پیدا ہوتا ہے۔ دعوتی توانائی، مسلسل اجتماعی جدوجہد اور انفرادی جذبے، اخلاص اور صالحیت سے آتی ہے۔ منظم مربوط اجتماعی کام میں سماج کا ہر طبقہ شریک ہوجاتا ہے اور پھر کام میں ایسی کشش پیدا ہوتی ہے کہ لوگ اس کی طرف بھاگے ہوئے آتے ہیں، اور اس سے جڑ تے چلے جاتے ہیں۔ لوگ یہ نہیں دیکھتے کہ ابھی سردی ہے ذرا اسے ختم ہولینے دو۔ ابھی بارش ہے ذرا اسے تھم لینے دو۔ ابھی گرمی ہے ذرا لو کو نکل جانے دو اور یوں پورا سال ختم ہوجاتا ہے۔ دعوتی سرگرمیاں مسلسل اور سال بہ سال ہونی چاہئیں۔ جب دنیا کے سارے کام ہر وقت اور ہر موسم میں ہوتے ہیں رکتے نہیں تو دعوت دین کیوں رکے۔

دعوتی کام پوری زندگی لگا دینے اور پورے انہماک سے لگ جانے سے صحیح ڈھنگ سے انجام پاسکتا ہے اور مطلوب احیاء دین اور احیاء سنت ہو، ہمیشہ یہی پیش نگاہ رہے اس کے لیے چند لوگوں کو مرکزی قیادت کے لیے متفرغ ہونا پڑے گا جو بیٹھ کو سوچتے رہیں، کام کا نقشہ بناتے رہیں، ہدایت دیتے رہیں، اور اس کی قیادت کی ذمہ داری نبھاتے رہیں۔

ایسا نہ ہوکہ دعوت کے نام پر پنڈوں کی بھیڑ لگ جائے اور ان کی تلاش صرف ”ہری گھاس“ ہی کی ہو۔ تحریکیں ،جمعیات و منظمات کیسے پھلتی پھولتی اور مر جاتی ہیں اس کا مطالعہ ضروری ہے۔ بیٹھ کر ہا ہا، ہو ہو ہو، سازش کا جال بنا جائے اور حلوا کھانے والی بات رہ جائے، درست نہیں کہلائی جاسکتی۔ اوقات کار کی تعیین و پروگرام بنانا، اوقات کا صحیح استعمال کہ ضائع نہ ہوں اور صرف تربیت میں گزریں۔ بے کاری قریب نہ پھٹکے، سونے، جاگنے، کھانے پینے، تعلیم و تعلم، دعوت و تبلیغ کا وقت متعین ہو اور آداب بھی۔ دعوت و تربیت اسی کو دیا جائے جو طالب ہو یا جس کے اندر لگن پیدا ہوجائے، کسی کو سفارش، کسی کو کنبہ داری، کسی کو سر چڑھانے، کسی کو گرانے کی بات نہ ہو، نہ یہاں کوئی تنظیمی رساکشی ہو، قابل التفات و قابل احترام وہ بنے، جو ذمہ دار بنے، جس کی کارکردگی عظیم ہو۔ اچھی کار گردگی کے لیے آمادہ کیا جائے اور محنت کا عادی بنایا جائے۔ قانونی و دستوری داوٴں پیچ سے دوری لازم ہے، کسی کے لیے اٹھا پھینک کا مسئلہ ہی نہ رہے۔ ایسی تربیت دی جائے کہ آدمی کو یہ شعور مل جائے کہ میں کیا ہوں؟ مجھے کیا کرنا چاہیے اور کیا ملنا چاہیے اور کس حد تک وہ ذمہ داری کا مستحق ہے۔ انسان کے اندر ایسا جذبہ پیدا ہوجائے کہ لینے کے بجائے دینے کے لیے، خدمت لینے کے بجائے خدمت کرنے کے لیے تیار ہوجائے۔ سرکشی کے بجائے جذبہ اطاعت جاگتا رہے، فساد کے بجائے اصلاح کا جذبہ جوان رہے۔ کشمکش کے بجائے محنت، تعاون اور احترام کا ماحول قائم رہے۔ مسلسل نگرانی اور چوکسی رہے کہ کام اگر بگڑے تو اسے درست کیا جائے اور افراد کی صلاحیتوں، کارکردگی اور احساسات کا پتہ رہے۔

مرکزی قیادت:

۱۔مرکزی قیادت:

تین چار آدمیوں کی ایک شورائی کمیٹی ہو جو برابر دعوتی امور پر سوچتی، غور کرتی، پروگرام بناتی اور دورہ کرتی رہے اور اپنے علمی اخلاقی اور ایمانی وزن سے نظم برقرار رکھے جو صرف بلا تنخواہ اس پر لگ جائیں ان کا خرچ عوام برداشت کرے اوروہ کل وقتی داعی رہیں مرکز میں موجود رہیں۔

۲۔ ایسی مرکزی قیادت کے تحت ملک و بیرون جہاں تک ممکن ہو جال بچھایا جائے اور مساجد و مراکز کے تحت ہی رہے۔

۳۔ عوام کو اور علماء کو جوڑا جائے۔ علماء کے لیے کورس ہو جو ان کی صلاحیتوں کو نکھارتا ہو۔ وہ احیاء دین، احیاء سنت، منہج سلف، صلاح تقویٰ انبیاء کے منہج دعوت پر تقاریر کریں نصوص یاد کریں۔ اور عوام کے لیے تربیتی کورس چلائیں تین دن کا ہفتے کا پندرہ دن کا مہینے کا جیسی ضرورت ہو۔

۴۔ عوام کو پروگرام دیا جائے۔ اس کے لیے کئی کورس ہو ہر کورس کے لیے عوام کو تیار کرنا ان سے ملنا ان کو آمادہ کرنا یہ کورس برابر چلے کورس مکمل کرنے والے خود واپس جاکر چلائیں۔

۵۔ عوام کے لیے پروگرام:

آوٴ دین سیکھیں:

(۱)قرآن سیکھنا (۲)دعائیں سیکھنا (۳)توحید/اتباع(۴)حلال و حرام (۵)اخلاق (۶)عقائد (۷)عبادات (۸) اسلامی معاشرت (۹)سماجی زندگی (10)حلال کی کمائی، حلال کھانا۔

(نوٹ: تجربات کے بعد اس میں حک و اضافہ ہوتا رہے گا)

۶۔ آوٴ عمل کریں:

(۱)صلاة پنجگانہ کا حقیقی اہتمام (۲)تہجدکا اہتمام (۳)سنتوں کا اہتمام (۴)ذکر و اذکار کا اہتمام (۵)حلال کھانے کمانے کا التزام (۶)خوش اخلاقی (۷)خدمت خلق (۸)تعلیم پر توجہ

(نوٹ: تجربات کے بعدحک واضافہ کی گنجائش)

آوٴ دین پھیلائیں:

(۱)انفرادی ملاقات (۲)صبح و شام درس قرآن، درس حدیث کا اہتمام (۳)مساجد میں آنے کی دعوت (۴)ہفت روزہ پروگرام (۵)ماہنامہ پروگرام (۶)سالانہ پروگرام (۷)رسائل و کتب کی فراہمی (۸)مکاتب کا قیام، بچوں کی تعلیم وغیرہ حک و اضافہ کی گنجائش۔
(نوٹ: یہ کام بہ تسلسل چلے، مشاورت اور کارگزاری رپورٹ کے ساتھ)

کیسے دین پھیلائیں:

(۱)وفود کی تشکیل وار سال
(۲)باہم مقامی کارکنوں کا تبادلہ وفود
(۳)ضرورت پر باہری تبادلہ وفود
(۴)سالانہ جلسے بیرونی علاقائی ہر پیمانے کے
(۵)جو سیکھا سیکھایا گیا مختلف مواقع پر بولنے کی مشقی اور کار دعوت پر زور دینا
(۶)خرچ باہم وقتی، کلیکشن، اور اپنا بوجھ آپ اور ہوسکے تو ایک دوسرے کا تعاون فروعات سے زیادہ اصول پر اہتمام
(۷)دعوتی اسلوب پر زیادہ زور، مناظراتی اسلوب سے قطعاً احتراز (۸)خلافیات، سیاسیات، شخصیات سے قطعاً احتراز صرف طے شدہ پروگراموں کے مطابق کام
(۹)آداب محفل اور آداب دعوت، سر براہ کے احکام کی تعمیل کا اعتبار (10)رسمیات سے قطعاً احتراز مثلاً صدارت، جلسہ استقبالیہ، سکریٹری اسٹیج، بڑے آدمی کا بلاوا، بینر، فوٹو گرافی اور اشتہارات، سارا کام رضا کارانہ
(۱۱)زیادہ سے زیادہ آسان نظم،اور عوام سے فطری دینی تعلق (12)علاقائیت، تعصبات، ذات برادری اور مال داری کی اونچ نیچ سے احتراز (13)قیادت و رہنمائی کا کم پروگرام بنانا، ہدایات جاری کرنا، علماء کے ہاتھ میں تمام ازموں غیر اسلامی نظریات نظام افکار سے برأت
(14)دعوت میں شرکت کرنے والے اپنے رہن سہن نشت و برخاست آنے جانے سونے جاگنے میں نظام الاوقات کی پابندی کریں گے اور سارے تصرفات میں سنت کا اہتمام، آداب شریعت کا پورا اہتمام
(15)ہنسی مذاق، ٹھٹھا لاپرواہی سے کلی احتراز، وقار سنجیدگی کی پابندی
(16)سربراہ کی تعین عمل اور ہدایات پر پورا عمل، اختلاف اور اختلافی امور سے قطعاً گریز۔

یہ چند سطور ہیں جن کی اساس پر ایک آسان سا دعوتی نٹ ورک تیار ہوسکتا ہے۔rrr


 
Top