- شمولیت
- اپریل 27، 2013
- پیغامات
- 26,584
- ری ایکشن اسکور
- 6,762
- پوائنٹ
- 1,207
شریعت وفقہ میں فرق:
۱۔ان دونوں میں عام وخاص کی نسبت ہے۔ جہاں فقیہ کا اجتہاد حکم الٰہی کے مطابق ہوتا ہے وہاں شریعت اور فقہ ایک ہی ہوجاتے ہیں۔اور جہاں مجتہد کا اجتہاد خطا کرجاتا ہے وہاں شریعت، فقہ سے الگ ہوجاتی ہے۔اسی طرح شریعت ان احکام میں بھی فقہ سے علیحدہ ہوجاتی ہے جن کا تعلق عقیدہ واخلاق سے ہو یا گذشتہ اقوام کے واقعات ہوں۔
۲۔ شریعت کے مصادر صرف قرآن وسنت ہیں۔ مگر فقہ کے مصادر قرآن وسنت اجماع اور قیاس ہیں۔
۳۔ شریعت عقائد، عبادات اخلاق اور اقوام ماضیہ کے واقعات پر مشتمل ہے جبکہ فقہ صرف عبادات ومعاملات پر۔
۴۔شریعت کامل ہے اور ہر قسم کے تغیر وتبدل سے محفوظ۔کیونکہ یہ قاعدوں اور عام اصولوں پر مشتمل ہے جن سے ہماری زندگی کے ان احکام کو لیا جاتا ہے جن کے بارے میں نص خاموش ہے۔رہی فقہ یہ امت کے مجتہدین حضرات کی آراء ہیں جو شرعی ضرورت کے تحت حالات واقعات کی تبدیلی کے ساتھ قابل تغییر بھی ہیں۔
۵۔ شریعت ، مختلف علوم پر مشتمل ہے اور علم فقہ ان علوم میں کا ایک ہے۔جس کے مباحث صرف مکلفین کے افعال اور ان کا حکم ہیں یعنی واجب ہے یا مندوب، مباح ، حرام یا مکروہ ۔یہی افعال ہی تو ہیں جنہیں علم فقہ کا موضوع کہا جاتا ہے۔
۶۔ شریعت عام ہے جسے عموماً شریعت، اس کے مقاصد، اس کی نصوص میں اس وقت محسوس کیا جاسکتا ہے جب وہ عالم بشریت سے مخاطب ہوتی ہے۔اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول محترم سے فرمایا:
{وما أرسلنک إلا کافۃ للناس بشیرا ونذیرا}
سبأ:۲۸۔ ہم نے آپ جو سبھی انسانوں کے لئے بشیر ونذیر بنا کر بھیجا ہے۔
جبکہ فقہ کے احکام عام بھی ہوسکتے ہیں اور خاص بھی۔
۷۔ شریعت تمام انسانیت کے لئے ضروری ہے کیونکہ ہر انسان جس میں تکلیف کی شروط پائی جائیں اس کے لئے لازمی ہے کہ وہ اس کے عقیدہ، عبادت، اخلاق وسلوک کو مانے۔ جبکہ فقہ آراء مجتہدین کا نتیجہ ہے۔ ایک مجتہد کی رائے دوسرے مجتہد کو پابند نہیں کرتی بلکہ اس کے مقلد کو بھی ۔کیونکہ جب وہ کسی دوسرے مجتہد کی رائے کو بہتر پاتا ہے تو وہ اسے ہی مانتا ہے۔اسی وجہ سے یہ ایک اصول ہے:
العَامِیُّ لاَ مَذْہَبَ لَہُ، وَإنَّمَا مَذْہَبُہُ مَذْہَبُ مَنْ یُفْتِیْہِ۔
ایک عام آدمی کا کوئی مذہب نہیں ہوا کرتا اس کا مذہب وہی ہے جو اسے فتوی دے دے۔
یعنی وہ ضروری نہیں سمجھتا کہ میں کسی خاص مذہب کا دائمی پیرو کار بن کر رہوں۔ کیونکہ وہ کبھی کسی مسئلہ میں ایک مفتی کا کہنا مان رہا ہوتا ہے اور کبھی دوسرے مسئلہ میں کسی دوسرے مفتی کا۔
۸۔ شریعت ایک جامع ومکمل اور ہر زمان ومکان میں رہنے والی ہے ۔ رہی فقہ جو مجتہد کا استنباط ہے اور جو کبھی معاشرے کے مسائل کا علاج بھی کسی زمانہ یا حالت میں پیش کردیتی ہے مگر ایسا بھی ہے کہ وہ دوسرے مقام وزمان میں حل پیش کرنے سے قاصر ہو۔ مثلاً امام شافعی رحمہ اللہ نے عراق میں قدیم مذہب کے مطابق کچھ کہا اور لکھا بھی۔مگر عراق سے واپسی پر مصر کے لئے جب براستہ مکہ گذرے اور دیگر علماء ومحدثین کرام سے ان کی ملاقات ہوئی تو بہت سے ان مسائل سے رجوع کرلیا جن کا اظہار وہ عراق میں کیا کرتے۔ اسے مذہب جدید کہاجانے لگا۔مگر اپنی کتب کو انہوں نے مصر میں لکھا اور وہیں اصول بھی لکھے۔اس لئے وہ اپنی عراقی کتب کو مٹا ڈالنے اور ان کی روابت کو حرام قرار دیتے۔ فرمایا کرتے: لَیْسَ فِی حِلٍّ مَنْ رَوَی عَنِّی الْقَدِیمَ۔ یہ حلال ہی نہیں کہ کوئی مجھ سے قدیم مذہب روایت کرے۔(البحر المحیط از زرکشی: ۴؍۵۸۴) ۔
۹۔ شرعی احکام صائب اور دائمی ہیں ہیں جن میں کوئی خطأ نہیں مگر فقہاء ومجتہدین کے احکام کبھی کبھار خطا والے ہوتے ہیں۔
۱۔ان دونوں میں عام وخاص کی نسبت ہے۔ جہاں فقیہ کا اجتہاد حکم الٰہی کے مطابق ہوتا ہے وہاں شریعت اور فقہ ایک ہی ہوجاتے ہیں۔اور جہاں مجتہد کا اجتہاد خطا کرجاتا ہے وہاں شریعت، فقہ سے الگ ہوجاتی ہے۔اسی طرح شریعت ان احکام میں بھی فقہ سے علیحدہ ہوجاتی ہے جن کا تعلق عقیدہ واخلاق سے ہو یا گذشتہ اقوام کے واقعات ہوں۔
۲۔ شریعت کے مصادر صرف قرآن وسنت ہیں۔ مگر فقہ کے مصادر قرآن وسنت اجماع اور قیاس ہیں۔
۳۔ شریعت عقائد، عبادات اخلاق اور اقوام ماضیہ کے واقعات پر مشتمل ہے جبکہ فقہ صرف عبادات ومعاملات پر۔
۴۔شریعت کامل ہے اور ہر قسم کے تغیر وتبدل سے محفوظ۔کیونکہ یہ قاعدوں اور عام اصولوں پر مشتمل ہے جن سے ہماری زندگی کے ان احکام کو لیا جاتا ہے جن کے بارے میں نص خاموش ہے۔رہی فقہ یہ امت کے مجتہدین حضرات کی آراء ہیں جو شرعی ضرورت کے تحت حالات واقعات کی تبدیلی کے ساتھ قابل تغییر بھی ہیں۔
۵۔ شریعت ، مختلف علوم پر مشتمل ہے اور علم فقہ ان علوم میں کا ایک ہے۔جس کے مباحث صرف مکلفین کے افعال اور ان کا حکم ہیں یعنی واجب ہے یا مندوب، مباح ، حرام یا مکروہ ۔یہی افعال ہی تو ہیں جنہیں علم فقہ کا موضوع کہا جاتا ہے۔
۶۔ شریعت عام ہے جسے عموماً شریعت، اس کے مقاصد، اس کی نصوص میں اس وقت محسوس کیا جاسکتا ہے جب وہ عالم بشریت سے مخاطب ہوتی ہے۔اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول محترم سے فرمایا:
{وما أرسلنک إلا کافۃ للناس بشیرا ونذیرا}
سبأ:۲۸۔ ہم نے آپ جو سبھی انسانوں کے لئے بشیر ونذیر بنا کر بھیجا ہے۔
جبکہ فقہ کے احکام عام بھی ہوسکتے ہیں اور خاص بھی۔
۷۔ شریعت تمام انسانیت کے لئے ضروری ہے کیونکہ ہر انسان جس میں تکلیف کی شروط پائی جائیں اس کے لئے لازمی ہے کہ وہ اس کے عقیدہ، عبادت، اخلاق وسلوک کو مانے۔ جبکہ فقہ آراء مجتہدین کا نتیجہ ہے۔ ایک مجتہد کی رائے دوسرے مجتہد کو پابند نہیں کرتی بلکہ اس کے مقلد کو بھی ۔کیونکہ جب وہ کسی دوسرے مجتہد کی رائے کو بہتر پاتا ہے تو وہ اسے ہی مانتا ہے۔اسی وجہ سے یہ ایک اصول ہے:
العَامِیُّ لاَ مَذْہَبَ لَہُ، وَإنَّمَا مَذْہَبُہُ مَذْہَبُ مَنْ یُفْتِیْہِ۔
ایک عام آدمی کا کوئی مذہب نہیں ہوا کرتا اس کا مذہب وہی ہے جو اسے فتوی دے دے۔
یعنی وہ ضروری نہیں سمجھتا کہ میں کسی خاص مذہب کا دائمی پیرو کار بن کر رہوں۔ کیونکہ وہ کبھی کسی مسئلہ میں ایک مفتی کا کہنا مان رہا ہوتا ہے اور کبھی دوسرے مسئلہ میں کسی دوسرے مفتی کا۔
۸۔ شریعت ایک جامع ومکمل اور ہر زمان ومکان میں رہنے والی ہے ۔ رہی فقہ جو مجتہد کا استنباط ہے اور جو کبھی معاشرے کے مسائل کا علاج بھی کسی زمانہ یا حالت میں پیش کردیتی ہے مگر ایسا بھی ہے کہ وہ دوسرے مقام وزمان میں حل پیش کرنے سے قاصر ہو۔ مثلاً امام شافعی رحمہ اللہ نے عراق میں قدیم مذہب کے مطابق کچھ کہا اور لکھا بھی۔مگر عراق سے واپسی پر مصر کے لئے جب براستہ مکہ گذرے اور دیگر علماء ومحدثین کرام سے ان کی ملاقات ہوئی تو بہت سے ان مسائل سے رجوع کرلیا جن کا اظہار وہ عراق میں کیا کرتے۔ اسے مذہب جدید کہاجانے لگا۔مگر اپنی کتب کو انہوں نے مصر میں لکھا اور وہیں اصول بھی لکھے۔اس لئے وہ اپنی عراقی کتب کو مٹا ڈالنے اور ان کی روابت کو حرام قرار دیتے۔ فرمایا کرتے: لَیْسَ فِی حِلٍّ مَنْ رَوَی عَنِّی الْقَدِیمَ۔ یہ حلال ہی نہیں کہ کوئی مجھ سے قدیم مذہب روایت کرے۔(البحر المحیط از زرکشی: ۴؍۵۸۴) ۔
۹۔ شرعی احکام صائب اور دائمی ہیں ہیں جن میں کوئی خطأ نہیں مگر فقہاء ومجتہدین کے احکام کبھی کبھار خطا والے ہوتے ہیں۔
Last edited: