• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ذکر صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین …… کلام اقبال میں

شمولیت
دسمبر 09، 2013
پیغامات
68
ری ایکشن اسکور
15
پوائنٹ
37
ذکر صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین ...... کلام اقبال میں


تحریر: جناب فہد نواز

لفظ اسلاف، اقبال کے کلام میں
اقبال کی شاعری خلف کو سلف سے قریب کرتی ہے۔ ان معنوں میں کہ اقبال امت مسلمہ کی عظمت رفتہ کے متجسس و شائق تھے۔ کلام اقبال کا قاری، اقبال کے ساتھ کبھی عرب کے صحرا نشینوں کو اسلام کی عظمت کے جھنڈے لہراتے ہوئے دیکھتا ہے، کبھی یرموک کے میدان میں ایک جوان کو شوق شہادت سے بے قرار پاتا ہے، کبھی طارق بن زیاد کو رب ذوالجلال سے مناجات کرتے سنتا ہے، کبھی عبدالرحمن اول کو اندلس میں کھجور کا پودا لگا کر اپنے تاثرات بیان کرتے دیکھتا ہے، کبھی ترکانِ عثمانی کی سطوتوں کا نقشہ آنکھوں کے سامنے آتا ہے اور کبھی جمال الدین افغانی اور سعید حلیم پاشا حالت نماز میں دکھائی دیتے ہیں۔ الغرض اقبال کی شاعری آتشِ رفتہ کا سراغ ہے۔ خود کہتے ہیں:

میں کہ میری غزل میں ہے آتشِ رفتہ کا سراغ
میری تمام سرگزشت کھوئے ہوئوں کی جستجو​

کلام اقبال میں اسلاف کا لفظ کئی جگہ استعمال ہوا ہے۔ بلاشک و شبہ اسلاف سے مراد ملت کے وہ زعماء ہیں جنہوں نے مختلف جہات سے اس کی تعمیر و ترقی میں حصہ لیا ہے۔ تاہم بہت سے اشعار میں اسلاف کا لفظ خالص صحابہ کرامؓ ہی کے لیے استعمال کیا گیا ہے۔"خطاب بہ جوانانِ اسلام" (بانگ درا) میں نوجوان مسلم کو خطاب کرتے ہوئے اقبال دعوت فکر دیتے ہیں کہ وہ اپنی اصل کو پہچانے۔ ایک لمحے کے لیے وہ اس کے سامنے عرب کے صحرا نشینوں کا نقشۂ زندگی کھینچ دیتے ہیں جنہوں نے اپنے فقر کے ساتھ پوری دنیا کو اللہ کے سامنے جھکا دیا تھا۔ عرب کے ان صحرا نشینوں نے، جن کا اول بلاشبہ طبقہ صحابہ تھا، دنیا کو ایک نیا حیات آفرین تمدن دیا۔ لیکن نوجوان مسلم اپنی اصل سے اتنا دور جا چکا ہے کہ اس کے تخیل میں بھی اسلاف کی شانِ جلال و جمال نہیں آ سکتی۔ وہ کہتے ہیں کہ ہم نے اسلاف سے جو دولت فکر و نظر پائی تھی، اس کی ناقدری کی، توہم پستیوں میں گر گئے۔

گنوادی ہم نے جو اسلاف سے میراث پائی تھی
ثریا سے زمین پر آسمان نے ہم کو دے مارا
(خطاب بہ جوانان اسلام، بانگ درا)​

گویا اقبال اسلاف کا تذکرہ کر کے اتباع صحابہؓ پر زور دیتے ہیں۔ حقیقت بھی یہی ہے کہ ان نفوس قدسیہ (رضوان اللہ علیہم اجمعین) کی زندگیاں ہر شک و شبہ سے بالا اور لائق پیروی ہیں۔ یہی وہ ہستیاں تھیں جنہوں نے اپنے گفتار و کردار، معاملات و عبادات اور دعوت و جہاد سے اسلام کا سکہ ساری دنیا میں بٹھا دیا۔ صحابہؓ ہی وہ مبارک ہستیاں تھیں جو نجومِ ہدایت قرار پائیں اور ہر دور میں رسول اللہ(ﷺ) اور امت کے درمیان تعلق جوڑنے کا ذریعہ بنی ہوئی ہیں۔ اس بات کے ثبوت میں کہ اقبال نے اسلاف کا لفظ استعمال کر کے طرز صحابہؓ اپنانے پر زور دیا ہے، جواب شکوہ کا مندرجہ ذیل بند ملاحظہ فرمائیے:

ہر کوئی مست مئے ذوقِ تن آسانی ہے
تم مسلماں ہو؟ یہ انداز مسلمانی ہے؟
حیدریؓ فقر ہے، نہ دولت عثمانیؓ ہے
تم کو اسلاف سے کیا نسبت روحانی ہے؟
وہ زمانے میں معزز تھے مسلماں ہو کر
اور تم خوار ہوئے تارکِ قرآں ہو کر​

اقبال کے نزدیک ملت اسلامیہ کی عظمت رفتہ کی بازیابی اور اتحاد و یگانگت کا حصول انہی پاکباز اسلاف کے اتباع سے ممکن ہے۔

تاخلافت کی بنا دنیا میں ہو پھر استوار
لا کہیں سے ڈھونڈ کر اسلاف کا قلب و جگر​
(خضر راہ، بانگ درا)​
 
شمولیت
دسمبر 09، 2013
پیغامات
68
ری ایکشن اسکور
15
پوائنٹ
37
اقبال اپنے عہد کے مسلمان کو اس بات کی دعوت دیتے ہیں کہ وہ صحابہ کرامؓ کو معیار بنائیں۔ وہ صحابہ کی سیرت کے مختلف پہلو، مثلاً زورِ حیدری اور دولتِ عثمانیؓ، اجاگر کرتے ہیں تا کہ انہیں اپنایا جاسکے۔ اس فکر کی تائید حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کے اس فرمان سے بھی ہوتی ہے:
"آدمی کسی کے طریقے کو اختیار کرنا چاہے تو ان لوگوں کا طریقہ اختیار کرے جو دنیا سے جاچکے ہیں اور یہ لوگ نبیؐ کے صحابہؓ ہیں جو کہ اس امت میں سب سے بہترین اور سب سے زیادہ نیک دل اور سب سے زیادہ علم والے اور سب سے کم تکلف برتنے والے تھے۔" (حیاۃ الصحابہؓ، باب صحابہؓ کی صفات کے بارے میں صحابہ کرامؓ کے اقوال)
سادگی سے پر اور تصنع سے دور پاک طینت، مقصد میں انہماک اور لایعنی مباحث سے پرہیز، سیرت صحابہ کے وہ تابناک پہلو ہیں جو اقبال کو یہ دعاکرنے پر مجبور کر دیتے ہیں:

عطا اسلاف کا جذب دروں کر
شریک زمرۂ لا یحزنوں، کر
خرد کی گتھیاں سلجھا چکا میں
مرے مولا مجھے صاحب جنوں کر
(بال جبریل)​


شکوہ اور جواب شکوہ میں صحابہؓ کا ذکر
اپنی مشہور نظم "شکوہ" میں اقبال نے خدائے پاک سے امت کی تنزلی اور ناگفتہ بہ صورتحال کا رونا رویا ہے اور "جواب شکوہ" میں ان کے اسباب پر روشنی ڈالی ہے۔ یہ دونوں ہی نظمیں ذکر صحابہؓ سے پر ہیں بلکہ اگر یوں کہا جائے کہ "شکوہ" صحابہ کی قربانیوں کا خاکہ پیش کرتی ہے اور "جواب شکوہ" سے اسوۂ صحابہؓ پر عمل کی ترغیب ملتی ہے تو بے جا نہ ہوگا۔ بطور دلیل 'شکوہ' کے صرف تین بند پیش کیے جاتے ہیں۔ دین اسلام کے فروغ، کلمۂ حق کی سربلندی کے لیے صحابہ نے کیا کیا؟ ملاحظہ فرمائیں:

ہم سے پہلے تھا عجب تیرے جہاں کا منظر
کہیں مسجود تھے پتھر، کہیں معبود شجر
خوگر پیکر محسوس تھی انساں کی نظر
مانتا پھر کوئی ان دیکھے خدا کو کیونکر؟
تجھ کو معلوم ہے لیتا تھا کوئی نام تیرا؟
قوتِ بازوئے مسلم نے کیا کام تیرا؟​

کلمہ حق کی سربلندی کے لیے صحابہ کرام طاغوتی طاقتوں سے جس طرح ٹکرائے، اقبال نے ان واقعات کا ذکر بھی کیا ہے۔ اس سلسلے میں ایک واقعہ قلعہ خیبر کا ہے جو یہود کا خاص علاقہ تھا، اس کے علاوہ شہر قیصر یعنی قسطنطنیہ ہے جس پر حملوں کا آغاز سیدنا امیرمعاویہؓ کے دور میں ہوا اور جس کی فتح بالآخر سلطان محمد فاتح کے ہاتھوں ہوئی۔ اسی طرح ایران جس کی فتح سیدنا عمر فاروقؓ کے دور میں ہوئی، صحابہؓ کی شجاعت واولوالعزمی کی چند مثالیں ہیں۔ اب "شکوہ" کا یہ بند ملاحظہ فرمائیں:

تو ہی کہہ دے کہ اکھاڑا درِ خیبر کس نے
شہر قیصر کا جو تھا اس کو کیا سر کس نے؟
توڑے مخلوق خداوندوں کے پیکر کس نے؟
کاٹ کر رکھ دیے کفار کے لشکر کس نے؟
کس نے ٹھنڈا کیا آتش کدۂ ایراں کو؟
کس نے پھر زندہ کیا تذکرہ یزداں کو؟​

ایک اور بند میں صحابہؓ کے اللہ اور اس کے رسولe سے عشق کا بیان کیا ہے۔ فارس کے سلمان فارسیؓ، قرن کے اویس قرنیؓ (جو قول معتبر کے مطابق صحابی نہیں بلکہ تابعی تھے) اور حبشہ کے سیدنا بلال حبشیؓ جنہوں نے اللہ اور رسول پاکؐ کی محبت کو اس کے ماسوا پر غالب کر دیا تھا، ان کا ذکر سنیے:

تجھ کو چھوڑا کہ رسول عربیؐ کو چھوڑا؟
بت گری پیشہ کیا؟ بت شکنی کو چھوڑا؟
عشق کو عشق کی آشفتہ سری کو چھوڑا؟
رسم سلمان و اویسِ قرنی کو چھوڑا؟
آگ تکبیر کی سینوں میں دبی رکھتے ہیں
زندگی مثل بلالِ حبشیؓ رکھتے ہیں​

"شکوہ" کے یہ اشعار شاعر کو ان اسباب و وجوہ کا عرفان عطا کرتے ہیں جو امت کے فکر و عمل کے زوال کا باعث بنے۔ "جواب شکوہ" کا بنظر غائر مطالعہ اسوۂ صحابہ کو اپنانے کی ترغیب دیتا ہے۔ چنانچہ ایک بند میں اس بات پر عار دلائی گئی ہے کہ دور حاضر کا مسلمان فلسفۂ ضرورت کی بھینٹ چڑھ گیا ہے۔ رسول اللہ(e) جن حیات بخش و تمدن آفریں اصول و ضوابط کے ساتھ بھیجے گئے تھے، ان کو چھوڑ کر غیروں کے عادات و اطوار کو اپنانے پر فخر سمجھا جانے لگا ہے۔ صحابہ کے طرز حیات سے اظہارِ بیزاری عام ہے اور رائج الوقت رسوم و رواج پر چلنا باعث امتیاز سمجھ لیا گیا ہے۔

کون ہے تارکِ آئینِ رسولؐ مختار؟
مصلحت وقت کی ہے کس کے عمل کا معیار؟
کس کی آنکھوں میں سمایا ہے شعارِ اغیار؟
ہو گئی کس کی نگہ طرزِ سلف سے بیزار؟
قلب میں سوز نہیں، روح میں احساس نہیں
کچھ بھی پیغام محمدؐ کا تمہیں پاس نہیں​

اقبال مسلمان کو اس بات کی ترغیب دیتے ہیں کہ وہ اپنی باطنی کیفیات کو منہاجِ صحابہؓ پر لانے کیلئے محنت کریں۔ قوم میں وعظ و نصیحت، ذکر و فکر اور اذان جیسے مبارک اعمال اگرچہ باقی ہیں، مگر بے روح۔ یہی وجہ ہے کہ رحمتِ الٰہی متوجہ نہیں ہوتی۔ ہمیں باطن میں بھی عشق و محبت، یقین اور اخلاص کی وہ شمع جلانی پڑے گی جو صحابہ کے قلب کو منور کیے ہوئی تھی، اس کے بغیر حالات کا درست ہونا ممکن نہیں۔

واعظِ قوم کی وہ پختہ خیالی نہ رہی
برق طبعی نہ رہی، شعلہ مقالی نہ رہی
رہ گئی رسم اذاں روح بلالی نہ رہی
فلسفہ رہ گیا، تلقین غزالی نہ رہی
مسجدیں مرثیہ خواں ہیں کہ نمازی نہ رہے
یعنی وہ صحابِ اوصاف حجازی نہ رہے​
 
شمولیت
دسمبر 09، 2013
پیغامات
68
ری ایکشن اسکور
15
پوائنٹ
37
صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی سیرت مقدسہ کا ایک درخشاں پہلو ایثار ہے۔ ویؤثرون علٰی انفسھم ولو کان بھم خصاصۃ۔ اپنی جان پر سختی برداشت کر کے دوسروں کی ضروریات پوری کرنا صحابہ کا وصفِ خاص ہے۔ فقرِ حیدریؓ کی شان ہو یا دولت عثمانیؓ کی آن، جو کچھ تھا اسلام اور مسلمانوں کے لیے وقف۔ نہ اس میں بھوک حائل تھی، نہ پیاس، نہ سردی نہ گرمی، نہ خوشی نہ غم۔
راہِ خدا میں سب کچھ خرچ کر کے بھی ان کے دل خیر میں سبقت کے لیے بے تاب رہتے تھے۔ اب ان صفات عالیہ کو اپنانے کی ترغیب اقبال نے جس طرح دی ہے، وہ دیکھئے:

ہر کوئی مست مئے ذوقِ تن آسانی ہے
تم مسلماں ہو؟ یہ اندازِ مسلمانی ہے
حیدری فقر ہے، نہ دولتِ عثمانی ہے
تم کو اسلاف سے کیا نسبتِ روحانی ہے
وہ زمانے میں معزز تھے مسلماں ہو کر
اور تم خوار ہوئے تارکِ قرآن ہو کر​

ابھی تک ہم نے کلام اقبال میں ذکر صحابہؓ پر عمومی نظر ڈالی ہے، اب ہم ان صحابہؓ کرام کا الگ الگ ذکر کریں گے، جن کے ذریعے سے اقبال نے اپنا پیغام سمجھانا چاہا ہے۔

سیدنا صدیق اکبرؓ... آں کلیم اولِ سینائے ما​

اقبال مرحوم نے اپنے کلام میں متعدد جگہ صدیق اکبرؓ کا تذکرہ کیا ہے اور آپ کے ذریعے سے دل مسلم کو تحریک بخشی ہے۔ اقبال آپ کو اسلام کے نورہدایت کا کلیم اول کہتے ہیں:

آں امن الناس بر مولائے ما
آں کلیم اول سینائے ما
ہمتِ اوکشتِ ملت را چو ابر
ثانی اسلام و غار و بدر و قبر
(در تفسیر سورہ اخلاص/ رموز)​

(ان کے احسانات ہمارے آقاؐ پر سب لوگوں سے زیادہ تھے۔ وہ جو ہمارے طور سینا (نوراسلام) کے پہلے کلیم تھے۔ ان کی ہمت نے ملت کی کھیتی کے لیے ابر کا کام کیا۔ وہ جو اسلام، غارِثور، میدان بدر اور قبر میں بھی حضورؐ کے ساتھ ہیں۔)

اقبال نے متعدد جگہوں پر حضرت صدیق اکبرؓ کے رسول پاکؐ کے ساتھ والہانہ عشق کا تذکرہ کیا ہے۔ عشق مصطفی کے جذبے نے آپ کے لیے بڑی بڑی قربانیوں کو آسان کر دیا تھا۔ چنانچہ بانگِ درا کی نظم "صدیقؓ " وفا کا ایک لطیف درس ہے۔ غزوۂ تبوک کے موقع پر رسول پاکؐ نے جنگ کی تیاری کے لیے مسلمانوں کو عطیات دینے کی ترغیب دی۔ سیدنا عمرؓ اپنا آدھا مال اس اُمید کے ساتھ لے آئے کہ آج تو وہ سیدنا ابوبکر صدیقؓ سے آگے بڑھ جائیں گے لیکن حضرت صدیق اکبرؓ اپنا سارا ہی مال اٹھا لائے۔

اتنے میں وہ رفیقِ نبوت بھی آگیا
جس سے بنائے عشق و محبت ہے استوار
لے آیا اپنے ساتھ وہ مردِ وفا سرشت
ہر چیز جس سے چشم جہاں میں ہو اعتبار
مِلکِ یمین و درہم و دینار و رخت و جنس
اسپ قمر سم و شتر و قاطر و حمار
بولے حضورؐ چاہیے فکر عیال بھی
کہنے لگا وہ عشق و محبت کا راز دار
اے تجھ سے دیدہ مہ و انجم فروغ گیر
اے تیری ذات باعثِ تکوینِ روزگار
پروانے کو چراغ ہے بلبل کو پھول بس
صدیق کے لیے ہے خدا کا رسولؐ بس​

کلام اقبال میں سوزِ صدیقؓ کا ذکر بھی ملتا ہے۔ اللہ کے پاک نام کی سربلندی، رسول کریمؐ کی حمایت و نصرت اور مقصد کی لگن "سوزِ صدیقی" کے وہ عناصر ہیں جو خودی کی تعمیر میں بنیادی کردار ادا کرتے ہیں۔ چنانچہ جہاں اقبال سوزِ دروں کی دعا مانگتے ہیں تو خود ہی بطورِ مثال سوزِ صدیقیؓ کا ذکر کرتے ہیں:

تڑپنے پھڑکنے کی توفیق دے
دل مرتضیٰؓ سوزِ صدیقؓ دے
جگر سے وہی تیر پھر پار کر
تمنا کو سینوں میں بیدار کر
(ساقی نامہ/ بال جبریل)​

"پیام مشرق" میں اقبال امیر امان اللہ خان کو اس بات کی تاکید کرتے ہیں کہ وہ حق تعالیٰ سے حضرات صدیقؓ و علیؓ کا سوز مانگیں تا کہ ملت کو ایک بار پھر صراط مستقیم پر گامزن کیا جاسکے:

سوزِ صدیق و علی از حق طلب
ذرۂ عشق نبیؐ از حق طلب
(حق تعالیٰ سے حضرات صدیق و علی کا سوز اور عشق نبی کا ذرہ مانگ)​

ایک اور جگہ امیر مذکور کو تلقین کرتے ہیں کہ وہ حضرات شیخین کے اصولوں کو رواج دیں اور ایک بار پھر گلستان ملت کے مرجھائے ہوئے پھولوں کو رعنائی بخشیں۔

تازہ کن آئین صدیقؓ و عمرؓ
چوں صبا برلالۂ صحرا گزر
(پیام مشرق)​

(حضرات صدیق و عمرؓ کے آئین کو تازہ کر اور صحرا میں کھلے ہوئے پھول سے صبا کی مانند گزرجا)
 
شمولیت
دسمبر 09، 2013
پیغامات
68
ری ایکشن اسکور
15
پوائنٹ
37
حضرت صدیقؓ کی سیرت کا ایک اور پہلو ملاحظہ فرمائیں:

اے کہ درِ زندان غم باشی اسیر
از نبیؐ تعلیم لاتحزن بگیر
ایں سبق صدیق را صدیق کرد
سرخوش از پیمانۂ تحقیق کرد
از رضا مسلم مثال کوکب است
ذرۂ ہستی تبسم برلب است​

(اے وہ شخص جو غم کے قید خانے میں اسیر ہے، جناب رسول پاکؐ کے ارشاد لاتحزن (غم نہ کھا) سے سبق حاصل کر۔ اس سبق نے صدیقؓ کو صدیق کر دیا اور وہ حق الیقین کی مے سے سرمست ہوگئے۔ اللہ کی رضا پر راضی رہنے سے مسلمان ستارے کی مانند ہو جاتا ہے اور راہِ زندگی میں ہمیشہ متبسم رہتا ہے)

رموزِ بے خودی ہی میں اقبالؒ نے سورۂ اخلاص کی تفسیر کے باب میں عالم خواب سے حضرت ابوبکرؓ کے افادات کو نقل کیا ہے:

گفت تا کے در ہوس گردی اسیر
آب و تاب از سورۂ اخلاص گیر
اینکہ در صد سینہ پیچید یک نفس
سرے از اسرارِ توحید است و بس
رنگ او برکن مثالِ او شوی
در جہاں عکسِ جمالِ او شوی
آنکہ نامِ تو مسلماں کردہ است
از دوئی سوئے یکی آوردہ است
خویشتن را ترک و افغاں خواندۂ
وائے بر تو آنچہ بودی، ماندۂ
وارہاں نامیدہ را از نامہا
ساز باخم در گزر از جامہا
اے کہ تو رسوائے نام افتادۂ
از درختِ خویش خام افتادۂ
بایکی ساز، از دوئی بردار رخت
وحدتِ خود را مگر داں لخت لخت
(خلاصۂ مطالب مثنوی/ رموزِ بے خودی)​

انہوں (حضرت صدیقؓ) نے فرمایا کہ تو کب تک ہوس کا قیدی رہے گا۔ سورۂ اخلاص سے حرارت اور چمک حاصل کر، یہ توحید کے اسرار کا ایک سر ہے جو سینکڑوں سینوں میں ایک ہی سانس کی طرح آتا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا رنگ اپنا، اسی کی مانند ہو کر تو اس کے جمال کا عکس بن جائے گا۔ یہ جو اس نے تیرا نام مسلمان رکھا ہے اس سے تجھے کثرت سے وحدت کی جانب لایا گیا ہے۔ تو اپنے آپ کو ترک و افغان کہتا ہے، افسوس ہے تجھ پر تو جو تھا وہی رہا۔

امتِ مسلمہ کو ان ناموں سے چھٹکارا دلا۔ خم (اسلام) سے اپنی نسبت قائم رکھ، پیالوں پر نہ جا۔ تو جو ان ناموں میں پڑ کر رسوا ہو چکا ہے، تو درخت اسلام سے کچے پھل کی طرح گر چکا ہے۔ توحید کو اپنا اور دورنگی کو خیر باد کہہ۔ اپنی وحدت کے ٹکڑے ٹکڑے نہ کر۔

کہا اقبال نے شیخ حرم سے
تہ محراب مسجد سو گیا کون
ندا مسجد کی دیواروں سے آئی
فرنگی بت کدے میں کھو گیا کون؟​

بشکریہ
 
Top