• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

روایات- حَوْأَبِ کے کتے اور ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا (ایک تحقیقی جائزہ)

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,551
پوائنٹ
304
کتاب الاستقصا --- احمد بن خالد الناصری --- عائشہ رضی الله عنہا سے متعلق "الحواب" کے مقام پر کتوں کے بھوکنے کی جھوٹی روایات

یہ پر آشوب وقت تھا جب عثمان رضی الله تعالی عنہ شہید کر دے گئے تھے - خلیفہ وقت کو مصر سے آئے ہوئے ایک گروہ نے گھر میں خفیہ داخل ہو کر قتل کر دیا تھا جبکہ صحابہ کی اکثریت حج کی وجہ سے مکہ میں مشغول تھی -

اسلامی تاریخ میں وہ موقعہ آیا کہ ام المومنین عائشہ رضی الله تعالی عنہا بھی میدان قتال میں نکلیں اور سبائی فتنہ پردازوں کا مقابلہ کیا -

"کتاب الاستقصا لأخبار دول المغرب الأقصى از السلاوي" (المتوفى: 1315هـ) کے مطابق:

أَن عَائِشَة كَانَت خرجت إِلَى مَكَّة زمَان حِصَار عُثْمَان فقضت نسكها وانقلبت تُرِيدُ الْمَدِينَة فلقيها الْخَبَر بمقتل عُثْمَان فأعظمت ذَلِك ودعت إِلَى الطّلب بدمه وَلحق بهَا طَلْحَة وَالزُّبَيْر وَعبد الله بن عمر وَجَمَاعَة من بني أُميَّة وَاتفقَ رَأْيهمْ على الْمُضِيّ إِلَى الْبَصْرَة


عائشہ رضی الله تعالی عنہا مکہ سے نکلیں جبکہ عثمان رضی الله تعالی عنہ بلوائیوں کے حصار میں تھے اپنے مناسک حج کم کیے اور مدینہ کے لئے نکلیں - راستے میں عثمان رضی الله تعالی عنہ کے قتل کی خبر آئی - اس کو بہت بڑی بات جانا اور ان کے خون کا قصاص کا مطالبہ کیا - طلحہ رضی الله تعالی عنہ ، زبیر رضی الله تعالی عنہ ، عبد اللہ بن عمر رضی الله تعالی عنہ اور بنو امیہ کی ایک جماعت ساتھ ہوئی اور اتفاق رائے سے بصرہ کا رخ کیا -

(جلد ١ ، صفحہ ١٠٠)

احمد بن حنبل مسند میں ، ابن حبان صحیح میں ، حاکم المستدرک میں روایت کرتے ہیں کہ:

حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنْ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا قَيْسٌ قَالَ: لَمَّا أَقْبَلَتْ عَائِشَةُ بَلَغَتْ مِيَاهَ بَنِي عَامِرٍ لَيْلًا نَبَحَتِ الْكِلَابُ، قَالَتْ: أَيُّ مَاءٍ هَذَا؟ قَالُوا: مَاءُ الْحَوْأَبِ قَالَتْ: مَا أَظُنُّنِي إِلَّا أَنِّي رَاجِعَةٌ فَقَالَ بَعْضُ مَنْ كَانَ مَعَهَا: بَلْ تَقْدَمِينَ فَيَرَاكِ الْمُسْلِمُونَ، فَيُصْلِحُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ ذَاتَ بَيْنِهِمْ، قَالَتْ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَنَا ذَاتَ يَوْمٍ: كَيْفَ بِإِحْدَاكُنَّ تَنْبَحُ عَلَيْهَا كِلَابُ الْحَوْأَبِ؟


قیس بن ابی حازم کہتا ہے کہ پس جب عائشہ (رضی الله تعالی عنہا) بنی عامر کے پانی ( تالاب) پر رات میں پہنچیں تو کتے بھونکے - عائشہ (رضی الله تعالی عنہا) نے پوچھا یہ کون سا پانی ہے - بتایا گیا الْحَوْأَبِ کا پانی ہے - آپ رضی الله تعالی عنہا نے کہا میں سمجھتی ہوں کہ مجھے اب واپس جانا چاہیے! اس پر ان کے ساتھ لوگوں نے کہا نہیں آگے چلیں مسلمان آپ کو دیکھ رہے ہیں - پس الله ان کے درمیان سب ٹھیک کر دے گا - عائشہ (رضی الله تعالی عنہا) نے کہا بے شک رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے ایک روز (اپنی بیویوں سے) کہا تھا کہ کیسی ہو گی تم میں سے ایک جس پر الْحَوْأَبِ کے کتے بھونکیں گے -


مسند احمد کی دوسری روایت میں ہے کہ واپس جانے سے روکنے والے زبیر رضی الله تعالی عنہ تھے -

البانی کتاب "سلسلة الأحاديث الصحيحة" میں اس روایت کو صحیح کہتے ہیں (جلد ١ ، صفحہ ٨٤٦ ، رقم ٤٧٤ ، مكتبة المعارف للنشر والتوزيع - الرياض)

یہ افک ہے عائشہ رضی الله عنہا پر -

لَّوْلَا إِذْ سَمِعْتُمُوهُ ظَنَّ الْمُؤْمِنُونَ وَالْمُؤْمِنَاتُ بِأَنفُسِهِمْ خَيْرً‌ا وَقَالُوا هَـٰذَا إِفْكٌ مُّبِينٌ

جب تم نے وہ بات سنی تھی تو مومن مردوں اور عورتوں نے کیوں اپنے دلوں میں نیک گمان نہ کیا - اور کیوں نہ کہا کہ یہ صریح طوفان ہے - (سورة النور:١٢)

اس کی سند میں قيس بن ابی حازم ہے

الذھبی تلخیص میں اس پر سکوت کرتے ہیں - الذھبی سير اعلام النبلاء میں قيس بن ابی حازم کے ترجمے میں لکھتے ہیں کہ امام یحیی بن سعید اس روایت کو منکر کہتے ہیں -

وروى علي بن المديني أن يحيى بن سعيد قال له : قيس بن أبي حازم منكر الحديث ، قال : ثم ذكر له يحيى أحاديث مناكير ، منها حديث كلاب الحوأب


علی ابن المدينى ، يحيى بن سعيد سے نقل کرتے ہیں کہ قیس منکر الحدیث ہے پھر انہوں نے اسکی الحواب کے کتوں والی روایت بیان کی - (سير اعلام النبلاء: بقية الطبقة الأولى من كبراء التابعين: قيس بن أبي حازم)

یحیی بن سعید القطان کے سامنے البانی ، الذھبی ، حاکم ، ابن حجر کی حیثیت ہی کیا ہے -

کتاب "من تكلم فيه الدارقطني في كتاب السنن من الضعفاء والمتروكين والمجهولين" از ابن زريق (المتوفى: 803هـ) کے مطابق الدارقطنی اس کو "ليس بقوي" قوی نہیں کہتے ہیں -

ليس بقوي. قاله الدارقطني - (جلد ٣ ، صفحہ ١١٣ ، رقم ٣٢٧ ، وزارة الأوقاف والشؤون الإسلامية بدولة قطر)

قيس بن ابی حازم صحیح بخاری و مسلم کا راوی ہے لیکن پھر بھی اس کی یہ کتوں والی روایت صحیحین میں نہیں - امام بخاری اور مسلم نے قیس کی عائشہ رضی الله عنہا سے مروی کوئی روایت نقل نہیں کی -

تاریخ بغداد از الخطيب البغدادی (المتوفى: 463هـ) کے مطابق:

وقد كان نزل الكوفة وحضر حرب الخوارج بالنهروان مع علي بْن أبي طالب

قیس کوفہ گیا اور علی رضی الله تعالی عنہ کے ساتھ خوارج سے قتال بھی کیا - (جلد ١٢ ، صفحہ ٤٤٨ ، دار الكتب العلمية - بيروت)

دوسری روایت:

المعجم الأوسط از الطبراني (المتوفى: 360هـ) میں یہ ایک دوسری سند سے ہے:

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَلِيٍّ، نا يَزِيدُ بْنُ مَوْهَبٍ، ثَنَا يَحْيَى بْنُ زَكَرِيَّا بْنِ أَبِي زَائِدَةَ، عَنْ مُجَالِدٍ، عَنِ الشَّعْبِيِّ، عَنْ مَسْرُوقٍ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: كَانَ يَوْمٌ مِنَ السَّنَةِ تَجَمَّعَ فِيهِ نِسَاءُ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عِنْدَهُ يَوْمًا إِلَى اللَّيْلِ، قَالَتْ: وَفِي ذَلِكَ الْيَوْمِ قَالَ: «أَسْرَعُكُنَّ لُحُوقًا أَطْوَلُكُنَّ يَدًا . قَالَتْ: فَجَعَلْنَا نَتَذَارَعُ بَيْنَنَا أَيُّنَا أَطْوَلُ يَدَيْنِ، قَالَتْ: فَكَانَتْ سَوْدَةُ أَطْوَلُهُنَّ يَدًا، فَلَمَّا تُوُفِّيَتْ زَيْنَبُ عَلِمْنَا أَنَّهَا كَانَتْ أَطْوَلَهُنَّ يَدًا فِي الْخَيْرِ وَالصَّدَقَةِ، قَالَتْ: وَكَانَتْ زَيْنَبُ تَغْزِلُ الْغَزْلَ، وَتُعْطِيهِ سَرَايَا النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَخِيطُونَ بِهِ، وَيَسْتَعِينُونُ بِهِ فِي مَغَازِيهِمْ، قَالَتْ: وَفِي ذَلِكَ الْيَوْمِ قَالَ: «كَيْفَ بِإِحْدَاكُنَّ تَنْبَحُ عَلَيْهَا كِلَابُ الْحَوْأَبِ - لَمْ يَرْوِ هَذَا الْحَدِيثَ عَنْ مُجَالِدٍ إِلَّا ابْنُ أَبِي زَائِدَةَ "


اس روایت میں ہے کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم میں سے جس کا ہاتھ لمبا ہو گا وہ سب سے پہلے (جنت میں مجھ سے) ملاقات کرے گی سب امہات المومنین نے ہاتھ ناپے اور سب سے لمبا ہاتھ سودا رضی الله تعالی عنہا کا نکلا لیکن جب زینب رضی الله تعالی عنہا کی وفات ہوئی تو جانا کہ لمبے ہاتھ سے مراد صدقه و خیرات ہے - اس کے بعد عائشہ رضی الله تعالی عنہا کہتی ہیں کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے کہا کیسی ہو گی تم میں سے ایک جس پر الحواب کے کتے بھونکیں گے -


(جلد ٦ ، صفحہ ٢٣٣ ، رقم ٦٢٧٦ ، دار الحرمين - القاهرة)

اس کی سند میں مجالد بن سعيد بن عمير بن بسطام الهمدانی (المتوفی: 144هـ) ہے -

ابو حاتم کہتے ہیں "لاَ يُحْتَجُّ بِهِ" اس سے دلیل نہ لی جائے - (سير أعلام النبلاء: الطبقة الخامسة: مجالد بن سعيد)

ابن عدی کہتے ہیں اس کی حدیث "له عن الشعبي ، عن جابر أحاديث صالحة" صالح ہیں - (ایضاً)

وقال أبو سعيد الأشج : شيعي - ابو سید الاشج شیعہ کہتے ہیں - (ایضاً)

وفال الميموني: قال أبو عبد الله: مجالد عن الشعبي وغيره، ضعيف الحديث

الميمونی کہتے ہیں ابو عبد اللہ کہتے ہیں مجالد کی الشعبی سے روایت ضعیف ہے - (موسوعة أقوال الإمام أحمد بن حنبل في رجال الحديث وعلله: جلد ٣ ، صفحہ ٢٢٢ ، رقم ٢٢٥١ ، عالم الکتب ، الطبعة الاولی ١٤١٧هـ)

وقال بن سعد كان ضعيفا في الحديث

ابن سعد کہتے ہیں حدیث میں ضعیف ہے - (تهذيب التهذيب: جلد ١٠ ، صفحہ ٤١ ، مطبعة دائرة المعارف النظامية - الهند)

المجروحین میں ابن حبان کہتے ہیں

وكان رديء الحفظ ، يقلب الأسانيد ، ويرفع


ردی حافظہ اور اسناد تبدیل کرنا اور انکو اونچا کرنا کام تھا - (المجروحين لابن حبان: باب الميم: مجالد بن سعيد بن عمير الهمداني)

ابن حبان نے "صحیح" میں اس سے کوئی روایت نہیں لی - ابن حبان "المجروحین" میں لکھتے ہیں کہ امام الشافعی نے کہا:

وَالْحَدِيثُ عَنْ مُجَالِدٍ يُجَالِدُ الْحَدِيثَ - اور مجالد يجالد الحديث ہے - (ایضاً)

تیسری روایت:

البحر الزخار المعروف مسند البزار (المتوفى: 292هـ) کی سند ہے:

حَدَّثنا سَهْل بن بحر، قَال: حَدَّثنا أَبُو نعيم، قَال: حَدَّثنا عِصَامُ بْنُ قُدَامَةَ، عَن عِكْرِمة، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، رَضِي اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: قَالَ رَسُول اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيه وَسَلَّم لِنِسَائِهِ: لَيْتَ شعري أيتكن صاحبة الجمل الأدبب ، تخرج كِلابُ حَوْأَبٍ، فَيُقْتَلُ عَنْ يَمِينِهَا، وعَن يَسَارِهَا قَتْلًا كَثِيرًا، ثُمَّ تَنْجُو بَعْدَ مَا كَادَتْ


ابن عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے اپنی بیویوں کے لئے فرمایا کاش کہ جان لے نشانی، بپھرے بالوں والی ، اونٹ والی ، اس پر حواب کے کتے نکلیں گے ، اپنے دائیں اور بائیں ڈھیروں کو قتل کرے گی پھر نقصان اٹھا کر بچ جائے گی -


(مسند البزار: جلد ١١ ، صفحہ ٧٣ ، رقم ٤٧٧٧ ، مكتبة العلوم والحكم - المدينة المنورة)

رافضیت سے پر اس روایت کی سند میں عصام بن قدامة ہے -

ابن القطان اس کو کہتے ہیں "لم يثبته" - مظبوط نہیں -

أبو زرعة - لا بأس به کہتے ہیں -

النسائی - ثقة کہتے ہیں -

أبو حاتم کہتے ہیں "له حديث منكر" اس کی حدیث منکر ہے - (ميزان الاعتدال في نقد الرجال: جلد ٣ ، صفحہ ٦٧ ، دار المعرفة للطباعة والنشر ، بيروت - لبنان)

چوتھی اور پانچویں روایت:

حدثنا حسين بن محمد قال حدثنا الفضيل يعني ابن سليمان قال حدثنا محمد بن أبي يحيى عن أبي أسماء مولى بني جعفر عن أبي رافع أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال لعلي بن أبي طالب إنه سيكون بينك وبين عائشة أمر قال أنا يا رسول الله قال نعم قال أنا قال نعم قال فأنا أشقاهم يا رسول الله قال لا ولكن إذا كان ذلك فارددها إلى مأمنها


نبی صلی الله علیہ وسلم علی رضی الله عنہ سے کہا کہ تمھارے اور عائشہ کے درمیان ایک بات ہو گی علی نے کہا میرے ساتھ فرمایا ہاں پس اس کے بعد ان کو امن کے مقام پر لوٹا دینا -


(مسند أحمد: من مسند القبائل: حديث أبي رافع رضي الله عنه: رقم ٢٦٦٥٧)

حَدَّثَنَا عَبْد اللَّهِ ، حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي بَكْرٍ الْمُقَدَّمِيُّ ، حَدَّثَنَا فُضَيْلُ بْنُ سُلَيْمَانَ يَعْنِي النُّمَيْرِيَّ ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي يَحْيَى ، عَنْ إِيَاسِ بْنِ عَمْرٍو الْأَسْلَمِيِّ ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " إِنَّهُ سَيَكُونُ بَعْدِي اخْتِلَافٌ ، أَوْ أَمْرٌ ، فَإِنْ اسْتَطَعْتَ أَنْ تَكُونَ السِّلْمَ ، فَافْعَلْ -


(مسند أحمد بن حنبل: مُسْنَدُ الْعَشَرَةِ الْمُبَشَّرِينَ بِالْجَنَّةِ: مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ: وَمِنْ مُسْنَدِ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ.....رقم ٦٧٧)

ان دونوں روایات کی سند میں فضيل بن سليمان يعنی النميری ہے جو ضعیف ہے


وَقَال أَبُو زُرْعَة لين الحديث - ابو زرعہ فضيل بن سليمان کو کمزور حدیث والا کہتے ہیں -

وَقَال أَبُو حاتم يكتب حديثه ، ليس بالقوي - ابو حاتم کہتے ہیں اس کی حدیث لکھ لی جائے لیکن یہ مظبوط نہیں -

قال عَبَّاس الدُّورِيُّ ، عَنْ يحيى بْن مَعِين: ليس بثقة - یحییٰ بن معین ثقہ نہیں کہتے ہیں -

وَقَال النَّسَائي: ليس بالقوي - نسائی کہتے ہیں کہ ثقہ نہیں - (تهذيب الكمال في أسماء الرجال للمزی: جلد ٢٣ ، صفحہ ٢٧٤ ، رقم ٤٧٥٩ ، مؤسسة الرسالة - بيروت)

وقال الساجي عن بن معين ليس هو بشيء - ابن معین کہتے ہیں کوئی چیز نہیں - (تهذيب التهذيب ابن ہجر: جلد ٨ ، صفحہ ٢٩٢ ، رقم ٥٣٦ ، مطبعة دائرة المعارف النظامية - الهند)

کہا جاتا ہے کہ یہ نبوت کی نشانی ہے کہ نبی صلی الله علیہ وسلم کی خبر پوری ہوئی - لیکن اہلبیت رسول کی جس تنقیص کا اس میں ذکر ہے کیا وہ سچ ہے جبکہ امام المحدثین یحیی بن سعید اس کو منکر کہتے ہیں -
الغرض جنگ جمل کے حوالے سے عائشہ رضی الله عنہا کی تنقیص میں کوئی روایت صحیح نہیں ہے جلیل القدر محدثین نے ایسی روایات کو منکر کہا ہے - شیعہ اور اہلسنت کے جن لوگوں نے اس کو صحیح قرار دیا ہے ان کو روز محشر اس کا جواب دینا ہو گا -


شیعہ حضرات روایت کرتے ہیں کہ نبی صلی الله علیہ وسلم کی نصیحت کہ عائشہ رضی الله عنہا کو امن کی جگہ پہنچا دینا کو نظر انداز کر دیا گیا اور علی رضی الله عنہ نے اپنے لشکر کو حکم دیا کہ عائشہ رضی الله عنہا پر تیر چلائے -

کتاب "جمل من أنساب الأشراف" از البلاذری (المتوفى: 279هـ) کے مطابق:

وَحَدَّثَنِي أَحْمَدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الدَّوْرَقِيُّ، حَدَّثَنَا أَبُو النصر، حدثنا إِسْحَاقُ بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ سَعِيدٍ، حَدَّثَنِي سَعِيدُ بْنُ عَمْرٍو: عَنِ ابْنِ حَاطِبٍ قَالَ: [أَقْبَلْتُ مَعَ عَلِيٍّ يَوْمَ الْجَمَلِ إِلَى الْهَوْدَجِ وَكَأَنَّهُ شَوْكُ قُنْفُذٍ مِنَ النَّبْلِ، فَضَرَبَ الْهَوْدَجَ، ثُمَّ قَالَ: إِنَّ حُمَيْرَاءَ إِرَمَ هَذِهِ أَرَادَتْ أَنْ تَقْتُلَنِي كَمَا قَتَلَتْ عُثْمَانَ بْنَ عَفَّانَ. فَقَالَ] لَهَا أَخُوهَا مُحَمَّدٌ: هَلْ أَصَابَكِ شَيْءٌ؟ فَقَالَتْ: مِشْقَصٌ فِي عَضُدِي. فَأَدْخَلَ رَأْسَهُ ثُمَّ جَرَّهَا إِلَيْهِ فَأَخْرَجَهُ


ابن حاطب کہتے ہیں کہ میں (علی کے ساتھ) عائشہ کے ہودج کے قریب آیا: اس وقت یہ ہودج تیروں کی بوچھار سے خاردار چوہے کی طرح لگ رہا تھا - تو علی نے اس ہودج کو مارا اور کہا: یہ حمیراء (عائشہ) ہے ، اس پر تیر چلاؤ! یہ مجھے قتل کرنا چاہتی ہے جس طرح اس نے عثمان کو قتل کیا - عائشہ کے بھائی محمد بن ابی بکر نے عائشہ سے پوچھا: آپ کو کوئی تیرلگا تو نہیں؟ عائشہ نے کہا: میرے بازو میں ایک تیر پیوست ہے - پھر محمد بن ابی بکر نے اپنا سر ہودج میں داخل کیا اور عائشہ کو اپنی طرف کھینچ کرتیر نکال دیا -


(جلد ٢ ، صفحہ ٢٤٩ تا ٢٥٠ ، دار الفکر - بیروت)

سند میں راوی اسحاق بن سعيد ہے جو مجھول ہے - شیعہ کہتے ہیں کہ اس کی سند میں اسحاق بن سعيد بن عمرو بن سعيد ہیں لیکن ان کی روایت عن أبيه ، عن ابن عمر سے مروی ہیں - اس کا دوسرا راوی عمرو بن سعيد ہے جو مجھول ہے - روافض نے اپنا مدعا ثابت کرنے کے لئے سند ہی بدل دی ہے لہذا ان کی طرف سے یہ شوشہ چھوڑا جاتا ہے کہ اسحاق بن سعید اور عمربن سعید کے درمیان "عن" غلط ہے اسے "بن" سمجھا جائے تو یہ ایک راوی ہو جاتا ہے لیکن یہ دعوی بلا دلیل ہے اور اسی صورت قبول ہو گا جب اور نسخوں میں ایسا ہو یا خارجی قرائین موجود ہوں -

جنگ جمل کا پس منظر:


محمد بن ابی بکر ، علی کے ساتھ جمل و صفین میں لڑا - اس پر قتل عثمان کا الزام تھا - یہ شخص چراغ تلے اندھیرا تھا اس کو عثمان رضی الله تعالی عنہ نے مصر کا امیر مقرر کیا تھا - اسی دور میں عبد اللہ بن سبا بھی مصر پہنچا اور علی کے حوالے سے غلو کا عقیدہ اختیار کیا -


الذھبی کتاب سير أعلام النبلاء میں لکھتے ہیں:

وممن قام على عثمان محمد بن أبي بكر الصديق ، فسئل سالم بن عبد الله فيما قيل عن سبب خروج محمد ، قال : الغضب والطمع


اور جو لوگ عثمان کے خلاف اٹھے ان میں محمد بن ابی بکر صدیق تھا پس سالم بن عبد اللہ سے پوچھا کہ اس کے خروج کا سبب کیا تھا کہا غصہ اور لالچ - (سير أعلام النبلاء : سيرة الخلفاء الراشدين)

فتنہ پردازوں نے محمد بن ابی بکر کا دماغ نفرت سے بھر دیا تھا اور ایک تحریر عثمان سے منسوب کی جس میں لکھا تھا:

إذا أتاك محمد ، وفلان ، وفلان فاستحل قتلهم ، وأبطل كتابه


جب (گورنر مصر) محمد بن ابی بکر پہنچے اور فلاں فلاں تو ان کا قتل حلال ہے اور اس حکم کو تلف کر دینا - (ایضاً)

لیکن یہ خط فتنہ پرداز لوگوں نے محمد کو دکھایا اور عثمان سے نفرت کے بیج بوئے کہ عثمان نے ایک طرف تو تم کو امیر مقرر کیا ہے اوردوسری طرف قتل کا خفیہ حکم دیا ہے محمد یہ سن کر بدک گیا اور مدینہ گیا -
الذھبی لکھتے عمرو بن حزم کے گھر کے راستے سے عثمان پر بلوائی داخل ہوئے:

فجاء محمد بن أبي بكر في ثلاثة عشر رجلا ، فدخل حتى انتهى إلى عثمان ، فأخذ بلحيته ، فقال بها حتى سمعت وقع أضراسه ، فقال : ما أغنى عنك معاوية ، ما أغنى عنك ابن عامر ، ما أغنت عنك كتبك . فقال : أرسل لحيتي يا بن أخي


پس محمد بن ابی بکر تیس آدمیوں کے ساتھ آیا اور گھر میں داخل ہوا حتی کہ عثمان تک جا پہنچا اور ان کو داڑھی سے پکڑا اور کہا تجھ کو معاويہ نے کوئی فائدہ نہیں پہنچایا ، تجھ کو بنی عامر نے فائدہ نہیں پہنچایا ، تجھ کو تیری تحریر نے کوئی فائدہ نہیں پہنچایا ، عثمان نے کہا اے بھائی کے بیٹے میری داڑھی چھوڑ دے -
(ایضاً)

اسی بلوہ میں عثمان رضی الله عنہ شہید ہو گئے -

ابن کثیر وغیرہ نے محمد بن ابی بکر کا دفاع کیا ہے اور کہا ہے کہ ہر چند اس نے داڑھی پکڑی لیکن قتل نہیں کیا تھا - بعض کہتے ہیں قتل كنانة ابن بشر التجيب نے کیا تھا - بعض کہتے ہیں رومان اليماني بصولجان نے کیا (تاریخ خلیفہ بن الخیاط) - لیکن قرآن کہتا ہے فتنہ قتل سے بڑھ کر ہے مصریوں کا سرغنہ بن کر یہی گھر میں داخل ہوا -

محمد بن ابی بکر حجتہ الوداع کے وقت ابو بکر کی زوجہ اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا کے بطن سے پیدا ہوا - ابو بکر رضی الله تعالی عنہ کی وفات کے بعد اسماء سے علی رضی الله عنہ نے شادی کی اور محمد بن ابی بکر ، علی کا سوتیلا بیٹا بن گیا - مالک الاشتر ، محمد کا بچپن کا دوست تھا - اس قتل عثمان کے وقت محمد بن ابی بکر کی عمر ٢٦ سال ہو گی شاید یہ اس حدیث کا مصداق ہے جس میں ہے کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ میری امت قریش کے نو عمر کم عقلوں کے ہاتھوں تباہ ہو گی
- (بخاری: کتاب الفتن: باب: ارشادِ نبوی صلی الله علیہ وسلم "میری امت کی ہلاکت کم عقل ، نوعمر لڑکوں کے ہاتھوں ہوگی" کا بیان)

الذھبی سير أعلام النبلاء میں لکھتے ہیں:

وقال أبو عبيدة : كان على خيل علي يوم الجمل عمار ، وعلى الرجالة محمد بن أبي بكر الصديق ، وعلى الميمنة علباء بن الهيثم السدوسي ، ويقال : عبد الله بن جعفر ، ويقال : الحسن بن علي ، وعلى الميسرة الحسين بن علي ، وعلى المقدمة عبد الله بن عباس ، ودفع اللواء إلى ابنه محمد بن الحنفية


جنگ جمل میں علی رضی الله تعالی عنہ کی سواری کی رکاب پر محمد بن ابی بكر الصديق تھا - (سير أعلام النبلاء: سيرة الخلفاء الراشدين: سيرة أبي الحسنين علي رضي الله عنه: الحوادث في خلافة علي)
صفین کی جنگ کے بعد علی نے محمد بن ابی بکر کو مصر کا گورنر مقرر کیا لیکن عمرو بن العاص رضی الله تعالی عنہ نے اس کو شکست دی - سن ٣٧ ھ یا ٣٨ ھ میں یہ ذلت کی موت مرا - الذھبی لکھتے ہیں کہ یہ مخالفین کے ہتھے چڑھا -


فقتله ، ودسه في بطن حمار ميت ، وأحرقه


انہوں نے اس کا قتل کیا اس کو مردہ گدھے کے پیٹ میں ڈال کر جلایا گیا - (سير أعلام النبلاء: كبار التابعين: محمد بن أبي بكر الصديق)

صحابی رسول صلی الله علیہ وسلم ، معاويہ بن حديج رضی الله عنہ نے اس کو قتل کیا - کتاب "تاریخ ابن یونس المصری" (المتوفى: 347هـ) کے مطابق آخری وقت محمد نے کہا:

فقال: احفظونى؛ لأبى بكر. فقال له معاوية بن حديج: قتلت ثمانين من قومى فى دم عثمان، وأتركك وأنت صاحبه؟! فقتله

مجھے ابو بکر کے واسطے چھوڑ دو! معاویہ بن حدیج نے کہا اپنی قوم کے ٨٠ لوگوں کا خون عثمان پر قتل کیا اور تو انہی کا صاحب تھا تجھے کیسے چھوڑ دوں
- (جلد ٢ ، صفحہ ١٩٥ ، دار الكتب العلمية - بيروت)

معاويہ بن حديج کو امام بخاری اور جمہور محدثین صحابی مانتے ہیں صرف امام احمد اس کی مخالفت کرتے ہیں - کتاب "جامع التحصيل في أحكام المراسيل از العلائي" (المتوفى: 761هـ) کے مطابق:

معاوية بن حديج قال الأثرم قال أحمد بن حنبل ليست لمعاوية بن حديج صحبة قلت بل له صحبة ثابتة قاله البخاري والجمهور


الاثرم کہتے ہیں امام احمد کہتے ہیں معاويہ بن حديج صحابی نہیں ہے میں کہتا ہوں صحابی ثابت ہیں بخاری اور جمہور ایسا کہتے ہیں - (صفحہ ٢٨٢ ، رقم ٧٧٦ ، عالم الكتب - بيروت)

طرفہ تماشہ ہے کہ محمد بن ابی بکر جو وفات رسول کے وقت ایک سال کا ہو گا اس کو صحابی ثابت کرنے پر زور لگایا جاتا ہے جبکہ اس نے اس عمر میں نبی سے کون سا علم حاصل کیا ظاہر ہے کہ یہ صرف لیپا پوتی ہے اور تاریخی حقائق کو مسخ کرنا ہے - صحابہ کے لئے کم سے کم عمر چار سال لی گئی ہے -

کتاب الثقات للعجلي (المتوفى: 261هـ) کہتے ہیں:

محمد بن أبي بكر الصديق: لم يكن له صحبة


محمد بن ابی بکر الصدیق صحابی نہیں ہے - (صفحہ ٤٠١ ، رقم ١٤٣٧ ، دار الباز/ الطبعة الأولى 1405هـ)

امام حسن بصری اس کو الفاسق محمد بن ابی بکر کہا کرتے تھے -

کتاب اسد الغابہ میں مؤرخ ابن اثیر ایک بات نقل کرتا ہے جو بلا سند ہے اور اس کا کذب ہونا ظاہر ہے کہ عائشہ رضی الله عنہا کو اس کی موت کا افسوس ہوا اور پھر بھنا ہوا گوشت نہیں کھایا - بعض مؤرخ (آٹھویں صدی کے) لکھتے ہیں کہ عائشہ رضی الله عنہا نماز میں قنوت پڑھتی تھیں اور عمرو بن العاص کے لئے بد دعا کرتی تھیں لیکن یہ بھی بلا سند بات ہے -


جس شخص نے سبائی ہتھیار کے طور پر کردار ادا کیا ہو اس کے لئے ام المومنین کی رائے اچھی کیسے ہو سکتی ہے؟

محمّد بن ابی بکر کی اولاد:

محمد بن ابی بکر کے بیٹے قاسم ایک ثقہ تابعی ہیں - کتاب "سؤالات ابن الجنيد لأبي زكريا يحيى بن معين" (المتوفى: 233هـ) کے مطابق:

ولم يلق القاسم بن محمد أباه


قاسم بن محمد نے اپنے باپ کو نہیں پایا - (صفحہ ٣٤٧ ، رقم ٣٠٦ ، مكتبة الدار - المدينة المنورة)

ان کی تربیت ام المومنین عائشہ رضی الله تعالی عنہا نے کی

کتاب سير أعلام النبلاء کے مطابق:

وربي القاسم في حجر عمته أم المؤمنين عائشة ، وتفقه منها وأكثر عنها


اور قاسم کی پرورش پھوپی عائشہ کے حجرے میں ہوئی اور ان سے علم حاصل کیا اور بہت کچھ روایت کیا - (سير أعلام النبلاء الذهبي: القاسم بْن مُحَمَّد)

دوسرے بیٹے عبد الله بن محمد بن ابی بكر الصديق ہیں جو ثقہ ہیں -

محمد ابن ابی حذيفہ:

کتاب "مشاهير علماء الأمصار وأعلام فقهاء الأقطار از ابن حبان" (المتوفى: 354هـ) کے مطابق:

محمد بن أبى حذيفة بن عتبة له صحبة كان عامل عثمان بن عفان على مصر

محمد بن ابى حذيفہ بن عتبہ صحابی ہے اس کو عثمان بن عفان نے مصر پر عامل مقرر کیا تھا - (صفحہ ٩٥ ، رقم ٣٩١ ، دار الوفاء للطباعة والنشر والتوزيع - المنصورة)

وفات النبی صلی الله علیہ وسلم کے وقت یہ گیارہ سال کا تھا اور اس کی پرورش عثمان رضی الله عنہ نے کی - جبکہ کتاب "جامع التحصيل في أحكام المراسيل" کے مطابق:

محمد بن أبي حذيفة بن عتبة بن ربيعة ولد أيضا بأرض الحبشة على عهد النبي صلى الله عليه وسلم وله رؤية

محمد بن ابی حذیفہ حبشہ میں پیدا ہوا اور اس نے نبی صلی الله علیہ وسلم کو صرف دیکھا - (صفحہ ٢٦٣ ، رقم ٦٧٦)

الذھبی تاریخ الاسلام میں لکھتے ہیں:

فنشأ مُحَمَّد فِي حُجْر عُثْمَان ، ثُمَّ إنّه غضب على عُثْمَان لكونه لم يستعمله أو لغير ذلك ، فصار إلْبًا على عُثْمَان


پس محمد ، عثمان رضی الله عنہ کے حجرے میں پلا بڑھا لیکن عثمان پر غضب ناک ہوا کہ انہوں نے اس کو کیوں عامل نہیں کیا اور انہی پر پلٹا - (تاريخ الإسلام الذهبي: الطبقَة الرابعة: سَنَة ثَمانٍ وَثَلَاثِين: الوفيَّات)

کتاب "أسد الغابة في معرفة الصحابة از ابن الأثير" (المتوفى: 630هـ) کے مطابق:

ولما قتل أبوه أَبُو حذيفة، أخذ عثمان بْن عفان مُحَمَّدا إليه فكفله إِلَى أن كبر ثُمَّ سار إِلَى مصر فصار من أشد الناس تأليبا عَلَى عثمان


جب محمد کے باپ شہید ہوئے تو اس کو عثمان نے لے لیا اور کفالت کی یہاں تک کہ بڑا ہوا پھر مصر بھیجا - (جلد ٥ ، صفحہ ٨٢ ، رقم ٤٧٢٠ ، دار الكتب العلمية)

جھگڑا یہ ہوا کہ محمد بن ابو حذیفہ کو عثمان نے امارت سے معزول کیا اور محمد بن ابی بکر کو امیر مقرر کیا محمد بن ابو حذیفہ نے محمد ابن ابی بکر کے کان بھرے اور ساتھ قتل کرنے آیا -


عبد الرحمن بن عديس:

یہ عبد اللہ بن ابی کی طرح کا ایک منافق تھا - اس کو شرف صحابیت ملا لیکن یہ ایک فتنہ پرداز بن گیا - یہ بھی ایک مصری ٹولے کا سرغنہ تھا جس نے عثمان رضی اللہ عنہ کو شہید کیا تھا -

تاريخ ابن يونس المصرى کے مطابق "كان رئيس الخيل التى سارت من مصر إلى عثمان بن عفان" یہ تھا ان کا رئيس الخيل جو عثمان بن عفان کے لئے مصر سے آئے تھے - (جلد ١ ، صفحہ ٣٠٨)

تاریخ الاسلام کے مطابق:

وكان ممن خرج على عثمان وسار إلى قتاله. نسأل الله العافية. ثمّ ظفر به معاوية ، فسجنه بفلسطين في جماعة ، ثمّ هرب من السّجن ، فأدركوه بجبل لبنان فقُتِلَ. ولمّا أدركوه قَالَ لمن قتله : وَيْحَكَ اتّقِ الله في دمي ، فإنّي من أصحاب الشَّجرة ، فَقَالَ : الشَّجَرُ بالجبل كثير ، وقتله


یہ ان میں سے تھا جنہوں نے عثمان کے خلاف خروج کیا تھا اور قتل کیا ، ہم الله سے اس پر عافیت مانگتے ہیں ، پھر معاویہ اس پر جھپٹے اور اس کو فلسطین میں قید کیا ایک جماعت کے ساتھ ، پھر جیل سے فرار ہوا اور جبل لبنان پر جا کر پکڑا گیا اور اس کو قتل کیا گیا - پس جب اس کو پکڑا اور قتل کرنے لگے تو اس نے کہا بربادی ہو! الله سے ڈر ، میرے خون کے معاملے پر ، کیونکہ میں اصحاب شجرہ میں سے ہوں - کہا اس پہاڑ پر بھی بہت درخت ہیں اور اس کو قتل کیا -


(تاريخ الإسلام الذهبي: الطبقَة الرابعة: سَنَة سِتّ وَثَلاثِين)

تاب الولاة وكتاب القضاة للكندي (المتوفى: 355هـ) کے مطابق اسی زمانے میں ٣٦ ھ میں ابن أَبِي حُذيفة ، وابن عُديس ، وكِنانة بْن بِشر بھی قتل کئے گئے جو عثمان کے قتل میں شریک تھے - (صفحہ ١٨ ، دار الكتب العلمية ، بيروت - لبنان)

بعض لوگوں نے اس کو صحابی تسلیم کیا ہے اور یہ بھی لکھا ہے کہ یہ عثمان کا قاتل تھا لیکن اس راس الخیل کو صحابی کہنا صحابیت کی توہین ہے - ان شر پسندوں نے عثمان رضی الله کو شہید کیا لیکن قصاص سے بچ نہ سکے اور پکڑے گئے اور قتل بھی ہوئے بلا شبہ اللہ مظلوم کا خون رائیگاں نہیں جانے دیتا -

عبد الرحمن بن ملجم المرادى التدؤلى:

تاريخ ابن يونس المصرى کے مطابق:

عبد الرحمن بن ملجم المرادى التدؤلى نے معاذ بن جبل رضی الله عنہ سے قرآن کی تعلیم حاصل کی اور مصر میں یہ شخص عبد الرحمن بن عديس کا پڑوسی تھا - (جلد ١ ، صفحہ ٣١٤ ، ٣١٥ ، رقم ٨٤٣ ، دار الكتب العلمية - بيروت)

صفين میں علی رضی الله عنہ کے ساتھ لڑا اور بعد میں ان کا مخالف بن گیا اور علی کو شہید کیا -

الغرض سبائی فتنہ پردازوں نے امت کو مصیبت میں مبتلا رکھا ہزاروں معصوم لوگ شہید ہوئے - حتی کہ علی رضی الله عنہ کے حامیوں میں پھوٹ پڑی اور خوارج کا گروہ نکلا اور اسی گروہ نے ان کو شہید کیا اور حسن رضی الله عنہ نے معاویہ رضی الله عنہ سے صلح کر لی - والحمد اللہ
جزاک الله -
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,551
پوائنٹ
304
بھائی بات یہ ہے کہ ہمارے ”طبقہء اہلِ حدیث“میں بھی ”شیعت“ کا عنصر موجود ہے انکے ”انکار“ کرنے سے ”حقیقت“ چھپ نہیں سکتی اور ”طبقہء خاص“ کا تو ”شیعت و رافضیت“سے ”چولی دامن “ کا ساتھ ہے۔فرق اگر ہے تو صرف اتنا کہ”طبقہء اہلِ حدیث“ اخفاء سے کام لیتے ہیں اور ”طبقہء خاص“اعلانیہ۔”طبقہء خاص“ سے تو کوئی ”قبولِ اصلاح“کی امید نہیں البتہ ”طبقہء اہلِ حدیث“سے کچھ امید ”وابستہ“ ہے مگر” افسوس “اس وقت ہوتا ہے جب ان کی طرف سے بھی ”سبائیت“ کا پردہ چاک کرنے والوں پر ”ناصبیت“کا الزام لگادیا جاتا ہے۔
جزاک الله -

متفق -بلکل صحیح فرمایا آپ نے-
باطل فرقوں کی دیکھا دیکھی سے اکثر اہل حدیث بھی روایت کے اس اصول کو خاطر میں نہیں لاتے کہ- جن روایات میں صحابہ کرام و صحابیات رضوان الله اجممین کی کھلی تنقیص ہوگی وہ روایت ہرگز قابل قبول نہیں ہوگی-
 
شمولیت
فروری 29، 2012
پیغامات
231
ری ایکشن اسکور
596
پوائنٹ
86
@محمد علی جواد بھائی سلام عرض ہے۔ پوسٹ پر ماشاء اللہ کافی محنت کی ہے آپ نے، بس میرے خیال میں "حبیب الرحمن کاندھلوی" صاحب کا حوالہ دینا مناسب نہیں سمجھا آپ نے، ویسے یہ "شاہکار تحقیق" www.islamic-belief.net پر بھی موجود ہے۔ جرح و تعدیل کے جو اقوال آپ نے بے حوالہ پیش کیئے ہیں، ان کا جواب تو کوئی اہل علم ہی دے سکتا ہے، کیونکہ بلا حوالہ اقوال کی تحقیق ذیادہ مشکل ہو جاتی ہے۔
ایک روایت کا آپ نے ترجمہ کیا:
حَدَّثنا سَهْل بن بحر، قَال: حَدَّثنا أَبُو نعيم، قَال: حَدَّثنا عِصَامُ بْنُ قُدَامَةَ، عَن عِكْرِمة، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، رَضِي اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: قَالَ رَسُول اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيه وَسَلَّم لِنِسَائِهِ: لَيْتَ شعري أيتكن صاحبة الجمل الأدبب ، تخرج كِلابُ حَوْأَبٍ، فَيُقْتَلُ عَنْ يَمِينِهَا، وعَن يَسَارِهَا قَتْلًا كَثِيرًا، ثُمَّ تَنْجُو بَعْدَ مَا كَادَتْ.

ابن عبّاس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے اپنی بیویوں کے کے فرمایا کاش کہ جان لے نشانی، بپھرے بالوں والے ،اونٹ والی ، اس پر حواب کے کتے نکلیں گے، اپنے دائیں اور بائیں ڈھیروں کو قتل کرے گی پھر نقصان اٹھا کر بچ جائے گی-

اسکا حوالہ تو آپ کے ذمہ ہے، مگر اسکا ترجمہ علماء نے جو کیا وہ درج ذیل ہے:

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ازواجِ مطہرات کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ کوئی تم میں سے سرخ اونٹ والی نکلے گی یہاں تک کہ اس پر حواب کے کتے بھونکیں گے اور اس کے گرد بہت سے لوگ مارے جائیں گے اور وہ نجات پائےگی،نجات جب کہ وہ قتل ہونے کے قریب ہوگی۔

ترجموں میں الفاظ کے چناؤ سے جو گل کھلائے جاتے ہیں، یہ ان کی ایک شاندار مثال ہے جو آپ نے بیان کی۔

آپکی دوسری روایت جس پر آپ نے شیخ البانی کا حکم ذکر کیا تھا:

قیس بن ابی حازم کہتا ہے کہ پس جب عائشہ ( رضی الله تعالی عنہا) بنی عامر کے پانی ( تالاب) پر رات میں پہنچیں تو کتے بھونکے. عائشہ رضی الله تعالی عنہا نے پوچھا یہ کون سا پانی ہے. بتایا گیا الْحَوْأَبِ کا پانی ہے. آپ رضی الله تعالی عنہا نے کہا میں سمجھتی ہوں کہ مجھے اب واپس جانا چاہیے! اس پر ان کے ساتھ لوگوں نے کہا نہیں آگے چلیں مسلمان اپ کو دیکھ رہے ہیں، پس الله ان کے درمیان سب ٹھیک کر دے گا. عائشہ ( رضی الله تعالی عنہا) نے کہا بے شک رسول الله نے ایک روز (اپنی بیویوں سے) کہا تھا کہ کیسی ہو گی تم میں سے ایک جس پر الْحَوْأَبِ کے کتے بھونکیں گے

بھائی جو رنگ آمیزی آجکل ناصبیت کے بھیس میں موجود منکرین حدیث کر رھے ہیں اس سے ہٹ کر ایک سوال کرتا ہوں کہ "اس روایت میں امی عائشہ رضی اللہ عنہ پر کیا الزام آتا ہے" ذرا بیان فرما دیں، شکریہ۔
 

HUMAIR YOUSUF

رکن
شمولیت
مارچ 22، 2014
پیغامات
191
ری ایکشن اسکور
56
پوائنٹ
57
@محمد عثمان بھائی

آپ نے جو یہ سوال پوچھا تھا کہ
"اس روایت میں امی عائشہ رضی اللہ عنہ پر کیا الزام آتا ہے" ذرا بیان فرما دیں، شکریہ۔

اسکا جواب محمد علی جواد بھائی یہاں دے چکے ہیں

السلام و علیکم رحمت الله-
رافضیوں کی ایجاد کردہ باطل روایتوں میں سے ایک روایت یہ ہے جس میں بیان کیا گیا ہے کہ "تمام مومنین کی ماں حضرت عائشہ رضی الله عنہ خلیفہ المسلمین حضرت عثمان غنی رضی الله عنہ کی شہادت کی دلدوز خبرسن کر جب زبیر رضی الله تعالی عنہ ، عبدللہ بن عمر رضی الله تعالی عنہ اور بنو امیہ کی ایک جماعت کے ساتھ بصرہ روانہ ہوئیں تو راستے میں ایک جگہ قیام کیا - اس جگہ کا نام روایت میں حَوْأَبِ بیان کیا جاتا ہے - اس جگہ (بقول رافضیوں کے) پر حضرت عائشہ رضی الله عنہ کتے تھے (فنعوز باللہ )- اور اس کی پیشنگوئی نبی کریم صل الله علیہ و آ له وسلم زندگی میں کر دی تھی - آیے اب ان روایت کا جایزہ لیتے جن میں یہ اس کی بہتان کی تصریح ہے اور جس کو بغیر سمجھے نبی کریم صل الله علیہ و آ لہ وسلم سے منسوب گیا- اس کا مقصد اس کے علاوہ اور کہ کچھ کہ اہل بیعت کو زبردستی خون عثمان رضی الله عنہ کے معاملے حق ثابت کیا جائے اور جنہوں نے اس خون کے بدلے کا مطالبہ کیا ان کو ذلیل و رسوا اور جھوٹا ثابت کیا جائے -چاہے وہ نبی کریم کے خاندان کی انتہائی معزز اور قابل احترام ہستیاں نہ ہوں -اور جن کی چھوٹی سے چھوٹی گستاخی بھی ایک شدید کبیرہ گناہ ہے -

- اگردل پر پتھر رکھ کر ان جھوٹی روایات کو قبول کربھی لیا جائے - تو سوال ہے کہ اس روایت میں کتوں کے بھونکنے کا ذکر کیا نبی کریم کی مبارک زبان سے اپنی زوجہ کے لئے زیب دیتا ہے ؟؟؟ پھر یہ کہ کتے تو ہر ایرے غیرے پر بھونکتے ہیں- اب قافلے میں موجود کوئی بھی معزز ہستی ہو یا کوئی عام لوگوں کا قافله ہو -اس بات سے یہ کس طرح اخذ کیا جا سکتا ہے کہ جن پر کتے بھونکتے ہیں وہ جھوٹے یا دغا باز لوگ ہوتے ہیں - جیسا کہ سبائیوں نے ان روایات کی بنیاد پر ام المومنین پر ایک لغو الزام لگانے کی مذموم کوشش کی کہ وہ اپناؤ اجتہاد میں غلط تھیں -
-
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,551
پوائنٹ
304
@محمد علی جواد بھائی سلام عرض ہے۔ پوسٹ پر ماشاء اللہ کافی محنت کی ہے آپ نے، بس میرے خیال میں "حبیب الرحمن کاندھلوی" صاحب کا حوالہ دینا مناسب نہیں سمجھا آپ نے، ویسے یہ "شاہکار تحقیق" www.islamic-belief.net پر بھی موجود ہے۔ جرح و تعدیل کے جو اقوال آپ نے بے حوالہ پیش کیئے ہیں، ان کا جواب تو کوئی اہل علم ہی دے سکتا ہے، کیونکہ بلا حوالہ اقوال کی تحقیق ذیادہ مشکل ہو جاتی ہے۔
ایک روایت کا آپ نے ترجمہ کیا:
حَدَّثنا سَهْل بن بحر، قَال: حَدَّثنا أَبُو نعيم، قَال: حَدَّثنا عِصَامُ بْنُ قُدَامَةَ، عَن عِكْرِمة، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، رَضِي اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: قَالَ رَسُول اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيه وَسَلَّم لِنِسَائِهِ: لَيْتَ شعري أيتكن صاحبة الجمل الأدبب ، تخرج كِلابُ حَوْأَبٍ، فَيُقْتَلُ عَنْ يَمِينِهَا، وعَن يَسَارِهَا قَتْلًا كَثِيرًا، ثُمَّ تَنْجُو بَعْدَ مَا كَادَتْ.

ابن عبّاس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے اپنی بیویوں کے کے فرمایا کاش کہ جان لے نشانی، بپھرے بالوں والے ،اونٹ والی ، اس پر حواب کے کتے نکلیں گے، اپنے دائیں اور بائیں ڈھیروں کو قتل کرے گی پھر نقصان اٹھا کر بچ جائے گی-

اسکا حوالہ تو آپ کے ذمہ ہے، مگر اسکا ترجمہ علماء نے جو کیا وہ درج ذیل ہے:

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ازواجِ مطہرات کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ کوئی تم میں سے سرخ اونٹ والی نکلے گی یہاں تک کہ اس پر حواب کے کتے بھونکیں گے اور اس کے گرد بہت سے لوگ مارے جائیں گے اور وہ نجات پائےگی،نجات جب کہ وہ قتل ہونے کے قریب ہوگی۔

ترجموں میں الفاظ کے چناؤ سے جو گل کھلائے جاتے ہیں، یہ ان کی ایک شاندار مثال ہے جو آپ نے بیان کی۔

آپکی دوسری روایت جس پر آپ نے شیخ البانی کا حکم ذکر کیا تھا:

قیس بن ابی حازم کہتا ہے کہ پس جب عائشہ ( رضی الله تعالی عنہا) بنی عامر کے پانی ( تالاب) پر رات میں پہنچیں تو کتے بھونکے. عائشہ رضی الله تعالی عنہا نے پوچھا یہ کون سا پانی ہے. بتایا گیا الْحَوْأَبِ کا پانی ہے. آپ رضی الله تعالی عنہا نے کہا میں سمجھتی ہوں کہ مجھے اب واپس جانا چاہیے! اس پر ان کے ساتھ لوگوں نے کہا نہیں آگے چلیں مسلمان اپ کو دیکھ رہے ہیں، پس الله ان کے درمیان سب ٹھیک کر دے گا. عائشہ ( رضی الله تعالی عنہا) نے کہا بے شک رسول الله نے ایک روز (اپنی بیویوں سے) کہا تھا کہ کیسی ہو گی تم میں سے ایک جس پر الْحَوْأَبِ کے کتے بھونکیں گے

بھائی جو رنگ آمیزی آجکل ناصبیت کے بھیس میں موجود منکرین حدیث کر رھے ہیں اس سے ہٹ کر ایک سوال کرتا ہوں کہ "اس روایت میں امی عائشہ رضی اللہ عنہ پر کیا الزام آتا ہے" ذرا بیان فرما دیں، شکریہ۔
محترم -

آپ نے حبیب الرحمان کاندھلوی نام لیکر طنز تو کیا ہے لیکن آپ نے شاید ٹھیک سے انہیں پڑھا نہیں- حواب کے کتوں سے متعلق انہوں نے صرف علامہ ابن جریر طبری رح کی روایت کو لیکر ہی اس پر تنقید کی ہے- باقی روایات جو بیان کی گئیں ہیں ان کی کتاب میں اس پر تبصرہ موجود نہیں ہے - (پڑھیے ان کتاب مذہبی داستانیں اور ان کی حقیقت جلد ١ صفحہ ٢٩٦)-

باقی اس روایت سے متعلق کچھ علتین اور سوالات جو میں نے بیان کیے ہیں اس لنک کی پوسٹ نمبر ٢٩ میں موجود ہیں - ان کے جوابات (اہل بیعت کی محبت میں غلو کی عینک اتار کر ) لکھیں تو بہتر ہو گا -معذرت کے ساتھ اتنا تو شاید عیسایوں نے حضرت عیسی علیہ سلام کی محبت میں غلو نہیں کیا ہو گا - جتنا رافضی اور ان کے ہمنوا اہل سنّت نے اہل بعیت اور حضرت علی رضی الله انہ کی شان میں کیا ہے -

http://forum.mohaddis.com/threads/روایات-حَوْأَبِ-کے-کتے-اور-ام-المومنین-حضرت-عائشہ-رضی-اللہ-عنہا-ایک-تحقیقی-جائزہ.26240/page-3

مزید یہ کہ اگر آپ سے کہا جائے کہ آپ کی والدہ پر کتے بھونکے تھے توآپ کیسا محسوس کریں گے؟؟ - تو جب امّت کے مومنوں کی ماں پر کوئی تبرا کرے گا -تو ان کے ناموس کی حفاظت ہمارا فرض ہو گا -اب چاہے وہ تبرا کرنے والے رافضی ہوں یا نام نہاد اہل سنّت ہوں - اگر اماں عائشہ رضی الله عنہ، حضرت عثمان غنی رضی الله عنہ ، حضرت امیر معاویہ رضی الله عنہ اور دیگر صحابہ و صحابیات رضوان الله اجمعین کی ناموس کی حفاظت کرنا ناصبیت ہے تو جی ہاں ہم "ناصبی" ہیں -
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,551
پوائنٹ
304
@محمد عثمان بھائی

آپ نے جو یہ سوال پوچھا تھا کہ
"اس روایت میں امی عائشہ رضی اللہ عنہ پر کیا الزام آتا ہے" ذرا بیان فرما دیں، شکریہ۔

اسکا جواب محمد علی جواد بھائی یہاں دے چکے ہیں
جزاک الله -
 
شمولیت
فروری 29، 2012
پیغامات
231
ری ایکشن اسکور
596
پوائنٹ
86
السلام علیکم محترم۔ آپ نے عیسایوں کےغلو کی بات کر کہ اللہ کے نبی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث یاد دلا دی جس کا حوالہ مجھے یاد نہیں، مگر مفہوم ایسے ہے کہ علی رضی اللہ عنہ کے بارہ میں امت دو گروہوں میں بٹ جائے گی، بالکل ویسے جیسے عیسی علیہ السلام کے بارہ میں اہل کتاب بٹ گئے تھے، ایک غلو کی حد پار کر کہ انکو مرتبہ الہی تک لے جائے گا، تو دوسرا علی رضی اللہ عنہ کے بغض و عناد میں ڈوب جائے گا۔ اسی لئے علماء کے ہاں یہ دونوں گروہ ، رافضی و ناصبی، اہل کتاب کی طرح گمراہ ہیں۔ اس بات پر امام شافعی رحمہ اللہ کا وہ قول یاد آ گیا کہ: اَنْ کٰانَ رَفْضاً حُبُّ آلِ مُحَمَّدٍ فَلْیُشْھَدِ الثَّقَلاٰنِِ اِنِّیْ رٰافِضِیْ۔
× اگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی اولاد سے پیار کرنا رفض ہے تو گواہ ہو جاو اے جن و انس بے شک میں سب سے بڑا رافضی ہوں۔
امام صاحب کو یہ بات اس وقت کہنی پڑی جب ان کے مخالف "ٹھیٹھ" قسم کے "اصلی اہل سنت" گروہ نے ان کی بیان کردہ روایات پر، جو فضائل صحابہ اہل بیت میں تھی، تنقید کر کہ امام صاحب کو رافضی مشہور کرنے کا بیہودہ پروپیگینڈہ کرنا شروع کر دیا تھا۔

باقی آپ نے فرمایا کہ:
"جب امّت کے مومنوں کی ماں پر کوئی تبرا کرے گا -تو ان کے ناموس کی حفاظت ہمارا فرض ہو گا -اب چاہے وہ تبرا کرنے والے رافضی ہوں یا نام نہاد اہل سنّت ہوں"

تو پیارے بھائی اس انتہائی "معقول" اعتراض کا جواب آپ اپنی ہی پوسٹ میں دے چکے ہیں، اگر شیعوں کی منفی شوچ سے اٹنھے والے بے وزن اعتراضات کا ڈر دل سے نکال کر اپنی ہی پوسٹ کی مندرجہ ذیل لائن ایک بار پھر پڑھ لیں تو بات صاف ہو جائے گی:
آپ نے فرمایا:
"اس بات سے یہ کس طرح اخذ کیا جا سکتا ہے کہ جن پر کتے بھونکتے ہیں وہ جھوٹے یا دغا باز لوگ ہوتے ہیں"

بجائے اس بات کے کہ ہم ان اعتراض کرنے والے جاہل شیعوں کا علمی رد کریں اور عقلی و نقلی دلائل سے ان کے بوسیدہ دلائل کی قلعی کھول دیں، ہم الٹا اپنے ہی لٹریچر کو رد کرنے بیٹھ جاتے ہیں۔
آپ اس سوال کا جواب دیں کہ کیا، علم منطق اور علم حیوانیات کے حساب سے، جس کو بھی دیکھ کر کتے بھونکیں وہ غلط اور جھوٹے لوگ ہوتے ہیں، اگر ہوتے ہیں تو دلیل دیں، آجکل لوگوں نے گھروں میں کتے پالے ہوتے ہیں جو ہر آنے والے مہمان پر بھانکتے ہیں، کیا مہمان چور ہوتے ہیں؟ عجیب خوف چڑھایا ہوا ہے دلوں میں "شیعوں کے اعتراض" کا۔

اب دیکھیں بھائی، غصہ ایک فطری بات ہے، کبھی کبھی انسان کو آ جاتا ہے، اب اگر ایک روایت میں یہ بیان کیا گیا ہو کہ "غصہ میں حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی داڑھی پکر کر کھینچا"، اب اس روایت سے کوئی رافضی ذہن کا بندہ یہ بات نکالے گا کہ حضرت ابو بکر اور عمر تو دشمن تھے، امامت کے لئے لڑتے تھے وغیرہ، اور آپ جیسا صحابہ سے پیار کرنے والا مخلص انسان اس واقعے کے راویوں پر علماء جرح و تعدیل کے اقوال سے جرح نقل کرنے لگے گا اور اس واقعے کو درایت کے خلاف کہ کر رد کر دے گا، اور میرے جیسا کوئی بندہ کہے گا کہ بھائی یہ ایک دن کا واقعہ ہے، جب حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کو غصہ آ گیا، جیسے ایک بھائی کو دوسرے بھائی پر آتا ہے، اس سے یہ لازم نہین آتا کہ وہ ہر وقت لڑتے تھے اور دشمن تھے نعوذباللہ، اور اسکو سمجھانے کے لیئے قرآن سے ایک آیت پڑھونگا:

"اور جب موسیٰ (علیہ السلام) اپنی قوم کی طرف واپس آئے غصہ اور رنج میں بھرے ہوئے تو فرمایا کہ تم نے میرے بعد یہ بڑی بری جانشینی کی؟ کیا اپنے رب کے حکم سے پہلے ہی تم نے جلد بازی کرلی، اور جلدی سے تختیاں ایک طرف رکھیں اور اپنے بھائی کا سر پکڑ کر ان کو اپنی طرف گھسیٹنے لگے۔ " سورۃ اعراف - 150

اب اس آیت کو کوئی عقل سے کورا ہی شان نبوت میں خلاف، ناموس نبوی کے منافی سمجھ کر قرآن پر اعتراض کرنے بیٹھ جائے گا۔

آپ نے خود لکھا ہے کہ صحابہ کرام نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا:
"کی فقاہت کے اعلیٰ درجے کو دیکھتے ہوے درخواست کی تھی کہ آپ مسلمانوں کو اس فتنے سے بچایے اوراس موقعے پر ثالث کا کردار ادا کیجیے "

یہی بات اس حدیث میں آئی ہے کہ:

" آپ رضی الله تعالی عنہا نے کہا میں سمجھتی ہوں کہ مجھے اب واپس جانا چاہیے! اس پر ان کے ساتھ لوگوں نے کہا نہیں آگے چلیں مسلمان اپ کو دیکھ رہے ہیں، پس الله ان کے درمیان سب ٹھیک کر دے گا"سلسلة الأحاديث الصحيحة 1: 767 رقم 474

آپ کا موقف اور روایت کے الفاظ بالکل ایک ہیں، حواب کے کتوں والا اعتراض میرے خیال میں باقی نہیں رہا، اللہ ہمیں ہدایت دے، آمین،
 

HUMAIR YOUSUF

رکن
شمولیت
مارچ 22، 2014
پیغامات
191
ری ایکشن اسکور
56
پوائنٹ
57
وعلیکم السلام بھائی @محمد عثمان

بھائی یہ جو @محمد علی جواد بھائی نے اس "حواب" والی روایت کے خلاف اتنا سخت رویہ رکھا ہوا ہے، اسکا سبب کیا ہے، وہ میں آپ کو بتاتا ہوں، اور یہ بھی دیکھئے کہ ہمارے "اہل سنت علماء" نے ہی یہاں کیا کیا گل کھلائے ہیں، یہ حدیث دیکھئے، اسی واقعے سے متعلق
) یہ حدیث ام سلمہ رض سے یوں روایت کی گئی ہے :
رسول خدا صلی الله علیہ و آلہ وسلم نے بعض امہات مؤمنین(اپنی بیویوں) کے باہر نکلنے کے بارے میں یاددہانی کی ، عائشہ نے اس پر مذاق اڑایا، حضرت نے اس سے مخاطب ہوکر فرمایا : اے حمیرا ! :خبر دار، کہیں ان میں سے تم ہی نہ ہو، اے حمیرا : گویا میںدیکھ رہاہوںکہ حواٴب کے کتے تم پر بھونک رہے ہیں ، اس وقت تم علی بن ابیطالب سے جنگ کروگی جبکہ تم ظالم ہوگی
سیوطی نے خصائص، ج ۲/ ۱۳۷ ، ابن عبد البر نے عائشہ کی تشریح میں استیعاب میں یہ روایت نقل کی گئی ہے ۔ اس کے بعد کہا گیا ہے : یہ روایت نبوت کی نشانیوں میں سے ہے ۔


اب بتائے کہ کیا یہ علامہ جلال الدین سیوطی صاحب اور حافظ عبدالبر صاحب کیا علمائے اہل تشیع میں شمار ہوتے ہیں؟ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنھا اور سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ ہی کیا اس معاملے میں خطا پر تھے اور ظالم تھے، حالانکہ یہ دونوں تو سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ، خلیفہ مظلوم کی شہادت کے قصاص کے لئے نکلے تھے۔ پھر انکے ساتھ سیدنا زبیر اور سیدنا طلحہ رضوان اللہ علیھم اجمعین بھی موجود تھے؟ کیا انکو بھی قصاص شرعی لینے کے سلسلے میں خطاوار ٹہرایا جائے گا؟ یہی حدیث جب ہمارے سنی علماء بتاتے ہیں تو غالبا اسی حصے کو بڑھا چڑھا کر بتایا جاتا ہے، اور اس پر تو بہت زور دیا جاتا ہے کہ "

یہ روایت نبوت کی نشانیوں میں سے ہے "۔ توثابت یہ ہوا کہ سیدہ عائشہ رض کو نعوذباللہ جب تک خطا وار اور ظالم نہ ٹھرایا جائے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کی نشانیاں ہی ظاہر نہیں ہونگی۔
لاحول ولا قوۃ الا باللہ

کیسا سنگین مذاق ہے جو اس امت کے لئے اسطرح کی حدیثوں کو لاکر بار بار کھیلا جارہا ہے۔ اور شکوہ ہمیں یہاں غیروں سے نہیں بلکہ اپنوں سے ہی ہے۔ پھر جب کوئی ایسے ہی حدیثوں کو لیکر (نعوذ باللہ۔ العیاذ باللہ) "عائشہ ۔ فاحشہ" کا نعرہ لگاتا ہے، تو ہم بلاوجہ اسکو گالیاں دینے لگتے ہیں۔
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,551
پوائنٹ
304
السلام علیکم محترم۔ آپ نے عیسایوں کےغلو کی بات کر کہ اللہ کے نبی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث یاد دلا دی جس کا حوالہ مجھے یاد نہیں، مگر مفہوم ایسے ہے کہ علی رضی اللہ عنہ کے بارہ میں امت دو گروہوں میں بٹ جائے گی، بالکل ویسے جیسے عیسی علیہ السلام کے بارہ میں اہل کتاب بٹ گئے تھے، ایک غلو کی حد پار کر کہ انکو مرتبہ الہی تک لے جائے گا، تو دوسرا علی رضی اللہ عنہ کے بغض و عناد میں ڈوب جائے گا۔ اسی لئے علماء کے ہاں یہ دونوں گروہ ، رافضی و ناصبی، اہل کتاب کی طرح گمراہ ہیں۔ اس بات پر امام شافعی رحمہ اللہ کا وہ قول یاد آ گیا کہ: اَنْ کٰانَ رَفْضاً حُبُّ آلِ مُحَمَّدٍ فَلْیُشْھَدِ الثَّقَلاٰنِِ اِنِّیْ رٰافِضِیْ۔
× اگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی اولاد سے پیار کرنا رفض ہے تو گواہ ہو جاو اے جن و انس بے شک میں سب سے بڑا رافضی ہوں۔
امام صاحب کو یہ بات اس وقت کہنی پڑی جب ان کے مخالف "ٹھیٹھ" قسم کے "اصلی اہل سنت" گروہ نے ان کی بیان کردہ روایات پر، جو فضائل صحابہ اہل بیت میں تھی، تنقید کر کہ امام صاحب کو رافضی مشہور کرنے کا بیہودہ پروپیگینڈہ کرنا شروع کر دیا تھا۔

باقی آپ نے فرمایا کہ:
"جب امّت کے مومنوں کی ماں پر کوئی تبرا کرے گا -تو ان کے ناموس کی حفاظت ہمارا فرض ہو گا -اب چاہے وہ تبرا کرنے والے رافضی ہوں یا نام نہاد اہل سنّت ہوں"

تو پیارے بھائی اس انتہائی "معقول" اعتراض کا جواب آپ اپنی ہی پوسٹ میں دے چکے ہیں، اگر شیعوں کی منفی شوچ سے اٹنھے والے بے وزن اعتراضات کا ڈر دل سے نکال کر اپنی ہی پوسٹ کی مندرجہ ذیل لائن ایک بار پھر پڑھ لیں تو بات صاف ہو جائے گی:
آپ نے فرمایا:
"اس بات سے یہ کس طرح اخذ کیا جا سکتا ہے کہ جن پر کتے بھونکتے ہیں وہ جھوٹے یا دغا باز لوگ ہوتے ہیں"

بجائے اس بات کے کہ ہم ان اعتراض کرنے والے جاہل شیعوں کا علمی رد کریں اور عقلی و نقلی دلائل سے ان کے بوسیدہ دلائل کی قلعی کھول دیں، ہم الٹا اپنے ہی لٹریچر کو رد کرنے بیٹھ جاتے ہیں۔
آپ اس سوال کا جواب دیں کہ کیا، علم منطق اور علم حیوانیات کے حساب سے، جس کو بھی دیکھ کر کتے بھونکیں وہ غلط اور جھوٹے لوگ ہوتے ہیں، اگر ہوتے ہیں تو دلیل دیں، آجکل لوگوں نے گھروں میں کتے پالے ہوتے ہیں جو ہر آنے والے مہمان پر بھانکتے ہیں، کیا مہمان چور ہوتے ہیں؟ عجیب خوف چڑھایا ہوا ہے دلوں میں "شیعوں کے اعتراض" کا۔

اب دیکھیں بھائی، غصہ ایک فطری بات ہے، کبھی کبھی انسان کو آ جاتا ہے، اب اگر ایک روایت میں یہ بیان کیا گیا ہو کہ "غصہ میں حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی داڑھی پکر کر کھینچا"، اب اس روایت سے کوئی رافضی ذہن کا بندہ یہ بات نکالے گا کہ حضرت ابو بکر اور عمر تو دشمن تھے، امامت کے لئے لڑتے تھے وغیرہ، اور آپ جیسا صحابہ سے پیار کرنے والا مخلص انسان اس واقعے کے راویوں پر علماء جرح و تعدیل کے اقوال سے جرح نقل کرنے لگے گا اور اس واقعے کو درایت کے خلاف کہ کر رد کر دے گا، اور میرے جیسا کوئی بندہ کہے گا کہ بھائی یہ ایک دن کا واقعہ ہے، جب حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کو غصہ آ گیا، جیسے ایک بھائی کو دوسرے بھائی پر آتا ہے، اس سے یہ لازم نہین آتا کہ وہ ہر وقت لڑتے تھے اور دشمن تھے نعوذباللہ، اور اسکو سمجھانے کے لیئے قرآن سے ایک آیت پڑھونگا:

"اور جب موسیٰ (علیہ السلام) اپنی قوم کی طرف واپس آئے غصہ اور رنج میں بھرے ہوئے تو فرمایا کہ تم نے میرے بعد یہ بڑی بری جانشینی کی؟ کیا اپنے رب کے حکم سے پہلے ہی تم نے جلد بازی کرلی، اور جلدی سے تختیاں ایک طرف رکھیں اور اپنے بھائی کا سر پکڑ کر ان کو اپنی طرف گھسیٹنے لگے۔ " سورۃ اعراف - 150

اب اس آیت کو کوئی عقل سے کورا ہی شان نبوت میں خلاف، ناموس نبوی کے منافی سمجھ کر قرآن پر اعتراض کرنے بیٹھ جائے گا۔

آپ نے خود لکھا ہے کہ صحابہ کرام نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا:
"کی فقاہت کے اعلیٰ درجے کو دیکھتے ہوے درخواست کی تھی کہ آپ مسلمانوں کو اس فتنے سے بچایے اوراس موقعے پر ثالث کا کردار ادا کیجیے "

یہی بات اس حدیث میں آئی ہے کہ:

" آپ رضی الله تعالی عنہا نے کہا میں سمجھتی ہوں کہ مجھے اب واپس جانا چاہیے! اس پر ان کے ساتھ لوگوں نے کہا نہیں آگے چلیں مسلمان اپ کو دیکھ رہے ہیں، پس الله ان کے درمیان سب ٹھیک کر دے گا"سلسلة الأحاديث الصحيحة 1: 767 رقم 474

آپ کا موقف اور روایت کے الفاظ بالکل ایک ہیں، حواب کے کتوں والا اعتراض میرے خیال میں باقی نہیں رہا، اللہ ہمیں ہدایت دے، آمین،
السلام وعلیکم و رحمت الله -

اگرچہ آپ نے مراسلے میں اعتدال قائم رکھنے کی کوشش کی ہے - جو کہ اچھی ہے - اور روایتی اہل سنّت سے ہٹ کر روایت پر اپنا موقف پیش کیا ہے - لیکن میرا بلکہ اکثراہل علم کا کہنا یہی ہے کہ ہمارے ہاں اکثر اہل سنّت مختلف روایات کو پرکھنے معاملے میں اعتدال پرستی سے ہٹے ہوے ہیں - ایک طبقہ ایسا ہے جو اپنے جدت پسند نظریات کی بدولت قرآن و سنّت کے اصلی مفہوم کو اپنی مرضی کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کرتا ہے اورچھوٹی سے چھوٹی بات جو قرآن کے مفہوم سے بظاھر میل نہیں کھاتی اس بنیاد پر احادیث نبوی کا ایک پورے نساب کو رد کردیتا ہے - یہ اصلی منکرین احادیث ہیں - جب کہ دوسری طرف اہل سنّت کا ایک بڑا طبقہ ایسا بھی ہے جو احادیث نبوی کو پرکھنے کے روایتی اصولوں پر اس حد تک انحصار کرتا ہے کہ روایت کے متن کو دیکھے بغیرصرف ثقاہت کی بنیاد پر اس کوآنکھیں بند کر کے من و عن قبول کرنے پر تیار ہو جاتا ہے اور جو ذرا بھی ان روایت کے متن پر جائز تنقید کرتا ہے تو اس پر ان اہل سنّت کے علماء کا خون کھولنے لگتا ہے اور انہیں اپنے سوا ہر کوئی منکرین حدیث کی صف میں کھڑا نظر آتا ہے - چاہے روایت میں کتنا ہی قابل اعتراض مواد کیوں نہ موجود ہو - ان کے نزدیک راوی کی ثقاہت ہی روایت کے سچا ہونے کے لئے کافی ہوتی ہے- یہ دونوں رویے اپنی اپنی جگہ غلط اور گمراہی کی طرف لے جانے والے ہیں-

سوچنے والی بات ہے کہ اگر ثقاہت اور اجماع ہی روایت کو پرکھنے کا اصل اصول ہے تو صحابہ سے بڑھ کر کون سقہ ہو گا لیکن ان میں بھی نبی کریم صل الله و آ وسلم کے اکثر احکامات کو سمجھنے میں غلطی لگی - لیکن کسی نے ایک دوسرے کو منکرین حدیث کا طعنہ نہ دیا - بلکہ خود محدثین میں اکثر روایت کو سمجھنے میں شدید اختلاف ہوا لیکن کسی نے ایک دوسرے پر منکرہنے کا الزام عائد نہیں کیا - امام بخاری رح اور امام احمد بن حنبل رح میں خلق قرآن کے نظریہ کے معاملے میں شدید اختلاف تھا - لیکن پھربھی انہوں نے ایک دوسرے پر منکر حدیث کا الزام عائد نہ کیا - یہی نہیں بلکہ امام بخاری رح نے "حواب کے کتے" والی روایت کو اس قابل ہی نہیں جانا کہ وہ اپنی صحیح میں اس کو تحریر کرتے - جب کہ حواب کے کتے والی روایت کا ایک راوی یونس بن يزيد الأيلي جو سقہ راوی میں شمار ہوتا ہے صحیحین میں اس سے متعدد روایتیں منقول ہیں - تو کیا اس بنیاد پر امام بخاری رح منکر حدیث ہوے ؟؟؟

جہاں تک "حواب کے کتے" والی روایت کا تعلق ہے تو اس پر اصل اعتراض ہی اس بات پر ہے کہ نبی کریم جیسی عظیم المرتبت شخصیت اپنی اتنی محبوب زوجہ کے لئے یہ الفاظ استمعال کر سکتے ہیں یا نہیں؟؟ ظاہر ہے کہ ایسا بظاہر ممکن نہیں - اس بات سے تو کوئی انکار نہیں کر رہا کہ حضرت عائشہ رضی الله عنہ دیگر صحابہ کرام کے ساتھ خون عثمان رضی الله عنہ کا بدلہ لینے کا مطالبہ لے کر بصرہ روانہ ہویئں تھیں - ان کا یہ اجتہاد صحیح تھا یا غلط یہ بھی زیر بحث نہیں - لیکن اصل مسلہ اس روایت میں یہ ہے کہ کیا نبی کریم (نعوز باللہ ) اس بھونڈے انداز میں ام المومینن رضی الله عنہ کے اجتہاد کو غلط کہنے کی پیشنگوپی کرسکتے ہیں؟؟؟

اور بقول حمیر یوسف صاحب کے کہ اہل سنّت نے انہی روایات کو بنیاد بنا کر یہ کہہ ڈالا کہ یہ روایت نبوت کی نشانیوں میں سے ہے "۔ توثابت یہ ہوا کہ سیدہ عائشہ رض کو نعوذباللہ جب تک خطا وار اور ظالم نہ ٹھرایا جائے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کی نشانیاں ہی ظاہر نہیں ہونگی۔
لاحول ولا قوۃ الا باللہ

کیا یہ بہتر ہے کہ ہم ان روایات پر اپنے روایتی اصولوں کو سامنے رکھ کر ان کی مختلف تاویلیں پیش کریں - یا یہ بہتر ہے کہ ان روایت میں پاے جانے والے قابل اعتراض مواد کی بنیاد پر پوری روایت کو مسترد کر دیا جائے ؟؟؟ ظاہر ہے کہ دوسرا اصول زیادہ بہتر ہے - تا کہ مسلمانوں میں پیدا ہونے والے ہر شکوک شبہات کا شروع میں ہی خاتمہ کردیا جائے -اور کسی کو یہ کہنے کی جراءت ہی نہ ہو کہ صحابہ و صحابیات رضوان اللّہ اجمعین اپنے کردار کے لحاظ سے ایسے اورایسے تھے-

جہاں تک آپ نے حضرت ابو بکر صدیق رضی الله عنہ اور حضرت عمر عمر فاروق رضی الله عنہ کے جھگڑے کی مثال دی تو یہ تو رافضی بھی جانتے ہیں کہ غصہ آنا ایک فطری امر ہے - کیا حضرت علی رضی الله عنہ نے حضرت عبّاس رضی الله سے نبی کریم صل الله علیہ و آ له وسلم کی قرب وفات کے وقت یہ نہیں کہا تھا کہ اگر ہم نے نبی کریم سے خلافت مانگی اور ان کی طرف سے انکار ہو گیا تو زندگی بھر ہمیں خلافت نہیں مل سکے گی تو بہتر ہے کہ اس وقت چپ رہا جائے- کیا کسی اہل سنّت نے آج تک یہ کہا ہے کہ اس بات سے تو یہ ظاہر ہو رہا ہے کہ حضرت علی رضی الله عنہ خلافت کے متمنی خواہش مند تھے - اور اس موقع کے انتظار میں تھے کہ شاید انھیں چپ رہنے پر خلافت عطا ہو جائے گی - جب کہ حقیقت میں یہ تو صرف ایک فطری تقاضے کے خواہش کا اظھار تھا-

جہاں تک حضرت موسیٰ علیہ سلام کے حضرت ہارون علیہ سلام کی داڑھی پکڑنے کا واقعہ ہے یہ بھی فطرت کے عین مطابق ہے - ظاہر ہے کہ ایک الله کے نبی میں الله کے دین کی سربلندی اور حفاظت کی دینی حمیت سے کسی اور سے زیادہ کس میں ہو گی- اور ان کا رویہ اس بنیاد پرسخت ہو گیا - دوسرے یہ کہ اس واقعہ سے یہ بھی پتا چلتا ہے کہ ایک نبی بھی غیب کا علم نہیں رکھتا کہ اس کے ہوا یا کیا ہو رہا ہے - حضرت موسیٰ علیہ سلام اس بات سے بے خبر تھے کہ ان کی امّت ان کے پیچھے گمراہی میں پڑ گئی اور حضرت ہارون علیہ سلام کے سمجھانے پر بھی نہیں سمجھے - یعنی ان واقعیات کی جائز تاویل ممکن ہے -

بہرحال یہی وہ بنیادی نقطۂ ہے کہ جس کی بنیاد پر ان روایتوں کی جانچ پڑتال ضروری ہے -اور ان کو اپنے آئمہ کرام کی محبت و غلو میں من وعن قبول کرنا ہمیں گمراہی کے رستے پر ڈال سکتے ہے -

الله ہم سب کو اپنے سیدھے راستے کی طرف گامزن کرے (آمین)
 
شمولیت
فروری 29، 2012
پیغامات
231
ری ایکشن اسکور
596
پوائنٹ
86
محترم بہتر تو یہ تھا کہ جواد بھائی ہی اس بات پر تبصرہ کرتے۔ آپ نے جو بھی لکھا ہے، اس سے لگتا ہے کہ یا تو میری پوسٹ آپ نے پڑہی نہیں، یا اسے سمجھا نہیں۔ بھائی اس حدیث رسول پر جو اعتراض کیا گیا ہے، میں نے اسکا جواب دیا ہے، اور مثال بیان کر کہ بتایا ہے کہ درایت کہ یہ خود ساختہ اصول کہیں قرآن کریم پر بھی نہ چلنے لگیں۔ اب اس حدیث سے جلال الدین سیوطی رحمہ اللہ نے جو بھی سمجھ کر کہا وہ ان کے ذمہ ہے۔ ہم کسی عالم کے مقلد نہیں، اور نہ ہی نصوص کے مقابلے میں کسی کی رائے کو کوئی وزن دیتے ہیں۔ آپ علماء سلف کے اقوال مشاجرات صحابہ کے سلسلہ میں نقل کرنے سے پہلے جمہور علماء کا موقف، اور شاذ اقوال اور تفردات پر موجود نقد کو پوری طرح پڑھ لیں، ان شاء اللہ اہل حدیث و سنت علماء کا اس بارہ میں موقف واضع ہو جائے گا۔
آپ کو ایک بار پھر اسی بات کی طرف متوجہ کرونگا جس کا آپ لوگ شدت شے شکار ہیں، اور وہ ہے "رافضیوں کے اعتراضات کا خوف"، جو آپکے اس جملہ سے ظاہر ہو رہا ہے

"کیسا سنگین مذاق ہے جو اس امت کے لئے اسطرح کی حدیثوں کو لاکر بار بار کھیلا جارہا ہے۔ اور شکوہ ہمیں یہاں غیروں سے نہیں بلکہ اپنوں سے ہی ہے۔ پھر جب کوئی ایسے ہی حدیثوں کو لیکر (نعوذ باللہ۔ العیاذ باللہ) "عائشہ ۔ فاحشہ" کا نعرہ لگاتا ہے، تو ہم بلاوجہ اسکو گالیاں دینے لگتے ہیں"


بھائی جان پہلے تو اس رنگ آمیزی پر مجھے افسوس ہے جو آپ نے دکھائی کہ ایسی احادیث سے ام المومنین پر اتنا گندا الزام لگتا ہے، اللہ جانے اس حدیث میں ایسی کیا بات نظر آئی آپکو۔ اللہ سمجھ عطا فرمائے۔
دوسری بات یہ کہ آپ ابھی شیعوں کے اعتراضات سے صحیح طور پر واقف نہیں ہیں شاید۔ کیونکہ آپ تک جہاں سے بھی یہ اعتراضات پہنچائے جاتے ہیں، وہ گروہ شیعوں کے رد سے ذیادہ صحیح احادیث میں تشکیک پہیلانے کا روادار ہے۔ سادہ الفاظ میں "چھپے منکرین حدیث" ہیں۔ اب ذرا اپنے "قیاسات" کو ایک جانب رکھ کر ان آیات پر غور کریں:

"اے نبی آپ کیوں حرام کرتے ہیں جو الله نے آپ کے لیے حلال کیا ہے آپ اپنی بیویوں کی خوشنودی چاہتے ہیں اور الله بخشنے والا نہایت رحم والا ہے" سورۃ تحریم، 1

اس آیت پر کوئی رافضی النسل یہ اعتراض اٹھائے کہ نعوذباللہ امہات المومنین کا تو کام ہی یہی تھا کہ شریعت میں تبدیلی کروا دیں نعوذباللہ۔ حلال کو حرام اور حرام کو حلال کروا دیں نعوذباللہ۔ یہ کام تو منافقین کہ گروہوں کا تھا۔
اب بھائی آپ بتائیں کیا کہیں گے؟ مجھے پوری امید ہے کہ اس آیت پر درایت کی خود ساختہ چھری چلا کر رد نہیں کریں گے۔

اسی سورۃ میں آگے ہے:
"اگر تم دونوں الله کی جناب میں توبہ کرو تو (بہتر) ورنہ تمہارے دل تو مائل ہو ہی چکے ہیں اور اگر تم آپ (صلی اللہ علیہ وسلم)کے خلاف ایک دوسرے کی مدد کرو گی تو بے شک الله آپ کا مددگار ہے اور جبرائیل اور نیک بخت ایمان والے بھی اور سب فرشتے اس کے بعد آپ کے حامی ہیں" سورۃ تحریم-5

پیارے بھائی اس آیت پر، اگر کوئی بد بخت رافضی اعتراض اٹھائے تو کیا کریں گے، رد کر دیں ان آیات کو بھی نعوذ باللہ۔

بھائی جان آپ سے گزارش ہے کہ جیسے حب اہل بیت میں شیعوں نے فضائل صحابہ کی صحیح احادیث کا انکار کیا، ایسے ہی ان شیعوں کے رد میں اٹھنے والے گروہوں میں سے کچھ افراد نے بغض روافض میں اہل بیت کے فضائل میں موجود احادیث کا انکار کر دیا۔ اور آج یہی بغض روافض (جس کا میں بھی قائل ہوں مگر عدل و انصاف کے دائرہ میں) ان احادیث کے انکار کی وجہ بن رہا ہے جن احادیث کو، اپنی کتب میں، یہ گمراہ گروہ اپنے گمراہ عقائد کے حق میں پیش کر رہا ہے۔اور کچھ سنی بھائی اس پروپیگینڈہ سے پریشان ہو کر اپنے ہی دلائل پر تنقید کرنے بیٹھ گئے ہیں۔

بات سادہ ہے، سمجھنے کی کوشش کریں۔ جزاک اللہ۔
 
Top