منکوحہ کے ساتھ بات چیت کرنا یا تحائف کا تبادلہ کرنا جائز ہے لیکن اگر دونوں خاندانوں کے عرف میں اسے درست نہ سمجھا جاتا ہو تو پھر ایسا نہیں کرنا چاہیے اور ہمیں اپنے عرف کا لحاظ رکھنا چاہیے کیونکہ عرف کا خیال نہ رکھنے سے رشتوں میں بگاڑ، غلط فہمیاں اور ناراضگیاں پیدا ہو سکتی ہیں۔ باقی ایک جائز عمل کا مطلب یہ نہیں ہوتا ہے کہ اس کا کرنا لازم ہے یعنی اسے لازمی کر کے ہی دکھایا جائے۔ پس جائز کا مطلب ہے کہ اگر ایسا کوئی کر لے تو شریعت کی خلاف ورزی نہیں ہے۔
بعض اوقات یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ رخصتی سے پہلے ہی لڑکے اور لڑکی میں میل ملاقاتیں شروع ہو گئیں اور نوبت جھگڑوں اور طلاق تک جا پہنچی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ رخصتی سے پہلے لڑکا، لڑکی کی کوئی ذمہ داری مثلا نان نفقہ یا رہائش وغیرہ نہیں اٹھا رہا ہوتا ہے لیکن عملا وہ اپنی منکوحہ کو اپنی بیوی قرار دیتے ہوئے اس سے ہر قسم کا استفادہ یا بعض اوقات اپنی اطاعت کا بھی پابند بنانے کی کوشش کرتا ہے جس سے مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ ذرا اس بات پر نفسیاتی اعتبار سے غور کریں کہ ایک خاتون اپنے باپ کے گھر سے کھا پی رہی ہو اور جس سے صرف اس کا نکاح ہوا ہو وہ میل ملاقات کے بعد ان خاتون یہ کہنے لگتا ہے کہ فلاں کام کرو اور فلاں نہ کرو تو یہ اختلافات کا باعث بنتا ہے۔ آپ کسی کی ذمہ داری اٹھائیں اور پھر اس سے اطاعت و فرمانبرداری کا مطالبہ کریں تو اگلے کو بھی سمجھ آتا ہے لیکن اگر آپ اس کی ذمہ داری نہیں اٹھا رہے ہیں تو پھر بہت احتیاط کی ضرورت ہے۔