• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

دین اور مذہب میں فرق

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
دین اور مذہب میں فرق

فقہی مکاتب کے ہاں لفظ مذہب ۔۔مخصوص فقہی سوچ یا نظریے کے لئے مستعمل ہوتا ہے۔ اس لئے مناسب لگتا ہے کہ لفظ دین کے مقابلے میں اسے واضح کردیا جائے۔

دین:
اسلام کے لئے دین کا لفظ قرآن پاک اور احادیث شریفہ میں عام مستعمل ہوا ہے۔ اس لئے کہ دین(راستہ، عقیدہ وعمل کامنہج، طریقہ زندگی) بتدریج نازل ہوا اور مکمل صورت میں ہمیں مل گیا۔ جو سب آسمانی وحی ہے اور مقدس ہے۔ جس کا ا علان قرآن کریم میں واشگاف الفاظ میں کیا گیا ہے: {إن الدین عند اللہ الإسلام} یقینا اللہ تعالیٰ کے نزدیک دین اگر کوئی ہے تو وہ اسلام ہے۔ ا س آسمانی دین میں کسی انسانی فکر یا سوچ کا کوئی دخل نہیں۔یہ سب اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہمیں بذیعہ وحی ملا ہے جس کے رسول اللہ ﷺ بھی پابند ہیں۔

مذہب:
یہ ہماری اسلامی تاریخ کے دین کے ماہرعلماء وفقہاء کی اس فکر کا نام ہے جو انہوں نے دین کے کسی اہم مسئلے پر غور وفکر کے بعد اپنی رائے کی صورت میں دی۔اس سوچ اور فکر کو جب اپنایا جاتا ہے تو اسے مذہب نام دیا جاتا ہے۔اسی لئے مذاہب اربعہ یا چاروں مذاہب کی اصطلاح عام ہے۔ اور ہر مذہب اپنا فقہی مسئلہ بتاتے وقت یہی کہتا ہے کہ ہمارے مذہب میں یوں ہے اور فلاں مذہب میں یہ ہے۔نیک نیتی سے اگر سوچا جائے تو یہ ایک رائے یا اس مسلک کا نام ہے جو کسی امام نے دی یا اپنائی۔مگر بعد میں اسے باقاعدہ اس امام کی طرف منسوب کرنا اور اس پر سختی سے کابند ہوناکیا اس کی کوئی معقول توجیہ ہے؟ اور کیا یہ امت کے حق میں مفید ہے؟

دین اور مذہب کی اس تعریف کے بعد اب یہ جاننا کوئی مشکل نہیں کہ ان میں کیا فرق ہے۔دین اللہ تعالیٰ کی طرف سے دیا ہوا ایک طریقہ زندگی وعقیدہ ہے اور مذہب ایک عالم کی فکر کو اپنانے کا نام ہے۔دین ایک مقدس شے ہے اور مذہب میں بہر حال معصومیت نہیں ہوسکتی اس میں کہیں نہ کہیں کوئی نہ کوئی خطا اور غلطی کا امکان ہے۔دین کی طرف نسبت کرنا تو قرآن اور سنت رسول اللہ کا مطالبہ ہے{ہو سمکم المسلمین} مگر مذہب کی طرف نسبت کرنا کوئی دلیل نہیں رکھتا بلکہ اکابر کے بارے میں غلو کا نظریہ چھلکتا ہے۔دین کی اتباع بہر صورت فرض ہے اس کے انکار سے مومن مسلم نہیں رہتا جب کہ مذہب ایک فرد کی سوچ یا رائے کے ساتھ سختی سے چمٹ جانا ہے اس کا انکار بھی کردیا جائے تو مسلمان بہر حال مسلمان ہی رہتا ہے۔

کسی فرد خواہ وہ عالم ہو یا فقیہ اس کی رائے دین میں کیا حیثیت رکھتی ہے ؟ بس اتنی کہ اگر اس کی رائے دین کے اصول اور عقائد کے عین مطابق ہے تو سر آنکھوں پر اور اگر نہیں تو ظاہر ہے اس عالم کو نبی یا رسول کا مقام نہیں دیا جاسکتا۔ اس کی رائے بہ احترام ایک طرف رکھ دی جائے گی۔ اس میں نہ عالم یا فقیہ کی توہین ہے اور نہ ہی روز قیامت اس کی پوچھ ہے ۔نہ ہم اس کے اخلاص پر شک کرنے کے روادار ہیں اور نہ ہی اس رائے کو قبول کرکے ہم اس کی شان کو بلند کر سکتے ہیں۔ ہاں حدیث رسول کے مطابق یہ ضرور کہہ سکتے ہیں کہ اگر اس کی رائے دین کے عین موافق ہے تو اسے دوگنا ثواب ملے گا اور اگر مخالف ہے تب بھی اللہ تعالیٰ اس کے اخلاص کی وجہ سے اسے ایک ثواب ضرور دے گا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
فقہ، قانون اورشریعہ

ان تینوں علوم کے لغوی واصطلاحی فرق کو سمجھنا بھی ضروری ہے تاکہ ہر علم کو اس کا مناسب مقام دیا جاسکے۔
فقہ کی لغوی اور اصطلاحی تعریف آپ پڑھ چکے اور تاریخی اعتبار سے بتدریج اس کے مفہوم میں جو تبدیلی آئی وہ بھی آپ جان چکے۔ ہمارے دور میں رائج فقہ کی اب دو قسمیں ہیں:

مذہبی فقہ:
…یہ وہ فقہی کوشش ہے جو ہر مسلک ومذہب کے علماء وفقہاء نے سرانجام دی۔ جن کا مقصداپنی اپنی مسلکی فقہ کی اشاعت وترویج ہے۔

…یہ فقہ عمومی طور پر اپنے مسلک یا امام یا مجتہد کے علم و فہم، اقوال واستنباط اور اجتہاد کے ارد گرد گھومتی ہے اور اسی کے نام سے معروف بھی ہوتی ہے جیسے فقہ جعفری، فقہ شافعی اور فقہ حنفی وغیرہ۔دیگر فقہاء کے فقہی استنباطات کے مقابلے میں اپنی ترجیح قائم کرنا اس فقہ کا سب سے اولین اور بنیادی کام ہوتاہے۔اس فقہ کو اپنی منشورات وفتاوی میں بھی نمایاں کیا جاتا ہے۔

…مدارس ، حوزہ علمیہ اور مساجد اس کا اصل مرکز ہیں۔

…چونکہ یہ فقہ سوسائٹی کی نشوو ارتقاء کے ساتھ آگے نہیں بڑھ سکتی اس لئے ایسی مذہبی فقہ کا نفاذ کسی جج کے ذریعے ممکن ہوا اور نہ ہوسکتا ہے۔ اس لئے کہ جن حالات میں مجلہ الاحکام العدلیہ یا فتاوی عالمگیریہ لکھاگیا وہ حالات مسلمانوں کو آج درپیش نہیں۔ مزید یہ کہ یہ فقہ ، فقہ اسلامی کا ایک جزو تو ہوسکتی ہے مگر اسے مکمل اسلامی شریعت کہنا مبالغہ آرائی ہوگا۔ ایسی فقہ مذہبی فقہ کہلاتی ہے۔

…اس مذہبی فقہ کی بقاء کے لئے نظریہ یہی باور کرایا جاتا ہے کہ ان ائمہ ہدی کے عطا کئے گئے استنباطات و اجتہادات کا علم غیرمعمولی اور ابدی شاہکار ہے اس لئے ایسی باکمال ہستیاں اب امت مسلمہ کو کہاں نصیب ہو سکتی ہیں لہٰذا ہمارے امام برحق کے علم وفضل سے امت مستفید ہوتی رہے اور مزید اجتہادی کوشش میں اپنا وقت ضائع نہ کرے۔مگرسوال یہ ہے پھر دوسرے ائمہ کا کیا کیا جائے؟ اور انہیں برحق سمجھا جائے یا ناحق؟

… ایسی فقہ میں ضروری نہیں کہ شریعت کے ہر باب کے بارے میں مسائل بتائے گئے ہوں۔ اس لئے کہ بعض موضوعات پر ان ائمہ کرام سے ایک مسئلہ بھی بیان شدہ نہیں ہوتا۔کتب فقہ بھی ا ن کی رائے کے اظہار سے خالی ہوتی ہیں۔اس کی مثال یوں سمجھئے: موجودہ فقہ خلافت عباسیہ میں بنی۔جسے زمین پر کلی اقتدار حاصل تھا۔ چنانچہ یہ مدون فقہ یہ تو بتاتی ہے کہ مسلمان جب حکمراں حیثیت میں ہوں تو ان کے لئے شرعی احکام کیا ہیں؟ اس میں ایسے ابواب کثرت سے پائے جاتے ہیں لیکن اگر آپ یہ جاننا چاہیں کہ مسلمان جب اپنے آپ کو غیر حکمراں حیثیت میں پائیں تو اس وقت ان کے لئے کیا شرعی حکم ہے تو اس کا واضح جواب آپ کو موجودہ مدون فقہ میں نہیں ملتا۔موجودہ مسائل میں اہل اسلام کو مہدی منتظر کی آمد بھی کوئی فائدہ نہیں دے سکتی۔

…اسی طرح موجودہ فقہ جب مدون کی گئی تو اس وقت سلطانی وخلافت کا زمانہ تھا۔دور حاضر کی عوامی جمہوریت اس وقت قائم نہیں ہوئی تھی اس لئے اس فقہ میں خلیفہ اور سلطان سے متعلق احکام تو بہت ملیں گے لیکن اگر آپ یہ جاننا چاہیں کہ مسلمان کسی ملک میں تنہا حاکم نہ ہوں بلکہ جمہوری نظام کے تحت دوسری قوموں کے ساتھ شریک حکومت ہوں ایسی حالت میں ان کے لئے شرعی احکام کیا ہیں ؟ موجودہ مدون فقہ میں آپ کو کوئی راہنمائی نہیں ملے گی۔ یہی مسئلہ دارالاسلام اور دار الحرب یا دارالکفر کا ہے۔مگر کیا آج کے دور میں ان اصطلاحات کو لاگو کیا جاسکتا ہے؟ یہ کمی صرف مدون فقہ میں ہے اگر آپ اس فقہ سے گذر کر قرآن وسنت تک پہنچ جائیں تو آپ پائیں گے کہ قرآن وسنت میں ہر صورت حال کے لئے کامل راہنمائی موجود ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
دینی فقہ:
… اس کے برعکس وہ فقہ جس میں مسلکی نہیں بلکہ اس میں دین کی آفاقیت کو ہمیشہ پیش نظر رکھا جاتا ہے۔یعنی علماء وفقہاء اور مجتہدین حضرات کی آمد ورفت کا سلسلہ اس میں باقی رہتا ہے اور دین کی وجہ سے تاقیامت قائم رہنا ہے۔ اس لئے حال ومستقبل کے فقہاء کی استنباطی واجتہادی کاوشوں پر اس میں پابندی نہیں ہوتی۔

… ایسی فقہ کسی مخصوص فقیہ ومجتہد کے نام سے نہیں بلکہ تمام ائمہ فقہاء ومجتہدین سے مستفید ہوتی اور محض دین کے نام سے پہچانی جاتی ہے۔خواہ وہ ماضی کے کسی مجتہد یاامام کی کاوش ہو یا دور حاضر کے کسی فقیہ کی ، مگر اسلام کے بیشتر اصولوں سے ہم آہنگ ہو اور قرآن وسنت رسول ہی اس کا استدلال رہا ہو وہ دینی فقہ کہلاتی ہے

…یہ فقہ شریعت کے مقابلے میں زیادہ خاص شے ہے۔ کیونکہ اس میں صرف ایسے احکام شرعی سے بحث ہوتی ہے جن کا تعلق عمل سے ہے۔جیسے وضو، طہارت، اور تمام عبادات یا بیوع ومعاملات کے احکام وغیرہ۔فقہ شریعت کا جزء ہے یعنی کچھ چیزیں شریعت کی اس میں ہیں نہ کہ ساری۔کبھی فقہ کا لفظ شریعت کے لئے بھی بولا جاتا ہے جوجائزہے کہ عام بول کر اس سے خاص مراد لیا جائے۔

… یہ فقہ معاشرہ کے ارتقاء سے پہلے ہی نشو ونما پاچکی ہوتی ہے اس لئے اس کا نفاذ ممکن ہے۔اس کی دستاویز میں فقہ وشریعت کے تمام پہلوؤں پر تفصیلی گفتگو ہوتی ہے اور مختلف فقہاء کرام کے نقطہ ہائے نظر کو دلائل کے ساتھ پیش کرکے قاری کے ذہنی سفر کو اڑان دی جاتی ہے۔ایسی کتب اور فتاوی عموماً قرآن وسنت کے دلائل ہی سے آراستہ ہوتی ہیں۔یہی استدلال سرمایہ فقہ ہے۔اسے شریعت بھی کہا جاتا ہے۔مذہبی اور دینی فقہ کے اس فرق کو سامنے رکھتے ہوئے ہم علماء وفقہاء کے مابین بھی مذہبی ودینی فرق کو بخوبی جان سکتے ہیں۔

دونوں میں فرق:

…دینی فقہ میں ہر وہ اجتہاد جگہ پا گیاجوقرآن وسنت رسولﷺ کے اصولوں کے عین مطابق تھا۔اس لئے فقہاء صحابہ، ائمہ اربعہ یا دیگر فقہاء امت میں جس کسی کا سرمایہ افتخار قرآن وسنت رسول رہا اس کی فقہ اپنی وسعت، قوت استدلال، اور نصوص سے وابستگی کی وجہ سے ہر دور میں امر ہوگئی اور دین نے اسے اپنے اندر جذب کرلیا۔

… جس نے شذوذ کی راہ اختیار کی اسے دینی تو نہیں بلکہ ایک انفرادی رائے یا مسلکی فقہ کا نام دے دیا گیا مگر پھر بھی اس کے بارے میں حسن ظن سے یہ کام لیا گیا کہ گو اس کا مخلصانہ عمل قابل ثواب ہے مگر قابل تقلید نہیں۔

…آج کے دور میں ان دونوں فقہ پر خوب کام ہو رہا ہے کتب لکھی جارہی ہیں اور علم اپنی حقیقت کو سامنے لا رہا ہے۔اس اعتبار سے دونوں فقہ کا مطالعہ ماضی کے تاریخی ورثے اور زندہ ومتحرک فقہ کا مطالعہ ہوگا تاکہ دینی فقہ کا مصدراستخراج جانا جاسکے ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
شریعت:
لغت میں تشریع( شریعت کی رو سے قانون سازی کرنا) کا لفظ شریعت سے ماخوذ ہے۔ عربی لغت میں اس کے متعدد معانی ہیں۔مثلاً:
شَرَعَ الْوَارِدُ شَرْعاً:
آنے والے نے اپنے منہ سے پانی تناول کیا ۔
شَرَع َالدِّیْنَ:
دین کو ایک طریقہ بنایا اور اسے واضح کیا۔
یہی معنی قرآن کریم میں مستعمل ہے:
{ شَرَعَ لَکُمْ مِنَ الدِّیْنِ}۔ نیزاس کا مطلب پھیلانا اور تیار کرنا کے بھی ہیں جیسے: شَرَعَ الطَّرِیْقَ وَمَہَّدَہُ۔ اس نے راستہ پھیلایا وسیع کیا اور تیار کیا۔یہی معنی شریعت بھی ہے جسے اللہ تعالیٰ نے سیدنا محمد ﷺ کے ذریعے اپنے بندوں کو عطا فرمائی جس میں عقائد، عبادات، معاملات، اخلاق اور زندگی کے مختلف شعبوں کے نظا م موجود ہیں تاکہ لوگ انہیں قبول کرکے اپنی دنیاوی اور اخروی سعادتوں کو حاصل کرسکیں۔اسی کا مبالغہ شَرَّعَ ہے جس سے لفظ تشریع مصدر ہے۔

تشریع:
عربی میں یہ لفظ شریعت سے ماخوذ ہے جس کے دو معنی بیان کئے جاتے ہیں:

۱۔ مستقیم راستہ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد بھی ہے: {ثم جعلناک علی شریعۃ من الأمر} پھر ہم نے آپ کودین کی سیدھی راہ پر قائم کیا۔اس معنی میں شریعت پھر ایسا واضح راستہ ہے جو اپنے سالک کو فوز وفلاح سے ہمکنار کرکے جنت کی طرف لے جاتا ہے جس میں نفوس قدسیہ کی حیات ہے اور قلب وعقل کی سیرابی بھی۔ شاہراہ کو بھی شارع کہا جاتاہے کہ وہ منزل مقصود تک پہنچاتی ہے۔ ملت اور منہاج بھی اس کے معنی ہیں۔مراد یہ کہ شریعت بمعنی دین ہو تو وہ اللہ کی طرف ایک مستقیم طریقہ زندگی ہے ۔جیسے اوپر والی آیت میں شریعت سے مراد دین ہے۔اگر شریعت بمعنی شریعت وملت ہو تورسول اللہ ﷺ کی طرف اس کی نسبت ہوتی ہے جیسے: شریعت محمدیہ۔ اور اگر اس کا نفاذ واستعمال ہو تو پھر اسے امت کی طرف منسوب کرتے ہیں۔جیسے اسلامی شریعت۔

۲۔ چلتے پانی کا پنگھٹ، جہاں لوگ پانی پینے پلانے کے لئے آئیں۔جب اونٹ پانی کے پنگھٹ پر پہنچ جاتے توعرب کہا کرتے: شرعت الإبل۔میں اونٹوں کو پانی کے پنگھٹ پر لایا۔ ایک ضرب المثل بھی ہے: أَہْوَنُ السَّقِیِّ : التَّشْرِیْعُ۔ مراد یہ کہ اونٹوں کو چلتے پنگھٹ پر لے جاؤ تاکہ وہ پانی پی لیں۔کیونکہ بغیر ڈول نکالے یہی طریقہ زیادہ آسان تھا۔اس معنی میں شریعت جسم وقلب کو سیراب کرنے والی ایسے شے ہے جیسے پانی پیاسے کے حلق وجسم کو سیراب کردیتا ہے۔قرآن مجید میں اس لفظ کا استعمال اسی معنی میں ہوا ہے۔

{لکلّ جعلنا منکم شرعۃ و منھاجاً}تم میں سے ہر ایک کے لئے ہم نے ایک شریعت او رایک راہ عمل متعین کر دی ہے۔

یہ آیت اصل میں اس آیت {شرع لکم من الدین ما وصی بہ نوحاً} کی تفسیر ہے کہ سبھی ملتوں کا دین واصول مساوی اورایک ہی تھا جس میں نسخ نہیں ہوا۔جیسے معرفت باری تعالیٰ اور دیگر اصول جیسے:{ ومن یکفر باللہ وملئکتہ وکتبہ ورسلہ} (۔۔النساء:۱۳۶)۔ نیز اس سوال کا جواب بھی کہ جب تمام انبیاء کرام اور کتابوں کا دین ایک ہے اور سب ایک دوسرے کی تصدیق کرتے آئے ہیں تو پھر شریعت کی تفصیلات میں فرق کیوں ہے؟ جواب یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ ہی ہے جس نے مختلف قوموں کے لئے مختلف زبانوں اورمختلف حالات میں مختلف ضابطے بنائے۔ کیونکہ پچھلی شریعتوں میں بعض فروعی احکامات ایک دوسرے سے مختلف تھے۔ ایک شریعت میں بعض چیزیں حرام تھیں تو دوسری میں حلال تھیں۔بعض میں کسی مسئلے میں شدّت تھی تو دوسری میں تخفیف۔ لیکن سب کی دعوت اور دین ایک ہی تھا۔ آپﷺ نے بھی اس کی وضاحت یوں فرمائی تھی۔
{نَحْنُ مَعَاشِرُ الأنْبِیَائِ إِخْوَۃٌ لِعَلاّتٍ، دِینُنُا وَاحِدٌ}ہم انبیاء کی جماعت علاتی بھائی ہیں ہمارا دین ایک ہے۔(صحیح بخاری)

علاتی بھائی وہ ہوتے ہیں جن کی مائیں تو مختلف ہوں مگر باپ ایک ہی ہو۔ مطلب یہ کہ ان کا دین ایک ہی تھا اور شریعتیں (دستور اور طریقے) مختلف تھیں۔ شریعت محمدیہ کے بعد اب سابقہ شریعتیں منسوخ ہو گئی ہیں۔ اب دنیا کے خاتمے تک دین بھی ایک ہے اور شریعت بھی ایک۔ ایک اور مقام پہ ارشاد ربانی ہے:
{ثم جعلناک علی شریعۃ من الأمر فاتبعھا ولا تتبع أھواء الذین لا یعلمون} (الجاثیہ:۱۸) پھر ہم نے آپ کو دین کی ظاہر راہ پر قائم کر دیا۔ سو آپ اسی پر رہیں اور نادانوں کی خواہشات پہ نہ چلیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
اصطلاحاً:
وہ احکام جو اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ ﷺ کے ذریعے اپنے بندوں کو دیئے جن میں عقائد، عبادات، معاملات، اخلاق اور شعبہ ہائے زندگی سے متعلق مختلف تعلیمات بھی شامل ہیں ان پر لوگ گامزن ہوں اور اپنی دینی ، دنیوی اور أخروی سعادتوں کو سمیٹ سکیں۔انہیں احکام شرعیہ کہا جاتا ہے۔

ان لغوی اور اصطلاحی معنوں میں ذرا غور کریں تو ان میں ایک گہرا تعلق یہ بھی ہے کہ شریعت۔ جو احکام کے مجموعے کا نام ہے۔۔بہت ہی پختہ، ٹھوس اور ناقابل تغیر ہے جس کی بنیاد انتہائی مضبوط اور مستقیم ہے۔یہ ایسا نظام ہے جو زمانہ وحالات میں اپنے مقصد سے کبھی بھی انحراف نہیں کرتا۔یہ اس شارع کی مانند ہے جو بالکل سیدھی ہے جس میں کوئی ٹیڑھ نہیں۔ اس اعتبار سے یہ پنگھٹ کے مشابہ ہے کہ یہ نفس وعقل دونوں کو غذا مہیا کرتی ہے جو ان کی حیات ہے ۔کیونکہ چشمہ بھی بدن کی زندگی کے لئے ایک ذریعہ حیات بنتا ہے۔

رسول کریم ﷺ کے حوالہ سے جب مسلمان شریعت کا نام لیتے ہیں تو اس سے مراد کسی سابقہ نبی کی شریعت نہیں۔ سیدنا موسیٰ وعیسیٰ علیہما السلام کے عہد میں ان کی شریعت اسلام تھی ۔ آپ ﷺ کے رسول بننے کے بعد اب آپ کی دی ہوئی شریعت اسلام ہے۔ اس لئے سابقہ شریعتیں منسوخ ہونے کے بعد الٰہی دین نہیں رہیں اور نہ ہی وہ قابل عمل ہیں۔اس لئے نماز میں قرآن کی بجائے توراۃ یا انجیل کی تلاوت سے نماز نہیں ہوگی خواہ وہ اصولا کلام الٰہی ہو۔ قرآن کی موجودگی میں عبادت، ثواب اور اجر کے لئے ان کتب کی تلاوت حرام اور ناجائز ہے اور ایسا کرنا نبی کریم ﷺ کی رسالت میں مداخلت ہے۔یہی وجہ ہے شیخ الإسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں: اللہ تعالیٰ نے جن عقائد واعمال کو سمجھایا ہے اس آیت کی رو سے سبھی شریعت کہلاتے ہیں۔ اسی طرح سنت ۔۔شریعت کی مانند ہے۔ یعنی جسے آپ سنت بنائیں وہ شریعت ہے۔ عقائد کو بھی آپ ﷺ نے سنت وشریعت قرار دیا اور کبھی عمل کو بھی۔ اور کبھی اس سے دونوں مراد ہوتے ہیں۔چنانچہ یہ شریعت دو قسم کے احکام رکھتی ہے:

پہلی قسم:
یہ وہ احکام ہیں جو ناقابل تغیر اور اٹل ہیں خواہ حالات وواقعات کیسے ہی ہوں۔ جیسے نماز ، روزہ، حج، زکوٰۃ یا حدودوغیرہ۔ یہ اپنی موجود ہ ہیئت واحکام کے ساتھ مفید ہیں اور اجتماعی ومعاشرتی مضبوط روابط کاذریعہ بھی۔

دوسری قسم:
ان احکام کی ہے جن کا تعلق عام دنیاوی حالات ومعاملات سے ہے۔ مثلاً تعلیم وتربیت، تجارت وصنعت، صلح وجنگ اور تعزیرات وغیرہ۔ چونکہ حالات کبھی یکساں نہیں رہتے اور قابل تغیر ہوتے ہیں اس لئے ان کے بارے میں شریعت نے اٹل اصول نہیں دیئے اور نہ ہی جزئی تفاصیل دی ہیں بلکہ ان کے لئے عام اصول وقواعد بنا دیئے ہیں تاکہ اُمت کے آگے بڑھنے کا راستہ کھلا رہے اور غلط و صحیح کے درمیان امتیاز بھی کرتی رہے۔ رسول اللہ ﷺ، صحابہ کرام ، خلفاء راشدین اور اسلاف مختلف حالات میں اپنے فہم واجتہاد سے ایسے قوانین بناتے رہے جن میں ان کلی اصولوں کی پابندی لازمًارہی جو شریعت نے مقرر کئے مگر ان کے معانی ومفہوم کی وسعت وہمہ گیریت سے وہ اپنے گونا گوں حالات میں بھرپور فائدہ اٹھاتے۔(ماخوذ وملخص از مقدمہ اسلام کا فوجداری نظام از استاذ محمد عودہ)

٭…اس لئے اسلامی حکومت کا تعلق محض معاملات کے قانونی حصے سے نہیں ہوتا بلکہ شریعت کے ہر نوع کے قانون سے ہوتاہے۔ساری شریعت کے نفاذ میں حکومت کو مستعد اور بیدار رہنا ہوگا۔ حدود وقصاص کا نفاذ کرنا، نماز، روزہ، حج اور زکوۃ کے احکام پر عمل کرانا بھی حکومت کا فرض ہوگا اور مسلمانوں میں غیر دینی مشرکانہ اور خرافانہ نظریات کی آمد کا قلع قمع بھی کرنا ہوگا۔جو چیزیں فرض کی حد تک ہیں ان کا سختی سے نفاذ ہوگا اور جو مندوب ہیں اس میں نصیحت کی جائے گی۔یہ لفظ وضعی قوانین کے لئے بھی استعمال نہیں ہوتا۔اور نہ ہی فاسد عقائد یا اللہ کی شریعت کے مخالف مذاہب ونظریات کے لئے بولا جاتا ہے۔عام افراد کے ہاں لفظ شریعت کے تین معانی ہیں:

شرع مّنَزَّل: جو آپ ﷺ پر نازل ہوئی اور جسے آپﷺ ہی نے پیش کیا۔ جس کی اتباع لازم اور مخالفت قابل تعزیر ہے۔

شرع مؤدَّل: مجتہدین وعلماء کی آراء ۔ جیسے: مذہب شافعی و حنفی وغیرہ۔ جاہل کے لئے ان کی پیروی کو جائز سمجھا جاتا ہے مگر کسی کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ عوام کو کسی مذہب کی پیروی پر مجبور کرے بلکہ شرع اسلامی ہی کی دعوت دے۔

شرع مبدَّل: جو اللہ ورسول نے نہیں کہا ان کی طرف وہ بات یا عمل منسوب کردینا۔یا اس کی مراد غلط لینا۔یا اسے بدل کر دین بنادینا۔ ایسا شخص بلانزاع کفر کا مرتکب ہواہے ۔مثلاً: وہ یہ کہے: خون، مردار یا {ما أہل لغیر اللہ بہ} حلال ہے یا سود حلال ہے۔ وغیرہ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
فقہ اور شریعت میں فرق:
ان دونوں کے مابین عموم وخصوص کی نسبت ہے۔ شریعت سے مراد ہر وہ حکم جو اللہ تعالیٰ نے شریعت بنا کر اپنے بندوں کو عقائد، عبادات، معاملات یا اخلاق وغیرہ کو دئے۔اور فقہ، شریعت کے مقابلے میں خاص ہوگئی۔ کیونکہ اس میں ضرورۃً شریعت کے عقائد اورعملی احکام ہی پیش نظر رہتے ہیں جیسے : توحید وشرک، سنت وبدعت یاوضو ، طہارت اور تمام عبادات کے احکام یا بیوع ومعاملات کے احکام یا دیگر فقہی مسائل۔ فقہ، شریعت کا جزو ہے نہ کہ شریعت کے تمام احکام اس میں شامل ہیں۔ کبھی فقہ کے لفظ سے شریعت بھی مراد لی جاتی ہے اور کبھی اس کے برعکس۔اطلاق عام اور ارادہ خاص کے طور پر ایسا کرنایہ جائز ہے۔

قانون (KANUN)
یہ یونانی لفظ ہے جو سریانی زبان کے ذریعے عربی زبان میں آیا۔ بعض اہل لغت نے اسے رومی یافارسی لفظ قرار دیا ہے۔ابتداء میں قانون کا لفظ مِسْطَرَۃ کے معنی میں مستعمل ہوا جو لائنیں کھینچنے کے پیمانے کو کہتے ہیں۔ ابن منظور افریقی (م: ۷۱۱ھ)؁ نے قانون کا معنی: مِقْیَاسُ کُلِّ شَئٍ۔ لکھا ہے یعنی یہ لفظ ۔۔ہر چیز کا ٹھیک اندازہ کرنے کا آلہ۔۔ کے لئے مستعمل ہوا جورفتہ رفتہ وہ عام معنی اختیار کر گیا جسے قاعدہ کہتے ہیں۔ جیسے قانون فطرت، حرکت کا قانون، کشش وجذب کاقانون اور قانون صحت وغیرہ بمعنی قاعدہ کے کلمات ہیں۔ انہیں قانون تو کہاجاتا ہے مگر یہ بدلتے رہتے ہیں کیونکہ طبعی قانون کو آج مأخذ بنانا اور کل اس کا متضاد آنا ممکن ہے جن کا ابھی تک علم نہیں ہوسکا۔کچھ کی تردید میں متضاد قانون بھی آچکے ہیں۔طبعی قانون کو انسانی فلاح کا ضامن سمجھنا انسانیت کی تذلیل، اس سے دشمنی اور حیوانیت کے نچلے درجے تک گرنا ہے۔رسم ورواج بھی بعض سوسائٹیوں کا قانون رہے ہیں۔ایک شخص نے کسی چیز کو رواج دیا تو اس کے کچھ پیروکاروں نے اسے پسند کرکے اس کے بعد بھی اسے جاری رکھا جو بعد میں رسم ورواج نام پا کر قانون بن گیا۔اس کی پابندی بھی دراصل حیوان کی طرح لگی بندھی زندگی والی عادت ہے اس لئے یہ قانون بھی خلاف عقل اور سفیہانہ ہے۔اس کا نفسیاتی اثر یہ ہے کہ عقل ، اصول پسندی کے جوہر سے خالی ہوجاتی ہے یا اس کا اثر بہت ہی کم نمایاں ہوتا ہے۔اس میں ایک اندھا دوسرے کا ہاتھ پکڑ کر چلتا ہے۔خواہ وہ بینا ہی کیوں نہ ہو مگر رواج خود اندھا ہوتا ہے جو اس نابینا عقل کی قیادت کرتا ہے۔ پھر اس نابینا قائد سے کیا توقع کی جاسکتی ہے؟ اس لئے یہ قانون بھی غلط، گمراہ کن اور مضر ہے۔

نفسیاتی ماحول بھی انسانی مزاج پر بڑی قوت سے اثرانداز ہوتا ہے۔ یہی رجحان ایک قانون کی حیثیت اختیار کرلیتا ہے۔مثلاً: ستی کی بجائے نکاح بیوگان کی تحریک چلی، رجحان بڑھا تو ہندوؤں نے نکاح بیوگان کا قانون لیا اور اسے پالیمنٹ سے پاس کرالیا۔ یہی حال ہمارے ہاں نظام زکو ۃ کے نفاذ کا ہوا ہے۔ شیعہ حضرات نے رجحان دیکھا تو اپنے لئے عشر کی ادائیگی کا مطالبہ کیا ۔جو ان کا حق سمجھ کرپاس کردیا گیا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
لفظ قانون کے مختلف استعمال:

۱۔گزشتہ چند صدیوں سے فقہ کی بجائے ان احکام کو جو اسلامی ممالک میں نافذ ہیں۔ قوانین(Law) کہا جانے لگا ہے۔ جس سے مراد حکومتی قوانین کی دفعات کا مجموعہ ہے۔جیسے قانُونُ الْجَزَائِ العُثْمَانِی۔ سلطنت عثمانی کا قانون سزا۔ یا القَانُونُ الْمَدَنِیُّ الْعِرَاقِی۔ عراق کا دیوانی قانون۔عثمانی خلافت میں یہ لفظ سرکاری احکام کیلئے اکثر استعمال ہوتا تھا۔ جنہیں حکومت خود جاری کرتی تھی تاکہ یہ احکام، شرع اسلامی کے ان احکام سے علیحدہ سمجھے جائیں جو شرع کے معروف دلائل پر قائم ہیں۔ یہ فرق ملحوظ رہے تو حکومت کاوہ قانون جو شرع سے متصادم ہو مثلاً سود شرعاً حرام ہے لیکن قانوناً جائز ہے ۔ سمجھ آسکتا ہے ۔آج کل یہ لفظ یورپین زبانوں میں صرف قانون کلیسا کیلئے بولا جاتا ہے۔

۲۔ لفظ قانون کا ایک اور عام معنی آئین (Constitution)کابھی ہے۔جسے انگریزی میں قانون (Ordinance) یا اندھا کالا قانون کہہ دیتے ہیں۔ بعض مخصوص حالات میں یہ لفظ ہر اس قاعدے کے لئے بولا جاتا ہے جن کا تعلق عام معاملات کے ضابطوں اور قاعدوں (Rules) سے ہو۔ مثلاً کہا جاتا ہے۔سینٹ نے غلّہ کی سمگلنگ روکنے کا قانون منظور کر لیا ہے۔

۳۔ فقہی اصولوں کیلئے بھی اس لفظ کا استعمال قدیم سے ہے۔ ابو القاسم ابن جزی المالکی(م۷۴۱ھ؁) نے فقہ مالکی کے بارے میں ایک کتاب لکھی۔ جس کانام انہوں نے الْقَوَانِینُ الفقہیۃُ فی تلخیصِ المَذہَبِ المالِکیۃِ رکھا۔ یافقہائے اسلام اپنی اصطلاح میں لفظ قانون کی بجائے شرع یا شریعت کے الفاظ استعمال کرتے ہیں۔اس لئے اسلامی قانون کا اصول فقہ سے بھی گہرا تعلق ہے۔

۴۔ بعض دفعہ لفظ شریعت ، قانون کے معنوں میں بھی مستعمل ہوتا ہے۔ مثلاً: شرائع اسلام، قوانین اسلام کے معنی میں آتا ہے۔ اسی طرح لفظ حکم،قانون شرعی کے معنی میں مستعمل ہوتا ہے۔اور حاکم کو شارع کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔

جب قانون کا لفظ پہلے تین معنی میں استعمال ہو تو اس کی درج ذیل نمایاں خصوصیات بن جاتی ہیں۔

٭۔ اس کا تعلق دنیاوی معاملات سے ہو جاتا ہے۔ عبادات سے نہیں۔ جبکہ فقہ اسلامی کے قواعد میں دین اور دنیا دونوں پر بیک وقت بحث ہوتی ہے۔

٭۔ ایسے قانون حکومت نافذ کرتی ہے۔

٭۔ جج کے فیصلے کی طرح کسی خاص معاملے یا شخص کے لئے قانون نہیں بنایا جاتا بلکہ بغیر کسی تفریق و خصوصیت کے تمام انسانوں یا انسانوں کے کسی طبقے کے لئے وضع کیا جاتا ہے۔

۵۔اسی طرح لفظ قانون بعض علوم کی کتابوں کیلئے نام کے طور پر استعمال کیا گیاہے جیسے: القانون-علم طب میں ابن سینا (م۴۲۸ھ)؁ کی کتاب اور القانون-علم ہیئت و نجوم میں ابوریحان البیرونی (م۴۴۰ھ؁)کی کتاب اورقانون الرسول-فقہ و کلام میں امام غزالی (م۵۰۵ھ؁) کی کتاب وغیرہ۔

قانون کیسے بنتا ہے؟: قانون سے مراد وہ احکام ہیں جو انتظامیہ کے اعلیٰ ارکان ادنی ارکان کے لئے وضع کرتے ہیں۔ یا انسان کے خارجی افعال کے متعلق وہ عام قاعدہ ہے جس کی تعمیل ملک کی مرکزی حکومت لوگوں سے کراتی ہے۔ SALMOND اپنی کتاب Jurisprudence(ص ۳۹ ) میں لکھتا ہے:

قانون اصول و قواعد کا ایسا مجموعہ ہے جسے ملک کی حکومت تسلیم کر کے اس کے ذریعے عدل وانصاف قائم کرتی ہے یااس قانون کو ملک کی عدالتیں تسلیم کر کے ان پر عمل کرتی اور کراتی ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
قانون کی نشوونما :
قانون کی ابتداء اس وقت ہوئی جب خاندان اور قبیلہ وجود میں آئے۔ اس وقت خاندان کے سربراہ کا قول ہی پورے خاندان کے لئے قانون کا درجہ رکھتا تھا اور قبیلے کاقانون ہوا کرتا تھا۔ قانون اسی طرح سوسائٹی کے نشوو ارتقاء کے ساتھ آگے بڑھتا رہا۔ یہاں تک کہ ریاست وجود میں آ گئی۔ ابتدا ًہوتا یہ تھا کہ ہر خاندان وقبیلے کی عادات وروایات دوسرے خاندان وقبیلے سے مختلف ہوتیں۔مگر جب ریاست وجود میں آ گئی تو عادتوں اور روایات میں ہم آہنگی پیدا ہو گئی۔ اس طرح قانون وجود میں آتا رہا۔

شریعت وقانون میں فرق:
اس حیثیت سے تو شریعت ،قانون سے ہم آہنگ ہے کہ دونوںسوسائٹی کے معاملات کی تنظیم کرتے ہیں مگر شریعت، قانون سے یوں مختلف ہے کہ شرعی قواعد دائمی اورناقابل تغیر ہیں جبکہ قانون نہیں۔ یہ امتیازی خصوصیت شریعت کو حاصل ہے قانون کو نہیں۔ اس لئے ان دونوں میں نہ کہیں مماثلت ہے اور نہ ہی دونوں مساوی درجے کے ہیں۔ شریعت کے اس امتیاز کے دوتقاضے ہیں۔

۱۔ شریعت اسلامیہ کے قواعد اور اس کی دفعات میں اس قدر عمومیت اور اس قدر لچک ہے جو معاشرتی ارتقاء کی ہر نو بہ نو تغیر پذیر صورت حال میں سوسائٹی کی تمام متنوع ضروریات کا حل پیش کرتی ہے۔

۲۔ شریعت اسلامیہ کے قواعد اور دفعات میں پہلے ہی سے اس قدر رفعت اور ارتقاء ہوتی ہے جو کسی بھی وقت سوسائٹی کے معیار سے فروتر نہ ہوں۔ ان محاسن کے ساتھ باقی فرق آپ خود ملاحظہ کیجئے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
شریعت:

۱۔ شریعت ، اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی نازل کردہ ہے۔

۲۔ شریعت ، اللہ کی تخلیق اور آئین الٰہی کے تفصیلی ضابطوں کا نام ہے۔ جس میں اس کی قدرت، کمال اور عظمت کی جھلک اور اس کے ماضی و مستقبل کے تمام ممکنات پر محیط علم کی روشنی موجود ہے۔ جو تمام مسائل و معاملات کا احاطہ کر گئی ہے۔ اس کا فیصلہ ہے کہ اس شریعت میں کوئی ترمیم و بتدیلی ممکن نہیں۔

۳۔ شریعت، سوسائٹی کی ایجاد نہیں بلکہ خود سوسائٹی شریعت کی ساخت ہے۔لفظ شریعت ایک مقدسHoly لفظ ہے۔ جس کے ساتھ لفظ اسلامی کی قید درست نہیں۔ کیونکہ شریعت اسلامی ضابطوں کے سوا دنیا میں موجود مذاہب یا نظریات قوانین کے لئے مستعمل ہی نہیں یہ تو خالصتًا اسلامی اصطلاح ہے جو اپنے مفہوم سے ہی پہچانی جا سکتی ہے۔

۴۔شریعت میں ظلم، نقصان یا خواہش نام کی کوئی چیز ہی نہیں۔ اس میں ایجابی اور سلبی احکام ہیں۔ وہ امر ونہی کرتی ہے۔ ترغیب وترہیب بھی کرتی ہے۔شریعت میں عام عقائد، ایمان باللہ،وبالرسل، عالم الغیب، عبد کا اپنے رب سے تعلق، اخلاق مومن، مختلف نظامہائے حیات موجود ہیں۔دل مسلم میں اس کا احترام ووقار ہے۔ اس میں دنیاوی واخروی جزا ہے۔اور داخلی وخارجی عمل کا احتساب بھی ہے۔

۵۔ اس لئے حضرت انسان کو خود بدلنا ہو گانہ کہ شریعت کو۔چاہے حالات و زمانہ میں کتنی ہی تبدیلی کیوں نہ آجائے۔ Natural Lawsجس طرح اٹل ہیں اسی طرح اللہ کی یہ نازل کردہ شریعت بھی تمام لوگوں ، گروہوں اور حکومتوں کے لئے ایک مکمل اور ناقابل تغیر قانون ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
قانون:

۱۔ قانون انسان کی ایجاد ہے۔ انسان کے بس کا روگ ہی نہیں کہ شریعت سازی کر سکے۔

۲۔قانون میں انسانی نقص، عجز، ضعف، اورقلت موجودہے۔ جسے ہمہ وقت ترمیم و تبدیلی سے دو چار ہونا پڑتاہے جو کمال کا نہیں نقص کا اظہار ہے۔ یہ اس وقت کمال کو پہنچ سکتا ہے جب انسان خود کمال کو پہنچ جائے۔

۳۔سوسائٹی قانون بناتی ہے اور اسے بتدریج اپنی عادات، روایات اور تاریخ کے رنگ میں رنگ لیتی ہے۔ گویا قانون سوسائٹی کے معاملات کی تنظیم کے لئے تو ہوتا ہے مگر سوسائٹی کی راہنمائی کے لئے نہیں ہوتا۔ نتیجتاً قانون سوسائٹی کے ارتقاء سے پیچھے رہ جاتا ہے۔ اور اس کی ترقی کے تابع ہوتا ہے۔ایسا قانون اور اس کے قواعد سوسائٹی کے پیش رو نہیں بلکہ اس کے پیرو ہوتے ہیں۔ یا اس معیار کے ہوتے ہیں جس معیار پر اس وقت سوسائٹی ہوتی ہے۔

۴۔قانون میں ظلم وزیادتی اور خواہشات کی بھرمار ہے۔نقصان سے یہ روکتا ہے مگر خیر کو بہت کم رواج دیتا ہے۔حکومت بچانے کیلئے قانون میں معاشرے کی اجتماعی، اقتصادی حالت پر گرفت زیادہ ہوتی ہے۔قانون کا دلی احترام دلوں میں بہت کم ہوتا ہے۔اس میں اتھارٹیز ہی اعزاز واکرام دیتی ہیں۔ کچھ خارجی کاموں پر اس کی دلچسپی ہوتی ہے۔

۵۔ قانون ایک بچہ کی مانند کمزور و ناتواں پیدا ہوتا ہے۔ پھر رفتہ رفتہ نشوونما پکڑ کر طاقتور ہو جاتا ہے۔ یہاں تک کہ بھرپور شباب کو پہنچ جاتا ہے۔ پھر جس سوسائٹی میں یہ قانون نافذ ہے وہ معاشرہ جس قدرتیزی کے ساتھ ارتقاء پذیر ہے۔ اسی قدر تیزی کے ساتھ یہ قانون بھی ارتقاء پذیر ہوتا ہے۔ قانون ابتدا ء میں آج کے قانون سے مختلف تھا۔وہ ہزاروں سال پر محیط،تغیر و ارتقاء کے تدریجی عمل سے گزر کر اس مقام پر پہنچا ہے جس پر وہ آج موجودہے۔

بہرحال شریعت، کی نشوو نما قانون کی طرح نہیں ہوتی بلکہ یہ آسمان سے بذریعہ وحی نازل ہوئی ہے۔اس لئے قانون کا مقابلہ نازل شدہ شریعت سے نہیں ہوسکتا۔ آدم علیہ السلام کے زمین پر اترتے ہی یہ بھی ہمراہ آگئی۔بعد میں ہر خاندان، جماعت، قوم یا ریاست کیلئے یہ اپنے احکام وقوانین کو منظر عام پر لاتی رہی۔ اس لئے قانون کے برعکس شریعت ہرانسان کے لئے ہوتی ہے۔ خواہ وہ حکمران ہو یا رعایا کا عام فرد۔عربی ہوں یا عجمی، مشرقی ہوں یا مغربی، یا اس کے رسم و رواج کیسے ہی کیوں نہ ہوں۔ خواہ لوگوں کی عادات ،روایات اور تاریخ میں کتناہی اختلاف کیوں نہ ہو۔ یہ ایسا عالم گیر الٰہی قانون ہے جس کے بارے میں ماہرین قانون سوچتے تو رہے ہیں مگر کوئی عالمی قانون اس کے مقابلے میں اب تک وجود میں نہیں لاسکے۔قانون کے برعکس شریعت قابل تغیر ہوتی ہے اور نہ ہی قابل ترمیم۔ اس کی عبارات و نصوص میں اس قدر عمومیت او رلچک پیدا کر دی گئی ہے کہ کبھی کسی ترمیم وتغیر کی ضرورت ہی پیش نہ آئے اور نہ ہی نئے حالات و تغیرات میں اس کا دامن تنگ ہو سکتا ہے۔
 
Top