محمد عامر یونس
خاص رکن
- شمولیت
- اگست 11، 2013
- پیغامات
- 17,117
- ری ایکشن اسکور
- 6,786
- پوائنٹ
- 1,069
رات کو قیام کرنے والا !
Last edited:
'' رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ: (( ثَـلَاثَۃٌ یُّحِبُّھُمُ اللّٰہُ: وَثَـلَاثَۃٌ یَشْنُوْھُمُ اللّٰہُ، اَلرَّجُلُ یَلْقَی الْعَدُوَّ فِيْ فِئَۃٍ فَیَنْصُبُ لَھُمْ نَحْرَہ حَتّٰی یُقْتَلَ أَوْ یُفْتَحَ لِأَصْحَابِہِ؛ وَالْقَوْمُ یُسَافِرُوْنَ فَیَطُوْلُ سُرَاھُمْ حَتّٰی یُحِبُّوْا أَنْ یَمَسُّوْا الْأَرْضَ فَیَنْزِلُوْنَ؛ فَیَتَنَحّٰی أَحَدُھُمْ فَیُصَلِّيْ حَتّٰی یُوْقِظَھُمْ لِرَحِیْلِھِمْ وَالرَّجُلُ یَکُوْنُ لَہ الْجَارُ یُؤْذِیْہِ جَارَہُ فَیَصْبِرُ عَلیٰ أَذَاہُ حَتَّی یُفَرِّقُ بَیْنَھُمَا مَوْتٌ أَوْ طَعْنٌ وَالَّذِیْنََ یَشْنُوْھُمُ اللّٰہُ اَلتَّاجِرُ الْحَلاَّفُ، وَالْفَصَبْرُ الْمُخْتَالُ، وَالْبَخِیْلُ الْمَنَّانُ۔ ))
صحیح الجامع الصغیر، رقم: ۳۰۷۴۔(دوسرا) مسافر کہ قوم رات کو دیر تک چلتے رہے حتیٰ کہ انہوں نے زمین پر نیند کے لیے گرنا پسند کیا تو پڑاؤ ڈال دیتے ہیں ان میں سے ایک الگ ہوکر نماز شروع کردیتا ہے حتیٰ کہ دوسرے لوگوں کو کوچ کے لیے بیدار کرتا ہے (تیسرا) وہ آدمی کہ اس کا پڑوسی اسے ایذا پہنچاتا ہو مگر یہ صبر کرتا ہے حتیٰ کہ موت یا نیزہ زنی (مراد شہادت) ان دونوں کے درمیان جدائی ڈال دے۔ ''لوگوں کے ساتھ آدمی رات کو سفر کر رہا ہے، ساتھیوں نے آرام اور نیند کی خاطر پڑاؤ ڈالا لیکن یہ آرام اور سونے کی بجائے اللہ کے حضور کھڑا ہوگیا اور تمام رات سجدے اور قیام کرتے ہی گزار دی حتیٰ کہ صبح ہوئی اور اپنے ہم سفروں کو کوچ کے لیے بیدار کردیتا ہے۔ رات کو سونے کی بجائے قیام اس لیے کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:
{قُمِ اللَّیْلَ اِلاَّ قَلِیْلًا o} [المزمل:۲]
'' رات کو قیام کر مگر تھوڑی رات! ''
صحیح الجامع الصغیر، رقم: ۳۰۷۴
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی فرمایا ہے:
جو لوگ اس بات پر ہمیشگی کرتے ہیں اللہ تعالیٰ نے ان کی تعریف حسب ذیل الفاظ میں فرمائی ہے:وَصَلُّوْا بِاللَّیْلِ وَالنَّاسُ نِیَامٌ، تَدْخُلُوْا الْجَنَّۃَ بِسَلَامٍ۔
'' رات کو نماز پڑھو، اس حال میں کہ لوگ سو رہے ہوں (تو اس کے بدلے) تم سلامتی کے ساتھ جنت میں چلے جاؤ گے۔ ''
صحیح سنن ابن ماجۃ، رقم: ۲۶۳۰۔
{إِِنَّ الْمُتَّقِیْنَ فِیْ جَنّٰتٍ وَّعُیُوْنٍ o ئَآخِذِیْنَ مَا ئَآتَاہُمْ رَبُّہُمْ إِِنَّہُمْ کَانُوْا قَبْلَ ذٰلِکَ مُحْسِنِیْنَ o کَانُوْا قَلِیْلًا مِنَ اللَّیْلِ مَا یَہْجَعُوْنَ o وَبِالْأَسْحَارِ ہُمْ یَسْتَغْفِرُوْنَ o}[الذاریات: ۱۵ تا ۱۸]
'' بے شک تقویٰ والے لوگ بہشتو ں اور چشموں میں ہوں گے، ان کے رب نے جو انہیں عطا فرمایا، اسے لے رہے ہوں گے، وہ تو اس سے پہلے (دنیا میں) نیکو کار تھے، وہ رات کو بہت کم سویا کرتے تھے اور سحری کے وقت استغفار کیا کرتے تھے۔ ''
یعنی ایسے لوگ نیند اور بستروں کو چھوڑ چھاڑ کر رب کے سامنے دعا و استغفار کرنے اور نماز پڑھنے میں مشغول ہوجاتے ہیں۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اپنے ایسے بندوں کے لیے وہ اشیاء تیار کی ہیں:نیز فرمایا:
{تَتَجَافٰی جُنُوْبُھُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ یَدْعُوْنَ رَبَّھُمْ خَوْفًا وَّطَمَعًا o} [السجدہ: ۱۶]
'' ان کے پہلو بستروں سے الگ رہتے ہیں، وہ اپنے رب کو خوف اور امید کے ساتھ پکارتے ہیں۔ ''
یعنی کسی انسان کو علم ہی نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے جنتوں میں کیسی کیسی عمدہ نعمتیں اور لذتیں چھپا رکھی ہیں۔قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم :
((قَالَ اللّٰہُ: (( أَْعَدَدْتُّ لِعِبَادِیَ الصَّالِحِیْنَ مَا لَا عَیْنٌ رَأَتْ، وَلَا أُذُنٌ سَمِعَتْ، وَلَا خَطَرَ عَلیٰ قَلْبِ بَشَرٍ فَاقْرَؤُا إِنْ شِئْتُمْ : {فَـلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَا أُخْفِيَ لَھُمْ مِّنْ قُرَّۃِ أَعْیُنٍ}۔ ))1
'' جو کسی آنکھ نے نہیں دیکھیں اور نہ ہی کسی کان نے سنیں اور نہ ہی کسی آدمی کے دل پر کھٹکیں۔ ''
ان تمام دلائل سے معلوم ہوا کہ رات کا قیام بہت عظیم اور اللہ تعالیٰ کا بہت پسندیدہ عمل ہے۔ چنانچہ مومن کو اس کا اہتمام کرنا چاہیے کیونکہ رات کو تہجد پڑھنے والا اور نہ پڑھنے والا یا دن اور رات میں بھی نماز کا تارک، برابر نہیں۔{فَـلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَّآ أُخْفِیَ لَھُمْ مِّنْ قُرَّۃِ أَعْیُنٍ جَزَآئً بِمَا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ o}[السجدہ:۱۷]
'' کوئی نفس نہیں جانتا جو کچھ ہم نے ان کی آنکھوں کی ٹھنڈک کے لیے چھپا کر رکھا ہے، جو کچھ وہ کرتے تھے یہ اس کا بدلہ ہے۔ ''
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــچنانچہ اللہ تعالیٰ نے ان کی برابری کی نفی ان الفاظ میں فرمائی:
{أَمَّنْ ہُوَ قَانِتٌ آنَائَ اللَّیْلِ سَاجِدًا وَّقَائِمًا یَحْذَرُ الْآخِرَۃَ وَیَرْجُوا رَحْمَۃَ رَبِّہِ ط قُلْ ہَلْ یَسْتَوِی الَّذِیْنَ یَعْلَمُوْنَ وَالَّذِیْنَ لَا یَعْلَمُوْنَ اِِنَّمَا یَتَذَکَّرُ اُوْلُوا الْأَلْبَابِ o}[الزمر: ۹]
'' بھلا جو شخص راتوں کے اوقات سجدے اور قیام کی حالت میں عبادت میں گزارتا ہو، آخرت سے ڈرتا ہو اور اپنے رب کی رحمت کی امید رکھتا ہو، بتلاؤ تو علم والے اور بے علم کیا برابر کے ہیں؟ یقینا نصیحت وہی حاصل کرتے ہیں جو عقل مند ہوں۔ ''
اللہ سبحانہ وتعالی نے اہل ایمان اوراہل تقوی کوبہت اچھی خصلتوں اوراعمال جلیلہ کرنے پر مدح وتعریف کی ہے :اللہ سبحانہ وتعالی کافرمان ہے :
{ اے کپڑے میں لپٹنے والے ، رات کے وقت نمازمیں کھڑے ہوجاؤ مگر کم ، آدھی رات یا اس سے بھی کم کرلے ، یا اس سے بڑھادے اورقرآن ٹھر ٹھر کر صاف پڑھا کر ، یقینا ہم تجھ پر عنقریب بہت بھاری بات نازل کریں گے، بیشک رات کا اٹھنا دل جمعی کے لیے انتہائي مناسب ہے ، اوربات کوبہت درست کردینے والا ہے } المزمل ( 1 - 6 ) ۔
اورایک مقام پر ان کے اوصاف کچھ اس طرح بیان کیے :اللہ سبحانہ وتعالی کا فرمان ہے :
{ ہماري آيتوں پرتووہی ایمان لاتے ہیں جنہیں جب کبھی بھی نصیحت کی جاتی ہے تو وہ سجدے میں گرپڑتے ہیں اوراپنے رب کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح کرتے ہیں اورتکبر نہیں کرتے ۔
ان کی کروٹیں اپنے بستروں سے الگ تھلگ رہتی ہیں ، اپنے رب کو خوف اورامید کےساتھ پکارتے ہیں ، اورجوکچھ ہم نے انہیں دے رکھا ہے وہ خرچ کرتے ہیں ، کوئي نفس نہیں جانتا کہ جوکچھ ہم نے ان کی آنکھوں کی ٹھنڈک انکے لیے پوشیدہ کررکھی ہے ، جوکچھ وہ کرتے رہے ہیں اس کا یہ بدلہ ہے } السجدۃ ( 15 - 17 ) ۔
فرمان باری تعالی ہے :
{ اورجو اپنے رب کے سامنے سجدے اورقیام کرتے ہوئے راتیں بسر کرتے ہيں ، اورجو یہ دعا کرتے ہیں کہ اے ہمارے پروردگار ! ہم سے دوزخ کا عذاب پرے ہی پرے رکھ ، کیونکہ اس کا عذاب چمٹ جانے والا ہے ، بلاشبہ وہ ٹھرنے اوررہنے کے لحاظ سےبد ترین جگہ ہے } ۔
ان آیات میں قیام اللیل کی فضيلت کی تنبیہ پائي جاتی ہے اوراس کا اجروثواب بھی جومخفی نہيں ، اورپھر یہ عذاب جہنم سے دوری اور جنت میں داخلے اورکامیابی کا سبب بھی ہے اوراسی بنا پرجنت میں پائي جانی والی ہیشہ ہمیشہ کےلیے نعمتوں کا حصول بھی ہوتا ہے ۔اورچند آيات آگے چل کر یہ فرمایا :
{ یہی وہ لوگ ہیں جنہیں ان کے صبر کے بدلے جنت کے بلند وبالاخانے دیے جائيں گے جہاں انہیں دعا وسلام پہنچایا جائے گا ، اس میں یہ ہمیشہ رہیں گے وہ رہنے کےلیے بہت ہی اچھی جگہ اورمقام ہے } الفرقان ( 64 - 75 ) ۔
اورنبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی بہت سی احادیث میں قیام اللیل پر ابھارا اوراس کی ترغیب دلائي ہے جن میں سے چند ایک ذیل میں ذکر کی جاتی ہیں :فرمان باری تعالی ہے :
{ بلاشبہ متقی لوگ بہشتوں اورچشموں میں ہوں گے ، ان کے رب نے انہيں جوکچھ عطا فرمایا ہے اسے حاصل کررہے ہونگے وہ تو اس سے پہلے ہی نیکوکار تھے ، اوروہ رات کوبہت ہی کم سویا کرتے تھے ، اورسحری کے وقت استغفار کیا کرتے تھے } الذاریات ( 15 - 18 ) ۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :
( فرض نماز کے بعد سب سے افضل رات کی نماز ہے ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 1163 ) ۔
قولہ : ( فانہ داب الصالحین ) یعنی ان کی عادت اورحالت ۔اورایک حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ اس طرح فرمایا :
( تم رات کا قیام ضرور کیا کرو ، اس لیے کہ تم سے پہلے صالح لوگوں کی یہی عادت تھی ، اوریہ تمہارے رب کے قرب کا باعث بھی ہے ، اور گناہوں ومعاصی کوختم کرنے والا ہے ، اورگناہوں سے منع کرنے والا ہے )
سنن ترمذی حدیث نمبر ( 3549 ) علامہ البانی رحمہ اللہ تعالی نے ارواء الغلیل ( 452 ) میں اسے حسن قرار دیا ہے ۔
اورعمرو بن مرۃ الجھنی رضي اللہ تعالی عنہ سےروایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس قضاعۃ قبیلے کا ایک شخص آيا اورکہنے لگا :اللہ تعالی کا فرمان ہے :
{ یقینا نماز برائي اور بے حیائي کے کاموں سے روکتی ہے } ۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرمانے لگے :
جوشخص بھی ایسے اعمال کرتا ہوافوت ہوجائے وہ صدیقین اورشھداء کے ساتھ ہوگا )
صحیح ابن خزيمۃ ، علامہ البانی رحمہ اللہ تعالی نے صحیح ابن خزيمہ ( 2212 ) میں اسے صحیح قرار دیا ہے ۔
امام ترمذی رحمہ اللہ تعالی نے علی بن ابی طالب رضي اللہ تعالی عنہ سے بیان کیا ہے کہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
( یقینا جنت میں کچھ ایسے بالاخانے بھی ہيں جن کے اندر سے ان کا باہر والا حصہ دیکھا جاسکتا ہے ، اوران کے باہرسے اندر والا دیکھا جاتا ہے ، توایک اعرابی شخص کھڑا ہوکر کہنے لگا اے اللہ تعالی کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم یہ بالا خانے کس کے لیے ہیں ؟
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جس نے بھی اچھی اوربہترکلام کی ، اورکھانا کھلایا ، اور روزوں پر ہمیشگي کی ، اور رات کو جب سب لوگ سو رہے ہوں تواس نے نماز ادا کی )
سنن ترمذی حدیث نمبر ( 1984 ) علامہ البانی رحمہ اللہ تعالی نے صحیح ترمذی میں اسے حسن قرار دیا ہے ۔
امام حاکم رحمہ اللہ تعالی نے روایت بیان کی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
( میرے پاس جبریل علیہ السلام آئے اورکہنے لگے : اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم آپ جتنا مرضی زندہ رہ لیں بالآخر آپ کوموت نے آگھیرنا ہے ، اورجس سے چاہیں محبت کرلیں یقینابالآخر آپ اس سے جدا ہوجائيں گے ، اورجو چاہیں عمل کرلیں آپ کو اس کا بدلہ دیا جائے گا ، اورآپ آپنے علم میں رکھیں کہ مومن کا شرف مرتبہ اس کے قیام اللیل میں ہے اوراس کی عزت لوگوں سے استغناء اوربے پرواہی ہے )
علامہ البانی رحمہ اللہ تعالی نے صحیح الجامع ( 73 ) میں اسے حسن قرار دیا ہے ۔
مقنطرین وہ لوگ ہیں جنہیں اجروثواب کاقنطار دیا جائے گا، اورقنطار سونے کی ایک مقدار کوکہتے ہیں ، اوراکثر اہل علم کا کہنا ہےکہ یہ چارہزار دینار ہیں ۔اورایک حديث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان کچھ اس طرح ہے :
( جوشخص بھی دس آيات کے ساتھ قیام کرے وہ غافل لوگوں میں نہیں لکھا جائے گا ، اورجس نے ایک سوآیات پڑھ کرقیام کیا وہ قانتین میں لکھا جائے گا ، اورجس نے ایک ہزار آيات پڑھ کر قیام کیا اسے مقنطرین میں لکھا جائے گا ) ۔
سنن ابوداود حدیث نمبر ( 1398 ) علامہ البانی رحمہ اللہ تعالی نے صحیح ابوداود میں اسے صحیح قرار دیا ہے ۔
فائدہ :امام طبرانی رحمہ اللہ تعالی نے روایت بیان کی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
( قنطار دنیا اوراس میں پائي جانے والی اشیاء سے بہتر ہے )
علامہ البانی رحمہ اللہ تعالی نے صحیح الترغیب ( 638 ) میں اسے حسن قرار دیا ہے ۔