• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

رسمِ عثمانی کی شرعی حیثیت اور تبدیلی سے متعلق فتاوی جات

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
رسمِ عثمانی کی شرعی حیثیت اور تبدیلی سے متعلق فتاوی جات

حافظ محمد مصطفی راسخ​
زیر نظر مضمون مجلس التحقیق الاسلامی، لاہور کے رفیق کار قاری محمد مصطفی راسخ حفظہ اللہ کی وہ کاوش ہے، جو قبل ازیں ماہنامہ رشد کے جنوری وفروری ۲۰۰۸ء کے مشترکہ شمارہ میں شائع ہوچکی ہے، لیکن موضوع کے بعض پہلوؤں کی تشنگی کے اعتبار سے موصوف نے مضمون کو دوبارہ ترتیب دیا ہے اور گرانقدر اضافہ جات بھی فرمادیے ہیں۔ ہم شیخ القراء قاری محمد ابراہیم میرمحمدی حفظہ اللہ کے انتہائی شکر گذار ہیں کہ انہوں نے اس سلسلہ میں رہنمائی دینے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی اور عصر حاضر کی عالمی لجنات کے فتاویٰ پر مشتمل ایک کتاب تحریم کتابۃ القرآن الکریم بحروف غیر عربیۃ أعجمیۃ أو لاتینیۃ از الشیخ صالح علی العود بھی ترجمہ کے لیے فراہم کی، جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ماضی کی طرح معاصر اہل علم بھی رسم عثمانی کی تبدیلی کو بالاتفاق ناجائز سمجھتے ہیں۔
اسی موضوع پر چند سال قبل پنجاب یونیورسٹی سے حافظ سمیع اللہ فراز حفظہ اللہ کے قلم سے ایم، فل کا ایک مقالہ بھی طبع کیا جاچکا ہے۔ تحقیق ِمزید کے خواہشمند حضرات اس مقالہ کی طرف رجوع فرما سکتے ہیں۔ (ادارہ)
قرآن مجید اللہ کی طرف سے نازل کردہ آسمانی کتاب ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس عظیم الشان کتاب کو آخرالزمان پیغمبر جناب محمد رسول اللہﷺ پر نازل کیا اور ’’إنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَوَاِنَّا لَہُ لَحٰفِظُوْنَ‘‘ (الحجر:۹) فرما کر اس کی حفاظت کا فریضہ اپنے ذمہ لے لیا۔ قرآن مجید کا یہی امتیاز ہے کہ دیگر کتب سماوی کے مقابلے میں صدیاں بیت جانے کے باوجود محفوظ و مامون ہے اور اس کے چشمہ فیض سے اُمت سیراب ہورہی ہے۔ قرآن مجید کا یہی امتیاز اور اعجاز دشمنانِ اسلام کی آنکھوں میں کاٹنے کی طرح کھٹک رہا ہے اور ان کی ہمیشہ سے یہ کوشش رہی ہے کہ اس کتاب لاریب کی جمع و کتابت میں شکوک و شبہات پیدا کردیئے جائیں، جن کی بنیاد پریہ دعویٰ کیا جاسکے کہ معاذ اللہ گذشتہ کتابوں کی مانند قرآن مجید بھی تحریف و تصحیف سے محفوظ نہیں رہا ،لیکن چونکہ حفاظت قرآن کا فریضہ خود اللہ تعالیٰ نے اپنے ذمہ لے لیاہے، چنانچہ تاریخ اسلام کے ہر دور میں مشیت الٰہی سے حفاظت قرآن کے لیے ایسے اقدامات اور ذرائع استعمال کئے گئے جو اپنے زمانے کے بہترین اور موثر ترین تھے۔ حفاظت قرآن کے دو بنیادی ذرائع حفظ اور کتابت ہیں، جوعہد نبوی سے لے کر آج تک مسلسل جاری و ساری ہیں۔
عہد نبوی میں حفاظت ِقرآن کا بنیادی ذریعہ حفظ و ضبط تھا۔ متعدد صحابہ کرام قرآن مجید کے حافظ اور قاری تھے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ کتابت وحی کا سلسلہ بھی جاری رہا، جیسے ہی کوئی آیت مبارکہ نازل ہوتی نبی کریم ﷺ کاتبین وحی کوبلوا کر لکھوا دیا کرتے تھے اور بتلاتے تھے کہ فلاں فلاں آیت کوفلاں فلاں سورت میں لکھو۔ عہد نبوی میں قرآن مجید مکمل لکھا ہوا موجود تھا مگر ایک جگہ جمع نہیں تھا،بلکہ مختلف اشیاء میں متفرق طور پر موجود تھا۔ عہد صدیقی میں واقعہ یمامہ کے بعد قرآن مجید کو صحف کی صورت میں ایک جگہ جمع کردیا گیا اور عہد عثمانی میں واقعہ آرمینیہ و آذربائیجان کے بعد سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے دور میں ایک جگہ جمع کئے گئے قرآن مجید کے متعدد نسخے تیار کرکے مختلف اَمصار میں روانہ کردیئے گئے۔ عہد عثمانی میں کتابت قرآن کا ایسارسم اختیار کیا گیا، جو تمام قراء ت متواترہ کا احتمال رکھتا تھااور جو درحقیقت عہد نبوی اورعہد صدیقی میں لکھے گئے صحف کے رسم سے ماخوذ تھا۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
رسم ِعثمانی
رسم عثمانی سے مراد وہ رسم الخط ہے، جوسیدنا عثمان رحمہ اللہ کے حکم پر سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ عنہ اور ان کے دیگر ساتھیوں نے کتابت ِمصاحف میں اختیار کیا۔ قابل ذکر اَمر یہ ہے کہ رسم عثمانی کا ایک بڑا حصہ رسم ِقیاسی کے موافق ہے، لیکن چند کلمات رسم قیاسی کے خلاف لکھے گئے ہیں۔ اس لیے اَہل علم میں ایک نئی بحث نے جنم لیاکہ کیا رسم عثمانی توقیفی ہے؟ بایں طور پر کہ مصاحف عثمانیہ میں موجود رسم ِقیاسی کے مخالف کلمات کو توقیفی سمجھ کر ویسے ہی لکھ دیا جائے، یا یہ رسم غیرتوقیفی(اجتہادی) ہے، جس میں تبدیلی کرکے رسم قیاسی کے موافق لکھا جاسکتاہے؟ بالفاظ دیگرکتابت ِقرآن میں اس رسم ِعثمانی کاالتزام کرنا ضروری ہے یا کہ نہیں ؟
زیر نظر تحریر میں مذکورہ بالا مسئلہ کو ہر طبقہ کا موقف بمع دلائل ، ان کا باہمی موازنہ کرکے راجح موقف بتا دیا گیا ہے۔ اسی طرح اس موضوع کے متعلق ایک اہم بحث کہ کیا صحابہ کرام کتابت و املاء کے ماہر تھے یا نہیں؟ میں دلائل کی روشنی میں کوئی رائے قائم کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
رسم عثمانی کی توقیفیت
حقیقت یہ ہے کہ رسم ِعثمانی کے امتیاز کی بنیادی وجہ اس کے وہ اختلافات ہیں، جو رسم ِقیاسی و املائی کے مقابلہ میں منقول ہیں۔ بالفاظ دیگر انہی اختلافات نے رسم قرآنی اوررسم قیاسی کے راستے جدا جداکردیئے ہیں، چنانچہ جب دونوں طریقہ ہائے کتابت میں فرق اور اختلاف ظاہر ہوا تو ان کی تحقیق و تفتیش ایک لازمی امر تھا۔ نتیجتاً یہ بحث پیدا ہوئی کہ کیا رسم ِعثمانی منجانب اللہ ہے اور کیا رسول اللہﷺ نے اس کی صراحت فرمائی ہے ؟ اسی بحث کا دوسرا زاویہ نگاہ یہ ہے کہ اہل عرب چونکہ اپنے رسم الخط کے لحاظ سے ارتقائی دور میں تھے اور صحابہ کرام نے اس وقت کے رائج رسم کے ساتھ ہی قرآن کی کتابت کی۔ دریں اثناء علماء نے کسی ایک رسم کی اَفضلیت و فوقیت کی وجوہ تلاش کرناشروع کیں، جس سے رسم ِعثمانی کے توفیقی ہونے یا نہ ہونے کے بارے میں ایک مستقل بحث معرض وجود میں آئی۔ دونوں مکتبہ ہائے فکر کے دلائل درج ذیل ہیں:
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
قائلین عدم توقیف
٭ یہ موقف بعض اہل علم کا ہے۔ اس نظریہ اور موقف کی بنیاد علامہ ابن خلدون رحمہ اللہ کا وہ اقتباس ہے، جو انہوں نے مقدمہ میں ذکر کیا ہے:
(ولا تلتفتنَّ فی ذلک إلی ما یزعمہ بعض المغفلین من أنہم کانوا محکمین بصناعۃ الخط ما أن ما یتخیل من مخالفۃ خطوطہم لاصول الرسم لیس کما یتخیل بل لکلھا وجہ ) (مقدمہ ابن خلدون:۱؍۷۴۷)
’’بعض غافل لوگوں کی طرح اس بات کی طرف توجہ نہیں دینی چاہئے کہ صحابہ کرام فن کتابت پر عبور رکھتے تھے، اس طرح یہ بات بھی ناقابل التفات ہے کہ ان کے کتابی اختلافات کا تعلق اُصول رسم سے ہے، جیسا کہ خیال کیا جاتاہے بلکہ ہرایک اختلاف کے پیچھے کوئی وجہ موجود ہے۔‘‘ (رسم عثمانی اور اس کی شرعی حیثیت ازحافظ سمیع اللہ فراز، ص۲۹۲)
٭ قاضی ابوبکر الباقلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’اللہ تعالیٰ نے کتابت میں سے کوئی چیز اُمت پر فرض نہیں فرمائی، اسی لئے قرآن کو لکھنے والے اوراس کے خطاطین نے کسی معین رسم کو اختیار نہیں کیا،کیونکہ کسی رسم کا وجوب سماعی وتوقیفی نہیں اور نہ ہی کتاب اللہ کی کسی نص سے ثابت ہے۔ اس کے علاوہ کسی نص سے بھی یہ مفہوم نہیں نکلتا کہ قرآنی رسم اور اس کی پابندی کسی مخصوص جہت پر لازمی ہے۔ ‘‘ (مناہل العرفان:۱؍۳۷۲)
٭ نبی کریم ﷺ کا یہ اعجاز ہے کہ آپﷺ اُمی تھے اور لکھ پڑھ نہیں سکتے تھے، جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
’’وَمَا کُنْتَ تَتْلُوا مِنْ قَبْلِہٖ مِنْ کِتَابٍ وَّلَا تَخُطُّہُ بِیَمِیْنِکَ اِذًا لَّا رْتَابَ الْمُبْطِلُوْنَ‘‘ (العنکبوت:۴۸)
’’اور اے پیغمبرﷺ! قرآن اترنے سے پہلے نہ توتو کوئی کتاب پڑھ سکتا تھا اور نہ اپنے ہاتھ سے اس کو لکھ سکتا تھا۔ (کیونکہ تو اُمی تھا ) اگر پڑھا لکھا ہوتا تو یہ جھٹلانے والے ضرور شبہ کرتے۔‘‘
لہٰذا یہ کیسے ممکن ہوسکتا ہے کہ آپﷺ نے سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کو کتابت و املاء کے قواعد کے مطابق لکھوایا ہو۔ کیا نبی کریمﷺ کاتبین وحی کو فرماتے تھے کہ لفظ إبراھیم کو سورہ بقرہ میں بغیر یا کے ،جبکہ سورہ بقرہ کے علاوہ دیگر مقامات پر یاء کے ساتھ لکھو۔
اگر نبی کر یمﷺ کا کتابت کروانا مذکورہ صفت و کیفیت پر تھا، تب رسم عثمانی بلا شک وشبہ توقیفی ہے، لیکن ایسی کوئی روایت منقول نہیں ہے، جس میں مذکورہ کیفیت منقول ہو۔ اگر ایسی کیفیت ہوتی تو ضرور تواتر کے ساتھ ہم تک پہنچتی ۔
٭ جب زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کا اپنے ساتھیوں کے ساتھ کلمہ ’التابوت‘کی تاء کی کتابت میں اختلاف ہوا تو امیر المومنین سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے لغت قریش کے مطابق تاء مطولہ کے ساتھ لکھنے کا حکم دیا۔ اگرقرآن مجید کا رسم توقیفی ہوتا توسیدناعثمان رضی اللہ عنہ کو کہنا چاہئے تھا کہ جس کیفیت پر آپ رضی اللہ عنہ (زید) کو نبی کریمﷺ نے لکھوایا ہے، اسی کیفیت پر لکھ دو، یاسیدنازیدبن ثابت رضی اللہ عنہ خود فرماتے کہ مجھے نبی کریمﷺ نے فلاں کیفیت پر لکھوایا ہے۔
٭ اگر رسم توقیفی ہوتاتوسیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کی جانب سے مختلف شہروں کی طرف بھیجے گئے تمام مصاحف میں ایک ہی کیفیت پر ہوتا اور ان میں مکتوب بعض کلمات کی کتابت میںایک دوسرے سے اختلاف نہ ہوتا۔
٭ امام مالک رحمہ اللہ بچوں کی تعلیم کے لیے رسم عثمانی کے خلاف رسم قیاسی کے مطابق لکھنے کو جائز قرار دیتے ہیں۔ اگر رسم توقیفی ہوتا تووہ اس کی لازماً صراحت فرماتے اور بچوں کے لئے غیر رسم عثمانی پر لکھنے کی اجازت نہ دیتے۔
٭ اگر رسم توقیفی ہوتا تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اس کا نام’ رسم توقیفی یا رسم ِنبوی ‘ رکھتے، ’رسم ِعثمانی‘نہ رکھتے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
رسم عثمانی کا نظریۂ توقیف
جمہور اہل علم کے نزدیک رسم عثمانی توقیفی ہے، یعنی اس کے کلمات کی ہیئت و کیفیت رسول اللہﷺ سے توقیفاً ثابت ہے۔ جمہور علماء سلف کے اقوال کے علاوہ رسول اللہﷺ سے رسم عثمانی کے ثبوت اور فقہی اُصولوں کی روشنی میں رسم عثمانی کے توقیفی ہونے پر دلائل پیش خدمت ہیں:
٭ ارشاد باری تعالیٰ ہے:’’إنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَوَاِنَّا لَہُ لَحٰفِظُوْنَ‘‘ (الحجر:۹)
’’بے شک قرآن کو ہم ہی نے اتارا ہے اور ہم ہی اس کے نگہبان ہیں۔‘‘
اللہ تعالیٰ کی مذکورہ نگہبانی وحفاظت قرآن کریم کے حروف، معانی اور رسم سمیت تمام اُمور پر مشتمل ہے۔ اگر رسم عثمانی توقیفی نہ ہوتاتو اللہ تعالیٰ کایہ دعویٰ ’’وَاِنَّا لَہُ لَحَافِظُوْنَ‘‘ غلط قرار پاتا ، جو کہ محال ہے یعنی اگر رسم عثمانی غیر توقیفی ہوتا، جس کو صحابہ کرام نے اپنی وسعت علمی سے لکھا تھا تو لازم آتا کہ لفظ ’رحمت،نعمت‘ ہاء کے ساتھ اور لفظ ’وسوف یؤت‘ یاء کے ساتھ اور لفظ ’ یدع‘ وغیرہ واؤ کے ساتھ نازل کئے گئے تھے، جن کو صحابہ کرام نے خط سے عدم واقفیت کی بناء پر جہالت میں ’ تاء، حذف یاء اور حذف واؤ ‘ کے ساتھ لکھ دیا ہے اور چودہ سوسال گزر جانے کے باوجود امت اس غلطی کی پیروی کرتی چلی آرہی ہے اور حروف کی کمی و زیادتی جیسے گناہ کا ارتکاب کرتی رہی ہے، حالانکہ ارشاد نبویﷺ ہے:
( إنَّ اُمَّتِیْ لَا تَجْتَمِعُ عَلَی الضَّلَالَۃِ ) (سنن ابن ماجہ)
’’ میری اُمت کبھی گمراہی پر اکٹھی نہیں ہوسکتی۔‘‘
جب اللہ تعالیٰ کے اس دعوے ’’ وَاِنَّا لَہُ لَحٰفِظُوْنَ ‘‘کاابطال ناممکن ہے تو عدم توقیفی والا نظریہ بھی باطل ٹھہرا، اس سے عدم توفیقی کی ضد توفیقی یعنی ’توقیف ِنبوی‘ کا ثبوت ملا، لہٰذا رسم عثمانی توقیفی ہے اور یہی مطلوب و مقصودالٰہی ہے۔ (تنویر البصر للضبَّاع: ص۱۱۰)
٭ اللہ تعالی فرماتے ہیں:’’ لَا یَاْتِیْہِ الْبَاطِلُ مِنْ بَیْنِ یَدَیْہِ وَلَا مِنْ خَلْفِہِ تَنْزِیْلٌ مِّنْ حَکِیْمٍ حَمِیْدٍ‘‘
’’(اور بے شک قرآن عزت والی ،بے نظیر اور نادر کتاب ہے) جھوٹ کا تو اس میں دخل ہی نہیں ہے، نہ آگے سے نہ پیچھے سے۔ حکمت والے، تعریف کے لائق اللہ کی طرف سے اتاری ہوئی ہے۔‘‘ (حم السجدۃ:۴۲)
قرآن مجید ایک ایسی محفوظ کتاب ہے، جس میں جھوٹ کا یکسر دخل نہیں ہے۔اب یہ کیسے ممکن ہوسکتا ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اپنی عقل و دانش سے قرآن مجید کا رسم لکھ دیا ہو اور وہ اللہ تعالیٰ کی رضا کے خلاف ہو اور زمانہ نزول وحی میں اس پر تنبیہ بھی نہ آئی ہو، لہٰذا اس آیت مبارکہ کا تقاضا ہے کہ رسم ِعثمانی کو توقیفی تسلیم کیا جائے۔ اگرچہ اس میں بعض مقامات پر عظیم مقاصد کے تحت، جن سے روگردانی محال ہے، معروف قواعد کتابت ’رسم قیاسی ‘کے خلاف لکھا گیا ہے۔ (تنویر البصر للضباع رحمہ اللہ:۱۱۷)
٭ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:’’بَلْ ھُوَ قُرْاٰنٌ مَّجِیْدٌ فِیْ لَوْحٍ مَّحْفُوْظٍ‘‘ (البروج:۲۱،۲۲)
’’یہ قرآن (کچھ معمولی کلام نہیں ہے)، بلکہ بڑی بزرگی والا ہے، لوح محفوظ میں لکھا ہوا ہے۔‘‘
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
امام حسن بصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’إن ھذا القرآن المجید عند اﷲ فی لوح محفوظ ینزل منہ ما یشاء علی من یشاء من خلقہٖ‘‘
’’بے شک یہ قرآن مجید اللہ تعالیٰ کے ہاں لوح محفوظ میں لکھا ہوا ہے۔ اللہ تعالیٰ اس سے جو چاہتا ہے، اپنی مخلوق میں سے جس پر چاہتا ہے نازل کردیتا ہے۔‘‘(تاریخ القرآن لمحمد طاہر بن عبدالقادر:۱۸)
مذکورہ آیت قرآنی سے معلوم ہوتاہے کہ جو قرآن مجید لوح محفوظ میں لکھا ہوا ہے بعینہٖ یہی قرآن ہے۔ اب یہ کیسے ممکن ہوسکتا ہے کہ اس قرآن کا رسم، لوح محفوظ میں مکتوب قرآن مجید کے رسم سے مختلف ہو۔ اس آیت مبارکہ کا تقاضا ہے کہ رسم قرآن کو توقیفی تسلیم کیا جائے ورنہ اس کا غیر محفوظ ہونا لازم آئے گا،جوکہ محال اور باطل ہے۔
٭ کاتب وحی سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ
’’ کنت أکتب الوحی عند رسول اﷲ! وھو یملی علیَّ فإذا فرغْتُ قال : ( اقرأہ ) فأقرؤُہٗ فإنْ کان فیہ سَقْطٌ أقامہ ‘‘ (مجمع الزوائد:۸؍۲۵۷)
’’میں رسول اللہﷺ کے پاس وحی لکھا کرتاتھا اور آپﷺ مجھے اِملاء کرواتے تھے، جب میں فارغ ہوجاتا تو آپﷺ فرماتے: اس کوپڑھ! میں پڑھتا۔ اگر اس میں کوئی غلطی ہوتی تو آپﷺ اسے درست کروا دیتے۔‘‘
اس حدیث مبارکہ سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی کریمﷺکتابت وحی کی بذات خود نگرانی کیا کرتے تھے اور اس میں رہ جانے والی غلطیوں کو درست کروا دیتے تھے۔ گویا کہ آپ نے مکمل قرآن اپنی نگرانی میں لکھوایا، جو رسم ِقرآن کے توقیفی ہونے پردلالت کرتا ہے۔
٭ اگرچہ نبی کریمﷺ اُمی تھے، لیکن اُمی ہونے کے باوجود آپﷺ قراء ت بھی کرتے تھے اور اِملاء (کتابت) بھی کرواتے تھے، جیسا کہ مذکورہ بالاحدیث سے معلوم ہوتا ہے۔ اب اگر کوئی شخص آپﷺ کے اُمی ہونے کے باوجود املاء کروانے کے غیر معقول ہونے کا اعتراض کرتاہے تو یہی اعتراض آپﷺکی قراء ت اور تلاوت پر بھی ہوسکتا ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے دونوں (قراء ت، کتابت) کو ایک ہی جگہ ’’وَمَا کُنْتَ تَتْلُوا مِنْ قَبْلِہٖ مِنْ کِتَابٍ وَّلَا تَخُطُّہُ بِیَمِیْنِکَ اِذًا لَّارْتَابَ الْمُبْطِلُوْنَ‘‘ (العنکبوت:۴۸) بیان کیا ہے اور اس امر کا غیر عقلی ہونا ہی معجزہ ہے، کیونکہ معجزہ ماورائے عقل شے کا نام ہے۔
مزید برآں اس آیت مبارکہ میں ’’مِنْ قَبْلِہٖ‘‘کی ضمیر ’’مِنْ کِتَابٍ‘‘ کی جانب لوٹ رہی ہے کہ آپﷺاس کتاب کے نزول سے پہلے پہلے اُمی تھے۔ اس میں بھی آپﷺ کا معجزہ کار فرما ہے کہ پہلے آپﷺ اُمی تھے، پھر ایسے علوم وفنون لائے جن کا ایک اُمی سے صادر ہونامحال ہے۔ ( تنویر البصر للضباع رحمہ اللہ) قرآنی آیت ’’اِذًا لَّارْتَابَ الْمُبْطِلُوْنَ‘‘ ’’اگر پڑھا لکھا ہوتا تو یہ جھوٹے ضرور شک کرتے‘‘ میں بھی یہی واضح کیا گیا ہے کہ اگر آپﷺ اُمی نہ ہوتے تو کفار یہ اعتراض کرتے کہ یہ کلام اپنے پاس سے گھڑ لایا ہے، لیکن ایک ایسا آدمی جو اُمی ہو اور پھر ایسے علوم وفنون لے کر آئے جو ایک اُمی سے ناممکن اور محال ہوں تو یہ امر اس بات پر دلالت کرتاہے کہ یہ خالصتاً عطیہ خداوندی (وحی الٰہی) ہے، جس میں آپ1 کا ذاتی کوئی دخل نہیں۔
اس آیت مبارکہ سے معلوم ہوتا ہے کہ اُمی ہونے کے باوجود جس طرح ’قراء ت‘ آپﷺ کے لئے وحی الٰہی تھی ویسے ہی ’اِملاء‘ (کتابت)کروانا بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا کردہ وحی کی روشنی میں ہوتا تھا۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
٭ علامہ علی محمد الضباع رحمہ اللہ اپنی کتاب تنویر البصرمیں رقم طراز ہیں کہ
’’بعض ایسے آثار منقول ہیں، جن سے محسوس ہوتا ہے کہ نبی کریم1 حروف کو پہچانتے تھے اور علماء کی ایک جماعت کا بھی یہی رجحان ہے، جن میں سے ابومحمدشلیبانی رحمہ اللہ، ابوذر الہروی رحمہ اللہ اور ابوالولید الباجی رحمہ اللہ قابل ذکر ہیں۔ انہوں نے درج ذیل دلائل سے استدلال کیا ہے:
٭ ابن ابی شیبہ رحمہ اللہ وغیرہ سے مروی ہے: ’’مامات رسول اﷲ حتی کَتَبَ وَقَرَأ‘‘
’’نبی کریمﷺ نے وفات سے پہلے لکھا اور پڑھا۔‘‘
٭ امام ابن ماجہ رحمہ اللہ نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے نبی کریم ﷺ کا یہ قول نقل کیا ہے :
(رأیت لیلۃ أسری بي مکتوبا علی باب الجنۃ الصدقۃ بعشر أمثالھا… )
’’میں نے معراج کی رات جنت کے دروازے پر لکھا ہوا دیکھا کہ صدقہ کا ثواب دس گنا ملتا ہے۔‘‘
٭ ابن اسحاق کی روایت میں قصہ حدیبیہ والی حدیث میں مذکور ہے:’’فأخذ رسول اﷲﷺ الکتابَ فکَتَبَ: ھذا ما قاضی علیہ محمد بن عبد اﷲ‘‘’’نبی کریمﷺ نے ورق لیا اور اس پر لکھا کہ یہ وہ معاہدہ ہے جس پر محمد بن عبداللہ نے صلح کی ہے۔ دوسری روایت میں ہے: ’’ولیس یَحْسُنُ أن یَکْتُبَ فَکَتَبَ‘‘ ’’آپ کی کتابت اچھی نہیں تھی، پس آپ نے لکھا۔‘‘ تیسری روایت میں ہے: ’’ فَکَتَبَ بیدہ ‘‘ ’’آپﷺنے اپنے ہاتھ سے لکھا۔‘‘ اس حدیث کو امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی صحیح میں امام طبری رحمہ اللہ اور امام خازن رحمہ اللہ نے اپنی تفسیر میں اور یمنی رحمہ اللہ نے اپنی شرح میں نقل کیا ہے۔
٭ ابوبکر النقاش رحمہ اللہ نے ابوکبشہ السلولی رحمہ اللہ کی روایت میں نقل کیا ہے کہ أنہ قرأ صحیفۃً لعیینۃ بن حصن وأخبر بمعناھا’’نبی کریمﷺ نے عیینہ بن حصن کا صحیفہ پڑھا اور اس کا معنی بتایا۔ اس روایت کو امام ابو حیان رحمہ اللہ نے بحر المُحیط میں نقل کیا ہے اور فرمایا ہے کہ نبی کریمﷺ کی کتابت کی دو صورتیں ہوسکتی ہیں:
(١) اللہ تعالیٰ نے قلم کو ان کے ہاتھ میں جاری کردیا ہو اور قلم نے آپﷺ کے قصد کے بغیر ہی لکھ دیا ہو۔
(٢) دوسری صورت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس وقت کتابت سکھا دی ہو جس طرح قراء ت سکھا دی تھی۔
قاضی عیاض رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ آپﷺ سے کتابت کی روایات اگرچہ صحیح نہیں ہیں، لیکن یہ بھی کوئی بعید از قیاس نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو کتابت و قراء ت دونوں کا علم عطا کردیا ہو۔
مذکورہ اقوال و آثار سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی کریمﷺ حروف کو پہچانتے تھے اور املاء بھی کرواتے تھے اور آپﷺ کا ان دونوں (قراء ت وکتابت)کو جاننا اُمی ہونے کے خلاف بھی نہیں ہے اور یہی کمال ِمعجزہ ہے۔ ان دونوں (قراء ت و کتابت) کے جاننے کے باوجود بھی نبی کریمﷺ اُمی تھے، کیونکہ یہ علم وحی کے ذریعہ آپﷺ کو حاصل ہوئے، نہ کہ آپﷺ نے ان علوم کو سیکھا۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
٭ عہد عثمانی میں کتابت مصاحف میں بھی عہد نبوی اور عہد صدیقی میں لکھے گئے رسم کو ہی بنیاد بنایا گیاتھا، ورنہ قرآن مجید دلوں میں پہلے سے ہی محفوظ تھا۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کے پاس موجود صحف پر اعتماد کیا، جو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں لکھے جاچکے تھے اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ان صحف کو لکھواتے وقت عہد نبوی کے رسم کو ہی بنیا دبنایا تھا اور زید بن ثابت رضی اللہ عنہ اس وقت تک کچھ قبول نہیں کرتے تھے جب تک دو گواہ اس پر گواہی نہ دے دیتے۔ شیخ محمدطاہربن عبدالقادر الکردی رحمہ اللہ اپنی کتاب تاریخ القرآن وغرائب رسمہ وحکمہ میں رقم طراز ہیں:
’’کان زید لا یقبل من أحد شیئا حتی یشھد شھیدان‘‘ (الدر المنثور )
’’حضرت زیدرضی اللہ عنہ دو گواہوں کی گواہی کے بغیر کچھ قبول نہیں کرتے تھے۔‘‘
حضرت زید رضی اللہ عنہ گواہیاں اس لئے تلاش کرتے تھے، تاکہ وجوہ قراء ات کو مکمل کرسکیں اور عہد نبوی کی کتابت کو دیکھ سکیں جو صحابہ کرام نے نبی کریمﷺ کے پاس کی تھی۔
حافظ ابن حجررحمہ اللہ ان دو گواہوں کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’وکان المراد بالشاھدین شاھد الحفظ والکتابۃ‘‘ (فتح الباري:۹؍۱۵)
’’دو گواہوں سے مراد حفظ اور کتابت کے گواہ ہیں۔‘‘
امام سخاوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’المراد أنھما یشھدان علی أن ذلک المکتوب کتب بین یدي رسول اﷲ !‘‘ (جمع القرآن للروحی، ص۷)
’’اس سے مراد یہ ہے کہ دو گواہ یہ گواہی دیں کہ یہ لکھا ہوا حصہ (ٹکڑا) نبی کریمﷺ کے سامنے لکھا گیا تھا۔‘‘
ابن عساکررحمہ اللہ روایت کرتے ہیں کہ ایک دن حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے خطبہ دیا اور لوگوں کو قسم دے کرکہا کہ تمہارے پاس جتنا بھی قرآن لکھا ہوا ہے وہ لے آؤ! چنانچہ لوگ ورق اور چمڑے وغیرہ پر لکھے ہوئے قرآن کے ٹکڑے لاتے اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی خدمت میں پیش کر دیتے ،حضرت عثمان رضی اللہ عنہ ان کو قسم دے کر کہتے:
’’أسمعتَ من رسول اﷲ وھو أملأہ علیک فیقول: نعم‘‘ (تاریخ القرآن وغرائب رسمہ:ص۵۰)
’’کیا تو نے نبی کریم ﷺسے سنا ہے اور آپﷺ نے تجھ کو اِملاء کروائی تھی۔ پس وہ کہتا ہاں! تب اس ٹکڑے کو محفوظ کرلیا جاتا۔‘‘
مذکورہ روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ عہد صدیقی وعہد عثمانی میں بھی نبیﷺ کی کروائی ہوئی کتابت و املاء (رسم) کا پورا پورا خیال رکھا گیاتھااور نبی کریم 1کا املاء کروانا عمل ِتوقیفی ہے۔ عہد عثمانی رضی اللہ عنہ میں جب ان مصاحف پر مراجعت کرلی گئی تو ۱۲ہزار صحابہ رضی اللہ عنہم نے اس امر پر اتفاق کرلیا کہ یہی معیاری اور توقیفی رسم ہے، جس پر آج تک اُمت کا اجماع چلا آرہا ہے اور سلف میں سے کسی سے بھی اس کی مخالفت منقول نہیں ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
٭ جب مصاحف عثمانیہ کو لکھ لیا گیا توحضرت عبداللہ بن زبیررضی اللہ عنہ نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو کہا کہ جب اس آیت مبارکہ ’’ وَالَّذِیْنَ یُتَوَفَّوْنَ مِنْکُمْ وَیَذَرُوْنَ اَزْوَاجًا وَّصِیَّۃً لاِّزْوَاجِھِمْ مَتَاعًا اِلَی الْحَوْلِ‘‘(البقرۃ:۲۴۰) کا حکم منسوخ ہوچکا ہے ، تو آپ نے اس کو مصحف میں کیوں لکھ دیا ہے؟ امیرالمومنین سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
’’إن ھذا أمر توقیفی وأنا وجدتھا مثبتۃ فی المصحف کذلک بعدھا فأثبتھا حیث وجدتُّھا‘‘
’’بے شک یہ توقیفی امر ہے، میں نے اس آیت کو اسی طرح مصحف میں لکھا ہوا پایا ہے۔ پس میں نے بھی اسے جہاں موجود تھی وہاں لکھ دیا ہے۔‘‘( ابن کثیر: ص۶۵۸)
اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے کتابتِ مصاحف میں اپنے اجتہاد کے بجائے توقیف نبوی پر عمل کیا۔ جو نبی کریم ﷺ نے لکھوایا ہوا تھا اسے لکھ دیا اور جو حذف تھا اسے چھوڑ دیا اور اس طریقہ رسم پر لکھوایا جو نبی کریم ﷺ سے ثابت تھا۔
٭ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا:
(إذا کتب أحدکم ’’بسم اﷲ الرحمن الرحیم‘‘ فلیمدَّ الرحمن) (رواہ الدیلمی فی سندہ)
’’جب تم میں سے کوئی شخص ’بسم اللہ الرحمن الرحیم‘ لکھے تو اس کو چاہئے کہ لفظ ’الرحمن‘ کو لمبا کرے۔‘‘
مذکورہ بالا حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی کریم ﷺ حروف کو پہچانتے تھے اور غلطیوں کی اِصلاح فرما دیتے تھے۔
٭ ایک دفعہ نبی کریم ﷺ نے کاتب وحی حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کو کہا:
(ألق الدواۃ،وحرف القلم،وانصب الباء،وفرق السین،ولا تعور المیم،وحسن اﷲ، ومد الرحمن،وجود الرحیم،وضع قلمک علی أذنک الیسری فإنہ أذکر لک) وفی روایۃ: (أذکر لک للملی) ( فتح الباری،الدیلمی: ص۳۱۴، کنزالعمّال:۱۰؍؟، الدر المنثور: ۱؍۱ )
’’دوات کھلی رکھو، قلم ترچھا پکڑو، باء کو کھڑا کرو، سین کو علیحدہ کرو، میم کو ٹیڑھا نہ کرو، لفظ اللہ کو خوبصورت بناؤ، لفظ الرحمن کو لمبا کرو، لفظ الرحیم کو عمدہ لکھو اور اپنی قلم اپنے بائیں کان پر رکھو، بے شک یہ زیادہ یاد دلانے والا عمل ہے۔ ایک روایت میں ہے ۔ بے شک یہ إملاء کے لئے زیادہ یاد دلانے والا عمل ہے۔‘‘
مذکورہ بالاحدیث بھی آپ کے اِملاء کروانے پر دلالت کرتی ہے، جس میں نہ صرف اِملاء کا ذکر ہے بلکہ حروف کی کتابت کی ہیئت و کیفیت کا بھی تذکرہ ہے کہ فلاں فلاں حرف کو ایسے ایسے لکھو ۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
٭ عن زید بن ثابت:’’أنہ کان یکرہ أن تکتب ’’بسم اﷲ الرحمن الرحیم‘‘ لیس لھا سین‘‘ (تحریم کتابۃ القرآن الکریم بحروف غیر عربیۃ)
’’حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ بسم اﷲ الرحمن الرحیم میں بغیر سین کے ’ بسم اﷲ‘کی کتابت کو ناپسندکرتے تھے۔‘‘
’بسم اﷲ‘ کی سین کو دندانوں کے بغیر لکھنے کو ناپسند کرنے کی یہی وجہ ہوسکتی ہے کہ انہوں نے قرآن مجید میں اسے سین کے دندانوں کے ساتھ لکھا ہوا دیکھا تھا۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ حضرت زیدرضی اللہ عنہ غیر قرآن میں بھی رسم توقیفی کو ہی ترجیح دیتے تھے۔
٭ ڈاکٹر عبدالقیوم عبدالغفور السندی رحمہ اللہ اپنی کتاب جمع القرآن الکریم في عھد الخلفاء الراشدین میں رقم طراز ہیں:
’’جمہور اہل علم کا یہی خیال ہے کہ رسم عثمانی توقیفی ہے۔ انہوں نے درج ذیل اُمور سے استدلال کیا ہے:
(١) کاتبین وحی نے نبی کریم ﷺ کی نگرانی میں قرآن مجید کو لکھا،اور نبی کریمﷺ نے اس رسم کو باقی رکھاجس پر انہوں نے آپﷺ کے سامنے لکھا تھا اور آپﷺ کا کسی معاملہ پر زمانہ نزول وحی میں خاموش رہنا بھی ہمارے لئے حجت ہے۔ آپﷺ کی تقریر سے ثابت ہوتا ہے کہ یہی رسم درست اور توقیفی ہے۔
(٢) عہد صدیقی رضی اللہ عنہ اور پھر عہد عثمانی رضی اللہ عنہ میں اسی سابقہ رسم پر لکھا گیا، جس پر ۱۲ ہزار صحابہ کا اجماع ہے ، کسی سے مخالفت ثابت نہیں ہے، اور ان کا اجماع ہمارے لئے واجب الاتباع ہے۔
 
Top