• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

دنیا وآخرت میں آپﷺ کے پچاسی خصوصیات وفضائل

شمولیت
اگست 28، 2019
پیغامات
49
ری ایکشن اسکور
10
پوائنٹ
35
حصۂ اول





آپ ﷺ کے وہ فضائل وخصوصیات جن کا تعلق دنیا سے ہے​

ابومعاویہ شارب بن شاکرالسلفی



(1) آپﷺ کی بعثت سے پہلے ہی آپ کے متعلق تمام انبیاؤں سے عہدوپیمان لیاگیا:

فرمان باری تعالی ہے: ’’ وَإِذْ أَخَذَ اللَّهُ مِيثَاقَ النَّبِيِّينَ لَمَا آتَيْتُكُمْ مِنْ كِتَابٍ وَحِكْمَةٍ ثُمَّ جَاءَكُمْ رَسُولٌ مُصَدِّقٌ لِمَا مَعَكُمْ لَتُؤْمِنُنَّ بِهِ وَلَتَنْصُرُنَّهُ قَالَ أَأَقْرَرْتُمْ وَأَخَذْتُمْ عَلَى ذَلِكُمْ إِصْرِي قَالُوا أَقْرَرْنَا قَالَ فَاشْهَدُوا وَأَنَا مَعَكُمْ مِنَ الشَّاهِدِينَ ‘‘ اورجب اللہ تعالی نے نبیوں سے عہد لیا کہ جو کچھ میں تمہیں کتاب وحکمت دوں پھر تمہارے پاس وہ رسول آئے جو تمہارے پاس کی چیزکوسچ بتائے تو تمہارے لئے اس پر ایمان لانااوراس کی مدد کرنا ضروری ہے،فرمایاکہ کیا تم اس کے اقراری ہو اور اس پر میراذمہ لے رہے ہو؟سب نے کہا کہ ہمیں اقرارہے،فرمایاتواب گواہ رہواور خودمیں بھی تمہارے ساتھ گواہوں میں ہوں۔(ال عمران:81)

(2) آپﷺ کی بعثت کے لئے سیدناابراہیم خلیل اللہ نے دعا کی:

فرمان باری تعالی ہے :’’ رَبَّنَا وَابْعَثْ فِيهِمْ رَسُولًا مِنْهُمْ يَتْلُواعَلَيْهِمْ آيَاتِكَ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَيُزَكِّيهِمْ إِنَّكَ أَنْتَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ ‘‘ اے ہمارے رب!ان میں انہیں میں سے رسول بھیج جوان کے پاس تیری آیتیں پڑھے،انہیں کتاب وحکمت سکھائے اور انہیں پاک کرے،یقیناتوغلبہ والااور حکمت والاہے۔(البقرۃ:129) اسی طرح عبادہ بن صامت بیان کرتے ہیں کہ کسی نے کہا کہ اے اللہ کے رسول ﷺ !ہمیں اپنے بارے میں کچھ بتائیے تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ ’’ أَنَا دَعْوَةُ أَبِيْ إِبْرَاهِيْمَ وَ كَانَ آَخِرُ مَنْ بَشَّرَ بِيْ عِيْسَى ابْنُ مَرْيَمَ عَلَيْهِ الصَّلَاةُوَ السَّلَامُ ‘‘ میں ابراہیم علیہ الصلاۃ والسلام کی دعاہوں اور سب سے آخرمیں میری بشارت دینے والے عیسی بن مریم علیہ الصلاۃ والسلام تھے۔ (الصحیحۃ للألبانیؒ:1546)

(3) آپﷺ کی بعثت کی بشارت سیدناعیسی بن مریم علیہ الصلاۃ والسلام نے بھی دیا:

فرمان باری تعالی ہے:’’ وَإِذْ قالَ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ يا بَنِي إِسْرَائِيلَ إِنِّي رَسُولُ اللَّهِ إِلَيْكُمْ مُصَدِّقاً لِما بَيْنَ يَدَيَّ مِنَ التَّوْراةِ وَمُبَشِّراً بِرَسُولٍ يَأْتِي مِنْ بَعْدِي اسْمُهُ أَحْمَدُ فَلَمَّا جَاءَهُمْ بِالْبَيِّناتِ قالُوا هٰذَا سِحْرٌ مُبِينٌ ‘‘اور جب مریم کے بیٹے عیسی نے کہا اے (میری قوم)،بنی اسرائیل !میں تم سب کی طرف اللہ کا رسول ہوں مجھ سے پہلے کی کتاب تورات کی میں تصدیق کرنے والاہوں اور اپنے بعد آنے والے ایک رسول کی میں تمہیں خوشخبری سنانے والاہوں جن کا نام احمد ہے،پھر جب وہ ان کے پاس کھلی دلیلیں لائے تو کہ کہنے لگے،یہ تو کھلاجادوہے۔(الصف:6)

(4) آپﷺکی بعثت انسانیت کے اوپربالخصوص مسلمانوں کے لیے ایک احسان عظیم ہے:

فرمان باری تعالی ہے:’’ لَقَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ إِذْ بَعَثَ فِيهِمْ رَسُولًا مِنْ أَنْفُسِهِمْ يَتْلُوا عَلَيْهِمْ آيَاتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَإِنْ كَانُوا مِنْ قَبْلُ لَفِي ضَلَالٍ مُبِينٍ ‘‘ بے شک مسلمانوں پراللہ تعالی کا بڑااحسان ہے کہ ان ہی میں سے ایک رسول ان میں بھیجا،جوانہیں اس کی آیتیں پڑھ کرسناتاہے اور انہیں پاک کرتاہے اور انہیں کتاب اور حکمت سکھاتاہے،یقینایہ سب اس سےپہلے کھلی گمراہی میں تھے۔(ال عمران:164)

(5) آپﷺسارے جہانوں کے لئے رحمت ہیں:

فرمان باری تعالی ہے:’’ وَما أَرْسَلْناكَ إِلاَّ رَحْمَةً لِلْعالَمِينَ ‘‘ اورہم نے آپ کو تمام جہان والوں کے لئے رحمت بناکر ہی بھیجاہے۔(الأنبياء:107) اسی طرح ابوہریرۃؓ سے روایت ہے کہ آپﷺ نے فرمایاکہ ’’ يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّمَا أَنَا رَحْمَةً مُهْدَاةً ‘‘اے لوگو!بے شک کہ میں رحمت ہوں جسے لوگوں کے لئے بطورہدیہ پیش کیا گیا ہے۔(الصحیحۃ للألبانیؒ:490،3945)

(6) آپ ﷺ کی بعثت ورسالت پوری کائنات کے لئےہے:

فرمان باری تعالی ہے ’’ قُلْ يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنِّي رَسُولُ اللَّهِ إِلَيْكُمْ جَمِيعًا ‘‘ کہہ دیجئے کہ اے لوگو!بے شک میں تم تمام لوگوں کی طرف اللہ تعالی کا رسول ہوں۔ (الاعراف:158)دوسری جگہ فرمایا کہ ’’ وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا كَافَّةً لِّلنَّاسِ بَشِيرًا وَنَذِيرًا وَلَٰكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ ‘‘ اور ہم نے آپ ہی کو تمام انسانوں کے لئے خوشخبری دینے والا اور ڈرانے والابناکربھیجاہے،اور لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے ہیں۔(سبا:28)اسی طرح سے حضرت جابربن عبداللہؓ بیان کرتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا:’’ وَكَانَ النَّبِيُّ يُبْعَثُ إِلَى قَوْمِهِ خَاصَّةً وَبُعِثْتُ إِلَى النَّاسِ عَامَّةً ‘‘ اور ہرنبی کوایک خاص قوم کی طرف ہی بھیجاجاتاتھا جب کہ مجھے تمام لوگوں کی طرف بھیجاگیاہے۔(بخاری:کتاب التیمم:323،مسلم:کتاب المساجد :810)

(7) آپﷺ کو سب سے زیادہ مبارک زمانے میں مبعوث کیا گیا:

اس دنیامیں اب تک جتنے بھی زمانےگذرچکے ہیں اور تاقیامت جتنے زمانے گذریں گے ان تمام زمانوں میں سب سے بہتر زمانے میں آپ ﷺ کو مبعوث کیا گیا،جیساکہ ابوہریرہ ؓسے روایت ہے کہ آپﷺ نے فرمایا:’’ بُعِثْتُ مِنْ خَيْرِ قُرُونِ بَنِي آدَمَ قَرْنًا فَقَرْنًا حَتَّى كُنْتُ مِنْ الْقَرْنِ الَّذِي كُنْتُ فِيهِ‘‘ مجھے اولاد آدم کے سب سے بہترین زمانے میں مبعوث کیاگیا،زمانہ صدی درصدی گزرتاگیا،حتی کہ وہ (مبارک)صدی آگئی جس میں مجھے مبعوث کیا گیا۔ (بخاری:3557،الصحیحۃ للألبانی:809)

(8) آپ ﷺکوبیک وقت انس وجن کی طرف مبعوث کیا گیا:

یہ آپﷺ کے عظمت شان کی دلیل ہے کہ اللہ رب العزت نےآپﷺ کو ایک ہی وقت میں دوبڑی مخلوق انس وجن کے طرف نبی ورسول بناکرمبعوث کیا یہی وجہ ہے کہ آپﷺجنوں کے پاس بھی دعوت وتبلیغ کے لئے جایاکرتے تھے اور جنوں کی جماعت بھی وقتافوقتا آپﷺ کے خدمت میں حاضرہوکر اپنے احکام ومسائل معلوم کرلیاکرتے تھے،اسی طرح کا ایک واقعہ مکہ کے قریب وادیٔ نخلہ میں اس وقت پیش آیا جب آپﷺ صحابۂ کرام کو فجر کی نماز پڑھا رہے تھےجیسا کہ فرمان باری تعالی ہے:’’ وَإِذْ صَرَفْنَا إِلَيْكَ نَفَرًا مِّنَ الْجِنِّ يَسْتَمِعُونَ الْقُرْآنَ فَلَمَّا حَضَرُوهُ قَالُوا أَنصِتُوا فَلَمَّا قُضِيَ وَلَّوْا إِلَى قَوْمِهِم مُّنذِرِينَ ، قَالُوا يَا قَوْمَنَا إِنَّا سَمِعْنَا كِتَابًا أُنزِلَ مِن بَعْدِ مُوسَى مُصَدِّقًا لِّمَا بَيْنَ يَدَيْهِ يَهْدِي إِلَى الْحَقِّ وَإِلَى طَرِيقٍ مُّسْتَقِيمٍ ‘‘اور یاد کروجب کہ ہم نے جنوں کی ایک جماعت کو تیری طرف متوجہ کیا وہ قرآن کو سن رہے تھے پس جب نبی کے پاس پہنچ گئے تو ایک دوسرے سے کہنے لگے خاموش ہوجاؤ،پھرجب ختم ہوگیا تو اپنی قوم کو آگاہ کرنے کے لئے واپس لوٹ گئے،کہنے لگے کہ اے ہماری قوم ہم نے یقیناوہ کتاب سنی ہے جو موسی کے بعد نازل کی گئی ہے،جو اپنے سے پہلی کتابوں کی تصدیق کرنے والی ہے جو سچے دین کی اور راہ راست کی طرف رہبری کرتی ہے۔ (سورہ احقاف: 29-30)

(9) آپﷺ کی بعثت کی وجہ سےجنوں اور شیاطین کے لئےآسمان کی بندش کی گئی:

پہلے زمانے سے جنات آسمانوں کی خبریں کاہنوں اور نجومیوں کو دیاکرتے تھے مگرآپﷺ کی بعثت کی وجہ سےجناتوں پر روک لگادی گئی اور شہاب ثاقب کاانتظام وانصرام کیا گیاجیسا کہ فرمان باری تعالی ہے:’’ وَأَنَّا لَمَسْنَا السَّماءَ فَوَجَدْنَاهَا مُلِئَتْ حَرَساً شَدِيداً وَشُهُباً،وَأَنَّا كُنَّا نَقْعُدُ مِنْها مَقَاعِدَ لِلسَّمْعِ فَمَنْ يَسْتَمِعِ الْآنَ يَجِدْ لَهُ شِهاباً رَصَداً‘‘ (جنوں نے کہا) اور ہم نے آسمان کو ٹٹول کر دیکھا تو اسے سخت چوکیداروں اور سخت شعلوں سے پرپایا،اس سے پہلے ہم باتیں سننے کے لئے آسمان میں جگہ جگہ بیٹھ جایاکرتے تھے،اب جوبھی کان لگاتاہے وہ ایک شعلے کو اپنی تاک میں پاتاہے۔(الجن:8-9)

(10) کائنات کی ہرچیز جانتی ہے کہ آپ ﷺاللہ کے رسول ہیں:

حضرت جابربن عبداللہؓ بیان کرتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا :’’ مَا بَيْنَ السَّمَاءِ إِلَى الْأَرْضِ أَحَدٌ إِلَّا يَعْلَمُ أَنِّيْ رَسُوْلُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَّاعَاصِي الْجِنِّ وَالْإِنْسِ‘‘ زمین وآسمان کی ہرچیزجانتی ہے کہ میں اللہ کا رسول ہوں ،ماسوائے نافرمان جنوں اورانسانوں کے۔(الصحیحۃ للألبانیؒ:1718)

(11) آپ ﷺ کا سلسلہ ٔ نسب اورخاندان سب سے اعلی خاندان ہے:

اس کائنات میں اگرسب سے اعلی ومکرم کوئی خاندان ہے تو وہ ہمارے نبیٔ اکرم ومکرم ﷺ کا خاندان ہے جیسا کہ وَاثِلَةَ بْنِ الْأَسْقَعِؓ بیان کرتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا ’’ إِنَّ اللَّهَ اصْطَفَى مِنْ وَلَدِ إِبْرَاهِيمَ إِسْمَعِيلَ وَاصْطَفَى مِنْ وَلَدِ إِسْمَعِيلَ بَنِي كِنَانَةَ وَاصْطَفَى مِنْ بَنِي كِنَانَةَ قُرَيْشًا وَاصْطَفَى مِنْ قُرَيْشٍ بَنِي هَاشِمٍ وَاصْطَفَانِي مِنْ بَنِي هَاشِمٍ‘‘ اللہ تعالی نے ابراہیم علیہ الصلاۃ والسلام کی اولاد سےاسماعیل علیہ الصلاۃ والسلام کو اور اسماعیل علیہ الصلاۃ والسلام کی اولاد سے بنو کنانہ کواور بنوکنانہ سے قریش کواور قریش سےبنوہاشم کو اورپھر بنوہاشم سے اللہ تعالی نےمجھے منتخب کیا۔

(صحیح الترمذی للألبانیؒ:3605،الصحیحۃ للألبانیؒ:302، صحیح مسلم: کتاب الفضائل:2276)

(12) آپ ﷺ اول تا آخراس کائنات کے تمام بنی آدم میں سب سے افضل انسان ہیں:

ابوذرسے روایت ہے کہ آپﷺ نے فرمایاکہ ’’ وُزِنْتُ بِأَلْفٍ مِنْ أُمَّتِيْ فَرَجَحْتُهُمْ، فَجَعَلُوْا يَتَنَاثَرُوْنَ عَلَيَّ مِنْ كِفَّةِ الْمِيْزَانِ‘‘ میری امت کے ایک ہزارافرادسے میراوزن کیا گیا(پھربھی)میں وزنی رہا(وزن کرتے وقت لوگوں کا پلڑااتنااوپرکواٹھ گیاکہ)لوگ اس سے مجھ پر گرناشروع ہوگئے۔(الصحیحۃ للألبانیؒ:3314) ایک دوسری روایت میں ہے کہ صحابۂ کرام نے آپ سے پوچھا کہ اے اللہ کے نبیﷺ آپ کو کیسے معلوم ہو اکہ آپ اللہ کے نبی ہیں؟تو آپ ﷺ نے فرمایاکہ(ایک دن)میں مکہ کے کسی وادی میں تھا کہ میرے پاس دوفرشتے آئے جن میں سے ایک زمین پر اور دوسرا زمین وآسمان کے درمیان تھا،آپﷺنے فرمایاکہ ان میں سے ایک فرشتہ نےدوسرے سے کہا (جس کی طرف ہم کو بھیجاگیاہے)کیا یہ وہی ہے؟دوسرے فرشتے نے کہا :جی ہاں!اس فرشتے نے کہا کہ ایک آدمی کے ساتھ ان کا وزن کرو؟چنانچہ میراوزن کیا گیا،لیکن میں بھاری رہا ،پھر اس فرشتے نے (دوسری مرتبہ)کہا کہ (اب )دس آدمیوں سے ان کا وزن کرو؟چنانچہ میرا وزن کیاگیا ،لیکن پھربھی میں ان پر بھاری ثابت ہوا!اس فرشتے نے (تیسری مرتبہ)کہا کہ(اب )سوافراد سے ان کا وزن کرو،لہذامیراوزن کیا گیا ،چنانچہ میراوزن اس بار بھی زیادہ ہی رہا!اس فرشتے نے(چوتھی مرتبہ)کہا کہ اب ان کا وزن ایک ہزارافراد سے کرولہذامیراوزن ایک ہزارافراد سے کیاگیا لیکن اس بار بھی میں ہی وزنی رہااوران (ہزارآدمیوں کا پلڑاہلکا ہونے کی وجہ سے)اتنااوپر اٹھ گیا کہ وہ لوگ مجھ پر گرنے لگے ،(بالآخر)ایک فرشتے نے دوسرے سے کہا کہ ’’ لَوْ وَزَنْتَهُ بِأُمَّتِهِ لَرَجَحَهَا ‘‘ اگرتم ان کا وزن ان کی پوری امت سے کروگے تو بھی یہ محمدﷺ سب پر بھاری ثابت ہوں گے۔(الصحیحۃ للألبانی:2529)

(13) آپ ﷺ کے اوپر ہی ختم نبوت کاتاج سجایاگیا:

فرمان باری تعالی ہے:’’ مَا كَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِّن رِّجَالِكُمْ وَلَٰكِن رَّسُولَ اللَّهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّينَ ۗ وَكَانَ اللَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمًا ‘‘ لوگو!تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ محمدﷺنہیں لیکن آپ اللہ تعالی کے رسول ہیں اور تمام نبیوں کے (سلسلے کو )ختم کرنے والے ہیں،اور اللہ تعالی ہرچیز کا بخوبی جاننے والا ہے۔(الاحزاب:40) اسی طرح سے حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ آپﷺ نے فرمایا:’’ إِنَّ مَثَلِي وَمَثَلَ الْأَنْبِيَاءِ مِنْ قَبْلِي كَمَثَلِ رَجُلٍ بَنَى بَيْتًا فَأَحْسَنَهُ وَأَجْمَلَهُ إِلَّا مَوْضِعَ لَبِنَةٍ مِنْ زَاوِيَةٍ فَجَعَلَ النَّاسُ يَطُوفُونَ بِهِ وَيَعْجَبُونَ لَهُ وَيَقُولُونَ هَلَّا وُضِعَتْ هَذِهِ اللَّبِنَةُ قَالَ فَأَنَا اللَّبِنَةُ وَأَنَا خَاتِمُ النَّبِيِّينَ ‘‘بے شک کہ میری اور مجھ سے پہلے کے تمام انبیاءکی مثال ایسی ہے جیسے ایک شخص نے ایک گھر بنایااور اس میں ہرطرح کی زینت پیداکی لیکن ایک کونے میں ایک اینٹ کی جگہ چھوٹ گئی ،اب تمام لوگ آتے ہیں اور مکان کو چاروں طرف سے گھوم کردیکھتے ہیں اور تعجب میں پڑجاتے ہیں لیکن یہ بھی کہتے جاتے ہیں کہ یہاں پر ایک اینٹ کیوں نہ رکھی گئی؟تو میں ہی وہ اینٹ ہوں اور میں خاتم النبیین ہوں۔ (بخاری:3535،مسلم:2286)

(14)آپﷺ معصوم عن الخطاء ہیں:

سیدنا عبداللہ بن عمروبن العاصؓ بیان کرتے ہیں کہ میں آپﷺ سے جو بات بھی سنتااسے یاد کرنےکی غرض سے لکھ لیا کرتاتھا،لیکن قریش نے مجھے اس سے روکا اور کہا کہ تم جو کچھ بھی آپ ﷺ سے سنتے ہو اسے لکھ لیتے ہو حالانکہ آپ ﷺ تو انسان ہیں ،اور آپﷺکبھی خوشی میں اور کبھی غصے میں بات کرتے ہیں!تو میں نے یہ سن کر لکھنا بندکردیا،پھر میں نے اس بات کا ذکرآپ ﷺ کے سامنے کیا تو آپﷺ نے اپنی انگلی سے اپنے منہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ’’اُكْتُبْ فَوَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ مَا يَخْرُجُ مِنْهُ إِلَّا حَقٌّ ‘‘ (نہیں) تم لکھتے رہوکیونکہ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے!اس زبان سے حق بات کے علاوہ کبھی کوئی اور بات نہیں نکلتی ہے۔(صحیح ابوداؤد للألبانیؒ:6346،الصحیحۃ للألبانیؒ:1532)اسی بات کی گواہی خود اللہ رب العالمین نے دی کہ :’’ وَما يَنْطِقُ عَنِ الْهَوى،إِنْ هُوَ إِلاَّ وَحْيٌ يُوحى‘‘اورنہ وہ اپنی خواہش سے کوئی بات کہتے ہیں ، وہ تو صرف وحی ہے جو اتاری جاتی ہے۔(النجم:3-4)

(15) اس کائنات میں تاقیامت آپ ﷺ کا سب سے زیادہ ذکرخیرکیاجاتارہاہے اور کیا جائے گا:

فرمان باری تعالی ہے:’’ وَرَفَعْنا لَكَ ذِكْرَكَ‘‘ اور ہم نے تیراذکربلندکردیا۔(الشرح:4)اس ذکرخیرکو سمجھنے کے لئے شاعررسول حسان بن ثابت کا شعر ملاحظہ کریں:

وَضَمَّ الْاِلٰہُ اِسْمَ النَّبِیِّ اِلٰی اِسْمِہِ اِذَاقَالَ فِی الْخَمْسِ الْمُؤَذِّنُ أَشْھَدُ​

اور اللہ نے نبیﷺ کے نام کو اپنے نام کےساتھ ملادیا ہے جب مؤذن پانچ وقت کی آذانوں میں شہادتین کا کلمہ کہتاہے

وَشَقَّ لَہُ مِنْ اِسْمِہِ لِیُجِلَّہُ فَذُوالْعَرْشِ مَحْمُوْدٌ وَھٰذَامُحَمَّدُ​

اورآپ ﷺ کی عظمت وبزرگی کے لئے اپنے نام سے آپ ﷺ کا نام نکالا،پس عرش والامحمود ہے اور یہ محمد ﷺ ہیں۔

(16) آپ ﷺ کےاعلی اخلاق حسنہ کی گواہی :

آپﷺ جس اخلاق وکردارکےمالک تھے اس کائنات میں اول تاآخر اس اخلاق سے متصف کوئی اور نہیں اور نہ ہی ہوگا ،یہی وجہ ہے کہ قرآن مجید کے اندر رب العالمین نے آپ کے اخلاق کی گواہی ان الفاظ میں دی کہ’’ وَإِنَّکَ لَعَلیٰ خُلُقٍ عَظِیْمٍ‘‘ اور بے شک کہ آپ بڑے عمدہ اخلاق کے مالک ہیں۔(القلم:4)

(17) اللہ رب العالمین نےتمام بنی آدم میں صرف آپ کے عمر کی قسم کھائی ہے:

قرآن مقدس کے اندررب العالمین نے کئی چیزوں کی قسم کھائی ہے اور وہ مالک ِکل ہے جس کی چاہے وہ قسم کھا سکتاہے،مگر بنی آدم میں سوائے آپﷺکے اللہ تعالی نے کسی اور کی قسم نہیں کھائی جیسا کہ فرمان باری تعالی ہے:’’ لَعَمْرُكَ إِنَّهُمْ لَفِي سَكْرَتِهِمْ يَعْمَهُونَ ‘‘ تیری عمر کی قسم! و ہ تو(قوم لوط) اپنی بدمستی میں سرگرداں تھے۔(الحجر:72)

(18) رب العالمین کا آپ ﷺ کا دفاع کرنا:

قرآن مجید میں یہ بات مذکور ہے کہ جب نوح علیہ الصلاۃ والسلام کو ان کی قوم نے کہا کہ ’’ إِنَّالَنَرٰکَ فِیْ ضَلَالٍ مُبِیْنٍ‘‘بے شک کہ اے نوح ہم تو تجھے کھلم کھلا گمراہی میں دیکھ رہے ہیں تو نوح علیہ الصلاۃ والسلام نے خود اپنا دفاع کیا اور کہا کہ ’’ یَاقَوْمِ لَیْسَ بِیْ ضَلَالَۃٍ ‘‘اےمیری قوم !میں گمراہ نہیں ہوں،اسی طرح جب ھود علیہ الصلاۃ والسلام کو ان کی قوم نے کہا کہ ’’ إِنَّالَنَرٰکَ فِیْ سَفَاھَۃٍ ‘‘ ہم تو تجھے بیوقوف سمجھ رہے ہیں تو ھود علیہ الصلاۃ والسلام نے خود اپنا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ ’’ یَاقَوْمِ لَیْسَ بِیْ سَفَاھَۃٍ ‘‘ اے میری قوم!میں بے وقوف نہیں ہوں مگر جب مشرکین مکہ نے آپ ﷺ کو مجنوں اور شاعر جیسے برے القاب سے نوازاتو اللہ نے خود دفاع کرتے ہوئے فرمایا:’’ فَذَكِّرْ فَما أَنْتَ بِنِعْمَةِ رَبِّكَ بِكاهِنٍ وَلا مَجْنُونٍ‘‘ آپﷺ نصیحت کرتے رہیں کیونکہ آپ اپنے رب کے فضل سے نہ تو آپ کاہن ہیں اور نہ ہی دیوانہ۔(الطور:29) اسی طرح جب کبھی بھی مشرکین نے کسی بھی طرح سے آپ ﷺ کے اوپر الزام ودشنام طرازی سے کام لیا اللہ رب ذوالجلال والاکرام نے خود اس کا دفاع کیا !یاد کیجئے اس وقت کو جب آپ ﷺ نے وادیٔ بطحاء میں کوہ صٖفاپر دعوت توحید دی اور کہا کہ اے مکہ کے باسیوں !’’ فَإِنِّي نَذِيرٌ لَكُمْ بَيْنَ يَدَيْ عَذَابٍ شَدِيدٍ‘‘ میں تمہیں آنے والے سخت عذاب سے خبردارکرنے والاہوں!یہ سن کر ابولہب نے کہا کہ ’’ تَبًّا لَكَ سَائِرَ الْيَوْمِ أَلِهَذَا جَمَعْتَنَا ‘‘ اے محمد(ﷺ)آج دن سارا(تو ہلاک وبرباد ہوجائے)تیراہاتھ ٹوٹ جائےکیاتونے ہمیں اسی لئے اکٹھاکیا تھا؟ابولہب نے آپ (ﷺ) کے لئے ایک دن کی بددعادی مگررب العالمین نے تاقیامت رہتی دنیا تک کے لئے اس کی ہلاکت وبربادی کا اعلان کردیا ،رب ذوالجلال والاکرام نےآپﷺ کا دفاع اسی الفاظ سے کیا جس الفاظ کو ابولہب نے استعمال کیا تھا ،ابولہب نے تبالک کہاتو اللہ تعالی نے ’’ تَبَّتْ يَدَا أَبِي لَهَبٍ وَتَبَّ ‘‘ ابولہب خود ہلاک وبرباد ہوجائے،اسی کے ہی دونوں ہاتھ ٹوٹ جائے،کے ذریعہ آپﷺ کا دفاع کیا۔(بخاری:کتاب التفسیر،باب وأنذرعشیرتک الأقربین واخفض جناحک:4397) اسی طرح ایک بار ایک عورت نے آپﷺ سے کہا کہ اے محمد(ﷺ)’’ إِنِّي لَأَرْجُو أَنْ يَكُونَ شَيْطَانُكَ قَدْ تَرَكَكَ لَمْ أَرَهُ قَرِبَكَ مُنْذُ لَيْلَتَيْنِ أَوْ ثَلَاثَةٍ ‘‘ تیرےشیطان(اس کی مراد جبرئیل امین تھے)نے تجھے چھوڑدیا ہے!(اس عورت نے ایسااس وقت کہا جب آپﷺ طبیعت ناساز ہونے کی وجہ سے دویاتین راتیں تہجدکا اہتمام نہیں کرسکے تھے)ادھر اس عورت نے ایسا کہا ادھررب ذوالجلال والاکرام نے آپ کے دفاع میں قرآن کی ایک مکمل سورہ ہی نازل کردی’’ وَالضُّحَى وَاللَّيْلِ إِذَا سَجَى مَا وَدَّعَكَ رَبُّكَ وَمَا قَلَى‘‘قسم ہے چاشت کے وقت کی اور رات کی جب وہ چھاجائے آپ کے رب نے نہ تو آپ کوچھوڑاہے اور نہ ہی آپ سے ناراض ہے۔(بخاری:کتاب فضائل القرآن،باب:کیف نزل الوحی وأول مانزل:4600)اسی طرح مکہ کےاندر جب عاص بن وائل کے سامنے میں آپﷺ کا ذکرکیا جاتا تو وہ کہتا کہ محمد(ﷺ) تو جڑکٹا آدمی ہے اس کے پیچھے اس کی کوئی اولاد نہیں !جیسے ہی وہ مرا اس کا نام ونشان مٹ جائے گا ،عاص نے ایسا کہا رب ذوالجلال والاکرام نے آپ کے دفاع میں ایک سورہ ہی نازل کرتے ہوئے آپ کوتسلی دی کہ’’ إِنَّ شَانِئَكَ هُوَ الْأَبْتَرُ ‘‘ (اے اللہ کے نبی ﷺ)بے شک آپ کا دشمن ہی بے نام ونشان ہے۔(صحیح السیرۃ النبویۃ للألبانیؒ:219)

الغرض یہ فضیلت صرف اور صرف آپﷺ ہی کو حاصل ہے کہ جب کبھی بھی مشرکین نے آپ کے حق میں کچھ کہا رب ذوالجلال والاکرام نے خود آپ کا دفاع کیا،اور تاقیامت یہ اعلان کردیا کہ ’’ إِنَّا كَفَيْناكَ الْمُسْتَهْزِئِينَ‘‘ آپ سے جو بھی مسخراپن کرے گا اس کے لئے ہم ہی کافی ہیں۔(الحجر:95)

(19) قلب اطہر کو دو مرتبہ زمزم سے دھویا جانا:

(1) پہلی مرتبہ چارسال کی عمرمیں: حضرت انس بن مالکؓ کہتےہیں کہ’’ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَتَاهُ جِبْرِيلُ ـ وَهُوَ يَلْعَبُ مَعَ الغِلْمِانِ ـ فَأَخَذَهُ فصرعَهُ فشقَّ قلبَهُ فَاسْتَخْرَجَ مِنْهُ عَلَقَةً فَقَالَ: هَذَا حَظُّ الشَّيْطَانِ مِنْكَ ثُمَّ غَسلَهُ فِي طَسْتٍ مِنْ ذَهَبٍ بِمَاءِ زَمْزَمَ ثُمَّ لأَمَهُ ثُمَّ أعادَهُ فِي مَكَانِهِ وَجَاءَ الْغِلْمَانُ يَسْعَوْنَ إِلَى أُمِّهِ ـ يَعْنِي: ظِئْرَهُ ـ فَقَالُوا: إِنَّ مُحَمَّدًا قَدْ قُتِلَ فَاسْتَقْبَلُوهُ مُنْتَقِعَ اللَّوْنِ‘‘ یہ اس وقت کی بات کی جب آپ کی عمر 4 سال کی تھی اور اس وقت آپ حلیمہ سعدیہ کےپاس تھے کہ جبرئیل آپ کےپاس اس وقت آئے جب آپ بچوں کے ساتھ کھیل رہے تھے،جبرئیل نے آپ کوپکڑکرلٹادیا اور پھرآپ کاسینۂ مبارک چاک کرکے آپ کےقلب اطہر کو نکالااور اس سے ایک خون کا ٹکڑا نکال اور کہا کہ یہ آپ کے اندر شیطان کا حصہ ہے،اور اس کو سونے کے تھال میں رکھ کر زمزم کے پانی سے دھویا ،پھراس کو اس کی جگہ پر رکھ کر اس کو درست کردیا ،اور(ادھر)بچے دوڑتے دوڑے ان کی ماں (حلیمہ)کے پاس آئے اور کہا کہ بے شک محمدﷺ کو قتل کردیا گیا،چنانچہ جب وہ لوگ آئے تو دیکھا کہ آپ ﷺ کا رنگ بدلاہوا ہے۔انس کا بیان ہے کہ ’’ فَكُنْتُ أَرَى أَثَرَ الْمِخْيَطِ فِي صَدْرِهِ ‘‘ میں آپ ﷺ کے سینے پر سلائی کے نشانات کو دیکھتاتھا۔(المشکاۃ للألبانی:5852،الصحیحۃ للألبانی:1545،مسلم،کتاب الایمان:162)

(2) دوسری مرتبہ معراج کے موقع سے:سیدنا ابوذرؓ بیان کرتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا ’’ فُرِجَ سَقْفِي وَأَنَا بِمَكَّةَ فَنَزَلَ جِبْرِيلُ عَلَيْهِ السَّلَام فَفَرَجَ صَدْرِي ثُمَّ غَسَلَهُ بِمَاءِ زَمْزَمَ ثُمَّ جَاءَ بِطَسْتٍ مِنْ ذَهَبٍ مُمْتَلِئٍ حِكْمَةً وَإِيمَانًا فَأَفْرَغَهَا فِي صَدْرِي ثُمَّ أَطْبَقَهُ ثُمَّ أَخَذَ بِيَدِي فَعَرَجَ إِلَى السَّمَاءِ الدُّنْيَا ‘‘ جب میں مکہ میں تھا تومیرے(گھرکی)چھت کھلی چنانچہ جبرئیل علیہ السلام نازل ہوئے ،انہوں نے میراسینہ چاک کیا اور اسے زمزم کے پانی سے دھویا،اس کے بعد ایک سونے کا طشت لائے جوحکمت اور ایمان سے بھراہواتھا،اسے انہوں نے میرے سینےمیں ڈال دیااور پھر سینہ بندکردیا،اب وہ مجھے ہاتھ سے پکڑکر آسمان دنیاکی طرف لے گئے۔ (بخاری:1636،349،مسلم:کتاب الایمان:237)


(20) اسراء ومعراج کے ذریعے آپ ﷺ کو فضیلت دی گئی:

ساتوں آسمانوں کی سیر،جنت وجہنم کا دیدار نیزسدرۃ المنتہی جوآخری حدہے اس کے اوپرکوئی فرشتہ نہیں جاسکتا،فرشتے بھی اللہ کے تمام احکام یہیں سے وصول کرتے ہیں،اس سے بھی آگے جہاں تک کوئی پہنچ نہیں سکتا ،جہاں تک اللہ کو منظورتھا وہاں تک اللہ نے آپ ﷺ کو حالت بیداری میں جسمانی سیرکرایا۔کسی شاعر نے کیا ہی خوب کہا ہے:

سدرۃ المنتہی پر جو پہونچے نبی سرجھکاکریہ جبرئیل کہنے لگے

یا حبیب خدااب سواآپ کے اس سے آگے جو جائے گاجل جائے گا​

فرمان باری تعالی ہے:’’ سُبْحَانَ الَّذِي أَسْرَى بِعَبْدِهِ لَيْلًا مِنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ إِلَى الْمَسْجِدِ الْأَقْصَى الَّذِي بَارَكْنَا حَوْلَهُ لِنُرِيَهُ مِنْ آيَاتِنَا إِنَّهُ هُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ‘‘پاک ہے وہ اللہ تعالی جو اپنے بندے کورات ہی رات میں مسجد حرام سے مسجد اقصی تک لے گیا جس کے آس پاس ہم نے برکت دے رکھی ہے، اس لئےکہ ہم اسے اپنی قدرت کے بعض نمونے دکھائیں،یقینا اللہ تعالی ہی خوب سننے دیکھنے والاہے۔(الاسراء:1)

(21) مسجد اقصی میں تمام انبیاؤں کاامام بناکرآپ کو فضیلت دی گئی:

اس بات پر تمام امت کا اجماع ہے کہ آپ ﷺ نے مسجد اقصی میں اول تا عیسی علیہ الصلاۃ والسلام تک تمام نبیوں ورسولوں کی امامت کی،اور اس سے یہ بات ثابت کردی گئی کہ دنیا وآخرت میں آپﷺ سے افضل کوئی نہیں۔

(22) آپ ﷺکو جنت کی سیروتفریح کرائی گئ:

حضرت ابوذرؓ سے روایت ہے کہ آپﷺ نے فرمایا ’’۔۔۔۔ثُمَّ انْطَلَقَ بِي حَتَّى انْتَهَى بِي إِلَى سِدْرَةِ الْمُنْتَهَى وَغَشِيَهَا أَلْوَانٌ لَا أَدْرِي مَا هِيَ ثُمَّ أُدْخِلْتُ الْجَنَّةَ فَإِذَا فِيهَا حَبَايِلُ اللُّؤْلُؤِ وَإِذَا تُرَابُهَا الْمِسْكُ‘‘۔۔۔۔۔پھرجبرئیل مجھے سدرۃ المنتہی تک لے گئے جسے کئی طرح کے رنگوں نےڈھانک رکھاتھا،جن کے متعلق مجھے معلوم نہیں ہوا کہ وہ کیا ہے،اس کے بعد مجھے جنت میں لے جایاگیا،میں نے دیکھا کہ اس میں موتیوں کے ہارہیں اور اس کی مٹی مشک کی ہے۔ (بخاری:349،مسلم:415)

(23) قرآن مجید جیسی مقدس کتاب عطاکرکے آپ کو فضیلت دی گئی:

حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ آپﷺ نے فرمایا ’’ مَا مِنْ الْأَنْبِيَاءِ نَبِيٌّ إِلَّا أُعْطِيَ مَا مِثْلهُ آمَنَ عَلَيْهِ الْبَشَرُ وَإِنَّمَا كَانَ الَّذِي أُوتِيتُ وَحْيًا أَوْحَاهُ اللَّهُ إِلَيَّ فَأَرْجُو أَنْ أَكُونَ أَكْثَرَهُمْ تَابِعًا يَوْمَ الْقِيَامَةِ‘‘ تمام انبیاءکوایسے معجزات دئے گئے جنہیں دیکھ کر لوگ ایمان لائے لیکن جو معجزہ بذریعۂ وحی مجھے دیا گیا وہ قرآن ہے،پس مجھے امید ہے کہ قیامت کے دن سب سے زیادہ میری اتباع کرنے والے لوگ ہوں گے۔ (بخاری:کتاب فضائل القرآن:4598)

(24) آپ ﷺکے اوپر نازل کردہ کتاب کی حفاظت کا ذمہ لے کرآپﷺ کودنیائے کائنات میں فضیلت دی گئی:

فرمان باری تعالی ہے:’’ لا يَأْتِيهِ الْباطِلُ مِنْ بَيْنِ يَدَيْهِ وَلا مِنْ خَلْفِهِ تَنْزِيلٌ مِنْ حَكِيمٍ حَمِيدٍ ‘‘ جس کے پاس باطل پھٹک بھی نہیں سکتانہ اس کےآگے سے نہ اس کے پیچھے سے ،یہ ہے نازل کردہ حکمتوں والے خوبیوں والے اللہ کی طرف سے۔(فصلت:42)اسی طرح سے رب العالمین نے فرمایا کہ ’’ إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ‘‘ ہم نے ہی اس قرآن کو نازل فرمایاہے اورہم ہی اس کے محافظ ہیں۔(الحجر:9)

(25) مفصل سورتوں کے ساتھ آپﷺکو تمام آسمانی کتابوں پر فضیلت دی گئی:

سیدنا واثلہ بن الاسقعؓ بیان کرتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا ’’ أُعْطِيْتُ مَكَانَ التَّوْرَاةِ السَّبْعُ الطِّوَالُ وَ مَكَانَ الزَّبُوْرِ الْمِئِيْنُ وَ مَكَانَ الْإِنْجِيْلِ الْمَثَانِيْ وَ فُضِّلَتْ بِالْمُفَصَّلِ ‘‘ مجھے تورات کی جگہ طوال سبعہ(سورۃ البقرۃ ۔تا۔ سورۃ التوبۃ)اور زبور کی جگہ مئین(سورۃ یونس ۔تا۔سورۃ صافات)اورانجیل کی جگہ مثانی(سورۃ صافات ۔تا۔سورۃ حجرات)اورمفصل (سورۃ حجرات ۔تا۔سورۃ ناس)سورتوں کے ساتھ مجھے فضیلت دی گئی۔(الصحیحۃ للألبانیؒ:1480،صحیح الجامع للألبانی:1059)

(26) سورۃ بقرۃ کی آخری آیات عطاکرکے آپ کوفضیلت دی گئی:

حضرت حذیفہؓ بیان کرتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا ’’ أُعْطِيْتُ هٰذِهِ الْآيَاتِ مِنْ آخِرِ الْبَقَرَةِ مِنْ كَنْزِ تَحْتَ الْعَرْشِ لَمْ يُعْطَهَا نَبِيٌّ قَبْلِيْ وَ لَايُعْطٰى مِنْهُ أَحَدٌ بَعْدِيْ ‘‘ مجھے عرش کے نیچے ایک خزانے سے سورۃ بقرہ کی آخری آیات دی گئیں ،اس قسم کی آیات نہ مجھ سے قبل کسی نبی کو دی گئیں اور نہ میرے بعد کسی کو دی جائیں گی۔ (الصحیحۃللألبانیؒ:1482)

(27) ناسخ ومنسوخ کے ذریعے آپﷺکو فضیلت دی گئی:

ناسخ ومنسوخ کا معاملہ ایسا ہے کہ پچھلی کسی بھی کتابوں کے اندر ایسانہیں تھا یہ صرف آپ کے ساتھ خاص ہے،یہی وجہ ہے کہ یہودیوں نے اس کا انکار کیا کیونکہ آپﷺ سے پہلے جتنی بھی کتابیں نازل کی گئیں وہ سب کے سب ایک ہی دفعہ میں نازل کی گئیں مگر آپﷺ پر جو کتاب نازل کی گئی اس کا معاملہ ہی کچھ الگ ہے اور یہ آپ کی فضیلت وعظمت شان کی واضح دلیل ہے جیسا کہ فرمان باری تعالی ہے:’’مَا نَنْسَخْ مِنْ آيَةٍ أَوْ نُنْسِهَا نَأْتِ بِخَيْرٍ مِنْهَا أَوْ مِثْلِهَا ‘‘ جس آیت کو ہم منسوخ کردیں یابھلادیں اس سے بہتریااس جیسی اور لاتے ہیں۔ (البقرۃ:106)





(28) رب العالمین نےآپﷺ کو آپ کے صفتوں سے پکارا:

یہ فضیلت بھی صرف آپ ﷺکوہی حاصل ہے کہ اللہ نے آپ کو یامحمد کے نام سے کہیں نہیں ملقب کیا جبکہ قرآن مجید کے اندر اللہ نے جگہ جگہ پر دوسرے نبیوں ورسولوں کو ان کے نام سے پکارا مثلا اللہ نے آدم علیہ الصلاۃ والسلام کو حکم دیا کہ’’ يَاآدَمُ اسْكُنْ أَنْتَ وَزَوْجُكَ الْجَنَّةَ ‘‘اے آدم!تم اور تمہاری بیوی جنت میں رہو(البقرۃ:35)،اسی طرح اللہ نے نوح علیہ الصلاۃ والسلام کو حکم دیا کہ ’’ يا نُوحُ اهْبِطْ بِسَلامٍ مِنَّا وَبَرَكاتٍ عَلَيْكَ ‘‘اے نوح!ہماری جانب سے سلامتی اور ان برکتوں کے ساتھ اتر،جو تجھ پر ہیں(ھود:48)،اسی طرح رب العالمین نے ابراہیم علیہ الصلاۃ والسلام سے کہا ’’وَنادَيْناهُ أَنْ يا إِبْراهِيمُ قَدْ صَدَّقْتَ الرُّؤْيا إِنَّا كَذلِكَ نَجْزِي الْمُحْسِنِينَ ‘‘ تو ہم نے آوازدی کہ اے ابراہیم!یقیناتونے اپنے خواب کوسچاکردکھایا،بے شک ہم نیکی کرنے والوں کو اسی طرح جزادیتے ہیں۔(الصفات:104-105)اسی طرح اللہ تعالی نے موسی سے کہا کہ’’ يَا مُوسى إِنِّي أَنَا اللَّهُ رَبُّ الْعالَمِينَ ‘‘اے موسی!یقینامیں ہی اللہ ہوں سارے جہانوں کا پروردگار(القصص:30)وغیرہ،مگراللہ نے آپ کو’’ یاأیھاالنبی، یاأیھاالرسول، یاأیھاالمدثر، یاأیھاالمزمل ‘‘ وغیرہ سے ملقب کیا۔

(29) عام انسانوں کی طرح آپ کو بلانے یاپکارنے کی اللہ نے امت مسلمہ کو اجازت نہیں دی:

یہ چیز آپﷺ کے لئے بہت بڑی فضیلت والی بات ہے کہ جس طرح پچھلی امت کے لوگ اپنے اپنے نبیوں اور رسولوں کو ان کے نام سے پکار اکرتے تھے مثلا موسی علیہ الصلاۃ والسلام کی قوم نے کہا ’’ يامُوسَى اِجْعَلْ لَنا إِلهاً كَما لَهُمْ آلِهَةٌ ‘‘ اے موسی!ہمارے لئے بھی ایک معبودایساہی مقررکردیجئے!(الاعراف:138)،اسی طرح عیسی علیہ الصلاۃ والسلام کی قوم نے کہا ’’ يَاعِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ هَلْ يَسْتَطِيعُ رَبُّكَ أَنْ يُنَزِّلَ عَلَيْنَا مَائِدَةً مِنَ السَّمَاءِ ‘‘ اے عیسی بن مریم کیاآپ کا رب ایسا کرسکتاہے کہ ہم پر آسمان سے ایک دسترخوان نازل فرمادے (المائدہ:112) اس طرح کے الفاظ استعمال کرنے سےرب العالمین نے امت مسلمہ کو روک دیااور کہاکہ تم محمدﷺ کو اس طرح سے نہ بلاؤ جیسے آپس میں ایک دوسرے کو بلاتے ہو!کیونکہ ان کا مقام ومرتبہ بہت ہی اعلی وارفع ہےلہذا تم انہیں ان کے صفات مثلارسول اللہ،نبی اللہ اس طرح کے الفاظ استعمال کروچنانچہ فرمان باری تعالی ہے:’’ لا تَجْعَلُوا دُعاءَ الرَّسُولِ بَيْنَكُمْ كَدُعاءِ بَعْضِكُمْ بَعْضاً ‘‘ تم اللہ تعالی کے نبی کے بلانے کو ایسابلاوا نہ کرلو جیساکہ آپس میں ایک دوسرے کو ہوتاہے۔(النور:63)

(30) جمعہ کا دن عطا کرکے آپ ﷺ کو فضیلت دی گئی:

سیدنا حذیفہؓ بیان کرتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا:’’ أَضَلَّ اللَّهُ عَنْ الْجُمُعَةِ مَنْ كَانَ قَبْلَنَا فَكَانَ لِلْيَهُودِ يَوْمُ السَّبْتِ وَكَانَ لِلنَّصَارَى يَوْمُ الْأَحَدِ فَجَاءَ اللَّهُ بِنَا فَهَدَانَا اللَّهُ لِيَوْمِ الْجُمُعَةِ فَجَعَلَ الْجُمُعَةَ وَالسَّبْتَ وَالْأَحَدَ وَكَذَلِكَ هُمْ تَبَعٌ لَنَا يَوْمَ الْقِيَامَةِ نَحْنُ الْآخِرُونَ مِنْ أَهْلِ الدُّنْيَا وَالْأَوَّلُونَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ الْمَقْضِيُّ لَهُمْ قَبْلَ الْخَلَائِقِ‘‘ اللہ نے ہم سے پہلے لوگوں کو جمعہ سے محروم رکھا،چنانچہ یہودیوں کے لئے ہفتہ اورنصاری کے لئے اتوار کادن تھا،پھر اللہ تعالی نے ہمیں لایااور اس نے ہماری رہنمائی جمعہ کے دن کی طرف کی،پس اللہ نے پہلے جمعہ پھر ہفتہ اور پھر اس کے بعداتوار کے دن کو رکھااور اسی طرح وہ لوگ ہم سے قیامت کے دن پیچھے ہی ہوں گے،ہم دنیا میں تو آخرمیں آئے لیکن قیامت کے دن ہم پہلے ہوں گے،اور تمام امتوں میں سب سے پہلے ہمارے درمیان فیصلہ کیا جائے گا۔ (مسلم:856،بخاری:3486)

(31) زمین کے خزانے کی کنجیاں عطا کی گئی:

(32) آپ ﷺ کا نام احمد رکھا گیا:

(33) مٹی کو پاک کرنے والا بنایا گیا:

(34) آپ ﷺ کی امت کو سب سے افضل امت قرار دیا گیا:

سیدناعلی بیان کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا کہ’’ أُعْطِيْتُ مَا لَمْ يُعْطَ أَحَدٌ مِنَ الْأَنْبِيَاءِ ‘‘ مجھے ایسی چیزیں عطاکی گئیں جو کسی نبی کو نہیں دی گئیں! ہم نے کہا کہ اے اللہ کے نبی ﷺ وہ کون سی چیزیں ہیں؟ توآپ ﷺ نے فرمایا کہ’’نُصِرْتُ بِالرُّعْبِ، وَأُعْطِيْتُ مَفَاتِيْحَ الْأَرْضِ، وَسُمِّيْتُ أَحْمَدَ، وَجُعِلَ التُّرَابُ لِيْ طَهُوْراً، وَجُعِلَتْ أُمَّتِيْ خَيْرَ الْأُمَمِ‘‘ لوگوں پرمیرارعب ڈال کرمیری مدد کی گئی،اور مجھے زمین کے خزانے کی کنجیاں عطاکی گئیں،میرانام احمد رکھاگیا،مٹی کو میرے لئے پاک کرنے والا بنایاگیا اور میری امت کو بہترین امت قراردیاگیا۔(ألصحیحۃ للألبانیؒ:3939)

(35) آپ ﷺ کو جوامع الکلم سے نوازاگیا:

(36) رعب کے ذریعے آپ ﷺ کی مدد کی گئ:

(37) مال غنیمت کو حلال کیاگیا:

سیدناابوہریرۃ سے روایت ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا کہ ’’ فُضِّلْتُ عَلَى الْأَنْبِيَاءِ بِسِتٍّ أُعْطِيتُ جَوَامِعَ الْكَلِمِ وَنُصِرْتُ بِالرُّعْبِ وَأُحِلَّتْ لِيَ الْغَنَائِمُ وَجُعِلَتْ لِيَ الْأَرْضُ طَهُورًا وَمَسْجِدًا وَأُرْسِلْتُ إِلَى الْخَلْقِ كَافَّةً وَخُتِمَ بِيَ النَّبِيُّونَ‘‘ مجھے چھ چیزوں کے ساتھ دوسرے تمام انبیاء پر فضیلت دی گئی (کیونکہ انہیں یہ چیزیں نہیں عطاکی گئیں)(1)مجھے جوامع الکلم (یعنی ایساکلام مجھے دیاگیا جس میں الفاظ تو کم ہوتے ہیں مگر معانی بہت زیادہ ہوتے ہیں)(2) دشمن (ایک ماہ کی مسافت کی دوری )پررعب کے ساتھ میری مدد کی گئی(3) میرے لئے مال غنیمت حلال کیا گیاہے(4) زمین کو میرے لئے طاہراور مسجد بنائی گئ (5) مجھے ساری مخلوق کی طرف رسول بناکر مبعوث کیا گیا(6) نبوت کا سلسلہ مجھ پر ختم کیا گیا۔(مسلم:523،521،بخاری:438)

(38) آپ کے اعزاز وتکریم ہی میں تمام ازواج مطہرات رضی اللہ عنھن کو ماں کا درجہ دیا گیا:

فرمان باری تعالی ہے:’’ ألنَّبِيُّ أَوْلى بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنْفُسِهِمْ وَأَزْواجُهُ أُمَّهاتُهُمْ ‘‘ نبی ﷺ مومنوں پر خود ان سے بھی زیادہ حق رکھنے والے ہیں اور نبی ﷺ کی بیویاں مومنوں(مردوعورت)کی مائیں ہیں۔(الاحزاب:6)

(39) فرشتوں کے روبرو اللہ رب العالمین کا آپﷺ کی تعریف کرنا:

(40) نورانی مخلوق کا آپﷺ کےلئےرفع درجات کی دعا کرنا:

اس عالم میں آپﷺ ہی کی ذات واحد ایک ایسی شخصیت ہے جن کے لئے فرشتے ہرآن،ہرلمحہ بلندیٔ درجات کی دعاکرتے رہتے ہیں اور رب العالمین بھی ان نورانی مخلوق کے سامنے میں آپﷺ کی تعریف کرتاہے اوررحمتیں بھیجتا ہے ،جیسا کہ فرمان باری تعالی ہے:’’ إِنَّ اللَّهَ وَمَلائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ يا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيماً ‘‘ اللہ تعالی اور اس کے فرشتے اس نبی پر رحمت بھیجتے ہیں اے ایمان والو!تم بھی ان پردرود بھیجواور خوب سلام بھی بھیجتے رہاکرو۔ (الاحزاب:56)

ذراغورکریں ! اللہ رب العالمین نے اس آیت کریمہ کولفظ ’’اِنَّ‘‘ کے ساتھ شروع کیا ہے،جونہایت ہی تاکید کے لئے استعمال کیا جاتاہے،پھر مزید مضارع کے صیغے’’یُصَلُّوْنَ ‘‘سے ذکرفرماکراس بات کے استمراراور دوام کی دلیل دی کہ آپ کے اوپر رب کی رحمتوں کا نزول اور فرشتوں کا آپﷺکے لئے طلب مغفرت اور رفع درجات کی دعاکرنا ایک بارنہیں بلکہ شب وروز کے ہرآن ،ہرلمحے اور ہرساعت کےساتھ ہوتارہتاہے،یقینااس کائنات میں اول تاآخریہ مقام ومرتبہ پانے والے ماسواآپ کے اور کوئی نہیں ،اور نہ ہی آپ سے پہلے کسی پیغمبر ورسل کو یہ مقام ومرتبہ حاصل ہوا،اس اعتبار سے نبیﷺ کا یہ شرف ابوالآباء آدم علیہ الصلاۃ والسلام کے مسجودِ ملائکہ ہونےسے بھی بڑھ کرہے کیونکہ نبیﷺ کے اس اعزاز اواکرام میں اللہ تعالی خودبھی شامل ہے جب کہ آدم علیہ الصلاۃ والسلام کے اعزازمیں صرف فرشتے ہی شامل ہوئے تھے اور وہ بھی صرف ایک مرتبہ شامل ہوئے جب کہ یہاں پر دوام واستمرار ہے،کسی شاعر نے کیا ہی خوب کہا ہے:

یُصَلِّیْ عَلَیْہِ اللہُ جَلَّ جَلَالُہُ

بِھٰذَا بَدَا لِلْعَالَمِیْنَ کَمَالُہُ​

(ترجمہ)اللہ جل جلالہ بھی نبیﷺ پر درود بھیجتاہے اور یہ بات تمام جہانوں کے لئے نبیﷺکے شرف وکمال کی عمدہ دلیل ہے۔

(41) درود کے ذریعے آپ ﷺ کو فضیلت دی گئی:

اس کائنات رنگ وبو میں آپ ﷺ کے علاوہ کوئی ایسی شخصیت نہیں جس کا صرف ایک بار نام لینے سے اللہ دس گناہ معاف کرکےدس نیکیاں نامۂ اعمال میں لکھ دیتاہے اور دس رحمتیں نازل فرماتاہےنیز ساتھ ہی جنت میں دس درجات بھی بلند فرمادیتاہےجیسا کہ انس بن مالک ؓ بیان کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا کہ’’ مَنْ صَلَّى عَلَيَّ صَلَاةً وَاحِدَةً صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ عَشْرَ صَلَوَاتٍ وَحُطَّتْ عَنْهُ عَشْرُ خَطِيئَاتٍ وَرُفِعَتْ لَهُ عَشْرُ دَرَجَاتٍ‘‘ جو شخص مجھ پر ایک دفعہ درود پڑھے گا تو اللہ تعالی اس پر دس رحمتیں نازل فرمائے گا اوراس کی دس غلطیاں معاف کردی جائیں گی اور اس کے دس درجے بلندکئے جائیں گے۔(صحیح النسائی للألبانیؒ:1297،المشکاۃ:902)

(42) سلام کے ذریعے آپﷺ کو فضیلت عطاکی گئی:

اس عالم میں ایساکوئی بشر نہیں جس کے اوپرایک بارسلام بھیجنے سے اللہ اس کے اوپردس بارسلام بھیجے،جیسا کہ ابوطلحہؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک دن آپﷺ اس حال میں تشریف لائے کہ آپ ﷺ کا چہرۂ مبارک سے خوشی کے آثارظاہرہو رہے تھےتوہم نے کہا کہ اے اللہ کے نبی ﷺ ہم آپ کے چہرۂ مبارک پر خوشی ومسرت کے آثار دیکھ رہے ہیں توآپ ﷺ نے فرمایا کہ میرے پاس جبرئیل علیہ السلام آئے اوربشارت دی کہ اللہ تعالی نے کہا ہے کہ ’’ أَنْ لَا يُصَلِّيَ عَلَيْكَ أَحَدٌ مِنْ أُمَّتِكَ إِلَّا صَلَّيْتُ عَلَيْهِ عَشْرًا وَلَا يُسَلِّمَ عَلَيْكَ أَحَدٌ مِنْ أُمَّتِكَ إِلَّا سَلَّمْتُ عَلَيْهِ عَشْرًا ‘‘ کیاآپ کے لئے یہ بات باعث خوشی نہیں کہ آپﷺ کا جو امتی ایک مرتبہ درودبھیجے گا میں اس پر دس رحمتیں نازل کروں اور جو امتی ایک مرتبہ آپﷺ پرسلام بھیجے میں اس پر دس مرتبہ سلام نازل کروں۔ (صحیح النسائ للألبانی:1216،الصحیحۃ للألبانی:829)

(43) آپﷺ تک درود وسلام پہونچانے کے لئے فرشتے مقررکئے گئے ہیں:

یہ بات امرمسلم ہے کہ تمام انبیاؤں پر درود وسلام بھیجاجاتاہے اوریہ آپﷺ کا حکم بھی ہے کہ ہم تمام انبیاؤں پر درودوسلام بھیجاکریں کیونکہ انہیں بھی مبعوث کیا گیا ہے(الصحیحۃ للألبانی:2963) مگر اس کائنات میں تمام انبیاؤں کے درمیان صرف اور صرف آپﷺ ہی کو یہ اعلی وارفع مقام حاصل ہے کہ آپ تک درود پہنچانے کے لئے فرشتے مقررکئے گئے ہیں !اور وہ زمین میں ہروقت گھومتے پھرتے رہتے ہیں جیسا کہ اللہ کے نبی اکرم ﷺ نے خودبیان فرمایا ہے کہ’’ إِنَّ لِلَّهِ مَلَائِكَةً سَيَّاحِينَ فِي الْأَرْضِ يُبَلِّغُونِي مِنْ أُمَّتِي السَّلَامَ ‘‘ اللہ تعالی کے بعض فرشتے زمین میں گھومتے پھرتے رہتے ہیں ،وہ مجھے میری امت کے افراد کا سلام پہنچاتے رہتے ہیں۔(الصحیحۃ للألبانی:2853،صحیح النسائی للألبانی:1282)

(44) آپﷺ کے قبرشریف پر فرشتے کا مقررکیا جانا:

یہ بات بھی آپ کے شرف وفضیلت کو ثابت کرتی ہے کہ آپﷺ کے قبرکے پاس بھی فرشتوں کو مقررکیا گیا ہے جو آپ تک آپ کے امتیوں کا درودوسلام پہونچاتے رہتے ہیں جیساکہ فرمان نبوی ﷺ’’ أَكْثِرُوْا الصَّلَاةَ عَلَيَّ فَإِنَّ اللهَ وَكَّلَ بِيْ مَلَكًا عِنْدَ قَبْرِيْ فَإِذَا صَلَّ عَلَيَّ رَجُلٌ مِنْ أُمَّتِيْ قَالَ لِيْ ذٰلِكَ الْمَلَكُ يَا مُحَمَّدُ إِنَّ فُلَانَ بَنْ فُلَانٍ صَلَّى عَلَيْكَ السَّاعَةَ ‘‘ مجھ پر کثرت سے درود بھیجاکرو،کیونکہ اللہ تعالی نے میری قبرکےپاس ایک فرشتہ مقررکیا ہے(جومیرے امتی کا درود مجھ تک پہونچاتارہے گا)جب کبھی میراامتی مجھ پر درود بھیجتاہے تو وہ فرشتہ مجھے کہتا ہے کہ اے محمدﷺ فلاں بن فلاں (یعنی فرشتہ اس انسان کا نام لے کرکہتاہے کہ)نے آپ پرابھی ابھی درودبھیجاہے۔(الصحیحۃ للألبانی:1530)

(45) اس دنیا میں سب سے زیادہ آپ ﷺ کی تصدیق کی گئی:

انس بن مالک بیان کرتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایاکہ’’ مَا صُدِّقَ نبيٌّ(مِنَ الْأَنْبِیَاءِ)مَا صُدِّقْتُ إِنَّ مِنَ الْأَنْبِيَاءِ مَنْ لَمْ يُصَدِّقْهُ مِنْ أُمَّتِهِ إِلَّا رَجُلٌ وَاحِدٌ ‘‘ انبیاؤں میں سے جس قدر کثیرتعدادمیں لوگوں نے میری تصدیق کی ،اتنی تصدیق کسی کی نہیں کی گئی،بلکہ بعض انبیاء تو ایسے بھی گذرے ہیں کہ ان کی امتوں میں سے صرف ایک فرد نے ہی ان کی تصدیق کی تھی۔(الصحیحۃ للألبانی:397)

(46) مبعوث کئے جانے سے پہلے پتھروں کا آپﷺ کو سلام کرنا:

سیدنا جابربن سمرہؓ بیان کرتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا:’’ إِنِّي لَأَعْرِفُ حَجَرًا بِمَكَّةَ كَانَ يُسَلِّمُ عَلَيَّ قَبْلَ أَنْ أُبْعَثَ إِنِّي لَأَعْرِفُهُ الْآنَ ‘‘ میں آج بھی اس پتھرکوپہچانتاہوں جو مکہ میں مجھے مبعوث کئے جانے سے پہلے سلام کیا کرتاتھا۔(مسلم:2277)امام عزبن عبدالسلامؒ فرماتے ہیں کہ ’’ ولم یثبت لو احد من الانبیاء مثل ذلک ‘‘ پتھروں کا اس طرح سلام کرناکسی بھی نبیوں اور رسولوں سے ثابت نہیں ہے۔

(47) صرف آپﷺ کےلئے تحویل قبلہ:

اس کائنات میں صرف آپ ﷺ ہی کی ایک ایسی مبارک ذات ہے جن کے لئے اللہ تعالی نے بیت المقدس کے بجائے کعبہ کا قبلہ قراردیا،فرمان باری تعالی ہے:’’ سَيَقُولُ السُّفَهَاءُ مِنَ النَّاسِ مَا وَلَّاهُمْ عَنْ قِبْلَتِهِمُ الَّتِي كَانُوا عَلَيْهَا قُلْ لِلَّهِ الْمَشْرِقُ وَالْمَغْرِبُ يَهْدِي مَنْ يَشَاءُ إِلَى صِرَاطٍ مُسْتَقِيمٍ ‘‘ عنقریب نادان لوگ کہیں گے کہ جس قبلہ پر یہ تھے اس سے انہیں کس چیز نے ہٹایا؟آپ کہہ دیجئے کہ مشرق ومغرب کا مالک اللہ ہی ہے وہ جسے چاہے سیدھی راہ کی ہدایت کردے۔(البقرۃ:142)

(48) حرم کو صرف اور صرف آپﷺ کے لئے حلال کیا گیا:

عبداللہ بن عباسؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی ﷺنے فتح مکہ کے دن فرمایاکہ ’’ فَإِنَّ هَذَا بَلَدٌ حَرَّمَ اللَّهُ يَوْمَ خَلَقَ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضَ وَهُوَ حَرَامٌ بِحُرْمَةِ اللَّهِ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ وَإِنَّهُ لَمْ يَحِلَّ الْقِتَالُ فِيهِ لِأَحَدٍ قَبْلِي وَلَمْ يَحِلَّ لِي إِلَّا سَاعَةً مِنْ نَهَارٍ فَهُوَ حَرَامٌ بِحُرْمَةِ اللَّهِ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ ‘‘ بے شک اس شہرمکہ کو اللہ تعالی نے اسی دن حرمت عطا کی تھی جس دن اس نے آسمان وزمین پیداکئے،اس لئے یہ اللہ کی مقررکی ہوئی حرمت کی وجہ سے محترم ہے یہاں کسی کے لئے بھی مجھ سے پہلے لڑائی جائز نہیں تھی اور مجھے بھی صرف ایک دن گھڑی بھرکے لئے اجازت ملی،اب ہمیشہ یہ شہراللہ کے قائم کی ہوئی حرمت کی وجہ سے قیامت تک کے لئے حرمت والاہے ۔ (بخاری:1834)

(49) آپﷺ کے شہرمدینہ میں دجال داخل نہیں ہوسکتا:

آپ ﷺ کے شہرکو دجال کے فتنے سے محفوظ رکھ دیاگیا ہے،جیسا کہ ابوبکرہ بیان کرتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایاکہ ’’ لَا يَدْخُلُ الْمَدِينَةَ رُعْبُ الْمَسِيحِ الدَّجَّالِ لَهَا يَوْمَئِذٍ سَبْعَةُ أَبْوَابٍ عَلَى كُلِّ بَابٍ مَلَكَانِ‘‘مسیح الدجال کا ڈروخوف مدینہ منورہ میں داخل نہیں ہوگا،اس دن اس کے سات دروازے ہوں گے اور ہردروازے پر دوفرشتے نگرانی کررہے ہوں گے۔(بخاری:1879)

(50) آپﷺ کے شہرمیں طاعون کی بیماری نہیں آسکتی:

آپ ﷺ کا شہر ہی ایک ایسا شہر ہے جس میں طاعون جیسی مہلک بیماری داخل نہیں ہوسکتی جیسا کہ فرمان نبوی ﷺ ہے:’’ لَا يَدْخُلُ الْمَدِينَةَ المَسِيحُ وَلَا الطَّاعُونُ ‘‘ مدینہ میں دجال اور طاعون داخل نہیں ہوسکتے۔(بخاری:5731)

(51) آپ ﷺ کے شہرمیں بدعت ایجادکرنے والوں کا انجام:

مدینۃ الرسول کو وہ مقام حاصل ہے کہ اگر کوئی یہاں (مدینہ)کے اندرکسی بدعتی کو پناہ دے گایا کسی بدعت کو ایجاد کرے گا تو کائنات کے تمام لوگوں کی اس کے اوپرلعنت ہوگی اور قیامت کے دن وہ ذلیل ورسواہوکر خائب وخاسر ہوگا،جیسا کہ انس بن مالک بیان کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا کہ’’ مَنْ أَحْدَثَ فِيهَا حَدَثًا فَعَلَيْهِ لَعْنَةُ اللَّهِ وَالْمَلَائِكَةِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ لَا يَقْبَلُ اللَّهُ مِنْهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ صَرْفًا وَلَا عَدْلًا ‘‘ جوبھی شخص مدینہ منورہ کے اندر کوئی بدعت ایجادکرے گا(یاکسی بدعتی کو پناہ دے گا)تواس انسان پر اللہ کی ،تمام فرشتوں کی اور تمام لوگوں کی لعنت ہوگی نیزبروزقیامت اللہ اس کے نہ توکوئی فرضی عبادت قبول فرمائے گا اور نہ ہی کوئی نفلی عبادت۔ (مسلم:1366،بخاری:1867)

(52) آپﷺ کی ایک جگہ جنت کا ایک حصہ ہے:

حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ آپﷺ نے فرمایا: ’’ مَا بَيْنَ بَيْتِي وَمِنْبَرِي رَوْضَةٌ مِنْ رِيَاضِ الْجَنَّةِ وَمِنْبَرِي عَلَى حَوْضِي ‘‘ میرے گھراور میرے منبرکے درمیان کی جگہ جنت کے باغوں میں سے ایک باغ ہےاورمیرامنبرقیامت کے دن میرے حوض پرہوگا۔(بخاری:1196)

(53) آپﷺکےبدن مبارک سے مشک سے بھی زیادہ عمدہ خوشبو آتی تھی:

آپ ﷺ کو یہ اعجازواکرام حاصل ہے کہ آپﷺ کے جسم مبارک سے مشک سے بھی زیادہ عمدہ خوشبو پھوٹتی تھی جیساکہ خادم رسولﷺانس بن مالک کہتے ہیں کہ:’’ مَا شَمَمْتُ عَنْبَرًا قَطُّ وَلَا مِسْكًا وَلَا شَيْئًا أَطْيَبَ مِنْ رِيحِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ‘‘ میں نے نبی کریم ﷺکے جسم مبارک سے اچھی اور عمدہ خوشبونہ عنبرمیں محسوس کی ،نہ مشک میں اور نہ ہی کسی دوسری چیزمیں۔(مسلم:2330)اسی طرح ابوجُحَیْفَہؓ بیان کرتے ہیں کہ:’’ فَأَخَذْتُ بِيَدِهِ فَوَضَعْتُهَا عَلَى وَجْهِي فَإِذَا هِيَ أَبْرَدُ مِنْ الثَّلْجِ وَأَطْيَبُ رَائِحَةً مِنْ الْمِسْكِ‘‘ میں نے آپ ﷺ کا ہاتھ پکڑا اور اسے اپنے چہرے پررکھاتو آپﷺ کا ہاتھ برف سے زیادہ ٹھنڈاپایااور اس کی خوشبومشک سے بھی زیادہ عمدہ تھی۔(بخاری:3553)

(54) آپﷺ کاپسینہ کائنات کی سب سے عمدہ خوشبوتھا:

اس کائنات میں صرف آپﷺ کی ذات ہی وہ ذات ہے جس کے پسینے سے مشک کی خوشبوامنڈتی تھی جیسا کہ انس بن مالک بیان کرتے ہیں کہ ایک دن نبی کریم ﷺ ہمارے یہاں تشریف لائے اور آرام فرمانے لگے کہ آپ ﷺ کو پسینہ آگیا تو میری والدہ ایک شیشی میں آپ ﷺ کا پسینہ جمع کرنے لگیں جب ہی آپﷺ کی آنکھ کھل گئی تو آپ ﷺ نے پوچھا کہ اے ام سلیم یہ کیا کررہی ہو؟توام سلیم نے کہاکہ ’’ هَذَا عَرَقُكَ نَجْعَلُهُ فِي طِيبِنَا وَهُوَ مِنْ أَطْيَبِ الطِّيبِ ‘‘ آپ کا پسینہ جمع کررہی ہوں تاکہ ہم اسے اپنے خوشبوؤں میں شامل کرلیں کیونکہ آپﷺ کاپسینہ تو خوشبوؤں میں سب سے عمدہ خوشبوہے۔ (مسلم:2331)

(55) صرف آپﷺکودیکھنے کی فضیلت:

آپﷺ کی ذات اقدس ومقدس وہ ذات ہے جن کے بارے میں قرآن وحدیث کے اوراق شاہد ہیں کہ جنہوں نے بھی آپﷺ کو بحالت ایمان میں دیکھا اور اسی پر ان کی وفات ہوئی وہ تمام لوگ مغفورومرحوم ہیں ،رب العالمین ان سے راضی ہیں اور ان تمام کو حتمی طورپردنیاکے اندر ہی جنت کی بشارت دی گئی یہی نہیں بلکہ ان سب کوجہنم کی آگ تک نہیں چھوئے گی،جیسا کہ اللہ کے نبیﷺ نے خود بیان فرمایا کہ ’’ لَا تَمَسُّ النَّارُ مُسْلِمًا رَآنِي‘‘ جہنم کی آگ اس مسلمان کو نہیں چھو سکتی ہے جس نے مجھے دیکھاہو۔(صحیح الترمذی للألبانی:3858،المشکاۃ:6004)

(56) یہ آپﷺ کی فضیلت ہی تو ہے کہ آپ کی بددعائیں بھی فرزندان امت کے لئے باعث برکت ورحمت ہیں:

اماں عائشہ صدیقۂ کائنات کہتی ہیں کہ آپﷺ کے پاس دوآدمی آئے اور انہوں نے آپﷺ سے کچھ باتیں کی جو میں سمجھ نہ سکی،(ان دونوں کی باتوں کو سن کر)آپ ﷺ غصے میں آگئے اور آپ نے ان کوبرابھلا کہا ،جب وہ دونوں چلے گئے تو میں نے کہا کہ اے اللہ کے رسول ﷺ جو بھلائی ان ددبے چارو ں کو ملی ہے ،وہ تو کسی کے حق میں نہیں آئی ہوگی؟ آپﷺنےپوچھا کہ وہ کیسے؟میں نے کہا کہ آپ نے ان دونوں کو برابھلاکہا چنانچہ (اسی موقع سے )آپﷺ نے فرمایاکہ اے عائشہ!’’ أَوَ مَا عَلِمْتِ مَا شَارَطْتُ عَلَيْهِ رَبِّي قُلْتُ اللَّهُمَّ إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ فَأَيُّ الْمُسْلِمِينَ لَعَنْتُهُ أَوْ سَبَبْتُهُ فَاجْعَلْهُ لَهُ زَكَاةً وَأَجْرًا ‘‘ کیا تجھے اس شرط کا علم نہیں ،جو میں نے اپنے رب پر لگائی ہے؟(وہ یہ ہے کہ)میں نے کہا اے اللہ!میں انسان ہی تو ہوں لہذامیں جس مسلمان پر لعن طعن کروں یا اسے کچھ برابھلاکہوں تو تو اس چیز کو ان کے حق میں باعث تزکیہ اور باعث اجروثواب (والاعمل )بنادے۔(مسلم:6614،الصحیحۃ للألبانی:73)وفی روایۃ:’’ فَاجْعَلْهَا لَهُ زَكَاةً وَرَحْمَةً‘‘ اے اللہ تو اس کے لئے باعث تزکیہ اور باعث رحمت بنادے۔ (مسلم:6616،الصحیحۃ للألبانی:1758)وفی روایۃ: ’’ فَاجْعَلْهَا لَهُ كَفَّارَةً وَقُرْبَةً تُقَرِّبُهُ بِهَا إِلَيْكَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ ‘‘ اے اللہ تو اس کے لئے کفارۂ ذنوب بنادے اور تو اسے اپنے مقرب بندوں میں شامل کرلے۔(مسلم:6619)

(57) محمد نام کے ذریعے آپ کووہ فضیلت ملی جو کائنات میں کسی کو نہیں مل سکی اور نہ مل سکتی ہے:

محمد نام کے ذریعے آپﷺ کو وہ فضیلت عطا کی گئی جو اس کائنات میں کسی کو نہیں عطاکی گئی یہ ایک ایسا نام ہے جس کا معنی ہوتاہے وہ شخص جس کی بہت زیادہ تعریف کی جائے یا جس کی بہت زیادہ تعریف کی گئی ہو اب جو بھی بدبخت محمد(ﷺ) بول کربرائی کرے گا وہ جھوٹاہوگا، جیسے ہی کسی کافرومشرک نے لفظ محمدبول کر آپ کو برابھلاکہاتو گویاکہ اس نے اپنےمنہ پر خود تھوک لیا کیونکہ اس نے خودلفظ محمد بول کر یہ ثابت کردیا کہ وہ ایک ایسے انسان ہے جس کی تعریف بہت زیادہ کی گئی ہے اور کی جاتی ہے۔جیسا کہ آپ ﷺ نے فرمایاکہ ’’ أَلَا تَعْجَبُونَ كَيْفَ يَصْرِفُ اللَّهُ عَنِّي شَتْمَ قُرَيْشٍ وَلَعْنَهُمْ يَشْتِمُونَ مُذَمَّمًا وَيَلْعَنُونَ مُذَمَّمًا وَأَنَا مُحَمَّدٌ ‘‘ کیاتم لوگوں کو اس بات پر حیرت وتعجب نہیں کہ اللہ تعالی نے مجھ کو قریش مکہ کی گالیوں اور لعنتوں سے کس طرح محفوظ کررکھاہے؟وہ لوگ مذمم کو گالیاں دیتے اور لعنت وملامت کرتے ہیں جب کہ میں تو محمد ہوں۔ (بخاری:3269)

(58) اللہ نے نبیﷺ کی تکلیف کو اپنی تکلیف قراردے کرآپﷺکے شان وعظمت میں اضافہ کردیا:

قرآن مجید میں رب العالمین کا ارشادگرامی ہے ’’ إِنَّ الَّذِينَ يُؤْذُونَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ لَعَنَهُمُ اللَّهُ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ وَأَعَدَّ لَهُمْ عَذَابًا مُهِينًا ‘‘ جولوگ اللہ اور اس کے رسول کو ایذادیتے ہیں ان پردنیااورآخرت میں اللہ کی لعنت ہے اور ان کے لئے نہایت ہی رسواکن عذاب تیارہے۔(الاحزاب:57)امام عزالدین عبدالرزاق کہتے ہیں کہ’’ ان المعنی یؤذون نبی اللہ فجعل أذی نبیہ أذی لہ تشریفا لمنزلتہ‘‘ بلاشبہ اللہ تعالی کو تکلیف دینے کا معنی یہ ہے کہ وہ اللہ کے نبیﷺکو تکلیف دیتے ہیں تو اللہ تعالی نے نبیﷺ کی تکلیف کو اپنی تکلیف قراردے کر محمدﷺ کے مقام ومرتبہ اور شان وعظمت میں اورزیادہ اضافہ فرما دیا ہے۔(رموز الکنوزفی تفسیرکتاب العزیز:6/193بحوالہ شان مصطفی اور گستاخ رسول کی سزا:ص36)

(59) سب سےپہلے آپ کومقدم رکھ کراللہ نے آپ کو فضیلت بخشی:

قرآن مجید کے اندر اکثرمقامات پرجہاں بھی آپ کے ساتھ دیگرانبیاؤں کا ذکر آیاہے وہاں پر اللہ نے سب سے پہلے آپ کو مقدم کیا اور سب سے پہلے آپ سے خطاب کیا مثلاًفرمان باری تعالی ہے’’ إِنَّا أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ كَمَا أَوْحَيْنَا إِلَى نُوحٍ وَالنَّبِيِّينَ مِنْ بَعْدِهِ وَأَوْحَيْنَا إِلَى إِبْرَاهِيمَ وَإِسْمَاعِيلَ وَإِسْحَاقَ وَيَعْقُوبَ وَالْأَسْبَاطِ وَعِيسَى وَأَيُّوبَ وَيُونُسَ وَهَارُونَ وَسُلَيْمَانَ وَآتَيْنَا دَاوُودَ زَبُورًا ‘‘ یقیناہم نے آپ کی طرف اسی طرح وحی کی ہے جیسے کہ نوح اور ان کے بعد والے نبیوں کی طرف کی،اور ہم نے وحی کی ابراہیم اور اسماعیل اور اسحاق اور یعقوب اور ان کی اولاد پر اور عیسی اور ایوب اور یونس اور ہارون اور سلیمان کی طرف اور ہم نے داؤد کو زبور عطافرمائی۔(النساء:163)اسی طرح دوسری جگہ فرمان باری تعالی ہے’’ وَإِذْ أَخَذْنَا مِنَ النَّبِيِّينَ مِيثَاقَهُمْ وَمِنْكَ وَمِنْ نُوحٍ وَإِبْرَاهِيمَ وَمُوسَى وَعِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ وَأَخَذْنَا مِنْهُمْ مِيثَاقًا غَلِيظًا ‘‘جب کہ ہم نے تمام نبیوں سے عہد لیا اور( بالخصوص)آپ سے اور نوح سے اور ابراہیم سے اور موسی سے اور مریم کے بیٹے عیسی سے،اور ہم نے ان سے پختہ عہدلیا۔(الاحزاب:7)

مذکورہ بالا دونوں آیتوں کے اندر رب العالمین نے سب سے پہلے آپ کو مخاطب کیایہ آپ کی عظمت شان کی دلیل ہے۔

(60) آپﷺ کی وجہ سےآپ کی امت کو یہ فضیلت عطا کی گئی:

یہ آپﷺ کے لئے بہت ہی بڑی اعزازواکرام اور فضیلت والی چیز ہے کہ رب العالمین نے آپ کی امت کو کلی طورپر گمراہی سے بچالیا ہے ،جس طرح پچھلی امتیں کلی طورپر گمراہ ہوئی جیسے کہ یہود ونصاری اس طرح آپﷺ کی امت تاقیامت کبھی بھی گمراہ نہیں ہوسکتی جیسا کہ کعب بن عاصم اشعریؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے آپﷺ کو فرماتے ہوئے سنا کہ’’ إِنَّ اللهَ قَدْ أَجَارَ أُمَّتِيْ مِنْ أَنْ تَجْتَمِعَ عَلَى ضَلَالَةٍ ‘‘بےشک اللہ تعالی نے میری امت کو (کلی طورپر)ضلالت وگمراہی پر جمع ہونے سے محفوظ کرلیاہے۔(ألصحیحۃ للألبانی:1331)

(61) سیرت طیبہﷺکےتابندہ ٔنقوش کو تاقیامت محفوظ کرکے آپ کو فضیلت عطاکی گئی:

اس دنیامیں بےشمار انبیاء کرام مبعوث ہوئے ان میں سے کچھ کا ذکر ہی قرآن مقدس کے اندر موجود ہے ،جن جن انبیاء کرام کا ذکرقرآن میں بیان کیاگیا ہے ان میں سے کسی کی بھی مکمل سیرت نہ قرآن میں بیان کی گئی ہے اور نہ ہی دنیا کہ کسی مستندکتاب میں صحیح طور پر محفوظ ہے،مگر نبی اکرم ومکرم کی ذات وہ ذات ہے جن کی سیرت آج بھی موجود ہے اور تاقیامت موجود رہے گی،سیرت کی کتابوں کا مطالعہ کریں یا پھر احادیث کی ورق گرادنی کریں ہرجگہ پر آپ ﷺ کے پیدائش لے کر وفات تک ایک ایک لمحہ آپ کو بیان کیا ہوا ملے گا،چاہے وہ نبوت سے پہلے کے ادوار ہوں یا پھر بعد نبوت!ایسا انتظام وانصرام اس کائنات میں کسی کے ساتھ نہ ہوااور نہ ہو سکے گا۔


ابومعاویہ شارب بن شاکرالسلفی
 
Top