• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

رواداری اور خود داری

رانا ابوبکر

رکن نگران سیکشن
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 24، 2011
پیغامات
2,075
ری ایکشن اسکور
3,040
پوائنٹ
432
[FONT=&quot] [/FONT]​
[FONT=&quot]رواداری اور خود داری[/FONT][FONT=&quot] [/FONT][FONT=&quot]
[/FONT]​
[FONT=&quot])[/FONT][FONT=&quot]حامدكمال الدي[/FONT])[FONT=&quot]
[/FONT]

[FONT=&quot]
معاشرے پر اپنا بہترین تاثر قائم کرنا دین کے داعیوں کی ایک بڑی ضرورت ہے۔
جاہلیت کے ساتھ اس جنگ میں صرف ایک دبنگ اور دو ٹوک رویہ ہی ضروری نہیں بلکہ سمجھدار اور زیرک اور زمانہ فہم ہو کر دکھانا بھی داعیان توحید پر لازم ہے۔ باطل کو کوئی چھوٹ دینا جس قدر غلط ہے اتنا ہی غلط یہ ہے کہ اس کو اپنی کسی غلطی یا کمزوری کا فائدہ اٹھانے دیا جائے۔ جاہلیت کے قائم کردہ تاثرات کو بے حقیقت کرنا ایک بڑا چیلنج ہے۔ خود داری موحدین کا ایک بڑا ہتھیار ہے۔
×××××××××××××××
اہل توحید مردم بیزار لوگ نہیں انسان دوست ہوتے ہیں۔ لوگوں سے بے پناہ محبت کرتے ہیں۔ ہر ایک سے ہمدردی رکھتے ہیں۔ معاشرے میں مکارم اخلاق کی تکمیل ان کا ایک بڑا ہدف ہوتا ہے۔ اچھا اور معقول نظر آنا اہل توحید کے ہاں بے انتہا مطلوب ہے۔ بلکہ یہ کسی بھی اور انسان سے بڑھ کر ایک موحد کا مطمح نظر ہوتا ہے۔ لوگوں میں قابل قبول ہونا اور دلوں میں پذیرائی پانا ایک موحد کو بھی بھلا لگتا ہے اور لگنا چاہیے کہ یہ ایک نارمل انسان کی نشانی ہے اور موحدین اپنے دور کے بہترین اور متوازن ترین انسان ہوا کرتے ہیں۔ خدا اور بندوں کے حقوق میں توازن رکھنا ایک موحد کو ہی میسر ہے۔
’مذہبی تشدد‘ اور ’زاویہ نشینی‘ ضرور کچھ لوگوں کے حق میں ایک نفسیاتی عارضہ (فيزيكالوجيكل سم[/FONT][FONT=&quot]پٹ[/FONT][FONT=&quot]م) ہوگی مگر توحید پر ابراہیم کی طرح چلنے والے اور محمد کی طرح اصرا رکرنے والے نہ تو تشدد سے کوئی سروکار رکھتے ہیں اور نہ زاویہ نشینی سے کوئی مطلب۔ یہ معاشرے کے عین گھمسان میں رہنے والے لوگ ہوتے ہیں۔ البتہ یہ فکر اور ثقافت کے معاملے میں بہت خوددار واقع ہوئے ہیں۔ یہ معاشرے سے لینے سے زیادہ معاشرے کو دینے پر یقین رکھتے ہیں۔ یہ معاشرے سے ہی سب کچھ لیں تو پھر وحی کا کیا مصرف رہ جاتا ہے۔ حق کے معاملے میں یہ معاشرے کی طرف نہیں دیکھتے، اس کیلئے ان کی نگاہیں بس آسمان کی طرف ہی اٹھتی ہیں (قد نری تقلب وجھک فی السماء!) یہ فرق ان میں اور معاشرے کے عام لوگوں میں ضرور ہے حق کے معاملے میں یہ معاشرے سے یا معاشرے کے کسی طبقے سے نہیں خود حق ہی سے متاثر ہوتے ہیں۔ یوں کہیے اس لحاظ سے یہ کسی اور دُنیا کے لوگ ہوتے ہیں نہ تو ’مذہبی دینداری‘ اور نہ بے دین ’دنیا داری‘ ان کو کسی پر قیاس نہیں کیا جا سکتا۔
عقل وانصاف پسندی اہل توحید کا مسلک ہے کہ اسی کی بدولت یہ خدا تک پہنچتے ہیں۔ خودداری، رحمدلی، نرم خوئی، انسان دوستی اور عزت نفس ان میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوتی ہے۔ لوگوں میں معقول نظر آنا ان کو واقعتا اور بے انتہا عزیز ہوتا ہے مگر ان کا مسئلہ یہ ہے کہ معقولیت کے معیار یہ ماحول سے یا میڈیا سے یا درسی کتابوں سے نہیں بلکہ اس کیلئے یہ ایک بہترین مصدر تک رسائی رکھتے ہیں۔ معقولیت کا معیار یہ انبیاءورسل سے لیتے ہیں کہ وہی ان کی نظر میں یہ حیثیت رکھتے ہیں کہ انسانیت ان سے اپنے لئے عزت وذلت اور کمتری و برتری کے معیار لے۔ پھر لوگوں میں اچھا اور قابل قبول نظر آنے کی اس خواہش کو، اپنی اور بہت سی جائز خواہشات کی طرح، ضرورت پڑنے پر، یہ اپنے معبود برحق کی خواہش پر قربان کر دینے سے بھی دریغ نہیں کرتے۔ کہ اس کا عوض ان کو اس سے بھی عزیز ہے جو کہ معبود برحق کی خوشی ہے .... اور اُس کی خوشی سے بڑھ کر ان کیلئے دُنیا میں تو کیا آخرت میں کوئی انعام نہیں۔
چنانچہ مسئلہ کسی موقف کی معقولیت کا نہیں۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ کسی موقف کی معقولیت کا تعین کون کرے کیا اللہ اور اس کی کتاب اور اس کا رسول یا پھر معاشرہ کے رحجان ساز (ملا) اور ماحول کے صورت گر!؟
ایک موحد اپنے عقل وشعور کی سب سے بڑھ کر قدر کرتا ہے۔ کیونکہ وہ اپنی عقل اور خرد انسانوں کی اس محدود تعداد کے ہاں گروی رکھ آنے پر تیار نہیں ہوتا جن کے ہاں سے پورے معاشرے کیلئے رواج اور رحجانات ([/FONT][FONT=&quot]ٹ[/FONT][FONT=&quot]رين[/FONT][FONT=&quot]ڈ[/FONT][FONT=&quot]ز) صادر ہوتے ہیں۔ لوگوں کے ہاں معقولیت کا معیار یہ ہے کہ وہی کریں جومعاشرے کی فکری قیادت ان سے کروانا چاہے اور ویسے ہی سوچیں جیسے سوچنا قوم کی اعلیٰ کلاس (ايلائي[/FONT][FONT=&quot]ٹ[/FONT][FONT=&quot]) ان کیلئے مقرر ٹھہرا دے۔ کسی چیز، کسی رویے، کسی عقیدے یا کسی طریقے کے بارے میں جو ’تاثر‘ قوم کے اعلیٰ طبقوں میں قائم ہو جائے وہی ’تاثر‘ اس چیز یا اس رویے یا اس عقیدے یا اس طریقے کی بابت ’حقائق‘ کا درجہ رکھنے لگتا ہے بلکہ ’مسلمات‘ کا رتبہ پا لیتا ہے۔ اس کے نتیجے میں پورے معاشرے کی سوچ اس تھوڑی تعداد کے زیرقبضہ ہو جاتی ہے اور ایک میکانکی انداز میں پوری قوم کے خیالات اور تصورات اسی تھوڑی تعداد کے انداز فکر کا چربہ بن جاتے ہیں۔ یہاں تک کہ لوگ دوسروں کی عقل سے سوچنا اور دوسروں کے انداز فکر سے استدلال کرنا فخر کی بات جانتے ہیں۔ نہ صرف یہ بلکہ جو اپنی عقل کسی دوسرے کے پاس یوں گروی نہ رکھے اسے کم عقل اور پسماندہ بھی جانتے ہیں! پھر ایک موحد جب اس صورتحال کوچیلنج کرتا ہے، اقول ما قال الناس کا مسلک چھوڑنے کا مطالبہ کرتا ہے اور معاشرے میں قائم تاثرات و رحجانات کا پردہ ہٹا کر حقائق کو سورج کی روشنی میں دیکھنے اور دکھانے پر اصرار کرتا ہے تو لوگوں کو وہ ایک انہونی مخلوق لگتا ہے!
معاشرے کی اصطلاحات اور نفسیات کے پیچھے ہمیشہ چند ہی لوگ بول رہے ہوتے ہیں اور عام لوگ تو، حتی کہ پڑے لکھے بھی، محض رٹی رٹائی باتیں دہراتے ہیں۔ اس امر کا پردہ محض ایک موحد چاک کرتا ہے۔
مگر اس مسئلے کی سنگینی یہیں ختم نہیں ہو جاتی۔
کسی قوم میں اشیاءکی بابت جو ’تاثرات‘ قائم کر دیئے جاتے ہیں اور دین اور دنیا کے امور کو دیکھنے اور جانچنے کیلئے جو زاویہ ہائے نگاہ متعین کر دیے جاتے ہیں .... ان ’تاثرات‘ اور ’رحجانات‘ کا ایک زبردست تقدس بھی ساتھ قائم نہ کردیا جائے تو لوگوں کے دل ودماغ انسانوں کی اس محدود تعداد کے قبضہ میں پوری طرح آجانے پر آمادہ نہیں ہوتے اور کوئی بھی چھوٹا موٹا دھچکا صورتحال کو بدل سکتا ہے۔ سو یہ نہایت ضروری سمجھا جاتا ہے کہ رواج سے بغاوت اور عرف عام سے نکل جانے کا ذہنوں میں ساتھ ہی ایک ہوا کھڑا کر دیا جائے اور یوں معاشرے کی ڈگر سے ہٹ کر سوچنا خود بخود ایک ناروا اور باغیانہ بلکہ ’جاہلانہ‘ حرکت باور ہو۔
اب یہ جس کو معاشرہ خود سری کہتا ہے اگر عقل اور خرد پر قائم ہے اور وحی کی اتباع ہے تو وہ خود سری نہیں عین خود داری ہے۔ اگر یہ کوئی ’بغاوت‘ ہے تو ہرگز بے جانہیں۔ یہ اگر کچھ پس پردہ ہستیوں کے فکری اور تہذیبی اقتدار سے خروج ہے تو ایک اعلیٰ ہستی کی اطاعت بھی ہے۔ یہ انسان کی عظمت ہے، بے شک معاشرہ اسے اس بات پر داد نہ دے اور اگرچہ معاشرہ اسے اس بات پر ازکار رفتہ انسان جانے یا اس کے اس رویہ کو ’اساطیر الاولین‘ سمجھے۔ ایک چیز اگر قوم کے اعلیٰ طبقے میں ستائش نہیں پاتی مگر وہ خدا کے ہاں سے نازل ہوئی ہے اور رسولوں نے اس بات کی تعلیم دے رکھی ہے تو وہ پورے معاشرے سے اور معاشرے کی رحجان ساز قیادت سے برتر اور مقدس ہے۔ اتباع اس کی ہونی چاہیے نہ کہ معاشرے کی یا معاشرے میں مقبول کسی فکری فیشن کی۔
ایک چیز کیلئے معاشرے میں کیا اصطلاح رائج ہے، حق کی کسی بات پر کسی خاص طبقے کے ہاں کیا فقرہ چست کیا جاتا ہے، اسلام میں ثابت شدہ ایک حقیقت کو کسی خاص حلقے میں کس نظر سے دیکھا جاتا ہے، اللہ کے نازل کئے ہوئے کسی حکم یا کسی عقیدے کی بابت ذرائع ابلاغ میں کیا ’تاثر‘ قائم ہے یا شریعت کی کسی بات کو اپنے یہاں کے اعلیٰ تعلیم یافتہ کس طرح لیں گے اور کتنے تعجب سے دیکھیں گے .... ایک مسلمان موحد کے پریشان ہونے کی بات سرے سے ہے نہیں۔ اس کے توجہ کرنے کی اصل بات یہ ہے کہ کسی معاملے میں خدا نے کیا کہا ہے اور اس کے رسول نے کیا کہا ہے۔ عقل سلیم جب حق کیلئے پیاسی ہو تو اس کی پیاس صرف اللہ اور اس کے رسول کی بات سے بجھتی ہے کہ یہی دانائی کا اصل منبع ہے اور اس سے متصادم ہر بات جہالت۔
×××××××××××××××
مذہبی طبقوں نے اپنا نقصان کرنے میں یوں تو خود بھی کوئی کمی نہیں چھوڑی مگر مذہبی طبقوں کے بارے میں جاہلیت کے پھیلائے ہوئے بعض تاثرات بھی کسی زہر سے کم نہیں۔ بہت سے زہریلے تاثرات ایسے ہیں جومعاشرے کے عام لوگوں خصوصاً پڑھے لکھوں کی نفسیات میں گہرے چلے گئے ہیں اور اب بعض الفاظ اور تعبیرات ان کیلئے کچھ ایسی ڈرائونی صورت اختیار کر گئی ہیں کہ وہ دین کے بعض جلی حقائق کو دیکھنے اور پڑھنے تک کے روادار نہ ہوں۔ مختلف عوامل نے ان کی نظر میں یہ بات شدید حد تک معیوب بنا دی ہے۔ دین کے بعض امور بلکہ بعض مسلمات تک کی بابت معاشرے میں اخبارات کے ذریعے، تقریبات کے ذریعے اور تعلیمی نصابوں کے ذریعے اور دھڑا دھڑ بیانات کے ذریعے لوگوں کا کچھ ایسا رحجان بنا دیا جاتا ہے کہ لوگ ایک چیز کو دیکھے اور پڑھے بغیر بس دقیانوسی جانیں۔ ایک چیز کے بارے میں ان کا ذہن کچھ اس انداز سے بنا دیا گیا ہوتا ہے کہ اس پر وہ ایک خودکار اور میکانکی ردعمل کیلئے بلکہ عمل سے پہلے ردعمل کیلئے تیار ہوں۔ لوگ اس چیز کو گویا دیکھنے سے پہلے جانتے اور پڑھنے سے پہلے مسترد کر چکے ہوتے ہیں!
بہت سے مذہبی طبقے جاہلیت کی اس چال سے واقف نہیں مگر جاہلیت ان کو اپنے اس ڈھنگ پر لے آنے میں واقعتا یہ تدبیر چلتی ہے اور عموماً اس میں کامیاب رہتی ہے۔ وہ ’برائیاں‘ جو مذہبی طبقے میں پائی جاتی ہیں پھر بھی اس طریقے سے ختم نہیں ہوتیں، کہ معاملے کا علاج بہت اوپر اوپر سے کیا گیا ہوتا ہے اور پھر ان برائیوں ___ مانند فرقہ واریت، گروہ بندی، تشدد پسندی، مناظرہ بازی، مذہبی جنونیت، تبادلہ فتویٰ جات، مسلکی محاذ آرائی وغیرہ وغیرہ ___ کا واقعی علاج کر دینا تو خیر مقصد ہی کس کا ہوتا ہے، نہ یہ ان مذہبی طبقوں کا اصل ہدف اور نہ قوم کی اشرافیہ کی اصل غایت .... کہ اس تفرقہ سے سب کا کام چلتا ہے ان مذہبی تنازعات سے نہ صرف کچھ مذہبی پیشہ وروں کا مذہبی اور سیاسی فائدہ ہوتا ہے بلکہ اس کی آڑ میں ہماری اشرافیہ (ايلائي[/FONT][FONT=&quot]ٹ[/FONT][FONT=&quot]) بھی خوب موج کرتی ہے۔ ہماری اشرافیہ کیلئے یہ ایک تیر سے دو شکار کرنے کے مترادف ہے۔ پڑھے لکھوں کے ہاں یہ مذہبی طبقے آپ سے آپ برے بھی پڑے جو کہ اشرافیہ کا ایک بڑا مقصد ہے۔ اور یہ مذہبی طبقے آپس میں گتھم گتھا بھی رہے اور اشرافیہ کے فکری اور ثقافتی اقتدار کیلئے کوئی بڑا چیلنج بھی نہ بن سکے جو کہ اشرافیہ کا ایک اور بڑا مقصد ہے۔
چنانچہ وہ بُرائیاں جو بعض مذہبی طبقوں میں پائی جاتی ہیں اس پراپیگنڈے سے جو ٹی وی ہمارے لئے کردیتا ہے اور اس لیپا پوتی سے جو ہماری قومی تقریبات میں بڑے اہتمام سے کی جاتی ہے .... وہ سب بُرائیاں ان مذہبی طبقوں میں پوری طرح پھر بھی باقی رہتی ہیں۔ نہ صرف باقی رہتی ہیں بلکہ یہ اندر ہی اندر اور بھی پلتی ہیں کہ کسی چیز پر مٹی ڈال دینے کا ہمیشہ یہی نتیجہ ہوا کرتا ہے .... مگر بار بار اوپر سے لیپ کرتے رہنے سے جاہلیت کی معاشرے میں البتہ خوب نبھتی ہے۔
جاہلی قیادتیں آج اسی وجہ سے راج کر رہی ہیں کہ معاشرے میں دین کی بڑی حد تک غلط ترجمانی ہو رہی ہے۔ خود مذہبی طبقے اپنے اوپر سے ’الزامات‘ دھونے کے شدید ضرورت مند کر دیئے گئے ہیں۔ ایک ’الزام‘ دھونے سے ابھی فارغ نہیں ہوتے کہ دس اور دھر دیئے جاتے ہیں۔ بڑی دیر سے مذہبی طبقوں کو ایک ایسی پوزیشن میں کردیا گیا ہے کہ وہ ویسا نظر آنے کی، جیسا ان کو معاشرے کے رحجان ساز دیکھنا چاہتے ہیں، پوری کوشش کریں مگر پھر بھی بات بنتی نہ بنے اور ’اصل‘ اور ’نقل‘ میں فرق پھر بھی باقی رہے! جس چیز کی ترجمانی آج معاشرے میں ایک بڑی سطح پر ہو رہی ہے وہ ’دین‘ سے زیادہ ’مذہب‘ کہلانے کی شاید زیادہ حقدار ہے۔
دین کی معاشرے میں اگر صحیح ترجمانی ہونے لگے اور دین کے حقائق کو، جیسا کہ وہ اللہ کے ہاں سے نازل ہوئے ہیں ایک علمی وموضوعی طریقے [/FONT][FONT=&quot]([/FONT][FONT=&quot]آبجيك[/FONT][FONT=&quot]ٹ[/FONT][FONT=&quot]و ميتھ[/FONT][FONT=&quot]ڈ)[/FONT][FONT=&quot] سے اور ایک بے لاگ انداز میں لینے اور سمجھنے سمجھانے کا رحجان اپنا لیا جائے، بغیر اس بات کا لحاظ کئے کہ معاشرے میں دین کے کسی مسئلے کی بابت پہلے سے کیا تاثر ہے اور لوگوں میں اس کی بابت کیا رحجان پایا جاتا ہے .... معاشرے کی اپنی اصطلاحات و تاثرات کو قطعی نظر انداز کرتے ہوئے دین کے حقائق کو اگر کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ سے من وعن لیا جانے لگے اور دین کے حامل لوگ اپنے اندر وہ علمی جرات، تحقیق دیانت، حوصلہ وصبر، رواداری اور وسعت ظرف پیدا کرلیں کہ وہ دین کے سب بنیادی حقائق کو صرف اور صرف دین کے اصل مصادر سے ___ صحابہ وسلف کے انداز میں ___ لینے پہ مصر نظر آئیں .... اور جذبات اور تعصب کو برطرف رکھتے ہوئے محض علم کی بنیاد پر اپنا اور ایک دوسرے کا نکتہ نظر درست کرنے کی ایک آزادانہ اور دوستانہ فضا قائم کر لیں .... اور مخالفت کریں تو صرف اس فریق کو جو دلیل اور حجت کی بجائے محض اپنی منوانے پر بضد ہو.... تب ضرور فرقہ واریت کی اس لعنت سے جان چھڑائی جا سکتی ہے۔
فرقہ واریت کا خاتمہ ایک علمی اور اصولی انداز فکر اپنانے سے ممکن ہے نہ کہ محض سیاسی بیانات سے اور ’اختلافات‘ کو زیر زمین لے جانے سے!
اس بے لاگ علمی جرات کو اپنانے پر اگر معاشرے کا ایک معتدبہ طبقہ آجاتا ہے اور یہ طبقہ سب غیر علمی رویوں اور ’اقول ما قال الناس‘ کے مسلک کو مسترد کر دینے پر پوری طرح ڈٹ جاتا ہے اور لوگوں کو حق کی تعلیم دینے کا بیڑا اٹھا لیتا ہے تو اس معاملہ کا حل نکل آتا ہے جس پر ’بظاہر‘ سب پریشان ہیں۔ تب کچھ طبقے دین کی غلط اور گروہی اور فرقہ وارانہ اور محدود ترجمانی پر بھی بضد رہیں تو کوئی نقصان کی بات نہیں کہ منحرف طبقوں کے وجود سے ___ ایک نبوت کے عرصے کو چھوڑ کر ___ کبھی کوئی دور بھی خالی نہیں رہا۔
نہ صرف یہ کہ اس علمی انداز کے اپنانے سے اور اس تحقیقی جرات و دیانت، حوصلہ وصبر اور رواداری کا مسلک اختیار کرنے سے اور اس وسعت ظرف اور تبادلہ افکار کی ہمت کے آجانے سے، جو کہ ہم جانتے ہیں دنوں کا کام نہیں اور جس پر کہ بے انتہا محنت ہوگی۔ بشرطیکہ اس کام کومحنت کرنے والے انتھک لوگ مل جائیں .... غرض ایسا ہو جانے سے نہ صرف اس فرقہ واریت سے جان چھوٹے گی بلکہ اس کے نتیجے میں خالص دین کا راستہ معاشرے میں بھی صاف ہو جائے گا۔ وہ طعنے اور کوسنے جو جاہلیت مذہبی طبقوں کو خراب کرنے کیلئے ___ نہ کہ مذہبی طبقوں کی واقعی اصلاح کیلئے .... دیا کرتی ہے آپ اپنی موت مر جائیں گے اور لوگوں کو پورے اعتماد کے ساتھ دینی قیادتوں کی طرف رخ کرنے سے روک دینے کی جاہلیت کے پاس پھر کوئی تدبیر کارگر نہ رہے گی۔ دوسری طرف حق کی قوت جب دینی طبقوں کو ___ یا ان کے ایک معتدبہ طبقے کو .... متحد کر چکی ہوگی اور خالص اسلام جب ان کی پشت پر ہوگا اور تنازعات کی جڑ جب نیچے سے اکھاڑ پھینکی جا چکی ہوگی اور اسلام کی روشن صورت جب ان کے طرز عمل سے عیاں ہوگی تو جاہلیت کو معاشرے میں ان کے راستے سے ہٹنا پڑے گا۔ اسلام اپنی حقیقت کے ساتھ جب معاشرے میں اتر آئے تو پھر جاہلیت کو اسے راستہ دیے بغیر کوئی چارہ نہیں رہتا۔ تب اسلام کے آجانے اور چھا جانے میں سوائے کچھ محنت، کچھ جدوجہد اور جہاد کے، کوئی رکاوٹ باقی نہیں رہتی۔
وقل جاءالحق وزھق الباطل ان الباطل کان زھوقا۔ ونتزل من القرآن ماھو شفاءورحمہ للمومنین ولا یزید الظالمین الاخساراً (بنی اسرائیل: ٨٢)
”اور اعلان کر دو کہ ”حق آگیا اور باطل مٹ گیا۔ باطل تو مٹنے ہی والا ہے“ یہ قرآن جو ہم نازل کر رہے ہیں مومنوں کیلئے تو سراسر شفا اور رحمت ہے مگر ظالموں کیلئے خسارے کے سوا اور کسی چیز میں اضافہ نہیں کرتا“۔
البتہ دینی طبقوں کو یہ ایک نئی جہت دیے بغیر معاملہ ___ جاہلیت کے حق میں ___ جوں کا توں باقی رہ سکتا ہے۔ ’سیاسی اتحاد‘ کا ہو جانا نہ ہونے سے ضرور بہتر ہے مگر یہ مسئلے کا حل نہیں اور اگر وقتی طور پر ہے بھی تو اصل مسئلے کا حل نہیں۔ معاملے کا پائیدار حل یہ ہے ___ جس کے نتیجے میں معاشرے کی کایا پلٹ سکتی ہے ___ کہ اسلام کے حقائق کو ایک علمی دیانت اور تحقیقی صبر وحوصلہ کے ساتھ اور ائمہ اہلسنت کے منہج کی بنیاد پر لینے اور سمجھنے سمجھانے کا آزادانہ اور دوستانہ ماحول پیدا کیا جائے اور کسی سیاسی رکھ رکھائو اور ڈپلومیٹک تکلف کے بغیر حق کو حق اور باطل کو باطل کہنے کا برتہ رکھا جائے۔ دوسرے کی سنیے اور اپنی کھل کر کہیے مگر عقیدہ کے معاملے کو ہرگز حل کئے بغیر مت چھوڑیے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ معاشرہ میں رائج فکر کے فیشن اور سوچ کے انداز تو کسی خاطر میں لائے ہی نہیں جانے چاہیں۔
معاشرہ یا معاشرے کی ضروریات اور مفادات یا معاشرے میں پائے جانے والے رحجانات ہمارے دین کے حقائق کا تعین کیوں کریں؟ اپنے دین کے ساتھ، جو کہ آسمان سے نازل ہونے والی حقیقت ہے اور زمین پر اس کی تشکیل نہیں ہوتی، ہم یہ ظلم کیوں ہونے دیں؟ پھر جبکہ معاملہ یہ ہو، جیسا کہ ہم عرض کر چکے، کہ معاشرہ میں پائے جانے والے رحجانات و تاثرات دراصل انسانوں کی ایک تھوڑی تعداد کے ہاں سے ہی صادر ہوئے ہوتے ہیں اور یہ تھوڑی تعداد وہ ہے جو ہرگز اس قابل نہیں کہ آدمی ان کے تقاضوں کو درخور اعتنا جانے، چاہے ان کی اھواءوخواہشات پوری قوم اور پورے معاشرے کی زبان میں کیوں نہ بول رہی ہوں۔ وہ ہمیں جیسے چلانا چاہیں بس معاشرے کے ’لاؤڈ اسپیکر‘ میں بول دیا کریں ہم اپنے دین کو ویسی ہی ’زمانے کے مطابق‘ تعبیر دینے میں مگن اور اپنی سب تحقیقات کا رخ اسی سمت میں کر دینے کو تیار ہو جایا کریں!؟
موحدین کو یہ پہچاننے میں غلطی نہیں[/FONT][FONT=&quot] [/FONT][FONT=&quot]کرنی چاہیے کہ فکر وعمل کے فیشن اور رواج معاشرے میں کہاں سے آتے ہیں اور ان کو اہمیت دینا دراصل کس کو اہمیت دینا ہے۔ اس امر کو کسی صورت نظر انداز نہیں کرنا چاہیے کہ اس وقت معاشرتی رحجانات کے پیچھے دراصل کون بول رہا ہے۔ ماحول اور معاشرے کی تاریں کہاں سے ہلائی جاتی ہیں، اس کا پورا ادراک کرنے میں .... اپنے عقیدے اور اپنے موقف پر پوری طرح ڈٹ کر اپنے زمانے کو خود اس کی اپنی زبان کے اندر سمجھانے میں اور اس معاملے پر کبھی کسی کی بات میں نہ آنے میں .... اہل توحید کبھی ہلکے نہ جانے جائیں۔[/FONT][FONT=&quot][/FONT]
[FONT=&quot]ولا یستخفنک الذین لا یوقنون (الروم: ٦٠)​

”یہ بے یقین لوگ ہرگز تجھے (کسی معاملے میں) ہلکا نہ پائیں“۔

[/FONT][FONT=&quot]××××××××××××××××××[/FONT]
 
Top