علامہ البانی رحمہ اللہ کا موقف اور اس کا جائزہ
مذکورہ روایت معاذبن جبل رضی اللہ عنہ سے بھی مروی ہے اور علامہ البانی رحمہ اللہ نے اسے واضح طورپر ضعیف قراردیا ہے، چنانچہ فرماتے ہیں:
إسناده ضعيف من أجل شهر بن حوشب فإنه ضعيف لسوء حفظه ومثله مطر وهو ابن طهمان الوراق وضمرة هو ابن ربيعة الفلسطيني وهو ثقة وكذلك سائر الرواة [ظلال الجنة مع تحقیق الالبانی: 1/ 18]۔
اور حذیفہ رضی اللہ عنہ کی روایت کو علامہ البانی رحمہ اللہ نے انفرادی طور پر گرچہ ضعیف مانا ہے مگر بعض متفرق شواہد کی بنیاد پر اسے صحیح کہا ہے ، ملاحظہ ہو علامہ البانی رحمہ اللہ کے الفاظ:
قلت: وسواء كان هذا أو ذاك، فالحديث حسن إن شاء الله تعالى؛ لأن له شواهد في الجملة، منها حديث عمر مرفوعاً:"إن أخوف ما أخاف على أمتي كل منافق عليم اللسان "رواه أحمد وغيره بسند صحيح عن عمر، وهو مخرج فيما تقدم (٣/١١/١٠١٣) . ورواه البيهقي في "شعب الإيمان " (٢/٢٨٤/٧٧٧ ١) بلفظ:".. منافق يتكلم بالحكمة، ويعمل بالجور". وحديث ابن عمر مرفوعاً بلفظ:"إذا قال الرجل للرجل: "يا كافر! فقد باء به أحدهما إن كان كما قال، وإلا؛ رجعت على الآخر".أخرجه أحمد (2/44) ، ومسلم وغيرهما[سلسلة الأحاديث الصحيحة : 7/ 608]۔
یعنی علامہ البانی رحمہ اللہ نے درج ذیل دو احادیث کو بطور شاہد پیش کیا ہے:
- إن أخوف ما أخاف على أمتي كل منافق عليم اللسان
- إذا قال الرجل للرجل: "يا كافر! فقد باء به أحدهما إن كان كما قال، وإلا؛ رجعت على الآخر
قارئین غور فرمائیں کہ ان دونوں احادیث کا مفہورم مشہود لہ حدیث سے بہت مختلف ہے اور شواہد کی بنیاد پر حدیث کی تصحیح کے لئے لازمی شرط یہی ہے کہ شاہد اور مشہودلہ کا مفہوم لفظا یا معنی یکساں ہو۔
حافظ ابن حجررحمہ اللہ فرماتے ہیں:
وإِنْ وُجِدَ مَتْنٌ يُروى مِن حديثِ صحابيٍّ آخَرَ يُشْبِهُهُ في اللَّفظِ والمعنى ، أَو في المعنى فقطْ ؛ فهُو الشَّاهِدُ . [نزهة النظر في توضيح نخبة الفكر في مصطلح أهل الأثر ص: 16]
خود علامہ البانی رحمہ اللہ نے بھی مختلف مقامات پر یہی بات واضح فرمائی ہے چنانچہ :
علامہ البانی رحمہ اللہ ایک مقام پرفرماتے ہیں:
هذا، وقد جعل المعلق على "مسند أبي يعلى" حديث كثير النواء شاهداً لحديث الترجمة، وأرى أنه لا يصلح للشهادة؛ لأنه مختصر ليس فيه:"فاقتلوهم فإنهم مشركون ".[سلسلة الأحاديث الضعيفة :13/ 572].
علامہ البانی رحمہ اللہ ایک اورمقام پر فرماتے ہیں:
136 - " من حدث حديثا فعطس عنده فهو حق ".
باطل أخرجه تمام في " الفوائد " ۔۔۔۔وتعقبه السيوطي في " اللآليء " (٢ / ٢٨٦) بأحاديث أوردها، بعضها مرفوعة وبعضها موقوفة، ثم إن بعضها في فضل العطاس مطلقا فلا يصلح شاهدا لوصح. [سلسلة الأحاديث الضعيفة: 1/ 262].
علامہ البانی رحمہ اللہ ایک اورمقام پر فرماتے ہیں:
ولوقيل بأنه ضعيف فقط فلا يصلح شاهدا لهذا، لوجهين: الأول: أنه مغاير له في المعنى ولا يلتقي معه إلا في مطلق الزيارة. [سلسلة الأحاديث الضعيفة :1/ 127].
حاصل یہ کہ مشہود لہ اور شاہد میں اگر کسی طرح کا فرق ہو تو شہادت کام نہ دے گی، اوریہاں مشہود لہ اورشاہد میں فرق بالکل واضح ہے ، مشہود لہ میں ایک آدمی کی حالت ایک خاص سیاق میں اوربتدریج بیان کی گئی ہے جبکہ علامہ البانی رحمہ اللہ کی طرف سے پیش کردہ دونوں شواہدمیں سے پہلے میں یہ بات سرے سے ہے ہی نہیں اور دوسرے شاہد میں ایک مطلق حکم کا تذکرہ ہے نہ کی کسی خاص آدمی کے تعلق سے کوئی بات ہے ۔
نیز ایک بنیادی فرق یہ بھی ہے کہ مشہود لہ میں پیشین گوئی کی بات ہے یعنی یہ بات مستقبل میں ظاہر ہوگی جبکہ پیش کردہ دنوں شواہد میں ایک عمومی حکم ہے جو عہد رسالت و عہدصحابہ کے منافقوں پر بھی منطبق ہوتا ہے۔
لہٰذا شاہد اور مشہود لہ میں لفظی اور معنوی ہر لحاظ سے عدم یکسانیت کے سبب مذکورہ روایت کو صحیح قرار دینا درست نہیں ہے۔
حیرت ہے کہ علامہ البانی رحمہ اللہ نے معاذبن جبل والی روایت کو صریح طورپر ضعیف قراردیا ہے ، حالانکہ علامہ موصوف نے جو شواہد پیش کئے ہیں اگر وہ حذیفہ رضی اللہ عنہ کی حدیث کے لئے شہادت کا کام دے سکتے ہیں تو معاذبن جبل رضی اللہ عنہ کی روایت کے لئے بھی یہ شاہد بن سکتے ہیں ، کیونکہ دونوں روایات میں معنوی طور پر یکسانیت ہے ، چنانچہ سوال میں میں بھی ترجمہ ایک ہی روایت کا درج ہے اورحوالے دونوں روایات کے دئے گئے ہیں۔
لہٰذا اگر علامہ البانی رحمہ اللہ کی نظرمیں ان کے پیش کردہ شواہد معاذبن جبل رضی اللہ عنہ کی روایت کے لئے کام نہیں دسے سکتے تو حذیفہ رضی اللہ عنہ کی روایت کے لئے بھی یہ شواہد بے سود ہیں۔