• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

رمضان المبارک میں کرنے والے کام

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
رمضان المبارک میں کرنے والے کام

ہم رمضان المبارک کا استقبال کیسے کریں؟
حافظ صلاح الدین یوسف﷾​
اللہ تعالیٰ نے اس ماہِ مبارک کو بہت سے خصائص و فضائل کی وجہ سے دوسرے مہینوں کے مقابلے میں ایک ممتاز مقام عطا کیا ہے جیسے:
٭ اس ماہِ مبارک میں قرآن مجید کا نزول ہوا:
’’ شَہْرُ رَمَضَانَ الَّذِیْ اُنْزِلَ فِیْہِ الْقُرْآنُ‘‘ (البقرۃ: ۲؍۱۸۵)
رمضان وہ مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا ہے
٭ اس کے عشرۂ اخیر کی طاق راتوں میں ایک قدر کی رات (شب ِقدر) ہوتی ہے جس میں اللہ کی عبادت ہزار مہینوں کی عبادت سے بہتر ہے:
’’ لَیْلَة اْلقَدْرِ خَیْرٌ مِّنْ اَلْفِ شَہْرٍ ‘‘ (القدر ۹۷؍۳)
’’شب قدر ہزار مہینوں سے بہتر ہے‘‘
ہزار مہینے ۸۳ سال اور۴ مہینے بنتے ہیں۔ عام طور پر ایک انسان کو اتنی عمر بھی نہیں ملتی۔ یہ امت ِمسلمہ پر اللہ کا کتنا بڑا احسان ہے کہ اس نے اسے اتنی فضیلت والی رات عطا کی۔
٭ رمضان کی ہر رات کو اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو جہنم سے آزادی عطا فرماتے ہیں۔
٭ اس میں جنت کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں اور جہنم کے دروازے بند کردیئے جاتے ہیں۔
٭ سرکش شیاطین کو جکڑ دیا جاتا ہے۔
٭ اللہ تعالیٰ روزانہ جنت کو سنوارتا اور مزین فرماتا ہے اور پھر جنت سے خطاب کرکے کہتا ہے کہ
’’میرے نیک بندے اس ماہ میں اپنے گناہوں کی معافی مانگ کر اور مجھے راضی کرکے تیرے پاس آئیں گے۔‘‘
٭ رمضان کی آخری رات میں روزے داروں کی مغفرت کردی جاتی ہے۔ اگر انہوں نے صحیح معنوں میں روزے رکھ کر ان کے تقاضوں کو پورا کیا ہوگا۔
٭ فرشتے، جب تک روزے دار روزہ افطار نہیں کرلیتے، ان کے حق میں رحمت و مغفرت کی دعائیں کرتے رہتے ہیں۔
٭ روزے دار کے منہ کی بو اللہ کے ہاں کستوری کی خوشبو سے زیادہ پاکیزہ اور خو شگوار ہے۔
یہ اس مہینے کی چند خصوصیات اور فضیلتیں ہیں۔ اب ہمیں سوچنا ہے کہ ہم کیسے اس کا استقبا ل کریں؟ کیا ویسے ہی جیسے ہر مہینے کا استقبال ہم اللہ کی نافرمانیوں اور غفلت کیشیوں سے کرتے ہیں؟ یا اس انداز سے کہ ہم اس کی خصوصیات اورفضائل سے بہرہ وَر ہوسکیں؟ اور جنت میں داخلے کے اور جہنم سے آزادی کے مستحق ہوسکیں؟
اللہ کے نیک بندے اس کا استقبال اس طرح کرتے ہیں کہ غفلت کے پردے چاک کر دیتے ہیں اور بارگاہِ الٰہی میں توبہ و استغفار کے ساتھ یہ عزمِ صادق کرتے ہیں کہ اللہ نے انہیں اس ماہِ مبارک کی عظمتوں اور سعادتوں سے ایک مرتبہ پھر نوازا ہے تو ہم اس موقع کو غنیمت سمجھتے ہوئے اس کی فضیلتیں حاصل کریں گے اور اپنے اوقات کواللہ کی عبادت کرنے، اعمالِ صالحہ بجا لانے او رزیادہ سے زیادہ نیکیاں سمیٹنے میں صرف کریں گے۔ اس لئے ضروری ہے کہ ہم یہ سمجھیں کہ اس مہینے کے کون سے وہ اعمالِ صالحہ ہیں جن کی خصوصی فضیلت اور تاکید بیان کی گئی ہے۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
رمضان المبارک کے خصوصی اَعمال و وظائف

1۔روزہ:
ان میں سب سے اہم عمل، روزہ رکھناہے، نبیﷺ نے فرمایا:
’’کل عمل ابن آدم یضاعف الحسنة عشر أمثالھا إلی سبع مائة ضِعف قال اللہ عزوجل: إلا الصوم فإنہ لی وأنا أجزی بہ یَدَع شھوتہ وطعامہ (وشرابہ) من أجلی، للصائم فرحتان، فرحة عند فطرہ و فرحة عند لقاء ربہ ولَخَلوف فم الصائم أطیب عند اللہ من ریح المسک‘‘ (صحیح بخاری، باب فضل الصوم، رقم :۱۸۹۳، مسلم باب فضل الصیام، رقم ۱۶۳۔۱۶۵، واللفظ لمسلم)
’’انسان جوبھی نیک عمل کرتا ہے، اس کا اجر اسے دس گنا سے لے کر سات سو گنا تک ملتا ہے۔ لیکن روزے کے بابت اللہ عزوجل فرماتا ہے کہ یہ عمل (چونکہ) خالص میرے لئے ہے، اس لئے میں ہی اس کی جزا دوں گا۔ (کیونکہ) روزے دار صرف میری خاطر اپنی جنسی خواہش، کھانااو رپینا چھوڑتا ہے۔ روزے دار ے کے لئے دو خوشیاں ہیں: ایک خوشی اسے روزہ کھولتے وقت حاصل ہوتی ہے اور دوسری خوشی اسے اس وقت حاصل ہوگی جب وہ اپنے رب سے ملے گا اور روزے دار کے منہ کی بو اللہ کے ہاں کستوری کی خوشبو سے زیادہ پاکیزہ ہے‘‘
ایک دوسری روایت میں نبیﷺ نے فرمایا:
’’من قامَ رمضان إیمانا واحتسابا غفرلہ ماتقدم من ذنبہ‘‘ (صحیح بخاری، الصوم، باب من صام رمضان إیمانا واحتسابا ونیۃ رقم:۱۹۰۱)
’’جس نے رمضان کے روزے ایمان کے ساتھ اور ثواب کی نیت سے (یعنی اخلاص سے) رکھے تو اس کے پچھلے گناہ معاف کردیئے جاتے ہیں‘‘
یہ فضیلت اور اجر ِعظیم صرف کھانا پینا چھوڑ دینے سے حاصل نہیں ہوجائے گا، بلکہ اس کا مستحق صرف وہ روزے دار ہوگا جو صحیح معنوں میں روزوں کے تقاضے بھی پورے کرے گا۔ جیسے جھوٹ سے، غیبت سے، بدگوئی اور گالی گلوچ سے، دھوکہ فریب دینے سے اور اس قسم کی تمام بے ہودگیوں اور بدعملیوں سے بھی اجتناب کرے گا۔ اس لئے کہ فرمانِ نبویﷺ ہے:
’’من لم یدَع قول الزور والعمل بہ فلیس للہ حاجة فی أن یدع طعامہ وشرابہ‘‘ (صحیح بخاری: الصوم، باب من لم یدع قول الزور والعمل بہ رقم: ۱۹۰۳)
’’جس نے جھوٹ بولنا اور جھوٹ پر عمل کرنا نہ چھوڑا، تو اللہ تعالیٰ کو کوئی حاجت نہیں کہ یہ شخص اپنا کھانا پینا چھوڑے‘‘
اور فرمایا:
’’الصیام جُنَّة وإذا کان یوم صوم أحدکم فلا یرفث ولا یصخب فإن سابَّہ أحد أو قاتلہ فلیقل إنی امرؤ صائم‘‘ (بخاری، رقم: ۱۹۰۳، مسلم رقم: ۱۱۵۱، باب ۲۹،۳۰)
’’روزہ ایک ڈھال ہے، جب تم میں سے کسی کا روزے کا دن ہو، تو وہ نہ دل لگی کی باتیں کرے اور نہ شورو شغب۔ اگر کوئی اسے گالی دے یا لڑنے کی کوشش کرے تو (اس کو) کہہ دے کہ میں تو روزے دار ہوں‘‘
یعنی جس طرح ڈھال کے ذریعے سے انسان دشمن کے وار سے اپنا بچائو کرتا ہے۔ اسی طرح جو روزے دار روزے کی ڈھال سے اللہ کی نافرمانی اور گناہوں سے بچے گا۔ گویا اس کے لئے ہی یہ روزہ جہنم سے بچائو کے لئے ڈھال ثابت ہوگا۔ اس لئے جب ایک مسلمان روزہ رکھے، تو اس کے کانوں کا بھی روزہ ہو، اس کی آنکھ کا بھی روزہ ہو، اس کی زبان کا بھی روزہ ہو اور اسی طرح اس کے دیگر اعضاء و جوارح کا بھی روزہ ہو۔ یعنی اس کا کوئی بھی عضو اور جز اللہ کی نافرمانی میں استعمال نہ ہو اور اس کی روزے کی حالت اور غیر روزے کی حالت ایک جیسی نہ ہو بلکہ ان دونوں حالتوں اور دنوں میں فرق و امتیاز واضح اور نمایاں ہو۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
2۔قیام اللّیل:
دوسرا عمل قیام اللیل ہے۔ یعنی راتوں کو اللہ کی عبادت اور اس کی بارگاہ میں عجز و نیاز کا اظہار کرنا۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے عباد الرحمن (رحمن کے بندوں) کی جو صفات بیان فرمائی ہیں، ان میں ایک یہ ہے:
’’ وَالَّذِیْنَ یَبِیْتُوْنَ لِرَبِّھِمْ سُجَّدًا وَّقِیٰمًا‘‘ (الفرقان: ۲۵؍۶۳)
’’ان کی راتیں اپنے رب کی سامنے قیام و سجود میں گزرتی ہیں‘‘
اور نبیﷺ نے فرمایا:
’’من قام رمضان إیمانا واحتسابا غفر لہ ما تقدم من ذنبہ‘‘ (صحیح بخاری، صلاۃ التراویح، باب فضل من قام رمضان، رقم :۲۰۰۹، مسلم صلاۃ المسافرین، باب الترغیب فی قیام رمضان وھو التراویح رقم ۷۵۹)
’’جس نے رمضان (کی راتوں) میں قیام کیا،ایمان کی حالت میں، ثوابت کی نیت (اخلاص) سے، تو اس کے پچھلے گناہ معاف کردیئے جائیں گے‘‘
راتوں کا قیام نبیﷺ کا بھی مستقل معمول تھا، صحابہ کرامؓ او رتابعین عظامؒ بھی اس کا خصوصی اہتمام فرماتے تھے اور ہر دور کے اہل علم و صلاح اور اصحاب ِزہد و تقویٰ کا یہ امتیاز رہا ہے۔ خصوصا ً رمضان المبارک میں اس کی بڑی اہمیت اور فضیلت ہے۔ رات کا یہ تیسرا آخری پہر اس لئے بھی بڑی اہمیت رکھتا ہے کہ اس وقت اللہ تعالیٰ ہرروز آسمانِ دنیا پر نزول فرماتا ہے اور اہل دنیا سے خطاب کرکے کہتا ہے:
’’کون ہے جو مجھ سے مانگے، تو میں اس کی دعا قبول کروں؟ کون ہے جو مجھ سے سوال کرے، تو میں اسکو عطا کروں؟ کون ہے جو مجھ سے مغفرت طلب کرے، تو میں اسے بخش دوں؟‘‘
’’ینزل ربّنا تبارک و تعالیٰ کل لیلة إلی سمآء الدنیا حین یبقیٰ ثُلث اللیل الاٰخر، یقول من یدعونی فاستجیب لہ؟ من یسألنی فأعطیہ؟ من یستغفرني فأغفر لہ‘‘ (البخاري، کتاب التھجد، باب الدعاء والصلاۃ من اٰخر اللیل، رقم :۱۱۳۵)
ہر رات رب تعالی آسمان دنیا پر تشریف لاتے ہیں جب رات کاآخری ثلث باقی رہ جاتا ہے۔رب کریم فرماتے ہیں کون ہے جو مجھ سے دعا کرے میں اس کی دعا کو قبول کروں۔کون ہے جو مجھ سے سوال کرے میں اس کو سوال کی ہوئی چیزیں عطا کروں۔کون ہے جو مجھ سے گناہوں کی بخشش طلب کرے میں اس کو معاف کردوں۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
3۔صدقہ و خیرات:
تیسرا عمل صدقہ و خیرات کرنا ہے۔ حضرت ابن عباسؓ فرماتے ہیں
’’کان رسول اللہﷺ أجود الناس بالخیر وکان أجود ما یکون فی شھر رمضان… فإذا لقیہ جبریل کان رسول اللہﷺ أجود بالخیر من الریح المرسلة‘‘ (مسلم، الفضائل، باب ۱۲، رقم: ۲۲۰۸)
’’رسول اللہﷺ بھلائی کے کاموں میں سب سے زیادہ سخاوت کرنے والے تھے اور آپ کی سب سے زیادہ سخاوت رمضان کے مہینے میںہوتی تھی… ا س مہینے میں (قرآن کا دور کرنے کے لئے) آپ سے جب جبریل علیہ السلام ملتے، تو آپ کی سخاوت اتنی زیادہ اور اس طرح عام ہوتی جیسے تیز ہوا ہوتی ہے، بلکہ اس سے بھی زیادہ‘‘
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ رمضان المبارک میں عام دنوں کے مقابلے میں صدقہ و خیرات کا زیادہ اہتمام کرنا چاہئے۔
صدقہ و خیرات کا مطلب ہے، اللہ کی رضا جوئی کے لئے فقراء و مساکین، یتامی و بیوگان اور معاشرے کے معذور اور بے سہارا اَفراد کی ضروریات پر خرچ کرنا اور ان کی خبرگیری کرنا۔ بے لباسوں کو لباس پہنانا، بھوکوں کو غلہ فراہم کرنا، بیماروں کا علاج معالجہ کرنا، یتیموں اور بیواؤوں کی سرپرستی کرنا، معذوروں کا سہارا بننا، مقروضوں کو قرض کے بوجھ سے نجات دلا دینا اور اس طرح کے دیگر افراد کے ساتھ تعاون و ہمدردی کرنا۔

سلف صالحین میں کھانا کھلانے کا ذوق و جذبہ بڑا عام تھا، اور یہ سلسلہ بھوکوں اور تنگ دستوں کو ہی کھلانے تک محدود نہ تھا، بلکہ دوست احباب اور نیک لوگوں کی دعوت کرنے کا بھی شوقِ فراواں تھا، اس لئے کہ اس سے آپس میں پیار و محبت میں اضافہ ہوتا ہے اور نیک لوگوں کی دعائیں حاصل ہوتی ہیں جن سے گھرو ں میں خیر و برکت کا نزول ہوتا ہے۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
4۔ روزے کھلوانا:
ایک عمل روزے کھلوانا ہے۔ نبیﷺ نے فرمایا:
’’من فطَّر صائما کان لہ مثل أجرہ غیر أنہ لاینقص منأجر الصائم شیئا‘‘ (ترمذی، الصوم، باب ماجاء فی فضل من فطّر… رقم ۸۰۷)
’’ جس نے کسی روزے دار کا روزہ کھلوایا، تو اس کو بھی روزے دار کی مثل اجر ملے گا، بغیر اس کے کہ اللہ روزے دار کے اجر میں کوئی کمی کرے‘‘
ایک دوسری حدیث میں فرمایا:
’’من فطَّر صائما أو جھَّز غازیا فلہ مثل أجرہ‘‘ (صحیح الترغیب ۲۸۰۱)
’’جس نے کسی روزے دار کا روزہ کھلوایا یا کسی مجاہد کو تیار کیا (سامانِ حرب دے کر) تو اس کے لئے بھی اس کی مثل اجر ہے‘‘
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
5۔ کثرتِ تلاوت:
قرآنِ کریم کا نزول رمضانُ المبارک میں ہوا، اس لئے قرآنِ کریم کا نہایت گہرا تعلق رمضان المبارک سے ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس ماہِ مبارک میں نبی اکرمﷺحضرت جبریل امین علیہ السلام کے ساتھ قرآنِ کریم کا دور فرمایا کرتے تھے اور صحابہ﷢ و تابعین رح بھی اس ماہ میں کثرت سے قرآنِ کریم کی تلاوت کا اہتمام کرتے تھے، ان میں سے کوئی دس دن میں، کوئی سات دن اور کوئی تین دن میں قرآن ختم کر لیا کرتا تھا اور بعض کی بابت آتا ہے کہ وہ اس سے بھی کم مدت میں قرآن ختم کر لیتے تھے۔ بعض علماء نے کہا ہے کہ
’’حدیث میں تین دن سے کم میں قرآنِ کریم ختم کرنے کی جو ممانعت ہے، اس کا تعلق عام حالات و اَیام سے ہے۔ فضیلت والے اوقات اور فضیلت والے مقامات اس سے مستثنیٰ ہیں۔ یعنی ان اوقات اور مقامات میں تین دن سے کم میں قرآنِ مجید ختم کرنا جائز ہے۔جیسے رمضان المبارک کے شب و روز، بالخصوص شب ِقدر ہے۔ یا جیسے مکہ ہے جہاں حج یا عمرے کی نیت سے کوئی گیا ہو۔ ان اوقات اور جگہوں میں چونکہ انسان ذکر و عبادت کاکثرت سے اہتمام کرتا ہے، اس لئے کثرت ِتلاوت بھی مستحب ہے۔‘‘
تاہم حدیث کے عموم کو ملحوظ رکھنا اور کسی بھی وقت یا جگہ کو اس سے مستثنیٰ نہ کرنا ،زیادہ صحیح ہے، توجہ اور اہتمام سے روزانہ دس پاروں کی تلاوت بھی کافی ہے، باقی اوقات میں انسان دوسری عبادات کااہتمام کرسکتا ہے یا قرآنِ کریم کے مطالب و معانی کے سمجھنے میں صرف کرسکتا ہے۔ کیونکہ جس طرح تلاوت مستحب و مطلوب ہے، اسی طرح قرآن میں تدبر کرنا اور اس کے مطالب و معانی کو سمجھنا بھی پسندیدہ اور امر مؤکد ہے۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
6۔تلاوتِ قرآن میں خوف و بکاء کی مطلوبیت:
قرآنِ کریم کو پڑھتے اور سنتے وقت انسان پر خوف اور رِقت کی کیفیت بھی طاری ہونی چاہئے او ریہ اسی وقت ممکن ہے جب پڑھنے اور سننے والے مطالب و معانی سے بھی واقف ہوں۔ اسی لئے قرآن کو شعروں کی سی تیزی اور روانی سے پڑھنے کی ممانعت ہے، جس کا مطلب یہی ہے کہ قرآن کو محض تاریخ و قصص کی کتاب نہ سمجھا جائے بلکہ اسے کتاب ِہدایت سمجھ کر پڑھا جائے، آیات ِوعد و وعید اور اِنذار و تبشیر پر غور کیا جائے، جہاں اللہ کی رحمت و مغفرت اور اس کی بشارتوں اور نعمتوں کا بیان ہے وہاں اللہ سے ان کا سوال کیا جائے اور جہاں اس کے اِنذار و تخویف اور عذاب و وعید کا تذکرہ ہو، وہاں ان سے پناہ مانگی جائے۔ ہمارے اَسلاف اس طرح غور و تدبر سے قرآن پڑھتے تو ان پر بعض دفعہ ایسی کیفیت اور رِقت طاری ہوتی کہ بار بار وہ ان آیتوں کی تلاوت کرتے اور خوب بارگاہِ الٰہی میں گڑگڑاتے۔اگر سننے والے بھی غور و تدبر سے سنیں تو ان پربھی یہی کیفیت طاری ہوتی ہے۔
حدیث میں آتا ہے کہ ایک مرتبہ نبیﷺ نے حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سے فرمایا:
إقرأ علیَّ ’’مجھے قرآن پڑھ کر سنائو‘‘
حضرت ابن مسعودؓ نے عرض کیا:
’’أقرأ علیک وعلیک اُنْزِل‘‘
’’میں آپ کو پڑھ کر سنائوں؟ حالانکہ آپ پر تو قرآن نازل ہوا ہے‘‘
آپﷺ نے فرمایا:
’’إنی أحبّ أن أسمعہ من غیري‘‘
’’میں اپنے علاوہ کسی اور سے سننا چاہتا ہوں‘‘
چنانچہ حضرت ابن مسعودؓ نے سورۂ نساء پڑھنی شروع کردی۔ جب وہ اس آیت پر پہنچے:
{فَکَیْفَ إِذَا جِئْنَا مِنْ کُلِّ اُمة بِشَھِیْدٍ وَّجِئْنَا بِکَ عَلیٰ ھٰؤُلَائِ شَہِیْدًا} (النساء ۴؍۴۱)
’’اس وقت کیا حال ہوگا جب ہم ہر امت میں سے ایک گواہ حاضر کریں گے اور (اے محمدﷺ!) ان سب پر آپ ؐکو گواہ بنائیں گے۔‘‘
تو آپﷺ نے فرمایا:
’’حسبک‘‘
’’بس کرو‘‘
حضرت ابن مسعودؓ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ کی طرف دیکھا تو آپ کی دونوں آنکھوں سے آنسو جاری تھے۔ (صحیح بخاری: تفسیر سورۃ النسائ، رقم الحدیث، ۴۵۸۲)
نبیﷺ اس طرح غور و تدبر سے قرآن پڑھتے اور اس سے اثر پذیر ہوتے کہ جن سورتوں میں قیامت کی ہولناکیوں کا بیان ہے آپ فرماتے ہیں کہ انہوں نے مجھے بڑھاپے سے پہلے بوڑھا کردیا ہے:
’’شَیَّبَتْنِی ھود وأخواتھا قبل المشیب‘‘ (طبرانی کبیربحوالہ الصحیحۃ، رقم:۹۵۵)
دوسری روایت میں ہے:
’’شیبتنی ھود والواقعة والمرسلات، وعمّ یتساء لون‘‘
’’مجھے سورہ ٔ ہود (اور اس جیسی دوسری سورتوں) سورۂ واقعہ، مرسلات اور ’’عم یتساء لون‘‘ نے بوڑھا کردیا ہے‘‘ (ترمذی بحوالہ صحیح الجامع الصغیر ۱؍۶۹۲)
اللہ کے خوف سے ڈرنا اور رونا، اللہ کو بہت محبوب ہے۔ ایک حدیث میں نبیﷺ نے فرمایا:
’’سات آدمیوں کو قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اپنے سائے میں جگہ عطا فرمائے گا، ان میں ایک وہ شخص ہوگا جس کی آنکھوں سے تنہائی میں اللہ کے ذکر اور اس کی عظمت و ہیبت کے تصور سے آنسو جاری ہوجائیں…
’’رجل ذکراللہ خالیا ففاضت عیناہ‘‘ (صحیح بخاری، الأذان، باب من جلس فی المسجد ینتظر الصلاۃ… رقم: ۶۶۰ و رقم:۶۴۷۹)
ایسا آدمی جو اکیلے میں اللہ کا ذکرکرتا ہے اورخوف الہی میں اس کی آنکھیں بہہ پڑتی ہیں
ایک واقعہ نبیﷺ نے بیان فرمایاکہ
’’پچھلی امتوں میں ایک شخص تھا، اللہ نے اس کو مال و دولت سے نوازا تھا، لیکن وہ سمجھتا تھا کہ میں نے اس کا حق ادا نہیں کیا اور بہت گناہ کئے ہیں۔ چنانچہ موت کے وقت اس نے اپنے بیٹوں کو بلاکر وصیت کی کہ میری لاش جلا کر اس کی راکھ تیز ہوا میں اڑادینا (بعض روایات میں ہے کہ سمندر میں پھینک دینا) چنانچہ اس کے بیٹوں نے ایسا ہی کیا۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے حکم سے اس کے اَجزا کو جمع کیا اور اس سے پوچھا: ’’ تو نے ایسا کیوں کیا؟‘‘ ا س نے کہا صرف تیرے خوف نے مجھے ایسا کرنے پر آمادہ کیا۔ تو اللہ تعالیٰ نے اسے معاف فرما دیا۔ ‘‘ (صحیح بخاری: الرقاق، رقم ۶۴۸۱۔ الانبیائ،رقم: ۳۴۵۲ ۔ ۳۴۷۸۔ ۳۴۷۹)
بہرحال اللہ کا خوف اپنے دل میں پیدا کرنے کی سعی کرنی چاہئے اور اس کا ایک بہترین طریقہ یہ ہے کہ قرآنِ مجید کی تلاوت غور و تدبر سے کی جائے اور اس کے معانی و مطالب کو سمجھا جائے اور اللہ کی عظمت و جلالت کو قلب و ذہن میں مستحضر کیا جائے۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
7۔اِعتکاف:
رمضان کی ایک خصوصی عبادت اعتکاف ہے۔ نبی اکرمﷺ اس کا بھی خصوصی اہتمام فرماتے تھے۔ رمضان کے آخری دس دن، رات دن مسجد کے ایک گوشے میں گزارتے اور دنیوی معمولات اور تعلقات ختم فرما دیتے۔ نبیﷺ اتنی پابندی سے اعتکاف فرماتے تھے کہ ایک مرتبہ آپﷺ اعتکاف نہ بیٹھ سکے، تو آپ نے شوال کے آخری دس دن اعتکاف فرمایا: (صحیح بخاری) اور جس سال آپ کی وفات ہوئی، اس سال آپ نے رمضان میں دس دن کی بجائے ۲۰ دن اعتکاف فرمایا: (صحیح بخاری، الاعتکاف، رقم:۲۰۴۴)
اِعتکاف کے معنی ہیں ’’جھک کر یکسوئی سے بیٹھ رہنا‘‘ اس عبادت میں انسان صحیح معنوں میں سب سے کٹ کر اللہ کے گھر میں یکسو ہو کر بیٹھ جاتاہے۔ا س کی ساری توجہ اس امر پر مرکوز رہتی ہے کہ اللہ مجھ سے راضی ہوجائے۔ چنانچہ وہ اس گوشہ ٔ خلوت میں بیٹھ کر توبہ و استغفار کرتا ہے۔ نوافل پڑھتا ہے، ذکر و تلاوت کرتا ہے۔دعا و التجا کرتا ہے اور یہ سارے ہی کام عبادات ہیں۔ اس اعتبار سے اعتکاف گویا مجموعہ ٔ عبادات ہے۔اس موقع پر اعتکاف کے ضروری مسائل بھی سمجھ لینے مناسب ہیں:
٭ اس کا آغاز۲۰؍ رمضان المبارک کی شام سے ہوتا ہے۔ مُعْتَکِفمغرب سے پہلے مسجد میں آجائے اور صبح فجر کی نماز پڑھ کر مُعْتَکَف (جائے اعتکاف) میں داخل ہو۔
٭ اس میں بلا ضرورت مسجد سے باہر جانے کی اجازت نہیں ہے۔
٭ بیمار کی مزاج پرسی، جنازے میں شرکت اور اس قسم کے دیگر رفاہی اور معاشرتی امور میں حصہ لینے کی اجازت نہیں ہے۔
٭ البتہ بیوی آکر مل سکتی ہے، خاوند کے بالوں میں کنگھی وغیرہ کرسکتی ہے۔ خاوند بھی اسے چھوڑنے کے لئے گھر تک جاسکتا ہے، اسی طرح کوئی انتظام نہ ہو اور گھر بھی قریب ہو تو اپنی ضروریاتِ زندگی لینے کے لئے گھر جاسکتا ہے۔
٭ غسل کرنے اور چارپائی استعمال کرنے کی بھی اجازت ہے۔
٭ اعتکاف جامع مسجد میں کیا جائے، یعنی جہاں جمعہ کی نماز ہوتی ہو۔
٭ عورتیں بھی اعتکاف بیٹھ سکتی ہیں، لیکن ان کے لئے اعتکاف بیٹھنے کی جگہ مساجد ہی ہیں نہ کہ گھر۔ جیسا کہ بعض مذہبی حلقوں میں گھروں میں اعتکاف بیٹھنے کا سلسلہ ہے۔ نبیﷺ کی ازواجِ مطہرات بھی اعتکاف بیٹھتی رہی ہیں اور ان کے خیمے مسجد نبویؐ میں ہی لگتے تھے، جیسا کہ صحیح بخاری میں وضاحت موجود ہے اور قرآنِ کریم کی آیت:{وَاَنْتُمْ عَاکِفُوْنَ فِی الْمَسَاجِدِ} (البقرۃ: ۱۸۷) سے بھی واضح ہے۔

اس لئے عورتوں کا گھروں میں اعتکاف بیٹھنے کا رواج بے اصل اور قرآن و حدیث کی تصریحات کے خلاف ہے۔ تاہم چونکہ یہ نفلی عبادت ہے، بنابریں جب تک کسی مسجد میں عورتوں کے لئے الگ مستقل جگہ نہ ہو، جہاں مردوں کی آمدورفت کا سلسلہ بالکل نہ ہو، اس وقت تک عورتوں کو مسجدوں میں اعتکاف نہیں بیٹھنا چاہئے۔

ایک فقہی اصول ہے
’’درأ المفاسد أولی من جلب المصالح‘‘ ’’یعنی خرابیوں سے بچنا اور ان کے امکانات کو ٹالنا مصالح حاصل کرنے کیبہ نسبت ، زیادہ ضروری ہے۔‘‘
اس لئے جب تک کسی مسجد میں عورت کی عزت و آبرو محفوظ نہ ہو، وہاں اس کے لئے اعتکاف بیٹھنا مناسب نہیں۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
لیلۃ القدر کی تلاش

لیلۃ القدرجس کی یہ فضیلت ہے کہ ایک رات ہزار مہینوں سے بہتر ہے، یہ بھی رمضان کے آخری عشرے کی پانچ طاق راتوں میں سے کوئی ایک رات ہوتی ہے۔ اور اسے مخفی رکھنے میں بھی یہی حکمت معلوم ہوتی ہے کہ ایک مؤمن اس کی فضیلت حاصل کرنے کے لئے پانچوں راتوں میں اللہ کی خوب عبادت کرے۔نبیﷺ نے اس کی فضیلت میں بیان فرمایا ہے:
’’من قام لیلة القدر إیمانا واحتسابا غفر لہ ما تقدم من ذنبہ‘‘ (صحیح بخاری، باب فضل لیلۃ القدر، باب رقم: ۱، رقم:۲۰۱۴)
’’جس نے شب قدر میں قیام کیا (یعنی اللہ کی عبادت کی) اس کے پچھلے گناہ معاف کر دیئے جائیں گے‘‘
اسی طرح نبی ﷺ نے اسے تلاش کرنے کی تاکید بھی فرمائی ہے۔ فرمایا:
’’إنی اُریت لیلة القدر وإنی نَسِیْتُھا (أو اُنْسِیْتُھا) فالتمِسوھا فی العشر الأواخر من کل وتر‘‘ (صحیح مسلم، الصیام، باب فضل لیلۃ القدر والحث علی علیھا… رقم: ۱۱۶۷)
’’مجھے لیلۃ القدردکھائی گئی تھی، لیکن (اب) اسے بھول گیا (یا مجھے بھلا دیا گیا) پس تم اسے رمضان کے آخری دنوں کی طاق راتوں میں تلاش کرو‘‘
یعنی ان طاق راتوں میں خوب اللہ کی عبادت کرو ، تاکہ تم لیلۃ القدر کی فضیلت پاسکو۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
لیلۃ القدر کی خصوصی دعا

حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ سے پوچھا، اگر مجھے معلوم ہو جائے کہ یہ لیلۃ القدر ہے، تو میں کیا پڑھوں؟ آپ ؐ نے فرمایا: یہ دعا پڑھو:
’’اَللّٰھُمَّ اِنَّکَ عَفُوٌّ تُحِبُّ الْعَفْوَ فَاعْفُ عَنِّیْ‘‘ (ترمذی، الدعوات، باب۸۸، رقم: ۳۵۱۳)
’’اے اللہ! تو بہت معاف کرنے والا ہے، معاف کرنا تجھے پسند ہے، پس تو مجھے معاف فرما دے‘‘
 
Top