کائناتِ ہستی کی محبوبیت ِاعلیٰ
بلاشبہ محبت ِنبوی کے یہ پاک ولولے اور یہ مخلصانہ ذوق و شوق تمہاری زندگی کی سب سے زیادہ قیمتی متاع ہے اور تم اپنے ان پاک جذبات کی جتنی بھی حفاظت کرو، کم ہے۔تمہارا یہ حب ِالٰہی ہے، تمہاری یہ محبت ِربانی ہے، تمہاری یہ شیفتگی انسانی سعادت اور راست بازی کا سرچشمہ ہے، تم اس وجودِ مقدس و مطہر کی محبت رکھتے ہو جس کو تمام کائناتِ انسانی میں سے تمہارے خدا نے ہر طرح کی محبوبیتوں اور ہر قسم کی محمودیتوں کے لئے چن لیا، اور محبوبیت ِعالم کا خلعت ِاعلیٰ صرف اسی کے وجودِ اقدس پرراست آیا، کرہٴ ارضی کی سطح پر انسان کے لئے بڑی سے بڑی بات جو لکھی جاسکتی ہے، زیادہ سے زیادہ محبت جو کی جاسکتی ہے، اعلیٰ سے اعلیٰ مدح و ثنا جو کی جاسکتی ہے، غرض کہ انسان کی زبان انسان کے لئے جو کچھ کہہ سکتی اور کرسکتی ہے، وہ سب کا سب صرف اسی ایک انسانِ کامل و اکمل کے لئے ہے، اور اس کا مستحق اس کے سوا کوئی نہیں!!
مقصود ما ز دیر و حرم جز حبیب نیست
ہر جا کنیم سجدہ بداں آستاں رسد
وللہ درما قال :
عباراتنا شتی وحسنک واحد
وکل الی ذاک الجمال يشير!
خدا کی اُلوہیت و ربوبیت جس طرح وحدہٗ لاشریک ہے کہ کوئی ہستی اس کی شریک نہیں، اسی طرح اس انسانِ کامل کی انسانیت ِاعلیٰ اور عبدیت ِکبریٰ بھی یکتا و منفرد ہے کیونکہ اس کی انسانیت وعبدیت میں کوئی اس کا ساجھا نہیں، اور اس کے حسن و جمالِ فردانیت کا کوئی مساوی نہیں۔
یہی وجہ ہے کہ قرآنِ حکیم میں تم دیکھتے ہو کہ تمام انبیاءِ کرام علیہم الصلوٰۃ والسلام کا ذکر جہاں کہیں کیا گیا، وہاں ان سب کو ان کے ناموں سے پکارا ہے، اور ان کے واقعات کا بھی ذکر کیا ہے تو ان کے ناموں کے ساتھ کیا ہے۔لیکن ا س انسانِ کامل، اس فردِ اکمل کا ا کثر مقامات میں اس طرح ذکر کیا ہے کہ نہ تو اس کا نام لیا گیا، نہ ہی کسی دوسرے وصف سے نامزد کیا گیا، بلکہ صرف ’عبد‘ کے لفظ سے اس کے پروردگار نے اسے یاد فرمایا:
﴿سُبْحٰنَ الَّذِيْ اَسْریٰ بِعَبْدِہِ لَيْلًا مِنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ الَی الْمَسْجِدِ الاَقْصٰی﴾
”کیا پاک ہے وہ خداوند ِقدوس جس نے ایک رات اپنے ’عبد‘ کو مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک کی سیر کرائی“ (الاسراء:۱)
سورۃ جن میں فرمایا:
﴿وَاَنَّہُ لَمَّا قَامَ عَبْدُاللّٰہِ يَدْعُوْہُ کَادُوْا يَکُوْنُوْنَ عَلَيْہِ لِبَدًا﴾ (آیت ۱۹)
”اور جب اللہ کا بندہ(عبد) تبلیغ حق کے لئے کھڑا ہوتا ہے تاکہ اللہ کو پکارے، تو کفار اس کو اس طرح گھیر لیتے ہیں گویا قریب ہے کہ ا س پر آگریں گے۔“
سورہٴ کہف کو اس آیت سے شروع کیا:
﴿اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِيْ اَنْزَلَ عَلٰی عَبْدِہِ الْکِتَابَ﴾ (الکہف: ۱)
”تمام تعریفیں اللہ کے لئے ہیں جس نے اپنے’عبد‘ پر کتاب اتاری۔“
سورہٴ فرقان کی پہلی آیت ہے
﴿تَبَارَکَ الَّذِیْ نَزَّلَ الْفُرْقَانَ عَلٰی عَبْدِہِ لِيَکُوْنَ لِلْعَالَمِيْنَ نَذِيْرًا﴾
”کیا ہی پاک ذات ہے اس کی جس نے ’الفرقان‘ اپنے ’عبد‘ پر اتارا تاکہ وہ تمام عالم کے لئے ڈرانے والا ہو۔“ (الفرقان: ۱)
اسی طرح سورہ نجم:۱۰ میں کہا:
﴿فَاَوْحٰی الٰی ’عَبْدِہِ‘ مَا اَوْحٰی﴾ حدید:۳۳ میں کہا:﴿يُنَزِّلُ عَلَی”عَبْدِہ“ آيَاتٍ﴾ پس ان تمام مقامات میں آپ کا اسم گرامی نہیں لیا، بلکہ اس کی جگہ صرف ’عبد‘ فرمایا۔ حالانکہ بعض دیگر انبیاء کے لئے اگر ’عبد‘ کا لفظ فرمایا ہے تو اس کے ساتھ نام کی تصریح بھی کردی ہے۔ سورہمریم:۲ میں حضرت زکریا علیہ السلام کے لئے فرمایا: ﴿ذِکْرُ رَحْمَۃِ رَبِّکَ عَبْدَہُ زَکَرِيَّا﴾ سورہ ص ٓ:۱۷ میں کہا : ﴿واذکر عبدنا داود﴾ نیز ﴿وَاذْکُرْ عَبْدَنَا اَيُّوْبَ﴾ (ص ٓ:۴۱ )
اس خصوصیت و امتیاز سے اسی حقیقت کو واضح کرنا مقصودِ الٰہی تھا کہ اس وجودِ گرامی کی عبدیت اور بندگی اس درجہ آخری و مرتبہ قصویٰ تک پہنچ چکی ہے جو انسانیت کی انتہا ہے، اور جس میں اور کوئی ’عبد‘ اس عبد ِکامل کے مساوی نہیں۔ پس عبدیت کا فردِ کامل وہی ہے اور اس لئے بغیر اضافت و نسبت کے صرف ’عبد‘ کا لقب اس کو ناموں اور علموں کی طرح پہنچوا دیتا ہے۔ کیونکہ تمام کائناتِ ہستی میں اس کا سا اور کوئی عبد نہیں!پس یہ وہ تھا کہ اس کی صفات کا یہ حال ہے۔ اس کی محبت و محبوبیت کا خود رب السماوات والارض نے اعلان کیا، اور اس کی رحمت کو اپنی ربوبیت کی طرح تمام عالمین پر محیط کردیا، اور اس کی رحمت کو صفاتِ رافت و رحمت سے متصف فرمایا۔ اس کوتمام قرآنِ حکیم میں کبھی بھی نام لے کر نہ پکارا، بلکہ کبھی صداے عزت سے نوازا کہ
﴿يٰاَيُّہَا الرَّسُوْلُ﴾ او رکبھی طریق محبت سے پکارا کہ
﴿يٰاَيُّہَا الْمُزَمِّلُ!﴾ اس کے وجود کی عزت و عظمت کو اپنی عزت کی طرح اپنے بندوں پر فرض کردیا، اور جابجا حکم دیا کہ
﴿تَعَزِّرُوْہُ وَتُوَقِّرُوْہُ﴾(الفتح: ۹)”اس کی عزت کرو اور اس کی توقیر بجا لاؤ“ پھر وہ کہ اس کی محبوبیتوں اور عظمتوں کا یہ حال تھا کہ اس کا وجودِ مقدس و اطہر تو بڑی چیز ہے، وہ جس آبادی میں بسا اور جس شہر کی گلیوں میں چلا پھرا، اس کی عزت کو بھی خداے زمین و آسمان نے تمام عالم میں نمایاں کیا:
﴿لاَ اَقْسِمُ بِہٰذَا لْبَلَدِ وَاَنْتَ حِلٌ بِہٰذَا الْبَلَدِ﴾(البلد:۱،۲) ”ہم مکہ کی قسم کھاتے ہیں، اس لئے کہ تیرا وجود اس کی سرزمین میں رہا او ربسا ہے۔“
ومن مذہبی حب الديار لاَہلہا
وللناس فيما يعشقون مذاہب