• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

دونوں عیدوں اور ان میں زیب و زینت کرنے کا بیان

محمد زاہد بن فیض

سینئر رکن
شمولیت
جون 01، 2011
پیغامات
1,957
ری ایکشن اسکور
5,787
پوائنٹ
354
حدیث نمبر: 948
حدثنا أبو اليمان،‏‏‏‏ قال أخبرنا شعيب،‏‏‏‏ عن الزهري،‏‏‏‏ قال أخبرني سالم بن عبد الله،‏‏‏‏ أن عبد الله بن عمر،‏‏‏‏ قال أخذ عمر جبة من إستبرق تباع في السوق،‏‏‏‏ فأخذها فأتى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال يا رسول الله ابتع هذه تجمل بها للعيد والوفود‏.‏ فقال له رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏ إنما هذه لباس من لا خلاق له ‏"‏‏.‏ فلبث عمر ما شاء الله أن يلبث،‏‏‏‏ ثم أرسل إليه رسول الله صلى الله عليه وسلم بجبة ديباج،‏‏‏‏ فأقبل بها عمر،‏‏‏‏ فأتى بها رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال يا رسول الله إنك قلت ‏"‏ إنما هذه لباس من لا خلاق له ‏"‏‏.‏ وأرسلت إلى بهذه الجبة فقال له رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏ تبيعها أو تصيب بها حاجتك ‏"‏‏.‏




ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہمیں شعیب نے زہری سے خبر دی، انہوں نے کہا کہ مجھے سالم بن عبداللہ نے خبر دی کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ ایک موٹے ریشمی کپڑے کا چغہ لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے جو بازار میں بک رہا تھا کہنے لگے یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ اسے خرید لیجئے اور عید اور وفود کی پذیرائی کے لیے اسے پہن کر زینت فرمایا کیجئے۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ تو وہ پہنے گا جس کا (آخرت میں) کوئی حصہ نہیں۔ اس کے بعد جب تک خدا نے چاہا عمر رہی پھر ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود ان کے پاس ایک ریشمی چغہ تحفہ میں بھیجا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ اسے لیے ہوئے آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہا کہ یا رسول اللہ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تو یہ فرمایا کہ اس کو وہ پہنے گا جس کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں پھر آپ نے یہ میرے پاس کیوں بھیجا؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں نے اسے تیرے پہننے کو نہیں بھیجا بلکہ اس لیے کہ تم اسے بیچ کر اس کی قیمت اپنے کام میں لاؤ۔
صحیح بخاری
کتاب العیدین
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
(کتاب عیدین کے مسائل کے بیان میں)
بسم اللہ الرحمن الرحیم


تشریح : عید کی وجہ تسمیہ کے بارے میں حضرت مولانا عبید اللہ صاحب شیخ الحدیث مبارک پوری رحمہ اللہ فرماتے ہیں: واصل العید عود لانہ مشتق من عاد یعود عودا وھو الرجوع قلبت الواو یاءلسکونھا والکسار ما قبلھا کما فی المیزان والمیقات وجمعہ اعیاد لزوم الیاءفی الواحد او للفرق بینہ وبین اعواد الخشب وسمیا عیدین لکثرۃ عوائد اللہ تعالیٰ فیھما او لانھم یعودون الیھما مرۃ بعد اخریٰ او لتکررھما وعودھما لکل عام او لعود السرور بعودھما قال فی الازھار کل اجتماع للسرور فھو عند العرب عید یعود السرور بعودی وقیل ان اللہ تعالیٰ یعود علی العباد با لمغفرۃ والرحمۃ وقیل تفاولا بعودہ علی من ادرکہ کما سمیت القافلۃ تفاولا لرجوعھا وقیل لعودہ بعض المباحات فیھما واجبا کالفطر وقیل لانہ یعاد فیھما التکبیرات واللہ تعالی اعلم ( مرعاۃ، ج:2ص:327 )
یعنی عید کی اصل لفظ عود ہے جو عاد یعود سے مشتق ہے جس کے معنی رجوع کرنے کے ہیں، عود کا واؤ یاءسے بدل گیا ہے اس لیے کہ وہ ساکن ہے اور ماقبل اس کے کسرہ ہے جیسا کہ لفظ میزان اور میقات میں واؤ یاءسے بدل گیا ہے عید کی جمع اعیاد ہے۔ اس لیے کہ واحد میں لفظ“یائ” کا لزوم ہے یا لفظ عود بمعنی لکڑی کی جمع اعواد سے فرق ظاہر کرنا مقصود ہے۔ ان کا عیدین نام اس لیے رکھا گیا کہ ان دونوں میں عنایات الٰہی بے پایاں ہوتی ہیں یا اس لیے ان کو عیدین کہاگیا کہ مسلمان ہر سال ان دنوں کی طرف لوٹتے رہتے ہیں یا یہ کہ یہ دونوں دن ہر سال لوٹ لوٹ کر مکرر آتے رہتے ہیں یا یہ کہ ان کے لوٹنے سے مسرت لوٹتی ہے۔ عربوں کی اصطلاح میںہر وہ اجتماع جو خوشی اور مسرت کا اجتماع ہو عید کہلاتا تھا، اس لیے ان دنوں کو بھی جو مسلمان کے لیے انتہائی خوشی کے دن ہیں عیدین کہا گیا۔ یا یہ بھی کہ ان دنوں میں اپنے بندوں پر اللہ اپنی بے شمار رحمتوں کا اعادہ فرماتا ہے یا اس لیے کہ جس طرح بطور نیک فال جانے والے گروہ کو قافلہ کہا جاتا ہے جس کے لفظی معنی آنے والے کے ہیں یا اس لیے بھی کہ ان میں بعض مباح کام وجوب کی طرف لوٹ جاتے ہیں جیسے کہ اس دن عید الفطر میں روزہ رکھنا واجب طورپر نہ رکھنے کی طرف لوٹ گیا ہے یا اس لیے کہ ان دنوں میں تکبیرات کو باربار لوٹا لوٹا کر کہا جاتا ہے اس لیے ان کو لفظ عید ین سے تعبیر کیا گیا ہے ان دنوں کے مقرر کر نے میں کیا کیا فوائد اور مصالح ہیں اسی مضمون کو شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ نے اپنی مشہور کتاب حجۃ اللہ البالغہ میں بڑی تفصیل کے ساتھ احسن طور پر بیان فرمایا ہے۔ اس کو وہاں ملاحظہ کیا جا سکتا ہے۔

حضرت امام بخاری رحمہ اللہ نے نماز عیدین کے متعلق تکبیرات کی بابت کچھ نہیں بتلایا اگر چہ اس بارے میں اکثر احادیث واقوال صحابہ موجود ہیں مگر وہ حضرت امام کی شرائط پر نہیں تھے۔ اس لیے آپ نے ان میں سے کسی کا بھی ذکر نہیں کیا۔ امام شوکانی رحمہ اللہ نے نیل الاوطار میں اس سلسلہ کے دس قول نقل کیے ہیں جن میں جسے ترجیح حاصل ہے وہ یہ ہے۔ احدھا انہ یکبر فی الاولیٰ سبعا قبل القراۃ وفی الثانیۃ خمسا قبل القراۃ قال العراقی وھو قو ل اکثر اھل العلم من الصحابۃ والتابعین والائمۃ قال وھو مروی عن عمر وعلی وابی ھریرہ وابی سعید الخ یعنی پہلا قول یہ ہے کہ پہلی رکعت میں قرات سے پہلے سات تکبیریں اور دوسری رکعت میں قرات سے پہلے پانچ تکبیریں کہی جائیں۔ صحابہ اور تابعین اور ائمہ کرام میں سے اکثر اہل علم کا یہی مسلک ہے، اس بارے میں جو احادیث مروی ہیں ان میں سے چند یہ ہیں:

عن عمرو بن شعیب عن ابیہ عن جدہ ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم کبر فی عید ثنتی عشرۃ تکبیرۃ سبعا فی الاولیٰ وخمسا فی الاخرۃ ولم یصل قبلھا ولا بعدھا رواہ احمد وابن ماجۃ قال احمد انا اذھب الی ھذا۔ یعنی حضرت عمروبن شعیب نے اپنے باپ سے، انہوں نے اپنے داد سے روایت کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عید میں بارہ تکبیروں سے نماز پڑھائی پہلی رکعت میں آپ نے سات تکبیریں اوردوسری رکعت میں پانچ تکبیریں کہیں۔ امام احمد فرماتے ہیں کہ میرا عمل بھی یہی ہے۔

وعن عمرو بن عوف المزنی رضی اللہ عنہ ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم کبر فی العیدین فی الاولیٰ سبعا قبل القراۃ وفی الثانیۃ خمسا قبل القراۃ رواہ الترمذی وقال ھو احسن شئی فی ھذا الباب عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم۔ یعنی عمرو بن عوف مزنی سے روایت ہے کہ بے شک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عیدین کی پہلی رکعت میں قرات سے پہلے سات تکبیریں کہیں اور دوسری رکعت میں قرات سے پہلے پانچ تکبیریں۔ امام ترمذی فرماتے ہیں کہ اس مسئلہ کے بارے میں یہ بہترین حدیث ہے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہے۔

علامہ شوکانی فرماتے ہیں کہ امام ترمذی نے کتاب العلل المفردۃ میں فرمایا سالت محمد بن اسماعیل ( البخاری ) عن ھذا الحدیث فقال لیس فی ھذا الباب شئی اصح منہ وبہ اقول انتھی۔ یعنی اس حدیث کے بارے میں میں نے حضرت امام بخاری رحمہ اللہ سے پوچھا تو انہوں نے فرمایا کہ اس مسئلہ کے متعلق اس سے زیادہ کوئی حدیث صحیح نہیں ہے اور میرا بھی یہی مذہب ہے، اس بارے میں اور بھی کئی احادیث مروی ہیں۔

حنفیہ کا مسلک اس بارے میں یہ ہے کہ پہلی رکعت میں تکبیر تحریمہ کے بعد قرات سے پہلے تین تکبیریں کہی جائیں اور دوسری رکعت میں قرات کے بعد تین تکبیریں۔ بعض صحابہ سے یہ مسلک بھی نقل کیا گیا ہے جیسا کہ نیل الاوطار، ص:299 پر منقول ہے مگر اس بارے کی روایات ضعف سے خالی نہیں ہیں جیسا کہ علامہ شوکانی نے تصریح فرمائی ہے: فمن شاءفلیرجع الیہ حضرت مولانا عبد الرحمن صاحب مبارک پوری رحمہ اللہ فرماتے ہیں: واما ما ذھب الیہ اھل الکوفۃ فلم یرد فیہ حدیث مرفوع غیر حدیث ابی موسیٰ الاشعری وقد عرفت انہ لا یصلح للاحتجاج ( تحفۃ الاحوذی ) یعنی کوفہ والوں کے مسلک کے ثبوت میں کوئی حدیث مرفوع وارد نہیں ہوئی صرف حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت کی گئی ہے جو قابل حجت نہیں ہے۔

حجۃ الہند حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ نے اسی بارے میں بہت ہی بہتر فیصلہ دیا ہے۔ چنانچہ آپ کے الفاظ مبارک یہ ہیں یکبر فی الاولیٰ سبعا قبل القراۃ والثانیۃ خٰمسا قبل القراۃ وعمل الکوفین ان یکبر اربعا کتکبیر الجنائز فی الاولیٰ قبل القراۃ وفی الثانیۃ بعدھا وھما سنتان وعمل الحرمین ارجح ( حجۃ اللہ البالغۃ، ج:2ص:106 ) یعنی پہلی رکعت میں قرات سے پہلے سات تکبیریں اور دوسری رکعت میں قرات سے پہلے پانچ تکبیریں کہنی چاہئیں مگر کوفہ والوں کا عمل یہ ہے کہ پہلی رکعت میں تکبیرات جنازہ کی طرح قرات سے پہلے چار تکبیر کہی جائیں اور دوسری رکعت میں قرات کے بعد یہ دونوں طریقے سنت ہیں۔مگر حرمین شریفین یعنی کہ مدینہ والوں کا عمل جو پہلے بیان ہوا ترجیح اس کو حاصل ہے ( کوفہ والوں کا عمل مرجوح ہے )

عید کی نماز فرض ہے یا سنت اس بارے میں علماءمختلف ہیں۔ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک جن پر جمعہ فرض ہے ان پر عیدین کی نماز فرض ہے۔ امام مالک رحمہ اللہ اور امام شافعی رحمہ اللہ اسے سنت مؤکدہ قرار دیتے ہیں۔ اس پر حضرت مولانا عبید اللہ صاحب شیخ الحدیث مبارکپوری فرماتے ہیں: والراجح عندی ما ذھب الیہ ابو حنیفۃ من انھا واجبۃ علی الاعیان لقولہ تعالیٰ فصل لربک وانحر والامر یقتضی الوجوب ولمداومۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم علی فعلھا من غیر ترک ولانھا من اعلام الدین الظاھر ۃ فکانت واجبۃ الخ ( مرعاۃ، ج :3ص327 ) یعنی میرے نزدیک اسی خیال کو ترجیح حاصل ہے جس کی طرف حضرت امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ گئے ہیں کہ یہ اعیان پر واجب ہے جیسا کہ اللہ تعالی نے قرآن میں بصیغہ امر فرمایا فَصَلِّ لِرَبِّکَ وَانحَر ( الکوثر:2 ) اپنے رب کے لیے نماز پڑھ اور قربانی کر۔”صیغہ امر وجوب کو چاہتا ہے اور اس لیے بھی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر ہمیشگی فرمائی اور یہ دین کے ظاہر نشانوں میں سے ایک اہم ترین نشان ہے۔


باب : دونوں عیدوں اور ان میں زیب و زینت کرنے کا بیان

حدیث نمبر : 948
حدثنا أبو اليمان، قال أخبرنا شعيب، عن الزهري، قال أخبرني سالم بن عبد الله، أن عبد الله بن عمر، قال أخذ عمر جبة من إستبرق تباع في السوق، فأخذها فأتى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال يا رسول الله ابتع هذه تجمل بها للعيد والوفود‏.‏ فقال له رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏ إنما هذه لباس من لا خلاق له‏"‏‏. ‏ فلبث عمر ما شاء الله أن يلبث، ثم أرسل إليه رسول الله صلى الله عليه وسلم بجبة ديباج، فأقبل بها عمر، فأتى بها رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال يا رسول الله إنك قلت ‏"‏ إنما هذه لباس من لا خلاق له‏"‏‏. ‏ وأرسلت إلى بهذه الجبة فقال له رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏ تبيعها أو تصيب بها حاجتك‏"‏‏. ‏
ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہمیں شعیب نے زہری سے خبر دی، انہوں نے کہا کہ مجھے سالم بن عبد اللہ نے خبر دی کہ عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ ایک موٹے ریشمی کپڑے کا چغہ لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے جو بازار میں بک رہا تھا کہنے لگے یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ اسے خرید لیجئے اور عید اور وفود کی پذیرائی کے لیے اسے پہن کر زینت فرمایا کیجئے۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ تو وہ پہنے گا جس کا ( آخرت میں ) کوئی حصہ نہیں۔ اس کے بعد جب تک خدا نے چاہا عمر رہی پھر ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود ان کے پاس ایک ریشمی چغہ تحفہ میں بھیجا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ اسے لیے ہوئے آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہا کہ یا رسو ل اللہ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تو یہ فرمایا کہ اس کو وہ پہنے گا جس کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں پھر آپ نے یہ میرے پاس کیوں بھیجا؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں نے اسے تیرے پہننے کو نہیں بھیجا بلکہ ا س لیے کہ تم اسے بیچ کر اس کی قیمت اپنے کام میں لاؤ۔

تشریح : اس حدیث میں ہے کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ یہ جبہ آپ عید کے دن پہنا کیجئے اسی طرح وفود آتے رہتے ہیں ان سے ملاقات کے لیے بھی آپ اس کا استعمال کیجئے۔ لیکن وہ جبہ ریشمی تھا اس لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے انکار فرمایا کہ ریشم مردوں کے لیے حرام ہے۔ اس سے معلوم ہو تا ہے کہ عید کے دن جائز لباسوں کے ساتھ آرائش کرنی چاہیے اس سلسلے میں دوسری احادیث بھی آئی ہیں۔

مولانا وحید الزماں اس حدیث کے ذیل میں فرماتے ہیں کہ سبحان اللہ! اسلام کی بھی کیا عمدہ تعلیم ہے کہ مردوں کو جھوٹا موٹا سوتی اونی کپڑا کافی ہے ریشمی اور باریک کپڑے یہ عورتوں کو سزاوار ہیں۔ اسلام نے مسلمانوں کو مضبوط محنتی جفا کش سپاہی بننے کی تعلیم دی نہ عورتوں کی طرح بناؤ سنگھار اور نازک بدن بننے کی۔ اسلام نے عیش وعشرت کا ناجائز اسباب مثلا نشہ شراب خوری وغیرہ بالکل بند کر دیا لیکن مسلمان اپنے پیغمبر کی تعلیم چھوڑ کر نشہ اور رنڈی بازی میں مشغول ہوئے اور عورتوں کی طرح چکن اور ململ اور گوٹا کناری کے کپڑے پہننے لگے۔ ہاتھوں میں کڑے اور پاؤں میں مہندی، آخر اللہ تعالیٰ نے ان سے حکومت چھین لی اور دوسری مردانہ قوم کو عطاءفرمائی ایسے زنانے مسلمانوں کو ڈوب مرنا چاہیے بے غیرت بے حیا کم بخت ( وحیدی ) مولانا کا اشارہ ان مغل شہزادوں کی طرف ہے جو عیش وآرام میں پڑ کر زوال کاسبب بنے، آج کل مسلمانوں کے کالج زدہ نوجوانوں کا کیا حال ہے جو زنانہ بننے میں شاید مغل شہزادوں سے بھی آگے بڑھنے کی کوششوں میں مصروف ہیں جن کا حال یہ ہے

نہ پڑھتے تو کھاتے سو طرح کما کر
وہ کھوئے گئے الٹے تعلیم پا کر

 
Top