• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

الرحیق المختوم دوسرا مرحلہ : کھلی تبلیغ

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
اللّٰھم أعز الاسلام بأحب الرجلین الیک؛ بعمر بن الخطاب أو بأبی جھل بن ھشام
''اے اللہ! عمر بن خطاب اور ابو جہل بن ہشام میں سے جو شخص تیرے نزدیک زیادہ محبوب ہے اس کے ذریعے سے اسلام کو قوت پہنچا۔''
(اللہ نے یہ دعا قبول فرمائی اور حضرت عمر ؓ مسلمان ہو گئے) اللہ کے نزدیک ان دونوں میں زیادہ محبوب حضرت عمرؓ تھے۔ (ترمذی ابواب المناقب! مناقب ابی حفص عمر بن الخطاب ۲/۲۰۹)
حضرت عمرؓ کے اسلام لانے سے متعلق جملہ روایات پر مجموعی نظر ڈالنے سے واضح ہوتا ہے کہ ان کے دل میں اسلام رفتہ رفتہ جاگزیں ہوا۔ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ان روایات کا خلاصہ پیش کرنے پہلے حضرت عمرؓ کے مزاج اور جذبات و احساسات کی طرف بھی مختصرا اشارہ کر دیا جائے۔
حضرت عمرؓ اپنی تند مزاجی اور سخت خوئی کے لیے مشہور تھے۔ مسلمانوں نے طویل عرصے تک ان کے ہاتھوں طرح طرح کی سختیاں جھیلی تھیں۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ان میں متضاد قسم کے جذبات باہم دست وگریباں تھے۔ چنانچہ ایک طرف تو وہ آباء و اجداد کی ایجاد کردہ رسموں کا بڑا احترام کرتے تھے اور بلا نوشی اور لہو لعب کے دلدادہ تھے لیکن دوسری طرف وہ ایمان و عقیدے کی راہ میں مسلمانوں کی پختگی اور مصائب کے سلسلے میں ان کی قوتِ برداشت کو خوشگوار حیرت و پسندیدگی کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔ پھر ان کے اندر کسی بھی عقلمند آدمی کی طرح شکوک و شبہات کا ایک سلسلہ تھا جو رہ رہ کر ابھرا کرتا تھا کہ اسلام جس بات کی دعوت دے رہا ہے غالباً وہی زیادہ برتر اور پاکیزہ ہے۔ اسی لیے ان کی کیفیت (دم میں ماشہ دم میں تولہ کی سی) تھی۔ کہ ابھی بھڑکے اور ابھی ڈھیلے پڑ گئے۔
حضرت عمرؓ کے اسلام لانے کے متعلق تمام روایات کا خلاصہ مع جمع و تطبیق یہ ہے کہ ایک رات انہیں گھر سے باہر رات گزارنی پڑی۔ وہ حرم تشریف لائے اور خانۂ کعبہ کے پردے میں گھس گئے۔ اس وقت نبی ﷺ نماز پڑھ رہے تھے اور سورۃ الحاقہ کی تلاوت فرما رہے تھے۔ حضرت عمرؓ قرآن سننے لگے اور اس کی تالیف پر حیرت زدہ رہ گئے۔ ان کا بیان ہے کہ میں نے...اپنے جی میں... کہا: اللہ کی قسم! یہ تو شاعر ہے جیسا کہ قریش کہتے ہیں، لیکن اتنے میں آپ نے یہ آیت تلاوت فرمائی:
إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ ﴿٤٠﴾ وَمَا هُوَ بِقَوْلِ شَاعِرٍ ۚ قَلِيلًا مَّا تُؤْمِنُونَ ﴿٤١﴾ (۶۹: ۴۰، ۴۱)
''یہ ایک بزرگ رسول کا قول ہے۔ یہ کسی شاعر کا قول نہیں ہے۔ تم لوگ کم ہی ایمان لاتے ہو۔''
حضرت عمرؓ کہتے ہیں میں نے ...اپنے جی میں ...کہا : (اوہو) یہ تو کاہن ہے لیکن اتنے میں آپ نے یہ آیت تلاوت فرمائی :
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
وَلَا بِقَوْلِ كَاهِنٍ ۚ قَلِيلًا مَّا تَذَكَّرُونَ ﴿٤٢﴾ تَنزِيلٌ مِّن رَّبِّ الْعَالَمِينَ ﴿٤٣﴾ (۶۹: ۴۲ تا۴۳)۔۔اخیر سورۃ تک
''یہ کسی کاہن کا قول بھی نہیں۔ تم لوگ کم ہی نصیحت قبول کرتے ہو۔ یہ اللہ رب العالمین کی طرف سے نازل کیا گیا ہے۔''
حضرت عمرؓ کا بیان ہے کہ اس وقت میرے دل میں اسلام جاگزیں ہو گیا۔ (تاریخ عمر بن خطاب لابن الجوزی ص ۶، ابن اسحاق نے عطاء اور مجاہد سے بھی تقریباً یہی بات نقل کی ہے۔ البتہ اس کا آخری ٹکڑا اس سے مختلف ہے۔ دیکھئے: سیرۃ ابن ہشام ۱/۳۴۶، ۳۴۸، اور خود ابن جوزی نے بھی حضرت جابرؓ سے اسی کے قریب قریب روایت نقل کی ہے۔ لیکن اس کا آخری حصہ بھی اس روایت سے مختلف ہے۔ دیکھئے: تاریخ عمر بن الخطاب ص ۹- ۱۰)
یہ پہلا موقع تھا کہ حضرت عمرؓ کے دل میں اسلام کا بیج پڑا، لیکن ابھی ان کے اندر جاہلی جذبات، تقلیدی عصبیت اور آباء و اجداد کے دین کی عظمت کے احساس کا چھلکا اتنا مضبوط تھا کہ نہاں خانہ دل کے اندر مچلنے والی حقیقت کے مغز پر غالب رہا۔ اس لیے وہ اس چھلکے کی تہہ میں چھپے ہوئے شعور کی پرواہ کیے بغیر اپنے اسلام دشمن عمل میں سرگرداں رہے۔
ان کی طبیعت کی سختی اور رسول اللہ ﷺ سے فرط عداوت کا یہ حال تھا کہ ایک روز خود جناب محمد رسول اللہ ﷺ کا کام تمام کرنے کی نیت سے تلوار لے کر نکل پڑے لیکن ابھی راستے ہی میں تھے کہ نعیم بن عبد اللہ النحام عدوی سے (یہ ابن اسحاق کی روایت ہے۔ دیکھئے: ابن ہشام ۱/۳۴۴) یا بنی زہرہ سے (یہ حضرت انسؓ سے مروی ہے۔ دیکھئے: تاریخ عمر بن الخطاب لابن الجوزی۔ص ۱۰) یا بنی مخزوم کے کسی آدمی سے ملاقات ہو گئی۔ (یہ ابن عباسؓ سے مروی ہے۔ دیکھئے: مختصر السیرۃ ایضا ص ۱۰۲) اس نے تیور دیکھ کر پوچھا: عمر! کہاں کا ارادہ ہے؟ انہوں نے کہا: محمد کو قتل کرنے جا رہا ہوں۔ اس نے کہا: محمد کو قتل کر کے بنو ہاشم اور بنو زہرہ سے کیسے بچ سکو گے؟ حضرت عمرؓ نے کہا: معلوم ہوتا ہے تم بھی اپنا پچھلا دین چھوڑ کر بے دین ہو چکے ہو۔ اس نے کہا: عمر! ایک عجیب بات نہ بتا دوں؟ تمہاری بہن اور بہنوئی بھی تمہارا دین چھوڑ کر بے دین ہو چکے ہیں۔ یہ سن کے عمر غصے سے بے قابو ہو گئے اور سیدھے بہن بہنوئی کا رخ کیا۔ وہاں انہیں حضرت خباب بن ارتؓ سورۂ طہٰ پر مشتمل ایک صحیفہ پڑھا رہے تھے اور قرآن پڑھانے کے لیے وہاں آنا جانا حضرت خباب ؓ کا معمول تھا۔جب حضرت خباب ؓ نے حضرت عمرؓ کی آہٹ سنی تو گھر کے اندر چھپ گئے۔ ادھر حضرت عمر ؓ کی بہن فاطمہ ؓ نے صحیفہ چھپا دیا لیکن حضرت عمر ؓ گھر کے قریب پہنچ کر حضرت خباب ؓ کی قراءت سن چکے تھے۔ چنانچہ پوچھا کہ یہ کیسی دھیمی دھیمی آواز تھی جو تم لوگوں کے پاس میں نے سنی تھی؟ انہوں نے کہا کچھ بھی نہیں۔ بس ہم آپس میں باتیں کر رہے تھے۔ حضرت عمرؓ نے کہا: غالباً تم دونوں بے دین ہو چکے ہو۔ بہنوئی نے کہا: اچھا عمر! یہ بتاؤ اگر حق تمہارے دین کے بجائے کسی اور
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
دین میں ہو تو؟ حضرت عمر ؓ کا اتنا سننا تھا کہ اپنے بہنوئی پر چڑھ بیٹھے اور انہیں بری طرح کچل دیا۔ ان کی بہن نے لپک کر انہیں اپنے شوہر سے الگ کیا تو بہن کو ایسا چانٹا مارا کہ چہرہ خون آلود ہو گیا۔ ابن اسحاق کی روایت ہے کہ ان کے سر میں چوٹ آئی۔ بہن نے جوش غضب میں کہا: عمر! اگر تیرے دین کے بجائے دوسرا ہی دین برحق ہو تو؟
أشھد أن لا الٰہ الا اللّٰہ وأشھد أنَّ محمدًا رسول اللّٰہ میں شہادت دیتی ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی لائق عبادت نہیں اور میں شہادت دیتی ہوں کہ محمد ﷺ اللہ کے رسول ہیں۔ یہ سن کر حضرت عمر ؓ پر مایوسی کے بادل چھا گئے اور انہیں اپنی بہن کے چہرے پر خون دیکھ کر شرم و ندامت بھی محسوس ہوئی۔ کہنے لگے: اچھا یہ کتاب جو تمہارے پاس ہے ذرا مجھے بھی پڑھنے کو دو۔ بہن نے کہا: تم ناپاک ہو۔ اس کتاب کو صرف پاک لوگ ہی چھو سکتے ہیں۔ اٹھو غسل کرو۔ حضرت عمر ؓ نے اٹھ کر غسل کیا۔ پھر کتاب لی اور بسم اللہ الرحمٰن الرحیم پڑھی، کہنے لگے: یہ تو بڑے پاکیزہ نام ہیں۔ اس کے بعد طہٰ سے إِنَّنِي أَنَا اللَّهُ لَا إِلَٰهَ إِلَّا أَنَا فَاعْبُدْنِي وَأَقِمِ الصَّلَاةَ لِذِكْرِي (۲۰: ۱۴) تک قراءت کی۔ کہنے لگے: یہ تو بڑا عمدہ اور بڑا محترم کلام ہے۔ مجھے محمد ﷺ کا پتہ بتاؤ! حضرت خباب ؓ حضرت عمر ؓ کے یہ فقرے سن کر اندر سے باہر آ گئے۔ کہنے لگے: عمر خوش ہو جاؤ! مجھے امید ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے جمعرات کی رات تمہارے متعلق جو دعا کی تھی (کہ اے اللہ! عمر بن خطاب یا ابو جہل بن ہشام کے ذریعے اسلام کو قوت پہنچا) یہ وہی ہے اور اس وقت رسول اللہ ﷺ کوہ صفا کے پاس والے مکان میں تشریف فرما ہیں۔
یہ سن کر حضرت عمرؓ نے اپنی تلوار حمائل کی اور اس گھر کے پاس آ کر دروازے پر دستک دی۔ ایک آدمی نے اٹھ کر دروازے کی دراز سے جھانکا تو دیکھا کہ عمر تلوار حمائل کیے موجود ہیں۔ لپک کر رسول اللہ ﷺ کو اطلاع دی اور سارے لوگ سمٹ کر یکجا ہو گئے۔ حضرت حمزہؓ نے پوچھا: کیا بات ہے؟ لوگوں نے کہا: عمر ہیں۔ حضرت حمزہ ؓ نے کہا: بس! عمر ہے۔ دروازہ کھول دو، اگر وہ خیر کی نیت سے آیا ہے تو اسے ہم عطا کریں گے اور اگر کوئی برا ارادہ لے کر آیا ہے تو ہم اسی کی تلوار سے اس کا کام تمام کر دیں گے۔ ادھر رسول اللہ ﷺ اندر تشریف فرما تھے۔ آپ پر وحی نازل ہو رہی تھی۔ وحی نازل ہو چکی تو حضرت عمر ؓ کے پاس تشریف لائے۔ بیٹھک میں ان سے ملاقات ہوئی۔ آپ نے ان کے کپڑے اور تلوار کا پرتلا سمیٹ کر پکڑا اور سختی سے جھٹکتے ہوئے فرمایا: عمر! کیا تم اس وقت تک باز نہیں آؤ گے جب تک اللہ تعالیٰ تم پر بھی ویسی ہی ذلت و رسوائی اور عبرتناک سزا نازل نہ فرمادے جیسی ولید بن مغیرہ پر نازل ہو چکی ہے؟ یا اللہ! یہ عمر بن خطاب ہے۔ یا اللہ! اسلام کو عمر بن خطاب کے ذریعے قوت و عزت عطا فرما۔ آپ کے اس ارشاد کے بعد حضرت عمر ؓ نے حلقہ بگوش اسلام ہوتے ہوئے فرمایا: أشھد أن لا الہ الا اللّٰہ وأنک رسول اللّٰہ (میں گواہی دیتا ہوں کہ یقینا اللہ کے سوا کوئی لائق عبادت نہیں اور یقینا آپ اللہ کے رسول ہیں) یہ سن کر گھر کے اندر موجود صحابہ ؓ نے اس زور سے تکبیر کہی کہ مسجد الحرام والوں کو سنائی پڑی۔ (تاریخ عمر بن الخطاب ص ۷، ۱۰، ۱۱، سیرت ابن ہشام ۱/۳۴۳ تا۳۴۶)
معلوم ہے کہ حضرت عمر ؓ کی زور آوری کا حال یہ تھا کہ کوئی ان سے مقابلے کی جرأت نہ کرتا تھا۔ اس لیے ان کے مسلمانوں ہو جانے سے مشرکین میں کہرام مچ گیا اور انہیں بڑی ذلت و رسوائی محسوس ہوئی۔
دوسری طرف ان کے اسلام لانے سے مسلمانوں کو بڑی عزت و قوت، شرف و اعزاز اور مسرت و شادمانی حاصل ہوئی۔ چنانچہ ابن اسحاق نے اپنی سند سے حضرت عمرؓ کا بیان روایت کیا ہے کہ جب میں مسلمان ہوا تو میں نے سوچا کہ مکے کا کون شخص رسول اللہ ﷺ کا سب سے بڑا اور سخت ترین دشمن ہے؟ پھر میں نے جی ہی جی میں کہا یہ ابو جہل ہے۔ اس کے بعد میں نے اس کے گھر جا کر اس کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ وہ باہر آیا۔ دیکھ کر بولا:
أھلًا وسھلًا (خوش آمدید، خوش آمدید) کیسے آنا ہوا؟ میں نے کہا: تمہیں یہ بتانے آیا ہوں کہ میں اللہ اور اس کے رسول محمد ﷺ پر ایمان لا چکا ہوں اور جو کچھ وہ لے کر آئے ہیں اس کی تصدیق کر چکا ہوں۔ حضرت عمر ؓ کا بیان ہے کہ (یہ سنتے ہی) اس نے میرے رخ پر دروازہ بند کر لیا اور بولا: اللہ تیرا برا کرے اور جو کچھ تو لے کر آیا ہے اس کا بھی برا کرے۔ (ابن ہشام ۱/۳۴۹، ۳۵۰)
امام ابن جوزی نے حضرت عمرؓ سے روایت نقل کی ہے کہ جب کوئی شخص مسلمان ہو جاتا تو لوگ اس کے پیچھے پڑ جاتے، اسے زد و کوب کرتے اور وہ بھی انہیں مارتا۔ اس لیے جب میں مسلمان ہوا تو اپنے ماموں عاصی بن ہاشم کے پاس گیا اور اسے خبر دی۔ وہ گھر کے اندر گھس گیا، پھر قریش کے ایک بڑے آدمی کے پاس گیا شاید ابو جہل کی طرف اشارہ ہے... اور اسے خبر دی وہ بھی گھر کے اندر گھس گیا۔
ابن ہشام اور ابن جوزی کا بیان ہے کہ جب حضرت عمر ؓ مسلمان ہوئے تو جمیل بن معمر جمحی کے پاس گئے۔ یہ شخص کسی بات کا ڈھول پیٹنے میں پورے قریش کے اندر سب سے زیادہ ممتاز تھا۔ حضرت عمر ؓ نے اسے بتایا کہ وہ مسلمان ہو گئے ہیں۔ اس نے سنتے ہی نہایت بلند آواز سے چیخ کر کہا کہ خطاب کا بیٹا بے دین ہو گیا ہے۔ حضرت عمر ؓ اس کے پیچھے ہی تھے۔ بولے: یہ جھوٹ کہتا ہے۔ میں مسلمان ہو گیا ہوں۔ بہر حال لوگ حضرت عمر ؓ پر ٹوٹ پڑے اور مار پیٹ شروع ہو گئی۔ لوگ حضرت عمر ؓ کو مار رہے تھے اور حضرت عمر ؓ لوگوں کو مار رہے تھے۔ یہاں تک کہ سورج سر پر آ گیا اور حضرت عمر ؓ تھک کر بیٹھ گئے۔ لوگ سر پر سوار تھے۔ حضرت عمر ؓ نے کہا: جو بن پڑے کر لو۔ اللہ کی قسم! اگر ہم لوگ تین سو کی تعداد میں ہوتے تو پھر مکے میں یا تو تم ہی رہتے یا ہم ہی رہتے۔ (تاریخ عمر بن الخطاب ص ۸ ابن ہشام ۱/۳۴۸، ۳۴۹، ابن حبان (مرتب) ۹/۱۶، المعجم الاوسط للطبرانی ۲/۱۷۲ (حدیث نمبر ۱۳۱۵)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
اس کے بعد مشرکین نے اس ارادے سے حضرت عمرؓ کے گھر پر ہلہ بول دیا کہ انہیں جان سے مار ڈالیں۔ چنانچہ صحیح بخاری میں حضرت ابن عمرؓ سے مروی ہے کہ حضرت عمر ؓ خوف کی حالت میں گھر کے اندر تھے کہ اس دوران ابو عَمرو عاص بن وائل سہمی آ گیا۔ وہ دھاری دار یمنی چادر کا جوڑا اور ریشمی گوٹے سے آراستہ کرتا زیب تن کیے ہوئے تھا۔ اس کا تعلق قبیلہ سَہم سے تھا اور یہ قبیلہ جاہلیت میں ہمارا حلیف تھا۔ اس نے پوچھا: کیا بات ہے؟ حضرت عمر ؓ نے کہا: میں مسلمان ہو گیا ہوں، اس لیے آپ کی قوم مجھے قتل کرنا چاہتی ہے۔ عاص نے کہا: یہ ممکن نہیں۔ عاص کی یہ بات سن کر مجھے اطمینان ہو گیا۔ اس کے بعد عاص وہاں سے نکلا اور لوگوں سے ملا۔ اس وقت حالت یہ تھی کہ لوگوں کی بھیڑ سے وادی کھچا کھچ بھری ہوئی تھی۔ عاص نے پوچھا: کہاں کا ارادہ ہے؟ لوگوں نے کہا: یہی خطاب کا بیٹا مطلوب ہے جو بے دین ہو گیا ہے۔ عاص نے کہا: اس طرف کوئی راہ نہیں۔ یہ سنتے ہی لوگ واپس پلٹ گئے۔ (صحیح بخاری باب اسلام عمر بن الخطاب ۱/۵۴۵)
ابن اسحاق کی ایک روایت میں ہے کہ واللہ! ایسا لگتا تھا گویا وہ لوگ ایک کپڑا تھے جسے اس کے اوپر سے جھٹک کر پھینک دیا گیا۔ (ابن ہشام ۱/۳۴۹)
حضرت عمرؓ کے اسلام لانے پر یہ کیفیت تو مشرکین کی ہوئی تھی۔ باقی رہے مسلمان تو ان کے احوال کا اندازہ اس سے ہو سکتا ہے کہ مجاہد نے ابنِ عباس ؓ سے روایت کیا ہے کہ میں نے عمر ؓ بن الخطاب سے دریافت کیا کہ کس وجہ سے آپ کا لقب فاروق پڑا؟ تو انہوں نے کہا: مجھ سے تین دن پہلے حضرت حمزہؓ مسلمان ہوئے، پھر حضرت عمر ؓ نے ان کے اسلام لانے کا واقعہ بیان کر کے اخیر میں کہا کہ پھر جب میں مسلمان ہوا تو -- میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! کیا ہم حق پر نہیں ہیں، خواہ زندہ رہیں، خواہ مریں؟ آپ نے فرمایا: کیوں نہیں۔ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! تم لوگ حق پر ہو خواہ زندہ رہو خواہ موت سے دوچار ہو ... حضرت عمر ؓ کہتے ہیں کہ تب میں نے کہا کہ پھر چھپنا کیسا؟ اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا ہے، ہم ضرور باہر نکلیں گے۔ چنانچہ ہم دو صفوں میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہمراہ لے کر باہر آئے۔ ایک صف میں حمزہ ؓ تھے اور ایک میں میں تھا۔ ہمارے چلنے سے چکی کے آٹے کی طرح ہلکا ہلکا غبار اڑ رہا تھا یہاں تک کہ ہم مسجد حرام میں داخل ہو گئے۔ حضرت عمر ؓ کا بیان ہے کہ قریش نے مجھے اور حمزہ ؓ کو دیکھا تو ان کے دلوں پر ایسی چوٹ لگی کہ اب تک نہ لگی تھی۔ اسی دن رسول اللہ ﷺ نے میرا لقب فاروق رکھ دیا۔ (تاریخ عمر بن الخطاب لابن الجوزی ص ۶،۷)
حضرت ابن مسعودؓ کا ارشاد ہے کہ ہم خانۂ کعبہ کے پاس نماز پڑھنے پر قادر نہ تھے۔ یہاں تک کہ حضرت عمر ؓ نے اسلام قبول کیا۔(مختصر السیرۃ للشیخ عبد اللہ ص ۱۰۳)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
حضرت صہیب بن سنان رومیؓ کا بیان ہے کہ حضرت عمرؓ مسلمان ہوئے تو اسلام پر دے سے باہر آیا، اس کی علانیہ دعوت دی گئی۔ ہم حلقے لگا کر بیت اللہ کے گرد بیٹھے، بیت اللہ کا طواف کیا، اور جس نے ہم پر سختی کی اس سے انتقام لیا اور اس کے بعض مظالم کا جواب دیا۔ (تاریخ عمر بن الخطاب لابن الجوزی)
حضرت ابنِ مسعودؓ کا بیان ہے کہ جب سے حضرت عمر ؓ نے اسلام قبول کیا تب سے ہم برابر طاقتور اور باعزت رہے۔ (صحیح البخاری: باب اسلام عمر بن الخطاب ۱/۵۴۵)
قریش کے نمائندہ رسول اللہ ﷺ کے حضور میں:
ان دونوں بطلِ جلیل، یعنی حضرت حمزہ بن عبد المطلب اور حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہما کے مسلمان ہو جانے کے بعد ظلم و طغیان کے بادل چھٹنا شروع ہو گئے اور مسلمانوں کو جور و ستم کا تختۂ مشق بنانے کے لیے مشرکین پر جو بدمستی چھائی تھی اس کی جگہ سوجھ بوجھ نے لینی شروع کی۔ چنانچہ مشرکین نے یہ کو شش کی کہ اس دعوت سے نبی ﷺ کا جو منشا اور مقصود ہو سکتا ہے اسے فراواں مقدار میں فراہم کرنے کی پیشکش کر کے آپ کو آپ کی دعوت و تبلیغ سے باز رکھنے کے لیے سودے بازی کی جائے لیکن ان غریبوں کو یہ پتہ نہ تھا کہ وہ پوری کائنات، جس پر سورج طلوع ہوتا ہے، آپ کی دعوت کے مقابل پرِکاہ حیثیت بھی نہیں رکھتی، اس لیے انہیں اپنے اس منصوبے میں ناکام و نامراد ہونا پڑا۔
ابن اسحاق نے یزید بن زیاد کے واسطے سے محمد بن کعب قرظی کا یہ بیان نقل کیا ہے کہ مجھے بتایا گیا کہ عُتبہ بن ربیعہ نے جو سر دارِ قوم تھا۔ ایک روز قریش کی محفل میں کہا... اور اس وقت رسول اللہ ﷺ مسجدِ حرام میں ایک جگہ تن تنہا تشریف فرما تھے... کہ قریش کے لوگو! کیوں نہ میں محمد کے پاس جا کر ان سے گفتگو کروں، اور ان کے سامنے چند امور پیش کروں، ہو سکتا ہے وہ کوئی چیز قبول کر لے۔ تو جو کچھ وہ قبول کر لیں گے، اسے دے کر ہم انہیں اپنے آپ سے باز رکھیں گے؟... یہ اس وقت کی بات ہے جب حضرت حمزہ ؓ مسلمان ہو چکے تھے اور مشرکین نے یہ دیکھ لیا تھا کہ مسلمانوں کی تعداد برابر بڑھتی ہی جا رہی ہے ...
مشرکین نے کہا: ابو الولید! آپ جایئے اور ان سے بات کیجیے! اس کے بعد عتبہ اٹھا اور رسول اللہ ﷺ کے پاس جا کر بیٹھ گیا۔ پھر بولا: بھتیجے! ہماری قوم میں تمہارا جو مرتبہ و مقام ہے اور جو بلند پایہ نسب ہے، وہ تمہیں معلوم ہی ہے اور اب تم اپنی قوم میں ایک بڑا معاملہ لے کر آئے ہو جس کی وجہ سے تم نے ان کی جماعت میں تفرقہ ڈال دیا ہے۔ ان کی عقلوں کو حماقت سے دوچار قرار دیا۔ ان کے معبودوں اور ان کے دین پر عیب چینی کی اور ان کے جو آباء و اجداد گزر چکے ہیں انہیں کافر ٹھہرایا۔ لہٰذا میری بات سنو! میں تم پر چند باتیں پیش کر رہا ہوں، ان پر غور کرو۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
ہو سکتا ہے کوئی بات قبول کر لو۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ابو الولید کہو! میں سنوں گا۔ ابو الولید نے کہا:
بھتیجے! یہ معاملہ جسے تم لے کر آئے ہو اگر اس سے تم یہ چاہتے ہو کہ مال حاصل کرو تو ہم تمہارے لیے اتنا مال جمع کیے دیتے ہیں کہ تم ہم میں سب سے مالدار ہو جاؤ اور اگر تم یہ چاہتے ہو کہ اعزاز و مرتبہ حاصل کرو تو ہم تمہیں اپنا سردار بنائے لیتے ہیں، یہاں تک کہ تمہارے بغیر کسی معاملہ کا فیصلہ نہ کریں گے اور اگر تم چاہتے ہو کہ بادشاہ بن جاؤ تو ہم تمہیں اپنا بادشاہ بنائے لیتے ہیں اور اگر یہ جو تمہارے پاس آتا ہے کوئی جن بھوت ہے جسے تم دیکھتے ہو لیکن اپنے آپ سے دفع نہیں کر سکتے تو ہم تمہارے لیے اس کا علاج تلاش کیے دیتے ہیں اور اس سلسلے میں ہم اپنا مال خرچ کر نے کو تیار ہیں کہ تم شفایاب ہو جاؤ۔ کیونکہ کبھی کبھی ایسا ہوتا ہے کہ جن بھوت انسان پر غالب آ جاتا ہے اور اس کا علاج کروانا پڑتا ہے۔
عتبہ یہ باتیں کہتا رہا اور رسول اللہ ﷺ سنتے رہے۔ جب فارغ ہو چکا تو آپ نے فرمایا: ابو الولید! تم فارغ ہو گئے؟ اس نے کہا: ہاں۔ آپ نے فرمایا: اچھا اب میری سنو۔ اس نے کہا: ٹھیک ہے۔ سنوں گا۔ آپ نے فرمایا:
حم ﴿١﴾ تَنزِيلٌ مِّنَ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ ﴿٢﴾ كِتَابٌ فُصِّلَتْ آيَاتُهُ قُرْآنًا عَرَبِيًّا لِّقَوْمٍ يَعْلَمُونَ ﴿٣﴾ بَشِيرًا وَنَذِيرًا فَأَعْرَضَ أَكْثَرُهُمْ فَهُمْ لَا يَسْمَعُونَ ﴿٤﴾ وَقَالُوا قُلُوبُنَا فِي أَكِنَّةٍ مِّمَّا تَدْعُونَا إِلَيْهِ وَفِي آذَانِنَا وَقْرٌ وَمِن بَيْنِنَا وَبَيْنِكَ حِجَابٌ فَاعْمَلْ إِنَّنَا عَامِلُونَ ﴿٥﴾ (۴۱: ۱ تا ۵)
''حم۔ یہ رحمن و رحیم کی طرف سے نازل کی ہوئی ایسی کتاب ہے جس کی آیتیں کھول کھول کر بیان کر دی گئی ہیں۔ عربی قرآن ان لوگوں کے لیے جو علم رکھتے ہیں۔ بشارت دینے والا۔ ڈرانے والا لیکن اکثر لو گوں نے اعراض کیا اور وہ سنتے نہیں۔ کہتے ہیں کہ جس چیزکی طرف تم ہمیں بلاتے ہو اس کے لیے ہمارے دلوں پر پردہ پڑا ہوا ہے... الخ ''
رسول اللہ ﷺ آگے پڑھتے جا رہے تھے اور عتبہ اپنے دونوں ہاتھ پیچھے زمین پر ٹیکے چپ چاپ سنتا جا رہا تھا۔ جب آپ سجدے کی آیت پر پہنچے تو آپ نے سجدہ کیا، پھر فرمایا: ابو الولید! تمہیں جو سننا تھا سن چکے اب تم جانو اور تمہارا کام جانے۔
عتبہ اٹھا اور سیدھا اپنے ساتھیوں کے پاس آیا۔ اسے آتا دیکھ کر مشرکین نے آپس میں ایک دوسرے سے کہا: اللہ کی قسم! ابو الولید تمہارے پاس وہ چہرہ لے کر نہیں آرہا ہے جو چہرہ لے کر گیا تھا۔ پھر جب ابو الولید آ کر بیٹھ گیا تو لوگوں نے پوچھا: ابوالولید! پیچھے کی کیا خبر ہے؟ اس نے کہا: پیچھے کی خبر یہ ہے کہ میں نے ایسا کلام سنا ہے کہ اس جیسا کلام واللہ! میں نے کبھی نہیں سنا۔ اللہ کی قسم! وہ نہ شعر ہے نہ جادو، نہ کہانت، قریش کے لوگو! میری بات مانو اور اس معاملے کو مجھ پر چھوڑ دو۔ (میری رائے یہ ہے کہ) اس شخص کو اس کے حال پر چھوڑ کر الگ تھلگ بیٹھ رہو۔ اللہ کی قسم! میں نے اس کا جو قول سنا ہے اس سے کوئی زبردست واقعہ رونما ہو کر رہے گا۔ پھر اگر اس شخص کو عرب نے مار ڈالا تو تمہارا کام دوسروں کے ذریعے انجام پا جائے گا اور اگر یہ شخص عرب پر غالب آ گیا تو اس کی بادشاہت تمہاری بادشاہت اور اس کی عزت تمہاری عزت ہو گی اور اس کا وجود سب سے بڑھ کر تمہارے لیے سعادت کا باعث ہو گا۔ لوگوں نے کہا: ابو الولید! اللہ کی قسم! تم پر بھی اس کی زبان کا جادو چل گیا۔ عتبہ نے کہا: اس شخص کے بارے میں میری رائے یہی ہے اب تمہیں جو ٹھیک معلوم ہو کرو۔ (ابن ہشام ۱/۲۹۳،۲۹۴۔ اس کا ایک جزء المعجم الصغیر للطبرانی میں بھی ہے(۱/۲۶۵))
ایک دوسری روایت میں یہ مذکور ہے کہ نبی ﷺ نے جب تلاوت شروع کی تو عتبہ چپ چاپ سنتا رہا۔ جب آپ اللہ تعالیٰ کے اس قول پر پہنچے
فَإِنْ أَعْرَضُوا فَقُلْ أَنذَرْتُكُمْ صَاعِقَةً مِّثْلَ صَاعِقَةِ عَادٍ وَثَمُودَ ﴿١٣﴾ (۴۱: ۱۳) (پس اگر وہ روگردانی کریں تو تم کہہ دو کہ میں تمہیں عاد و ثمود کی کڑک جیسی ایک کڑک کے خطرے سے آگا ہ کر رہا ہوں) تو عتبہ تھرا کر کھڑا ہو گیا اور یہ کہتے ہوئے اپنا ہاتھ رسول اللہ ﷺ کے منہ پر رکھ دیا کہ میں آپ کو اللہ کا اور قرابت کا واسطہ دیتا ہوں (کہ ایسا نہ کریں) اسے خطرہ تھا کہ کہیں یہ ڈراوا آن نہ پڑے۔ اس کے بعد وہ قوم کے پاس گیا اور مذکورہ گفتگو ہوئی۔ (تفسیر ابن کثیر ۶/۱۵۹، ۱۶۰، ۱۶۱)
رسول اللہ ﷺ سے رؤسائے قریش کی بات چیت:
عتبہ کی مذکورہ پیش کش کا جس انداز میں رسول اللہ ﷺ نے جواب دیا تھا اس سے قریش کی توقعات پورے طور سے ختم نہیں ہوئی تھیں۔ کیونکہ آپ کے جواب میں ان کی پیشکش کو ٹھکرانے یا قبول کرنے کی صراحت نہ تھی۔ بس آپ نے چند آیات تلاوت کر دیں تھیں، جنہیں عتبہ پورے طور پر سمجھ نہ سکا تھا اور جہاں سے آیا تھا وہیں واپس چلا گیا تھا۔ اس لیے قریش نے آپس میں پھر مشورہ کیا۔ معاملے کے پہلوؤں پر نظر دوڑائی اور سارے امکانات کا غور و خوض کے ساتھ جائزہ لیا۔ اس کے بعد ایک دن سورج ڈوبنے کے بعد کعبہ کی پشت پر جمع ہوئے اور رسول اللہ ﷺ کو بلا بھیجا۔ آپ خیر کی توقع لیے ہوئے جلدی سے تشریف لائے۔ جب ان کے درمیان بیٹھ چکے تو انہوں نے ویسی ہی باتیں کہیں جیسی عتبہ نے کہی تھیں اور وہی پیشکش کی جو عتبہ نے کی تھی۔ شاید ان کا خیال رہا ہو کہ ممکن ہے تنہا عتبہ کے پیشکش کرنے سے آپ کو پورا اطمینان نہ ہوا ہو۔ اس لیے جب سارے رؤساء مل کر اس پیشکش کو دہرائیں گے تو اطمینان ہو جائے گا اور آپ اسے قبول کر لیں گے۔ مگر آپ ﷺ نے فرمایا:
''میرے ساتھ وہ بات نہیں جو آپ لوگ کہہ رہے ہیں۔ میں آپ لوگوں کے پاس جو کچھ لے کر آیا ہوں وہ اس لیے نہیں لے کر آیا ہوں کہ مجھے آپ کا مال مطلوب ہے۔ یا آپ کے اندر شرف مطلوب ہے۔ یا آپ پر حکمرانی مطلوب ہے۔ نہیں بلکہ مجھے اللہ نے آپ کے پاس پیغمبر بنا کر بھیجا ہے۔ مجھ
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
پر اپنی کتاب اتاری ہے اور مجھے حکم دیا ہے کہ میں آپ کو خوشخبری دوں اور ڈراؤں۔ لہٰذا میں نے آپ لوگوں تک اپنے رب کے پیغامات پہنچا دے اور آپ لوگوں کو نصیحت کر دی۔ اب اگر آپ لوگ میری لائی ہوئی بات قبول کرتے ہیں تو یہ دنیا اور آخرت میں آپ کا نصیب ہے اور اگر رد کرتے ہیں تو میں اللہ کے امر کا انتظار کروں گا، یہاں تک کہ وہ میرے اور آپ کے درمیان فیصلہ فرما دے۔''
اس جواب کے بعد انہوں نے ایک دوسرا پہلو بدلا کہنے لگے: آپ اپنے رب سے سوال کریں کہ وہ ہمارے پاس سے ان پہاڑوں کو ہٹا کر کھلا ہو میدان بنا دے او راس میں ندیاں جاری کر دے اور ہمارے مُردوں بالخصوص قصی بن کلاب کو زندہ کر لائے۔ اگر وہ آپ کی تصدیق کر دیں تو ہم بھی ایمان لے آئیں گے۔ آپ نے ان کی اس بات کا بھی وہی جواب دیا۔
اس کے انہوں نے ایک تیسرا پہلو بدلا۔ کہنے لگے آپ اپنے رب سے سوال کریں کہ وہ ایک فرشتہ بھیج دے جو آپ کی تصدیق کرے اور جس سے ہم آپ کے بارے میں مراجعہ بھی کر سکیں اور یہ بھی سوال کریں کہ آپ کے لیے باغات ہوں، خزانے ہوں اور سونے چاندی کے محل ہوں۔ آپ نے اس بات کا بھی وہی جواب دیا۔
اس کے بعد انہوں نے ایک چوتھا پہلو بدلا۔ کہنے لگے کہ اچھا تو آپ ہم پر عذاب ہی لا دیجیے اور آسمان کا کوئی ٹکڑا ہی گرا دیجیے۔ جیسا کہ آپ کہتے ہیں اور دھمکیاں دیتے رہتے ہیں۔ آپ نے فرمایا: اس کا اختیار اللہ کو ہے۔ وہ چاہے تو ایسا کر سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ کیا آپ کے رب کو معلوم نہ تھا کہ ہم آپ کے ساتھ بیٹھیں گے۔ آپ سے سوال و جواب کریں گے اور آپ سے مطالبے کریں گے کہ وہ سکھا دیتا کہ آپ ہمیں کیا جواب دیں گے اور اگر ہم نے آپ کی بات نہ مانی تو وہ ہمارے ساتھ کیا کرے گا؟
پھر اخیر میں انہوں نے سخت دھمکی دی اور کہنے لگے: سن لو! جو کچھ کر چکے ہو اس کے بعد ہم تمہیں یوں ہی نہیں چھوڑیں گے بلکہ یا تو تمہیں مٹا دیں گے یا خود مٹ جائیں گے۔ یہ سن کر رسول اللہ ﷺ اٹھ گئے اور اپنے گھر واپس آ گئے۔ آپ کو غم و افسوس تھا کہ جو توقع آپ نے باندھ رکھی وہ پوری نہ ہوئی۔ (ملخص از روایت ابن اسحاق (ابن ہشام ۱/۲۹۵، ۲۹۸ ) وابن جریر وابن المنذرو ابن ابی حاتم (الدر المنثور ۴/۳۶۵،۳۶۶))
ابو جہل، رسول اللہ ﷺ کے قتل کا اقدام کرتا ہے:
جب رسول اللہ ﷺ ان لوگوں کے پاس سے اٹھ کر واپس تشریف لے گئے تو ابو جہل نے انہیں مخاطب کر کے پورے غرور و تکبر کے ساتھ کہا: برادران قریش آپ دیکھ رہے ہیں کہ محمد (ﷺ) ہمارے دین کی عیب چینی، ہمارے آباء و اجداد کی بد گوئی، ہماری عقلوں کی تخفیف اور ہمارے معبودوں کی تذلیل سے باز نہیں آتا، اس لیے میں اللہ سے عہد کر رہا ہوں کہ ایک بہت بھاری اور بمشکل اٹھنے والا پتھر لے کر بیٹھوں گا اور جب وہ سجدہ کرے گا تو
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
اس پتھر سے اس کا سر کچل دوں گا۔ اب اس کے بعد چاہے آپ لوگ مجھ کو بے یار و مددگار چھوڑ دیں چاہے میری حفاظت کریں اور بنو عبد مناف بھی اس کے بعد جو جی چاہے کریں۔ لوگوں نے کہا: نہیں واللہ! ہم تمہیں کبھی کسی معاملے میں بے یار و مدد گار نہیں چھوڑ سکتے، تم جو کرنا چاہو کر گزرو۔ چنانچہ صبح ہوئی تو ابو جہل ویسا ہی ایک پتھر لے کر رسول اللہ ﷺ کے انتظار میں بیٹھ گیا۔ رسول اللہ ﷺ حسب دستور تشریف لائے، اور کھڑے ہو کر نماز پڑھنے لگے، قریش بھی اپنی اپنی مجلسوں میں آ چکے تھے اور ابو جہل کی کاروائی دیکھنے کے منتظر تھے۔ جب رسول اللہ ﷺ سجدے میں تشریف لے گئے تو ابو جہل نے پتھر اٹھایا، پھر آپ کی جانب بڑھا لیکن جب قریب پہنچا تو شکست خوردہ حالت میں واپس بھاگا۔ اس کا رنگ فق تھا اور اس قدر مرعوب تھا کہ اس کے دونوں ہاتھ پتھر پر چپک کر رہ گئے تھے۔ وہ بمشکل ہاتھ سے پتھر پھینک سکا۔ ادھر قریش کے کچھ لوگ اٹھ کر اس کے پاس آئے، اور کہنے لگے: ابو الحکم تمہیں کیا ہو گیا ہے؟ اس نے کہا: میں نے رات جو بات کہی تھی وہی کرنے جا رہا تھا لیکن جب اس کے قریب پہنچا تو ایک اونٹ آڑے آ گیا۔ واللہ! میں نے کبھی کسی اونٹ کی ویسی کھوپڑی، ویسی گردن اور ویسے دانت دیکھے ہی نہیں، وہ مجھے کھا جانا چاہتا تھا۔ ابن اسحاق کہتے ہیں: مجھے بتایا گیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: یہ جبریل علیہ السلام تھے، اگر ابو جہل قریب آتا تو اسے دھر پکڑتے۔ (ابن ہشام ۱/۲۹۸، ۲۹۹)
سودے بازیاں اور دست برداریاں:
جب قریش ترغیب و تحریص اور دھمکی و وعید سے ملی جلی اپنی گفتگو میں ناکام ہو گئے اور ابو جہل کو اپنی رعونت اور ارادہ قتل میں منہ کی کھانی پڑی تو قریش میں ایک پائیدار حل تک پہنچے کی رغبت بیدار ہوئی، تاکہ جس ''مشکل '' میں وہ پڑ گئے تھے اس سے نکل سکیں۔ ادھر انہیں یہ یقین بھی نہیں تھا کہ نبی ﷺ واقعی باطل پر ہیں۔ بلکہ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے بتلایا ہے۔ وہ لوگ ڈگمگا دینے والے شک میں تھے۔ لہٰذا انہوں نے مناسب سمجھا کہ دین کے بارے میں آپ ﷺ سے سودے بازی کی جائے۔ اسلام اور جاہلیت دونوں بیچ راستے میں ایک دوسرے سے مل جائیں اور کچھ لو اور کچھ دو کے اصول پر اپنی باتیں مشرکین چھوڑ دیں اور بعض باتوں کو نبی ﷺ سے چھوڑنے کے لیے کہا جائے۔ ان کا خیال تھا کہ اگر نبی ﷺ کی دعوت بر حق ہے تو اس طرح وہ بھی اس حق کو پا لیں گے۔
ابن اسحاق کا بیان ہے کہ رسول اللہ ﷺ خانۂ کعبہ کا طواف کر رہے تھے کہ اسود بن مطلب بن اسد بن عبدالعزیٰ ولید بن مغیرہ، امیہ بن خلف اور عاص بن وائل سہمی آپ کے سامنے آگئے۔ یہ سب اپنی قوم کے بڑے لوگ تھے۔ بولے: اے محمد! آئیے جسے آپ پوجتے ہیں اسے ہم بھی پوجیں اور جسے ہم پوجتے ہیں اسے آپ بھی پوجیں۔ اسی طرح ہم اور آپ اس کام میں مشترک ہو جائیں۔ اب اگر آپ کا معبود ہمارے معبود سے بہتر ہے تو ہم اس سے اپنا حصہ حاصل کر چکے ہوں گے اور اگر ہمارا معبود آپ کے معبود سے بہتر ہوا تو آپ اس سے اپنا حصہ
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
حاصل کر چکے ہوں گے۔ اس پر اللہ تعالیٰ سورہ نازل فرمائی جس میں اعلان کیا گیا ہے کہ جسے تم لوگ پوجتے ہو اسے میں نہیں پوج سکتا۔ (ابن ہشام ۱/۳۶۲)
عبد بن حمید وغیرہ نے ابن عباسؓ سے روایت کی ہے کہ قریش نے کہا: اگر آپ ہمارے معبودوں کو تبرک کے طور پر چھوئیں تو ہم آپ کے معبود کی عبادت کریں گے اس پر پوری سورہ نازل ہوئی۔ (الدر المنثور ۶/۶۹۲)
ابن جریر وغیرہ نے ابن عباسؓ سے روایت کی ہے کہ مشرکین نے رسول اللہ ﷺ سے کہا: آپ ایک سال ہمارے معبودوں کی پوجا کریں اور ہم ایک سال آپ کے معبود کی پوجا کریں۔ اس پر اللہ نے یہ آیت نازل فرمائی :
قُلْ أَفَغَيْرَ اللَّـهِ تَأْمُرُونِّي أَعْبُدُ أَيُّهَا الْجَاهِلُونَ ﴿٦٤﴾ (۳۹: ۶۴)
آپ کہہ دیں کہ اے نادانو! کیا تم مجھے غیر اللہ کی عبادت کے لیے کہتے ہو؟ (تفسیر ابن جریر طبری)
اللہ تعالیٰ نے اس قطعی اور فیصلہ کن جواب سے اس مضحکہ خیز گفت و شنید کی جڑ کاٹ دی لیکن پھر بھی قریش پورے طور سے مایوس نہیں ہوئے۔ بلکہ انہوں نے اپنے دین سے مزید دست برداری پر آمادگی ظاہر کی۔ البتہ یہ شرط لگائی کہ نبی ﷺ بھی جو تعلیمات لے کر آئے ہیں اس میں کچھ تبدیلی کریں۔ چنانچہ انہوں نے کہا: اس کے بجائے کوئی اور قرآن لاؤ۔ یا اسی میں تبدیلی کر دو۔ اللہ نے اس کا جو جواب نبی ﷺ کو بتلایا اس کے ذریعہ یہ راستہ بھی کاٹ دیا۔ چنانچہ فرمایا:
قُلْ مَا يَكُونُ لِي أَنْ أُبَدِّلَهُ مِن تِلْقَاءِ نَفْسِي ۖ إِنْ أَتَّبِعُ إِلَّا مَا يُوحَىٰ إِلَيَّ ۖ إِنِّي أَخَافُ إِنْ عَصَيْتُ رَبِّي عَذَابَ يَوْمٍ عَظِيمٍ ﴿١٥﴾ (۱۰: ۱۵)
''آپ کہہ دیں مجھے اس کا اختیار نہیں کہ میں اس میں خود اپنی طرف سے تبدیلی کروں۔ میں تو محض اسی چیز کی پیروی کرتا ہوں جس کی وحی میری طرف کی جاتی ہے۔ میں نے اگر اپنے رب کی نافرمانی کی تو میں ایک بڑے دن کے عذاب سے ڈرتا ہوں۔''
اللہ نے اس کام کی زبردست خطر ناکی کا ذکر اس آیت میں بھی فرمایا:
وَإِن كَادُوا لَيَفْتِنُونَكَ عَنِ الَّذِي أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ لِتَفْتَرِيَ عَلَيْنَا غَيْرَهُ ۖ وَإِذًا لَّاتَّخَذُوكَ خَلِيلًا ﴿٧٣﴾ وَلَوْلَا أَن ثَبَّتْنَاكَ لَقَدْ كِدتَّ تَرْكَنُ إِلَيْهِمْ شَيْئًا قَلِيلًا ﴿٧٤﴾ إِذًا لَّأَذَقْنَاكَ ضِعْفَ الْحَيَاةِ وَضِعْفَ الْمَمَاتِ ثُمَّ لَا تَجِدُ لَكَ عَلَيْنَا نَصِيرًا ﴿٧٥﴾ (۱۷: ۷۳ تا ۷۵)
''اور قریب تھا کہ جو وحی ہم نے آپ کی طرف کی ہے اس سے یہ لوگ آپ کو فتنے میں ڈال دیتے تاکہ آپ ہم پر کوئی اور بات کہہ دیں۔ اور تب یقینا یہ لوگ آپ کو گہرا دوست بنا لیتے اور اگر ہم نے آپ کو ثابت قدم نہ رکھا ہوتا تو آپ ان کی طرف تھوڑا سا جھک جاتے اور تب ہم آپ کو دوہری سزا
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
زندگی میں اور دوہری سزا مرنے کے بعد چکھاتے۔ پھر آپ کو ہمارے مقابل کوئی مددگار نہ ملتا۔ ''
مشرکین کی حیرت، سنجیدہ غور و فکر اور یہود سے رابطہ:
مذکورہ بات چیت، ترغیبات، سودے بازیوں اور دست برداریوں میں ناکامی کے بعد مشرکین کے سامنے راستے تاریک ہو گئے۔ وہ حیران تھے کہ اب کیا کریں۔ چنانچہ ان کے ایک شیطان نضر بن حارث نے انہیں نصیحت کرتے ہوئے کہا: قریش کے لوگو ! واللہ! تم پر ایسی افتاد آن پڑی ہے کہ تم لوگ اب تک اس کا کوئی توڑ نہیں لا سکے۔ محمد تم میں جوان تھے تو تمہارے سب سے پسندیدہ آدمی تھے سب سے زیادہ سچے اور سب سے بڑھ کر امانت دار تھے۔ اب جبکہ ان کی کنپٹیوں پر سفیدی دکھائی پڑنے کو ہے (یعنی ادھیڑ ہو چلے ہیں) اور وہ تمہارے پاس کچھ باتیں لے کر آئے ہیں تم کہتے ہو کہ وہ جادوگر ہیں نہیں، واللہ! وہ جادوگر نہیں۔ ہم نے جادوگر دیکھے ہیں۔ ان کی چھاڑ پھونک اور گرہ بندی بھی دیکھی ہے اور تم لوگ کہتے ہو وہ کاہن ہیں۔ نہیں واللہ! وہ کاہن بھی نہیں، ہم نے کاہن بھی دیکھے ہیں۔ ان کی الٹی سیدھی حرکتیں بھی دیکھی ہیں اور ان کی فقرہ بندیاں بھی سنی ہیں، تم لوگ کہتے ہو وہ شاعر ہیں۔ نہیں، واللہ! وہ شاعر بھی نہیں۔ ہم نے شعر بھی دیکھا ہے اور اس کے سارے اصناف، ہجز، رجز وغیرہ سنے ہیں۔ تم لوگ کہتے ہو وہ پاگل ہیں۔ نہیں واللہ! وہ پاگل بھی نہیں، ہم نے پاگل پن بھی دیکھا ہے۔ ان کے یہاں نہ اس طرح کی گھٹن ہے نہ ویسی بہکی بہکی باتیں ، اور نہ ان کے جیسی الٹی سیدھی حرکتیں۔ قریش کے لوگو! سوچو، واللہ! تم پر زبردست افتاد آن پڑی ہے۔
ایسا معلوم ہو تا ہے کہ جب انہوں نے دیکھا کہ نبی ﷺ ہر چیلنج کے مقابل ڈٹے ہوئے ہیں۔ آپ نے ساری ترغیبات پر لات مار دیا ہے اور ہر معاملے میں بالکل کھرے اور ٹھوس ثابت ہوئے ہیں۔ جبکہ سچائی، پاکدامنی، اور مکارم اخلاق سے پہلے ہی سے بہرہ ور چلے آ رہے ہیں۔ تو ان کا یہ شبہ زیادہ قوی ہو گیا کہ آپ واقعی رسول برحق ہیں۔ لہٰذا انہوں نے فیصلہ کیا کہ یہود سے رابطہ قائم کر کے آپ کے بارے میں ذرا اچھی طرح اطمینان حاصل کر لیا جائے۔ چنانچہ جب نضر بن حارث نے مذکورہ نصیحت کی تو قریش نے خود اسی کو مکلف کیا کہ وہ ایک یا چند آدمیوں کو ہمراہ لے کر یہود مدینہ کے پاس جائے، اور ان سے آپ کے معاملے کی تحقیق کرے۔ چنانچہ وہ مدینہ آیا تو علماء یہود نے کہا کہ اس سے تین باتوں کا سوال کرو۔ اگر وہ بتا دے تو نبی مرسل ہے ورنہ سخن ساز۔ اس سے پوچھو کہ پچھلے دور میں کچھ نوجوان گزرے ہیں ان کا کیا واقعہ ہے؟ کیونکہ ان کا بڑا عجیب واقعہ ہے اور اس سے پوچھو کہ ایک آدمی نے زمین کے مشرق و مغرب کے چکر لگائے اس کی کیا خبر ہے؟ اور اس سے پوچھو کہ روح کیا ہے؟
اس کے بعد نضر بن حارث مکہ آیا تواس نے کہا کہ میں تمہارے اور محمد کے درمیان ایک فیصلہ کن بات لے کر آیا ہوں اس کے ساتھ ہی اس نے یہود کی کہی ہوئی بات بتائی۔ چنانچہ قریش نے آپ سے ان تینوں باتوں کا سوال کیا۔ چند دن بعد سورہ کہف نازل ہوئی جس میں ان جوانوں کا اور اس چکر لگانے والے آدمی کا واقعہ بیان کیا گیا تھا جو ان اصحاب کہف میں سے تھے اور وہ آدمی ذوالقرنین تھا۔ روح کے متعلق جواب سورہ اسراء میں نازل ہوا۔ اس سے قریش پر یہ بات واضح ہو گئی کہ آپ سچے اور برحق پیغمبر ہیں لیکن ان ظالموں نے کفر و انکار ہی کا راستہ اختیار کیا۔ (ابن ہشام ۱/۲۹۹، ۳۰۰، ۳۰۱)
مشرکین نے رسول اللہ ﷺ کی دعوت کا جس انداز سے مقابلہ کیا تھا یہ اس کا ایک مختصر سا خاکہ ہے۔ انہوں نے یہ سارے اقدامات پہلو بہ پہلو کیے تھے۔ وہ ایک ڈھنگ سے دوسرے ڈھنگ اور ایک طرز عمل سے دوسرے طرز عمل کی طرف منتقل ہوتے رہتے تھے۔ سختی سے نرمی کی طرف اور نر می سے سختی کی طرف، جدال سے سودے بازی کی طرف اور سودے بازی سے جدال کی طرف، دھمکی سے ترغیب کی طرف اور ترغیب سے دھمکی کی طرف، کبھی بھڑکتے، کبھی نرم پڑ جاتے، کبھی جھگڑے اور کبھی چکنی چکنی باتیں کرنے لگتے۔ کبھی مرنے مارنے پر اتر آتے اور کبھی خود اپنے دین سے دست بردار ہونے لگتے کبھی گرجتے برستے اور کبھی عیش دنیا کی پیشکش کرتے۔ نہ انہیں کسی پہلو قرار تھا۔ نہ کنارہ کشی ہی گورا تھی اور ان سب کا مقصود یہ تھا کہ اسلامی دعوت ناکام ہو جائے اور کفر کا پراگندہ شیرازہ پھر سے جڑ جائے، لیکن ان ساری کوششوں اور سارے حیلوں کے بعد بھی وہ ناکام ہی رہے اور ان کے سامنے صرف ایک ہی چارہ کار رہ گیا اور یہ تھا تلوار، مگر ظاہر ہے تلوار سے اختلاف میں اور شدت ہی آتی، بلکہ باہم کشت وخون کا ایسا سلسلہ چل پڑتا جو پوری قوم کو لے ڈوبتا اس لیے مشرکین حیران تھے کہ وہ کیا کر یں۔
ابو طالب اور ان کے خاندان کا موقف:
لیکن جہاں تک ابو طالب کا تعلق ہے تو جب ان کے سامنے قریش کا یہ مطالبہ آیا کہ وہ نبی ﷺ کو قتل کرنے کے لیے ان کے حوالے کر دیں اور ان کی حرکات و سکنات میں ایسی علامت دیکھیں جس سے یہ اندیشہ پختہ ہوتا تھا کہ وہ ابو طالب کے عہد و حفاظت کی پروا کیے بغیر نبی ﷺ کو قتل کرنے کا تہیہ کیے بیٹھے ہیں۔ مثلا: عقبہ بن ابی معیط، ابو جہل بن ہشام اور عمر بن خطاب کے اقدامات ...تو انہوں نے اپنے جد اعلیٰ مناف کے دو صاحبزادوں ہاشم اور مطلب سے وجود میں آنے والے خاندانوں کو جمع کیا اور انہیں دعوت دی کہ وہ سب مل کر نبی ﷺ کی حفاظت کا کام انجام دیں۔ ابو طالب کی یہ بات عربی حمیت کے پیش نظر ان دونوں خاندانوں کے سارے مسلم اور کافر افراد نے قبول کی اور اس پر خانۂ کعبہ کے پاس عہد و پیمان کیا۔ البتہ صرف ابو طالب کا بھائی ابو لہب ایک فرد تھا جس نے یہ بات منظور نہ کی اور سارے خاندان سے الگ ہو کر مشرکین قریش کے ساتھ رہا۔ (ابن ہشام ۱/۲۶۹)
****


الرحیق المختوم
 
Top