• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

دیوبندیوں اور بریلویوں کا عقائد میں اختلاف مسلک اہل حدیث کے افراد کو کیوں نظر نہیں آتا

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,100
ری ایکشن اسکور
1,460
پوائنٹ
344
محترم تلمیذ بھائی،
یہ موضوع عقیدہ کا ہے اور بہت اہم ہے۔
اس معاملے میں غلطی دونوں طرف ہی پائی جاتی ہے۔
"زلزلہ"، "زیر و زبر" ہو یا "الدیوبندیہ" ۔۔ ان میں غلطی یہ ہے کہ ہر واقعے سے ہی عقائد اخذ کرنے کی کوشش کی گئی ہے، جب کہ اکثر واقعات وہ ہیں، جنہیں کرامت کے ذیل میں شمار کیا جانا بالکل ممکن ہے۔

اور دیوبندی حضرات کی غلطی یہ ہے کہ وہ ہر ایسے واقعے کا دفاع فرض عین کی طرح کرتے ہیں، چاہے وہ ان کے عقیدہ سے براہ راست متصادم ہو، یا اس کو کرامت کے ذیل میں لینا ممکن ہی نہ ہو یا اس سے عوام الناس کے گمراہ ہونے کا خطرہ ہی کیوں نہ ہو۔

بہرحال، آپ کی یہ بات کسی حد تک درست ہے کہ واقعات سے عقائد اخذ کرنا درست نہیں۔ مکمل طور پر درست اس لئے نہیں کہ مثلاً :
عقیدہ یہ ہو کہ قبروں سے فیوض پہنچنا ممکن نہیں، اور واقعہ یہ ہو کہ قبر سے فیض پہنچ رہا ہے، تو یہاں عقیدہ کا واقعہ سے براہ راست ٹکراؤ ہے، ایسی صورت میں یا عقیدہ یا واقعہ کسی ایک کی تردید ضروری ہوتی ہے۔

عقیدہ یہ ہو کہ غیب کا علم کسی کو نہیں دیا جاتا، ہاں غیب کی بعض خبروں پر مطلع ہو جانا، اس کا کوئی انکار نہیں کرتا۔ اب واقعہ یہ ہو کہ اللہ نے فلاں بزرگ کو ایسا علم دے دیا کہ وہ اپنے پاس حاضر ہونے والوں کے سلام کہتے ہی دل کی باتوں سے آگاہ ہو جاتے تھے، تو یہ کرامت نہیں کہلائی جا سکتی، کیونکہ عقیدہ کے بالکل الٹ ہے۔

عقیدہ یہ ہو کہ مرنے کے بعد ارواح مدد نہیں کر سکتیں یا دنیا میں نہیں آ سکتیں، اور واقعہ یہ ہو کہ فلاں بزرگ مرنے کے بعد تشریف لائے اور لین دین کیا، یا صلح صفائی کروا دی ، وغیرہ تو یہ عقیدہ سے متصادم بات ہے، جو قابل قبول نہیں ہونی چاہئے۔

عقیدہ یہ ہو کہ عطائی طور پر بھی کسی کو کائنات میں تصرف کا اختیار حاصل نہیں، اور واقعہ یہ ہو کہ فوت شدہ بزرگ کائنات میں تصرف کرتے نظر آ رہے ہوں تو واقعہ کو کرامت کیسے مانیں؟

عقیدہ یہ ہو کہ کرامت ولی کے اختیار میں نہیں ہوتی کہ جب چاہیں کرامت دکھا دیں۔ لیکن واقعہ یہ ہو کہ جب بھی کوئی شخص فلاں بزرگ کے پاس جاتا وہ فوری اس کے دل کا حال بتا دیتے، یا خواتین کے پیٹ کی بات بتا دیتے یا ولی دعویٰ کرتے نظر آئیں کسی کرامت کا۔ تو یہ کرامت عقیدہ سے متصادم ہے یا نہیں؟

مجھے معلوم نہیں کہ کتاب و سنت سے فوت شدہ بزرگوں کے دنیا والوں کی امداد کرنے کی کون سی دلیل علمائے دیوبند کے ہاتھ آئی ہے۔ میرے خیال میں اس عقیدہ کی تائید میں یہ علماء کتاب و سنت میں مذکور "واقعات" ہی کو اس عقیدہ کی بنیاد بناتے ہیں۔ واللہ اعلم۔ آپ اس پر روشنی ڈال سکیں تو فبہا۔

یہ تو تھیں، عمومی باتیں۔ ایک خاص واقعہ جس کا جواب حاصل کرنے کی عرصے سے تمنا تھی۔ اس پر اگر آپ تبصرہ کر دیں تو مشکور رہوں گا۔ پہلے واقعہ ملاحظہ کر لیجئے۔


"مولانا اشرف علی تھانوی مولوی نظام الدین صاحب کرانوی سے ، وہ مولوی عبداللہ ہراقی سے روایت کرتے ہیں کہ ایک نہایت معتبر شخص ولائتی بیان کرتے ہیں کہ میرے ایک دوست جو بقیۃ السلف حجۃ الخلف قدوۃ السالکین زہدۃ العارفین شیخ الکل فی الکل حضرت مولانا حاجی امداد اللہ صاحب چشتی صابری تھانوی ثم المکی سلمہ اللہ تعالیٰ سے بیعت تھے، حج خانہ کعبہ کو تشریف لے جاتے تھے۔ بمبئی سے آگبوٹ میں سوار ہوئے۔ آگبوٹ نے چلتے چلتے ٹکر کھائی اور قریب تھا کہ چکر کھا کر غرق ہو جائے یا دوبارہ ٹکرا کر پاش پاش ہو جائے۔ انہوں نے جب دیکھا کہ اب مرنے کے سوا چارہ نہیں، اسی مایوسانہ حالت میں گھبرا کر اپنے پیرِ روشن ضمیر کی طرف خیال کیا اور عرض کیا کہ اس وقت سے زیادہ کون سا وقت امداد کا ہوگا۔ اللہ تعالیٰ سمیع و بصیر کارساز مطلق ہے۔ اسی وقت ان کا آگبوٹ غرق سے نکل گیا اور تمام لوگوں کو نجات ملی۔
ادھر تو یہ قصہ پیش آیا ، ادھر اگلے روز مخدومِ جہاں اپنے خادم سے بولے ذرا میری کمر تو دباؤ، نہایت درد کرتی ہے۔ خادم نے کمر دباتے پیراہن مبارک جو اٹھایا تو دیکھا کہ کمر چھلی ہوئی ہے اور اکثر جگہ سے کھال اُتر گئی ہے۔ پوچھا حضرت یہ کیا بات ہے، کمر کیوں کر چھلی فرمایا کچھ نہیں۔ پھر پوچھا، آپ خاموش رہے۔ تیسری مرتبہ پھر دریافت کیا، حضرت یہ تو کہیں رگڑ لگی ہے اور آپ تو کہیں تشریف بھی نہیں لے گئے۔ فرمایا ایک آگبوٹ ڈوبا جاتا تھا اس میں تمہارا دینی اور سلسلے کا بھائی تھا اس کی گریہ زاری نے مجھے بے چین کر دیا۔ آگبوٹ کو کمر کا سہارا دے کر اوپر کو اٹھایا۔ جب آگے چلا اور بندگانِ خدا کو نجات ملی، اسی سے چھل گئی ہوگی اور اسی وجہ سے درد ہے مگر اس کا ذکر نہ کرنا"۔ (کرامات امدادیہ ص 36)

سوال تو بہت سارے ہیں۔ لیکن فی الحال مجھے صرف ایک ہی اہم سوال پوچھنا ہے کہ آیا دیوبندی عقیدہ کی رو سے یہ بات جائز و درست ہے کہ ایک شخص جہاز میں سوار ہو اور جہاز ڈوب رہا ہو تو وہ مافوق الاسباب، غیراللہ سے مدد طلب کرے؟
اس واقعہ کی بنیاد پر کوئی عامی دیوبندی مثلاً آپ، اس سے ملتے جلتے حالات میں اپنے "پیر روشن ضمیر" کو مافوق الاسباب مدد کے لئے پکارنا پسند کریں گے؟ جب کہ واقعہ سے ثابت بھی ہے کہ ایسی صورت میں دیوبندی پیر کا اپنے دیوبندی مرید کی مدد کرنا بالکل ممکن ہے۔
اللہ ہم سب کو ہدایت سے نوازے
 

تلمیذ

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 12، 2011
پیغامات
765
ری ایکشن اسکور
1,506
پوائنٹ
191
محترم بھائی میں بھی بریلوی سے تبلیغی جماعت میں آیا تھا کافی سہ روزے لگائے احمد علی لاہوری مسجد میں سب میرے دوست ہیں- میں اقرار کرتا ہوں کہ دونوں کے عقائد میں بنیادی طور پر فرق ہے مگر باہم میل جول کی وجہ سے اور شیطان کے جوڑ کے فلسفے کی وجہ سے اور اسی طرح دوسرے محرکات کی وجہ سے یہ فرق کبھی کبھی ختم ہو جاتا ہے یا کر دیا جاتا ہے یہی چیزیں اہل حدیث میں بھی کبھی کبھی آ جاتی ہیں چنانچہ شاہ اسماعیل شہید کی تقویۃ الایمان دیکھیں اور صراط مستقیم دیکھیں تو حیرت ہوتی ہے-
محترم بھائی مجھے آپ سے آپکے بزرگوں کے بارے فتوی نہیں لینا کہ آپ فما بال القرون الاولی کے جواب میں کہ سکتے ہیںقال علمھا عند ربی فی کتاب مگر محترم بھائی جو چیز عقیدہ میں بگاڑ لا چکی ہے یا لا رہی ہے اسکے رد کا لازمی مطالبہ کروں گا

محترم بھائی ایک لحاظ سے آپکی بات سو فیصد ٹھیک ہے کہ آپ میں اور بریلویوں میں فرق ہے کیونکہ یہ دونوں گروہوں کی بنیاد میں واقعی فرق ہے
مگر بھائی میری بات بھی ٹکھرانے کے قابل نہیں کہ باہم میل جول سے یہ فرق ختم ہو رہا ہے یا کہیں کر دیا گیا ہے اور اسکے دو ثبوت ہیں

1۔دیوبندیوں کے بریلویوں سے اس میل جول سے پیدا ہونے والے بگاڑ کے رد عمل میں دیوبندیوں کے بڑے گروہ سے ایک گروہ بنام اشاعت التوحید و السنۃ کا علیحدہ ہونا- ذرا نام پر غور کریں جو اس بگاڑ کی خرابی کو ظاہر کر رہا ہے کہ بگاڑ کس چیز میں تھا- جیسے شیعان علی کے جواب میں اہل السنۃ والجماعۃ کا نام رکھا گیا یا پھر تقلید کے ردعمل میں اہل حدیث کا نام رکھا گیا وغیرہ-پس اس سے بھی لگتا ہے کہ بریلویوں جیسا استدلال کیا جاتا ہے

2۔کرامات سے عقیدہ بنا لینا- محترم بھائی اس میں دو طرح کے لوگ میں نے پچھلے تھریڈ میں بیان کیے ہیں
پہلے وہ جنھوں نے کرامات سے اپنے عقائد بنا لئے جیسے امداد اللہ مکی کے مرید جب ڈوبنے لگے تو انہوں نے فریاد کی کہ اس سے زیادہ مدد کا کون سا وقت ہو گا- اسی طرح غیب کے بارے میں بھی ایسے واقعات ہیں کہ لوگ عقیدہ بنا کر آپکے ولیوں سے غیب پوچھنے آتے اور پھر جواب بھی دیا جاتا-اگرچہ میں آپ کو ان میں سے گمان نہیں کرتا
دوسرے وہ جنہوں نے ابھی عقیدہ بنایا تو نہیں یعنی ابھی مدد مانگنا شروع تو نہیں کی مگر قوی خدشہ ہے کہ وہ بھی اگر پہلے لوگوں کا رد نہیں کریں گے تو اس میں گر سکتے ہیں محترم بھائی اسکے لئے ذات انواط کے واقعے پر ذرا غور کریں کہ اس دور میں نئے صحابہ نے ایک طریقے کا ابھی اس طرح رد نہیں دیکھا تھا تو ذات انواط کی بات کر بہٹھے تو آج اگر آپ اس عمل کا رد نہیں کریں گے جس طرح آپکے اشاعت التوحید والے بھائی کرتے ہیں تو آپ کی گارنٹی کون دے گا جیسے بنی اسرائیل کے علماء کے روکنے سے وہ نہ رکے تو وہ بھی ان میں گھل مل گئے تو اللہ نے انکے دل بدل دیئے

پس میرا مقصد یہ ہے کہ کم از کم ان چیزوں کا کھل کر رد کریں جہاں کوئی تاویل ممکن نہیں جیسے امداد اللہ مکی کے واقعات، ان کے پیر نور محمد کی شرکیہ نعت- اگرچہ بزگوں کو بے شک نکال سکتے ہیں مگر عقیدے کا رد لازمی ہے
اللہ نے فرمایا کونوا قوامین للہ شھداء بالقسط ولا یجرمنکم شنان قوم علی ان لا تعدلوا
یعنی اللہ کے لئے انصاف کی گواہی دینے والے بنو اور کسی قوم سے دشمنی کی وجہ سے انصاف کو نہ چھوڑو
اللہ ہم سب کو حق سمجھنے اور عمل کی توفیق عطا فرمائے امین
تلمیذ


نوٹ: علم غیب پر بھی علیحدہ تفصیل سے ان شاء اللہ صبح بات کروں گا
آپ کی پوری پوسٹ سے جو کچھ میں سمجھا ان اعتراضات کا جواب دے رہاہوں
اور کرامات سے اگر ہم نے عقیدہ اخذ کیا ہوتا تو ہم بھی یا امداد اللہ مکی المدد کا نعرہ لگا رہے ہوتے اور اس کے جواز کے فتوی دے رہے ہوتے لیکن ایسا نہیں ہے
ہاں آپ نے ایک دوسرا اعتراض کیا ہے کہ ممکن کوئی انفرادی تو ان واقعات کو پڑھ کر گمراہ ہوجائے
محترم اگر کوئی صرف حضرت جبرائیل علیہ السلام کا وہ واقعہ پڑھے جس میں انہوں کہا تھا لاھب لک غلاما زکیا کہا تھا تو اس شخص کا کیا عقیدہ ہوگا ؟؟
اگر کوئی صرف مسلم کی وہ حدیث پڑھے جس میں ایک بچہ غیب کے امور میں سے بتا رہا ہے تو اس کا کیا عقیدہ ہو گا
کہنے کا مقصد یہ کہ اگر کرامات کے بیان کرنے سے عقیدہ میں فساد آتا تو قرآن و حدیث میں کرامات کے واقعات نہ ہوتے
ان کرامات سے کوئی غلط عقیدہ کشید نہ کرے ، اس کے لئیے توحید کا ردس دیتی کتب ، فتاوا جات موجود ہیں جو غلط عقیدہ کا رد کر رہے ہیں آپ اور کس طرح کا غلط عقیدہ کا رد چاہتے ہیں ؟؟؟؟؟
دیوبندی و برلوی اختلاط کے حوالہ جو آپ کے خدشات ہیں ان کے متعلق میں یہی کہ سکتا ہوں کہ یہ بات یاد رکھیں کہ دیوبندی افراد کے اعمال کا نام فقہ حنفی نہیں ، فقہ حنفی کتب فقہ میں ہے ، جو مسلم کفار کے دیش میں رہتے ہیں اور ان کے رنگ میں ڈھلتے جارہے ہیں کیا ان کے اعمال کی وجہ اسلام کو متھم کیا جاسکتا ہے ؟؟؟؟
 

تلمیذ

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 12، 2011
پیغامات
765
ری ایکشن اسکور
1,506
پوائنٹ
191
محترم تلمیذ بھائی،
یہ موضوع عقیدہ کا ہے اور بہت اہم ہے۔
اس معاملے میں غلطی دونوں طرف ہی پائی جاتی ہے۔
"زلزلہ"، "زیر و زبر" ہو یا "الدیوبندیہ" ۔۔ ان میں غلطی یہ ہے کہ ہر واقعے سے ہی عقائد اخذ کرنے کی کوشش کی گئی ہے، جب کہ اکثر واقعات وہ ہیں، جنہیں کرامت کے ذیل میں شمار کیا جانا بالکل ممکن ہے۔

اور دیوبندی حضرات کی غلطی یہ ہے کہ وہ ہر ایسے واقعے کا دفاع فرض عین کی طرح کرتے ہیں، چاہے وہ ان کے عقیدہ سے براہ راست متصادم ہو، یا اس کو کرامت کے ذیل میں لینا ممکن ہی نہ ہو یا اس سے عوام الناس کے گمراہ ہونے کا خطرہ ہی کیوں نہ ہو۔

بہرحال، آپ کی یہ بات کسی حد تک درست ہے کہ واقعات سے عقائد اخذ کرنا درست نہیں۔ مکمل طور پر درست اس لئے نہیں کہ مثلاً :
عقیدہ یہ ہو کہ قبروں سے فیوض پہنچنا ممکن نہیں، اور واقعہ یہ ہو کہ قبر سے فیض پہنچ رہا ہے، تو یہاں عقیدہ کا واقعہ سے براہ راست ٹکراؤ ہے، ایسی صورت میں یا عقیدہ یا واقعہ کسی ایک کی تردید ضروری ہوتی ہے۔

عقیدہ یہ ہو کہ غیب کا علم کسی کو نہیں دیا جاتا، ہاں غیب کی بعض خبروں پر مطلع ہو جانا، اس کا کوئی انکار نہیں کرتا۔ اب واقعہ یہ ہو کہ اللہ نے فلاں بزرگ کو ایسا علم دے دیا کہ وہ اپنے پاس حاضر ہونے والوں کے سلام کہتے ہی دل کی باتوں سے آگاہ ہو جاتے تھے، تو یہ کرامت نہیں کہلائی جا سکتی، کیونکہ عقیدہ کے بالکل الٹ ہے۔

عقیدہ یہ ہو کہ مرنے کے بعد ارواح مدد نہیں کر سکتیں یا دنیا میں نہیں آ سکتیں، اور واقعہ یہ ہو کہ فلاں بزرگ مرنے کے بعد تشریف لائے اور لین دین کیا، یا صلح صفائی کروا دی ، وغیرہ تو یہ عقیدہ سے متصادم بات ہے، جو قابل قبول نہیں ہونی چاہئے۔

عقیدہ یہ ہو کہ عطائی طور پر بھی کسی کو کائنات میں تصرف کا اختیار حاصل نہیں، اور واقعہ یہ ہو کہ فوت شدہ بزرگ کائنات میں تصرف کرتے نظر آ رہے ہوں تو واقعہ کو کرامت کیسے مانیں؟

عقیدہ یہ ہو کہ کرامت ولی کے اختیار میں نہیں ہوتی کہ جب چاہیں کرامت دکھا دیں۔ لیکن واقعہ یہ ہو کہ جب بھی کوئی شخص فلاں بزرگ کے پاس جاتا وہ فوری اس کے دل کا حال بتا دیتے، یا خواتین کے پیٹ کی بات بتا دیتے یا ولی دعویٰ کرتے نظر آئیں کسی کرامت کا۔ تو یہ کرامت عقیدہ سے متصادم ہے یا نہیں؟

مجھے معلوم نہیں کہ کتاب و سنت سے فوت شدہ بزرگوں کے دنیا والوں کی امداد کرنے کی کون سی دلیل علمائے دیوبند کے ہاتھ آئی ہے۔ میرے خیال میں اس عقیدہ کی تائید میں یہ علماء کتاب و سنت میں مذکور "واقعات" ہی کو اس عقیدہ کی بنیاد بناتے ہیں۔ واللہ اعلم۔ آپ اس پر روشنی ڈال سکیں تو فبہا۔

یہ تو تھیں، عمومی باتیں۔ ایک خاص واقعہ جس کا جواب حاصل کرنے کی عرصے سے تمنا تھی۔ اس پر اگر آپ تبصرہ کر دیں تو مشکور رہوں گا۔ پہلے واقعہ ملاحظہ کر لیجئے۔


"مولانا اشرف علی تھانوی مولوی نظام الدین صاحب کرانوی سے ، وہ مولوی عبداللہ ہراقی سے روایت کرتے ہیں کہ ایک نہایت معتبر شخص ولائتی بیان کرتے ہیں کہ میرے ایک دوست جو بقیۃ السلف حجۃ الخلف قدوۃ السالکین زہدۃ العارفین شیخ الکل فی الکل حضرت مولانا حاجی امداد اللہ صاحب چشتی صابری تھانوی ثم المکی سلمہ اللہ تعالیٰ سے بیعت تھے، حج خانہ کعبہ کو تشریف لے جاتے تھے۔ بمبئی سے آگبوٹ میں سوار ہوئے۔ آگبوٹ نے چلتے چلتے ٹکر کھائی اور قریب تھا کہ چکر کھا کر غرق ہو جائے یا دوبارہ ٹکرا کر پاش پاش ہو جائے۔ انہوں نے جب دیکھا کہ اب مرنے کے سوا چارہ نہیں، اسی مایوسانہ حالت میں گھبرا کر اپنے پیرِ روشن ضمیر کی طرف خیال کیا اور عرض کیا کہ اس وقت سے زیادہ کون سا وقت امداد کا ہوگا۔ اللہ تعالیٰ سمیع و بصیر کارساز مطلق ہے۔ اسی وقت ان کا آگبوٹ غرق سے نکل گیا اور تمام لوگوں کو نجات ملی۔
ادھر تو یہ قصہ پیش آیا ، ادھر اگلے روز مخدومِ جہاں اپنے خادم سے بولے ذرا میری کمر تو دباؤ، نہایت درد کرتی ہے۔ خادم نے کمر دباتے پیراہن مبارک جو اٹھایا تو دیکھا کہ کمر چھلی ہوئی ہے اور اکثر جگہ سے کھال اُتر گئی ہے۔ پوچھا حضرت یہ کیا بات ہے، کمر کیوں کر چھلی فرمایا کچھ نہیں۔ پھر پوچھا، آپ خاموش رہے۔ تیسری مرتبہ پھر دریافت کیا، حضرت یہ تو کہیں رگڑ لگی ہے اور آپ تو کہیں تشریف بھی نہیں لے گئے۔ فرمایا ایک آگبوٹ ڈوبا جاتا تھا اس میں تمہارا دینی اور سلسلے کا بھائی تھا اس کی گریہ زاری نے مجھے بے چین کر دیا۔ آگبوٹ کو کمر کا سہارا دے کر اوپر کو اٹھایا۔ جب آگے چلا اور بندگانِ خدا کو نجات ملی، اسی سے چھل گئی ہوگی اور اسی وجہ سے درد ہے مگر اس کا ذکر نہ کرنا"۔ (کرامات امدادیہ ص 36)

سوال تو بہت سارے ہیں۔ لیکن فی الحال مجھے صرف ایک ہی اہم سوال پوچھنا ہے کہ آیا دیوبندی عقیدہ کی رو سے یہ بات جائز و درست ہے کہ ایک شخص جہاز میں سوار ہو اور جہاز ڈوب رہا ہو تو وہ مافوق الاسباب، غیراللہ سے مدد طلب کرے؟
اس واقعہ کی بنیاد پر کوئی عامی دیوبندی مثلاً آپ، اس سے ملتے جلتے حالات میں اپنے "پیر روشن ضمیر" کو مافوق الاسباب مدد کے لئے پکارنا پسند کریں گے؟ جب کہ واقعہ سے ثابت بھی ہے کہ ایسی صورت میں دیوبندی پیر کا اپنے دیوبندی مرید کی مدد کرنا بالکل ممکن ہے۔
جزاک اللہ خیرا
شاکر بھائی ، آپ کا اعتراض بالکل ٹو دی پوائنٹ اور واضح ہے ۔ میں سمجتھا ہوں اسی نقطہ پر مرکوز رہ کر اگر ہم آگے بڑھیں گے تو بات کسی حد تک انجام کو پہنچے گي
آپ کی پوسٹ کچھ تفصیل طلب اور کچھ حوالہ جات کی متقاضی ہے جن کو اکٹھا کرنے میں کچھ ٹائم چاہئیے ، لیکن ان شاء اللہ آپ کی پوسٹ کا جلد جواب تحریر کروں گا ان شاء اللہ
 

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,035
ری ایکشن اسکور
1,227
پوائنٹ
425
محترم تلمیذ بھائی،
سوال تو بہت سارے ہیں۔ لیکن فی الحال مجھے صرف ایک ہی اہم سوال پوچھنا ہے کہ آیا دیوبندی عقیدہ کی رو سے یہ بات جائز و درست ہے کہ ایک شخص جہاز میں سوار ہو اور جہاز ڈوب رہا ہو تو وہ مافوق الاسباب، غیراللہ سے مدد طلب کرے؟
اس واقعہ کی بنیاد پر کوئی عامی دیوبندی مثلاً آپ، اس سے ملتے جلتے حالات میں اپنے "پیر روشن ضمیر" کو مافوق الاسباب مدد کے لئے پکارنا پسند کریں گے؟ جب کہ واقعہ سے ثابت بھی ہے کہ ایسی صورت میں دیوبندی پیر کا اپنے دیوبندی مرید کی مدد کرنا بالکل ممکن ہے۔
محترم شاکر بھائی میرے خیال میں خالی ممکن ہی نہیں بلکہ اس واقعے کے بعد جائز بھی ہو گا کیونکہ واقعے سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ کسی بھی وقت مدد کر سکتے ہیں پس جو مدد کر سکتا ہے میرے خیال میں اس سے مانگنے کو شرک قران بھی نہیں کہا گیا کیونکہ قران مالا یضرھم ولا ینفعھم کی شرط لگاتا ہے


پہلے وہ جنھوں نے کرامات سے اپنے عقائد بنا لئے جیسے امداد اللہ مکی کے مرید جب ڈوبنے لگے تو انہوں نے فریاد کی کہ اس سے زیادہ مدد کا کون سا وقت ہو گا-
دوسرے وہ جنہوں نے ابھی عقیدہ بنایا تو نہیں مگر قوی خدشہ ہے کہ وہ بھی اگر پہلے لوگوں کا رد نہیں کریں گے تو اس میں گر سکتے ہیں محترم بھائی اسکے لئے ذات انواط کے واقعے پر ذرا غور کریں کہ اس دور میں نئے صحابہ نے ایک طریقے کا ابھی اس طرح رد نہیں دیکھا تھا تو ذات انواط کی بات کر بیٹھے
محترم تلمیذ بھائی میرے کچھ پڑھے لکھے دیوبندی دوست ان باتوں کا (بزرگوں کو چھوڑ کر) کھل کر رد کرتے ہیں پس آپسے بھی درخواست ہے کہ اوپر دوسرے لوگوں کو گرنے سے بچانے اور پہلوں کو نکالنے کے لئے حق کا ساتھ دیں

اللہ نے فرمایا کونوا قوامین للہ شھداء بالقسط ولا یجرمنکم شنان قوم علی ان لا تعدلوا
یعنی اللہ کے لئے انصاف کی گواہی دینے والے بنو اور کسی قوم سے دشمنی کی وجہ سے انصاف کو نہ چھوڑو

اللہ آپکا حامی و ناصر ہو امین
 

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,100
ری ایکشن اسکور
1,460
پوائنٹ
344
آپ کی پوری پوسٹ سے جو کچھ میں سمجھا ان اعتراضات کا جواب دے رہاہوں
اور کرامات سے اگر ہم نے عقیدہ اخذ کیا ہوتا تو ہم بھی یا امداد اللہ مکی المدد کا نعرہ لگا رہے ہوتے اور اس کے جواز کے فتوی دے رہے ہوتے لیکن ایسا نہیں ہے
ہاں آپ نے ایک دوسرا اعتراض کیا ہے کہ ممکن کوئی انفرادی تو ان واقعات کو پڑھ کر گمراہ ہوجائے
محترم اگر کوئی صرف حضرت جبرائیل علیہ السلام کا وہ واقعہ پڑھے جس میں انہوں کہا تھا لاھب لک غلاما زکیا کہا تھا تو اس شخص کا کیا عقیدہ ہوگا ؟؟
اگر کوئی صرف مسلم کی وہ حدیث پڑھے جس میں ایک بچہ غیب کے امور میں سے بتا رہا ہے تو اس کا کیا عقیدہ ہو گا
کہنے کا مقصد یہ کہ اگر کرامات کے بیان کرنے سے عقیدہ میں فساد آتا تو قرآن و حدیث میں کرامات کے واقعات نہ ہوتے
ان کرامات سے کوئی غلط عقیدہ کشید نہ کرے ، اس کے لئیے توحید کا ردس دیتی کتب ، فتاوا جات موجود ہیں جو غلط عقیدہ کا رد کر رہے ہیں آپ اور کس طرح کا غلط عقیدہ کا رد چاہتے ہیں ؟؟؟؟؟
دیوبندی و برلوی اختلاط کے حوالہ جو آپ کے خدشات ہیں ان کے متعلق میں یہی کہ سکتا ہوں کہ یہ بات یاد رکھیں کہ دیوبندی افراد کے اعمال کا نام فقہ حنفی نہیں ، فقہ حنفی کتب فقہ میں ہے ، جو مسلم کفار کے دیش میں رہتے ہیں اور ان کے رنگ میں ڈھلتے جارہے ہیں کیا ان کے اعمال کی وجہ اسلام کو متھم کیا جاسکتا ہے ؟؟؟؟
ہوش کے ناخن لو جناب بات کو کرامت کی طرف کیوں لے کر جاتے ہو عقیدہ وحدۃ الوجود کرامت ہے یا شرک؟؟؟؟؟ؕ
 

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,035
ری ایکشن اسکور
1,227
پوائنٹ
425
کرامات سے اگر ہم نے عقیدہ اخذ کیا ہوتا تو ہم بھی یا امداد اللہ مکی المدد کا نعرہ لگا رہے ہوتے اور اس کے جواز کے فتوی دے رہے ہوتے لیکن ایسا نہیں ہے
محترم بھائی کیا اوپر والے واقعے سے آپکو عقیدہ اخذ کرنا نظر نہیں آ رہا-جب میں دیوبندی تھا تو مجھے بھی کوئی اس طرح کے واقعات دکھاتا تو میں بھی کہتا کہ ہمارا تو ایسا عقیدہ نہیں کیونکہ دیوبندیوں کا اس عقیدہ پر عمل نہیں دیکھا تھا یا اس حوالے سے کبھی غور نہیں کیا تھا مگر اس طرح کے واقعات دیکھ کر دل کھٹکتا تھا مگر چونکہ ہٹ دھرم نہیں تھا اسلئے جائز تاویل کی تلاش میں رہتا تھا جیسے آپنے شاکر بھائی کو کہا ہے کہ امداد اللہ مکی والی بات پر غور کروں گا-واللہ مجھے اپنی حالت یاد آ گئی- اب کچھ کی تو تاویل مل جاتی اور دل مطمئن ہو جاتا لیکن کچھ ایسے تھے کہ تاویل ممکن ہی نہیں نظر آتی تھی حتی کہ مفتی طارق صاحب نے بھی کہ دیا کہ اس امداد اللہ والی بات کی تاویل نہیں ہو سکتی یہ بات تو شرک ہے مگر ہمارے بزرگوں نے کس وجہ سے کہی تھی اسکا ہم تعین نہیں کرسکتے-
اسی طرح کے صریح مدد مانگنے کے بہت واقعات ہیں کم از کم انہیں کا رد مقصود ہے

ہاں آپ نے ایک دوسرا اعتراض کیا ہے کہ ممکن کوئی انفرادی تو ان واقعات کو پڑھ کر گمراہ ہوجائے محترم اگر کوئی صرف حضرت جبرائیل علیہ السلام کا وہ واقعہ پڑھے جس میں انہوں کہا تھا لاھب لک غلاما زکیا کہا تھا تو اس شخص کا کیا عقیدہ ہوگا ؟؟ اگر کوئی صرف مسلم کی وہ حدیث پڑھے جس میں ایک بچہ غیب کے امور میں سے بتا رہا ہے تو اس کا کیا عقیدہ ہو گا
کہنے کا مقصد یہ کہ اگر کرامات کے بیان کرنے سے عقیدہ میں فساد آتا تو قرآن و حدیث میں کرامات کے واقعات نہ ہوتے
محترم بھائی انتہائی معذرت کے ساتھ قران کی ایک آیت بغیر تبصرہ کے لکھوں گا اور عرض کروں گا عمر رضی اللہ عنہ کو وما محمد الا رسول والی آیت بھول گئی تھی آیت ہے انما البیع مثل الربوا
محترم بھائی اللہ کو گواہ بنا کر بتائیں کیا آپکے بتائے واقعات اور امداد اللہ مکی جیسے واقعات عقیدہ اخذ کرنے کے لحاظ سے ایک جیسے ہیں
میں حیاتی اور مماتی دیوبندی کا ایک مکالمہ کا لنک لگا رہا ہوں
http://forum.mohaddis.com/threads/عقیدہ-حیات-النبی-صلی-اللہ-علیہ-وسلم-کے-منکر-امام-کے-بپیچھے-نماز-ہوتی-ہے-کہ-نہیں؟.18567/#post-139625
کچھ مکالمہ بھی درج کرتا ہوں
مولانا محمد جمیل: بول مفتی صاحب فرماتے ہیں کہ مماتیوں کے ساتھ آپ کا کیا تعلق ہے یہ لوگ شکایت کیوں لے کر آئے؟
مماتی مولوی: کیونکہ شرک کے موضوع پر جب میں بیان کرتا ہوں اس وقت میں آیات وغیرہ پڑھتا ہوں تو اس سے ان کو اشکال ہے میں عام بیان کرتا ہوں یہ اس طرف لے آتے ہیں۔
مفتی صاحب: آخر ہم لوگ بھی بیان کرتے ہیں ہمارے بارے میں ہمارے مقتدی یہ نہیں کہتے
پس جس طرح شرک کا بیان ایک جیسا نہیں ہوتا اسی طرح بالکل اسی طرح مسلم کی حدیث سے تو کوئی عقل والا عقیدہ اخذ نہیں کرتا مگر ان واقعات سے کیا جا رہا ہے

دیوبندی و برلوی اختلاط کے حوالہ جو آپ کے خدشات ہیں ان کے متعلق میں یہی کہ سکتا ہوں کہ یہ بات یاد رکھیں کہ دیوبندی افراد کے اعمال کا نام فقہ حنفی نہیں ، فقہ حنفی کتب فقہ میں ہے ، جو مسلم کفار کے دیش میں رہتے ہیں اور ان کے رنگ میں ڈھلتے جارہے ہیں کیا ان کے اعمال کی وجہ اسلام کو متھم کیا جاسکتا ہے ؟؟؟؟
محترم بھائی ایک تو دیوبند کا فقہ (حنفی) اور دیوبند کا عقیدہ میں بہت فرق ہے
فقہ حنفی جیسا لکھا ہے اس پر دیوبند کا عمل شاہد اسی طرح ہو مگر دیوبند کا عقیدہ جیسا بیان کیا جاتا ہے عمل اسکے خلاف ہے اور محترم بھائی ہم شروع سے اسی بات کے پیچھے لگے ہوئے ہیں کہ عقیدے میں بھی عمل قول کے مطابق کر لیں اور اعمال میں شرکیہ باتیں اس طرح نکال دیں جس طرح قول میں بیان کرتے ہیں
اللہ جزا دے امین
نوٹ:اگر جوابات زیادہ لوگوں کے آرہے ہیں تو آپ آرام سے ایک ایک کے جواب دیں میں بھی انتظار کر لیتا ہوں واللہ آپکو تنگ نہیں کرنا ان ارید الا الاصلاح ما استطعت
تلمیذ
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
بسمہ اللہ الرحمن الرحیم
دیوبندیوں اور بریلویوں میں فرق؟

نجانے کیوں بہت سے لوگوں کو یہ تلخ حقیقت ہضم نہیں ہوتی کہ دیوبندی حضرات بھی بعینہ اسی طرح کفریہ اور شرکیہ عقائد رکھتے ہیں جیسے کہ بریلوی یا رافضی۔طالب الرحمن شاہ صاحب حفظہ اللہ کی کتاب دیوبندیت تاریخ و عقائد کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ دیوبندی حضرات عقائد میں بریلویوں کے ہم قدم اور قدم بہ قدم ہیں بلکہ بعض اوقات توکفر و شرک میں بریلویوں سے بھی دو قدم آگے ہیں۔پھر بھی ایک گروہ مشرک وکافر اور دوسرا گروہ موحدو توحید پرست؟؟؟ان لوگوں پر حیرت اور افسوس ہے جن کے نزدیک جب کفر اور شرک پر بریلوی یا رافضی ٹھپہ لگا ہو تو وہ واقعی کفر اور شرک ہوتا ہے اور ان لوگوں کے پیچھے نہ تو نماز جائز ہوتی ہے اور نہ ان سے محبت لیکن اسی کفر اور شرک پر اگر دیوبندی ٹھپہ لگا ہو توان کا دل اسے قبول نہیں کرتا اور فوراً تاؤیل کی فکر ہوتی ہے اور ان کے پیچھے نماز بھی جائز ہوتی ہے بلکہ جواز پر اصرار ہوتا ہے اور ان سے محبت بھی ضروری ٹھہرتی ہے۔انا اللہ وانا الیہ راجعون

یہ دوہرے پیمانے درست نہیں۔ دیوبندی جو عقائد رکھتے ہیں اگر وہ کفریہ اور شرکیہ نہیں تو ہمیں بریلویوں اور رافضیوں کو بھی کفریہ اور شرکیہ عقائد سے پاک قرار دینا چاہیے۔ ایک ہی طرح کے عقائد پر بریلوی اور رافضی نفرت اور دیوبندی محبت کے مستحق کیوں؟؟؟

دیوبندیت کی حقیقت کو آشکار کرتی کتاب دیوبندیت سے کچھ اقتباسات

ملاحظہ فرمائیں:

سبب تالیف
دیوبندی حضرات کے بارے میں عام اہلحدیث اور اکثر علماء کا بھی یہ نظریہ ہے کہ یہ لوگ موحد ہیں۔جیسا کہ حکیم محمود صاحب دیوبندیوں کے خلاف ''علمائے دیوبند کا ماضی تاریخ کے آئینے میں'' نامی کتاب لکھتے ہوئے وہ اپنا اور دیوبندیوں کا ناطہ ان الفاظ میں جوڑتے ہیں۔

''آج ہم اور دیوبندی ایک دوسرے کے بہت قریب ہیں۔اور الحمداللہ عقائدمیں بھی کوئی ایسا بعد نہیں رہا بلکہ ہمارا اور اس مسلک کا مستقبل بھی دونوں کے اتحاد پر موقوف ہے۔'' ایک جگہ لکھتے ہیں:

''اہل توحید کے ناطے سے ایک تعلق موجود ہے اور اختلاف کے باوجود وہ باقی ہے اور رہے گا اور یہی دکھ کی بات ہے۔''

حکیم صاحب کا یہ معذرت خواہانہ رویہ شاید مصلحانہ ہو، ورنہ دیوبندیوں کے بارے میں عام اہلحدیثوں کا نظریہ ان کے عقائد سے ناواقفی کی وجہ سے ہے۔اسی لئے یہ ان سے رشتہ ناطہ کرنے اور ان کے پیچھے نماز پرھنے میں کوئی حرج محسوس نہیں کرتے۔

حتیٰ کہ باہمی اختلاف کو فروعی اختلاف گردانتے ہیں لیکن بریلویوں سے رشتہ نہ کرنے یا ان کے پیچھے نمازیں نہ ادا کرنے کی وجہ شرک بتلاتے ہیں۔اس کتاب کے لکھنے کی وجہ یہ ہے کہ اہلحدیث حضرات کو یہ بتلانا مقصود ہے کہ جس وجہ سے تم بریلویوں سے نفرت کرتے ہو وہی وجہ دیوبندیو ں میں بدرجہ اتم موجود ہے۔

ہر چمکتی چیز کو سونا سمجھنا عقل مندی نہیں لہذا دیوبندیوں کے دعوؤں اور تقریروں سے دھوکہ کھا کر ان کو موحد شمار کرنا بے عقلی ہے۔ اس کتاب کی تصنیف کا مقصد دیوبندیوں کے اصلی چہرے کو بے نقاب کرنا ہے۔ شاید کچھ سادہ اور ناسمجھ لوگ اس کتاب کی اشاعت کو اہلحدیث اور دیوبندی حضرات کے درمیان اختلاف کا بیج بونا گردانیں ان حضرات سے ادباً عرض ہے کہ اگر آ پ کی محبت و نفرت کے پیمانے اللہ کے لئے ہیں،یعنی ''الحب فی اللہ والبغض فی اللہ'' تو پھر یا تو بریلوی اور شیعہ حضرات کے لئے بھی دل کے دریچوں کو وا کردیں اور اگر ایسا ممکن نہیں تو انصاف کے تقاضوں کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے ان افراد سے بھی براء ت کا اظہار کریں جو رب کی توحید کو شرک کی ناپاکی سے پلید کرنے کی مذموم کوششوں میں ملوث ہیں لیکن کھل کر سامنے نہیں آتے۔اسی طرح اس کتاب کی تصنیف کا دوسرا مقصد بھولے بھالے دیوبندی عوام کو خبردار کرنا ہے کہ دیوبندی علماء کی چکنی چپڑی باتوں اور توحید کے بلند وبانگ دعوؤں سے مرعوب ہوکر ان کی اتباع کر کے کہیں اپنی آخرت برباد نہ کر لینا۔

اگر آپ اس کتاب کو تعصب و حسد کی نظر کی بجائے اصلاح کی نظر سے پڑھیں اور جانچیں گے تو آپ کو یہ بات معلوم ہو جائے گی کہ بریلی کی طرح دیوبند کی طرف پیش قدمی بھی رب کے قرب کے بجائے رب سے دوری کا سبب بن رہی ہے، ان راستوں پر شرک و کفر کی گھاٹیاں ہیں جس میں گر کر انسان ایسے عمیق اندھیروں میں گم ہوجاتا ہے کہ ہدایت کی روشنی کا حصول ناممکن نہیں تو کم ازکم بے حد مشکل ضرور ہو جاتا ہے۔شرک کے ان تاریک راستوں پر چلنے کے بجائے کتاب وسنت کے روشن راستوں کو اختیار کریں۔اور اپنے علماء کے شرکیہ عقائد سے برات کا اظہار کریں اور اپنے عقیدوں کو کتاب وسنت کی روشنی میں سنواریں نجات کا دارومدار توحید سے وابستگی اور شرک سے علیحدگی پر ہے۔ ہماری ان معروضات کو ٹھنڈے دل سے پڑھیں۔اور آخرت کی فکر کریں۔اللہ ہمیں ہدایت دے اور اپنی توحید کو ہمارے دلوں میں راسخ کردے۔تاکہ ہم جہنم کی دھکتی ہوئی آگ سے بچ سکیں۔آمین

پروفیسر سید طالب الرحمن

اصلی چہرہ

آج کل عام لوگوں کے ذہنوں میں یہ بات بری طرح سمائی ہے کہ دیوبندی علماء توحید کے علمبردار ہیں لیکن حقیقت کچھ اور ہے۔شرک کی جتنی قسمیں بریلویوں میں پائی جاتی ہیں جن پر دیوبندی علماء بڑے برستے اور گرجتے ہیں اس سے زیادہ خود دیوبندی مسلک میں ملتی ہیں۔ عقیدہ وحدۃ الوجودپر یقین رکھ کر یہ اسی صف میں کھڑے ہیں جس میں عزیر علیہ السلام کو اللہ کا حصہ بنانے والوں اور عیسیٰ علیہ السلام کو اللہ کا بیٹا بنانے والوں کو آپ کھڑا پاتے ہیں۔اسی طرح اللہ کی صفات میں اوروں کو شریک کرنے میں یہ لوگ بریلویوں سے دو قدم آگے نظر آتے ہیں۔ آپ ان کے حالات جاننے کے لئے ان کے اپنے حنفی مذہب کے ایک بریلوی مولوی ''علامہ ارشد القادری'' کا تبصرہ ہی کافی پائیں گے۔وہ لکھتے ہیں:۔

''لوگوں کو دیوبندی علماء کی پرزور تقاریر (جو اللہ کے علاوہ غیب، قدرت و تصرف کے رد میں ہوتی ہیں) اس خوش عقیدگی میں مبتلا کردیں گی کہ یہ لوگ توحید کے سچے علمبردار اور کفر و شرک کے خلاف تیغ بے نیام ہیں۔

لیکن آہ میں کن لفظوں میں اس سر بستہ راز کو بے نقاب کروں اور اس خاموش سطح کے نیچے ایک خوفناک طوفان چھپا ہوا ہے۔تصویر کے اس رخ کی دل کشی اسی وقت تک باقی ہے جب تک کہ دوسرا رخ نگاہوں سے اوجھل ہے۔یقین کرتا ہوں کہ پردہ اٹھ جانے کے بعد توحید پرستی کی ساری گرمجوشیوں کا ایک آن میں بھرم کھل جائے گا۔دیوبندی جماعت دراصل مذہبی تاریخ کا سب سے بڑا اور عجیب طلسم فریب ہے ان کی حرکت رہگذر کے ان ٹھگوں سے کچھ مختلف نہیں جو آنکھوں میں دھول جھونک کر مسافروں کولوٹ لیا کرتے ہیں۔

ورنہ اگر خالص توحید کا جذبہ اس کے پس منظر میں کار فرما ہوتا تو شرک کے سوال پر اپنے اور بیگانے کے درمیان قطعاً کوئی تفریق روا نہ رکھی جاتی۔اسی لئے دیوبندی حضرات کی خود فریبیوں کا جادوتوڑنے کیلئے میرے ذہن میں زیر نظر کتاب کی ترتیب کا خیال پیدا ہوا کہ اصحاب عقل و دانش واضح طور پر محسوس کرلیں کہ جو لوگ دوسروں پر شرک کا الزام عائد کرتے ہیں اپنے نامہ اعمال کے آئینہ میں خود کتنے بڑے مشرک ہیں اور جب میں نے ان اوراق کو پلٹ دیا اور لوگوں نے اسے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا تو توحید کی ساری گرماگرمی یک دم سرد پڑجائے گی۔''(خلاصہ از زلزلہ)

یہ ہے وہ کلام جس سے یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہو جاتی ہے کہ جس طرح بریلوی شرک کی پلیدی میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ دیوبندی بھی اسی پلیدی میں لت پت ہیں یہ الگ بات ہے کہ وہ مانتے نہیں یعنی ایک چور دوسرا چتر والی بات ہے۔

آئیے اب آپ کو ہم اس وادی کی سیر کراتے ہیں جس میں دیوبندی حضرات کے اپنے کفر کے خار دار اشجار اگے ہوئے ہیں اور وہ اسے دنیا کی نگاہوں سے اوجھل رکھنے کی ناکام سعی کرتے ہیں۔

اللہ پر زنا کی تہمت !!!


نظریہ وحدت الوجود میں ڈوبا ہوا ایک قصہ پڑھیئے جو تذکرۃ الرشیدمیں ص ۲۴۲ پر پیر جیو محمد جعفر صاحب ساڈھوری بیان کرتے ہیں۔(تذکرۃ الرشید ۲۴۲،جلد نمبر۲)
ایک روز حضرت مولانا خلیل احمد صاحب زید مجدہ نے دریافت کیا کہ حضرت یہ حافظ لطافت علی عرف حافظ مینڈھو شیخ پوری کیسے شخص تھے؟حضرت نے فرمایا ''پکا کافر تھا'' اور اس کے بعد مسکرا کر ارشاد فرمایا کہ ''ضامن علی جلال آبادی تو توحید ہی میں غرق تھے''

ایک بار ارشاد فرمایا کہ ضامن علی جلا ل آبادی کی سہانپور میں بہت سی رنڈیاں مرید تھیں ایک بار یہ سہانپور میں کسی رنڈی کے مکان پر ٹھہرے ہوئے تھے سب مریدنیاں اپنے میاں صاحب کی زیارت کیلئے حاضر ہوئیں مگر ایک رنڈی نہیں آئی میاں صاحب بولے کہ فلانی کیوں نہیں آئی رنڈیوں نے جواب دیا میاں صاحب ہم نے اس سے بہتیرا کہا کہ چل میاں صاحب کی زیارت کو اس نے کہا میں بہت گناہ گارہوں اور بہت روسیاہ ہوں میاں صاحب کو کیا منہ دکھاؤں میں زیارت کے قابل نہیں میاں صاحب نے کہا نہیں جی تم اسے ہمارے پاس ضرور لانا چناچہ رنڈیاں اسے لیکر آئیں جب و ہ سامنے آئی تو میاں صاحب نے پوچھا بی تم کیوں نہیں آئی تھیں؟ اس نے کہا حضرت روسیاہی کی وجہ سے زیارت کو آتی ہوئی شرماتی ہوں۔ میاں صاحب بولے بی تم شرماتی کیوں ہو کرنے والا کون اور کرانے والا کون وہ تو وہی ہے رنڈی یہ سنکر آگ ہوگئی اور خفا ہو کر کہا لاحول ولا قوۃ اگرچہ میں روسیاہ و گنہگار ہوں مگر ایسے پیر کے منہ پر پیشاب بھی نہیں کرتی۔میاں صاحب شرمندہ ہو کر سرنگوں رہ گئے اور وہ اٹھ کر چلدی۔(از پیر جیو محمد جعفر صاحب ساڈھوری)
استغفراللہ من ھذہ الخرافات الکفریۃ

یہ ہے وحدت الوجود کا عروج۔ چلیں ہم یہ اعتراض نہیں کرتے کہ رنڈیاں ان کی مرید اور وہ ان کے پیر رنڈیاں ان کی زیارت کو آئیں اور وہ رنڈیوں کے گھر قیام کریں۔ہمیں اعتراض تو یہ ہے کہ آج تک مختلف امتوں نے اپنے ابنیاء پر تو شراب خوری و بدکاری کا بہتان باندھا لیکن اپنے رب کے بارے میں تو کسی کی زبان سے ایسی بات نہیں نکلی تھی۔

لیکن یہاں تو ضامن علی جلال آبادی جو توحید(وحدت الوجود) میں غرق تھے اس نے نعوذباللہ زنا کرینوالا اور کروانے والا اور جس کے حکم سے زنا ہورہا ہے اللہ کو قرار دیا۔(نعوذباللہ من ھذا الکفر) نقل کفر کفر نباشد۔

یہ ہے دیوبندیوں کی اصل توحید۔

ان الفاظ کے ساتھ ہی میں اپنی معروضات کا اختتام کرتا ہوں۔

اور مجھے قوی امید ہے کہ اس کتاب کو پڑھ کر ایک اہلحدیث یہ سوچنے پر ضرور مجبور ہوگا کہ جب جرم بریلویوں اور دیوبندیوں کا ایک سا ہے تو پھر ان سے سلوک روا رکھنے میں امتیاز کیوں!

ان کے پیچھے نماز ادا کرنا اور رشتہ ناطہ کرنا بھی ویسے ہی غلط ہے، جیسے بریلویوں سے اور ایک دیوبندی کتاب کو پڑھ کر یہ فیصلہ کرنے کی پوزیشن میں ہوگا کہ علماء دیوبند کے عقائد میں شرک کی ملاوٹ و افر مقدار میں موجود ہے۔

لہذا ا ن کے ساتھ ایک موحد کا چلنا ناممکن ہے اور اسے قرآن و سنت کا راستہ اختیار کرنے میں ذرا دقت پیش نہ آئے۔اللہ ہم سب کو ہدایت نصیب فرمائے۔آمین۔
ٰ
مزید تفصیل اور مکمل کتاب پڑھیں یہاں : دیوبندیت

http://ircpk.com/books/syed-talib-ur-rehman/3851-دیوبندیت-عقائد-و-تعارف-اردو.html
 

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,035
ری ایکشن اسکور
1,227
پوائنٹ
425
نجانے کیوں بہت سے لوگوں کو یہ تلخ حقیقت ہضم نہیں ہوتی کہ دیوبندی حضرات بھی بعینہ اسی طرح کفریہ اور شرکیہ عقائد رکھتے ہیں جیسے کہ بریلوی یا رافضی۔
یہ دوہرے پیمانے درست نہیں۔ دیوبندی جو عقائد رکھتے ہیں اگر وہ کفریہ اور شرکیہ نہیں تو ہمیں بریلویوں اور رافضیوں کو بھی کفریہ اور شرکیہ عقائد سے پاک قرار دینا چاہیے۔ ایک ہی طرح کے عقائد پر بریلوی اور رافضی نفرت اور دیوبندی محبت کے مستحق کیوں؟؟؟حکیم صاحب کا یہ معذرت خواہانہ رویہ شاید مصلحانہ ہو، ورنہ دیوبندیوں کے بارے میں عام اہلحدیثوں کا نظریہ ان کے عقائد سے ناواقفی کی وجہ سے ہے۔اسی لئے یہ ان سے رشتہ ناطہ کرنے اور ان کے پیچھے نماز پرھنے میں کوئی حرج محسوس نہیں کرتے۔
اس کتاب کے لکھنے کی وجہ یہ ہے کہ اہلحدیث حضرات کو یہ بتلانا مقصود ہے کہ جس وجہ سے تم بریلویوں سے نفرت کرتے ہو وہی وجہ دیوبندیو ں میں بدرجہ اتم موجود ہے۔
محترم بھائی ہر انسان کو اپنی سوچ رکھنے کا حق ہے اور دوسرے کو اس پر قائل کرنے کا حق بھی حاصل ہے مگر اپنی سوچ کے خلاف برداشت نہ کرنا صرف اس وقت ٹھیک ہوتا ہے جب اگلے کے پاس جائز تاویل نہ ہو
واللہ میں نہیں جانتا کہ آپ کونسے حکیم صاحب کی کونسے رویے کی بات کر رہے ہیں مگر میں اتنا جانتا ہوں کہ ہمارے بہت سے بڑے علماء بشمول عبد اللہ روپڑی رحمہ اللہ وغیرہ بھی پھر آپکے اس دوہرے پیمانے (یعنی دورخی) کے فتوے میں آ سکتے ہیں-میرے خیال میں عام اہل حدیث انکے عقائد کی ناواقفی کی وجہ سے ایسا نہیں کرتے کیونکہ اب تو یہ بواقعات بچہ بچہ جان چکا ہے-میرے خیال میں وہ قول اور عمل میں فرق کرتے ہیں-بریلوی اور اہل تشیعہ اللہ کے علاوہ دوسروں سے مانگنے کا کھلے عام اقرار کرتے ہیں جس پر کوئی تاویل نہیں کی جا سکتی لیکن محترم بھائی دیوبندی عالم کے پاس کسی بھی وقت جا کر پوچھیں کہ میں جب ڈوب رہا ہوں تو کیا امداد اللہ یا اشرف علی تھانوی وغیرہ سے مدد مانگ سکتا ہوں تو وہ لازمی اسکو شرک کہے گا ہاں جب یہی بات انکی کتاب کے بزرگوں کے واقعات سے دکھائی جائے گی تو وہ بزرگوں کی اندھی حمایت کی وجہ سے اسکی تاویل کرنے پر تل جائے گا
محترم بھائی میں نے اہل حدیث لوگوں کی کتابوں میں بھی اسی طرح کی مدد کرنے والے واقعات دیکھے ہیں جن میں کچھ مدد اور غیب کے بارے ہیں اور کچھ وحدۃ الوجود بارے ہیں حتی کہ ابن عربی کے عقیدے کی تاویل کرنے والے بھی میں نے دیکھے ہیں-اگرچہ دیوبندی کے مقابلہ میں نہ ہونے کے برابر ہیں- اب کچھ اہل حدیث ایسا لکھنے والوں کو مشرک نہیں کہتے-
پس میری یہ گزارش ہے کہ آپ کو جو دلائل سے راجح بات نظر آتی ہے اسکی پیروی کریں اور اس پر دوسروں کو بھی بے شک مائل کریں مگر مائل کرنے کا طریقہ میں فرق ملحوظ رکھنا ہو گا مثلا جس بات پر دوسرے کو مائل کر رہے ہیں اگر وہ بھی اپنے پاس جائز دلائل رکھتا ہے تو پھر اسکے عقیدے پر طنز نہیں کرنا چاہیے کہ یہ دوہرا پن ہے بلکہ یہ کہنا چاہیے کہ میرے خیال میں یہ دلیل بہتر نہیں بلکہ میری دلیل بہتر ہے- اس طرح کی غلطی کبھی مجھ سے بھی لا شعوری طور پر ہو جاتی ہےبعد میں علم ہونے پر اللہ کی توفیق سے رجوع کر لیتا ہوں- ہاں اگر دوسرے کے پاس جائز دلائل نہ ہوں اور وہ ہٹ دھرمی پر تلا ہو تو پھر آپ کا مائل کرنے کا طریقہ فرق ہو سکتا ہے-
اسی سلسلے میں ایک مثال بتاتا چلوں کہ محترم مبشر ربانی حفظہ اللہ اپنی کتاب کلمہ گو مشرک میں بریلویوں کی جہالت عذر نہ ہونے پر ابن باز رحمہ اللہ کا فتوی لے کر آئے ہیں جس میں آگے ابن باز کہتے ہیں کہ اگرچہ یہ عذر تو نہیں مگر اگر کچھ علماء کسی اور تاویل کی وجہ سے بریلویوں کو مشرک نہیں سمجھتے تو باقی علماء کے لئے یہ جائز نہیں کہ وہ ان علماء بھائیوں پر مشرک کو مشرک نہ سمجھنے پر ناقض اسلام کا فتوی لگائیں

اگر آپ اس کتاب کو تعصب و حسد کی نظر کی بجائے اصلاح کی نظر سے پڑھیں اور جانچیں گے تو آپ کو یہ بات معلوم ہو جائے گی کہ بریلی کی طرح دیوبند کی طرف پیش قدمی بھی رب کے قرب کے بجائے رب سے دوری کا سبب بن رہی ہے،
یہ بات تو واقعی ٹھیک ہے کہ اس سے کچھ تو پھر یہ شرکیہ عقیدہ ہی بنا لیتے ہیں جیسے امداد اللہ مکی سے مدد مانگنے والے دیوبندی نے یہ عقیدہ ہی بنا لیا تھا اور کچھ اس میں گرنے کے قریب ہوتے ہیں البتہ ساروں کا یہ حال نہیں زیادہ تر اسکو غلط تو سمجھتے ہیں مگر بزرگوں کی محبت کی وجہ سے اسکی کوئی تاویل کرنا چاہتے ہیں تاکہ شرک سے بھی بچا جا سکے اور بزرگوں کو بھی بچایا جا سکے

نوٹ: محترم بھائی میں یہ نہیں کہتا کہ آپکے دلائل ٹھیک نہیں لیکن میں یہ بھی نہیں کہ سکتا کہ دوسرے علماء کے پاس دلائل نہیں البتہ میری اپنی ناقص عقل کے مطابق دوسرے علماء کا پہلو زیادہ محتاط اور راجح ہے ہاں آپ کے ساتھ تبادلہ خیال سے میرے ناقص علم میں اضافہ ہو جائے تو میں نہیں کہ سکتا-اب آپ چونکہ علم میں بڑے اور سینیئر ہیں تو آپکے حکم کا انتظار ہے کہ آگے چپ رہنا ہے یا بات کرنی ہے ادھر ہی یا دوسری جگہ-
اللہ آپکے جذبہ توحید کو قبول فرمائے امین
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
میرے بھائی عبدہ اھل حدیث کا دین کے بارے میں بڑا واضح عقیدہ ہے -


اھل حدیث وہ ہے جو قرآن و صحیح حدیث کے سامنے کسی کی بات کو حجت نہیں سمجھتے - جبکہ ھمارے مقلدین بھائی قرآن و صحیح حدیث سامنے آنے کے بعد بھی اپنے اکابرین کی غلط عقیدہ کا دفع کرتے ہیں -
جیسے میں نے اوپر وحدت الوجود کے بارے میں دیو بند کا عقیدہ پیش کیا ہے-
حقیقت یہ ہے کہ کسی انسان کو اللہ تعالیٰ کی ذات کا جزاء سمجھنا (یا اللہ کی ذات میں مدغم سمجھنا)یا اللہ تعالیٰ کو کسی انسان میں مدغم سمجھناایسا کھلا اور عریاں شرک فی الذات ہے جس پر اللہ تعالیٰ کا شدید غضب بھڑک سکتا ہے۔عیسائیوں نے حضرت عیسی علیہ السلام کو اللہ کا بیٹا (جزء)قرار دیا تو اس پر اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں جو تبصرہ فرمایا اس کا ایک ایک لفظ قابل غور ہے۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے۔
""یقینا کفر کیا ان لوگوں نے جنہوں نے کہا مریم کا بیٹا ،مسیح ہی اللہ ہے۔اے نبی کہو اگر اللہ ،مسیح ابن مریم کو اور اس کی ماں کو ہلاک کر دینا چاہے تو کس کی مجال ہےکہ اس کو اس ارادے سے باز رکھے؟اللہ تو زمین اور آسمانوں کا اور ان سب چیزوں کا مالک ہے جو زمین اور آسمان کے درمیان پائی جاتی ہیں جو کچھ چاہتا ہے پیدا کرتا ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے۔""(سورہ المائدہ،آیت نمبر 17)
سورہ مریم میں اس سے بھی زیادہ سخت الفاظ میں ان لوگوں کو تنبیہہ کی گئی ہےجو بندوں کو اللہ کا جزء قرار دیتے ہیں ۔

اللہ رب العزت فرماتے ہیں۔

""وہ کہتے ہیں رحمن نے کسی کو بیٹا بنایا ہے سخت بیہودہ بات ہے جو تم گھڑ لائے ہو قریب ہے کہ آسمان پھٹ پڑیں زمین شق ہو جائے اور پہاڑ گر جائیں اس بات پر کہ لوگوں نے رحمن کے لئے اولاد ہونے کا دعوی کیا ہے۔""(سورہ مریم ،آیت نمبر 88تا91)
بندوں کو اللہ کا جزء قرار دینے پر اللہ تعالیٰ کے اس شدید غصہ اور ناراضگی کی وجہ صاف ظاہر ہے کہ کسی کو اللہ کا جزء قرار دینے کا لازمی نتیجہ یہ ہو گا کہ اس بندے میں اللہ تعالیٰ کی صفات تسلیم کی جائیں ۔مثلا یہ کہ وہ حاجت روا اور اختیارات اور قوتوں کا مالک ہے یعنی شرک فی الذات کا لازمی نتیجہ شرک فی الصفات ہے اور جب کسی انسان میں اللہ تعالیٰ کی صفات تسلیم کر لی جائیں تو پھر اس کا لازمی نتیجہ یہ ہو گا کہ اسکی رضا حاصل کی جائے،جس کے لئے بندہ تمام مراسم عبودیت ،رکوع و سجود ،نذر و نیاز،اطاعت و فرمانبرداری،بجا لاتا ہے یعنی شرک فی الصفات کا لازمی نتیجہ شرک فی لعبادات ہے،گویا شرک فی الذات ہی سب سے بڑا دروازہ ہے۔دوسری انواع شرک کا جیسے ہی یہ دروازہ کھلتا ہے ہر نوع کے شرک کا آغاز ہونے لگتا ہےیہی وجہ ہے کہ شرک فی الذات پر اللہ تعالیٰ کا غیظ و غضب اسس قدر بھڑکتا ہے کہ ممکن ہے آسمان پھٹ جائے ۔زمین دولخت ہو جائے اور پہاڑ ریزہ ریزہ ہو جائیں۔

خلاصہ کلام یہ ہے کہ: عقیدہ وحدت الوجودہر عقل اسکے باطل ہونے کا مطالبہ کرتی ہے، اسکے لئے دلائل ذکر کرنے کی بھی ضرورت نہیں، اور ان کے اس عقیدے کی بنیاد دو الٰہوں کو ماننے پر ہے، ایک الٰہ ِخیر اور دوسرا الٰہ ِ شر: الٰہِ خیر کو نور اور الٰہِ شر کو اندھیرے سے تعبیر کرتے ہیں، اور انہی دونوں کو تمام موجودات کی اصل قرار دیتے ہیں، چنانچہ اگر نور غالب ہو تو بندہ نُورانی اور اگر ظلمت چھا جائے تو بندہ ظُلمانی بن جاتا ہے۔

انہیں اس بات کا خیال نہیں آیا کہ انکا کفریہ نظریہ ابتداء ہی میں ان کی تردید کر رہا ہے کہ ظلمت، غیرِ نورہے، اور جس پر یہ نور طاری ہوا ہے وہ کوئی اور ہے۔ "قطر الولی علی حدیث الولی " از امام شوکانی (419-421)

اللہ تعالیٰ ہم سب کو عقیدہ توحید کو سمجھنے کی توفیق نصیب فرمائے۔آمین۔
 

شاہد نذیر

سینئر رکن
شمولیت
فروری 17، 2011
پیغامات
2,011
ری ایکشن اسکور
6,264
پوائنٹ
437
میں نے دیوبندیوں کے کچھ ایسے مسائل جمع کئے ہیں جن کے بارے میں اہل حدیثوں اور عام دیوبندیوں کا بھی یہی خیال ہے کہ ان میں دیوبندیوں اور بریلویوں کا اختلاف ہے۔ان شاء اللہ اسے میں ایک مستقل مضمون کی صورت میں پیش کرونگا۔ یہ دیوبندیوں کا ڈھکوسلہ ہے کہ یہ بریلویوں سے مختلف ہیں حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ بریلوی، دیوبندی اور قادیانی ہم مسلک ہیں۔
 
Top