• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

دفاع حدیث ۔۔۔۔۔سوال وجواب =سوال۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔5

شمولیت
اکتوبر 18، 2012
پیغامات
368
ری ایکشن اسکور
1,006
پوائنٹ
97

سوال :

میں نے چند ماہ قبل المنار المنیف امام اقیم کی کتاب کا مطالعہ کیا۔ ابن قیم رحمہ اللہ نے اس کتاب میں ایک قاعدہ کا ذکر فرمایا ہے کہ جو حدیث قرآن مجید کی مخالف ہو وہ حدیث رد کر دی جائے گی۔ آج تک ہم نے یہی سنا ہے کہ کوئی حدیث قرآن سے متصادم نہیں ہوتی۔ دوسرا سوال یہ ہے کہ جو کہ اسی مسئلہ کے ساتھ ملحق ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جس کا مفہوم ہے کہ اگر تم سے میری احادیث روایت کی جائیں تو تمہارے دل اگر اسے پہچان لیں اور تمہارے بال اور کھالیں نرم ہو جائیں۔ (اس کی عظمت کی وجہ سے) تو سمجھ لو کہ یہ میری بات ہے اور اگر تمہارے دل اس حدیث سے انکار کرنے والے ہو جائیں اور یہ جان لو کہ وہ میری بات نہیں، میں اس روایت سے بہت دور ہوں۔ (یعنی وہ میری بات نہیں ہے) یہ حدیث کس کتاب کی ہے اور یہ بھی اسی طرف اشارہ کر رہی ہے کہ اگر حدیث کو آپ نہ پہنچان سکیں تو وہ میری حدیث نہیں ہو سکتی۔ یعنی ہر شخص حدیث کے متن کو دیکھ کر یہ فیصلہ کر سکتا ہے کہ حدیث صحیح ہے یا نہیں؟ (محمد امین سیالکوٹ)
جواب بعون الوھاب:

امام ابن القیم کی المنار المنیف سے جس قاعدہ کی طرف آپ نے اشارہ فرمایا ہے اس کے صحیح مفہوم کو سمجھنے میں آپ سے غلطی ہوئی ہے۔ امام ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
''مخالفة الحدیث صریح القرآن، کحدیث مقدار الدنیا''
''جو حدیث صریح قرآن کے مخالف ہو (اس کا کیا حکم ہے) جیسا کہ دنیا کی مقدار کے بارے میں حدیث ہے۔ (المنار المنیف، ص:۷۸)
اس عبارت سے امام ابن قیم رحمہ اللہ کا مطلق یہ مقصد نہیں ہے کہ جو بھی حدیث قرآن سے متصادم ہوگی اسے رد کر دیا جائے گا۔ بلکہ یہاں ان احادیث کا ذکر مقصود ہے جو قرآن اور احادیث صحیحہ کے عین نصوص کے خلاف ہوں اور ان روایات کی معارفت اسماء الرجال کے فن سے بھی ہوگی۔ جیسا کہ ابن القیم رحمہ اللہ نے آگے قرآن مجید کی آیت :
﴿يَسْــــَٔـلُوْنَكَ عَنِ السَّاعَةِ اَيَّانَ مُرْسٰىهَا ۭقُلْ اِنَّمَا عِلْمُهَا عِنْدَ رَبِّيْ۔۔۔۔ ١٨٧؁﴾
(الاعراف: ۱۷۸)
''یہ لوگ آپ سے قیامت کے بارے میں سوال کرتے ہیں۔ آپ کہہ دیں کہ اس کا علم میرے رب کے پاس ہے۔''
آیت کے بعد ایک حدیث بھی پیش کی:
''وقال النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم : لا یعلم متی تقوم الساعة الا للہ''
''نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: کوئی نہیں جانتا کہ قیامت کب واقع ہوگی سوائے اللہ تعالیٰ کے۔ ''
امام ابن القیم رحمہ اللہ کی اس عبارت سے واضح ہوتا ہے کہ آپ نے پرکھنے کے موازنے کو صرف قرآن تک محدود نہیں رکھا، بلکہ قرآن و صحیح حدیث دونوں کو حق و باطل میں تمیز کرنے والا ٹھہرایا ہے۔ اب قاعدہ یہ ہوا کہ کوئی بھی حدیث روایت کی جائے گی اگر وہ قرآن کے احکامات اور ٹکسالی سند والی حدیث سے متصادم ہوگی تو مردود ٹھہرے گی۔ اور مردود کا حکم اس کی اسنادی حیثیت اور دوسرے محدثین کے اصول کے گزرنے کے بعد متعین ہوگا۔ کیونکہ اگر کوئی حدیث صحت کے درجے پر فائز ہوگئی تو نا ممکن ہے کہ وہ قرآن و صحیح حدیث کے قواعد کے خلاف ہو۔ اور جس حدیث کی سند غبار آلود ہے یا سند مشکوک ہے تو وہ ممکن ہے کہ قرآن و سنت سے متصادم ہوگی۔ جہاں تک آپ کی اس حدیث کا تعلق ہے جس کو امام احمد رحمہ اللہ نے اپنی مسند میں ذکر فرمایا ہے کہ:
''عن ابی حمید وابی اسید ان النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قال: اذا سمعتم الحدیث عنی تعرفہ قلوبکم وتلین لہ اشعارکم وابشارکم وترون انہ منکم قریب فانا اولاکم بہ، واذا سمعتم الحدیث عنی تنکرہ قلوبکم ولتنفر اشعارکم وابشارکم وترون انہ منکم بعید فانا ابعدکم منہ'' (مسند احمد، ج: ۲۵، رقم: ۱۲۵۸، اخرجہ البزار، رقم: ۱۸۷، مجمع الزوائد للھیثمی:۱/۱۴۹)
''ابو حمید اور ابو اسید رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جب تم میرے حوالے سے کوئی ایسی حدیث سنو جس سے تمہارے دل شناساہوں اور تمہارے بال اور کھالیں نرم ہو جائیں اور تم اس سے قرب کو محسوس کرو تو میں اس بات کا تم سے زیادہ حقدار ہوں اور اگر کوئی ایسی بات سنو جسے سے تمہارے دل نا مانوس ہوں ، تمہارے بال اور تمہاری کھال نرم نہ ہوں اور تم اسے بعود محسوس کرو تو میں تمہاری نسبت اس سے زیادہ دور ہوں۔ ''
اس حدیث کی منشاء کو سمجھنے سے کئی حضرات قاصر رہے اور غلط فہمی کا شکار بنے رہے۔ مندرجہ بالا حدیث کا تعلق کسی ایسے شخص سے ہر گز نہیں ہے جس کو شریعی علوم اور احادیث کے فنون سے گہرا لگاؤ نہ ہو۔ اس حدیث کا تعلق اس شخص کے ساتھ مقید ہے جس کا اوڑھنا بچھونا حدیث ہی ہو۔
امام ابن قیم رحمتہ اللہ علیہ سے اسی کی بابت ایک سوال کیا گیا کہ کیا موضوع حدیث کی پہچان بغیر سند کے دیکھے ہوئے ہو سکتی ہے؟ آپ نے جواب دیا :
''فھذا سؤال عظیم القدر، وانما یعلم ذالک من تضلع فی معرفة السنن لصحیحة، واختلطت بلحمہ ودمہ۔۔۔'' (المنار المنیف، ص۳۷)
''پس یہ سوال بڑا عظیم القدر ہے، یہ (اوصاف) ان کے لیے ہیں جن کو سنن الصحیحہ کی معرفت ہو اور (یہ معرفت) اس کے گوشت اور خون میں صرایت کر گیا ہو۔۔۔ وہ شدید سنن اور آثار کی معرفت رکھتا ہو۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت اور آپ کا کسی امر میں ہدایت کرنا آپ کا حکم اور آپ کا روکنا۔''
ابن القیم رحٕمہ اللہ کی اس وضاحت میں آپ کے سوال کا جواب موجود ہے کہ وہ شخص جس کے خون اور گوشت میں سنت کی معرفت پہنچ چکی ہو وہی شخص حدیث کے متن کو دیکھ کر یہ اندازہ لگا لیتا ہے کہ یہ بات میرے نبی کی ہے یا نہیں۔ کیونکہ وہ اس فن میں اپنی مہارت کے تموج دکھلا چکا ہوتا ہے اور اہل علم نے اس کی معرفة الحدیث کو مقبول جانا ہوتا ہے اور یہ معرفت کسی سطحی مطالعہ سے حاصل نہیں ہوا کرتی بلکہ اس کے لیے بڑی جہد اور علم کا گہرا ہونا ضروری ہے۔ عبدالحفیظ قطاش رقمطراز ہیں:
''ان معرفة الحدیث الموضوع تنبنی علی معرفة دقیقة بالسنن والاحادیث ولیس معارفة سطحیة'' (القول الحنیف: ص۵۷)
''موضوع حدیث کی پہنچان بہت دقیق سنن اور احادیث کی معارفت پر مبنی ہے اور یہ معارفت سطحی مطالعہ سے ہر گز حاصل نہیں ہوتی۔''
شیخ مقبل بن ہادی رحمہ اللہ سے کسی نے حدیث معلول کے بارے میں دریافت کیا (جو کہ ایک دقیق اور باریک فن ہے) کہ کیا ضروری ہے کہ طالب علم کو حدیث معلول کا سبب بتایا جائے۔ جواباً شیخ مقبل رحمہ اللہ نے فرمایا:
''انا وانت فی ھذا لامرنظر الی القائل، فاذا قالہ ابو حاتم او ابو زرعة، او البخاری، اواحمد بن حنبل او علی بن مدینی ومن جری فجراھم، نقبل منہ ھذا القول''
''میں اور آپ تو قائل کی طرف دیکھیں گے، مگر جب کسی بات کو امام ابو حاتم ، ابو زرعہ، یا امام بخاری ، احمد بن حنبل، علی بن مدینی یا جو ان کے نقش قدم پر چلنے والے ہوں تو ہمیں ان کی بات کو قبول کرنا چاہیے پھر دلیل کے طور پر ایک واقعہ ذکر فرماتے ہیں جس کا ذکر امام حاکم رحمہ اللہ نے علوم الحدیث صفحہ ۱۱۳ میں ذکر فرمایا ہے۔''
ایک شخص نے ابو زرعہ رحمہ اللہ سے تعلیل کے بارے میں سوال کیا کہ کیا آپ کا تعلیل کا حکم لگانا حجت ہے کہ نہیں؟ تو آپ نے اس شخص سے فرمایا کہ میں تمہیں ایک حدیث کی علت کے بارے میں خبر دیتا ہوں تم اس علت کے بارے میں مسلم بن وارة سے سوال کرنا اور جواب لینے کے بعد ان کو نہ بتانا کہ میں نے بھی جواب دیا ہے۔ پھر اسی حدیث کو لے کر ابو حاتم سے سوال کرنا پھر ہم (تینوں) کے جواب کو ملانا پھر اگر تینوں کے جواب میں فرق ہو تو جان لینا کہ (حدیث کی علت کا مسئلہ) ہماری طرف سے ہے۔ اور اگر اس مسئلہ میں ہمیں متفق پاؤ تو جان لینا کہ یہ حقیقی (الہامی) علم ہے، پھر اس نے ان کے جوابات کو دیکھا تو تینوں میں یکسانیت پائی تو اس نے کہا کی میں گواہی دیتا ہوں کہ یہ علم الہامی ہے۔''(علوم الحدیث للحاکم، ص۱۱۳، العلل لابن ابی حاتم، ج:۱، ص:۱۰، المقترح، ص۳۲)
شیخ مقبل رحمہ اللہ کے اس جواب سے یہ واضح ہوا کہ حدیث کے الفاظ سے اگر یہ پہچان ممکن ہے کہ حدیث موضوع ہے تو اس کے لیے باقاعدہ اس فن کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنانا ہوگا۔ کیونکہ جب تک اس فن میں مہارت حاصل نہ ہوگی تب تک صحت کا اندازہ کرنا نا ممکن ہوگا۔ اور یقیناً فن حدیث میں مہارت تو انہی محدثین کو تھی جنہوں نے اپنی زندگیاں اس مبارک فن میں کھپادیں ۔ لمحہ لمحہ ایک ایک گھڑی اسی میدان میں گزاردی تب جا کر وہ ا س حدیث کا مصداق ٹھہر ے کہ جب تم سے ایسی حدیث بیان کی جائے جس کو سن کر تمہارے دل اور کھالیں نرم ہو جائیں ۔۔۔۔ الخ۔
ابن دقیق العید رحمہ اللہ([1]) نے اس فن کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا:
''کثیرا ما یحکمون بذالک ای بالوضع باعتبار امور ترجع الی المروی والحاصل انھم لکثرة۔۔۔۔'' (السنة مکانتھا فی التشریع الاسلامی ، ص:۱۱۵)
محدثین بسا اوقات کسی روایت کے موضوع ہونے کا فیصلہ روایت کے احوال کی بنا پر کرتے ہیں جس کا حاصل یہ ہے کہ الفاظ حدیث بکثرت مناسبت ہونے کی وجہ سے ان کو ایک روحانی ہیئت اور قوی ملکہ حاصل ہوتا ہے۔ جس کے ذریعہ وہ پہچان لیتے ہیں کہ کون سے الفاظ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہو سکتے ہیں اور کون سے نہیں۔
کیونکہ من گھڑت حدیث کےا لفاظ میں بے تکاپن ، عجیب ،حقائق سے ہٹ کر ملمہ سازی ہوا کرتی ہے جس کی طرف ابن قیم رحمہ اللہ نے بھی اشارہ فرمایا ہے۔ آپ کہتے ہیں:
''والاحادیث الموضوعة علیھا ظلمة ورکاکة ومجازفات بارزة تناری علی وضعھا واختلاتھا علی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم '' (المنار المنیف، ص:۵)
موضوع احادیث میں ایک خاص طرح کی کھلی ہوئی سطحیت ، بے تکا پن اور تاریکی ہوا کرتی ہے جو اس کے موضوع اور جعلی ہونے کا اعلان کرتی ہے۔۔
موضوع حدیث کی پہنچان دو اصولوں کے مطابق کی جا سکتی ہے۔
الف) سند حدیث کی معرفت۔ (ب) درایت متن حدیث کی معرفت
سند میں وضع کی علامت:
۱۔ راوی حدیث وضع کرنے کا خود اعتراف کرے کہ اس نے فلاں فلاں حدیث وضع کی ہے مثلاً:
أ‌) ابو عصمہ نوح بن ابی مریم
ب‌) عبدالکریم بن ابی العوجاء (دراسات فی الجرح والتعدیل، ص:۹۵)
۲۔ حدیث کا راوی جھوٹ میں مشہور ہو اور اس کی روایت کوئی ثقہ راوی نہ کرتا ہو۔ مثلاً:
صخر بن محمد المروزی الحاجی۔ (السنة مکانتھا، ص:۱۰۱)
۳۔ راوی کسی ایسے شخص سے روایت کرے جس سے اس کی ملاقات ثابت نہ ہو، نہ ہی اس کا ہم عصر ہو اور اس کی وفات کے بعد پیدا ہوا ہو۔ (ایضاً، ص۱۱۲)
۴۔ بسا اوقات صحت کی چھان پھٹک راوی کے حالات، پیشہ اور اس کے ہنر سے بھی ہو جایا کرتا ہے۔ مثلاً حدیث ہے کہ:
''الھریسة تشد الظہر''
''ہریسہ کمر کو مضبوط کرتا ہے۔''
اس روایت کا راوی محمد بن حجاج ہریسہ فروش تھا۔ (الموضوعات الکبری، ۱۲۰۶)
۵۔ راوی اہل بدعت ہو اور اپنے مسلک کی حمایت میں حدیث بیان کرتا ہو۔ مثلاًیہ حدیث:
''سمعت علیا قال عبدت اللہ مع رسولہ قبل ان یعبدہ رجل من ھذہ الامة خمس سنین او سبع سنین'' (اللالی المصنوعة، ج:۱، ص:۲۹۵)
''سیدنا علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ اللہ کی عبادت اس امت کے افراد سے پانچ یا سات برس قبل کی۔ ''
اس روایت کا راوی حبہ بن جوبن ہے اس کے متعلق ابن حبان فرماتے ہیں ''کان غالیاً فی التشیع'' وہ غالی شیعہ تھا۔([2])
متن میں وضع کی علامات:
۱۔ حدیث کے متن میں وکالت اور سطحیت ہو یہ رکاکت لفظی بھی ہو سکتی ہے اور معنوی بھی۔
۲۔ حدیث (من گھڑت) عقل صریح کے خلاف جس کی تاویل نہ کی جا سکتی ہو۔ مثلاً یہ روایت نوح علیہ السلام کی کشتی نے خانہ کعبہ کا طواف کیا اور مقام ابراہیم کے نزدیک دو رکعت ادا کی۔
ایک ضروری قاعدہ:
یہاں پر یہ نکتہ سمجھنا بھی بے حد ضروری ہے کہ علماء حدیث نے محال عقلی اور محال عادی میں فرق کیا ہے۔ اگر اسے پیش نظر نہ رکھا گیا تو اس دور عقلیت (Rationalism) میں معجزات اور ما بعد الطبیعات وغیرہ سے متعلق صحیح احادیث بھی لوگوں کے ذہنوں میں فٹ نہ ہوں گی۔ اور وہ ان کے حقائق کا بھی کھلم کھلا انکار کرتے نظر آئیں گے۔
۳۔ حدیث واقعہ اور تاریخ کے خلاف ہو۔
۴۔ محسوسات اور مشاہدات کے بھی خلاف ہو۔
۵۔ قرآنی آیات کی خلاف ہو۔ ([3])
۶۔ سنت ثابتہ کے خلاف ہو۔
۷۔ متفقہ طبّی اور علمی کلیہ کے خلاف ہو۔
۸۔ حکمت اور اخلاق کے عام اصولوں کے منافی ہو اور بے تکے الفاظ ہوں۔
۹۔ اللہ جل شانہ کی شان کے منافی ہو۔
۱۰۔ شان نبوت کے منافی ہو۔
۱۱۔ روایت فی نفسہ باطل اور واہیات ہو۔
۱۲۔ چھوٹے عمل پر اجر عظیم اور چھوٹے گناہ پر عذاب الیم کی وعید ہو۔
۱۳۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا تکلم عجمی زبان میں ثابت کیا جائے۔
۱۴۔ روایت میں کسی زبان یا قوم کی مذمت ہو۔
۱۵۔ مختلف پیشہ اختیار کرنے والوں کی سخت مذمت ہو۔
اس کے علاوہ اور بھی کئی موضوع روایات کے پہنچان کے طریقے ہیں۔ مگر حاصل کلام یہی ہے کہ یہ وہی شخص کر سکتا ہے جو حدیث کے فن کا ماہر ہو جس کی رگ رگ میں فن حدیث سرایت کرتا ہو۔ لہٰذا آپ کی پیش کردہ روایت کا تعلق بھی ایسے ہی محدثین کے ساتھ ہے۔ واللہ اعلم
[1]) ابن دقیق العید رحمہ اللہ حافظ الحدیث فقیہ العصر اور امام و مجتہد گزرے ہیں۔ خاندانی سفید پوشی کے سبب آپ اسی لقب سے معروف ہوگئے۔ دقیق العید ان کے دادا وہب کا لقب تھا۔ ہمیشہ سفید اور اجلا کپڑا ذیب تن رہتا تھا۔ اسی بناء پر لوگوں نے کہا ''قماش ھذا یشبہ دقیق العید'' ان کے کپڑے عید کے کپڑوں کے مشابہ ہیں۔ آپ کے اجتہاد کے نظارے آپ کی کتاب شرح الالمام میں دیکھا جا سکتا ہے۔ ایک حدیث پر چار سو تین مسائل کی تخریج کی ہے۔
[2] ) اس بات کو ملحوظ رکھا جائے کہ محدثین کی اصطلاح میں داعی اہل بدعت اور غیر داعی اہل بدعت میں بڑا فرق ہے۔ امام بخاری نے بھی صحیح البخاری میں ایسے راویوں سے روایت لی جو بدعتی گروہ سے تعلق رکھتے تھے۔ لیکن وہ اپنے عقائد کی تشہیر اور دعوت نہیں دیتے تھے ، محدثین کرام رحمہم اللہ کے نزدیک اگر کوئی اہل بدعتی اپنے مزموم عقائد کا داعی ہوگا تو اس کی روایت پایہ ثبوت سے ساقط شمار کی جائے گی۔ یعنی اس کی روایت مقبول نہ ہوگی۔
[3] ) اسی لیے کوئی صحیح حدیث ایسی نہیں ہے جو قرآن مجید کے نصوص سے متصادم رکھتی ہو۔ تفصیلی معلومات کے لیے راقم کی کتاب ''احادیث متعارضہ اور انکا حل'' کا مطالعہ فرمائیں یا راقم کے لیکچرز ہمارے لیکچرز کے لیے وزٹ کریں۔
 
Top