اگر کوئی شخص ڈیٹی سے یا کام کاج مزدوری وغیرہ سے تھکا ماندہ گھر آئے۔ راستہ میں سوچ رہا ہو کہ گھر جاتے ہی بستر پر لیٹ کر آرام کروں گا کہ تھکاوٹ دور ہوسکے۔ مگر گھر داخل ہوتے ہی اس کو پتہ چلتا ہے کہ اس کا بچہ بیمار ہے۔ اس کو اگر ابھی ڈاکٹر کے پاس نہ لے جایا گیا تو اس کی زمدگی کو خطرہ ہے۔وہ تھکا ماندہ شخص اپنی ساری تھکاوٹ بھول کر بچہ کو لے کر ڈاکٹر کہ طرف چل پڑتا ہے۔
لیکن اس حالت میں اسے کہا ائے نماز پڑھ لو۔ وہ کہے گا کہ پھر پڑ لوں گا ابھی تو میں بہت تھکا ہؤا ہوں۔
ایسا کیوں ہوتا ہے؟
اس لئے کہ اس کو وہ اپنی ذمہ داری سمجھتا ہے مگر نماز کو ثانوی حیثیت دیتا ہے۔
یہی حال صبح کی بیداری کا ہے۔ اگر کہیں جانا ہو اور پتہ ہو کہ اگر اتنے بجے تک نہیں پہنچوں گا تو گاڑی نکل جائے گی۔ وہ بغیر الارم کے بھی اس وقت اٹھ جاتا ہے مگر نماز کے لئے الارم بھی بعض اوقات ناکافی ثابت ہوتا ہے۔
یہ سب فکر اور بے فکری کا کمال ہے