• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

دین اسلام سے مرتد آدمی پر اللہ تعالیٰ کی ناراضگی

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
دین اسلام سے مرتد آدمی پر اللہ تعالیٰ کی ناراضگی

اللہ تبارک و تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں:
{مَنْ کَفَرَ بِاللّٰہِ مِنْ بَعْدِ اِیْمَانِہٖٓ اِلَّا مَنْ اُکْرِہَ وَ قَلْبُہٗ مُطْمَئِنٌّ بِالْاِیْمَانِ وَ لٰکِنْ مَّنْ شَرَحَ بِالْکُفْرِ صَدْرًا فَعَلَیْہِمْ غَضَبٌ مِّنَ اللّٰہِ وَ لَہُمْ عَذَابٌ عَظِیْمٌo} [النحل:۱۰۶]
''جو شخص اللہ کے ساتھ کفر کرے اپنے ایمان کے بعد، سوائے اس کے جسے مجبور کیا جائے اور اس کا دل ایمان پر مطمئن ہو اور لیکن جو کفر کے لیے سینہ کھول دے تو ان لوگوں پر اللہ کا بڑا غضب ہے اور ان کے لیے بہت بڑا عذاب ہے۔''
دین اسلام سے مرتد وہ شخص ہوتا ہے کہ جو اللہ تعالیٰ (اُس کے رسول، اس کی کتاب اور شریعت مطہرہ) پر ایمان لا کر ان کا انکار کردے اور اُس کا سینہ کفر و طاغوت کے لیے کھل جائے۔ یعنی یہ آدمی اپنے اختیار اور اپنی پسند سے بغیر کسی جبر و اکراہ کے کفر کو اختیار کرلے اور یہ کہ کفر کو عقیدہ کے طور پر قبول کرتے ہوئے اس کے ساتھ اس کی طبیعت خوشی ہو۔ ایمان باللہ و ایمان بالرسول پر کفر کو ترجیح دیتے ہوئے اس کی اطاعت پر کاربند ہوجائے۔ یہی وہ دین حنیف سے مرتد آدمی ہوتا ہے کہ جس کے متعلق اللہ عزوجل ارشاد فرماتے ہیں:
{یَسْئَلُوْنَکَ عَنِ الشَّہْرِ الْحَرَامِ قِتَالٍ فِیْہِ قُلْ قِتَالٌ فِیْہِ کَبِیْرٌ وَ صَدٌّ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰہِ وَ کُفْرٌ بِہٖ وَالْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَ اِخْرَاجُ اَہْلِہٖ مِنْہُ اَکْبَرُ عِنْدَ اللّٰہِ وَ الْفِتْنَۃُ اَکْبَرُ مِنَ الْقَتْلِ وَ لَا یَزَالُوْنَ یُقَاتِلُوْنَکُمْ حَتّٰی یَرُدُّوْکُمْ عَنْ دِیْنِکُمْ اِنِ اسْتَطَاعُوْا وَ مَنْ یَّرْتَدِدْ مِنْکُمْ عَنْ دِیْنِہٖ فَیَمُتْ وَ ہُوَ کَافِرٌ فَاُولٰٓئِکَ حَبِطَتْ اَعْمَالُہُمْ فِی الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَۃِ وَ اُولٰٓئِکَ اَصْحٰبُ النَّارِ ہُمْ فِیْہَا خٰلِدُوْنo} [البقرہ:۲۱۷]
''وہ تجھ سے حرمت والے مہینے کے متعلق اس میں لڑنے کے بارے میں پوچھتے ہیں، کہہ دے اس میں لڑنا بہت بڑا ہے اور اللہ کے راستے سے روکنا اور اس سے کفر کرنا اور مسجد حرام سے (روکنا) اور اس کے رہنے والوں کو اس سے نکالنا اللہ کے نزدیک اس سے زیادہ بڑا ہے اور فتنہ قتل سے زیادہ بڑا ہے۔ اور وہ تم سے ہمیشہ لڑتے رہیں گے، یہاں تک کہ تمھیں تمھارے دین سے پھیر دیں، اگر کر سکیں، اور تم میں سے جو اپنے دین سے پھر جائے، پھر اس حال میں مرے کہ وہ کافر ہو تو یہ وہ لوگ ہیں جن کے اعمال دنیا اور آخرت میں ضائع ہوگئے اور یہی لوگ آگ والے ہیں، وہ اس میں ہمیشہ رہنے والے ہیں۔ ''
اس طرح کے مرتد آدمی کے بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
((مَنْ بَدَّلَ دِیْنَہُ فَاقْتُلُوْہُ))1
''جو شخص دین حنیف، اسلام کو تبدیل کر ڈالے (یعنی اس سے پھر جائے) اُسے قتل کردو۔''
دین اسلام سے پھر جانے والا شخص، مرتد وہ بھی ہوگا جو کفر کو لکھ کر شرح صدر سے قبول کرے یا کسی اخبار محلہ وغیرہ میں اپنا بیان اس ضمن میں دے یا کسی ریڈیو ٹیلیویژن پر کسی پروگرام میں اس کا اظہار کرے اور اللہ عزوجل کی ذات اقدس کے بارے میں بکواس کرتے ہوئے اللہ کریم کا ٹھٹھہ اڑائے۔ جبکہ اللہ تبارک و تعالیٰ، رب العالمین اس سے کہ جو مرتد آدمی اور کافر و مشرک کہہ رہا ہوتا ہے بہت زیادہ عالی عظمت و شان والا ہے۔ یا یہ ہے کہ ایسا گستاخ و مرتد آدمی نبی معظم و مکرم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اطہر اور آپ کی صفات عالیہ کے بارے میں ٹھٹھہ و استہزاء سے کام لے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف گندی عادات و خصائل کو منسوب کرے یا یہ کہ وہ شریعت مطہرہ دین اسلام پر سخت حملہ کرے۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1أخرجہ البخاري في کتاب استتابۃ المرتدین والمعاندین وقتالھم، باب: حکم المرتد والمرتدۃ واستتابتھم۔ ۶۹۲۲۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
اللہ عزوجل نے ہر اُس آدمی کے بارے میں کہ جو اُس پر ایمان لانے، اللہ عزوجل اور اسلام کے بارے میں خوب بصیرت حاصل کرلینے، کفر کے خلاف اس کی شرح صدر اور دین حنیف پر مکمل اطمینان کے بعد اس کے ساتھ کفر کرے، اس بات کی خبر دی ہے کہ: اس شخص کے ایمان کے بارے میں علم آجانے اور پھر اس سے پھر جانے کی وجہ سے وہ اس پر سخت ناراض ہوتا ہے اور یہ کہ اس کے لیے (دنیاوی سزا کے علاوہ) آخرت میں بہت بڑا عذاب ہوگا۔ اس لیے کہ اس نے دنیا کی آسائشوں اور عیاشی کو آخرت کے مقابلے میں پسند کرلیا ہے۔ چنانچہ اس نے دنیا کی خاطر اس چیز کو مقدم کرلیا کہ جسے مرتد لوگ مقدم کیا کرتے ہیں۔ اس بنا پر اس کے دل پر کفر و ارتداد کی مہر لگا دی گئی اور اس کے ارتداد کے بعد اللہ عزوجل نے نہ ہی اسے دوبارہ سیدھی راہ پر لانے کو پسند فرمایا اور نہ ہی اُسے دین حق پر ثابت قدمی عطا فرمائی۔ اس کے بعد وہ اس ارتداد کے ذریعے کسی ایسی چیز کے بارے میں عقل اور سوچ سے کام نہیں لیتا کہ جو اس کو نفع دے۔ اللہ عزوجل بھی اس کی معرفت حق کے لیے سماعت و بصارت اور بصیرت پر مہر لگا دیتے ہیں اور وہ ان صلاحیتوں سے قطعاً فائدہ نہیں اُٹھا سکتا۔ وہ قرآن و سنت کے اصل مفہوم و مراد سے غافل رہتا ہے۔ بغیر تعجب کیے یہ گمراہی اس کی لازمی صفت و پہچان بن جاتی ہے۔ (جیسے کہ مرزائی اور دیگر گمراہ ٹولے ہیں) بلاشبہ ایسا آدمی آخرت میں خسارہ و نقصان اٹھانے والوں میں سے ہوگا۔ یعنی ایسے نقصان اٹھانے والے کہ جنہوں نے دنیا میں جان بوجھ کر خود کو بھی خسارہ میں ڈالا ہوگا اپنے اہل خانہ کو بھی۔1
اس ضمن میں اللہ عزوجل کا ارشاد گرامی ہے:
{ذٰلِکَ بِاَنَّہُمُ اسْتَحَبُّوا الْحَیٰوۃَ الدُّنْیَا عَلَی الْاٰخِرَۃِ وَ اَنَّ اللّٰہَ لَا یَہْدِی الْقَوْمَ الْکٰفِرِیْنَo اُولٰٓئِکَ الَّذِیْنَ طَبَعَ اللّٰہُ عَلٰی قُلُوْبِہِمْ وَ سَمْعِہِمْ وَ اَبْصَارِہِمْ وَ اُولٰٓئِکَ ہُمُ الْغٰفِلُوْنَo لَا جَرَمَ اَنَّہُمْ فِی الْاٰخِرَۃِ ہُمُ الْخٰسِرُوْنَo} [النحل:۱۰۷تا۱۰۹]
''یہ اس لیے کہ بے شک انھوں نے دنیا کی زندگی کو آخرت کے مقابلے میں محبوب رکھا اور اس لیے کہ بے شک اللہ کافر لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا۔ یہ وہی لوگ ہیں جن کے دلوں اور ان کے کانوںاور ان کی آنکھوں پر اللہ نے مہر لگادی ہے اور یہی لوگ ہیں جو بالکل غافل ہیں۔ کوئی شک نہیں کہ یقینا یہ لوگ، آخرت میں وہی خسارہ اٹھانے والے ہیں۔''
اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس ضمن میں اپنے مومن، مسلمان بندوں کو بھی خبردار کرتے ہوئے انہیں متنبہ کیا اور انہیں ڈانٹ پلائی ہے کہ: اگر وہ اپنے دین سے پھرگئے تو اللہ تعالیٰ اُن کی جگہ کسی دوسری غیر عرب ایسی قوم کو لے آئے گا جو اس سے محبت کریں گے اور وہ ان سے محبت کریں گے۔ (پختہ عقیدہ خالص اور مضبوط ایمان ان کی شان اور پہچان ہوگی) چنانچہ اللہ رب العالمین فرماتے ہیں:
{یٰٓأَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مَنْ یَّرْتَدَّ مِنْکُمْ عَنْ دِیْنِہٖ فَسَوْفَ یَاْتِی اللّٰہُ بِقَوْمٍ یُّحِبُّہُمْ وَ یُحِبُّوْنَہٗٓ اَذِلَّۃٍ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ اَعِزَّۃٍ عَلَی الْکٰفِرِیْنَ یُجَاہِدُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ وَ لَا یَخَافُوْنَ لَوْمَۃَ لَآئِمٍ ذٰلِکَ فَضْلُ اللّٰہِ یُؤْتِیْہِ مَنْ یَّشَآئُ وَ اللّٰہُ وَاسِعٌ عَلِیْمٌo}[المائدہ:۵۴]
''اے لوگو جو ایمان لائے ہو! تم میں سے جو کوئی اپنے دین سے پھر جائے تو اللہ عنقریب ایسے لوگ لائے گا کہ وہ ان سے محبت کرے گا اور وہ اس سے محبت کریں گے، مومنوں پر بہت نرم ہوں گے، کافروں پر بہت سخت، اللہ کے راستے میں جہاد کریں گے اور کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہیں ڈریں گے۔ یہ اللہ کا فضل ہے، وہ اسے دیتا ہے جس کو چاہتا ہے اور اللہ وسعت والا، سب کچھ جاننے والا ہے۔''
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1تفصیل کے لیے: حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ کی تفسیر القرآن العظیم جلد نمبر۲، ص ۶۰۹ کا مطالعہ کیجیے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
دوسرے مقام پر یوں فرمایا ہے:
{ہَااَنْتُمْ ہٰٓؤُلَآئِ تُدْعَوْنَ لِتُنفِقُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ فَمِنْکُمْ مَنْ یَّبْخَلُ وَمَنْ یَّبْخَلْ فَاِِنَّمَا یَبْخَلُ عَنْ نَّفْسِہِ وَاللّٰہُ الْغَنِیُّ وَاَنْتُمُ الْفُقَرَائُ وَاِِنْ تَتَوَلَّوْا یَسْتَبْدِلْ قَوْمًا غَیْرَکُمْ ثُمَّ لَا یَکُوْنُوْا اَمْثَالَکُمْo} [محمد:۳۸]
''سنو! تم وہ لوگ ہوکہ تم بلائے جاتے ہو، تاکہ اللہ کی راہ میں خرچ کر و، توتم میں سے کچھ وہ ہیں جو بخل کرتے ہیں اور جو بخل کرتا ہے تو وہ در حقیقت اپنے آپ ہی سے بخل کرتا ہے اور اللہ ہی بے پروا ہے اور تم ہی محتاج ہو اور اگر تم پھر جاؤ گے تو وہ تمھاری جگہ تمھارے سوا اور لوگوں کو لے آئے گا، پھر وہ تمھاری طرح نہیں ہوں گے۔''
اپنے ایمان والے بندوں کو ارتداد سے بچانے کے لیے اللہ عزوجل نے اس طرف جانے والے ہر راستے کو کاٹ دیا ہے اور اُنہیں سب سے اوّل ان یہود و نصاریٰ کی اطاعت و فرمانبرداری کرنے سے خوب متنبہ فرمایا ہے کہ جو مسلمانوں کے بارے میں ایڑی چوٹی کا زور لگادیتے ہیں کہ وہ انہیں ان کے دین حق سے پھیر دیں اور انہیں اپنے جیسا کافر اور اللہ کا دشمن بنالیں۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
{یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِنْ تُطِیْعُوْا فَرِیْقًا مِّنَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْکِتٰبَ یَرُدُّوْکُمْ بَعْدَ اِیْمَانِکُمْ کٰفِرِیْنَo} [آل عمران:۱۰۰]
''اے لوگو جو ایمان لائے ہو!اگر تم ان میں سے کچھ لوگوں کا کہنا مانو گے، جنھیں کتاب دی گئی ہے، تو وہ تمھیں تمھارے ایمان کے بعد پھر کافر بنا دیں گے۔''
دوسرے مقام پر فرمایا:
{وَدَّ کَثِیْرٌ مِّنْ اَہْلِ الْکِتٰبِ لَوْ یَرُدُّوْنَکُمْ مِّنْ بَعْدِ اِیْمَانِکُمْ کُفَّارًا حَسَدًا مِّنْ عِنْدِ اَنْفُسِہِمْ مِّنْ بَعْدِ مَا تَبَیَّنَ لَہُمُ الْحَقُّ فَاعْفُوْا وَاصْفَحُوْا حَتّٰی یَاْتِیِ اللّٰہُ بِاَمْرِہٖ اِنَّ اللّٰہَ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرٌo} [البقرہ:۱۰۹]
''بہت سے اہل کتاب چاہتے ہیں کاش! وہ تمھیں تمھارے ایمان کے بعد پھر کافر بنا دیں، اپنے دلوں کے حسد کی وجہ سے، اس کے بعد کہ ان کے لیے حق خوب واضح ہو چکا۔ سو تم معاف کرو اور در گزر کرو، یہاں تک کہ اللہ اپنا حکم لے آئے۔ بے شک اللہ ہر چیز پر پوری طرح قادر ہے۔''
اہل کتاب کی کسی سچائی کی کوئی ضمانت نہیں ہے، اس لیے کہ انہوں نے ایسے تمام لوگوں کو فتنے میں مبتلا کردیا کہ جنہوں نے ان سے اپنے دین کے بارے میں دوستی کی۔
اللہ رب العالمین نے اپنے مومن بندوں کو یہود و نصاریٰ سے دوستی لگانے اور مومنوں مسلمانوں کے علاوہ ان کو دوست بنانے سے بھی منع فرمایا ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
{لَا یَتَّخِذِ الْمُؤْمِنُوْنَ الْکٰفِرِیْنَ اَوْلِیَآئَ مِنْ دُوْنِ الْمُؤْمِنِیْنَ وَمَنْ یَّفْعَلْ ذٰلِکَ فَلَیْسَ مِنَ اللّٰہِ فِیْ شَیْئٍ اِلَّآ اَنْ تَتَّقُوْا مِنْہُمْ تُقٰۃً وَیُحَذِّرُکُمُ اللّٰہُ نَفْسَہٗ وَاِلَی اللّٰہِ الْمَصِیْرُo}[آل عمران:۲۸]
''ایمان والے مومنوں کو چھوڑ کر کافروں کو دوست مت بنائیں اور جو ایسا کرے گا وہ اللہ کی طرف سے کسی چیز میں نہیں مگر یہ کہ تم ان سے بچو، کسی طرح بچنا اور اللہ تمھیں اپنے آپ سے ڈراتا ہے اور اللہ ہی کی طرف لوٹ کر جاناہے۔''
اللہ رب العالمین نے اس بات کا بھی انکار کیا ہے کہ ان کافروں کی کسی طرح کی کوئی عزت ہو۔ اس لیے کہ عزت پر سارا حق اللہ رب العزت کا ہے۔ چنانچہ اللہ رب العالمین نے یہود و نصاریٰ، دنیا جہان کے کفار و مشرکین اور منافقین کے متعلق عزت و اکرام کا انکار کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ وہ کافروں کی دوستی والی راہ پر نہ چلیں۔
{الَّذِیْنَ یَتَّخِذُوْنَ الْکٰفِرِیْنَ اَوْلِیَآئَ مِنْ دُوْنِ الْمُؤْمِنِیْنَ اَیَیْتَغُوْنَ عِنْدَہُمُ الْعِزَّۃَ فَاِنَّ الْعِزَّۃَ لِلّٰہِ جَمِیْعًاo} [النساء:۱۳۹]
''وہ جو کافروں کو مومنوں کے سوا دوست بناتے ہیں، کیا وہ ان کے پاس عزت ڈھونڈتے ہیں؟ تو بے شک عزت سب اللہ کے لیے ہے۔''
جی ہاں! ہر طرح کی تمام تر عزت کا حق صرف اور صرف ایک اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے پاس ہے، وہ تنہا و یکتا ہے۔ اس کا کوئی شریک، حصے دار نہیں اور یہ کہ وہ اس عزت و احترام میں سے جس کو جتنا چاہے حصہ عطا فرمائے۔ یہ بھی اسی کے اختیار میں ہے۔ جیسا کہ اللہ عزوجل کا فرمان ہے:
{مَنْ کَانَ یُرِیْدُ الْعِزَّۃَ فَلِلّٰہِ الْعِزَّۃُ جَمِیْعًا اِلَیْہِ یَصْعَدُ الْکَلِمُ الطَّیِّبُ وَ الْعَمَلُ الصَّالِحُ یَرْفَعُہٗ وَ الَّذِیْنَ یَمْکُرُوْنَ السَّیِّاٰتِ لَہُمْ عَذَابٌ شَدِیْدٌ وَ مَکْرُ اُولٰٓئِکَ ہُوَ یَبُوْرُo}[الفاطر:۱۰]
''جو شخص عزت چاہتا ہو سو عزت سب اللہ ہی کے لیے ہے۔ اسی کی طرف ہر پا کیزہ بات چڑھتی ہے اور نیک عمل اسے بلند کرتا ہے اور جو لوگ برائیوں کی خفیہ تدبیر کرتے ہیں ان کے لیے بہت سخت عذاب ہے اور ان لوگوں کی خفیہ تدبیر ہی برباد ہو گی۔''
اس ترغیب اور جوش دلانے کا مقصد اللہ رب العزت کی طرف سے عزت کی طلب اور اس کی عبادت و عبودیت پر مکمل توجہ اور اس ضمن میں اس کے ان تمام مومن بندوں کا انتظام کرنا ہے کہ جن کے لیے دنیاوی زندگی میں بھی اللہ عزوجل کی مدد حاصل رہتی ہے اور قیامت والے دن بھی ان کو اللہ کی مدد حاصل ہوگی۔
اللہ تعالیٰ نے اپنے مومن بندوں کو ان جیسے مرتد کافروں کے ساتھ اُٹھنے بیٹھنے سے منع فرمایا ہے کہ جب وہ دین حنیف کے بارے میں ٹھٹھہ اڑا رہے ہوں تو وہ ان سے دور ہیں۔ چنانچہ فرمایا:
{وَ قَدْ نَزَّلَ عَلَیْکُمْ فِی الْکِتٰبِ اَنْ اِذَا سَمِعْتُمْ اٰیٰتِ اللّٰہِ یُکْفَرُ بِہَا وَ یُسْتَہْزَاُ بِہَافَـلَا تَقْعُدُوْا مَعَہُمْ حَتّٰی یَخُوْضُوْا فِیْ حَدِیْثٍ غَیْرِہٖٓ اِنَّکُمْ اِذًا مِّثْلُہُمْ ط اِنَّ اللّٰہَ جَامِعُ الْمُنٰفِقِیْنَ وَ الْکٰفِرِیْنَ فِیْ جَہَنَّمَ جَمِیْعَاo} [النساء:۱۴۰]
''اور بلاشبہ اس نے تم پر کتاب میں نازل فرمایا ہے کہ جب تم اللہ کی آیات کو سنو کہ ان کے ساتھ کفر کیا جاتا ہے اور ان کا مذاق اڑایا جاتا ہے تو ان کے ساتھ مت بیٹھو، یہاں تک کہ وہ اس کے علاوہ کسی اور بات میں مشغول ہو جائیں۔ بے شک تم بھی اس وقت ان جیسے ہو، بے شک اللہ منافقوں اور کافروں، سب کو جہنم میں جمع کرنے والا ہے۔''
اس سے قبل سورۃ الانعام کی آیت ۶۸ میں یہ حکم نازل ہوچکا تھا مگر اس کے باوجود منافقوں کی یہ روش تھی کہ مسلمانوں کی مجالس کو چھوڑ کر یہودیوں اور مشرکوں کی مجلسوں میں جاشریک ہوتے اور وہاں آیات الٰہی کا ٹھٹھہ اڑایا جاتا۔ آیت ہذہ میں اس روش کی طرف اشارہ ہے۔ ویسے اس آیت کا حکم عام ہے اور ہر ایسی مجلس میں شرکت حرام ہے جہاں قرآن و سنت کا مذاق اڑایا جاتا ہو۔ چاہے وہ مجلس کفار و مشرکین، یہود و ہنود کی ہو یا اہل بدعات کی۔ اس آیت کے مطابق شریعت کا حکم یہ بھی ہے کہ اگر تم نے اس نہی کے آنے کے بعد بھی اے مسلمانو! کفار و مشرکین، ہنود و یہود اور اہل بدعات و خرافات کی اُن مجلسوں میں بیٹھنے والے جرم کا ارتکاب کیا کہ جن میں اللہ کی آیات کا ٹھٹھہ اڑایا جاتا ہو تو اس گناہِ عظیم میں تم بھی ان کے برابر شریک ہوگئے۔ اس لیے کہ تم نے ان کے ساتھ بیٹھنے میں اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کی اور یہ جو اللہ عزوجل کا فرمان ہے: {اِنَّ اللّٰہَ جَامِعُ الْمُنٰفِقِیْنَ وَ الْکٰفِرِیْنَ فِیْ جَہَنَّمَ جَمِیْعَا} تو اس کا معنی ہے کہ جس طرح انہوں نے کفر میں ان کے ساتھ مشارکت کی اسی طرح اللہ تعالیٰ بھی ان کو جہنم میں ہمیشہ ہمیشہ رکھنے میں ان کو اکٹھا کردے گا۔ وہاں ان کو سخت سزا اور عذاب کے گھر (جہنم) میں بیڑیوں کے لگنے، گلوں میں طوقوں کے ڈالے جانے، کھولتی ہوئی پیپ کے پینے اور تھوہر کے درخت کھانے میں ایک دوسرے کا ساتھی اور سانجھی بنا دے گا۔ العیاذ باللہ1
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1تفصیل کے لیے دیکھیے: حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ کی تفسیر القرآن العظیم جلد نمبر ۱ ص ۵۸۰ اور تفسیر الطبری۔

اللہ تعالی کی پسند اور ناپسند
 
Top