• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

رمضان میں تراویح پڑھنے کی فضیلت

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الصلوۃ التراویح

باب : رمضان میں تراویح پڑھنے کی فضیلت

حدیث نمبر : 2008
حدثنا يحيى بن بكير، حدثنا الليث، عن عقيل، عن ابن شهاب، قال أخبرني أبو سلمة، أن أبا هريرة ـ رضى الله عنه ـ قال سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول لرمضان ‏"‏من قامه إيمانا واحتسابا غفر له ما تقدم من ذنبه‏"‏‏.
ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا، ان سے عقیل نے، ان سے ابن شہاب نے بیان کیا، کہ مجھے ابوسلمہ نے خبر دی، ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کے فضائل بیان فرما رہے تھے کہ جو شخص بھی اس میں ایمان اور نیت اجر و ثواب کے ساتھ ( رات میں ) نماز کے لیے کھڑا ہو اس کے اگلے تمام گناہ معاف کر دیئے جائیں گے۔

حدیث نمبر : 2009
حدثنا عبد الله بن يوسف، أخبرنا مالك، عن ابن شهاب، عن حميد بن عبد الرحمن، عن أبي هريرة ـ رضى الله عنه ـ أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال ‏"‏من قام رمضان إيمانا واحتسابا غفر له ما تقدم من ذنبه‏"‏‏. ‏ قال ابن شهاب فتوفي رسول الله صلى الله عليه وسلم والأمر على ذلك، ثم كان الأمر على ذلك في خلافة أبي بكر وصدرا من خلافة عمر ـ رضى الله عنهما ـ‏.‏
ہم سے عبداللہ بن یوسف تنیسی نے بیان کیا، کہا کہ ہم کو امام مالک رحمہ اللہ علیہ نے خبر دی، انہیں ابن شہاب نے، انہیں حمید بن عبدالرحمن نے او رانہیں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس نے رمضان کی راتوں میں ( بیدار رہ کر ) نماز تراویح پڑھی، ایمان اور ثواب کی نیت کے ساتھ، اس کے اگلے تمام گناہ معاف ہو جائیں گے۔ ابن شہاب نے بیان کیا کہ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوگئی او رلوگوں کا یہی حال رہا ( الگ الگ اکیلے اور جماعتوں سے تراویح پڑھتے تھے ) اس کے بعد ابوبکر رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں اور عمر رضی اللہ عنہ کے ابتدائی دور خلافت میں بھی ایسا ہی رہا۔

حدیث نمبر : 2010
وعن ابن شهاب، عن عروة بن الزبير، عن عبد الرحمن بن عبد القاري، أنه قال خرجت مع عمر بن الخطاب ـ رضى الله عنه ـ ليلة في رمضان، إلى المسجد، فإذا الناس أوزاع متفرقون يصلي الرجل لنفسه، ويصلي الرجل فيصلي بصلاته الرهط فقال عمر إني أرى لو جمعت هؤلاء على قارئ واحد لكان أمثل‏.‏ ثم عزم فجمعهم على أبى بن كعب، ثم خرجت معه ليلة أخرى، والناس يصلون بصلاة قارئهم، قال عمر نعم البدعة هذه، والتي ينامون عنها أفضل من التي يقومون‏.‏ يريد آخر الليل، وكان الناس يقومون أوله‏.‏
اور ابن شہاب سے ( امام مالک رحمہ اللہ علیہ ) کی روایت ہے، انہوں نے عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہ سے اور انہوں نے عبدالرحمن بن عبدالقاری سے روایت کی کہ انہوں نے بیان کیا ، میں عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے ساتھ رمضان کی ایک رات کو مسجد میں گیا۔ سب لوگ متفرق اور منتشر تھے، کوئی اکیلا نماز پڑھ رہا تھا، اور کچھ کسی کے پیچھے کھڑے ہوئے تھے۔ اس پر عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا، میرا خیال ہے کہ اگر میں تمام لوگوں کو ایک قاری کے پیچھے جمع کر دوں تو زیادہ اچھا ہوگا، چنانچہ آپ نے یہی ٹھان کر ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کو ان کا امام بنادیا۔ پھر ایک رات جو میں ان کے ساتھ نکلا تو دیکھا کہ لوگ اپنے امام کے پیچھے نماز ( تراویح ) پڑھ رہے ہیں۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا، یہ نیا طریقہ بہتر اور مناسب ہے اور ( رات کا ) وہ حصہ جس میں یہ لوگ سو جاتے ہیں اس حصہ سے بہتر اور افضل ہے جس میں یہ نماز پڑھتے ہیں۔ آپ کی مراد رات کے آخری حصہ ( کی فضیلت ) سے تھی کیوں کہ لوگ یہ نماز رات کے شروع ہی میں پڑھ لیتے تھے۔

حدیث نمبر : 2011
حدثنا إسماعيل، قال حدثني مالك، عن ابن شهاب، عن عروة بن الزبير، عن عائشة، رضى الله عنها زوج النبي صلى الله عليه وسلم أن رسول الله صلى الله عليه وسلم صلى وذلك في رمضان‏.
ہم سے اسماعیل بن اویس نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے امام مالک نے بیان کیا، ان سے ابن شہاب نے، ان سے عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہ نے اور ان سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ مطہرہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بار نماز ( تراویح ) پڑھی اور یہ رمضان میں ہوا تھا۔
حدیث نمبر : 2012
حدثنا يحيى بن بكير، حدثنا الليث، عن عقيل، عن ابن شهاب، أخبرني عروة، أن عائشة ـ رضى الله عنها ـ أخبرته أن رسول الله صلى الله عليه وسلم خرج ليلة من جوف الليل، فصلى في المسجد، وصلى رجال بصلاته، فأصبح الناس فتحدثوا، فاجتمع أكثر منهم، فصلوا معه، فأصبح الناس فتحدثوا، فكثر أهل المسجد من الليلة الثالثة، فخرج رسول الله صلى الله عليه وسلم فصلى، فصلوا بصلاته، فلما كانت الليلة الرابعة عجز المسجد عن أهله، حتى خرج لصلاة الصبح، فلما قضى الفجر أقبل على الناس، فتشهد ثم قال ‏"‏أما بعد، فإنه لم يخف على مكانكم، ولكني خشيت أن تفترض عليكم فتعجزوا عنها‏"‏‏. ‏ فتوفي رسول الله صلى الله عليه وسلم والأمر على ذلك
او رہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا، ان سے عقیل نے، ان سے ابن شہاب نے، انہیں عروہ نے خبردی او رانہیں عائشہ رضی اللہ عنہا نے خبر دی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک مرتبہ ( رمضان کی ) نصف شب میں مسجد تشریف لے گئے اور وہاں تراویح کی نماز پڑھی۔ کچھ صحابہ رضی اللہ عنہم بھی آپ کے ساتھ نماز میں شریک ہوگئے۔ صبح ہوئی تو انہوں نے اس کا چرچا کیا۔ چنانچہ دوسری رات میں لوگ پہلے سے بھی زیادہ جمع ہو گئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھی۔ دوسری صبح کو اور زیادہ چرچا ہوا اور تیسری رات اس سے بھی زیادہ لوگ جمع ہو گئے۔ آپ نے ( اس رات بھی ) نماز پڑھی اور لوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتداءکی۔ چوتھی رات کو یہ عالم تھا کہ مسجد میں نماز پڑھنے آنے والوں کے لیے جگہ بھی باقی نہیں رہی تھیں۔ ( لیکن اس رات آپ برآمد ہی نہیں ہوئے ) بلکہ صبح کی نماز کے لیے باہر تشریف لائے۔ جب نماز پڑھ لی تو لوگوں کی طرف متوجہ ہو کر شہادت کے بعد فرمایا۔ اما بعد ! تمہارے یہاں جمع ہونے کا مجھے علم تھا، لیکن مجھے خوف اس کا ہوا کہ کہیں یہ نماز تم پر فرض نہ کر دی جائے اور پھر تم اس کی ادائیگی سے عاجز ہو جاؤ، چنانچہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی تو یہی کیفیت قائم رہی۔

حدیث نمبر : 2013
حدثنا إسماعيل، قال حدثني مالك، عن سعيد المقبري، عن أبي سلمة بن عبد الرحمن، أنه سأل عائشة ـ رضى الله عنها ـ كيف كانت صلاة رسول الله صلى الله عليه وسلم في رمضان فقالت ما كان يزيد في رمضان، ولا في غيرها على إحدى عشرة ركعة، يصلي أربعا فلا تسل عن حسنهن وطولهن، ثم يصلي أربعا فلا تسل عن حسنهن وطولهن، ثم يصلي ثلاثا‏.‏ فقلت يا رسول الله، أتنام قبل أن توتر قال ‏"‏يا عائشة إن عينى تنامان ولا ينام قلبي‏"‏‏. ‏
ہم سے اسماعیل بن ابی اویس نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے امام مالک رحمہ اللہ علیہ نے بیان کیا، ان سے سعید مقبری نے، ان سے ابوسلمہ بن عبدالرحمن نے کہ انہوں نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ( تراویح یا تہجد کی نماز ) رمضان میں کتنی رکعتیں پڑھتے تھے؟ تو انہوں نے بتلایا کہ رمضان ہو یا کوئی اور مہینہ آپ گیارہ رکعتوں سے زیادہ نہیں پڑھتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پہلی چار رکعت پڑھتے، تم ان کے حسن و خوبی اور طول کا حال نہ پوچھو، پھر چار رکعت پڑھتے، ان کے بھی حسن و خوبی اور طول کا حال نہ پوچھو، آخر میں تین رکعت ( وتر ) پڑھتے تھے۔ میں نے ایک بار پوچھا، یا رسول اللہ ! کیا اپ وتر پڑھنے سے پہلے سو جاتے ہیں؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، عائشہ ! میری آنکھیںسوتی ہیں لیکن میرا دل نہیں سوتا۔

تشریح : حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : والتراویح جمع ترویحۃ و ہی المرۃ الواحدۃ من الراحۃ کالتسلیمۃ من السلام سمیت الصلوۃ فی الجماعۃ فی لیالی رمضان التراویح لانہم اول ما اجتمعوا علیہا کانوا یستریحون بین کل تسلیمتین و قد عقد محمد بن نصر فی قیام اللیل بابین لمن استحب التطوع لنفسہ بین کل ترویحتین و لمن کرہ ذلک و حکی فیہ عن یحییٰ بن بکیر عن اللیث انہم کانوا یسترحون قدرمایصلی الرجل کذا کذا رکعۃ۔ ( فتح )

خلاصہ مطلب یہ ہے کہ تراویح ترویحۃ کی جمع ہے جو راحت سے مشتق ہے جیسے تسلیمۃ سلام سے مشتق ہے۔ رمضان کی راتوں میں جماعت سے نفل نماز پڑھنے کو تراویح کہا گیا، اس لیے کہ وہ شروع میں ہردورکعتوں کے درمیان تھوڑا سا آرام کیا کرتے تھے۔ علامہ محمدبن نصر نے قیام اللیل میں دوباب منعقد کئے ہیں۔ ایک ان کے متعلق جو اس راحت کو مستحب گردانتے ہیں۔ اورایک ان کے متعلق جو اس راحت کو اچھا نہیں جانتے۔ اور اس بارے میں یحییٰ بن بکیر نے لیث سے نقل کیا ہے کہ وہ اتنی اتنی رکعات کی ادائیگی کے بعد تھوڑی دیرآرام کیا کرتے تھے۔ اسی لیے اسے نمازتراویح سے موسوم کیا گیا۔
حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ یہاں اس بارے میں پہلے اس نماز کی فضیلت سے متعلق حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت لائے، پھر حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی دوسری روایت کے ساتھ حضرت ابن شہاب کی تشریح لائے جس میں اس نماز کا باجماعت ادا کیا جانا اوراس بارے میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا اقدام مذکور ہے۔ پھر حضرت امام رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی احادیث سے یہ ثابت فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اس نماز کو تین راتوں تک باجماعت ادا فرماکر اس امت کے لیے مسنون قرار دیا۔ اس کے بعد اس کی تعداد کے بارے میں خود حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی زبان مبارک سے یہ نقل فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم رمضان یا غیررمضان میں اس نماز کو گیارہ رکعتوں کی تعداد میں پڑھا کرتے تھے۔ رمضان میں یہی نماز تراویح کے نام سے موسوم ہوئی اور غیررمضان میں تہجد کے نام سے، اور اس میں آٹھ رکعت سنت اور تین وتر۔ اس طرح کل گیارہ رکعتیں ہوا کرتی تھیں۔ حضرت حائشہ رضی اللہ عنہا کی زبان مبارک سے یہ ایسی قطعی وضاحت ہے جس کی کوئی بھی تاویل یاتردید نہیں کی جاسکتی، اسی کی بناپر جماعت اہل حدیث کے نزدیک تراویح کی آٹھ رکعات سنت تسلیم کی گئی ہیں، جس کی تفصیل پارہ سوم میں ملاحظہ ہو۔

عجیب دلیری :
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی یہ حدیث اورموطا امام مالک میں یہ وضاحت کہ حضرت عمررضی اللہ عنہ نے حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کی اقتدا ءمیں مسلمانوں کی جماعت قائم فرمائی اورانھوں نے سنت نبوی کے مطابق یہ نماز گیارہ رکعتوں میں ادا فرمائی تھی۔ اس کے باوجود علمائے احناف کی دلیری اورجرات قابل دادا ہے، جوآٹھ رکعات تراویح کے نہ صرف منکر بلکہ اسے ناجائز اوربدعت قراردینے سے بھی نہیں چوکتے۔ اورتقریباً ہرسال ان کی طرف سے آٹھ رکعات تراویح والوں کے خلاف اشتہارات، پوسٹر، کتابچے شائع ہوتے رہتے ہیں۔
ہمارے سامنے دیوبند سے شائع شدہ بخاری شریف کا ترجمہ تفہیم البخاری کے نام سے رکھا ہواہے۔ اس کے مترجم وشارح صاحب بڑی دلیری کے ساتھ تحریر فرماتے ہیں :
”جولوگ صرف آٹھ رکعات تراویح پراکتفا کرتے اور سنت پرعمل کا دعویٰ کرتے ہیں وہ درحقیقت سواداعظم سے شذوذ اختیار کرتے ہیں اور ساری امت پر بدعت کا الزام لگاکر خود اپنے پر ظلم کرتے ہیں۔ “ ( تفہیم البخاری، پ8ص : 30 )

یہاں علامہ مترجم صاحب دعویٰ فرمارہے ہیں کہ بیس رکعات تراویح سواداعظم کا عمل ہے۔ آٹھ رکعات پر اکتفا کرنے والوں کا دعویٰ سنت غلط ہے۔ جذبہ حمایت میں انسان کتنا بہک سکتاہے یہاں یہ نمونہ نظر آرہاہے۔ یہی حضرت آگے خود اپنی اسی کتاب میں خود اپنے ہی قلم سے خود اپنی ہی تردید فرمارہے ہیں۔ چنانچہ آپ فرماتے ہیں :
”ابن عباس رضی اللہ عنہما کی روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان میں بیس رکعات پڑھتے تھے، اوروتر اس کے علاوہ ہوتے تھے۔ عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث اس سے مختلف ہے بہرحال دونوں احادیث پر ائمہ کا عمل ہے۔ امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کا مسلک بیس رکعات تراویح کا ہے اورامام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کا گیارہ رکعات والی روایت پر عمل ہے۔ “ ( تفہیم البخاری، پ8، ص : 31 )

اس بیان سے موصوف کے پیچھے کے بیان کی تردید جن واضح لفظوں میں ہورہی ہے وہ سورج کی طرح عیاں ہے جس سے معلوم ہوا کہ آٹھ رکعات پڑھنے والے بھی حق بجانب ہیں اور بیس رکعات پر سواداعظم کے عمل کا دعویٰ صحیح نہیں ہے۔
حدیث ابن عباس رضی اللہ عنہما جس کی طرف مترجم صاحب نے اشارہ فرمایاہے یہ حدیث سنن کبریٰ بیہقی ص496، جلد2 پر بایں الفاظ مروی ہے : عن ابن عباس قال کان النبی صلی اللہ علیہ وسلم یصلی فی شہررمضان فی غیرجماعۃ بعشرین رکعۃ والوتر تفردبہ ابوشبیۃ ابراہیم بن عثمان العبسی الکوفی وہوضعیف۔ یعنی حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم رمضان میں جماعت کے بغیر بیس رکعات اوروتر پڑھا کرتے تھے۔ اس بیان میں راوی ابوشیبہ ابراہیم بن عثمان عبسی کوفی تنہا ہے اوروہ ضعیف ہے۔ لہٰذا یہ روایت حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت کے مقابلہ پر ہرگز قابل حجت نہیں ہے۔ امام سیوطی رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث کی بابت فرماتے ہیں : ہذا الحدیث ضعیف جدا لاتقوم بہ الحجۃ۔ ( المصابیح للسیوطی )

آگے علامہ سیوطی رحمۃ اللہ علیہ ابوشیبہ مذکورپر محدثین کبار کی جرحیں نقل فرماکر لکھتے ہیں : ومن اتفق ہولاءالائمۃ علی تضعیفہ لایحل الاحتجاج بحدیثہ یعنی جس شخص کی تضعیف پر یہ تمام ائمہ حدیث متفق ہوں اس کی حدیث سے حجت پکڑنا حلال نہیں ہے۔ علامہ ابن حجررحمۃ اللہ علیہ نے بھی ایسا ہی لکھاہے۔ علامہ زیلعی حنفی لکھتے ہیں : وہومعلول بابی شیبۃ ابراہیم بن عثمان جدا لامام ابی بکر بن ابی شیبۃ و ہومتفق علی ضعفہ ولینہ ابن عدی فی الکامل ثم انہ مخالف للحدیث الصحیح عن ابی سلمۃ بن عبدالرحمن انہ سال عائشۃ الحدیث ( نصب الرایہ، ص493 ) یعنی ابوشیبہ کی وجہ سے یہ حدیث معلول ضعیف ہے ۔ اوراس کے ضعف پر سب محدثین کرام کا اتفاق ہے۔ اورابن عدی نے اسے لین کہاہے۔ اوریہ حدیث حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث جو صحیح ہے، اس کے بھی خلاف ہے۔ لہٰذا یہ قابل قبول نہیں ہے۔ علامہ ابن ہمام حنفی رحمۃ اللہ علیہ نے فتح القدیر جلداول، ص333 طبع مصر پر بھی ایسا ہی لکھاہے۔ اورعلامہ عینی رحمۃ اللہ علیہ حنفی نے عمدۃ القاری، طبع مصر، ص359، جلد5 پر بھی یہی لکھاہے۔

علامہ سندھی حنفی نے بھی اپنی شرح ترمذی، ص : 423، جلداوّل میں یہی لکھاہے۔ اسی لیے مولانا انورشاہ صاحب کشمیری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : واما النبی صلی اللہ علیہ وسلم فصح عنہ ثمان رکعات واماعشرون رکعۃ فہوعنہ بسند ضعیف وعلی ضعفہ اتفاق۔ ( العرف الشذی ) یعنی نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے تراویح کی آٹھ ہی رکعات صحیح سند سے ثابت ہیں۔ بیس رکعات والی روایت کی سند ضعیف ہے جس کے ضعف پر سب کا اتفاق ہے۔

اوجزالمسالک، جلداول، ص : 3 پر حضرت مولانا زکریا کاندھلوی حنفی لکھتے ہیں : لاشک فی ان تحدیدالتراویح فی عشرین رکعۃ لم یثبت مرفوعاً عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم بطریق صحیح علی اصول المحدثین وماورد فیہ من روایۃ ابن عباس فمتکلم فیہا علی اصولہم انتہی۔ یعنی اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ تراویح کی بیس رکعتوں کی تحدید تعیین نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اصول محدثین کے طریق پر ثابت نہیں ہے۔ اورجو روایت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے بیس رکعات کے متعلق مروی ہے وہ باصول محدثین مجروح اورضعیف ہے۔

یہ تفصیل اس لیے دی گئی تاکہ علمائے احناف کے دعویٰ بیس رکعات تراویح کی سنّیت کی حقیقت خود علمائے محققین احناف ہی کی قلم سے ظاہر ہوجائے۔ باقی تفصیل مزید کے لیے ہمارے استاذ العلماءحضرت مولانانذیراحمد صاحب رحمانی رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب مستطاب ”انوارالمصابیح“ کا مطالعہ کیا جائے جو اس موضوع کے مالہ وماعلیہ پر اس قدر جامع مدلل کتاب ہے کہ اب اس کی نظیر ممکن نہیں۔ جزی اللہ عناخیرالجزاءوغفراللہ لہ آمین۔
 
Top