- شمولیت
- اپریل 27، 2013
- پیغامات
- 26,584
- ری ایکشن اسکور
- 6,762
- پوائنٹ
- 1,207
دین اور مذہب میں فرق
فقہی مکاتب کے ہاں لفظ مذہب ۔۔مخصوص فقہی سوچ یا نظریے کے لئے مستعمل ہوتا ہے۔ اس لئے مناسب لگتا ہے کہ لفظ دین کے مقابلے میں اسے واضح کردیا جائے۔
دین:
اسلام کے لئے دین کا لفظ قرآن پاک اور احادیث شریفہ میں عام مستعمل ہوا ہے۔ اس لئے کہ دین(راستہ، عقیدہ وعمل کامنہج، طریقہ زندگی) بتدریج نازل ہوا اور مکمل صورت میں ہمیں مل گیا۔ جو سب آسمانی وحی ہے اور مقدس ہے۔ جس کا ا علان قرآن کریم میں واشگاف الفاظ میں کیا گیا ہے: {إن الدین عند اللہ الإسلام} یقینا اللہ تعالیٰ کے نزدیک دین اگر کوئی ہے تو وہ اسلام ہے۔ ا س آسمانی دین میں کسی انسانی فکر یا سوچ کا کوئی دخل نہیں۔یہ سب اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہمیں بذیعہ وحی ملا ہے جس کے رسول اللہ ﷺ بھی پابند ہیں۔
مذہب:
یہ ہماری اسلامی تاریخ کے دین کے ماہرعلماء وفقہاء کی اس فکر کا نام ہے جو انہوں نے دین کے کسی اہم مسئلے پر غور وفکر کے بعد اپنی رائے کی صورت میں دی۔اس سوچ اور فکر کو جب اپنایا جاتا ہے تو اسے مذہب نام دیا جاتا ہے۔اسی لئے مذاہب اربعہ یا چاروں مذاہب کی اصطلاح عام ہے۔ اور ہر مذہب اپنا فقہی مسئلہ بتاتے وقت یہی کہتا ہے کہ ہمارے مذہب میں یوں ہے اور فلاں مذہب میں یہ ہے۔نیک نیتی سے اگر سوچا جائے تو یہ ایک رائے یا اس مسلک کا نام ہے جو کسی امام نے دی یا اپنائی۔مگر بعد میں اسے باقاعدہ اس امام کی طرف منسوب کرنا اور اس پر سختی سے کابند ہوناکیا اس کی کوئی معقول توجیہ ہے؟ اور کیا یہ امت کے حق میں مفید ہے؟
دین اور مذہب کی اس تعریف کے بعد اب یہ جاننا کوئی مشکل نہیں کہ ان میں کیا فرق ہے۔دین اللہ تعالیٰ کی طرف سے دیا ہوا ایک طریقہ زندگی وعقیدہ ہے اور مذہب ایک عالم کی فکر کو اپنانے کا نام ہے۔دین ایک مقدس شے ہے اور مذہب میں بہر حال معصومیت نہیں ہوسکتی اس میں کہیں نہ کہیں کوئی نہ کوئی خطا اور غلطی کا امکان ہے۔دین کی طرف نسبت کرنا تو قرآن اور سنت رسول اللہ کا مطالبہ ہے{ہو سمکم المسلمین} مگر مذہب کی طرف نسبت کرنا کوئی دلیل نہیں رکھتا بلکہ اکابر کے بارے میں غلو کا نظریہ چھلکتا ہے۔دین کی اتباع بہر صورت فرض ہے اس کے انکار سے مومن مسلم نہیں رہتا جب کہ مذہب ایک فرد کی سوچ یا رائے کے ساتھ سختی سے چمٹ جانا ہے اس کا انکار بھی کردیا جائے تو مسلمان بہر حال مسلمان ہی رہتا ہے۔
کسی فرد خواہ وہ عالم ہو یا فقیہ اس کی رائے دین میں کیا حیثیت رکھتی ہے ؟ بس اتنی کہ اگر اس کی رائے دین کے اصول اور عقائد کے عین مطابق ہے تو سر آنکھوں پر اور اگر نہیں تو ظاہر ہے اس عالم کو نبی یا رسول کا مقام نہیں دیا جاسکتا۔ اس کی رائے بہ احترام ایک طرف رکھ دی جائے گی۔ اس میں نہ عالم یا فقیہ کی توہین ہے اور نہ ہی روز قیامت اس کی پوچھ ہے ۔نہ ہم اس کے اخلاص پر شک کرنے کے روادار ہیں اور نہ ہی اس رائے کو قبول کرکے ہم اس کی شان کو بلند کر سکتے ہیں۔ ہاں حدیث رسول کے مطابق یہ ضرور کہہ سکتے ہیں کہ اگر اس کی رائے دین کے عین موافق ہے تو اسے دوگنا ثواب ملے گا اور اگر مخالف ہے تب بھی اللہ تعالیٰ اس کے اخلاص کی وجہ سے اسے ایک ثواب ضرور دے گا۔