- شمولیت
- اپریل 27، 2013
- پیغامات
- 26,585
- ری ایکشن اسکور
- 6,762
- پوائنٹ
- 1,207
اللّٰھم أعز الاسلام بأحب الرجلین الیک؛ بعمر بن الخطاب أو بأبی جھل بن ھشام
''اے اللہ! عمر بن خطاب اور ابو جہل بن ہشام میں سے جو شخص تیرے نزدیک زیادہ محبوب ہے اس کے ذریعے سے اسلام کو قوت پہنچا۔''
(اللہ نے یہ دعا قبول فرمائی اور حضرت عمر ؓ مسلمان ہو گئے) اللہ کے نزدیک ان دونوں میں زیادہ محبوب حضرت عمرؓ تھے۔ (ترمذی ابواب المناقب! مناقب ابی حفص عمر بن الخطاب ۲/۲۰۹)
حضرت عمرؓ کے اسلام لانے سے متعلق جملہ روایات پر مجموعی نظر ڈالنے سے واضح ہوتا ہے کہ ان کے دل میں اسلام رفتہ رفتہ جاگزیں ہوا۔ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ان روایات کا خلاصہ پیش کرنے پہلے حضرت عمرؓ کے مزاج اور جذبات و احساسات کی طرف بھی مختصرا اشارہ کر دیا جائے۔
حضرت عمرؓ اپنی تند مزاجی اور سخت خوئی کے لیے مشہور تھے۔ مسلمانوں نے طویل عرصے تک ان کے ہاتھوں طرح طرح کی سختیاں جھیلی تھیں۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ان میں متضاد قسم کے جذبات باہم دست وگریباں تھے۔ چنانچہ ایک طرف تو وہ آباء و اجداد کی ایجاد کردہ رسموں کا بڑا احترام کرتے تھے اور بلا نوشی اور لہو لعب کے دلدادہ تھے لیکن دوسری طرف وہ ایمان و عقیدے کی راہ میں مسلمانوں کی پختگی اور مصائب کے سلسلے میں ان کی قوتِ برداشت کو خوشگوار حیرت و پسندیدگی کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔ پھر ان کے اندر کسی بھی عقلمند آدمی کی طرح شکوک و شبہات کا ایک سلسلہ تھا جو رہ رہ کر ابھرا کرتا تھا کہ اسلام جس بات کی دعوت دے رہا ہے غالباً وہی زیادہ برتر اور پاکیزہ ہے۔ اسی لیے ان کی کیفیت (دم میں ماشہ دم میں تولہ کی سی) تھی۔ کہ ابھی بھڑکے اور ابھی ڈھیلے پڑ گئے۔
حضرت عمرؓ کے اسلام لانے کے متعلق تمام روایات کا خلاصہ مع جمع و تطبیق یہ ہے کہ ایک رات انہیں گھر سے باہر رات گزارنی پڑی۔ وہ حرم تشریف لائے اور خانۂ کعبہ کے پردے میں گھس گئے۔ اس وقت نبی ﷺ نماز پڑھ رہے تھے اور سورۃ الحاقہ کی تلاوت فرما رہے تھے۔ حضرت عمرؓ قرآن سننے لگے اور اس کی تالیف پر حیرت زدہ رہ گئے۔ ان کا بیان ہے کہ میں نے...اپنے جی میں... کہا: اللہ کی قسم! یہ تو شاعر ہے جیسا کہ قریش کہتے ہیں، لیکن اتنے میں آپ نے یہ آیت تلاوت فرمائی:
إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ ﴿٤٠﴾ وَمَا هُوَ بِقَوْلِ شَاعِرٍ ۚ قَلِيلًا مَّا تُؤْمِنُونَ ﴿٤١﴾ (۶۹: ۴۰، ۴۱)
''یہ ایک بزرگ رسول کا قول ہے۔ یہ کسی شاعر کا قول نہیں ہے۔ تم لوگ کم ہی ایمان لاتے ہو۔''
حضرت عمرؓ کہتے ہیں میں نے ...اپنے جی میں ...کہا : (اوہو) یہ تو کاہن ہے لیکن اتنے میں آپ نے یہ آیت تلاوت فرمائی :
''اے اللہ! عمر بن خطاب اور ابو جہل بن ہشام میں سے جو شخص تیرے نزدیک زیادہ محبوب ہے اس کے ذریعے سے اسلام کو قوت پہنچا۔''
(اللہ نے یہ دعا قبول فرمائی اور حضرت عمر ؓ مسلمان ہو گئے) اللہ کے نزدیک ان دونوں میں زیادہ محبوب حضرت عمرؓ تھے۔ (ترمذی ابواب المناقب! مناقب ابی حفص عمر بن الخطاب ۲/۲۰۹)
حضرت عمرؓ کے اسلام لانے سے متعلق جملہ روایات پر مجموعی نظر ڈالنے سے واضح ہوتا ہے کہ ان کے دل میں اسلام رفتہ رفتہ جاگزیں ہوا۔ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ان روایات کا خلاصہ پیش کرنے پہلے حضرت عمرؓ کے مزاج اور جذبات و احساسات کی طرف بھی مختصرا اشارہ کر دیا جائے۔
حضرت عمرؓ اپنی تند مزاجی اور سخت خوئی کے لیے مشہور تھے۔ مسلمانوں نے طویل عرصے تک ان کے ہاتھوں طرح طرح کی سختیاں جھیلی تھیں۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ان میں متضاد قسم کے جذبات باہم دست وگریباں تھے۔ چنانچہ ایک طرف تو وہ آباء و اجداد کی ایجاد کردہ رسموں کا بڑا احترام کرتے تھے اور بلا نوشی اور لہو لعب کے دلدادہ تھے لیکن دوسری طرف وہ ایمان و عقیدے کی راہ میں مسلمانوں کی پختگی اور مصائب کے سلسلے میں ان کی قوتِ برداشت کو خوشگوار حیرت و پسندیدگی کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔ پھر ان کے اندر کسی بھی عقلمند آدمی کی طرح شکوک و شبہات کا ایک سلسلہ تھا جو رہ رہ کر ابھرا کرتا تھا کہ اسلام جس بات کی دعوت دے رہا ہے غالباً وہی زیادہ برتر اور پاکیزہ ہے۔ اسی لیے ان کی کیفیت (دم میں ماشہ دم میں تولہ کی سی) تھی۔ کہ ابھی بھڑکے اور ابھی ڈھیلے پڑ گئے۔
حضرت عمرؓ کے اسلام لانے کے متعلق تمام روایات کا خلاصہ مع جمع و تطبیق یہ ہے کہ ایک رات انہیں گھر سے باہر رات گزارنی پڑی۔ وہ حرم تشریف لائے اور خانۂ کعبہ کے پردے میں گھس گئے۔ اس وقت نبی ﷺ نماز پڑھ رہے تھے اور سورۃ الحاقہ کی تلاوت فرما رہے تھے۔ حضرت عمرؓ قرآن سننے لگے اور اس کی تالیف پر حیرت زدہ رہ گئے۔ ان کا بیان ہے کہ میں نے...اپنے جی میں... کہا: اللہ کی قسم! یہ تو شاعر ہے جیسا کہ قریش کہتے ہیں، لیکن اتنے میں آپ نے یہ آیت تلاوت فرمائی:
إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ ﴿٤٠﴾ وَمَا هُوَ بِقَوْلِ شَاعِرٍ ۚ قَلِيلًا مَّا تُؤْمِنُونَ ﴿٤١﴾ (۶۹: ۴۰، ۴۱)
''یہ ایک بزرگ رسول کا قول ہے۔ یہ کسی شاعر کا قول نہیں ہے۔ تم لوگ کم ہی ایمان لاتے ہو۔''
حضرت عمرؓ کہتے ہیں میں نے ...اپنے جی میں ...کہا : (اوہو) یہ تو کاہن ہے لیکن اتنے میں آپ نے یہ آیت تلاوت فرمائی :