• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

راوی ہشام بن عروہ رحمہ اللہ پر منکرین حدیت کے حملے

رانا اویس سلفی

مشہور رکن
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
387
ری ایکشن اسکور
1,609
پوائنٹ
109
ہشام بن عروہ پرمؤلف کی تنقید کا جواب:مؤلف کتاب ’’آؤ ناموس رسالت کی حفاظت کریں‘‘نے صحیح بخاری کی زیر بحث مذکورہ روایت کے راوی ہشام بن عروہ اورمحدث کبیر پر کڑی تنقید کی ہے اوراس ضمن میں قرشی صاحب نے جو انداز بیان اختیار کیاہے وہ کسی بھی ذی علم شخص کے شایان شان نہیں ہے وہ لکھتے ہیں کہ:



{ ھشام بن عروہ کی زندگی کے دو دورہیں ایک عراق جانے سے قبل اوردوسرا عراق جانے کے بعدکا ہے ، ان کی عراق جانے سے قبل کی مروی احادیث مقبول ہیں اورعراق جانے کے بعدکی روایات فتنہ سبائیت کی سازش کانتیجہ ہیں}

اس کے علاوہ مؤلف نے یہ بھی دعویٰ کیاہے کہ:

{ بی بی عائشہ ؓ کی روایت کے سب راوی عراقی اورکوفی ہیں اورکوئی دوسرانہیں اورامام مالک ؒنے ہشام بن عروہ پرتنقید کی ہے اورکہاہے کہ ان کی عراقی احادیث مردود ہیں اور اہل مدینہ میں سے کوئی بھی راوی اس حدیث کوروایت نہیں کرتااورہشام پر تنقید والی بات حافظ ذہبیؒ نے بھی لکھی ہے ہم نے اپنی طرف سے نہیں کی وغیرہ}



درحقیقت محدثین کرام نے ہشام بن عروہ کے بارے میں یہ لکھاہے کہ آخری عمر میں ان کاحافظہ ٹھیک نہیں رہاتھالیکن حافظہ کی یہ خرابی اس درجہ نہیں تھی کہ وہ کسی روایت کے روایوں کوالٹ پلٹ دے یاکسی حدیث کو غلط بیان کردے یعنی ہشام اپنے حافظہ کی خرابی میں انتہاکونہیں پہنچے تھے اس ضمن میں حافظ ذہبی ؒ لکھتے ہیں کہ :

{ ھشام بن عروہ احد الاعلام حجۃ امام لکن فی الکبرتنا قص حفظہ ولم یختلط ابدا ولا عبرۃ بما قالہ ابوالحسن بن قطان من انہ وسھل بن ابی صالح اختلطا وتغیرا نعم الرجل تغیر قلیلا ولم یبق حفظہ کھو فی حال الشبیبۃ فنسی بعض محفوظہ او وھم فکان ماذا اھو معصوم عن نسیان }



یعنی’’ہشام بن عروہ چوٹی کے علماء و محدثین میں سے تھے اوراحادیث نبویہ میں وہ حجت و امام تھے، بڑھا پے میں ان کا حافظہ پہلے سے کم ہوگیاتھالیکن وہ مختلط نہیں ہوا کہ حدیثوںکوخلط ملط کردیتاہو،انکے بارے میں امام ابن القطان ؒ نے کہاکہ وہ مختلط ہوگئے تھے توان کی بات کاکوئی اعتبارنہیں ہے ہاں ان کے حافظے میں تبدیلی ضرور ہوئی تھی اوران کاحافظہ جوانی والانہیں رہا تھااس لئے بعض احادیث ان کوبھول گئیں تھیں اوربعض میں ان سے وہم بھی ہوااس سے کیاہوگیاکیاوہ غلطی سے معصوم تھے ‘‘جب وہ عراق گئے تو وہاں بعض احادیث جاکر بیان کیںان میں سے بعض کووہ اچھی طرح بیان نہیں کرسکے اس قسم کا حال تو بڑے ائمہ کو بھی پیش آجاتاہے جیساکہ امام مالکؒ ،امام شعبہ ؒ ،امام وکیعؒاور بعض دوسرے ائمہ جو اسکے باوجود ثقہ تسلیم کئے جاتے ہیں اس لئے حافظ ذہبی نے ہشام بن عروہ پر تنقید کرنے والے کو خطاب کرکے فرمایا:



{ فدع عنک الخبط و ذر خلط الائمہ الاثبات بالضعفاء والمخلطین فھشام شیخ الاسلام و کذا قول عبدالرحمٰن بن خراش کان مالک لا یرضاہ نقم حدیثہ لاہل العراق٭میزان الاعتدال ص۳۰۱ ج۴ }



یعنی ’’اپنی مخبوط الحواسی چھوڑ ائمہ اثبات و ثقات کوضعیف و مختلط روایوں کے ساتھ ملاناچھوڑدے کیونکہ ہشام شیخ الاسلام ہے اوراسی طرح ہشا م کے متعلق عبدالرحمن بن خراش کی جرح کابھی کوئی اعتبار نہیں جس میں اس نے کہاکہ امام مالک ؒ نے ہشام کی عراقی حدیثوںکو غیر مقبول کہاہے ‘‘یہ ہے اسماء الرجال کے امام حافظ ذہبی ؒ کا کلام ہشام بن عروہ کے بارے میںاس میں حافظ ذہبی ؒنے ہشام بن عروہ کو حجۃ الامام اورشیخ الاسلام کہاہے اور ہشام بن عروہ کے متعلق ابن قطان اورابن خراش نے تنقید کرتے ہوئے جوکچھ کہااسے بھی رد کردیاہے اوراسکو غیر مقبول جرح کہاہے اورہشام بن عروہ پر تنقیدکرنے والوں کو سخت تنبیہ کی ہے لیکن قرشی صاحب نے صرف حافظ ذہبی ؒ کے کلام کو غلط اندازہی میں پیش نہیں کیابلکہ صحیح بخاری کے روایوں کی ثقاہت پر بھی حملہ کیاہے قرشی صاحب فرماتے ہیں کہ :

{ صحیح بخاری کے راوی اگر بخاری کے نزدیک ثقہ ہیں تو وہ دوسرے محدثین کے نزدیک ثقہ نہیں}



ہمارے خیال میں یہ وہی مخبوط الحواسی ہے جس کے چھوڑنے کا مشورہ حافظ ذہبی نے دیاہے یقیناً یہ کلام کسی اہل علم کا نہیں ہوسکتاکیونکہ بخاری و مسلم کی صحت اوران کے درجہ کاقرآن کے بعد ہوناصرف ان کی اپنی رائے میں نہیں بلکہ یہ درجہ ان کو انکی وفات کے بعد ائمہ اسلام اورفقہاء کرام نے دیاہے اوران کتب کویہ درجہ ان کے رواۃ کے ثقاہت کے باعث ہی ملاہے یعنی بخاری ومسلم کی احادیث کے راوی قوت حفظ و اتقان و ثقاہت و مضبوطی عقل میں باقی تمام کتب احادیث کے رواۃ سے اعلیٰ درجہ رکھتے ہیں اس لئے قرشی صاحب کی بخاری کے راویوں پر تنقید محض ہوا میں تیر چلانے سے زیادہ کچھ نہیں ہے اوراپنی کم علمی کی وجہ سے ہشام پر جو جرح حافظ ذہبی ؒ کے حوالے سے نقل اسکی حیثیت کیاہے وہ بھی سامنے آگئی ہے اسی طرح مؤلف رسالہ نے ہشام بن عروہ پر برستے ہوئے مذید لکھاہے کہ :

{امام ابن حجر نے اپنی کتاب تہذیب میں یعقوب بن ابی شیبہ کابیان نقل کیاہے کہ ہشام کی عراقی روایات کو اہل مدینہ نے برا تصورکیاہے ،مدینہ میں رہتے ہوئے ہشام صرف وہی روایات بیان کرتے جوانھوں نے اپنے والد سے سنی تھیں لیکن عراق جانے کے بعد اپنے والدسے منسوب کرکے وہ روایات بھی مرسلاً بیان کرناشروع کردیںجو انھوں نے دوسروں سے سنی تھیں لہذا ہشام کی وہ روایات جو اہل عراق ان سے بیان کرتے ہیں ان کاکوئی بھروسہ نہیں ہے}



یہاں مؤلف رسالہ نے تہذیب کے حوالے سے جوکچھ لکھاہے اسکے آخری الفاظ’’ لہذا ہشام کی وہ روایات جو اہل عراق ان سے بیان کرتے ہیں ان کاکوئی بھروسہ نہیں ہے‘‘ابن حجر کے کلام تہذیب سے نہیں بلکہ مؤلف کا اپناکلام ہے جبکہ ابن حجرؒنے جوبات فرمائی ہے وہ بہت ہی عمدہ ہے کہ ہشام کی وہ روایا ت ناقابل اعتبار ہیں جو ہشام سے اہل کوفہ روایت کرتے ہیں یعنی ہشام سے روایت کرنے والااگرکوئی کوفی ہے تو ہشام نہیں بلکہ وہ کوفی روای ناقابل قبول ہوگالہذا مؤلف کی یہ حاشیہ آرائی کہ ’’ہشام کی وہ روایات جو اہل عراق ان سے بیان کرتے ہیں ان کاکوئی بھروسہ نہیں ہے‘‘لغو اورباطل ہے اوریہ حافظ ابن حجر ؒپر تہمت ہے کیونکہ انھوں نے ہشام کے بارے میں ہرگز ایسانہیں لکھاجیسا صاحب رسالہ باور کراناچاہتے ہیں بلکہ یہ جھوٹ اورتہمت مؤلف کی گردن پر ہے اسکے علاوہ مؤلف نے یہ بھی کہاہے کہ’’ہشام کی عراقی روایات کو اہل مدینہ نے برا تصورکیاہے‘‘اسکی اصل حقیقت کیاہے یہ بھی ہم قارئین کی خدمت میں پیش کئے دیتے ہیں چناچہ تہذیب میں یحیٰ بن سعید ؒ کاقول مذکورہے کہ:

{ میں نے امام مالک ؒکو خواب میں دیکھااورہشام کی روایات کے بارے میں دریافت کیا تو انھوں نے فرمایاکہ جب وہ ہمارے پاس مدینہ میں تھاتواسکی روایات وہی ہیں یعنی درست ہیں اورجب وہ عراق گیاتو اسکی روایات درست نہیں}



اس سے معلوم ہواکہ امام مالک ؒ کایہ قول انکی زندگی کا نہیں بلکہ وفات کے بعد کاہے جس میں یحییٰ بن سعید کو یہ بات امام مالک ؒنے خواب میں آکر کہی اورخواب خواہ کسی کابھی ہوایسے معاملات میں حجت یادلیل نہیں بن سکتامذید برآں مؤلف نے یعقوب بن ابی شیبہ ؒ کے حوالے سے جو ہشام بن عروہ پر جرح نقل کی ہے اس کاپوسٹ مارٹم بھی ہم یہاں ہی کیے دیتے ہیں،ابن حجرؒ نے تہذیب میں یعقوب بن ابی شیبہ ؒ کا یہ قول نقل کیاہے کہ:



{ قال یعقوب بن ابی شیبۃ : امام لم ینکرعلیہ شئی الابعد ماصار الی العراق فانہ انبسط فی الرویۃ عن ابیہ فانکر ذالک علیہ اہل بلدہ والذی نریٰ ان ھشاما تسھل لاھل العراق انہ کان لا یحدث عن ابیہ الاماسمعہ منہ فکان تسھلہ انہ ارسل عن ابیہ مماکان سمعہ من غیر ابیہ عن ابیہ ٭ تہذیب ص۳۴ ج۶ }



یعنی ’’یعقوب بن ابی شیبہ ؒ نے کہاکہ ہشام بن عروہ ثقہ ہے اورحدیث و محدثین کاامام ہے اس پراس کی کسی حدیث کی وجہ سے اعتراض نہیں کیاگیامگر جب وہ عراق گیاتووہاں اس نے اپنے والد کی حدیثیں کھل کربیان کرناشروع کردیں تواسکے شہر والوں نے اس پرانکاریعنی اعتراض کیاکہ اس نے اپنے والد کی سنی اوران سنی روایات کو’’عن‘‘ سے بیان کرناشروع کردیاہے جبکہ چاہیے یہ تھاکہ اپنے والد کی جو روایات اس نے بالواسطہ سنی ہیں ان کوبالواسطہ ہی بیان کرتامگرایسی روایات کوبھی اس نے بلاواسطہ بیان کیا‘‘اس سے یہ ثابت ہواکہ مؤلف رسالہ نے جو یہ کہاہے کہ ’’ہشام کی عراقی روایات کو اہل مدینہ نے برا تصورکیاہے‘‘یہ الفاظ کسی کتاب میں نہیں ہیں بلکہ وہاں صرف انکار کالفظ ہے جو اعتراض کے معنوں میں استعمال ہواہے جس کے معنی ’’برا ‘‘کرنامؤلف کی عربی زبان سے ناواقفیت کی دلیل ہے اوراسی سے دوسری بات یہ ثابت ہوئی کہ ہشام کی جن روایات پر اسکے شہر والوں نے اعتراض کیاوہ روایات بھی ہشام کے والدہی کی تھیں مگر ان روایات کو ہشام نے والد سے نہیں سناتھابلکہ کسی اورمحدث نے ان کے والد سے یہ روایا ت سنی تھیں اوراس سے ہشام نے سنیں تھیں معلوم ہوناچاہیے کہ ایسی روایات کے بلا واسطہ بیان کرنے کو ارسال اورتدلیس کہتے ہیں اور تدلیس اورارسال بڑے بڑے محدثین سے بھی سرزد ہوئی ہے جیساکہ حافظ ابن حجر ؒ نے امام مالک ؒ کو مدلسین میں شمارکرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ:

{ مالک بن انس ؒالامام المشہور یلزم من جعل التسویۃ تدلیسا ان یذکرہ فیھم لانہ کان یروی عن ثور بن زید حدیث عکرمۃ عن ابن عباس و کان یحذف عکرمۃ وقع ذالک فی غیرما حدیث فی المؤطا یقول عن ثور عن ابن عباس یذکر عکرمۃ وکذا کان یسقط عاصم بن عبداﷲ من اسناد آخر ذکر ذالک الدار قطنی٭تعریف اہل التقدیس ص۴۳}



یعنی’’محدثین میں سے جولوگ تسویہ کو تدلیس کہتے ہیں انکے نزدیک امام مالک ؒ مدلسین میں شمار ہوتے ہیں اس لئے کہ انھوں نے اپنی کتاب مؤطا میں عبداﷲ بن عباس ؓ سے روایت کرتے ہوئے عکرمہ کاحوالہ درمیان میں حذف کردیاہے اوربراہ راست عن ثور عن ابن عباسؓ کہہ دیاہے اسی طرح انھوں نے ایک دوسری سندمیں عاصم کاواسطہ درمیان سے حذف کردیاہے اوراس بات کاذکرامام دارقطنی ؒنے بھی کیاہے لیکن امام ابن عبدالبرؒنے کہاکہ یہ تدلیس نہیں بلکہ انقطاع ہے اورحافظ ابن حجرؒنے کہاکہ یہ تدلیس کی بری قسم ہے اس کی صورت یہ ہے کہ ایک مدلس راوی کسی ثقہ راوی سے حدیث سنے جبکہ اس ثقہ راوی نے اس حدیث کو کسی ضعیف راوی سے سناہواورضعیف راوی نے اسے ثقہ راوی سے سناہوتویہ مدلس راوی اس حدیث کوبیان کرتے ہوئے حدیث کی سند سے ضعیف راوی کاواسطہ حذف کردے جس سے اسکے ثقہ شیخ نے روایت سنی تھی اس طرح اس حدیث کی پوری سند ثقہ راویوں سے موصوف ہوجائے گی اوراسمیں کوئی ضعیف راوی نہیں رہے گااس قسم کی تدلیس کی نسبت امام دارقطنی ؒنے امام مالکؒ کی طرف کی ہے حالانکہ یہ تدلیس کی بہت بری قسم ہے اورجس حدیث کایہاں حافظ ابن حجرؒنے حوالہ دیاہے وہ حدیث تمہید ابن البرؒص۲۶ ج۲ اورمؤطا ص۲۸۷ ج۱ تحقیق فواد عبدالباقی میں موجودہے۔



اس سے ثابت ہواکہ ہشام نے عراق میں اپنے والد سے جو احادیث نہیں سنی تھیں اوربلاواسطہ روایت کیں تویہ کوئی ایساجرم نہیں جس کی بناپرانکی احادیث ردکردی جائیں مذیدبرآں یہ بھی طے ہے کہ صحیح بخاری اورصحیح مسلم میں ہشام کی اس قسم کی کوئی حدیث نہیںجس کو ہشام نے اپنے والد سے نہ سناہواوربراہ راست والد سے ہی روایت کردی ہومعلوم ہوناچاہیے کہ صحیح بخاری کے تما م مسند احادیث متصل ہیں اوراس پر امت اسلامیہ کااجماع ہے اوراسی سبب صحیح بخاری کاپوری نام ’’الجامع المسند الصحیح البخاری ‘‘ہے یعنی بخاری کی مسنداحادیث میں کوئی انقطاع نہیں ہے پس مؤلف رسالہ کی مذکورہ عبارت میں یہ الفاظ کہ’’ہشام نے عراق جانے کے بعد اپنے والد سے منسوب کرکے وہ روایات بھی مرسلاً بیان کرناشروع کردیں تھیں جوانھوں نے اپنے والد سے نہیں بلکہ دوسروں سے سنی تھیں‘‘محض جھوٹ اورجہالت پر مبنی ہیں کیونکہ مؤلف رسالہ کی عبار ت کامطلب یہ نکلتاہے کہ ہشام نے عراق میں ایسی احادیث اپنے والد سے روایت کیں جو کسی اورکی تھیں مگرانھوں نے ان روایات کو اپنے والد کی طرف منسوب کردیا،یہ بات نہ حافظ ابن حجرؒ کی تہذیب میں ہے نہ اسماء الرجال کی کسی اورکتاب میں ہے مؤلف رسالہ نے زیر عنوان ’’ہشام کے ذہن پرنو سال ‘‘ یہ لکھاہے کہ:

{ ہشام کے ذہن پر یہ نو(۹)سال کچھ اس طرح بھوت بن کرسوارہوگئے تھے کہ انھوں نے اپنی بیوی کوبھی شادی کے وقت نوسال بناڈالاجبکہ امام ذہبی ؒ اس واقعہ کواس طرح بیان کرتے ہیں کہ فاطمہ بنت المنذر اپنے خاوند ہشام سے تقریباً تیرہ (۱۳)سال بڑی تھیں اورجب فاطمہ کی رخصتی عمل میں آئی توان کی عمرانتیس(۲۹) سال تھی یعنی ہشام نے صرف اتنی کرامت کی کہ انتیس میں سے دہائی گراکر نو(۹) رہنے دیا}



یہاں مؤلف رسالہ نے ہشام بن عروہ کے خلاف جنہیں ائمہ سلف نے شیخ الاسلام اورامام الحجۃ کہاہے جوبازاری زبان استعمال کی ہے وہ اہل علم حضرات کوہرگز زیب نہیں دیتی اورجس واقعہ کی طرف مؤلف رسالہ نے اشارہ کیاہے اوراس واقعہ کوحافظ ذہبیؒ کی طرف منسوب کیاہے اسکی اصلیت کوہم قارئین کے سامنے پیش کئے دیتے ہیں،میزان الاعتدال میں حافظ ذہبی لکھتے ہیں کہ:

{ ابوقلابہ الرقاشی حدثنی ابوداؤد سلیمان بن داؤد قال قال یحیٰ القطان اشھد ان محمد بن اسحاق کذاب قلت مایدریک قال قال لی وھیب فقلت لوھیب ومایدریک قال قال لی مالک بن انس فقلت لمالک ومایدرک قال قال لی ہشام بن عروۃ قال قلت لھشام وما یدرک قال حدث عن امرأتی فاطمۃ بنت المنذر و ادخلت علی وھی بنت تسع وما رآھارجل حتی لقیت اﷲ تعالیٰ قلت قد اجبنا عن ھذا والرجل فما قال انہ رآھا افبمثل ھذا یعتمد علی تکذیب رجل من اہل العلم ھذا مردود ثم ماقیل من انھا ادخلت علیہ وہی بنت تسع ما ادری ممن وقع من رواۃ الحکایۃ فانھا اکبر من ہشام بثلاث عشرۃ سنۃ ولعلھا مازفت الیہ الاوقد قاربت بضعا وعشرین سنۃ واخذ عنھا ابن اسحاق و ھی بنت بضع و خمسین سنۃ او اکثر ٭ المیزان الاعتدال ص۴۷۱ ج۳ }



یعنی ’’ ابوقلابہ رقاشی ،امام ابوداؤد طیالسی سے روایت کرتے ہیں کہ انھوں نے امام یحیٰ القطان کاقول نقل کیاہے کہ محمد بن اسحاق راوی کذاب ہے اس نے پوچھاآپ کوکس نے کہاکہ وہ کذاب ہے انھوں نے کہامجھے وہیب نے کہاہے اس نے وہیب سے کہاتم کوکس نے کہاہے اس نے کہامجھے امام مالک ؒ نے بتایااورامام مالک کوہشام بن عروہ نے یہ بات بتائی اسنے ہشام سے پوچھاتم کویہ بات کس نے بتائی ہے ہشام نے کہاکہ محمدبن اسحاق میری بیوی سے حدیث روایت کرتاہے حالانکہ اس نے کسی غیر مردکونہیں دیکھا اوروہ نو (۹) سال کی تھی جب میرے گھرآئی تھی،حافظ ذہبی فرماتے ہیںکہ ہم نے ہشام کی بات کاجواب دیاہے کہ محمد بن اسحاق نے یہ نہیں کہاکہ میں نے ہشام کی بیوی کودیکھاہے کیافقط اس بات سے ایک ثقہ محدث جھوٹا ہوجائیگانہیں انکی یہ بات مردودہے ،پھریہ جواس نے روایت میں کہاہے کہ ہشام کی بیوی جب اس کے ک گھرآئی تواسکی عمر نو(۹) سال تھی واضح طورپرغلط ہے میں نہیں جانتاکہ یہ غلطی اس روایت کے کس روای نے کی ہے کیونکہ ہشام کی بیوی اس سے تیرہ سال بڑی تھی اورشاید جب اس کی بیوی بنی اس وقت اسکی عمر بیس سال سے اوپرتھی اورجب محمدبن اسحاق نے اس سے روایت سنی اسکی عمراس وقت پچاس (۵۰) سال سے اوپرتھی یااس سے بھی زیادہ تھی ‘‘یہ ہے حافظ ذہبی ؒ کابیان جس کاذکرمؤلف رسالہ نے کیاہے اس میں کہاں ہے کہ ’’ہشام پرنوسال بھوت بن کرسوارہوگئے تھے ‘‘آدمی کواخلاق کے دائرے میں رہتے ہوئے بات کرنی چاہیے اورصاف ظاہر ہے کہ اس حکایت میںحافظ ذہبی ؒنے ہشام کی بیوی کی عمر نوسال کے الفاظ کو ہشام کی طرف منسوب نہیں کیابلکہ یہ کہاہے کہ مجھے نہیں معلوم کہ اس روایت کے کس روای سے یہ غلطی ہوئی ہے اورہشام کی طرف اس قول کومنسوب نہ کرنے کی وجہ ہشام کااپناایک دوسر اقول بھی ہے جس میں ہشام نے خودکہاہے کہ اسکی بیوی عمر میں اس سے تیرہ سال بڑی تھی پس لازمی طورپر’’نو سال ‘‘کالفظ اس روایت میں کسی دوسرے روای کی غلطی کانتیجہ ہے جس کاتعین حافظ ذہبیؒ جیساوسیع علم رکھنے والابھی نہیں کرسکا ،ہشام کا قول اسکی بیوی کی عمر کے بارے میں تہذیب الکمال صفحہ۵۶۴ جلد۸ میں ہے جس کے الفاظ یہ ہیں کہ:

{ قال ہشام بن عروہ کانت اکبر منی بثلاث عشرۃ سنۃ }

یعنی’’ہشام نے کہاکہ اسکی بیوی اس سے تیرہ سال بڑی تھی‘‘اس وضاحت کے بعد بھی یہ کہناکہ ہشام پرنوسال بھوت بن کر سوارتھے جہالت اورکم علمی کے سوا کچھ نہیں اوردرحقیقت یہ علماء سلف اورمحدثین کے خلاف دل میں بھری ہوئی عداوت اورکینہ کا اظہارہے ۔



پس معلوم ہواکہ ہشام بن عروہ ایک ثقہ اورمعتبر روای ہے اوریہ بات بھی محدثین کی تصریحات میں گذر چکی ہے کہ ہشام پر وہ وقت کبھی آیاہی نہیں کہ وہ اپنا ذہنی توازن کھوچکاہواوراسکو اگلی پچھلی کوئی بات یاد ہی نہ رہی ہواس لئے اگرکوئی یہ کہے کہ ہشام نے اپنی بیوی کے بارے میں کبھی یہ بات کہی اورکبھی وہ بات کہی ہوگی قطعاً حماقت پر مبنی بے بنیاد اعتراض ہوگالیکن مؤلف رسالہ نے ہشام کے بارے میں حافظ ذہبی ؒکے حوالے سے یہاں تک لکھاہے کہ ’’آخری عمرمیں ہشام سٹھیاگئے تھے‘‘حالانکہ ہشام بن عروہ کے بارے میں حافظ ذہبیؒ کے یہ الفاظ ہم نے کہیں نہیں پائے اورخود مؤلف رسالہ نے بھی اس کاکوئی حوالہ نقل نہیں کیا ہے اس لئے معلوم یہی ہوتاہے کہ قرشی صاحب نے حافظ ذہبی ؒ کی تالیفات سے جو الٹا سیدھا مطلب اخذ کیاہے اسکا لب لباب اپنے الفاظ میں حافظ ذہبی ؒپر تھوپ دیاہے اورمؤلف رسالہ نے ہشام کی روایات کے سلسلہ میں لکھاہے کہ :

{ ان کی سندات جمع کرنے کے بعد ایک نئے عقیدہ (غالباً انکی مراد عقدہ ہے )کا انکشاف ہوتاہے کہ کچھ راوی تواسے حضرت عائشہؓ کاقول قرار دیتے ہیں اورکچھ اسے حضرت عروہ کاقول بتاتے ہیں}



یہاں قرشی صاحب جس چیز کوروایت میں اختلاف کے طورپر پیش کرناچاہتے ہیں اسکی کوئی علمی حیثیت نہیں کیونکہ اصول حدیث کے علم میںیہ کوئی ایسااختلاف نہیں جس کی بنیاد پرکسی حدیث کوضعیف قرار دیاجاسکتاہوخاص طورسے اس وقت جب دونوں میں سے ایک حدیث بخاری یامسلم میں آجائے اصول حدیث کے مطابق ایسی صورت میں بخاری ومسلم پرعمل ہوگااورمؤلف رسالہ نے حافظ سخاوی کے حوالے سے کچھ قاعدے لکھے ہیں ان میں سے انکی غرض اس قاعدہ سے ہیکہ’’جس روایت میں اس قسم کے مضامین ہوںجو نبی کریم ﷺ کی شان کے خلاف ہوںانہیں رد کردیاجائیگا‘‘اس قاعدہ سے مؤلف رسالہ کی غرض یہ ہے کہ چونکہ بی بی عائشہؓ کی حدیث شان نبوی کے خلاف ہے اس لئے وہ ضعیف و غیر مقبول ہے ہمیں حافظ سخاوی کے قواعد سے اتفاق ہے مگر مؤلف صاحب کی خدمت میں عرض ہے کہ صحیح بخاری و مسلم میں باتفاق علماء و محدثین و بااجماع امت مسلمہ ایسی کوئی حدیث نہیں جو رسول اﷲ ﷺ کی شان کے خلاف ہوچناچہ اگر یہ مذکورہ حدیث رسول اﷲ ﷺ کی شان کے خلاف ہوتی توبخاری میں کبھی نہ ملتی یعنی اس قسم کی حدیثوں کی جگہ صحاح کی کتابیں نہیں محدثین کی لکھی ہوئی موضوعات کی کتابیں ہیں اورمعلوم ہوناچاہیے کہ صحیح بخاری کو یہ درجہ ملاہی اسلئے کہ وہ نہ صرف صحت میں مستند ہے بلکہ اصول حدیث کے مطابق بھی اعلیٰ درجہ پر ہے اورجس اصول کا قرشی صاحب تذکرہ کررہے ہیں وہ بہت عام فہم اصول ہے کیاقرشی صاحب یہ کہناچاہتے ہیں کہ معاذ اﷲ امام بخاری اصول حدیث سے بھی ناواقف تھے جو ایک ایسی حدیث کواپنی صحیح میں نقل کربیٹھے جو شان نبوی ﷺ کے ہی خلاف ہے مگرجوشخص لکیرکافقیرہوتوایسے مسکین کوکوئی کیاسمجھائے یہ باتین تو اہل علم سے تعلق رکھتی ہیں اورآخرمیں ہم چاہتے ہیں کہ ہشام بن عروہ کے بارے میں جو اسماء الرجال کے ماہرین کی رائے ہے وہ بھی اختصار کے ساتھ نقل کردی جائے تاکہ ایک راوی کی حیثیت سے ہشام کامقام واضح ہوجائے، ہشام بن عروہ کے بارے میں محمدبن سعد نے کہا’’ثقہ ثبت حجۃ‘‘ اور یعقوب بن شیبہ نے کہا’’ثقہ ثبت‘‘ اورابوحاتم رازی نے فرمایا’’ثقہ امام فی الحدیث‘‘ اورابن خراش کاقول ہے کہ ’’صدوق‘‘اورالعجلی نے کہا’’ثقہ‘‘ اورابن حبان نے بھی ثقہ ہونے کے ساتھ ساتھ ہشام کو ’’متقن حافظ ‘‘ کہا ہے یہ تما م اقوال ثابت کرتے ہیں کہ ہشام بن عروہ قابل اعتماد اور معتبر راوی ہے اوراس کی روایت تمام اہل علم کے نزدیک حجت ہے۔



نوسال والی روایت غیر کوفی راویوں کی زبانی:

مؤلف رسالہ کادعویٰ ہے کہ بی بی عائشہؓ کے نوسال کی عمرمیں نکاح والی روایت صرف ہشام سے ہی مروی ہے اورکسی سے نہیںہے اوریہ کہ یہ کوفیوں کی شرارت ہے چناچہ آئیے ہم ذیل میں چند روایات پیش کرتے ہیں جو آپ کے دشمن ہشام کی نہیں ہیں بلکہ دیگر مختلف راویوں کی ہیں اوران سب روایات میں بی بی عائشہ ؓ کے نکاح اوررخصتی کے وقت کی عمروہی مذکورہے جو ہشام کی روایت میں ہے ،یہ پہلی حدیث صحیح مسلم اورمسند احمددونوںمیںصحیح سند کے ساتھ مرفوع اورمتصل روایت ہے اسکے الفاظ یہ ہیں:

{ حدثنا ابو معاویۃ قال حدثنا الاعمش عن ابراھیم عن الاسود عن عائشۃ قالت تزوجھا رسول اﷲ ﷺ وھی بنت تسع سنین ومات عنھا وھی بنت ثمان عشرۃ ٭ مسند احمد، حدیث۲۳۰۲۳٭صحیح مسلم کتاب النکاح حدیث۲۵۵۰ }

یعنی’’معاویہ نے ا عمش سے،اعمش نے ابراہیم سے ،ابراہیم نے اسود سے اوراسودنے بی بی عائشہ ؓ سے روایت کیاہے ،فرماتی ہیں جب میری نبی کریم ﷺ سے شادی ہوئی تومیری عمر نوسال تھی اورجب نبی کریم ﷺ کی وفات ہوئی تومیری عمراٹھارہ سال تھی‘‘اورایک دوسری روایت بھی صحیح مسلم کی ہے جس میں ہشام کے والد عروہ سے امام زہری نے روایت کیاہے اوراس حدیث کامضمون بھی وہی ہے جو ہشام کی روایت میں تھااوریہ روایت بھی مرفوع متصل ہے اسکی سند اورمتن درج ذیل ہے:

{حدثنا عبدبن حمید اخبرناعبدالرزاق اخبرنا معمر عن الزھری عن عروہ عن عائشۃ ان النبی ﷺ تزوجھا وھی بنت سبع سنین وزفت الیہ وھی بنت تسع سنین ولعبھا معھا ومات عنھا وھی بنت ثمان عشرۃ ٭ صحیح مسلم کتاب النکاح حدیث ۲۵۴۹ }

یعنی ’’عبدبن حمیدنے کہاکہ مجھے خبردی عبدالرزاق نے اورعبدالرزاق کومعمرنے اورمعمرنے روایت کیازہری سے اورزہری نے عروہ سے اورعروہ نے بی بی عائشہ ؓسے روایت کیاہے،فرماتی ہیں جب میرا نکاح نبی کریم ﷺ سے ہواتومیری عمرسات برس تھی اوررخصتی کے وقت عمرنوسال تھی میری گڑیاں میرے ساتھ ہی آئیں تھیں اور جب نبی کریم ﷺکی وفات ہوئی تو میری عمراٹھارہ سال تھیــ‘‘معلوم ہونا چاہیے کہ مؤلف رسالہ نے بعنوان ’’احادیث بخاری سے عمرکاتعین ‘‘لکھاہے کہ زہری عن عروہ عن عائشہؓ کی سند صحیح ہے اسی طرح ایک تیسری روایت ہے اوریہ روایت بھی کسی کوفی روای کی نہیںبلکہ دومدنی فقہاء کی روایت ہے ،یہ حدیث مسنداحمدکی ایک طویل حدیث ہے جسکی سند اسطرح ہے کہ:

{ حدثنامحمدبن بشر قال حدثنا محمدبن عمرو قال حدثنا ابوسلمۃ و یحییٰ قال لماھلکت خدیجۃ ……٭الفتح الربانی ص۲۳۷ ج۲۰ }

یہ ایک طویل حدیث ہے جوبی بی خدیجۃ الکبریٰ کی وفات کے بعد بی بی عائشہؓ کے نبی کریم ﷺ سے رشتے کے متعلق ہے اسمیں ابوسلمہ جو مشہور صحابی عبدالرحمن بن عوف کے بیٹے ہیںاورمدنی فقہاء میں سے ہیں اوریحییٰ بن عبدالرحمن جو مشہورصحابی حاطب بن ابی بلتعہ کے پوتے ہیںیہ حاطب وہی ہیں جنہوں نے قریش مکہ کوخط لکھاتھاکہ رسول اﷲ ﷺ مکہ پرچڑھائی کی تیاری کررہے ہیں اورابوسلمہ اوریحییٰ دونوں مدنی راوی ہیں وہ فرماتے ہیںکہ جب بی بی خدیجہ ؓ فوت ہوگئیں تو خولہ بنت حکیم نے بی بی عائشہؓ کارسول اﷲ ﷺ کے ساتھ رشتہ کرایاتواس وقت بی بی کی عمر چھ سال تھی اورجب ان کی رخصتی عمل میں آئی تو بی بی عائشہؓکی عمرنوسال تھی



امام طبری ؒکی بھی ایک شہادت اس ضمن میں نقل کئے دیتے ہیں ان کی رائے ان الفاظ میں ہے کہ:

{ ذکر السبب الذی کان فی خطبۃ رسول اﷲ ﷺ عائشۃؓ و سودۃؓ و الروایۃ التی باولا ھما کان عقد علیھا رسول اﷲ ﷺ عقدۃ النکاح ٭ تاریخ الطبری ص۴۱۱ ج۲ }

یعنی ’’ اس سبب کاذکر جس کی وجہ سے رسول اﷲ ﷺ نے بی بی عائشہؓ کارشتہ مانگااوراس کابیان کہ بی بی عائشہؓ او ر بی بی سودہؓ میں سے کس کانکاح پہلے ہوا‘‘اس باب میں امام جریرطبریؒ نے یحییٰ بن عبدالرحمن بن حاطب بن ابی بلتعہ کی وہی روایت بیان کی ہے جس میں ہے کہ ہے بی بی خدیجہ ؓ کی وفات کے بعدخولہ بنت حکیم نے مکہ میں بی بی عائشہؓ سے رسول کریم ﷺ کاعقد کرایااوراس وقت بی بی کی عمر چھ برس تھی اورجب نکاح ہواتو بی بی عائشہؓ کی عمر نو(۹) برس تھییہ تمام شہادتیں اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہیںکہ صحیح بخاری میں وارد بی بی عائشہ ؓ کی نکاح والی وہ حدیث قطعی طور پر صحیح ہے جس کے راوی ہشام بن عروہ ہیں۔



حصہ اول پرضمنی اعتراضا ت کے جوابات



قرشی صاحب نے اپنے پہلے رسالے میں صحیح بخاری کی ایک حدیث کونشانہ تنقید بنایاتھااوراب دوسرے رسالے میں بھی صحیح بخاری کی ایک حدیث پرطعن کی ہے یعنی قرشی صاحب نے منکرین حدیث کے راستے پرقدم بقدم آگے بڑھنا شروع کردیاہے انھوں نے اس مذکورہ حدیث کے الفاظ یہ نقل کئے ہیں:

{ ہشام بن عروہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت عائشہؓ نے کہا آنحضرت ﷺ نے جب مجھ سے نکاح کیاتوام رومان میری ماںمیرے پاس آئیں اورمجھ کو دن کے وقت آنحضرت ﷺ کے گھر لے گئیں میں اس وقت ڈر گئی جب ایکایکی آنحضرت ﷺ میرے پاس آگئے اورمجھ سے صحبت کی ٭ بحوالہ صحیح بخاری ترجمہ علامہ وحیدالزماں}



اس حدیث کونقل کرکے قرشی صاحب نے اسے ہشام بن عروہ کاقول قرار دے کر رد کرنے کی کوشش فرمائی ہے اوراعتراض یہ کیاہے کہ اس حدیث سے نبی کریم ﷺ کی شان رسالت پرحرف آتاہے کیونکہ اس میں ایک ڈری سہمی ہوئی لڑکی سے نبی کریم ﷺ کے صحبت کرنے کاذکرہے حالانکہ اس حدیث کے جو اصل عربی الفاظ ہیں ان میں ایساکوئی تاثر نہیں پایاجاتاجس قسم کاتاثر قرشی صاحب نے وحید الزماں کے ترجمہ کونقل کرکے پیش کرنے کی کوشش کی ہے اس حدیث کے اصل الفاظ یہ ہیں:

{ حدثنی فروۃ بن المغراء حدثنا علی بن مسہر عن ہشام عن ابیہ عن عائشۃ ؓ قالت تزوجنی النبی ﷺ فاتتنی امی فادخلتنی الدار فلم یرعنی الا رسول اﷲ ﷺ ضحی ٭صحیح بخاری کتاب النکاح }



یہاں اصل عبار ت میں ایساکوئی لفظ نہیں جس کاترجمہ ڈر یاخوف کیاجاسکے دراصل یہاں علامہ وحید الزماں نے تعجب کے لفظ کے بجائے ڈرترجمہ لکھ دیاہے جو مترجم علامہ وحیدالزماں کی ایک خطاء ہے لیکن قرشی صاحب نے صحیح بخاری کی اصل عبارت کوپڑھ کرخود ترجمہ کرنے کی زحمت کئے بغیر صحیح بخاری کی مرفوع حدیث کو ہشام بن عروہ کاقول قراردے کربلاسوچے سمجھے رد کردیاہے حالانکہ تراجم میں اس قسم کی غلطیاں ہوجاناکوئی انوکھی بات نہیں ہے مثلاًقرآن میں متعدد مقامات پرلفظ تقویٰ استعمال ہوتاہے جس کااردو ترجمہ اکثر و بیشتر ڈر کردیا جاتاہے حالانکہ یہ اس لفظ کاصحیح ترجمہ نہیں ہے اسی طرح کی ایک مثال ہم قرشی صاحب کی عبارت سے بھی پیش کرتے ہیں جس میں وہ صحابہ کرام کی احادیث کی جانب احتیاط کوبیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ:

{ امیر معاویہ ؓنے فرمایالوگوان کی احادیث کوقبول کرو جو عمرفاروقؓ کے زمانے کی ہیں کیونکہ رسول اﷲﷺ کی طرف منسوب کرکے احادیث کے بیان کرنے میں عمرؓنے لوگوں کوڈرایادھمکایاتھا٭بحوالہ تذکرۃ الحفاظ }

قرشی صاحب کی نقل کردہ اس عبارت سے شیعہ اوراحادیث کاانکار کرنے والوں کے لئے اہل سنت کی احادیث کوردکرنے قوی دلیل فراہم ہوسکتی ہے اوروہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ جتنی بھی احادیث ہیں یہ معاذاﷲ عمر فاروقؓ نے ڈرادھمکاکر زور زبردستی سے لکھوائی ہیں پس کسی عبار ت کامحض ترجمہ دیکھ کراسکے بارے میں کوئی رائے قائم کرناعلمیت نہیں بلکہ جہالت کی دلیل ہواکرتی ہے۔



اسی رسالے کے حصہ اول میں ہشام بن عروہ کی روایت کردہ حدیث پرقرشی صاحب کی تنقید کاجواب دیتے ہوئے مولانا عطاء اﷲ صاحب نے متعدد دیگر روایوں کی احادیث نقل کی ہیں جو ہشام کی حدیث کی تائید کرتی ہیں اسکاجواب دیتے ہوئے قرشی صاحب نے لکھاہے کہ:

{ یہاں ایک ہی قول ذرا الفاظ کے الٹ پھیریازیادتی اورکمی یاکسی راوی کے آگے پیچھے ہونے کی وجہ سے الگ الگ (حدیثوں کی )صورت میں سامنے آرہا ہے پھر اس قول کو الگ الگ راویوں کے ذریعہ بیان کرنے سے کچھ فرق نہیں پڑتا }



قرشی صاحب نے ہشام والی روایت کویہ کہہ کرردکیاتھاکہ اس کے راوی صرف کوفی ہیں اورتمام راویوں نے یہ روایت ہشام سے لی ہے نیزہشام بن عروہ کے علاوہ کوئی دوسراراوی اس حدیث کوبیان نہیں کرتااورہشام بن عروہ کاحافظہ عراق جانے کے بعد خراب ہوگیاتھااسلئے یہ روایت قابل قبول نہیں ہے قرشی صاحب کے اس اعتراض کے جواب میں یہی روایت غیر کوفی راویوں کے حوالے سے بیان کی گئی اوریہی روایت ایسی اسناد سے بھی بیان کی گئی جن میں ہشام بن عروہ بھی شامل نہیں تھے اسکے باوجود قرشی صاحب کا اپنے مؤقف پرڈٹے رہنااورڈھٹائی کیساتھ یہ کہناکہ’’ ایک ہی قول الگ الگ راویوں کے ذریعہ بیان کرنے سے کچھ فرق نہیں پڑتا‘‘نری جہالت کے سوا کچھ نہیں کیونکہ محدثین کی اصطلاح میںمحض رواۃ کے بدلنے سے حدیث بھی بدل جاتی ہے یعنی نبی کریم ﷺ کے کسی ایک ہی قول یافعل کا تذکرہ جب بھی کسی نئی سندکے ساتھ سامنے آتا ہے توایک علیحدہ اورمستقل حدیث کی حیثیت اختیار کرتاہے یہاں عجیب بات یہ ہے کہ قرشی صاحب نے اپنے بیان میں بقلم خود دیگر اسناد سے وارد ہونے والی روایات کے بارے میں لکھاہے کہ’’کسی راوی کے آگے پیچھے ہونے سے الگ الگ(حدیثوں کی )صورت میں سامنے آرہاہے ‘‘ یعنی حدیث تسلیم کیا ہے اسکے بعداگلی سطر میں حدیث ماننے سے انکاربھی کیاہے ہمارے نزدیک اس قسم کے اعتراض کوا عتراض کے بجائے دماغ کا فتورہی کہاجاسکتاہے اوراسی نوعیت کاایک اعتراض قرشی صاحب نے یہ بھی کیا ہے کہ:

{ ہشام بن عروہ امام مالک ؒکے استادوں میں تھے اسکے باوجود امام مالک نے اپنے استاد کے قول ’’عمر عائشہؓ ‘‘‘ کواپنی کتاب میں جگہ دینامناسب ہی نہیں سمجھااس کی وجہ کیایہ نہیں کہ اس قول کی صحت کاامام مالکؒ کو یقین نہیں تھا}



یہاں قرشی صاحب کے اس اعتراض کی حیثیت محض ڈوبتے کوتنکے کاسہار اسے زیادہ نہیں کیونکہ یہ کوئی لازمی اورضروری نہیں کہ ایک محدث اپنے استاد سے سنی ہوئی ہر حدیث کواپنی کتاب میں درج کرے گااوریہ بھی کوئی ضروری نہیں کہ ایک استاد کی تمام کی تمام احادیث لازمی طور پر اسکے شاگرد تک پہنچیں گی نیز معلوم ہوناچاہیے کہ صرف ہشام بن عروہؒ ہی امام مالک ؒ کے استاد نہیں تھے بلکہ امام مالک ؒ کے اساتذہ میں کئی اور نام بھی آتے ہیں مثلاً ابوالزناد عبداﷲ بن زکوان ،یحییٰ بن سعید الانصاری ،عبداﷲ بن دینار ،زید بن اسلم مولیٰ عمر،محمدبن مسلم بن شہاب الزہری،عبداﷲ بن ابی بکر بن حزم ،سعید بن ابی سعید المقبری اورسمی مولیٰ ابی بکر وغیرہ اوران میں سے کسی کی بھی تمام کی تمام صحیح احادیث کوامام مالک نے اپنی مؤطا میں شامل نہیں کیابلکہ انکے اپنے کچھ معیار اوراصول ہیں جن کی بنیاد پرانھوں نے احادیث کو اپنی کتاب میں داخل کیاہے اسلئے یہ کہناکہ امام مالک ؒ نے جو حدیث مؤطامیں داخل نہیں کی وہ لازمی طورپرغیر صحیح ہوگی اسی طرح غلط ہے جس طرح کوئی یہ کہے کہ امام بخاری ؒ اورمسلم ؒنے جواحادیث اپنی کتب میں داخل کیں ہیں صرف وہی صحیح ہیںاور انکے علاوہ روئے زمین پر کوئی بھی حدیث صحیح نہیں ہے جبکہ مؤطا میں امام مالکؒ نے یہ دعویٰ بھی نہیں کیاکہ مؤطا کی تمام احادیث صحیح ہیں،کتب احادیث میں ہشام بن عروہ ؒسے احادیث کی ایک بہت بڑی تعداد مروی ہے جس کاعشرعشیر بھی مؤطامیں موجود نہیں مثلاًجب ہم نے صرف مشہور اورمستند احادیث کی کتابوںجیساکہ بخاری ، مسلم ،ترمذی ،نسائی ،ابن ماجہ،مسند احمد ،دارمی ،مؤطامالک اورابوداؤد میں ہشام بن عروہ کی احادیث کوشمار کیاتوان کی تعداد ایک ہزار پانچ سو چوراسی (۱۵۸۴) تک پہنچ گئی جبکہ مؤطامالک میں امام مالک ؒنے جو احادیث ہشام بن عروہ سے روایت کی ہیںانکی تعداد صرف ایک سو اکیس(۱۲۱)ہے۔



یہاں اگر ہم قرشی صاحب کے بیان کردہ اصول کے مطابق ہشام کی صرف وہی احادیث قبول کریں جوامام مالک ؒ نے روایت کی ہیں تو ہم ہشام کی اکثر احادیث سے محروم ہوجائیں گے مذید برآں یہ بھی معلوم ہوناچاہیے کہ امام مالکؒ اکیلے ہشام بن عروہ ؒ کے شاگرد نہیں ہیں بلکہ ہشام بن عروہ کے شاگردوں کی تعداد ایک سو چونتیس (۱۳۴) کے قریب بیان کی جاتی ہے جن میں سے ایک امام مالک ؒ بھی ہیں اورکوئی ضروری نہیں کہ ہشام کی ہرحدیث ہرشاگردکو ملی ہوبلکہ مؤطامالک کوبغوردیکھنے سے ایسامعلوم ہوتاہے کہ امام مالک ؒ ہشام بن عروہ سے بہت کم احادیث سماعت کرپائے ہیں کیونکہ مؤطاکے اکثرابواب ہشام بن عروہ کی احادیث سے یکسر خالی ہیں اور انہیں میں سے سے کتاب النکاح بھی ہے جہاں ہشام کی کوئی ایک حدیث بھی امام مالک ؒنے نقل نہیں کی اس سے صاف ظاہر ہے کہ اس باب میں امام مالکؒ کوہشام کی کوئی بھی حدیث نہیں ملی یعنی یہ کہناکہ امام مالک ؒنے بی بی عائشہ ؓ کے نکاح والی حدیث قصداًنقل نہیں کی اس صورت میں کسی حدتک صحیح ہوسکتاتھاجب اس باب کے تحت وہ ہشام کی کوئی بھی دوسری حدیث لائے ہوتے اوراس حدیث کوترک کیاہوتااس لئے قرشی صاحب کے اس اعتراض کی کوئی علمی حیثیت نہیں ہے کہ جسکی بنیاد پربی بی عائشہ ؓکے نکاح والی روایت پرکوئی شک بھی کیاجاسکے بلکہ اگر شک کیابھی جاسکتاہے تو ایسا اعتراض کرنے والے کی علمی حیثیت پرکیاجاسکتاہے



خلاصہ کلام



بی بی عائشہؓ کے نکاح کے سلسلے میںامت اسلامیہ کااجماع اوربخاری و مسلم اوردیگر کتب صحاح کی یہ بات ایساسچ ہے جس کاجھٹلانا تاقیامت کسی کے لئے ممکن نہیں اسکی زبردست دلیل یہ ہے کہ فاضل مؤلف نے اس مسئلہ میں اپنی کتاب کے اکہتر(۷۱)صفحات کالے کئے ہیں مگران کوایک بھی دلیل ایسی نہیں ملی جس کے صاف الفاظ یہ ہوں کہ نکاح کے وقت بی بی عائشہؓ کی عمر نو (۹) نہیں بلکہ اٹھارہ (۱۸) یا انیس(۱۹)سال تھی۔



ایسامعلوم ہوتاہے کہامحض اس قسم کے دلائل نقل کرکے مؤلف صاحب اپنے آپ کوعقل مند اورپوری امت اسلامیہ کے علماء و فقہاء و محدثین کو جاہل اوربے وقوف ثابت کرناچاہتے ہیں کیونکہ جن عقلی دلائل سے مؤلف صاحب بی بی عائشہ ؓ کی عمر بڑھاناچاہتے ہیں وہ تمام امت اسلامیہ کے مفسرین ،محدثین اورمؤرخین کے ہی بیان کردہ ہیں یعنی ان تمام باتوں کے علم میں ہونے کے باوجود ان تمام لوگوں نے یہ عقیدہ جمائے رکھاکہ نکاح کے وقت بی بی عائشہؓکی عمر نو سال تھی صاف ظاہرہے کہ اس قسم کے بد عقلی دلائل کے ذریعہ منکرین حدیث کسی عامی آدمی کوتو اپنے دام میں گرفتارکرسکتے ہیں لیکن امت اسلامیہ کے اہل علم طبقہ نے قرآن وحدیث کی نصوص کے مقابلے میں اس قسم کی باتوںکی نہ پہلے کبھی پرواہ کی اور نہ کبھی آئیندہ کان دھریں گے کیونکہ ان باتوں کاٹکراؤ صریح طورپر قرآن و سنت کے دلائل سے ہوتاہے اسلئے یہ بے بنیاد باتیں اورباطل نظریات رد کردینے کی ہی قابل ہیں اورصحیح اورمستند بات یہی ہے کہ بی بی عائشہ ؓ کاعقد نبی کریم ﷺ سے چھ سال کی عمر میں ہوا اوررخصتی نوسال کی عمرمیں ہوئی اسکے بعدبی بی عائشہ ؓ نبی کریمﷺکی وفات تک آپﷺ کے ساتھ رہیں یہاں تک کہ جب نبی کریم ﷺ دنیاسے رخصت ہوئے تو اس وقت بی بی عائشہ ؓکی عمر اٹھارہ سال تھی پس امت مسلمہ میں سے جو کوئی بھی اسکے خلاف کوئی عقیدہ رکھتاہواسے اپنے اس عقیدہ سے رجوع کرلینا چاہیے اوراپنے دین و ایمان کی خیر منانی چاہیے اورمحض مغرب زدہ مرعوب ذہنیت کے حاملین کی چرب زبانی سے متاثر ہوکرکسی صحیح حدیث کاانکار نہیں کرناچاہیے کیونکہ ایک صحیح حدیث کاانکار تمام احادیث صحیحہ کے انکار کے متراد ف ہے بالکل اسی طرح جس طرح ایک قرآنی آیت کاانکارپورے قرآن کے انکار کے مترادف شمار ہوتاہے ،اﷲتبارک وتعالیٰ اس شقاوت قلبی سے ہم سب کومحفوظ ومامون رکھے آمین۔

{ وماعلیناالاالبلاغ }

یہ اقتباس لیا گیا ہے

منکرین حدیث اوربی بی عائشہؓ کے نکاح کی عمرکاتعین

حصہ اول از

مولاناعطاء اﷲڈیروی حصہ دوم از

ابوالوفاء محمدطارق عادل خان
 
Top