- شمولیت
- دسمبر 09، 2013
- پیغامات
- 68
- ری ایکشن اسکور
- 15
- پوائنٹ
- 37
ذکر صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین ...... کلام اقبال میں
تحریر: جناب فہد نواز
لفظ اسلاف، اقبال کے کلام میں
اقبال کی شاعری خلف کو سلف سے قریب کرتی ہے۔ ان معنوں میں کہ اقبال امت مسلمہ کی عظمت رفتہ کے متجسس و شائق تھے۔ کلام اقبال کا قاری، اقبال کے ساتھ کبھی عرب کے صحرا نشینوں کو اسلام کی عظمت کے جھنڈے لہراتے ہوئے دیکھتا ہے، کبھی یرموک کے میدان میں ایک جوان کو شوق شہادت سے بے قرار پاتا ہے، کبھی طارق بن زیاد کو رب ذوالجلال سے مناجات کرتے سنتا ہے، کبھی عبدالرحمن اول کو اندلس میں کھجور کا پودا لگا کر اپنے تاثرات بیان کرتے دیکھتا ہے، کبھی ترکانِ عثمانی کی سطوتوں کا نقشہ آنکھوں کے سامنے آتا ہے اور کبھی جمال الدین افغانی اور سعید حلیم پاشا حالت نماز میں دکھائی دیتے ہیں۔ الغرض اقبال کی شاعری آتشِ رفتہ کا سراغ ہے۔ خود کہتے ہیں:
میں کہ میری غزل میں ہے آتشِ رفتہ کا سراغ
میری تمام سرگزشت کھوئے ہوئوں کی جستجو
کلام اقبال میں اسلاف کا لفظ کئی جگہ استعمال ہوا ہے۔ بلاشک و شبہ اسلاف سے مراد ملت کے وہ زعماء ہیں جنہوں نے مختلف جہات سے اس کی تعمیر و ترقی میں حصہ لیا ہے۔ تاہم بہت سے اشعار میں اسلاف کا لفظ خالص صحابہ کرامؓ ہی کے لیے استعمال کیا گیا ہے۔"خطاب بہ جوانانِ اسلام" (بانگ درا) میں نوجوان مسلم کو خطاب کرتے ہوئے اقبال دعوت فکر دیتے ہیں کہ وہ اپنی اصل کو پہچانے۔ ایک لمحے کے لیے وہ اس کے سامنے عرب کے صحرا نشینوں کا نقشۂ زندگی کھینچ دیتے ہیں جنہوں نے اپنے فقر کے ساتھ پوری دنیا کو اللہ کے سامنے جھکا دیا تھا۔ عرب کے ان صحرا نشینوں نے، جن کا اول بلاشبہ طبقہ صحابہ تھا، دنیا کو ایک نیا حیات آفرین تمدن دیا۔ لیکن نوجوان مسلم اپنی اصل سے اتنا دور جا چکا ہے کہ اس کے تخیل میں بھی اسلاف کی شانِ جلال و جمال نہیں آ سکتی۔ وہ کہتے ہیں کہ ہم نے اسلاف سے جو دولت فکر و نظر پائی تھی، اس کی ناقدری کی، توہم پستیوں میں گر گئے۔
گنوادی ہم نے جو اسلاف سے میراث پائی تھی
ثریا سے زمین پر آسمان نے ہم کو دے مارا
(خطاب بہ جوانان اسلام، بانگ درا)
گویا اقبال اسلاف کا تذکرہ کر کے اتباع صحابہؓ پر زور دیتے ہیں۔ حقیقت بھی یہی ہے کہ ان نفوس قدسیہ (رضوان اللہ علیہم اجمعین) کی زندگیاں ہر شک و شبہ سے بالا اور لائق پیروی ہیں۔ یہی وہ ہستیاں تھیں جنہوں نے اپنے گفتار و کردار، معاملات و عبادات اور دعوت و جہاد سے اسلام کا سکہ ساری دنیا میں بٹھا دیا۔ صحابہؓ ہی وہ مبارک ہستیاں تھیں جو نجومِ ہدایت قرار پائیں اور ہر دور میں رسول اللہ(ﷺ) اور امت کے درمیان تعلق جوڑنے کا ذریعہ بنی ہوئی ہیں۔ اس بات کے ثبوت میں کہ اقبال نے اسلاف کا لفظ استعمال کر کے طرز صحابہؓ اپنانے پر زور دیا ہے، جواب شکوہ کا مندرجہ ذیل بند ملاحظہ فرمائیے:
ہر کوئی مست مئے ذوقِ تن آسانی ہے
تم مسلماں ہو؟ یہ انداز مسلمانی ہے؟
حیدریؓ فقر ہے، نہ دولت عثمانیؓ ہے
تم کو اسلاف سے کیا نسبت روحانی ہے؟
وہ زمانے میں معزز تھے مسلماں ہو کر
اور تم خوار ہوئے تارکِ قرآں ہو کر
اقبال کے نزدیک ملت اسلامیہ کی عظمت رفتہ کی بازیابی اور اتحاد و یگانگت کا حصول انہی پاکباز اسلاف کے اتباع سے ممکن ہے۔
تاخلافت کی بنا دنیا میں ہو پھر استوار
لا کہیں سے ڈھونڈ کر اسلاف کا قلب و جگر
(خضر راہ، بانگ درا)