• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

روایت، تحقیق اور اصول محدثین

شمولیت
جون 01، 2017
پیغامات
61
ری ایکشن اسکور
9
پوائنٹ
20
روایت، تحقیق اور اصول محدثین

ابوالوفا محمد حماد اثری
فرمایا :
'' مذہبی لوگوں میں روایت پسندی کا جنون اور تحقیق کا فقدان ہوتا ہے ۔''
عرض کیا :
صاحب ! روایت سے ہٹ کو کوئی راہ آپ بتا دیجئے، جس سے مذہب کی تحقیق ممکن ہو سکے، ہم اس کو اپنا لیں گے۔
ہم نے نبی کریمﷺ کے اسوہ پر عمل کرنا ہے، آپ کا اسوہ ہمیں کیسے معلوم ہوگا؟ روایت کے علاوہ کوئی راہ ہے تو سمجھا دیجئے، تاکہ ہم اس کے مطابق تحقیق کر سکیں، رہی روایت کی تحقیق تو اس کا ہر معقول طریقہ محدثین نے اہنایا ہے، اور آج بھی اپنایا جاتا ہے۔
یاد رہے کہ
مذہب کا تعلق ایک نبی سے ہوتا ہے، اور انبیاء کا تعلق تاریخ سے ہے، اس لئے اہل مذہب تاریخ اور راوی ہی پر بحث کریں گے، کہ نبی کی تعلیمات اس کے بغیر ہم تک پہنچنا ناممکن ہے۔
ایک مثال سمجھیں ! میرے پردادا نےخاندان کا نظم مرتب کیا تھا، اب ہمیں اس نظم کے مطابق چلنا ہے، خاندان کے رسوم و رواج، رشتہ داریاں، تجارت ومعیشت، وغیرہ کیا ہیں، ان کو فالو کرنا ہے، لیکن بدقسمتی سے ہمیں کسی نے بتایا ہی نہیں، یعنی میرے باپ کو داد نے بتایا تھا، مگر ہم نے ابا جان سے یہ بات سننے سے انکار کردیا کہ ابا جی یہ تو ایک روایت ہے،ہم اس کو نہیں مان سکتے، ہمیں تو تحقیق کرنی ہے۔
بعض روایت پرستوں نے کہا بھی کہ آپ کے ابا جو اصول و ضوابط آپ کے خاندان کے بتا رہے ہیں، وہ صحیح ہیں، لیکن ہمیں تو تحقیق کرنی تھی، سو ہم نے ابا جان کی روایت کو ٹھکرا دیا، اب کوئی ہمیں بتائے گا کہ روایت کے بغیر خاندان کے اصول وضوابط کیسے معلوم ہوں گے؟

میرے عزیز! جب کسی تحقیق کا تعلق ماضی سے ہو تو ماضی کی روایتوں اور ماضی کے ماحول کے مطابق اسے حل کیا جائے گا، مثلا :
نبی کریمﷺ نے نماز کا طریقہ بیان کیا ہے۔
اب اس کی تحقیق لیبارٹری میں نہیں ہوگی، نہ ہی کسی تجربہ گاہ میں۔
بلکہ اس کی تحقیق ماضی میں جاکر کی جائے گی، یعنی صحابہ سے پوچھا جائے گا، وہ بیان کریں گے، صحابہ سے لوگ روایت کریں گے، تو بات ہم تک پہنچے گی۔
ہا پھر وہ لوگ کوئی تحریری یادداشت چھوڑیں گے، یہ دو طریقے ہیں، اس بات کے ہم تک پہنچنے کے۔اسوہ نبوت ان دونوں صورتوں میں ہم تک پہنچا ہے۔
(1)تحریر
حدیث کی تحریری یادداشتیں دور صحابہ سے موجود ہیں، ایک تحقیق کے مطابق اکیاون 51 صحابہ نے حدیث کے مجموعے لکھے تھے۔(نوٹ : اس پر کمی بیشی ہوسکتی ہے، یہ کوئی حتمی تحقیق نہیں)
پھر تابعین میں بھی یہ رواج رہا، معمر بن راشد، سفیان ثوری،ہمام بن منبہ، اسی طرح اور بہت سے تابعین نے لکھے۔ڈاکٹر مصطفی اعظمی نے مشہور مستشرق، اے جے آربری کی زیر نگرانی پی ایچ ڈی کامقالہ
Studies In Early Hadith Literature
کے نام سے لکھا، اس میں انہوں نے تابعین کے ڈیڑھ سو حدیثی مجموعوں کا ثبوت فراہم کیا ہے ۔
تبع تابعین اور بعد کے ادوار میں توانبار لگ جاتا ہے، تحریری نوشتوں کا، مسند احمد بن حنبل، مصنف عبدالرزاق، بخاری، مسلم، ابن ماجہ، نسائی، سنن ترمذی، مستدرک حاکم وغیرہ ۔
یہ بھی یاد رہے کہ بعد میں تیسری صدی یا چوتھی میں لکھی جانے والی کتب کا اکثر و بیشتر حصہ صحابہ وتابعین اور تبع تابعین کے مجموعہ ہائے حدیث میں بھی موجود ہے۔جس پر مفصل بحث کسی دوسری مجلس میں کی جائے گی ۔ان شاء اللہ!
انہیں ادوار میں وہ کتابیں بھی ملتی ہیں، جو فقہ پر لکھی گئیں، ان میں بھی یہ احادیث بیان ہوئی ہیں ۔
(2) روایت
صحابہ نے احادیث مصطفویہ کو صرف کاغذ پہ منتقل نہیں کیا، بلکہ سینوں میں بھی محفوظ کیا، ان سے ان کے شاگردوں نے، پھر ان کے شاگردوں نے ان سے، اس طرح یہ سلسلہ چلتا رہا، صرف کتابت میں حدیث کے ضائع ہوجانے یا رد و بدل کا خطرہ تھا ، اس لئے حدیث کو یاد بھی کیا گیا، پھر زندگی میں اس پر عمل بھی کیا گیا، یوں یہ حدیث محفوظ ہاتھوں سے ہم تک پہنچی۔
لیکن ایک سوال باقی رہ جاتاہے، آیا وہ لوگ جنہوں نے یہ احادیث بیان کیں، وہ معتبر بھی تھے؟

تو جواب یہ ہے کہ بعض معتبر تھے، بعض معتبر نہیں تھے، وہ ہمیں ان کے دور کے مجموعی رویوں اور ثقہ اہل فن نے بتادیا کہ فلاں صاحب جو روایت کرتے ہیں، وہ اس میں معتبر نہیں، لہذا ان کی بات چھوڑ دیجئے، سو ہم نے چھوڑ دی اور فلاں صاحب معتبر ہیں، سو ہم نے ان کی بات تسلیم کر لی۔
صرف اس کی امانت پہ بس نہیں، بلکہ دوسری شرائط بھی عائد کی گئیں، یعنی حدیث بیان کرنے والے کا حافظہ، اس کی دیانت، حدیث میں اس کی مہارت، اس میں اور روایت میں تاریخ کا فاصلہ، انقطاع، بیان کرنے والا اور جس سے بیان کیا جارہاہے ان میں ملاقات کا امکان، یہ سب چیزیں زیر بحث لائی گئیں، پھر کسی روایت بارے ہم نے فیصلہ کردیا، کہ یہ واقعی صحیح ہے اور یہ صحیح نہیں ہے۔
ہماری معلومات کی حد تک کسی سائنس دان، کسی تاریخ کے محقق اور کسی صاحب فہم نے اصول محدثین سے ہٹ کر تحقیق کا کوئی طریقہ نہیں بتایا، جو عقلی اصولوں پہ پورا اتر سکے۔
اگر کوئی صاحب اصول محدثین میں کسی نئے اصول کا اضافہ کر سکتے ہیں، تو آئیں ، اپنا اصول پیش کریں، اسے ناقدین کی بھٹی سے گزاریں، اس کے بعد اگر وہ معقول ہوا تو بلا چوں چراں مان لیں گے۔

آئیے میدان کھلا ہے۔​
 
Last edited by a moderator:
Top