• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

دوسرے کومشرک کہنے والا خود مشرک ہوگا ، اس روایت کی حقیقت کیا ہے؟

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,999
ری ایکشن اسکور
9,800
پوائنٹ
722
امام بزار رحمہ اللہ ( المتوفى : 292)نے کہا:
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مَرْزُوقٍ ، وَالْحُسَيْنُ بْنُ أَبِي كُبَيْشَةَ ، قَالا : أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَكْرٍ الْبُرْسَانِيُّ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا الصَّلْتُ ، عَنِ الْحَسَنِ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا جُنْدُبٌ ، فِي هَذَا الْمَسْجِدِ يَعْنِي مَسْجِدَ الْبَصْرَةِ ، أَنَّ حُذَيْفَةَ حَدَّثَهُ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللهِ صلى الله عليه وسلم : إِنَّمَا أَتَخَوَّفُ عَلَيْكُمْ رَجُلا قَرَأَ الْقُرْآنَ حَتَّى إِذَا رُئِيَ عَلَيْهِ بَهْجَتُهُ ، وَكَانَ رِدْءًا لِلإِسْلامِ اعْتَزَلَ إِلَى مَا شَاءَ اللَّهُ ، وَخَرَجَ عَلَى جَارِهِ بِسَيْفِهِ ، وَرَمَاهُ بِالشِّرْكِ.
ولفظ اخر:
" أَخْوَفُ مَا أَخَافُ عَلَى أُمَّتِي رَجُلٌ قَدْ قَرَأَ الْقُرْآنَ حَتَّى إِذَا لَمْ يَبْقَ عَلَيْهِ أَلِفٌ وَلا وَاوٌ رَمَى جَارَهُ بِالْكُفْرِ، وَخَرَجَ عَلَيْهِ بِالسَّيْفِ ".قَالَ: قَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَيُّهُمَا أَوْلَى بِالْكُفْرِ الرَّامِي أَوِ الْمَرْمِيُّ؟ قَالَ: " الرَّامِي ".

[مسند البزار :/ 427 واللفظ الاول لہ ، واخرجہ ایضا ابویعلی کمافی إتحاف الخيرة المهرة بزوائد المسانيد العشرة (6/ 339) واللفظ الآخر لہ ،ومن طریقہ الھروی فی ذم الكلام وأهله (1/ 103) و اخرجہ ایضا ابن حبان فی صحیحہ (1/ 282) وابن عساکر فی تبيين كذب المفتري ص: 403 من طریق محمدبن بکر بہ ، واخرجہ ایضا ابوبکر الانباری کما فی المنتقی (ص: 34) و قوام السنہ فی الحجة (2/ 452) والبخاری فی التاریخ: 4/301 و ابو نعیم فی معرفة الصحابة: 2/ 690 ،کلھم من طریق علی ابن المدینی عن البرسانی بہ]۔

یہ روایت ضعیف ہے جس کی تفصیل درج ذیل ہے:
روایت مذکورہ میں ’’صلت ‘‘ نامی راوی کون ہیں اس سلسلے میں اختلاف ہے ۔

ابن حبان رحمہ اللہ کی رائے یہ ہے کہ یہ صلب بن بھرام ہیں ، موصوف فرماتے ہیں:
الصلت بن بهرام كوفى عزيز الحديث يروى عن جماعة من التابعين روى عنه أهل الكوفة وهو الذي يروى عن الحسن روى عنه محمد بن بكر المقرىء الكوفى ليس بالبرساني ومن قال إنه الصلت بن مهران فقد وهم إنما هو الصلت بن بهرام [الثقات لابن حبان: 6/ 471]۔

لیکن امام بخاری رحمہ اللہ نے روایت مذکورہ میں صلت کی تعیین صلت بن مھران سے کی ہے، امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
2907- صَلت بْن مِهران.قَالَ لَنَا عليٌ: حدَّثنا مُحَمد بن بَكر، حدَّثنا الصَّلت، حدَّثنا الْحَسَنُ، حدَّثني جُندُب، أَنَّ حُذَيفة حَدَّثَهُ، أَنَّ النَّبيَّ صَلى اللَّهُ عَلَيه وسَلم قَالَ: أَخوَفُ مَا أَتَخَوَّفُ رَجُلٌ قَرَأَ القُرآنَ، خَرَجَ عَلى جارِهِ بِالسَّيفِ، ورَماهُ بِالشِّركِ.[التاريخ الكبير للبخاري: 4/ 301]۔

امام بخاری رحمہ اللہ کی اس صراحت سے حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اتفاق کیا ہےبلکہ اس کی بنیاد پر حافظ ابن حجر نے ابن حبان پر رد کیا ہے اورکہا:
قلت هذا الذي رده جزم به البخاري عن شيخه علي بن المديني وهو أخبر بشيخه وقال البخاري في التاريخ قال لي علي ثنا محمد بن بكر البرساني عن الصلت بن مهران حدثني الحسن البصري فذكر حديثا[تهذيب التهذيب لابن حجر: 4/ 433]۔

علامہ البانی رحمہ اللہ کا بھی یہی موقف ہے کہ مذکورہ روایت میں صلت یہ صلت ابن مھران ہی ہیں ، بلکہ علامہ البانی رحمہ اللہ نے امام بخاری کی تصریح کے ساتھ ساتھ ابوحاتم کے حوالے سے بھی اپنے موقف کو مدلل کیا ہے چنانچہ فرماتے ہیں:'
إذا كان الأمر كذلك؛ فمن يكون الصلت هذا؟ أما البخاري فصنيعه المتقدم صريح بأنه ابن مهران؛ لأنه ساق الحديث في ترجمته، ونحوه قول ابن أبي حاتم فيه (٤/٤٣٩/٩٢٧ ١) : "روى عن الحسن وشهر بن حوشب، وعنه محمد بن بكر البرساني وسهل ابن حماد". وعليه " فالصلت هنا اثنان: ابن بهرام، وقد وثقه جماعة كما تقدم، وابن مهران، وهو غير مشهور؛ لأنه لم يرو عنه غير البرساني وشهر، ولذلك قال الذهبي في " الميزان ": "مستور، قال ابن القطان: مجهول الحال ".[سلسلة الأحاديث الصحيحة: 7/ 607]۔

عرض ہے کہ ابن عساکر کی روایت میں صلت کے ساتھ صلت ابن مھران کی صراحت بھی ہے چنانچہ:
امام ابن عساكر رحمه الله (المتوفى:571)نے کہا:
أَخْبَرَنَا الشُّيُوخُ أَبُو سَعْدٍ إِسْمَاعِيلُ بْنُ أَحْمد بن عَبْدِ الْمَلِكِ النَّيْسَابُورِي الْمَعْرُوفُ بِالْكِرْمَانِيِّ الْفَقِيهُ بِبَغْدَادَ وَأَبُو الْمُظَفَّرِ عَبْدُ الْمُنْعِمِ بْنُ عَبْدِ الْكَرِيم بن هوَازن وَأَبُو الْقسم زَاهِرُ بْنُ طَاهِرِ بْنِ مُحَمَّدٍ الشَّحَّامِيُّ بِنَيْسَابُورَ قَالُوا أَخْبَرَنَا أَبُو بَكْرٍ أَحْمَدُ بْنُ مَنْصُورِ بْنِ خلف القيرواني قَالَ أَنا أَبُو طَاهِرٍ مُحَمَّدُ بْنُ الْفَضْلِ بن مُحَمَّد بن اسحق بن خُزَيْمَة قَالَ ثَنَا جَدِّي أَبُو بَكْرٍ مُحَمَّدُ بْنُ اسحق قَالَ ثَنَا رَجَاء بن مُحَمَّد العذري ثَنَا أَبُو الْحَسَنِ مُحَمَّدُ بْنُ بَكْرٍ البرْسَانِي قَالَ ثَنَا الصَّلْت بن مهْرَان قَالَ ثَنَا الْحسن قَالَ ثَنَا جُنْدُبُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْبَجْلِيُّ فِي هَذَا الْمَسْجِدِ عَنْ حُذَيْفَةَ بْنِ الْيَمَانِ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَإِنَّ مِمَّا أَخَافُ عَلَيْكُمْ بَعْدِي رجل قَرَأَ كتاب الله عزوجل حَتَّى إِذَا رُؤِيَتْ عَلَيْهِ بَهْجَتُهُ وَكَانَ رِدْءًا للإِسْلامِ اغْتَرَّهُ ذَلِكَ إِلَى مَا شَاءَ اللَّهُ فَانْسَلَخَ مِنْهُ وَخَرَجَ عَلَى جَارِهِ بِالسَّيْفِ وَشهد عَلَيْهِ بالشرك قُلْنَا يارسول اللَّهِ مَنْ أَوْلَى بِهَا الْمَرْمِيُّ أَوِ الرَّامِي قَالَ بَلِ الرَّامِي[تبيين كذب المفتري ص: 403]۔

اس تفصیل سے معلوم ہواکہ مذکورہ روایت میں صلت بن بھران راوی ہے اور یہ مجہول ہے اس کے بارے میں کسی کی توثیق نہیں ملتی لہٰذا یہ روایت ضعیف ہے۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,999
ری ایکشن اسکور
9,800
پوائنٹ
722
ابن حبان رحمہ اللہ کے موقف کا جائزہ


اوپربتایا جاچکا ہے کہ ابن حبان رحمہ اللہ نے حذیفہ رضی اللہ عنہ سے منقول مذکورہ حدیث کی سند میں موجود صلت نامی راوی کی تعیین صلت بن بھرام سے کی ہے۔
مزید عرض ہے کہ ابن حبان رحمہ اللہ نے اسی سند کے ایک دوسرے راوی کی تعیین میں بھی شذور اختیار کیا ہے چنانچہ مذکورہ سند میں صلت کے شاگرد ’’مُحَمد بن بَكر‘‘ ہیں، تمام محدثیں نے ان کی تعیین ’’محمد بن بكر البرساني‘‘ سے کی ہے ۔
اوربعض طریق میں برسانی کی صراحت بھی ہے مگر ابن حبان رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ:
الصلت بن بهرام كوفى عزيز الحديث يروى عن جماعة من التابعين روى عنه أهل الكوفة وهو الذي يروى عن الحسن روى عنه محمد بن بكر المقرىء الكوفى ليس بالبرساني ومن قال إنه الصلت بن مهران فقد وهم إنما هو الصلت بن بهرام الثقات لابن حبان: 6/ 471]۔

یعنی ابن حبان رحمہ اللہ کا کہنا یہ ہے کہ مذکورہ طریق اوراس جیسے طریق میں محمدبن بکر سے مراد محمدبن بکر المقری ہے۔

عرض ہے کہ اگر یہ بات تسلیم کرلی جائے تو محمدبن بکر المقری کی وجہ سے مذکورہ روایت ضعیف ہوجائے گی ،کیونکہ کتب رجال میں محمدبن بکر المقری نامی راوی کی توثیق کہیں نہیں ملتی :
علامہ البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
لا نعرف في الرواة (محمد بن بكر المقرئ الكوفي) حتى يَرِدَ جزم ابن حبان بأنه هو، ولو احتمالاً، وكان على ابن حبان أن يورده في "ثقاته " كما فعل بـ (البرساني) ، فقد أورده في موضعين منه؛ في (أتباع التابعين) (٧/٤٤٢) ، وفي (أتباع أتباعهم) (٩/٣٨) ؛ فهو إذن من المجهولين.[سلسلة الأحاديث الصحيحة :7/ 607]۔

الغرض یہ کہ اگرابن حبان رحمہ اللہ کی تحقیق مان لی جائے تو ان کی تحقیق کی بنیاد پر بھی روایت مذکورہ ضعیف قرار پاتی ہے۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,999
ری ایکشن اسکور
9,800
پوائنٹ
722
علامہ البانی رحمہ اللہ کا موقف اور اس کا جائزہ


مذکورہ روایت معاذبن جبل رضی اللہ عنہ سے بھی مروی ہے اور علامہ البانی رحمہ اللہ نے اسے واضح طورپر ضعیف قراردیا ہے، چنانچہ فرماتے ہیں:
إسناده ضعيف من أجل شهر بن حوشب فإنه ضعيف لسوء حفظه ومثله مطر وهو ابن طهمان الوراق وضمرة هو ابن ربيعة الفلسطيني وهو ثقة وكذلك سائر الرواة [ظلال الجنة مع تحقیق الالبانی: 1/ 18]۔

اور حذیفہ رضی اللہ عنہ کی روایت کو علامہ البانی رحمہ اللہ نے انفرادی طور پر گرچہ ضعیف مانا ہے مگر بعض متفرق شواہد کی بنیاد پر اسے صحیح کہا ہے ، ملاحظہ ہو علامہ البانی رحمہ اللہ کے الفاظ:
قلت: وسواء كان هذا أو ذاك، فالحديث حسن إن شاء الله تعالى؛ لأن له شواهد في الجملة، منها حديث عمر مرفوعاً:"إن أخوف ما أخاف على أمتي كل منافق عليم اللسان "رواه أحمد وغيره بسند صحيح عن عمر، وهو مخرج فيما تقدم (٣/١١/١٠١٣) . ورواه البيهقي في "شعب الإيمان " (٢/٢٨٤/٧٧٧ ١) بلفظ:".. منافق يتكلم بالحكمة، ويعمل بالجور". وحديث ابن عمر مرفوعاً بلفظ:"إذا قال الرجل للرجل: "يا كافر! فقد باء به أحدهما إن كان كما قال، وإلا؛ رجعت على الآخر".أخرجه أحمد (2/44) ، ومسلم وغيرهما[سلسلة الأحاديث الصحيحة : 7/ 608]۔

یعنی علامہ البانی رحمہ اللہ نے درج ذیل دو احادیث کو بطور شاہد پیش کیا ہے:
  • إن أخوف ما أخاف على أمتي كل منافق عليم اللسان
  • إذا قال الرجل للرجل: "يا كافر! فقد باء به أحدهما إن كان كما قال، وإلا؛ رجعت على الآخر

قارئین غور فرمائیں کہ ان دونوں احادیث کا مفہورم مشہود لہ حدیث سے بہت مختلف ہے اور شواہد کی بنیاد پر حدیث کی تصحیح کے لئے لازمی شرط یہی ہے کہ شاہد اور مشہودلہ کا مفہوم لفظا یا معنی یکساں ہو۔
حافظ ابن حجررحمہ اللہ فرماتے ہیں:
وإِنْ وُجِدَ مَتْنٌ يُروى مِن حديثِ صحابيٍّ آخَرَ يُشْبِهُهُ في اللَّفظِ والمعنى ، أَو في المعنى فقطْ ؛ فهُو الشَّاهِدُ . [نزهة النظر في توضيح نخبة الفكر في مصطلح أهل الأثر ص: 16]


خود علامہ البانی رحمہ اللہ نے بھی مختلف مقامات پر یہی بات واضح فرمائی ہے چنانچہ :

علامہ البانی رحمہ اللہ ایک مقام پرفرماتے ہیں:
هذا، وقد جعل المعلق على "مسند أبي يعلى" حديث كثير النواء شاهداً لحديث الترجمة، وأرى أنه لا يصلح للشهادة؛ لأنه مختصر ليس فيه:"فاقتلوهم فإنهم مشركون ".[سلسلة الأحاديث الضعيفة :13/ 572].

علامہ البانی رحمہ اللہ ایک اورمقام پر فرماتے ہیں:
136 - " من حدث حديثا فعطس عنده فهو حق ".
باطل أخرجه تمام في " الفوائد " ۔۔۔۔وتعقبه السيوطي في " اللآليء " (٢ / ٢٨٦) بأحاديث أوردها، بعضها مرفوعة وبعضها موقوفة، ثم إن بعضها في فضل العطاس مطلقا فلا يصلح شاهدا لوصح. [سلسلة الأحاديث الضعيفة: 1/ 262].

علامہ البانی رحمہ اللہ ایک اورمقام پر فرماتے ہیں:
ولوقيل بأنه ضعيف فقط فلا يصلح شاهدا لهذا، لوجهين: الأول: أنه مغاير له في المعنى ولا يلتقي معه إلا في مطلق الزيارة. [سلسلة الأحاديث الضعيفة :1/ 127].


حاصل یہ کہ مشہود لہ اور شاہد میں اگر کسی طرح کا فرق ہو تو شہادت کام نہ دے گی، اوریہاں مشہود لہ اورشاہد میں فرق بالکل واضح ہے ، مشہود لہ میں ایک آدمی کی حالت ایک خاص سیاق میں اوربتدریج بیان کی گئی ہے جبکہ علامہ البانی رحمہ اللہ کی طرف سے پیش کردہ دونوں شواہدمیں سے پہلے میں یہ بات سرے سے ہے ہی نہیں اور دوسرے شاہد میں ایک مطلق حکم کا تذکرہ ہے نہ کی کسی خاص آدمی کے تعلق سے کوئی بات ہے ۔

نیز ایک بنیادی فرق یہ بھی ہے کہ مشہود لہ میں پیشین گوئی کی بات ہے یعنی یہ بات مستقبل میں ظاہر ہوگی جبکہ پیش کردہ دنوں شواہد میں ایک عمومی حکم ہے جو عہد رسالت و عہدصحابہ کے منافقوں پر بھی منطبق ہوتا ہے۔

لہٰذا شاہد اور مشہود لہ میں لفظی اور معنوی ہر لحاظ سے عدم یکسانیت کے سبب مذکورہ روایت کو صحیح قرار دینا درست نہیں ہے۔

حیرت ہے کہ علامہ البانی رحمہ اللہ نے معاذبن جبل والی روایت کو صریح طورپر ضعیف قراردیا ہے ، حالانکہ علامہ موصوف نے جو شواہد پیش کئے ہیں اگر وہ حذیفہ رضی اللہ عنہ کی حدیث کے لئے شہادت کا کام دے سکتے ہیں تو معاذبن جبل رضی اللہ عنہ کی روایت کے لئے بھی یہ شاہد بن سکتے ہیں ، کیونکہ دونوں روایات میں معنوی طور پر یکسانیت ہے ، چنانچہ سوال میں میں بھی ترجمہ ایک ہی روایت کا درج ہے اورحوالے دونوں روایات کے دئے گئے ہیں۔
لہٰذا اگر علامہ البانی رحمہ اللہ کی نظرمیں ان کے پیش کردہ شواہد معاذبن جبل رضی اللہ عنہ کی روایت کے لئے کام نہیں دسے سکتے تو حذیفہ رضی اللہ عنہ کی روایت کے لئے بھی یہ شواہد بے سود ہیں۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,999
ری ایکشن اسکور
9,800
پوائنٹ
722
Top