• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

دوسری شادی کے لئے پہلی بیوی کی اجازت

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,346
پوائنٹ
800
ایک فکاہیہ تحریر:

ایک اخبار میں خبر چھپی ہے کہ معروف سینئر اداکار محمود اسلم نے، کہ جنھوں نے دو شادیاں کر رکھی ہیں، ایک ٹی وی پروگرام میں میزبان شائستہ لودھی سے گفتگو کرتے ہوئے اس امر کا اعتراف کیاہے کہ:
''دو بیویاں رکھنا بہت مشکل کام ہے، ایک ہی کافی ہوتی ہے''۔
بعض لوگوں کو تو چار بھی ناکافی محسوس ہوتی ہیں اور بعضے ایسے ہیں کہ اُنھیں اپنی ایک بیوی بھی 'اضافی' ہی محسوس ہوتی ہے، جیسا کہ فرمایا ڈاکٹر انعام احسن حریفؔ نے:

جو شریکِ حیات ہوتی ہے​
وہ بڑی واہیات ہوتی ہے​
ڈاکٹر صاحب ماہر امراضِ چشم تھے۔ ہماری چشم پر جو چشمہ لگاہوا ہے، اُن ہی کا تجویز کردہ ہے۔مگر حیرت ہوتی ہے کہ ڈاکٹر صاحب کی اپنی چشم بینا اُن کے کچھ کام نہ آئی۔ وہ دیکھتی آنکھوں جیتی مکھی ۔۔۔ معاف کیجیے گا ۔۔۔ جیتی بیوی نگل گئے۔ ڈاکٹر صاحب تو ایسے نہ تھے، مگر حقیقت یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں بہت سے لوگ ایسے ہیں جو چشم بینا نہیں رکھتے 'چشم بنیا' رکھتے ہیں۔جہیز دیکھ کر بیوی پسند کرتے ہیں۔ تو ایسے لوگوں کا گھر جہیز سے بھر جانے کے بعد بیوی 'اضافی' نہ محسوس ہوگی تو کیا کافی محسوس ہوگی؟

اداکار محمود اسلم صاحب نے بیویوں کے لیے 'رکھنے' کا لفظ استعمال کیا ہے، جو مناسب معلوم نہیں ہوتا۔بیویاں 'رکھی' نہیں جاتیں۔وہ تو ایسا جادو ہوتی ہیں جو سر چڑھ کر بولتی ہیں۔بشرطے کہ اس جادو کا شکار ہونے والے کا سر پی ٹی وی کے سربراہ محمد مالک صاحب کے سر جیسا نہ ہو۔ جو 'رکھی' جائے اُسے اُردو میں 'رکھیل' اور فارسی میں 'داشتہ' (یعنی رکھی ہوئی چیز) کہا جاتا ہے۔فارسی کا ایک محاورہ ہے: 'داشتہ آید بکار' (یعنی رکھی ہوئی چیز کام آہی جاتی ہے)۔ محترم مختار مسعود کے 'خان صاحب' کا خیال ہے کہ 'داشتہ' کے ساتھ صرف 'نابکار' کا لفظ جچتا ہے۔ خیر یہ اپنے اپنے تجربے کی بات ہے۔ جب کہ ضمیر جعفری صاحب اپنے مشاہدے کے مطابق دونوں کا فرق یوں بیان کرتے ہیں کہ:

'بیویاں آیند بہ رکشا، داشتہ آید بہ کار'​
آج کل ہمارے ذرائع ابلاغ میں بات بات پر بیویوں کی بات ہو رہی ہے۔ بیش تر تو یہ ذرائع ابلاغ پر بیٹھی ہوئی بیبیاں ہیں جو بیویوں کی بابت سوال کرتی ہیں۔کچھ ہیجان ۔۔۔ بالخصوص ہمارے ذرائع ابلاغ میں ۔۔۔ اسلامی نظریاتی کونسل کے ایک اعلان نے بھی پیدا کر دیا ہے، جس کے سربراہ مولانا شیرانی ہیں۔ اُنھوں نے فرمایا ہے کہ دوسرے نکاح کے لیے پہلی منکوحہ سے اجازت لینا از رُوئے شرع ضروری نہیں۔ کیا غلط کہا ہے؟ آپ کسی بھی میاں (اور اُس کی بیوی سے بھی) پوچھ کر دیکھ لیجیے کہ: '' میاں جی کون کون سے کام (پہلی) بیوی سے اجازت لے کر کرتے ہیں؟''جو جواب آئے اُس سے ہمیں بھی مطلع کیجیے گا۔ جب یہی سوال پروفیسر عنایت علی خان نے اسلامی نظریاتی کونسل کے ایک ناقد سے کیا تووہ ہنسا اور اُس نے جواب دیا:''کس کس سے اجازت لیجیے؟''
گھر میں بیوی ہے، آفس میں سِکریٹری​
نور اپنی جگہ، نار اپنی جگہ​
سچ پوچھیے تو تعدد ازواج اُن کا مسئلہ ہی نہیں جو اس پر چیخ پکارکر رہے ہیں۔اُن کا مسئلہ کچھ اور ہے۔مسلمانوں پر اعتراض غیر مسلموں کو ہے کہ اُنھیں قرآن مجید بیک وقت چار بیویاں رکھنے کی اجازت کیوں دیتا ہے؟ یہ تو بڑا ظلم ہے۔ (کس پر؟)۔ مگرجن معاشروں میں ایک بیوی کی موجودگی میں دوسری بیوی لانا قانوناً جرم ہے، اُن میں سے کسی بھی معاشرے میں جا کر جانچ لیجیے کہ کیا اُس معاشرے کے ہر مرد نے اپنی اکلوتی بیوی کے سوا کسی سے تعلقات نہیں رکھے ہوئے ہیں؟ اعداد و شمار کا جائزہ لیجیے اور فیصد نکالیے کہ اُن معاشروں کے کتنے مرد ایسے ہیں جو صرف اپنی ذاتی اور سگی بیوی سے ہی تعلقات رکھتے ہیں؟

اب آئیے ہمارے معاشرے کی طرف۔ اجازت کے باوجود پورے معاشرے میں آپ کو کتنے مرد ایسے ملتے ہیں جن کی ایک سے زائد بیویاں ہیں؟ یقیناخود آپ بھی ایسے ہزاروں عام مسلمانوں سے واقف ہوں گے جن کی ایک ہی بیوی ہے اورخوفِ خدا کی وجہ سے اُن کے کسی دوسری خاتون سے ناجائز تعلقات بھی نہیں۔ بیک وقت چار خواتین سے جائز تعلق رکھنے کی سہولت ملنے کے باوجود عام مسلمانوں کی اکثریت فقط ایک ہی بیوی پر گزارہ کرتی ہے اور اُسی کے ساتھ تمام عمر گزار دیتی ہے۔ کیا ایسا اُس معاشرے میں بھی ہوتا ہے جہاں ایک بیوی کی موجودگی میں دوسری بیوی ہر مرد پر حرام ہے؟

اداکار محمود اسلم صاحب نے مذکورہ ٹیلی وژن پروگرام میں بڑی تفصیل سے بتایا کہ اُن کی پہلی شادی 'محبت کی شادی' ہے۔ (ممکن ہے کہ کوئی شادی 'نفرت کی شادی' بھی ہوتی ہو)۔ اُنھوں نے اپنی محبت کے تمام مراحل، قدم بہ قدم، بیان فرمائے۔ پھر یہ بتا یا کہ اُن کی دوسری شادی 'ضرورت کی شادی' تھی۔مگر اس ضمن میں اُنھوں نے صرف اتنا کہاکہ:
''کام کے سلسلے میں کراچی میں کافی رہنا ہوا۔گھر سے دور رہا تو میں نے کراچی میں بھی شادی کر لی۔پہلی بیوی لاہور اور دوسری کراچی میں ہے۔ کچھ چیزیں نہ چاہتے ہوئے بھی ہو جاتی ہیں۔میں نے سوچا کہ گناہ سے بہتر ہے کہ دین کی تعلیمات کے مطابق دوسری شادی کر لی جائے''۔

محمود اسلم صاحب کا یہ معذرت خواہانہ رویہ صرف اس وجہ سے ہے کہ اُنھوں نے 'گناہ کرنے' کی بجائے 'دوسری شادی' کر لی۔ اگر گناہ کر لیتے تو کسی ٹی وی پروگرام میں اُن سے کسی کو یہ باز پُرس کرنے کی جرأت نہ ہوتی کہ تم نے گناہ کیوں کر لیا؟ دوسری شادی کیوں نہ کی؟ بہت سے لوگ دوسری شادی کرنے کو 'گناہ کر لینے ' سے بڑا جرم تصور کرتے ہیں۔کبھی ایسا نہیں ہوا کہ کسی ٹی وی پروگرام میں 'گناہ کرلینے' کی مذمت کی گئی ہو۔دوسری شادی کے خلاف البتہ متعدد 'مذموم' پروگرام نشر ہو چکے ہیں۔

دوسری شادی کے خلاف ایک دلیل یہ بھی دی جاتی ہے کہ یہ 'انصاف کرنے' سے مشروط ہے۔ دلیل بالکل ٹھیک ہے۔انصاف کی شرط عائد کی گئی ہے۔ لیکن اگر کوئی 'گناہ کر لے' تو اُس سے کوئی 'انصاف کرنے' کا مطالبہ بھی نہیں کرتا۔بھلا'گناہگار' سے انصاف کی توقع کیسی؟ تو کیا یہ دوسری شادی کرنے والے کے ساتھ 'نا انصافی' نہیں ہے کہ وہ تو 'شادی' کرکے مہر اور نان نفقہ سمیت بہت سی 'عمرقید' قسم کی ذمہ داریاں اپنے سر لے لیتا ہے۔ جب کہ 'گناہ کرلینے' کے نتائج عموماًمرد کو نہیں بھگتنے پڑتے۔ لیکن تعجب کی بات یہ ہے کہ 'دوسری شادی' کی مخالفت زیادہ تر خود خواتین کی طرف سے ۔۔۔ اور بالخصوص 'خواتین کے حقوق کی جنگ' لڑنے والی خواتین کی طرف سے۔۔۔ کی جاتی ہے۔ حالاں کہ 'نکاح' سے حقوق ملتے ہیں اور 'گناہ' سے کچھ بھی نہیں ملتا۔بقول حضرتِ بیدلؔ جونپوری:

میری جاں تجھ کو گراں بارِ محبت کر کے​
ہو گیا غیر جو روپوش تو پھر کیا ہوگا​
ثانی بھائی! کالم نگار کون ہیں؟
 

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,409
پوائنٹ
562
ابو نثر (احمد حاطب صدیقی) ، روزنامہ نئی بات ۔۔۔ لنک عنوان میں ”پوشیدہ“ ہے
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,346
پوائنٹ
800
ابو نثر (احمد حاطب صدیقی) ، روزنامہ نئی بات ۔۔۔ لنک عنوان میں ”پوشیدہ“ ہے
یہ تو میں نے بھی پڑھ لیا تھا۔ مجھے خیال ہوا کہ کہیں یہ آپ کا قلمی نام نہ ہو (ابتسامہ!)
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,477
پوائنٹ
964
لیں جی یہ ایک صاحب ہیں پیدائشی مولوی خود کو سمجھتے ہیں ، ان کی کاوش بھی اس موضوع پر ملاحظہ فرمائیں :
ہم نے کبھی اپنی مولویت سے انکار کیا ہے اور نہ اسے چھپانے کی کاوش کیونکہ ہماری زندگی بھر کی تربیت اس سوچ کے زیر اثر ہوئی ہے کہ اسلام دین فطرت اور دین رحمت ہے اسلام ضابطہ حیات ہے یا نہیں، دین کامل ضرور ہے یہ ہمارے تمام دکھوں کی دوا اور تمام بیماریوں کا علاج ہے ۔ قیامت تک آنے والی تمام نسلوں کے تمام مسائل کا حل صرف اور صرف اسلام کے پاس ہے اور وہ یہ حل چودہ صدیاں قبل پیش کرکے ابدی طور پر سرخرو ہو چکا ہے ۔ اسلام نے خدا اور کائنات کا جو تصور پیش فرمایا ہے اس کے مطابق خدا کی رحمت و ربوبیت ازل سے ابد تک بلا توقف کل کائنات پر حاوی ہے وہ قادر مطلق محض کن کہتا ہے اور فیکون آن واحد میں ہو جاتا ہے وہ اگرچہ جبار و قہار بھی ہے لیکن اس کی صفت رحمن و رحیم دیگر تمام صفات پر حاوی ہے یہی وجہ ہے کہ اسلام کے مطابق وہ ستر مائوں سے بڑھ کر اپنے بندوں اور بندیوں سے پیار کرتا ہے اسی جذبہ رحمت کے تحت اس نے انسانوں کی ہدایت و رہنمائی کیلئے ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبر بھیجے جن کا اختتام اس پیغمبر آخر الزماں ؐپر ہوا جنہوں نے دکھی و مظلوم انسانوں کی محبت میں رحمت اللعالمین ؐ کا ابدی و لازوال لقب پایا جو انسانوں کی کیا جانوروں کی تکلیف بھی نہ سہہ پاتے تھے ۔ جو دوستوں کیا دشمنوں کیلئے بھی سراپا رحمت تھے جس سے یہودیوں کی بچی کا دکھ بھی نہ دیکھا گیا جن پر درود و سلام بھیجتے ہوئے ہم ہمیشہ یہ کہتے ہیں کہ سلام اس پر جس نے خون کے پیاسوں کو عبائیں دیں سلام اس پر جس نے گالیاں سن کر دعائیں دیں سلام اس پر جس نے گنہگاروں کو یہ فرمایا کہ یہ میرے ہیں۔ یہ اسلام کی وہ بنیادی و متفق علیہ باتیں ہیں جن کا ورد ہم بچپن سے کرتے پڑھتے اور سنتے آ رہے ہیں ۔
ہم اس دعوے پر فخر کرتے نہیں تھکتے کہ اسلام دنیا بھر کے مظلوم کمزور اور بے سہارا انسانوں کا ملجا و ماویٰ ہے پیغمبر اسلام ؐ نے اپنے سینے پر دایاں ہاتھ رکھتے ہوئے فرمایا کہ ''جس کا کوئی نہیں اس کا میں ہوں '' آنجناب ؐ کا یہ عہد نامہ سربراہ ریاست و حکومت کی حیثیت سے تھا ۔
بحیثیت مسلمان ہمارا یہ بھی دعویٰ ہے کہ اسلام نے سوسائٹی کے کمزور و ناتواں طبقات بالخصوص خواتین اور اقلیتوں کو 14سو سال پہلے جو حقوق دے دیئے قیامت تک کیلئے کوئی ترقی یافتہ سے ترقی یافتہ قوم بھی اس کی گرد یا قدموں کو نہیں پہنچ سکتی ۔یہ تمام تر دعوے سر آنکھوں پر ہیں لیکن کیا ہم مسلمانوں بالخصوص علمائے اسلام کا طرز عمل و تشریحات مندرجہ بالا دعوئوں کی مطابقت میں ہے۔ہم دیکھتے ہیں کہ ہمارے علماء اور راسخ العقیدہ مسلمانی کانزلہ جب بھی گرتا ہے تو سوسائٹی کے کمزور و مظلوم طبقات بالخصوص خواتین اور اقلیتوں پر اس کا تازہ شاہکار اسلامی نظریاتی کونسل کے دو فیصلے یا سفارشات ہیں ۔ ایک فیصلے میں مردوں کو یہ لائسنس دیا گیا ہے کہ وہ جب چاہیں دوسری، تیسری یا چوتھی شادی کر سکتے ہیں اس سلسلے میں انہیں اپنی پہلی بیوی یا بیویوں سے رسمی اجازت لینے کی بھی کوئی ضرورت نہیں ہے دوسرے حقوق مرداں یہ بیان فرمائے گئے ہیں کہ انہیں نکاح کی شتابی کیلئے خود بالغ ہونے یا لڑکی کو بالغہ ہونے دینے کی بھی ضرورت نہیں ہے کمسنی یا نابالغہ کی شادی پر پابندی جیسے عائلی قانون کو بھی ختم کر دیا گیا ہے۔
کیا سوسائٹی کے کمزور طبقات کی اسلام کے مقدس نام پر یہ خدمت کی جا رہی ہے ؟جیسے پاکستان میں دوسری ،تیسری یا چوتھی شادی کے علاوہ کوئی مسئلہ ہی نہیں ہے اگر کوئی اور مسئلہ ہے تو وہ یہ کہ نابالغہ کی شادی پر پابندی کیوں ؟ ''ولی '' کا مسئلہ بھی چھیڑاجا رہا ہے۔یہ قدغن بھی لگانا چاہتے ہیں کہ وہ خیار البلوغ کا حق بھی ولی کی منشاء کے بغیر استعمال کرنے سے قاصر ہے اس لئے کہ وہ ناقص العقل ہے کہ اس کی شہادت مرد سے آ دھی ہے ۔سچ تو یہ ہے کہ وہ نصیبوں جلی انسان ہی آدھی ہے اور قیامت تک کیلئے مرد کے بالمقابل ادھوری ہی رہے گی کیونکہ نکاح اگر کنٹریکٹ ہے اور اگر وہ برابر کی پارٹنر ہوتی تو اسے فتح یا باطل کرنے کا اختیار بھی برابری کی بنیاد پر ہوتا ۔وہ چاہے جتنی بھی پڑھی لکھی اور قابل کیوں نہ ہو جائے اس کے خاوند صاحب چاہے جتنے بڑے جاہل مطلق ہوں طلاق کا حق تو بہرحال مرد صاحب کو حاصل رہے گا اگر اس دکھیاری نے ظلم کے کسی بندھن سے خلاصی پانی ہے تو اسے ایسا کوئی حق نہیں وہ عدالتوں میں جائے وکیل کرے منشیوں کی خدمت کرے دھکے کھائے پھر خلاصی پائے اور وہ بھی عدالت سرکار کی صوابدید پر ہے عدالت حضور کو مطمئن بھی کر پاتی ہے یا نہیں ۔یہ درست علاج ہے کیا اس مقدس سوسائٹی میں عورت ہونا کوئی چھوٹا جرم ہے اگر اس کے نصیب اچھے ہوتے تو کیا یہ مرد پیدا نہ ہو جاتی ۔سو اب بھگتے اس سزا کو یہ تو مرد کا ضمیمہ ہے حوا بھی تو آدم ؑ کی پسلی سے پیدا کی گئی تھی قصہ آدم میں ہمیشہ آدم ؑ کی پیدائش کا ذکر پیہم کیا جاتا ہے نقطہ دان غور فرمائیں کہ آخر حوا کی تخلیق کا وہ اسلوب کہیں کیوں بیان نہیں کیا گیا۔ کیا یہ ثبوت نہیں ہے کہ وہ ادھوری اور مرد کی مرہون منت ہے لہٰذا دوسری شادی کیلئے مرد کی مردانگی کو کیوں ایسی آزمائش،الجھائو یا مشکل میں کیوں ڈالا جائے کہ وہ پہلی بیوی یا بیویوں کی خوشنودی حاصل کرتا پھرے۔
یقیناً اس حوالے سے میرے ہم قبیلہ مولوی صاحبان ہمیں بہت سے حوالے دے کر خاموش کرا دینگے۔ان صاحبان کی قوت و طاقت کے سامنے کوئی صاحب ایمان مرد ہو یا عورت آنکھ نہیں اٹھا سکتے ایسے تمام علماء و فضلاء اور اسلامی سکالرز کے سامنے ہمارا دست بستہ یہ سوال ہے کہ اس مسئلے میں اسوہ پیغمبری کیا ہے ! ہمیں حکم دیا گیا ہے کہ اپنے پیغمبر ؐ کے اسوہ کو اپنائو جب آنجناب ؐ کی بیٹی پر آپ ؐ کے داماد مولاعلی ؓ جیسی ہستی نے سوتن لانا چاہی تو چہرہ انور غصے سے سرخ کیوں ہو گیا ؟فرمایا فاطمہ ؓ میرے دل کا ٹکرا ہے جس نے اسے ایزا دی اس نے مجھے ایزا دی اے مسلمانو غور فرمائو اپنے مردوں کو دوسری شادیوں کے اوپن لائسنس جاری کرتے ہوئے جن بچیوں پر سوتنیں لانا چاہتے ہو کیا وہ کسی کے دل کا ٹکڑا نہیں ہیں۔ اے مولانا شیرانی خدا سے ڈرو یہ کروڑوں مسلمان بچیاں کیا کسی کے دل کا ٹکڑا نہیں ہیں جن سے آپ اجازت نامے کا معمولی اختیار بھی چھین لینا چاہتے ہو ۔ مسئلہ فدک کی رمز کو سمجھو یہ بھی اپنے اسی آقا ؐ کی بچیاں ہیں خدا اور رسول ؐ کے نام پر انہیں ایزا مت پہنچائو ۔ بوجوہ یہ بیچاری دکھوں کی ماری پہلے ہی بڑی مظلوم ہیں روز تمہاری غیرت کے نام پر قتل ہوتی ہیں خدارا ان پر ترس کھائو انہیں ان کا ابدی گناہ معاف کر دو بصورت دیگر انسانی شعور ہم جیسے مولوی صاحبان کا تیا پانچہ کر دےگا۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,477
پوائنٹ
964
کالم کے اندر جذبات سے کھیلنے کا سامان موجود ہے البتہ عنوان میں جو سوال اٹھایا گیا ہے اس کا جواب کہیں موجود نہیں ۔
ایک جملہ بولا جاتا ہے :
مولوی چور نہیں ، چوروں نے داڑھیاں رکھ لی ہیں ۔
ان کالم نگار صاحب کا بھی یہی حال ہے کہ اپنی پریشان خیالیوں کو فتوی بنانے کے چکر میں اسلام اور مولویوں سے تعلق ثابت کرنے کے بعد اصل واردات شروع کی ہے ۔
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,346
پوائنٹ
800
اللہ سمجھیں!
ایسے لوگوں سے جو غلطی سے مسلمان گھرانوں میں پیدا ہوگئے، جن کے نام تو مسلمانوں جیسے ہیں
لیکن جگالی مغربی فکر کی کرتے ہیں۔

جو کلمہ اللہ رسول کا پڑھتے، کتاب وسنت کو ماننے کا دعویٰ کرتے ہیں،
لیکن ان کی ساری کوششیں مغربی تہذیب کو اپنانے، اسی اسلامی معاشرے میں جواز بلکہ بڑھاوا دینے کی ہوتی ہیں۔

یہ ’دو رُخے‘ لوگ آج یہ طے نہیں کر سکے کہ انہوں نے دو جماعتوں میں سے مکمل طور پر کس کا ساتھ دینا ہے۔
حدیث مبارکہ کے مطابق یہ اس بکری کی طرح ہیں جو دو ریوڑوں کے پیچھے ہے، کبھی اس ریوڑ میں شامل ہوجاتی ہے تو کبھی اس ریوڑ میں۔

یہ آج تک تذبذب میں ہیں اور اللہ نے ان کی ایسی مت ماری ہے کہ انہیں کچھ سجھائی ہی نہیں دیتا:

﴿ مُّذَبْذَبِينَ بَيْنَ ذَٰلِكَ لَا إِلَىٰ هَـٰؤُلَاءِ وَلَا إِلَىٰ هَـٰؤُلَاءِ ۚ وَمَن يُضْلِلِ اللَّـهُ فَلَن تَجِدَ لَهُ سَبِيلًا ١٤٣ ﴾ ۔۔۔ سورة النساء
وه درمیان میں ہی معلق ڈگمگا رہے ہیں، نہ پورے ان کی طرف نہ صحیح طور پر ان کی طرف اور جسے اللہ تعالیٰ گمراہی میں ڈال دے تو تو اس کے لئے کوئی راه نہ پائے گا (143)
ان کے دلوں میں روگ ہے، شک ہے۔ اور اللہ نے ان کے اس مرض کو - نوله ما تولى کے تحت - مزید بڑھا دیا ہے: في قلوبهم مرض فزادهم الله مرضا

انہیں یہود ونصاریٰ سے بڑی محبت ہے، ان کے اعمال اور کارناموں پر یہ واری جاتے ہیں۔ انہیں برے لگتے ہیں تو دین اور اہلِ دین۔ ہر وقت دیندار طبقہ اور علمائے کرام ان کے نشانے پر ہوتے ہیں۔ اور اس کی وجہ ان اہل دین واہل علم کی عام بشری کمزوریاں نہیں (جو عام لوگوں کی طرح ان میں بھی ہیں۔ جن سے کوئی بھی معصوم نہیں) بلکہ ان کی مغربی سوچ وفکر کی مخالفت، ان کا مغربی تہذیب کی راہ میں آڑ بننا ہے جو انہیں ایک آنکھ نہیں بھاتا۔

بحیثیت مسلمان ہمارا یہ بھی دعویٰ ہے کہ اسلام نے سوسائٹی کے کمزور و ناتواں طبقات بالخصوص خواتین اور اقلیتوں کو 14سو سال پہلے جو حقوق دے دیئے قیامت تک کیلئے کوئی ترقی یافتہ سے ترقی یافتہ قوم بھی اس کی گرد یا قدموں کو نہیں پہنچ سکتی ۔یہ تمام تر دعوے سر آنکھوں پر ہیں لیکن کیا ہم مسلمانوں بالخصوص علمائے اسلام کا طرز عمل و تشریحات مندرجہ بالا دعوئوں کی مطابقت میں ہے۔ہم دیکھتے ہیں کہ ہمارے علماء اور راسخ العقیدہ مسلمانی کانزلہ جب بھی گرتا ہے تو سوسائٹی کے کمزور و مظلوم طبقات بالخصوص خواتین اور اقلیتوں پر اس کا تازہ شاہکار اسلامی نظریاتی کونسل کے دو فیصلے یا سفارشات ہیں ۔ ایک فیصلے میں مردوں کو یہ لائسنس دیا گیا ہے کہ وہ جب چاہیں دوسری، تیسری یا چوتھی شادی کر سکتے ہیں اس سلسلے میں انہیں اپنی پہلی بیوی یا بیویوں سے رسمی اجازت لینے کی بھی کوئی ضرورت نہیں ہے دوسرے حقوق مرداں یہ بیان فرمائے گئے ہیں کہ انہیں نکاح کی شتابی کیلئے خود بالغ ہونے یا لڑکی کو بالغہ ہونے دینے کی بھی ضرورت نہیں ہے کمسنی یا نابالغہ کی شادی پر پابندی جیسے عائلی قانون کو بھی ختم کر دیا گیا ہے۔۔
افضال ریحان صاحب (جو جاوید احمد غامدی جیسی فکر کے حامل ہیں) اسلامی نظریاتی کونسل کے علماء کی دو سفارشات پر سخت تنقید کر رہے ہیں:
1۔ کوئی شخص دوسری شادی کرنے کیلئے پہلی بیوی کی اجازت کا پابند نہیں۔
2۔ عائلی قانون کے مطابق کوئی لڑکی لڑکا 16، 18 سال کی عمر میں بالغ متصور ہوگا، اس سے پہلے نکاح کرنا جرم ہے، اسلامی نظریاتی کونسل نے اس کی مخالفت کی ہے۔

اپنے پورے کالم میں وہ ان علماء پر برسے ہیں لیکن ان دو موضوعات پر ان سفارشات کی تردید میں کوئی ایک بھی دلیل پیش نہیں کی۔

انہوں نے تنقید کی ہے تو کتاب وسنت سے ثابت: بعض حالات میں عورت کی آدھی گواہی پر، نکاح میں ولی کی ضرورت پر، سیدہ حواء کے سیدنا آدم علیہ السلام کی پسلی سے پیدا ہونے پر، صرف مرد کو طلاق کا حق حاصل ہونے پر! انہیں شدید اعتراض ہے کہ مغرب کی طرح یہ علماء (درحقیقت دین اسلام) عورت کو طلاق کا حق کیوں نہیں دیتے؟؟

ان کے نزدیک شائد عائلی قوانین کی اہمیت کتاب وسنت سے بھی زیادہ ہے۔ کتاب وسنت کے مطابق کسی کا نکاح بلوغت سے پہلے ہو سکتا ہے، جیسے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا نکاح چھ سال کی عمر میں ہوا، البتہ رخصتی بلوغت کے بعد ہونی چاہئے۔ سورۂ طلاق کی آیت نمبر 4 کی رو سے تو بعض علماء نے رخصتی کی اجازت بھی بلوغت سے پہلے دی ہے کہ اس آیت کریمہ میں لڑکی جسے ابھی تک حیض آنا شروع نہیں ہوا کی طلاق کے بعد عدت (تین مہینے) بیان کی گئی ہے اور سب کو علم ہے کہ عدت صرف مدخولہ کی ہوتی ہے۔
اسی طرح بلوغت کیلئے 16 یا 18 سال کی عمر مقرر کرنا سراسر ظلم ہے، یہ کتاب وسنت سے صریح مخالف ہے۔ کتاب وسنت کے مطابق مخصوص علامات ظاہر ہونے پر لڑکا لڑکی بالغ ہوجاتے ہیں۔ اور اگر کسی میں 15 سال کی عمر تک کوئی علامت ظاہر نہ ہو تو وہ بالغ متصور ہوگا۔ اگر انہیں مغربی تہذیب اتنی ہی پسند ہے کہ مغرب میں ایسی بہت ساری مثالیں موجود ہیں کہ لڑکیاں 16 سال تو چھوڑیے، دس سال کی عمر سے بھی پہلے بالغ ہوگئیں۔ اور ایسے واقعات آن دی ریکارڈ موجود ہیں۔

اپنے پورے کالم میں انہوں نے اگر کوئی دلیل پیش کی ہے تو وہ احادیث مبارکہ میں موجود سیدنا علی اور سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہما کا قصہ بیان کیا ہے کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے سیدہ فاطمہ کی موجودگی میں ابو جہل کی بیٹی سے شادی کرنا چاہی تو نبی کریمﷺ نے ناراضگی کا اظہار فرمایا کہ اللہ کے نبی کی بیٹی اور اللہ کے دشمن کی بیٹی ایک آدمی کے نکاح میں کیسے جمع ہوسکتی ہیں؟؟ جس سے انہوں نے بلا جواز یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ دوسری شادی کیلئے پہلی بیوی سے اجازت لینا ضروری ہے۔ حالانکہ اس واقعے میں تو ایسی کوئی بات موجود نہیں ہے۔ اس واقعے میں کہاں موجود ہے کہ سیدنا علی نے سیدہ فاطمہ سے اجازت مانگی؟ یا نبی کریمﷺ نے سیدنا علی کو سیدہ فاطمہ سے اجازت لینے کو کہا؟؟؟ اور اگر سیدہ فاطمہ اجازت دے دیتیں تو سیدنا علی کو شادی کرنے کی اجازت ہوتی؟؟ نہ اس واقعے سے دوسری شادی سے مذمت ہوتی ہے۔ نادان نے کہاں کی بات کہاں جوڑی ہے؟!

نبی کریمﷺ کی عملی سنت مبارکہ موجود ہے کہ نبی کریمﷺ نے بذاتِ خود سفر میں شادیاں کی ہیں اور سب کو معلوم ہے کہ اس زمانے میں موبائل فون یا انٹرنیٹ نہیں ہوا کرتے تھے کہ مسافر حضرات سفر کے دوران گھروالوں سے کسی بات کی اجازت لیتے ہوں۔ کیا نبی کریمﷺ نے سفر میں شادیوں کیلئے مدینہ منورہ میں موجود تمام ازواج مطہرات سے اجازت لی؟؟؟

اللہ تعالیٰ ہماری اصلاح فرمائیں!

(افضال ریحان کا یہ کالم پڑھنے کے بعد نہ رہا گیا تو یہ ٹوٹے پھوٹے الفاظ ’سپرد کی بورڈ‘ کیے ہیں۔)
 

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,409
پوائنٹ
562
سوتن حرام، گرل فرینڈ حلال (محمد بلال غوری۔ جنگ)​
میں مغربی تہذیب کے عیب چننے والوں میں سے ہوں نہ ان کی ہر بات پر سر دھننے والوں میں سے۔میری ہمیشہ یہی کوشش رہی ہے کہ خوبیاں مستعار لی جائیں اور خامیاں آشکار کی جائیں تاکہ جن نادانیوں کے باعث ان کا معاشرہ اخلاقی گراوٹ کا شکار ہے ،ہم اس نوع کی حماقتوں کے مرتکب نہ ہوں۔میرے سامنے برطانیہ کے نہایت معتبر اخبارات ڈیلی میل اور ٹیلی گراف کی رپورٹیں پڑی ہیں ۔میں ایک نظر انہیں دیکھتا ہوں اور پھر دوسری شادی سے متعلق اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات پر ہو رہی تنقید و تعریض سے متعلق سوچتا ہوں تو مستقبل کی آنکھ میں جھانکتے ہوئے خوف آتا ہے۔برطانیہ کے سرکاری شماریاتی ادارے ONS نے حال ہی میں اپنی سالانہ رپورٹ جاری کی تو اس کی گونج بہت دور تک سنائی دی۔ برطانیہ میں شادی کا بندھن تو کب کا قصہ ء پارینہ بن چکا مگر اب سرکاری سطح پر اس بات کا اعتراف کر لیا گیا ہے کہ شادی شدہ جوڑے عددی اعتبار سے اقلیت میں شمار ہوتے ہیں۔1995ء میں 30سال سے زائد عمر کے افراد میں سے 56.2فیصد رشتہ ازدواج میں منسلک تھے۔2005ء میں شادی شدہ جوڑوں کی شرح کم ہو کر 50.3 فیصد رہ گئی اور حالیہ رپورٹ جس میں 2011ء کے اعداد وشمار شامل ہیں ،اس کے مطابق 30سال سے زائد عمر کے برطانوی شہریوں میں سے صرف 47فیصد میاں بیوی کی حیثیت سے رجسٹرڈ ہیںباقی 53فیصد کسی نکاح اور شادی کے بغیر ایک چھت تلے اقامت پذیر ہیں یا پھر گھاٹ گھاٹ کا پانی پینے کی روش پر کاربند ہیں۔16سال قبل بغیر شادی کے ایک ساتھ رہنے والے جوڑوں کی تعداد4ملین تھی جو اب بڑھ کر 17.8ملین ہو چکی ہے۔آئے دن برطانوی دانشور سر جوڑ کربیٹھتے ہیںاور اس سوال کا جواب ڈھونڈنے کی کوشش کرتے ہیں کہ آخر شادی کرنے کا رجحان ختم کیوں ہوتا جا رہا ہے؟اس سوال کا جواب ٹیلی گراف کی ایک رپورٹ سے ملتا ہے کہ شادی کو اس قدربھاری اور مقدس پتھر بنا دیا گیا ہے کہ کوئی اسے اُٹھانے کی ہمت نہیں کرتا۔حقوق نسواں کے مجارور جو بات تو عورت کی آزادی کی کرتے ہیں لیکن ان کا مقصد عورت تک رسائی کی آزادی ہوتا ہے،ان ظالموں نے شادی اور طلاق کے سخت قوانین کی صورت میں خواتین کا وہ استحصال کیا کہ اب کوئی ان سے شادی کرنے پر تیار نہیں ہوتا۔لوگ انہیں ٹشو پیپر کی طرح استعمال کرتے ہیں اور پھینک دیتے ہیں۔اگر ایک ساتھ رہنا مقصود ہو بھی تو باقاعدہ شادی سے گریز کیا جاتا ہے تاکہ نان نفقہ ،حق مہر اور دیگر حقوق ادا نہ کرنا پڑیں۔یہ صورتحال صرف برطانیہ تک محدود نہیں ،تمام یورپی ممالک اور اس تہذیب کے سرخیل امریکہ میں کم و بیش یہی حالات ہیں۔

ہمارے وہ بہی خواہ جو خواتین کی وکالت کر کے ان کا مقدمہ خراب کر رہے ہیں اور دوسری شادی کو جرم تصور کرتے ہیں،وہ بھی شائد یہی چاہتے ہیں کہ مستورات کو ٹشو پیپر بنا دیا جائے جسے استعمال کر کے پھینکا جا سکے۔سب سے پہلے تو یہ اعتراض کیا گیا کہ تھر میں قحط سالی ہے،معیشت نازک دور سے گزر رہی ہے ،لوگ مہنگائی و بے روزگاری سے تنگ ہیں اور ان مولویوں کو دوسری شادی کی فکر کھائے جا رہی ہے۔جس دن اسلامی نظریاتی کونسل نے دوسری شادی کے لیئے بیوی سے اجازت لینے کے قانون کو شریعت سے متصادم قرار دیا ،اسی روز کئی ہائیکورٹس اور ماتحت عدالتوں میں لو میرج کے مقدمات زیر سماعت تھے اور معزز جج صاحبان نے قوانین کی روشنی میں انہیں نمٹاتے ہوئے رولنگ دی۔اس پر تو کسی کو یہ خیال نہیں آیا کہ ایک طرف تھر میں لوگ بھوکوں مر رہے ہیں اور دوسری طرف لو میرج کے مقدمات نمٹائے جا رہے ہیں۔اس لیئے کہ مارکیٹ اکانومی کے تحت چلنے والی دانشوری کی دکانوں پر صرف وہی جنس بیچی جا تی ہے جو مغربی منڈی میں مقبول ہو۔چونکہ وہاں یک زوجگی کا تصور تھا وہ بھی اب ناپید ہوتا جا رہا ہے ۔اس لیئے ہمارے دانشور بھی دوسری شادی کی بات ہوتے ہی کانوں کو ہاتھ لگانے لگتے ہیں۔ان کی بد حواسی کا یہ عالم ہے کہ کبھی تو ایک سے زائد شادیوں کی اجازت پر اسلام کو مطعون کرتے ہیں اور کبھی اسلام کو ہی بطور تاویل پیش کرتے ہیں مثلاًاس ضعیف روایت کا حوالہ دیا جاتا ہے جس کے مطابق حضرت علیؓ نے دوسری شادی کا ارادہ ظاہرکیا تو حضرت فاطمہ ؓ خفا ہوگئیں اور آپ ﷺ نے کہا جس نے فاطمہؓ کا دل دکھایا اس نے میرا دل دکھایا۔آنحضور ﷺسے منسوب یہ روایت قرین قیاس معلوم نہیں ہوتی کیونکہ اگر انہیں اپنی لخت جگر کے لیئے سوتن گواراہ نہیں تھی تو یقیناوہ کسی اور کی بیٹی کے ساتھ بھی یہ معاملہ برداشت نہ کرتے ۔بعض شیخ الحدیث اس کا پس منظر یہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت فاطمہ ؓ اور حضورﷺ کی ناراضگی کی وجہ دوسری شادی نہیں تھی بلکہ جس جگہ شادی کا سوچا جا رہا تھا وہ تکلیف دہ بات تھی۔بہرطور اس روایت کو درست تسلیم بھی کر لیا جائے تو میرا سوال یہ ہے کہ اگر ایک پیغمبر کی بیٹی جو جنت کی خواتین کی سردار ہے،اگر اس عظیم المرتبت بیوی کی رفاقت میں حضرت علیؓ کو دوسری بیوی کی حاجت محسوس ہو سکتی ہے تو پھر آجکل کے مرد حضرات پر دوسری شادی کے حوالے سے کیسے قدغن لگائی جا سکتی ہے؟

جب سب دلائل پھیکے پڑنے لگتے ہیں تو دوسری شادی کی مخالفت میں ایک آخری دلیل یہ پیش کی جاتی ہے کہ اسلام نے اگر اجازت دی ہے تو ساتھ ہی عدل کی شرط بھی لگا دی ہے۔اب چونکہ انسان کسی بھی صورت انصاف نہیں کر سکتا ،اس لیئے بہتر یہی ہے کہ ایک بیوی پر ہی اکتفا کیا جائے۔جب زندگی کے ہر معاملے میں عدل کی دھجیاں اڑانے والے یہ لوگ عدل کا قفل لگا کر دوسری شادی کا دروازہ بند کر کے بدکاری کی کھڑکی کھولنے کی کوشش کرتے ہیں تو میں سوچتا ہوں کیا اسلام نے صرف دوسری شادی کے معاملے میں ہی عدل کا حکم دیا ہے؟عدل کا حکم تو پہلی بیوی کے حوالے سے بھی ہے اور انسان خطا کار ہے کمزور ہے تو کیا ایک شادی بھی نہ کی جائے اور یورپی معاشرے کی طرح شادی کیئے بغیر بے عدلی اور نا انصافی روا رکھی جائے؟عدل کا حکم تو بچوں کے درمیان بھی ہے تو کیا ایک سے زائد بچے پیدا نہ کیئے جائیں کہ ان کے درمیان انصاف نہ کر سکیں گے؟عدل کا تعلق تو استطاعت کے ساتھ ہے۔اگر آپ تمام بیویوں کو الگ کمرہ لیکر دینے کی حیثیت رکھتے ہیں تو الگ کمرہ بنوا دیں ،اگر استطاعت ہے تو سب کو الگ گھر میں رکھیں۔جس طرح پہلی شادی کے ضمن میں حق مہر کا تعین شوہر کی مالی حیثیت کے مطابق ہوتا ہے اسی طرح دوسری یا تیسری بیوی کے حوالے سے بھی سب کے عدل کا معیار اور تقاضا الگ الگ ہے۔اور اسلام نے عدل کی شرط نہیں رکھی ،حتی المقدور عدل کی شرط رکھی ہے۔برصغیر کے اسلام پر چونکہ ہندوازم کی گہری چھاپ ہے اسلئے مذہبی گھرانوں کی خواتین بھی دوسری شادی کوقبول کرنے پر تیار نہیں ہوتیں جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ مردیا تو گناہ کی راہ پر چل نکلتے ہیں یا پھر خفیہ طور پر دوسری شادی کر لیتے ہیں۔ہردونوں صورتوں میں وہ بیویاں بھی گناہ میں برابر کی شریک ہیں جو دوسری شادی کا نام آتے ہی آگ بگولہ ہو جاتی ہیں۔بدقسمتی سے ہمارے ہاں بھی یہ چلن عام ہوتا جا رہا ہے کہ سوتن گوارہ نہیں تو گرل فرینڈ پر اکتفا کریں ۔وہ مرد جو دوسری شادی کی ہمت کر لیتے ہیں انہیں بھی دوسری بیوی کو گرل فرینڈ کی طرح چھپا کر ہی رکھنا پڑتا ہے۔
 

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,409
پوائنٹ
562
بحث دوسری اور تیسری بیوی کی...انسانوں کے نام​
تحریر: افضال ریحان، جنگ​
ہماری تہذیب کے پاسداران کو تہذیب مغرب سے یہ شکایت ہے کہ اس میں انسانی حقوق اور حقوق نسواں کے نام پر جہاں دیگرمادر پدر آزادیاں دے دی گئی ہیں وہیں جنسی آزادی بے راہ روی تک چلی گئی ہے خاندانی نظام کا شکنجہ ڈھیلا پڑگیا ہے کیونکہ عورت اور مرد کو برابر کی حیثیت دینے سے مرد کی سربراہی (قوامیت) کا روایتی تصور ریزہ ریزہ ہو گیا ہے۔

انصاف پسندی کا تقاضا یہ ہے کہ تصویر کے دونوں رخ ملاحظہ کئے جائیں جس بے رحمی و بے باکی سے ہم مغربی تہذیب پر تنقید کے نشتر چلاتے ہیں کیا اس ہمت سے ہم اپنی تہذیب کا بھی تنقیدی جائزہ لے سکتے ہیں؟ مغربی تہذیب کے خلاف آپ جتنی چاہے بدزبانی یا لعن طعن کرلیں مجال ہے کوئی آپ کا بال بھی ٹیڑھا کر سکے۔ چومسکی امریکہ کے اندر بیٹھ کر امریکی ریاست کے خلاف جائز ناجائز ہر چیز بولتا اور لکھتا ہے لیکن تصور بھی نہیں کہ کوئی اس کو دھمکانے یا ڈرانے والا ہو پوری زندگی وہ وہاں معزز بن کر جیتا اور رہتا ہے۔ برٹینڈرسل یورپ اور انگلینڈ میں سربازار دھڑلے سے مغربی معاشرت کی مبادیات پر چوٹیں لگاتا ہے۔ مسیحی سماج میں بیٹھ کر مسیحیت سے ارتداد کا اعلان کرتا ہے Why I am not a christian کا مصنف سنچری بھر کی زندگی پاتا ہے اور کبھی کہیں کوئی اس کی طرف ٹیڑھی آنکھ سے نہیں دیکھتا۔ یہ ہے مغربی سماجی و عقائد کی تہذیبی عظمت، کیا ہماری تہذیب کے نام نہاد علمبرداران اپنے کسی بھائی کو بھی اس نوع کا کوئی ایک حق دینے کا یارا یا حوصلہ رکھتے ہیں؟ یہ لوگ ڈھنڈورا کس چیز کا پیٹ رہے ہیں؟ اس ظالمانہ خاندانی نظام کا جس میں دادافیصلے کرے اور پوتے پوتیاں بے چوں و چرا امناَ و صدقناَ کہنے پر مجبور ہوں یا پھر زندگی بھر کے لئے گھٹ گھٹ کر مر جائیں۔ پسند یا مرضی کی شادی پر بیس بائیس سالہ لڑکی کو اس کے بچے سمیت گولیوں سے بھون دیا جاتا ہے کہ اس نے خاندان کی ناک کٹوا دی۔ چودھری صاحب کی عزت خاک میں ملا دی۔

یہ کس نام نہاد سوسائٹی کی پاکبازی پر فخر کیا جا رہا ہے۔ جو جھوٹ اور منافقت سے لتھری ہوئی ہے جہاں پیسہ آ جائے تو اکثر کا کوئی حساب نہیں، غربت آ جائے تو اپنے بھی پہچاننے سےا نکار کردیتے ہیں۔ اکثر وبیشتر ریا کاری کے بغیر کوئی عبادت مکمل ہوتی ہے نہ سخاوت۔ ذرا عائلی و جنسی زندگی پر بھی ایک نظر ڈالیں اگرچہ جنسی بے راہ روی پر ہم نے ان گنت پابندیاں لگا رکھی ہیں لیکن کن کے لئے صرف سفید پوش غریب اور کم وسیلہ عوام کے لئے، امرا کے لئے کونسی عیاشی ہے جو ہمارے سماج میں میسر نہیں؟؟ غریبوں یا سفید پوشوں کے لئے تفریح کے تمام دروازے بند کرنے سے جو فرسٹریشن اندر ہی اندر پنپتی ہے اس کا لاوا کیا آپ بڑھتے ہوئے جنسی جرائم، چوریوں اور ڈکیتیوں کی صورت نہیں دیکھ رہے۔ اس کا نتیجہ آپ اپنے تھانے کچہریوں میں درج ہونے والے ریپ کیسز سے لگا لیں اور ساتھ ہی سروے کریں کہ کتنی خواتین ہیں جوسوسائٹی میں عزت برباد ہونے کے خوف سے آنسو بہاتے چہرہ چھپا لیتی ہیں اور اپنی زبانیں گنگ کر لیتی ہیں۔

ایسی فرسٹریشن میں اگر چھوٹی چھوٹی معصوم بچیوں سے جنسی زیادتیاں ہوں گی تو آپ پر ان کی وجوہ بھی واضح ہونی چاہئیں؟؟ اس حوالے سے بھی غور کیا جانا چاہیے کہ ہماری سوسائٹی میں وہی بچیاں اگر سمجھ بوجھ والی ہیں تو بالعموم جنسی زیادتی کے بعد قتل کیوں کردی جاتی ہیں؟ ظاہر ہے جب سماج میں یہ جرم اتنا بڑا ہے تو پھر اس کا ثبوت کیوں چھوڑا جائے گا؟ اس سوال پر بھی غور ہونا چاہیے کہ بچوں اور بچیوں پر جنسی زیادتیوں کے حوالے سے بالعموم ہمارے روایتی طبقات کی طرف اشارے کیوں پائے جاتے ہیں؟ بچیوں کی پیدائش پر ہمارے سماج میں ہی اتنا رونا کیوں پڑ جاتا ہے اولاد نرینہ کے لئے کیوں دعائیں کروائی جاتی ہیں اور پیروں فقیروں کے آستانے آباد کئے جاتے ہیں۔ مغرب میں تو یہ محرومیاں کوئی ایشوز ہی نہیں رہی ہیں۔ مثال کے طور پر موجودہ امریکی صدر باراک اوباما کی صرف دو بیٹیاں ہیں، سابق صدر بش کی بھی بیٹیاں ہی تھیں بیٹا کوئی نہیں تھا اس سے پہلے صدر کلنٹن کی محض ایک بیٹی تھی لیکن کبھی کسی ایسے ایشو کا سوال بھی پیدا ہوا؟جبکہ ہمارے سماج میں کسی معمولی چودھری یا مولوی صاحب کی اولاد نرینہ نہ ہو تو مصیبت پڑی ہوتی ہے دوسری اور تیسری شادی سے بھی گریز نہیں کیا جاتا بلکہ ایک شادی والے بھی بیٹیاں پیدا ہونے پر بیٹے کے چکر میں لمبی لائنیں لگا دیتے ہیں کیا کبھی ہمارے کسی مولانا صاحب نے ان سماجی مجبوریوں اور دردناک رویوں پر غور فرمایا۔ ان تمامتر الجھنوں میں سارے مسائل اور سارے دکھ خواتین کے لئے ہوتے ہیں کئی خواتین کو بیٹا جنم نہ دینے کے جرم میں طلاقیں ہوتی ہیں یا سوتن سہنی پڑتی ہے۔ یہ تقدیس مشرق کے نعرے مارنے والے کبھی غور کریں ہمارے سماج میں طلاق یافتہ خواتین کی کیا قدر و منزلت ہے؟؟ مردوں کی عیاشی کے لئے تو جھٹ سے کہہ دیا جاتا ہے کہ اگر آبادی میں مردوں کی نسبت عورتوں کی تعداد زیادہ ہو جائے تو اس کا حل سوائے اس کے کچھ نہیں کہ مرد زیادہ شادیاں کریں ہم پوچھتے ہیں کہ بفرض محال معاملہ اس کے الٹ ہو جائے یعنی مردوں کی تعداد زیادہ اور عورتوں کی کم ہو جائے جس کی دنیا میں بہت سی مثالیں بھی موجود ہیں چین کے حوالے سے کچھ عرصہ قبل یہ رپورٹ آئی تھی کہ وہاں کئی خطوں میں Female چائلڈ کی جنس معلوم ہونے کے بعد اسقاط حمل کے اتنے واقعات ہوئے کہ عورتوں کا تناسب خاصا کم اور مردوں کا زیادہ ہوگیاتو دلیلیں ڈھونڈنے والے کیا وہاں اسی اصول پر یہ فیصلہ چاہیں گے کہ ایک خاتون بھی دوسرے، تیسرے یا چوتھے مرد سے شادی کرلے؟؟

بدچلنی، بے راہ روی، بے حیائی، بے غیرتی اور کم ظرفی کے الفاظ ہیں جو کسی بھی وسیع النظر انسان کو ہرگز مناسب نہیں، اصل چیز احترام و وقار انسانی ہے اور پھر جو جتنی کمزور پوزیشن میں ہوتا ہے اس کی اتنی زیادہ دلجوئی کی جانی چاہیے۔ اگر میرے کسی تفریحی فعل سے میرے ملازم کو بھی دکھ پہنچتا ہے تو مجھے اس سے بھی احتراز کرنا چاہیے چہ جائیکہ آپ کی اس حرکت سے آپ کی شریکِ حیات کو دکھ پہنچ رہا ہے حالانکہ اسکی خوشی و دلجوئی آپ کا سب سے بڑا اخلاقی فرض ہے بلاشبہ اپنی خوشی و تسکین کا حصول ہر انسان کا بلاتمیز جنس، فطری و بنیادی حق ہے لیکن کسی دوسرےانسان کی خوشی غارت کئے بغیر۔ کوئی بھی دو انسان اگر کسی تیسرےتکلیف دیئے بغیر جائز خوشی حاصل کرتے ہیں تو کسی بھی سماج کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ انہیں ٹیڑھی نظروں سے دیکھے یاان کے احترام و وقار میں کٹ لگائے۔ ان حوالوں سے جتنی بھی سماجی و اخلاقی ہدایات جاری ہوئی ہیں خواہ آسمانی طور پر یا زمینی طور پر ان سب کی حیثیت وقتی و ہنگامی ہے اور آئندہ بھی اس نوع کے جو ضوابط بنیں گےوہ عالمگیر ہوں گےنہ ابدی، لہٰذا ہر نسل یہ حق رکھتی ہے کہ وہ اپنے اخلاقی ضوابط اپنی زمانی ضرورت کی مطابقت میں خود طے کرے جب زمانہ اور زمانی تقاضے ہر لحظہ نمو پذیر ہیں تو مجرد سماجی اخلاقیات کو جام یا جامد کرنا انسانیت پر ظلم کا دوسرا نام ہے۔ وقت آگیا ہے کہ انسانی خوشیوں کو قدیمی اعتقادات کی بھینٹ چڑھنے سے روک دیا جائے مغربی تہذیب حریت فکر کی عظمت سے دقیانوسی زنجیروں کو توڑ چکی ہے جبکہ تہذیب مشرق کی بیشتر سوسائٹیاں ہنوز اپنے قدامت پسند متشدد گروہوں کی یرغمال بنی ہوئی ہیں آج نہیں تو کل ہمیں سماجی اخلاقیات کے نئے عہد ناموں کے لئے اپنے سینے کشادہ کرنا ہوں گے۔
 
Top